پروفیسر اسلم جمشید پوری
شارب ردولوی بحیثیت فکشن ناقد
اردو تحقیق و تنقید کے سلسلے میں جب بیسویں صدی اور موجودہ صدی کے چند اہم ناموں کا شمار کیا جاتا ہے تو ان میں شارب ردولوی کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔شارب ردولوی نے اپنے تحقیقی وتنقید ی رویوں اور نظریوں سے اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کتاب ’’جدید اردو تنقید: اصول و نظریات‘‘ سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔یوں تو ان کی متعدد کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔جن میں’’ معاصر اردو تنقید: مسائل و میلانات‘‘، ’’انتخاب غزلیات سودامع مقدمہ‘‘، ’’اردو مرثیہ آزادی کے بعد ‘‘،’’دہلی میں اردو تنقید‘‘ ،’’تنقیدی مطالعے‘‘،’’مطالعہ ولی‘‘،’’ مرثیۂ ا نیس میں ڈرامائی عناصر ‘‘وغیرہ کا فی مقبول ہیں۔ بعض کتابوں کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں سب سے مقبول کتاب ’’جدید اردو تنقید:اصول و نظریات ‘‘(جس، کے تقریباً 10 ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں)ہے ۔جو ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے انہوں نے معروف نقاد پروفیسر سید احتشام حسین کے زیر نگرانی مکمل کیا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1967ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب 1970ء کے بعد سے جدید تحقیق و تنقید کے حوالے سے کام کرنے والے محققین و ناقدین کے لئے تحقیقی سرچشمہ بنی ہوئی ہے۔ ہندو پاک میں تنقید پر کام کرنے والے طلباء کے لئے یہ ایک بے حد اہم کتاب ہے۔اس کتاب میں پروفیسر شارب ردولوی نے ادب کیا ہے ،ادب کے معیار ،مغربی نظریات ،تحریکیں، ادب برائے ادب ،ترقی پسند تحریک ،کلاسیکی،نوکلاسیکی تحریک ، رومانی تحریک،تصوف ،شاولی اللہ اور وہابی تحریک ،بھگتی تحریک ،علی گڑھ تحریک ،رومانی و نفسیاتی تنقید ،ادب کی نفسیات ،جمالیاتی و تاثراتی تنقید ،تاریخی، مارکسی وسائنٹی فک تنقید، تحقیق و تنقید، تشریحی تنقید ،تقابلی تنقید ،تجزیاتی تنقید، مختلف اسالیب نقد، ادبی تنقید کے اصول کے ساتھ ساتھ جدید اور نئی تنقید کے بالکل نئے موضوعات مثلاً تنقید کے چند نئے رجحانات، نو تنقید (جدید تنقید)شکاگو تنقید، اسلوبیات ، ساختیات، ردِ تعبیر، وغیرہ کو بہت عمدگی سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ہی نہیں انہوں نے ابتداء سے لے کر آزادی کے بعد تک کے اہم ملکی و غیر ملکی ناقدین و محققین کے کاموں پر بھی اچھی خاصی بحث کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’تنقید کے اس دبستان میں سب سے اہم نام امریکی نقاد اسپنگارن کا ہے جس نے تاثراتی تنقید کو ’’نئی تنقید ‘‘ یا تخلیقی تنقید کا نام دیا ہے ۔اس کا خیال ہے کہ ادب یا تنقید کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ سماجی یا اخلاقی اظہار یا تبلیغ کرے،کوئی فنی تخلیق اخلاقی یا غیر اخلاقی نہیں ہوتی ۔وہ صرف فن کا ایک نمونہ ہے اور اس کا مطالعہ اسی شکل میں کرنا چاہیے ۔کسی فنی تخلیق کے مطالعہ سے قاری کے ذہن میں کچھ تاثرات پیدا ہوتے ہیں ان تاثرات کا اظہار بھی ایک قسم کی تخلیق ہے ۔مگر قاری حساس ہے تو وہ ان تاثرات سے ایک نئی کتاب کی تخلیق کر سکتا ہے۔والڑپیٹر اور آسکر وائیلڈ بھی اسی دبستان کے علمبردار وں میں تھے اس قسم کی تنقید میں سب سے زیادہ اہمیت اسٹائل کی ہے‘‘
(جدید اردو تنقید اصول و نظریات ڈاکٹر شارب ردولوی ص، 91،اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ 1994)
شارب ردولوی کا شمار اردو کے جدید نقادوں میں ہوتا ہے ۔بحیثیت ناقد و محقق ان کی شناخت کافی مستحکم ہے۔ انہوں نے اپنے نظریہ نقد کو اپنے مختلف مضامین اور کتب میں پیش کیا ہے۔ فکشن کے تعلق سے بھی آپ نے بہت سے مضامین میں اپنی آرا ،اور نقد پیش کی ہے ۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ آپ کی فکشن تنقید پر علیحدہ سے کوئی مخصوص یا مسلسل کتاب شائع نہیں ہوئی ہے لیکن متعدد ناولوں اور ناول نگار، افسانہ نگاروں پر آپ کے مضامین فکشن تنقید کی بعض لکھنے والوں کی بڑی بڑی کتابوں پر بھی بھاری ہیں۔
فکشن تنقید میں کیا ہے، کیا ہونا چاہیے اور رومانی فکشن میں کون کون سی خصوصیات پائی جاتی ہیں ان سب کے تعلق سے پروفیسر شارب ردولوی لکھتے ہیں:
’’سجاد حیدر یلدرم ،نیاز فتحپوری، مجنوں گورکھپوری ،مہدی افادی، جنہوں نے اردو میں باقاعدہ رومانی تحریک کی بنیاد رکھی۔ان کے یہاں انفرادیت پسندی، آزادی، فطرت، حسن، عورت اور انسان سے محبت کے جذبے کی فراوانی ہے جو کہ رومانیت کی خصوصیت سمجھی گئی ہے۔ انہوں نے عقل سے زیادہ دل پر زور دیا ہے۔ جو کہ عورت اور حسن و عشق کا مرکز ہے۔‘‘
(جدید اردو تنقید اصول و نظریات ڈاکٹر شارب ردولوی ص، 175،اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ 1994)
درج بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شارب ردولوی فکشن خاص کر رومانی فکشن نگاروں میں جہاں رومانیت تلاش کرتے ہیں وہیں رومانیت کی تعریف بھی کرتے ہیں کہ عقل سے زیادہ دل پر زور دیا جاتا ہے۔ جو کہ عورت ، حسن اور عشق کا مرکز ہے۔
’’داستان امیر حمزہ میں تہذیبی افکار ‘‘
شارب ردولوی کا داستان کے حوالے سے ایک بڑا ہی مدلل اور تحقیق کی رو سے عمدہ مضمون ہے۔ جس میں شارب ردولوی نے تحقیق کے بعد یہ واضح کیا ہے کہ داستانِ امیر حمزہ کو دنیا کی سب سے بڑی داستان کہا گیا ہے۔جسے متعدد داستان گویوں نے اپنے اپنے طور پر پیش کیا ہے۔جس میں دکن سے لے کر شمال کے داستان گو شامل ہیں۔ اردو میں داستان امیر حمزہ کی قدیم ترین روایت جسے’’ داستان امیر حمزہ دکنی ‘‘کہا گیا ،جس کے چھ نسخے برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔قدیم ترین نسخہ 1701 ء کا ہے ۔صرف رامپور ہی میں تقریباً دو درجن داستان گویوں نے داستان امیر حمزہ اور طلسم حمزہ کی تحقیق کی ہے۔ان میں زیادہ تر داستان گو لکھنؤ سے رامپور آئے تھے۔
پروفیسر شارب ردولوی نے تحقیق کے بعد یہ بھی ثابت کیا ہے کہ لکھنؤ میںلکھی جانے والی داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا 29 جلدوں پرمشتمل ہے۔ جس کے لکھنے والے سید ندیم حسین، محمد حسین جان اور احمد حسین قمر لکھنوی ہیں۔یہ داستان ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔اسی لیے اسے دنیا کی سب سے بڑی داستان کہا جا ئے تو بیجا نہ ہوگا۔
داستانوں کے اپنے اوصاف ہوتے ہیں۔ان میں خیالی قصّوں کو اساس کی اہمیت حاصل ہے۔ اسی لیے بعض اوقات داستان گو اپنے فرضی اور خیالی قصّے گڑھ کر مہینوں اپنے سننے والوں کو باندھے رکھتا ہے۔وہ دیو ،جن ،پری، جادو، ٹونے جیسے ناقابل یقین کرداروں اور واقعات کو اپنی خیال آرائی اور تخیل کی بنیاد پر آگے بڑھاتا رہتا ہے۔یہ زمانہ داستان کے فروغ کا زمانہ ہی ہے۔جو 1857ء کا زمانہ ہے۔شارب ردولوی اس سلسلے میں بہت اہم بات سامنے لاتے ہیں۔ان کے مطابق مغلیہ سلطنت کا زوال ہی داستانوں کے فروغ کاسبب بنا۔یعنی جب روزگار یاذریعہ معاش ختم ہو جاتا ہے تو بے روزگاری دوسرے کاموں کی طرف مائل کر دیتی ہے۔پروفیسر شارب ردولوی داستان کے اس عہد کے تعلق سے یو ںرقم طراز ہیں:
