![]()
تیمور احمد خا ن
ریسرچ اسکالر(شعبۂ اردو)مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،لکھنؤ کیمپس،لکھنؤ
شاعری میں زبان کے تخلیقی استعمال کی ضرورت
ابتدائی زمانے سے ہی کم و بیش ہر مفکر نے شاعری کی نوعیت و ماہیت کو واضح کرتے ہوئے شاعری میں انسانی جذبات و احساسات کی اہمیت پر زور دینے کے ساتھ شاعری کی افادیت اور مقصدیت کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہیں بعض مغربی مفکرین نے شاعری کے جمالیاتی پہلوؤں کو تسلیم کرتے ہوئے اسے فنون لطیفہ کا اہم ستون بھی قرار دیا ہے۔حالانکہ فنون لطیفہ کے طور پر شاعری کے تشکیلی عمل کا کوئی خاطر خواہ معروضی جائزہ نظر نہیں آتا۔جس میں شاعری ،کو اجزاء میں تقسیم کئے بغیر اس کے وجود میں آنے کے محرکات اور نامیاتی یا تشکیلی عمل کا جائزہ لیا جاسکتا ہو۔دیکھا جائے تو موضوع، مواد اور ہئیت کی طرح زبان کا جائزہ بھی ایک جزو کی حیثیت سے لیاجاتا رہاہے۔ غالباََ اسی سبب شاعرانہ اور غیر شاعرانہ زبان کی تقسیم ہمیشہ سے ہی اہل دانشور کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہے۔
اردو شاعری کے وقیع سرمائے پر نظر ڈالیں تو ہمیں زبان کے تعلق سے اسی نوعیت کی تقسیم عیاں طور پر نظر آتی ہے جس کے نتیجے میں الفاظ کو صوری اور معنوی اعتبار سے منقسم کر کے دیکھا جاتا رہا ہے۔مثال کے طور پر ایک طرف تو ثقیل،کریہہ اور نامانوس الفاظ اور دوسری جانب سبک رواں، مانوس،حسین اور سامعہ نواز الفاظ کی بحثیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔شبلی نے فصیح ،غیر فصیح،سبک اور گراں،غنائی اور مغلق وغیرہ الفاظ کی تقسیم اور الفاظ کی صوتی کیفیات کے حوالے سے بعض کارآمد نتائج برآمد کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’الفاظ متعدد قسم کے ہوتے ہیں۔بعض نازک،لطیف،شستہ،صاف،رواں اور شیریں اور بعض پر شوکت، متین،بلند۔پہلی قسم کے الفاظ عشق و محبت کے مضامین کے ادا کرنے کے لئے موزوں ہیں،عشق و محبت انسان کے لطیف اور نازک جذبات ہیں،اس لئے ان کے ادا کرنے کے لئے لفظ بھی اسی قسم کے ہونے چاہئیں۔۔۔۔‘‘شعر العجم، حصہ چہارم ،معارف پریس اعظم گڑھ ص،۱۹۸۸، ۵۹۔۶۱
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شبلی نے زبان کی تقسیم کرتے وقت الفاظ کی مجرد اور مطلق حیثیت کو خاطر میں رکھاہے۔جس میں معنوی اور صوری لحاظ سے الفاظ محدود دائرہء عمل کے حامل ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی تقسیم کے تحت الفاظ کے استعمال میں شعوری کارفرمائی شامل رہتی ہے۔جو مزید اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ شعری ہئیت کے اجزا جدا گانہ حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں شاعری اور شعری زبان سے متعلق جو تصورات اور مباحث سامنے آتے ہیں اس سے شاعری کے نامیاتی عمل پر روشنی پڑتی ہے اور شعری زبان کے پرانے تصور کی تردید ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔نئے نظریے کی رو سے شاعری ایک فن ہے اور اس کی حدود وہاں سے شروع ہوتی ہیں جہاں مادی علوم و فنون کی حدیں ختم ہوجاتی ہیں۔شاعری کی بنیاد جذبے اور جذباتی رد عمل پر ہے.جس کو شعری تجربے سے تعبیر کیا جاتاہے۔شعری تجربے کی تین منزلیں ( مادی، ذہنی اور نفسیاتی اور لسانی)ہوتی ہیں۔چنانچہ پہلی منزل پر شاعر زندگی کے کسی بھی مظہر، شے یا خیال کے جذباتی رد عمل سے دوچار ہوتا ہے۔یہ حسیاتی تجربہ دوسرے تجربات، احساسات و تاثرات اور کیفیات کو جنم دیتا ہے۔ لیکن شاعری محض جذباتی ہیجان یا جذباتیت کے اظہار کا نام نہیں بلکہ جذباتی تجربات کی ترتیب اور قطع برید کا نام ہے۔ دوسری منزل پر پہنچ کرشاعر بنیادی خیال کو قوت متخیلہ یا وجدان کی مدد سے وسعت دینا شروع کردیتا ہے اور داخلی سطح پر تجربے کا ادراک کرتا ہے۔ادراک کی اس منزل کے ساتھ ہی اظہار کی لگن بھی جنم لیتی ہے اور شاعر لسانی سطح پر ان تجربات کا اظہار کرتا ہے۔اس طرح شعری تجربہ جذباتی،نفسیاتی اور لسانی منزلیں طے کر کے جمالیاتی تجربہ بن جاتا ہے اور فنی وحدت کی شکل میں قاری کی حسیات اور تخیل کو بیدار کرتا ہے۔چنانچہ شعری تجربہ خود ساختہ زبان کی تشکیل کرتا ہے جس کی نوعیت زبان کے عام استعمال سے مختلف ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے شاعرانہ اور غیرشاعرانہ زبان کی روایتی تقسیم اور صناعی کا تصوربے معنی نظر آنے لگتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ زندگی کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ زبان بھی اثر انداز ہوتی ہے۔الفاظ میں تبدیلیاں دو سطحوں پر نمودار ہوتی ہیں۔ایک معنوی اور دوسری خارجی یا صوری۔یعنی لفظ سماجی تبدیلیوں کا اثر قبول کرتے ہوئے اپنے پرانے معنی میں تحریف،توسیع اور ترمیم کرتا رہتا ہے وہیں صوری سطح پر اس کے املا،انشا اور تلفظ وغیرہ میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ان تبدیلیوں میں معنوی تبدیلیاں اہم اور غور طلب ہیں۔ایسے الفاظ جو رفتہ رفتہ سماجی ضرورت کو پورا کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں، متروک قراردے دیے جاتے ہیں۔ بعض الفاظ کا استعمال روایتی اور تقلیدی ہونے کے سبب فرسودہ معلوم ہونے لگتاہے۔ فرسودہ الفاظ کی جگہ نئی حسیت کے ابلاغ کے لئے نئے الفاظ وجود پا کر استعمال ہونے لگتے ہیں۔یا پھر متروک و فرسودہ الفاظ کو غیر معمولی معنوں میں استعمال کیا جانے لگتا ہے۔اس عمل سے الفاظ اپنی معنوی توانائی دوبارہ حاصل کرتے ہیں۔زبان کی فرسودگی کے حوالے سے وزیر آغا نے الفاظ کے دو دھاروں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’ ایک دھارا تو وہ ہے جس میں الفاظ کثرت استعمال سے دم بدم اپنی داخلی حرارت سے محروم ہورہے ہیں یعنی مرگِ حرارت میں مبتلا ہیں اور یوں law of entropy کے تابع ہوکر نہ تو خود کو Regenerateکرسکتے ہیں اور نہ تخلیق کے عمل ہی سے بہرہ مند ہونے پر قادر ہیں۔ان میں سے ہر لفظ کا ایک متعین مفہوم اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چپک چکا ہے۔یہ وہ سکے ہیں جن پر قیمت کا ٹھپہ لگ چکا ہے اور اب تبدیل نہیں ہوسکتا اور اسی لئے یہ اس جہان میں بالکل بے کار ہیں۔جہاں کا سکہ کچھ اور ہے۔‘‘ (وزیر آغا،نئے تناظر،اردو رائٹرس گلڈ الہ آباد،۱۹۷۹،ص ۸۹)
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کثرت استعمال یا تقلیدی استعمال کی وجہ سے الفاظ معنوی جمود کے حامل ہوجاتے ہیں۔یعنی ان کے ساتھ متعینہ معنی یا مفہوم چپک جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے الفاظ کی تازگی و توانائی برقرار نہیں رہتی اور اسی سبب یہ نئی زندگی کی حسیت یا معنویت کے اظہار کے قابل نہیں رہتے۔ یہ زبان کاروباری یا عام زبان کہلاتی ہے۔جو کسی راست مفہوم کی ترسیل کے لئے کارآمد تو ہو سکتی ہے لیکن محسوسات کی دنیا کو مس نہیں کرسکتی۔ یہ لسانی تبدیلیاں جہاں عام اور کاروباری یا روزمرہ کی زبان میں ظاہر ہوتی ہیں وہیں مجازی یا شعری و ادبی زبان بھی تغیر و تبدل سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔اس ضمن میں وزیر آغا زبان کی سطحوں کا ذکر کرتے ہوئے کاروباری اور مجازی زبان کے فرق و امتیاز کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’ (زبان) خود مجازی سطح پر بھی اکثر و بیشتر کثرت استعمال کے باعث کاروباری سطح پر آجاتی ہے۔