ڈاکٹر عیسٰی محمد
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ اردو کرگل کیمپس یونیورسٹی آف لداخ
شبنم قیوم کے چار افسانے کا عمومی مطالعہ
شبنم قیوم کشمیر کے افسانہ نگاروں کے کارواں میں ایک اہم نام ہے۔۱۹۳۸ ء میں ڈل گیٹ کے اس دلآویز علاقے میں شبنم قیوم نے جنم لیا جس کے بارے میں عام لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ڈل گیٹ کی آب و ہوا ادب اور شاعری کو خوب راس آئی۔ انھوں نے ادب کی دنیا میں اٹھارہ سال کی عمر میں افسانہ ‘اخبار کی سرخی ’ لکھ کر قدم رکھا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۷۱ء میں ‘ایک زخم اور سہی ’ کے عنوان سے شائع ہوا۔مجموعہ ہذا میں پانچ افسانے شامل ہیں۔افسانہ ‘‘دسہرہ کی سیتا’’ میں انھوں نے کشمیر کے گاوں کی زندگی اور یہاں کی سماجی مسائل جیسے،جہیز،دلال کے روپ میں دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا وغیرہ کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ گاوں کے باشندوں کا ایک جگہ جمع ہو کر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے کی خوبصورت منظرکو کہانی کے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ان عناصر کو اجاگر کرنے کے لئے مصنف نے افسانے میں ایک غریب گھرتخلیق کیاہے جو ایک گاؤں میں ہے۔اس گھر میں‘شیلا’ اور اس کی ماں رہتی ہے۔شیلا کی والد کا انتقال ہو چکا ہے۔اب چونکہ شیلا جوان ہو چکی ہے۔اس لئے ان کی والدہ اس کی شادی کے لئے فکر مند ہے۔ والدہ نے اپنی ہی گاؤں کا ایک باشندہ جن کا نام ناتھ جی ہے جو ان کے شوہر کا دوست بھی ہے اورجوڑی ڈھونڈنے اور روٹھے ہوئے میاں بیوی کو آپس میں ملانے میں مہارت رکھتے ہیں۔شیلا کی والدہ نے شیلا کے لئے لڑکا ڈھونڈنے کی ذمہ داری ناتھ جی کودے دی۔کیونکہ وہ جانتی ہے ناتھ جی ہی شیلاکے لئے اچھا لڑکاڈھونڈ پائے گا۔اس کا اندازہ ہمیں ان کی ان باتوں سے ہو جاتا ہے۔افسانہ سے یہ اقتباس
‘‘بھگوان کے بعد ہمیں تیری ہی آشا ہے۔نرملا نے اس کے چہرے پر نگاہیں گاڑتے ہوئے سکوت توڑا اور تھوڑی دیر توقف کے بعد بولاـ‘ایشور کی کرپا اور تمہاری مہربانی سے ہی شیلا پتری کے ہاتھ پیلے کروں گی،ہاں تو میں بھی اسی فکر میں گاؤں گاؤں کی خاک چھانتا ہوں۔گھرگھر منجھا پہنچاتا ہوں’’۔
ناتھ جی کاکام کرنے کا اندازالگ ہے ۔ناتھ جی ’کے اندر پوشیدہ راز اور کام کرنے کے طریقے کو افسانہ نگار نے کچھ اس طرح افشاں کیا ہے ۔جس کا علم شیلا کی ماں کو نہیں ہے۔شاید اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا ۔ اقتباس
‘‘ناتھ جی زیادہ تر جوڑے ملانے کے بجائے جوڑوں میں رخنا ڈال کر اور پھر ان میں ملاپ کرانے کے ساتھ ازدواجی زندگی میں پڑے ہوئے رخنوں کو رفع کرانے کے لئے اپنی چاپلوسی اورعلم سفینہ کی لسانی سے لیکر جنتر منتر سے کام لیتا اور رفوگر کی طرح پیوند دینے کی کوشش کرتا اور اس طرح طرفین سے طے شدہ نذرانہ لے لیتا۔’’