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ جب جدوجہد اورعمل کی طاقت کم ہوجاتی ہے تو خیالی جدوجہد ،خیالی جنگ اور فتوحات تسکین کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔اور اسی میںاپنی فتح کا احساس ہوتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ سارا عہد عملی طور پر شکست خوردہ اور مریض نظر آئے گا۔افیم گھل رہی ہے،مدک چرس، اور سُلفے کا دور چل رہا ہے۔گل افشانی ٔگفتار کے لئے اگرشراب نہ ہو تو بغیر افیون کی چسکی کے زبان نہیں کھلتی۔شاہد بازی کا بازار گرم ہے،طوائفیں، ڈیرے دار، کنیزیں، سافنین، سرائے والیاں، میلے ٹھیلے ہوں یا بازار ہر جگہ دل جمعی کے لئے موجود ہیں۔‘‘
(تنقیدی عمل، پروفیسر شارب ردولوی، ص180-186مطبوعہ ایجوکیشنل پبلیکیشنز ہاؤس ،2017)
داستان امیر حمزہ کا لکھنؤ میں جو ترجمہ ہوا وہ اپنے اندر لکھنوی تہذیب اور زبان کی جھلکیاں رکھتا ہے۔اس میں تہذیب ،اسلوب اور منظر نگاری میں داستان کا عہد سانسیں لیتا ہوا نظر آتا ہے بلکہ اگر داستان امیر حمزہ کو اپنے عہد کی زندہ تصویر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
پروفیسر شارب ردولوی داستانِ امیر حمزہ کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’داستان امیر حمزہ خیروشر کی جنگ ہے ایک طرف نیکی ہے ایک طرف بدی ۔ یہ الگ بات ہے کہ سلاح جنگ دونوں کے پاس مافوق الفطرت ہیں۔کوئی جادو سے لڑتا ہے ،کوئی لوح سے اور پیغمبروں ،پیروں اور بزرگوں کی عنایت کردہ طاقتوں سے ۔پھر طلسم کا جواب بھی ان کے پاس عمرو اور ان کے ان گنت عیاروں کی عیاری میں موجود ہے۔ طلسم ہی کی تیزی سے وہ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں، اپنی شکل بدل کر اور دشمنوں کی شکل اختیار کرکے دشمن کو دھوکا ہی نہیں شکست بھی دے سکتے ہیں۔‘‘
(تنقیدی عمل، پروفیسر شارب ردولوی، ص181مطبوعہ ایجوکیشنل پبلیکیشنز ہاؤس ،2017)
داستان امیر حمزہ کے تعلق سے رؤف روفی نے لکھا ہے کہ’’اگر داستان امیر حمزہ میں سے ساحری اور عیاری نکال لیجئے تو باقی لکھنؤ کی معاشرت ہی بچے گی۔‘‘ شارب ردولوی صاحب کا خیال ہے کہ ساحری اور عیاری بھی دراصل اس معاشرت کا ایک حصہ ہے اور یہ سچ ہے کہ و ہ مبالغہ کی انتہا پر ہے لیکن غلو اس عہد کے مزاج میں شامل ہے۔
پروفیسر شارب ردولوی داستان امیر حمزہ کا ایک طویل اقتباس نقل کرتے ہیں۔اور یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں جو مواد ،کردار ،واقعات و معاملات درج ہیں ان میں بہت حدتک ہندوستانی یا عجمی تہذیب نمایاں ہے۔یہ بات اس اقتباس ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری داستان امیر حمزہ پرمنطبق ہوتی ہے۔آپ داستان کو کہیں سے بھی پڑھ لیجئے ۔کسی بھی کردار کو اٹھا لیجئے، کوئی واقعۂ دیکھ لیجئے، سب میں آپ کو ہندوستانی تہذیب کے اثرات خاص کراودھ کے علاقے کی وہ ہندو مسلم تہذیب ،ہندو مسلم کلچر جو مشترکہ تہذیب کی اساس مانا جاتا ہے، جگہ جگہ دکھائی دیتاہے۔پروفیسر شارب ردولوی داستان کے اس وصف کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’اس میں جو منظر کشی اور انسانی عمل اور احساس کی خوبصورت تصویر پیش کی گئی ہے وہ اپنا جواب نہیں رکھتی۔زبان کی سلاست اور اودھ کی بامحاورہ زبان پیر سے حلِ مشکل کے لئے دعا۔سمرن پہننا، ازار بند میںکنجی باندھنا ، پائچوں کا ہاتھ سے چھوٹ کر پاؤں پر آجانا، کنٹھی پہننا ،گھنٹوں اور ناقوس کا بجنے لگنا، سو بکریاں اور موہن بھوگ وغیرہ نذر کرنے اودھ سے ہندومسلم کلچر کے امتزاج کی خوبصورت تصویر ہے۔‘‘
(تنقیدی عمل، پروفیسر شارب ردولوی، ص183مطبوعہ ایجوکیشنل پبلیکیشنز ہاؤس ،2017)
پروفیسر شارب ردولوی نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ داستان کا ہر پہلو سے مطالعہ کیاہے۔ وہ داستان کے مختلف واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ داستان امیر حمزہ کے بیشتر حصے خصوصاً جنگ اور حملوں کے اقتباسات میں اودھ کی تہذ یب مترشح ہے ۔ اور بعض کردار جو کہ عربی ہیں لیکن ان کی تہذیب و معاشرت ہندوستانی دکھائی گئی ہے ۔ یہ بات جہاں دوسرے ناقدین کی نظر میں داستان کا کمزور پہلو اور نقص ہے، پروفیسر شارب ردولوی اسے داستان کی طاقت مانتے ہیں۔انہوں نے اپنے مضمون میں متعدد مقامات پر داستان کے مختلف اقتباسات نقل کئے ہیں اور اپنی تحقیقی اور تنقیدی نظر سے کام لیتے ہوئے داستان امیر حمزہ کا بڑا ہی متوازن مطالعہ پیش کیا ہے۔یہ ایک اچھے فکشن ناقد کی پہچان ہے۔مضمون کے آخری جملے ملاحظہ ہوں جو انہوں نے امیر حمزہ کی سواری کے تعلق سے ایک اقتباس کی وضاحت میں تحریر کئے ہیں:
’’یہ لشکر کیا ہے، درباری آداب سے آراستہ لکھنؤ کا جلوسِ شاہی ہے ۔جس میں اس عہد کے درباری لوازمات میں ایک ایک چیز موجود ہے۔ یہاں پر اس بحث کی گنجائش نہیں کہ داستان امیر حمزہ کا محلِ وقوع کیاہے۔ یہ لوگ کون ہیں، جنگ کن سے ہے لیکن ایک با ت واضح ہے کہ ان سب کے طور طریقے، رہن سہن عادات واطوار سب لکھنؤ اوراودھ کے ہیں۔یہ داستان اور ان کے کردار عربی وعجمی ہیں لیکن ان کی تہذیب ومعاشرت ہندوستانی ہے۔ جو اس داستان کی کمزووری نہیں طاقت ہے۔‘‘
(تنقیدی عمل، پروفیسر شارب ردولوی، ص188مطبوعہ ایجوکیشنل پبلیکیشنز ہاؤس ،2017)
چودھری محمد علی ردولوی کی افسانہ نگاری
اردو افسانہ اپنے ابتدائی دور میں دنیا کی مختلف زبانوں کے افسانوں اور قصوں کے ترجمے ،داستانوںکے اثرات، مافوق الفطرت عناصر وغیرہ سے پُر تھا۔یہ بات بھی مصدقہ ہے کہ علامہ راشد الخیری کے افسانے نصیراور خدیجہ (1903ء) کو اردو کا اولین افسانہ قرار دیا جاتا ہے۔جب کے اردو کے اولین افسانے کے سلسلے میں راشد الخیری کے ساتھ ساتھ سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش، شاد عظیم آبادی ،پریم چند اور چودھری محمد علی ردولوی کے افسانوں کو بھی اس زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔بعض ناقدین پریم چند کو اردو کا پہلا باقاعدہ افسانہ نگار مانتے ہیں۔پریم چند کی پیدائش 1980ء میں ہوئی ہے اور چودھری محمد علی ردولوی کی پیدائش بھی 1980ء کی ہے لیکن بہت سی تحقیقی کاوشوں کے باوجود چودھری محمد علی ردولوی کی پہلی تخلیق 1910ء سے پہلے نہیں ملتی۔پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے مضمون ہٰذا میں پریم چند اور چودھری محمد علی ردولوی کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ان کی تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چودھری محمد علی اس زمانے میں بھی اچھے افسانے لکھ رہے تھے۔جب اردو افسانہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’جس وقت اردو افسانہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور چلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور اس چلنے میں کہیں اس کے جسم کا وزن ایک طرف ہوجاتا اورکبھی دوسری طرف ،اور اس طرح وہ ڈگمگا ڈگمگا کر قدم بڑھانے کی ہمت کر رہا تھا۔ اس وقت چودھری محمد علی کے افسانے کہانی کی خوبصورت بُنت اور قصہ گوئی کے پورے فن کے ساتھ سامنے آرہے تھے۔‘‘