حد یہ ہے کہ ایک دور کی تشبیہیں،استعارے،تراکیب وغیرہ آئندہ دور میں پِٹ ہٹاکر کاروباری حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔چنانچہ شاعر کو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ ہر بار زبان کو ایک نئے انداز میں استعمال کرے۔یوں کہ اس کی مجازی سطح کاروباری سطح پر غالب آجائے۔‘‘(تخلیقی عمل،وزیرآغا،علی گڑھ بک ڈپو،شمشاد مارکیٹ علی گڑھ،۱۹۷۵،ص ۱۵۵)
عام زبان تقلیدی اور روایتی انداز میں استعمال ہوکر جس طرح معنوی توانائی کھو کر کاروباری حیثیت اختیار کرتی ہے اسی طرح مجازی یا ادبی زبان میں بھی معنوی جمود کا در آنا کوئی حیرت کی بات نہیںمعلوم ہوتی۔ادبی زبان تشبیہات،استعارات اور علامات و پیکر استعمال کرتی ہے۔مگر کبھی کبھی یہ وسائل اکہرے معنی کے حامل ہوجاتے ہیں اور نئی حسیت یا خیال کے اظہار کے لئے ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔مثلاََ زلف کو گھٹا،ہونٹوں کو گلاب کہنا کسی زمانے میں یقیناََ نئی بات رہی ہوگی مگر آج کل کے زمانے میں اس نوع کے الفاظ انوکھے پن کا احساس دلانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو گھسے پٹے اور فرسودہ شاعرانہ وسائل کو نئے معنوں اور نئے زاویوں سے استعمال میں لایا جانا چاہئے تاکہ کسی بھی ادبی زبان میں دلچسپی اور تازگی کا عنصر برقرار رہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ لفظ کو جب تعبیری یا استعاراتی معنوں میں برتا جاتا ہے تو اس میں توانائی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اپنے لغوی یامتعینہ معنی کے حصار کو توڑ کر معنی کی وسعتوں کو سمو لینے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔تب کہیں جاکر نادر و نایاب جذبات کی نقش گری اور تجسیم کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔زبان کا یہ غیر معمولی یا تخلیقی استعمال تشبیہ،استعارات علامات اور پیکروں کے استعال سے وجود میں آتا ہے۔تخلیقی زبان میں فنی وسائل کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں۔
’’تخلیقی زبان چار چیزوں سے عبارت ہے،تشبیہ،پیکر استعارہ اور علامت۔۔۔تشبیہ،پیکر استعارہ اور علامت میں سے کم سے کم دو عناصر تخلیقی زبان میں تقریباً ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔اگر دو سے کم ہوں تو زبان غیر تخلیقی ہوجائے گی‘‘۔(شعر غیر شعر اور نثر،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ۲۰۰۵ ،ص۱۳۹)
انیس ناگی شاعری میں زبان کے تخلیقی استعمال پربات کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’تخلیق شعر میں لفظ کے استعمال کی بنیادی غایت تخلیقی تجربے کی ترسیل اور تشکیل ہے۔لفظ شاعرکا بنیادی حربہ ہے۔اسی کے ذریعہ وہ تجربے کے خط و خال معین کرتا ہے۔۔۔۔شاعر تخلیق شعر میں الفاظ کو مخصوص ڈیرائن کے تحت استعمال کرتا ہے۔یہ ڈیزائن شاعر کا جذباتی سیاق و سباق ہوتا ہے۔شاعر کے الفاظ کے ساتھ مخصوص شخصی تلازمے وابستہ ہوتے ہیں۔‘‘(تنقید شعر،انیس ناگی،سنگ میل پبلیکیشنز لاہور،۱۹۸۷،ص ۴۹۔۵۱)
مذکورہ باتوں سے یہ نکتہ مترشح ہوجاتا ہے کہ نئے اور غیر معمولی انداز سے زبان کو استعمال کرنا اس کے معنوی امکانات کو مزید روشن کرتا ہے۔زبان کا یہی غیر معمولی استعمال تخلیقی استعمال کا ضامن بنتاہے۔ الفاظ کے تخلیقی استعمال کے سبب ہی نادر و نایاب اور غیر مانوس تاثرات کو گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔ عنوان چشتی نے لفظ کے تخلیقی عمل کو جوہری توانائی سے تعبیر کرتے ہو ئے لکھا ہے۔