جہیز نے عورت کی عزت و حیثیت کو بُری طرح مجروح کر رکھی ہے ۔خاص کرغریب گھرانوں کی لڑکیاں اس سے بُری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کے والدین لڑکے کے گھر کی طرف سے رکھے گئے مطالبات کو پورا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔ اس لئے اکثر شادیاں آخری مرحلے میں آکر ٹوٹ جاتی ہیں ۔کشمیر میں بھی یہ رسم ماضی سے رائج ہے ۔بھلے ہی یہاں مطالبات دوسری جگہوں سے کم رکھے جاتے ہیں ۔پھر بھی کہیں نہ کہیں غریب اور یتیم گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں اس سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ شبنم قیوم نے اپنے افسانہ‘ دسہرہ کی ستیا’ میں افسانے کی ایک ذیلی کردار کی زبانی سماج کے اس بُرے پہلو کوبیان کیا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے۔
‘‘ بات پکی کرنے میں میری اتنی دیر نہیں جتنی تمہاری ہے ۔ تم سوچ لو آج کل کی شادی بیاہ میں لڑکے والوں کا منہ بھاری جہیز سے بند نہ کیا جائے اور تحفوں سے گردن زیر بار نہ کی جائے تب تک بات کہاں پکی ہو سکتی ہے ۔’’
کشمیر کے گاؤں دیہات میں رہنے والوں کا آپس میں مل جل کر رہنے ،ایک دوسرے کے دکھ درد کو سننے، فصل کی کیفیت،اناج کے دام اور زندگی سے جڑے دوسرے مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے ہر روز شام کے وقت ایک مخصوص جگہ پر جمع ہو جاتے۔لوگ اپنے اپنے کھیتوں میں کام ختم کرنے کے بعد اسی جگہ پر پہونچ جاتے اور اپنی سناتے اور دوسروں کی سنتے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماضی قریب تک دیہاتوں میں ہر کسی کے پاس تفریح کے سامان میسر تھے نہ د ن بھر بجلی فراہم ہوتی تھی ۔اسلئے وقت گزاری کے لئے اپنے اپنے کام سے فارغ ہو کر ایک جگہ جمع ہوتے ۔اور آپس میں زندگی کے مختلف پہلوون پر گفتگو کرتے۔اس افسانہ میں مصنف نے اس منظر کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔اقتباس
‘‘ زندہ کول کی دوکان پر اس وقت چھوٹے بڑے اور بوڑھے اسی طرح جمع ہو رہے تھے جس طرح لوگ عموماً کچہری میں جمع ہوتے ہیں ،دیکھتے ہی دیکھتے یہاں ایک پینٹھ سی لگ گئی ۔ بالعموم ایسی پینٹھوں سے دیہاتوں کی کاشتکارانہ تجارت کا تعلق ہوتا ہے ،جس میں موسم کے حالات پر تبصرے اجناس کے بھاؤ گھریلو خبروں کا تبادلہ ذاتی معاملات کے تصنع پنچائتی تنازعے،جنگل کی راکھی کی ہٹ دھرنی ،پٹواری کے مغلانوں ، نذرانوں کی ادائیگیاں قرض کا لین دین ، چوپالوں کے فضل کو نقصان پہنچانیکی جوکھم جوکھا ۔ اس کے علاوہ گھریلو تنازعے ، میاں بیوی کے روٹھ جانے کے اسباب خانگی جنگوں کے واقعات اور شادی وغیرہ کے معاملات ۔یہ سب زندہ کول کی دوکان پر روزانہ کا عمل تھا ۔’’
شبنم قیوم دیہات کے گھر کا نقشہ کھینچاتے ہوئے یہاں کی ثقافت کومنفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ کہانی ‘دسہرہ کی ستیا ’ میں چولہا،سماوار ،کے علاوہ حقہ کا بھی ذکر کیا ہے ۔یہ کشمیر کی ثقافت کا اہم حصہ مانا جاتا ہے۔دیہات میں اکثر جب کوئی مہمان گھر پر آجاتا ہے تو ان کو چائے کے ساتھ ساتھ حقہ پیش کرنا بھی لازم سمجھتے ہیں ۔ماضی قریب تک دکانوں میں بھی حقہ عام تھا۔ اب حقہص صرف دیہاتوں تک ہی محدودہے ۔دیہات میں مہمان کی خاطر داری کرنے کے انداز کو شبنم قیوم نے اپنے افسانہ میں اس طرح بیاں کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔
‘‘کون ہے کون آیا ہے ؟ شیلا نے چولہے میں لکڑی گھسیڑتے ہوئے پوچھا؟ ’’
مہمان کو اندر لایا جاتا ہے اور اس کے فوراًبعد ان کو چائے اور حقہ پیش کیا جاتا ہے :
‘‘شیلا سماوار لے کر آگے بڑھی اور نرملا نے حقے میں پانی بھر دیا ،،،،ناتھ جی نے اس کے ہاتھ سے چلم لیا اور اس میں تمباکو کے بعد آگ بھر کر اور پھر منہ میں نے رکھ کر پینے بیٹھ گیا ۔’’
شبنم قیوم کا دوسرا افسانوی مجموعہ ‘نشانات ’ ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا ہے۔اس مجموعہ میں سترہ افسانے شامل ہیں۔اس مجموعے میں ایک کہانی ‘دکھتی آنکھیں ’کے عنوان سے ہے ۔جس میں مصنف نے ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان جوسوچ و فکری امتیازپیدا ہوا ہے ۔ جس کی وجہ سے اکثر والدین کو مصیبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔اسے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔افسانے میں ایک کردار سلطان اور اس کی بیوی ہے۔سلطان کی بیوی فاطمہ دق کی مریض ہے، اور اسپتال میں علاج کے لئے داخل کی گئی ہے۔ان کا ایک بیٹا ہے جو سرینگر سے دور کہیں نوکری کر رہاہے۔فاطمہ، سلطان سے اپنے بیٹے کو بلانے کی سفارش کی تو سلطان نے ایک بابو جی سے اپنے بیٹے کے نام خط لکھوایا ۔اس دوران ان سے باتیں کرتے ہوئے سلطان یوں گویا ہوئے۔ان کی گفتگو کے ذریعے مصنف نے ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان سوچ و فکر کی امتیاز کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے:
‘‘کیا کہوں ایسا زمانہ تھا کہ اگر کوئی پوچھ لیتا ۔تمہارا باپ کون ہے تو فخر سے اپنا اصلی باپ دکھاتے تھے، اصل میں تمہاری کیا مراد ہے بابو جی نے رنجیدگی سے پوچھا ۔مراد تو بس یہ ہے کہ سادگی کے زمانے میں اگرکسی کا باپ بوڑھا ہو جاتا تھا ،تو بزرگ کہلاتا تھا،مگر آج کل کے تعلیم یافتہ فیشن پرست نوجوان کے سامنے بوڑھے بزرگ نہیں بلکہ بوجھ کہلاتے ہیں’’۔
ہندوستان میں جموں و کشمیر شاید واحد ایسا علاقہ ہے ۔جہاں ہر چھ مہینے کے بعد دربار اور سرکاری دفاتر ایک جگہ سے دوسری جگہ مکمل طور پر منتقل کئے جاتے ہیں ۔یہاں گرمیوں کے چھ مہینے سرینگر میں جب کہ سردیوں کے چھ مہینے جموں میں سرکاری کام کاج چلتا رہتا ہے ۔جس کی وجہ سے ملازم پیشہ افراد مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔شبنم قیوم نے افسانہ ‘دیا جلاؤ روشنی بجھاؤ’میں افسانے کاکردارجو ایک کلرک ہے ،اس کی زبانی اس طرح بیان کیا ہے۔ اقتباس
‘‘کشمیر میں سردیاں شروع ہوتے ہی جب معمول کے مطابق یہاں کے سرکاری دفاتر جموں کی طرف چھ مہینوں کے لئے کوچ کر گئے،تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا آج زندگی میں پہلی بار دور کسی ویرانے میں مجھے گرفتار کر کے لیا جا رہا ہے،نومبر سے اپریل تک کا یہ عرصہ جموں میں گذارنے کا ویسے میرا یہ پہلا موقعہ نہ تھا،میں متواتر آٹھ سال سے جب سے میں نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی تھی ،ہر سال سردیوں میں اپنے دفتر کے ساتھ جموں جایا کرتا تھا ’’۔