چودھری محمد علی ردولوی کا شمار پریم چند کے معاصرین ہی میں ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنی رودلوی کی تعلق داری کی مصروفیت کی وجہ سے افسانہ نگاری پر زیادہ توجہ نہیں دے پائے اور اس میدان میں پیچھے رہ گئے جبکہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس جس کی صدارت پریم چند نے کی تھی، میںخطبۂ استقبالیہ خود چودھری محمد علی ردولوی نے پیش کیا تھا۔ چودھری محمد علی کی کاروباری مصروفیات کے تعلق سے ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے واضح طور پرلکھا ہے :
’’انہیں ردولوی کی تعلق داری نے مار رکھا تھا۔‘‘’’ماضی میں محمد علی ردولوی محض اس لئے ناکام ہو گئے تھے کہ پریم چند کے طریقہ کار کو رد کرتے تھے۔‘‘
پروفیسر شارب ردولوی مرزا حامد بیگ کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ پریم چند گاؤں کے مسائل اور سماجی حقیقت نگاری میں براہ رست Involve تھے ۔دوسری طرف چودھری محمد علی قصبات کے مسائل ،تہذیب اور انسانی نفسیات کو افسانے میں ڈھال رہے تھے۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ پریم چند کے افسانوں کا کینوس کافی بڑا تھا لیکن چودھری محمد علی کے افسانے بھی اپنی الگ اہمیت رکھتے ہیں۔چودھری محمد علی کا پہلا افسانہ ’’گناہ کا خوف ‘‘ ہے جو اردو کے ابتدائی افسانوں میں منفرد و مختلف ہے۔ اس میں کاروباری، جاگیردارانہ اور تعلق داری کے معاملات و واقعات اور مقدمات ہیں۔اس کا مرکزی کردار عبدالمغنی ہے جو شکست خوردہ جاگیردارانہ نظام کا نمائندہ کردار ہے۔ چودھری محمد علی کے یوں تو متعدد افسانے مقبول ہیں جن میں ’آنکھوں کی سوئیاں‘، ’میٹھے بول ‘ اور تیسری جنس شامل ہیں۔ امیری کی بو اور تیسری جنس ان کے بے مثل افسانے ہیں۔امیری کی بو کے تعلق سے پروفیسرشارب ردولوی لکھتے ہیں:
’’امیری کی بو اس مٹتی ہوئی تہذیب کی اعلی قدروں کی تصویر ہے ۔سبک رفتار، دلکش رسم آمیز ہر حالت میں خوش یا راضی بہ مرضی خدا۔اس کہانی میں امراء ورؤسا کے خاندانوں اور قصبات و شہر کی سماجیات ہے۔ کہ کس طرح قصبات میں پرورش پانے والی تہذیبی اقدار شہر آکر کچھ عرصے میں وہاں کی کاروباریت کا حصہ بن جاتی ہیں۔اس طرح وہ تہذیب جو قصبات میں پرورش پائی تھی وہ رفتہ رفتہ قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے۔‘‘
پروفیسر شارب ردولوی نے محمد علی کی افسانہ نگاری کے تعلق سے مناسب طور پر لکھا ہے کہ اس کی رفتار قدر متبادل اور قصبات وشہر کی سماجیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ’’تیسری جنس‘‘ اور ’’امیری کی بو‘‘ یہ دونوں افسانے اس زمانے میں قلم بند ہوئے جب ہمارے یہاں جنسی موضوع پر افسانے لکھنے کا رواج عام نہیں تھا۔چودھری محمد علی نے جنس کو موضوع تو بنایا لیکن اپنی تہذیبی اقدار اور رشگفتہ مزاجی پر کہیں اورکبھی حرف نہ آنے دیا۔ ان کے افسانوں میں(گناہ کا خوف)جنسیت فحاشی کی حد تک آگے نہیں جاتی جبکہ ان کے بعد منٹو اور عصمت چغتائی کے بعض افسانوں میں جنسیت میں کھلا پن اور فحاشی در آئی ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی نے عصمت کے لحاف کا تقابل چودھری محمد علی کے افسانہ ’’گناہ کا خوف‘‘ سے کیا ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ عصمت چغتائی کے یہاں لحاف میں زیادہ کھلا پن در آیا ہے جو فحاشی کی حد تک چلا گیا ہے۔
’ایک قطرۂ خون‘‘
’ایک قطرۂ خون‘‘پروفیسر شارب ردولوی نے عصمت چغتائی کے شہرۂ آفاق ناول ’’ایک قطرۂ خون ‘‘ کا بہترین تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔دراصل عصمت چغتائی پورے اردو فکشن میں اپنے اسلوب کے لئے جانی جاتی ہیں۔ان کے افسانوں اور ناولوں میں متوسط طبقہ کے کردار خصوصاً فصیل بند شہروں کے افراد ملتے ہیں جن کی بولی الگ قسم کی ہوتی ہے۔ جسے ہم کہیں بیگماتی زبان اور کہیں کار خنداری زبان کہتے ہیں۔ عصمت چغتائی کو اس زبان اور اس کی باریکیوں پر خاصا عبور حاصل ہے۔ ان کے بیشتر افسانے اور ناول اس زبان سے آراستہ نظر آتے ہیں اور یہی ان کے اسلوب کی اصل شناخت ہے، جو انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔
ناول’’ایک قطرۂ خون‘‘ ان کا اپنے زمانے کا لیک سے ہٹ کر لکھا گیا ناول ہے۔ یہ ناول خود ان کے مخصوص اسلوب اور انداز سے بھی الگ ہے۔اس ناول میں انہوں نے تجربہ کیا ہے ۔انہوں نے میر انیس ؔکے مرثیوں سے روشنی لے کر ناول کی شکل میںڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے کردار جہاں اچھائیاں رکھتے ہیں وہیں ان کے اندر منفی پہلو بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی کردار کی تکمیل کرتے ہیں۔خود شارب ردولوی ان کے کرداروں کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’وہ اپنے کرداروں کے ذریعہ زندگی کی برائیوں کو نکال پھینکیں اور اسے حسن رعنایٔ ،خوشی اور سکون کا مجسمہ بنا دیں ۔ان کے رومانی کردار بھی عشق محض کے بجائے کسی نہ کسی پہلو سے سماج کی تعمیر کا حصہ بن کر سامنے آتے ہیں۔وہ اپنے احاطہ عمل میں اپنی چھوٹی سی دنیا میں اپنے گھر کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور غموں میں ایک مثبت کردار کی تصویر بن کرآتے ہیں اور زندگی کے لازوال حسن کا پر تو پڑھنے والے کے ذہن پر چھوڑ جاتے ہیں۔‘‘
(تنقیدی مطالعے، پروفیسر شارب ردولوی، ص 220 ،نصرت پبلیشر ز لکھنؤ 1984ء)
ان کے کرداروں کا مطالعہ اگر ’’ایک قطرۂ خون‘‘ کی روشنی اور واقعہ کربلا کے پس منظر میں کیا جائے تو بالکل برعکس بات سامنے آتی ہے۔ عصمت چغتائی نے دنیا کی سب سے بڑی جنگ جو حق کی خاطر لڑی گئی، جسے پوری دنیا واقعۂ کربلا کے نام سے جانتی ہے، کو ناول کرنے کی کوشش کی ہے۔ انیسؔ کے مرثیوں میں جو واقعات منظوم بیان ہوئے ہیں۔عصمت چغتائی نے ان واقعات کو تفصیلی طور پر ناول میںبیان کیا ہے۔ انیسؔ کے مرثیے میں بھی بیانیہ شاعری ملتی ہے۔جس میں قصہ پن بھی ہوتا ہے اور بعض مقامات پر ڈرامائیت بھی ہوتی ہے۔
’’ایک قطرۂ خون‘‘ ستائس ابواب پر مبنی عصمت چغتائی کا تحریر کردہ ایسا ناول ہے جو واقعۂ کربلا کو از سے ابتدا تا انتہا پیش کرتا ہے ۔ ابتدائی ابواب میں امام حسن اور حسین کے بچپن کے واقعات ،رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی والدہ فاطمہ زہرا کی محبت کو بھی بیان تفصیل سے کیا ہے۔ دسویں باب کے بعد واقعۂ کربلا کے اسباب ،واقعۂ کربلا اور بعد میں اہل بیت کی اسیری اوردربدری کا بیان ہے۔ شارب ردولوی ناول کے اس حصّہ پر یوں رقم طراز ہیں:
’’مذہبی کرداروں کے باوجود قصہ پن کو باقی رکھنا واقعات اور مقامات کے ذریعے ایسے مواقع پیدا کرتا ہے کہ شدت جذبات سے آنکھیں نم ہو جائیں ۔ان کے کرداروں کی عظمت کو کہانی کے باوجود اسی مقام پر رکھنا جہاں عقیدت مند آنکھیں انہیں دیکھنا چاہتی ہیں اور ان سب کے باوجوارضی کرداروں کی طرح پیش کرنا، شوہر اور بیوی کے جذبات، باپ اور بیٹی کی محبت ،بہن اور بھائی کی الفت ،چھوٹے بڑے کا پاس، عورتوں اور بچوں کی جذبات نگاری یہ ایسے مشکل مواقع تھے کہ ناول یا افسانے میں اس تاریخی پس منظر اور مذہبی احترام کے ساتھ عہدہ برا ہونا آسان نہیں تھالیکن عصمت چغتائی نے کامیابی کے ساتھ ان ساری باتوں کو پیش کیا ہے۔انہوں نے ان سارے واقعات کو ناول کی شکل دینے کے لیے نہ صرف یہ کہ بہت پڑھا ہے اور سوچا ہے بلکہ بڑی محنت کی ہے۔‘‘