’’لفظ کا تخلیقی استعمال اس(لفظ)میں نئی توانائی،تازگی اور تاثیر پیدا کرتا ہے۔تخلیقی عمل سے گزر کر لفظ میں زندگی کی بڑھتی پھیلتی ہوئی لہروں کا احاطہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور زندگی نیز زمانے کی تمام نیرنگیوں اور ان نیرنگیوں کے تمام امکانات کو جذب کرکے ان کی عکاسی کرنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔لفظ کا کوئی ذائقہ،کوئی خوشبو،کوئی رنگ،کوئی روپ نہیں ہوتا لیکن جب یہ تخلیقی عمل سے گزر جاتا ہے تو اس میں ایک جوہری توانائی آجاتی ہے۔‘‘(تنقید سے تحقیق تک، ڈاکٹر عنوان چشتی،،اترپردیش اردو اکادمی،۱۹۷۴،ص۳۶)
اس طرح لفظ کے تخلیقی استعمال سے واقعے کے ساتھ ساتھ تجریدیت کو گرفت میں لینے کی سہولت بھی ہاتھ آجاتی ہے۔وزیر آغا اپنے مضمون ’’زبان اور ادبی زبان‘‘میں الفاظ کے تخلیقی استعمال کی نوعیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ایسے الفاظ جو فن کار کے ہاتھوں کے لمس سے زندہ اور بو قلموں جسموں کی طرح دھڑکنے لگتے ہیں مگر محض صورتوں کی بوقلمونی اور دھڑکن کا مظاہرہ ہی ان الفاظ کا واحد مقصد نہیں ان لفظوں کا واحد مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اندر کے جہانِ پر اسرار کو گرفت میں لیں اور یہ کام جبھی ممکن ہے کہ وہ اپنے اوپر سے متعین معنی کا سخت چھلکا اتار پھینکیں۔تمثیل کی زبان یوں کہہ لیجئے کہ جب کاروباری الفاظ کے سکوں کو کٹھالی میں ڈال کر ان کے سابقہ نقوش کو منہدم کردیا جائے تو پھر خالص دھات کی صورت میں وہ نئے نقوش کو قبول کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔یہ ایک اچھے ادیب کا کام ہے کہ وہ اپنے تخلیقی عمل میں پہلے تو لفظ کو اس کے مروج مفہوم سے نجات دلاتا ہے اور پھر ایک جادوگر کی طرح اسے ایک نئے،تازہ اور زرخیز مفہوم سے منسلک کردیتا ہے۔‘‘(وزیر آغا،نئے تناظر،اردو رائٹرس گلڈ الہ آباد،۱۹۷۹،ص ۹۰)
لفظ کا تخلیقی استعمال اسے وسیع معنوں میں استعمال کرنے کے تخلیقی عمل سے وجود میں آتا ہے۔ جہاں لفظ کی آواز اور آواز کی اشاریت سے بھی بھر پور کام لیا جاتا ہے۔ چونکہ شاعری کا تعلق بنیادی طور پر جذبے سے ہے۔جس کی بنا پر شاعری نثری منطق سے دور ہوجاتی ہے۔جذبات اور ان سے پیدا شدہ تاثرات غیر واضح اور مبہم ہوتے ہیں۔جس کے لئے روایتی یا عام زبان دور تک ساتھ نہیں دے سکتی۔یہی وجہ ہے کہ ان تاثرات کے اظہار کے لئے زبان کا غیر معمولی استعمال عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ ان جذبات و احساسات کو قاری کے سامنے اعلیٰ صورت میں پیش کیا جاسکے۔ کبھی کبھی جذبات کے اظہار کیلئے زبان کی عام ہئیت اور اسکیم میں بھی تبدیلی لائی جاتی ہے۔
ان تمام معروضات کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نئے انوکھے،مبہم،غیر مانوس اور پیچیدہ خیالات اور احساسات کوگرفت میں لینے کے لئے شاعر زبان کے مروجہ ڈھانچوں میں تبدیلی لاکر الفاظ کو نئے اور تعبیری معنوں میں استعمال کرتا ہے۔وہ نئی نئی تشبیہات،استعارات ،علامات،تراکیب اور پیکراختراع کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعری تجربے کے آغاز سے لیکر اس کے اظہار تک زبان کا تخلیقی استعمال بنیادی اہمیت کا حامل بن جاتاہے اور زبان کے تخلیقی استعمال کی ضرورت کا جواز بھی یہیں سے مستنبط کیا جاسکتا ہے۔