(تنقیدی مطالعے، پروفیسر شارب ردولوی، ص225-226نصرت پبلیشر ز لکھنؤ 1984ء)
درج بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شارب ردولوی نے عصمت چغتائی کے ناول کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے ۔ اور ان کی نظر ناول کے بعض باریک سے باریک پہلو پر بھی ہے۔ کیونکہ تاریخی پس منظر خصوصاًمذہبی پس منظر کے ساتھ واقعات کا ناول میں بیان کوئی آسان کام نہیں ہے۔یہ ہی بات شارب ردولوی نے اپنے درج بالا اقتباس میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ شارب ردولوی نے ناول کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے بعض حقائق کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔اور جہاں انہیں ناول یاکرداروں میں جھول نظر آیا اس کا بھی انہوں نے برملا اظہار اپنی تنقید میں کیا ہے۔ مثلاً
’’پورا ناول پڑھنے کے بعد کردار نگاری کی حیثیت سے نہ تو امام حسین کی فوج کا کوئی کردار اور نہ فوج مخالف کا کوئی کردار اس طرح کا اثر چھوڑتا ہے جس طرح کا اثر انیسؔ کے مرثیوں کو پڑھ کر مرتب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ واقعات کے اعتبار سے بھی بعض جگہیں قابل غور ہیں مثلاً صفحہ 162 پر لکھا ہیـ:’’محرم کی چوتھی تاریخ سے پانی پر پابندی ہو گئی۔‘‘لیکن۷؍محرم تک کسی نہ کسی طرح پانی ملتا رہا جبکہ روایات یہ بتاتی ہیں کہ۷؍ محرم سے پانی پر پابندی عائد ہوئی۔‘‘
(تنقیدی مطالعے، پروفیسر شارب ردولوی، ص228نصرت پبلیشر ز لکھنؤ 1984ء)
پروفیسر شارب ردولوی نے ناول’’ایک قطرۂ خون‘‘ میں پائی جانے والی بعض تسامحات اور اغلاط کی جانب اشارے کئے ہیں یہ جہاں شارب ردولوی کی غیر جانب دارانہ فکشن ناقد ہونے کابین ثبوت ہے وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ عصمت چغتائی نے ناول کے بیان میں بعض تحقیقی امور کی طرف توجہ نہیںکی۔ ان سب باتوں سے الگ مجموعی طور پر ہم ایک قطرۂ خون کو اچھا ناول مانتے ہیں ۔جس میں حضرت امام حسین کی حق کی خاطر قربانی کا ذکر تخلیقی پیرائے میں ملتا ہے۔ یہ بات پروفیسر شارب ردولوی بھی تسلیم کرتے ہیں۔پروفیسر شارب ردولوی نے ناول کے اس پہلو کی جانب بھی اشارے کئے ہیں جن سے انسانی حقوق کی حفاظت اور ظلم و جبر کے شکار لوگوں کی خواہش ِانقلاب بھی عیاں ہوتی ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی اپنے مضمون کا اختتام ان جملوں پر کرتے ہیں:
’’اس لیے کہ وہ جاہ و منصب اور سلطنت کی ہوس نہیں رکھتے تھے۔بلکہ ان انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے انقلاب چاہتے تھے جو ظلم و جبر کا شکار تھے جن کے خدا کے دیے ہوئے حقوق حاکموں نے غصب کر رکھے تھے،ایک قطرۂ خون، فنی اعتبار سے ناول نہ ہوتے ہوئے بھی اس واقعۂ عظیم کی بیحد کامیاب اور بیحد پر اثر کہانی ہے۔‘‘
(تنقیدی مطالعے، پروفیسر شارب ردولوی، ص231نصرت پبلیشر ز لکھنؤ 1984ء)
پروفیسر شارب ردولوی نے ایک فکشن ناقد کے طور پر عصمت چغتائی کے ناول ’’ایک قطرۂ خون‘‘ کا بڑا اچھا جائزہ پیش کیا ہے۔اس جائزے میں انہوں نے عصمت چغتائی کے اسلوب ،موضوع کے انتخاب ،حقائق کو ناول میں ڈھالنا اور بعض اغلاط کی جانب جو اشارے کئے ہیں وہ ان کی اچھی تنقید کی غمازی کرتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی : ایک اہم افسانہ نگار
احمد ندیم قاسمی کا شمار پریم چند اور سجاد حیدر دیلدرم کی افسانہ نگارٹیموں کے بعد ابھرنے والے نئے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔جس میں سعادت حسن منٹو ،عصمت چغتائی، کرشن چندر، بیدی وغیرہ شامل ہیں۔ درج بالاہر افسانہ نگار اپنے عہد کا منفرد افسانہ نگار تھا اوراپنی کسی نہ کسی خوبی کی بنا پر یکتائے روزگار بھی تھا۔ان کے درمیان اپنی افسانہ نگاری کو نہ صرف تسلیم کروانا بلکہ اپنی انفرادیت ثابت کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا جسے احمد ندیم قاسمی نے پورا کیا۔
احمد ندیم قاسمی نے بحیثیت افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ بحیثیت شاعر بھی اپنی شناخت مستحکم کی بلکہ یہ کہا جا ئے تو غلط نہ ہوگا کہ احمد ندیم قاسمی اردو کے پہلے ایسے افسانہ نگار ہیں جنہیں اپنی شاعری پر بھی مکمل عبور حاصل تھا اور ان کی شہرت دونوں میدانوں میں یکساں تھی۔
احمدندیم قاسمی نے بطور افسانہ نگار تقریباً 70-75 سال کا طوریل عرصہ گزارا۔ اس دوران انہوں نے بہت سارے افسانے لکھے۔ اور ان کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔
پروفیسر شارب ردولوی اپنے مضمون میں احمد ندیم قاسمی کی میدانِ افسانہ میں اہمیت کو واضح کرتے ہیں اور ان کا انفراد ثابت کرتے ہیں۔بلکہ وہ اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ جب وہ طالب علم تھے تب سے احمد ندیم قاسمی کو پسند کیا کرتے تھے۔
’’میں نے احمد ندیم قاسمی کے افسانے اور ان کی نظمیں ،رباعیات اور غزلیں بہت دلچسپی سے اس وقت پڑھی ہیں جب میں طالب علم تھا ۔اور کہانی و شاعری میں الفاظ کے در وبست اور قصے کے رموز تک رسائی نہیں تھی اس وقت بھی احمد ندیم قاسمی مجھے پسند تھے اور جب میں نے قصے کے ساتھ فن اور اس کے خالق پر غور کرنا سیکھا تو اس وقت بھی وہ میرے پسندیدہ ادیبوں میں تھے۔اس کی ایک خاص وجہ میرے ذہن میں آتی ہے کہ ان کے فن کا ارتقاء بہت سلجھے ہوئے اور مرتب (Systematic) انداز میں ہوا ہے ۔ وہ کہیں بھی تصورات کی دنیا میں نہیں بھٹکے جو ان کے یہاں الجھاوے پیدا کرتی ،دوسرے انہوں نے عام زندگی سے موضوعات لئے جنہیں پڑھ کر ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے کہ یہ اپنے اردگرد کا قصّہ تھا۔‘‘
پریم چند نے اپنے افسانوں کے ذریعہ دبے کچلے لوگوں ،کسانوں ،مزدوروں اور دیہات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ یہ اردو افسانے میں نئی شروعات تھی ۔پریم چند کو اپنے عہد کا بڑا حقیقت نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی تسلیم شدہ ہے کہ پریم چند دیہات کے موضوع کو افسانے میں استعمال کرنے والے پہلے بڑے افسانہ نگار ہیں۔پریم چند کے معاصرین میںسدرشن اور علی عباس حسینی نے دیہات کی اس روایت کو اچھا خاصا آگے بڑھایا ۔ساتھ ہی سہیل عظیم آبادی اور کسی حد تک حیات اللہ انصاری نے پریم چند کی روایت کو توانائی بخشی۔اسی کڑی میں احمد ندیم قاسمی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ جنہوں نے اپنے بیشتر افسانوں میں دیہات کو موضوع سخن بنایا ہے ۔ یہ ہی نہیں احمد ندیم قاسمی نے پریم چند سے آگے بڑھتے ہوئے دیہات کو کچھ اس طور پر پیش کیا کہ گاؤں کے کرداروں کی ذہنی کشمکش اور انسانی نفسیات کی بہترین عکاسی کی ۔ 1936ء خصوصاً اردو ادب کے لئے خاصا تبدیلی کا زمانہ رہا ہے۔ترقی پسند تحریک کی شروعات نے بیشتر افسانہ نگاروں کو ایسے موضوعات پر لکھنے اور قلم اُٹھانے کے لئے انگیز کیا جس میں مزدوروں ،کسانوں ،دبے کچلے افراد ، پسماندہ طبقات وغیرہ کو حاشیہ سے اُٹھاکر مین اسٹریم میں لانے کی بات کی گئی ۔احمد ندیم قاسمی نے اپنے عہد میں ترقی پسند نظریہ کی نہ تو حمایت کی اور نہ مخالفت، وہ اپنے طور پر اپنے منتخب کردہ مضامین کو افسانوں میں قلم بند کرتے رہے۔دیہات ہو یا شہرا نہوں نے انسانی مسائل ،جنگ کی تباہ کاریاں، اور مفلوک الحالی کو عمدگی سے اپنے افسانوں میں پیش کیا ۔ پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے مضمون میں احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا بہترین جائزہ لیا ہے ۔وہ ان کے ترقی پسند ہونے پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ساتھ ہی احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے موضوعات کا بھی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
’’احمد ندیم قاسمی کے افسانے فنی اعتبار سے اپنے عہد کے اہم افسانوں میں شمار ہونگے انہوں نے فن کے ساتھ پور اخلوص برتا ہے وہ کبھی ایسے موضوع کو نہیں منتخب کرتے جس کے بارے میں ان کو معلومات کم یا براہ راست نہ ہو۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد بکھرے ہوئی کہانیوں کو اپنا موضوع بناتے ہیںتاکہ ماحول کی ہم آہنگی نہ ختم ہونے پائے۔وہ ایک بہت چھوٹے سے پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوئے خود داری اور بہادری وہاں کی زندگی کا حصّہ تھی۔ وہاں کے لوگ مشہور اور باوقار تھے۔ اور یہ ساری باتیں احمد ندیم قاسمی کو وراثت میں ملیں ۔زندگی کے نشیب و فراز نے جلد ہی ان سے وہ پرسکون زندگی چھین کر انہیں در در بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا۔ اس کو چہ گردی میں حصول علم اور تلاش معاش کے سلسلے میں انہیں زندگی کے بیشتر قیمتی تجربات حاصل کرنے کے مواقع ملے۔عزیروں کی ریاکاری ،احباب کی خود غرضی کے ساتھ بھی شہروں میں بڑے لوگوں کی تعیش پسندی اور زبانی قومی ہمدردی ،گاؤں کی زبوں حالی ،کاشتکاروں کی مظلومی کو خودانہوں نے دیکھا۔ جس نے ان کی کہانیوں کے لئے سینکڑوں موضوعات جمع کئے۔ان کے اس ذاتی تجربے کی وجہ سے ان کی کہانیوں میں صرف تخیل کی اختراع کی ہوئی بے جان کہانیاں گاؤں اور کسانوں کے سنے سنائے قصے، پنگھٹ پر گاگروں کے ساتھ کھیلنے والے اچھوتے قہقہوں کی فرضی داستان نہیں ہے بلکہ حقیقی تصویر ہے ، جو زندہ اور چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔‘‘
پروفیسر شارب ردولوی نے احمد ندیم قاسمی کے بعض ایسے افسانوں کی طرف اشارے کئے ہیں جو بہت اہم ہیں۔ دراصل انہوں نے اپنی تحریر میں ثابت کیا ہے کہ احمد ندیم قاسمی ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے انسانیت کی قدرکی۔ تقسیم اور جنگ میں جو انسانیت کا نقصان ہوا نفرت کے کاروبارکو جلا ملی وہ اس کے خلاف تھے۔ انہوں نے زندگی کی حقیقتوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ اپنے آس پاس پاس کے ماحول ،گاؤں اور محلے کی زندگی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ تقسیم کے بعد ہونے والے فسادات نے تعصب اور نفرت کا جو بیج بویا تھا یہ دراصل انگریزوں کا لگایا ہوا پودا تھا۔اس سے ہونے والے نقصانات اور نفرت کے بڑھتے کاروبار کے خلاف احمد ندیم قاسمی نے بہت سے افسانے لکھے۔ان کے یہاں ایسے افسانے بھی ہیں جن میں فسادات کی عکاسی بھی ملتی ہے اور بعض ایسے افسانے بھی ہیں جو سماج میں ہندو مسلم کے درمیان محبت پیدا کرتے ہیں۔پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے مضمون میں احمد ندیم قاسمی کو مقامی موضوعات سے لے کر عالمی سطح کے موضوعات تک کو برتنے والا افسانہ نگار بتایا ۔وہ ان کے افسانوں کی کامیابی کے اسباب و علل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی کردار نگاری کو بھی اپنے ہم عصروں سے مختلف بتاتے ہیں۔وہ اپنا مضمون ان جملوں پر ختم کرتے ہیں۔
’’احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ بیدار سیاسی شعور رکھتے ہیں۔وہ کرداروں اور موضوع کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتے۔ وہ دیہاتوں کی کہانی لکھیں یا شہروں کی۔کوہستان نمک کے دامن میں بسنے والے چھوٹے سے گاؤں کی یادلّی یا لاہور جیسے بڑے شہروں کی۔ان کی ہیروئین اور ہیرو سونی اور فیض ہوں ان کے کردار مولوی صاحب، راؤ صاحب، جعفر یا شانتی ہوں وہ ایک بہترین فنکار کی طرح ہر ایک کے جذبات و احساسات اور مسائل کی ترجمانی کرتے ہیں۔وہ خواہ کتنی ہی مایوسی اور ناامیدی میں کیوں نہ گھرے ہوں زندگی کی عظمت اور زندگی کے لئے جوان کا اصل نظریہ ہے ،وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اور اسی لئے احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری اور اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔‘‘
احمد ندیم قاسمی نے کئی سو افسانے اردو ادب کو دیے ہیں۔ جن میں سے کچھ خاص افسانوں کو بالکل الگ نہیں کیا جا سکتا ۔مثلاً گنڈ اسہ، الحمداللہ،دارواسن، بین،پر میشور سنگھ، وحشی ،رئیس خانہ، ہیرو شیما سے پہلے اورہیرو شیما کے بعد، چوپال، جوتے، ننھے نے سلیٹ خریدی، بابا نور،پہاڑوں پر برف ،کفن دفن ،بگولے، لانس آف تھیلیسیسیا، موچی وغیرہ ایسے افسانے ہیں جنہیں بہت سے انتخابات میں جگہ ملی ہے اور جو اردو افسانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ان افسانوں میں احمد ندیم قاسمی کا فن اپنے عروج پر ہے،اور احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری کو سمجھنے کے لئے ان افسانوں کا مطالعہ کافی ہے۔
سعادت حسن منٹو
منٹو ہمارے ہر دل عزیز افسانہ نگار ہیں ان کی مقبولیت ہر زمانے میں رہی ہے ۔منٹو اردو کے واحد افسانہ نگار ہیںجنہیں ان کے زمانے میں بھی خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔منٹو اردو کے افسانہ نگاروں میں منفرد بھی ہیں اور اپنے فن کے یکتا بھی۔انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ سماج کی برائیوں اور گندگی کو بے نقاب کرکے سماج کو ایک نیا رُخ دینے کی کوشش کی ہے۔
منٹو نے اپنے افسانوی سفر کی ابتداء میں ہی احتجاج کو اپنا یا اور انسانیت پر ہورہے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے افسانوں کو عام طور پر لوگ فحش اور جنسی ہی سمجھتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے منٹو نے تقریباً دوسو افسانے تحریر کئے ہونگے۔جن کو آسانی سے تین زمروں میں رکھا جاسکتا ہے۔ پہلا ایسے افسانے جن میں انسانی نفسیات، فسادات کی منظر نگاری اور انسانیت سے لبریز افسانے ہیں۔ دوسرا زمرہ ایسے افسانوں کا ہو سکتا ہے جس میں منٹو نے جنس کو موضوع بنایا ہے ۔ اس زمرے میں بھی دوطرح کے افسانے شامل ہیں۔پہلے وہ جن میں جنس بقدر ضرورت افسانہ استعمال ہوئی ہے۔ دوسرے میں ایسے افسانے شامل ہونگے جن میں جنسی موضوعات پر لکھتے ہوئے منٹو نے کچھ فحش اور زیادہ کھلا پن استعمال کیا ہے۔ تیسرا زمرہ منٹو کا کمزور افسانوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ منٹو ایسا افسانہ نگار ہے جو اپنے زیادہ تر افسانوں میں کسی نہ کسی طور شریک ہے۔اور افسانوں کے کرداروں کے ساتھ کبھی بلاواسطہ کبھی بالواسطہ شریک رہتا ہے۔
پروفیسر شارب ردولوی نے منٹو پر اپنے مضمون میں تحقیقی اور تنقیدی نقطۂ نظر استعمال کرتے ہوئے منٹو کی پیدائش اور ابتدائی نگارشات ،پہلا افسانوی مجموعہ کے بارے میں لکھا ہے ،ساتھ ہی منٹو پر جنسی رویے خاص کر فحاشی کے الزام کی توضیح بھی پیش کی ہے۔ انہوں نے منٹو کے افسانوں میں جو زندگی اور کردار ملتے ہیں ان کے اسباب و علل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
’’منٹو نے دوسو سے زائد افسانے لکھے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس میں ان کے کمزور افسانے بھی شامل ہو نگے۔ہر افسانہ ایک معیار کا نہیں ہو سکتا لیکن منٹو کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کا ہر افسانہ آپ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ان کا کمزور افسانہ بھی فن اور تکنیک کے لحاظ سے اچھا افسانہ قرار پائے گا۔ اور اپنے اختتام تک قاری کے ذہن میں کئی سوال چھوڑ جائے گا۔ انہیں انسانی نفسیات پر قدرت حاصل تھی۔ شاید جتنی طرح کے (اچھے برے)لوگوں سے وہ ملے تھے اور جس طرح کی زندگی خود انہوں نے گزاری تھی ۔اس طرح کی زندگی کسی دوسرے قلم کار نے نہیں گزاری ہوگی۔ اس لئے ہر بار ان کے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی دلالت کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے افسانوں میں صرف ایک کردار ہے اور وہ کردار منٹو ہے۔ کہیں وہ ظاہر ہوتا ہے اور کہیں وہ کسی اوٹ کے پیچھے سے ہونے والی ہر بات کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے۔ ‘‘
منٹو نے دراصل ایسی زندگی گزاری ہے جو شاید ہی کسی کو نصیب ہوئی ہو ۔وہ ایسی جگہوں پر بھی گئے ہیں جہاں شریف آدمی کا گزر مشکل ہے۔ منٹو کے مشہور ومعروف افسانوں میں ٹوبہ ٹیگ سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، ہتک، بو، سہائے، کالی شلوار،جلیاں والا باغ، چغد ،پھندنے، باپوگوپی ناتھ، نیا قانون، ممی، موذیل، ممد بھائی، 1919 کی ایک بات، نعرہ، ننگی آوازیں، جانکی وغیرہ شامل ہیں۔ تقسیم کے حوالے سے منٹو کے کئی افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ ، ٹھنڈا گوشت اور کھول دو، کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یوں تو منٹو نے تقسیم سے پیدا شدہ حالات اور فسادات پر نصف درجن سے زائد افسانے لکھے۔ ایسے افسانوں کے پس منظر اور موضوع کے متعلق پروفیسر شارب ردولوی نے عمدہ تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’منٹو نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اور خاص طور پر عورتوں پر ہونے والے مظالم کو شدت سے اپنا موضوع بنایا ہے۔ اس کے لئے بڑی جرأت کی ضرورت تھی انہیں اس جرأت کی بڑی قیمت بھی چکانی پڑی۔ زمیندار اخبار نے تو ان کے خلاف ایک محاذ کھول دیا تھا۔ ان کے افسانے دراصل افسانے نہیں ان کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات ہیں۔ان کے ہر افسانے کی بنیاد کوئی حقیقی واقعہ یاکوئی حقیقی کردار ہے۔منٹو کا فن اس کو پیش کرنے کے طریقے پر ہے۔ منٹو نے اردو افسانے کو زندگی کے نئے پہلو یا اس کی حقیقتوں اور اس کی تلخیوں سے آشنا کیا ہے۔ منٹو کے افسانوں کی دنیا بہت عجیب ہے۔ اس میں عام بے ضرر انسان بھی ہیں۔ اس میں راج کشور (میرا نام رادھا) جیسے ریاکار بھی ہیں۔ ایسی وسعت اور زندگی کی ایسی متنوع تصویریں وہیں مل سکتی ہیں جہاں لکھنے والے کا اپنا تجربہ اتنا ہی متنوع ہو۔ ‘ ‘
پروفیسر شارب ردولوی نے منٹو کے تعلق سے اپنے مضمون میں تحقیقی و تنقید ی شعور سے کام لیتے ہوئے جہاں منٹو کے بعض افسانوں کی تعریف کی ہے وہیں کمزور افسانوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ منٹو کی زندگی کو بھی بے نقاب کیا ہے اور منٹو کے افسانوں کے اسباب وعلل بھی بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
اقبال مجید کا فکشن
اقبال مجید ہمارے عہد کے ان فکشن نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جن کے یہاں سماجی حقیقت نگاری علامت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال مجید نے عصری حسیت پر کافی زور دیاہے۔ ان کے افسانے جدیدیت کے پس منظر میں فردکے باطل کا اظہار بھی ہیں اور تبدیل شدہ زندگی کے حالات سے پیدا ہونے والے جدیدیت اور کشمکش کو بہتر طور پرپیش کرتے ہیں۔
اقبال مجید نے متعدد عمدہ افسانے اردو کو دئے ۔خصوصاً دسترس ،شہربدنصیب، حکایت ایک نیزے کی، سوئی دھاگا، سوئیوں والی، بیوی کی قینچی،ایک حلفیہ بیان، اور بلاق والی عورت ان کے عمدہ افسانے ہیں۔ ان افسانوں میں عصری حسیت کے ساتھ ساتھ روایت اور اساطیر کی سہ آمیزش نظر آتی ہے۔ وہ زندگی کو اپنے طور پر دیکھنے اور برتنے کے عادی ہیں۔ان کے کردار گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں جو خیروشر کے مجموعہ بھی ہیں او ر سماج کے نمائدہ بھی ۔’’دسترس‘‘ کا میں خوف کا شکار ہے۔ اوریہ خوف اس کے اندر اور اندر سماتا چلا جاتا ہے۔ جو اس کی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی مددگار خاتون پر بھی شک کرنے لگتا ہے اور خوف محسوس کرتا ہے۔
اس طرح ان کا افسانہ شہر بد نصیب ’’غصہ‘‘ کو مختلف منظر اور پس منظر میں پیش کرتا ہے۔ غصہ کا زیادہ ہونا یا ختم ہو جانا دراصل ہماری زندگی کی کسی نہ کسی کشمکش کو پیش کرتا ہے۔پروفیسر شارب ردولوی اقبال مجید کی افسانہ نگاری کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں:
’’اقبال مجید کے افسانوں میں بڑا تنوع ہے فکشن کے فن پر ان کی گرفت اتنی بھر پور ہے کہ وہ افسانے کو جب جس طرح چاہتے ہیں موڑ دیتے ہیں۔ وہ اکثر کہانی کے تسلسل کو توڑ دیتے ہیں اور شاید ایسا وہ کہانی کے ہیجان سے اضافے کے لئے یا پھر اس میں نئے ابعاد Dimentions پیدا کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ادھر ان کی بیشتر کہانیوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن پر آج کی زندگی کے بڑھتے ہوئے تناؤ Strains دباؤ Pressure اور Tention کے جو اثرات پڑ رہے ہیں، خواہ وہ خوف کی صورت میں رونما ہوں یا شک یا غم و غصّہ کی صورت میں ان کے موضوع کی شکل میں ابھرتے ہیں۔‘‘
اقبال مجید نے دو خوبصورت ناول بھی اردو کو دئے ۔’’کسی دن‘‘ اور ’’نمک‘‘ ان کے عمدہ ناول ہیں۔ان ناولوں میں سماجی حقیقت نگاری ،علامت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ’’کسی دن‘‘ تو ایک مختلف قسم کا ناول ہے جس میں اقبال مجید نے صارفیت کو موضوع بنایا ہے۔ یہ وہی صارفیت ہے جو کلچر کے نام سے ہم سے ہمارا بہت کچھ چھین رہی ہے۔ کچھ مخصوص قسم کے لوگوں کا حکومت ،صنعت ،بازار ،تہذیب اورکلچر پر قبضہ ہے ۔یہ لوگ سیاسی اور سماجی صورت حال کا (بابری مسجد تنازعہ)کا فائدہ اٹھا کر ملک کے مختلف کونوں میںنفرت کی کاشت کرتے ہیں اور ایک مخصوص طبقہ یعنی مسلمانوںکے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہندؤں اور مسلمانوں دونوں کے جذبات کو انگیز کرنے کے لئے اپنے مطلب کے لوگوں کو تلاش کر لیتے ہیں اور پھر ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات عام طور پر ہونے لگتے ہیں۔ پروفیسرشارب ردولوی نے بڑی فنی چابکدستی سے ’’کسی دن‘‘ اور ’’نمک‘‘ کا نہ صرف مطالعہ کیا ہے بلکہ اسے متوا زن تنقید کے حوالے سے اپنے مضمون میں پرویا ہے۔ ’’نمک‘‘ بھی اقبال مجید کاایک الگ قسم کا ناول ہے۔ یہاں ایک آبائی مکان دار لا اسکبتار ہے ۔جہاں زہر اخانم ناول کی مرکزی کردار کے علاوہ مختلف نسلوں اور خاندانوں کے لوگ رہتے ہیں۔یہاں تہذیبوں کا تصادم بھی ہے اور سماجی مسائل خاص کر مسلم سماج میں شادی کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ لیپ ٹاپ کی روشنی میں آزاد خیال ،مسلم تعلیم یافتہ لڑکیوں کے معاملات و واقعات بھی۔پورے ناول میں نمک کا استعمال علامت کے طور پر ہوا ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی اقبال مجید کے فکشن کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’اقبال مجید کے فکشن کی ایک خصوصیت اس کی سماجیات ہے ۔میرا خیال ہے کہ اپنے عہد اس کے تضاوات، اس کی کمزوریوں اور اس کے مطالبات بڑے شدت کے ساتھ ان کے افسانے اور ناول میں سامنے آتے ہیں۔ اقبال مجید کے فکشن کا ہر استعارہ اور ہر علامت وسیع تہذیبی اور سماجی حوالے اور معنویت رکھتے ہیں۔جو کہانی کے کینوس کے محدود موضوعی حوالوں سے نکال کر پورے عہد پر محیط کر دیتی ہے۔ اقبال مجید کے یہاں جو کرب اور جدید حسیت ہے اس نے ان کے فکشن کو انسانی نفسیات اور جدید فکرکا آئینہ بنا دیا ہے۔‘‘
افسانہ نگاری میں عابد سہیل کی انفرادیت
عابد سہیل اردو افسانہ کا ایک معتبر نام ہے ۔1950ء کے بعد اردو افسانہ میں افسانہ نگاروں کی جو نئی کھیپ سامنے آئی ان میں اقبال مجید ،رتن سنگھ، جوگندرپال، جیلانی بانو،قاضی عبدالستار ،آغاسہیل وغیرہ خاصے اہم نام ہیں۔ اس نسل کا ایک معتبر اور مستند نام عابد سہیل بھی ہے۔
عابد سہیل کے یوں تو تین مجموعے منظر عام پر آئے۔ سب سے چھوٹاغم( 1975ء) جینے ولا(1998ء) غلام گردش (2006ء)میں منظر عام پر آکر مقبول ہوئے۔ان کا پہلا افسانہ 1949ء میں ’’دور آسمان کی خلاؤں میں‘‘ دیوان سنگھ،مفتوں کے رسالے، ریاست میں شائع ہوا۔ریاست اپنے زمانے کا ایک معیاری ادبی رسالہ مانا جاتا تھا۔ عابد سہیل کی ذاتی زندگی پریشانیوں اور تکالیف سے بھری تھی۔جس عمر میں لوگ یونیورسٹی اور کالجز میں پڑھنے پڑھانے اور تفریخ کرنے میں مصروف ہوتے ہیں عابد سہیل کے کاندھوں پر گھر کی ذمہ داری بھی تھی جس کے لئے وہ کتابیں فروخت کرنے کا کام کیا کرے تھے۔بعد میں رسالہ ’’کتاب‘‘ نکال کر انہوں نے ادب کی بطور ادبی صحافی بڑی خدمات انجام دیں۔
عابد سہیل کی افسانہ نگاری اپنے ہم عصروں میں مختلف و منفردتھی۔وہ بہت معمولی واقعہ کو بھی اپنی فنی پختگی کی بناپر افسانہ میں اس طور ڈھال لیتے تھے کہ قاری پڑھ کرششدر رہ جاتا تھا۔پروفیسر شارب ردولوی نے عابد سہیل کی افسانہ نگاری پر ناقدانہ اور محققانہ نظر ڈالی ہے۔ وہ ان سے بہت قریب بھی تھے۔ اس لئے انہوں نے ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو بھی بہت قریب سے دیکھا تھا۔ یہی سبب ہے کہ پروفیسر ردولوی نے جس طرح عابد سہیل کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں ۔اپنے مضمون کی ابتداء میں ہی انہوں نے عابد سہیل کے افسانوں کے اوصاف ان لفظوں میں بیان کئے ہیں:
’’عابد سہیل کو بہت معمولی اور غیر اہم واقعات کو کہانی بنانے پر قدرت حاصل ہے۔ان کے افسانے عام طور پر ایسے واقعات سے پیدا ہوئے ہیں جو نظر سے تو ہر ایک کی گزرتے ہیں لیکن ان کی طرف توجہ کوئی نہیں دیتا۔ درگاہوں، مزاروں اور علم وغیرہ کس نے نہیں دیکھے ہونگے۔ان میں بندھے ہوئے ہر ے لال ،پیلے دھاگوں پر کس کی نگاہ نہ پڑی ہوگی۔سال میں ایک دوبار تو ایسی جگہوں سے گذر ہو ہی جاتاہے اپنی دعاؤں اور آس پاس سے بے خبر چہرے بھی سامنے آتے رہتے ہیں ۔لیکن ان کا یہ عمل ایک عام بات ہے۔ اس لئے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔اس کے بارے میں سوچنا تو دور کی بات ہے۔یہی ایک بہت معمولی اور چھوٹا سا واقعہ اردو کے افسانوی ادب کو ایک بڑی کہانی دے جاتا ہے۔‘‘
پروفیسر شارب ردولوی نے عابد سہیل کے متعدد افسانوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔’’سب سے چھوٹا غم‘‘عابد سہیل کا ایک غیر معمولی افسانہ ہے۔اس میں ایک عورت اپنے غموں کا پہاڑ لئے ایک مزار پہ جاتی ہے۔ جہاں جالیوں میں رنگ برنگے دھاگے بندھے ہوئے ہیں ۔ وہ بھی اپنا دھاگہ باندھ دیتی ہے،لیکن وہ وہاں بہت ساری دوسری بظاہر خوشحال عورتوں کو روتے گڑگڑاتے دیکھتی ہے تو اسے اپنا غم سب سے چھوٹا لگتا ہے۔ اتنی سی بات کو عابد سہیل نے ایسا افسانہ کیا کہ جس کا شمار اردو کے اچھے افسانوں میں ہوتا ہے۔عابد سہیل کو یہ فن آتا ہے کہ وہ معمولی سے واقعہ کو بھی اپنی تکنیک اور بیانیہ کے بل پر افسانہ کے سانچے میںکچھ اس طور ڈھالتے ہیں کہ وہ افسانہ ہرشخص کا افسانہ ہو جاتا ہے۔پروفیسر شارب ردولوی اس افسانے کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’اس افسانے کی خوبصورتی یہ ہے کہ عابد سہیل نے اسپر کئی تکنیک کا بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ بیانیہ پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ وہ اس کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے کہ کب اسی کی تکنیک تبدیل ہو گئی۔وہ کبھی خواب بیداری سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور کبھی شعور کی رو سے اور کبھی Flashback سے۔ فلیش بیک کی تکنیک عام طور پر کہانی کو کھول دینے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔اس لئے افسانے میں کم اور ناولوں میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔لیکن یہاں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کہانی کو طول دیا جاتا ہے یاکسی اوررُخ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ یہ ساری چیزیں بڑی آہستگی سے کہانی میں پیوست ہوجاتی ہیں۔وہ ان سے الگ محسوس ہی نہیں ہوتیں۔‘‘
عابد سہیل متحرک ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔انہوں نے ترقی پسند تحریک ،جدیدیت اور مابعد جدیدیت تینوں کو بہت قریب سے دیکھا ۔ویسے مزاجاً وہ ترقی پسند تھے اور ترقی پسندوںکو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ ان کے تحفظ کے لئے عملی کوششیں بھی کیں۔وہ فلسفہ کے طالب علم تھے۔ اس لئے مغربی مفکرین اور تحریکات سے بخوبی واقف تھے۔جب جدیدیت ہمارے یہاں شروع ہوئی تو عابد سہیل نے بھی علامت نگاری سے کام لیا لیکن ان کے یہاں علامت کہانی کی ضرورت کے مطابق ہوتی تھی جس میں ترسیل کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔
پروفیسر شارب ردولوی نے عابد سہیل کے متعدد افسانوں پر اپنی بے باک رائے دی ہے۔روح سے لپٹی ہوئی آگ ہو سوا نیزے پر سورج یا پھر’ میں اور میں‘ ۔یہ عابد سہیل کی لیک سے ہٹ کر کہانیاں ہیں۔ان کہانیوں میں شعور کی رو بھی ہے تو کردارکا نفسیاتی جائزہ بھی۔پروفیسر شارب ردولوی کا ماننا ہے کہ عابد سہیل اپنے افسانوں میں ایک ساتھ کئی تکیک کااستعمال بخوبی کرتے ہیں۔
پروفیسر شارب ردولوی کے مطابق اردو میں جانوروں اور پرندوں کی کہانیاں ،بچوں کی کتابوں اور قدیم ادب میں تو باآسانی مل جاتی ہیں لیکن بڑوں کے افسانوں میں عابد سہیل کی دونوں کہانیاں’’ ایک محبت کی کہانی‘‘، ’’سگ گذیدہ،مردم گذیدہ‘‘ جانوروں کی وفاداری اور جاں نثاری کی عمدہ مثال ہیں۔ان کہانیوں میں انسان کی کتّے سے محبت اور کتّے کی انسان سے وفاداری کی جیتی جاگتی تصویریں موجود ہیں،بلکہ ایک محبت کی کہانی میں کہانی کاراوی بھی کتّا ہی ہے۔’شرائط‘ عابد سہیل کی ایک عمدہ کہانی ہے۔اس کہانی میں اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی صورت حال پر احتجاج بھی ہے اور ہندو مسلم کے درمیان اندر اندر پنپنے والی نفرت کا اظہار بھی ۔دہشت گردی کی جھلک بھی کہانی کو ایک نیا رنگ دیتی ہے۔ کہانی میں ایک مکان مالکن بوڑھی عورت ہے اور کرائے دارللّے نام کا ایک نوجوان ہے۔
’’مالکن ایک ضرورت مند بوڑھی عورت ہے جس کا شوہر بیمار ہے اور جس کا اکیلا بیٹا ناوقت زندگی سے منھ موڑ گیا۔کرایہ دار ایک نوجوان ہے جو للّہ کہلاتا ہے۔ اس کے بارے میں شروع میں کچھ نہیںمعلوم ہوتا کہ وہ کیا کرتا ہے لیکن اپنی خوش مزاجی اور برتاؤ سے وہ پہلے ہی د ن مالکن کا دل جیت لیتا ہے۔‘‘
کہانی میں ایک موڑ اس وقت آجاتا ہے جب لوگوں کا للّہ کے تئیں رویہ بدلتا ہے یعنی جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ للّہ مسلمان ہے تو ان لوگوں کی نفرت اپنے عروج پر ہوتی ہے چاچی بھی(مکان مالک)اس نفرت کاساتھ دیتی ہے۔
’’لوگ کہتے ہیں للّے مسلمنٹا ہے‘‘للّے کے اصل نام سے بھی کوئی واقف نہیں ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی کہانی کے تعلق سے لکھتے ہیںکہ ’’عابد سہیل کافن یہ ہے کہ بے حد Sensative مرحلہ کو موضوع بنانے کے بعد ہرپل صراط سے وہ صاف نکل گئے اور یہی اس کہانی کی بڑائی اور خوبصورتی ہے۔ یہاں تک کہ پڑھنے والابھی جذبات کا شکار ہونے کے بجائے حالات پر صرف تا سف کرتا ہے ۔‘‘کہانی اپنے اختتام پر نیم پلیٹ کے واقعہ کے ساتھ پہنچتی ہے ۔للّے گھر کے باہر نیم پلیٹ لگوانے پر بضد ہے لیکن چاچی اور محلے والے اسے ایسا کرنے سے خوش نہیںہیں اورایک دن یہ ہوتا ہے کہ للّے جو دراصل محمد لطیف تھا اپنا کمرہ خالی کر کے کہیں اور چلا جاتا ہے کہانی ختم ہو جاتی ہے مگر کہانی اپنے پیچھے بہت سارے سوال چھوڑ جاتی ہے ۔ یہ ہی اچھی کہانی کی پہچان ہے۔
عابد سہیل کے یہاں کرداروں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ عابد سہیل نے کئی کردار اردو افسانے کو دئے ہیں۔اس کے باوجود عابد سہیل کے یہاں کردار سے زیادہ مسائل کی اہمیت ہے۔پروفیسر شارب ردولوی ان کے کئی کرداروں کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن ان کا بھی آخری تاثر یہ ہی ہے کہ عابد سہیل کے افسانوں میں کردار کی بجائے واقعات اور مسائل کہانی میں زیادہ اہم ہوتے ہیں:
’’سب سے چھوٹا غم‘‘ کے جاوید کی بیوی ہو یا ایک محبت کی کہانی کا کانگ ہو یا سفید بالوں والا بوڑھا، سگ گزیدہ مردم گزیدہ، کا پرنس ہو یا افسر کی بیوی یا شرائط کی چاچی ہو یا للّے یا دوسرے ضمنی کردار یہ اپنے عمل میں مکمل ہیں۔لیکن کہانی ختم کرنے کے بعد ذہن میں کردار کے بجائے وہ مسئلہ ہی چھایا رہتا ہے۔اور اسی کا تاثر تادیر قائم رہتا ہے۔‘‘
پروفیسر شارب ردولوی ہمارے عہد کے بڑے محقق و ناقد ہیں۔بطور ناقد ان کے جوکارنامے ہیں،ان پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔ان کی ایک ہی کتاب ’’جدید اردو تنقید :اصول و نظریات‘‘ انہیں بطور محقق و ناقد ثبات بخشنے کے لئے کافی ہے۔ جہاں تک پروفیسر شارب ردولوی بحیثیت فکشن ناقد کا سوال ہے ، شارب ردولوی نے اس ضمن میں کوئی مستقل کتاب نہیں تصنیف کی ہے، لیکن مختلف رسائل میں پچھلے پچاس برسوں میں ان کے جو مضامین فکشن کے حوالے سے شائع ہوئے ہیں وہ نہ صرف انہیں ایک بہتر فکشن ناقد ثابت کرتے ہیں بلکہ ان میں سے بعض فکشن کی ضخیم تنقیدی کتب پر بھاری ہیں۔
ادھر دوستوں اور شاگردوں کے بے حد اسرار پر پروفیسر شارب ردولوی نے فکشن تنقید کے حوالے سے اپے مضامین کو یکجا کیا ہے اور کتابی شکل دینے کا سلسلہ جاری ہے۔کتاب کانام اردو افسانہ (سماج سے علامت تک)رکھا گیا ہے۔اس مضامین کے مجموعے میں پریم چند ،چودھری محمد علی ردولوی، قرۃالعین حیدر، احمد ندیم قاسمی، منٹو، علی باقر، عصمت چغتائی کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے رتن سنگھ، عابد سہیل ،اقبال مجید ،جوگندر پال، مسرور جہاں، ولایت جعفری وغیرہ کے فکشن پر مضامین قلم بند کئے ہیں۔یہ کتاب پروفیسر شارب ردولوی کی تنقید ی جہات میں ایک اضافہ ہوگی۔ساتھ ہی متعدد افسانہ نگاروں کے افسانوں کونئے زاویے سے پیش کرے گی۔پروفیسر شارب ردولوی کی فکشن تنقید، تنقید کے ساتھ ساتھ تحقیق کے سانچے میں ڈھلی ایسی تنقید ہے جو مختلف فکشن نگاروںکو اپنے طور پر سمجھنے کی کامیاب کوشش ہے اور فکشن تنقید میں نئے طرز کی شروعات بھی جس میں تنقید کے ساتھ تحقیق کے عناصر بھی موجود ہیں۔
نوٹ : جن اقتباسات کے حوالے درج نہیں ہیں وہ پروفیسر شارب ردولوی کی آنے والی کتاب کے مسودے سے ماخوز ہیں۔
٭٭٭
کتابیات
مر ثیہ انیس میں ڈرامائی عناصر، پروفیسر شارب ردولوی نسیم بک ڈپو،لکھنؤ، 1959ء
جدید اردو تنقید:اصول و نظریات
پروفیسر شارب ردولوی ، اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ1994ء
آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید
مرتب پروفیسر شارب ردولوی ،اردو اکادمی ،دہلی2003ء
معاصر اردو تنقید: مسائل و میلانات
مرتب پروفسیر شارب ردولوی ،اردو اکادمی ،دہلی1994ء
تنقیدی مطالعے ڈاکٹر شارب ردولوی،نصرت پبلی کیشنز، حیدری مارکیٹ، امین آباد، لکھنؤ 1984ء
تنقیدی عمل شارب ردولوی ،ایجوکیشنل پبلی شنگ ہاؤس، دہلی2017ء
اردو مرثیہ آزادی کے بعد مرتب پروفیسر شارب ردولوی،دہلی اردو اکادمی1995ء
اردو افسانہ : روایت اور مسائل مرتب گوپی چند نارنگ، اردو اکادمی دہلی2008ء
تنقید اور احتساب وزیر آغا، ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ1976ء
جدیدیت اور ادب آل احمد سرور، مرتب علی گڑھ ،شعبۂ اردو، مسلم یونیورسٹی1996ء
افسانوی ادب تحقیق و تجزبہ عظیم الشان صدیقی،نیو پبلک پریس دہلی1983ء
افسانے کی حمایت میں شمس الرحمن فاروقی،مکتبہ جامعہ لمیٹیٹ دہلی1972ء
نیا اردو افسانہ انتخاب ،تجزیے اور مباحث مرتب گوپی چند نارنگ، اردو اکادمی دہلی2003ء
جدیدیت کی فلسفیانہ اساس پروفیسر شمیم حنفی ،ماڈرن پبلی شنگ ہاؤس1977ء
جدید اردو افسانہ شہزاد منظر ،ماڈرن پبلی شنگ ہاؤس ،دہلی1988ء
٭٭٭
Prof. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu, CCS University, Meerut
aslamjamshedpuri@gmail.com
09456259850,/8279907070(Whatsapp)