افسانہ ‘بہت اونچے بہت نیچے’ اس کہانی میں مصنف نے کشمیر کی ایک مخصوص طبقہ جن کو ہانجی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ان کے زندگی کی روداد بیان کی ہے ۔یہ طبقہ جھیل ڈل اور جہلم کے کنارے ہوس بوٹوں میں رہتاہے۔ان کے پاس یہی ہوس بوٹ اور شکارے کے سوااور کچھ نہیں ہوتا ہے یہی ان کا کل اثاثہ اور معاش کا ذریعہ بھی ہے۔یہ اپنے ہوس بوٹوں میں مہمان نوازی کرکے اپنی ضروریات پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔گو ان کو صرف پیسے سے سروکار ہے چاہے ڈانٹ کے ساتھ ملے یا مار کھاکے۔ اس سے ان کو کوئی مطلب نہیں ،وہ زیادہ پیسہ حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں ۔یہ ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ انہی چند مہینوں میں کسی طریقے سے پیسہ کما ناہے۔ سردیوں میں انہی چند مہینوں میں کمائے ہوئے پیسے پرگذارا کرنا ہے۔ افسانے کا کردار رمضان کے ذریعے ان کے حربوں کو منظر عام پر لایا گیا ہے ۔رمضان جو ایک ہانجی ہے ۔اس کے ہوس بوٹ کا نام گڈ لک ہوس بوٹ ہے ۔ان کے ہوس بوٹ میں دو سیاح رابرٹ اور ان کی مسز رہنے کے لئے آئے ہیں ۔رمضان ان کو ہوس بوٹ میں بیٹھا کر خود بازار سے سودا سلف لانے کے لئے چلا جاتا ہے۔لیکن کسی وجہ سے بازار سے لوٹنے میں دیر ہو جاتی ہے ۔اس پر رابرٹ انہیں بہت ڈانٹتاہے۔لیکن اس کی بیگم مسز رابرٹ مداخلت کرتے ہوئے رمضان کو سمجھاتی ہے۔ اور رمضان کو اس ڈانٹ کے بدلے مسز رابرٹ پانچ سو روپے دے دیتی ہے۔ہانجی رمضان کو جب پانچ سو روپے ڈانٹ کے عوض ملے تو اس کے بعد وہ ہر وقت جان بوجھ کر غلطی کر تا رہتاہے تاکہ صاحب اس کو ڈانٹے اور اس کے عوض میں اس کو پیسہ ملتا رہے۔ کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ یہی پیسہ کمانے کا اچھا موقعہ ہے ۔اس لئے اب وہ جان بوجھ کر غلطیاں کرتا ہے ۔جن کو افسانہ نگار نے یوں بیان کیا ہے ۔اقتباس
‘‘ایک روز رمضان چائے کی ٹرے لے کر اندر داخل ہوا ،تو اس نے جان بوجھ کر اپنے اپ کو صاحب کے سامنے گرا دیا ،گویا اس سے ٹھوکر لگی تھی ۔صاحب اس وقت کچھ لکھ رہا تھا ،ٹی سٹ کے گرنے سے چائے اور دودھ کی چھینٹیں اس کے کپڑوں اور کاغذات کو خراب کر گئی تھی ’’۔
اس پرصاحب نے تو رمضان کو کچھ نہیں کہا ں مگر بیگم نے کلاس لی۔تو صاحب رمضان کو سمجھاتے ہوئے اپنے جیب سے پانچ سو روپے نکل کر رمضان کے ہاتھ میں تھما دیے۔اس کے کچھ دن بعد ہانجی رمضان ان سے پیسہ وصولنے کے لئے دوسرا طریقہ اپناتا ہے ۔اب کے بار جو طریقہ اپنایا اس سے مصنف نے افسانے میں پیش کیا ہے۔ اقتباس
“کچھ دنوں بعد اس نے املیٹ میں زیادہ نمک ڈالا تھا جن کو چھکتے ہی اُنھوں نے دونوں پلیٹ جھیل میں پھینگ دیا اور رمضان کی ایسی پھٹکار کی کہ اگر روپیہ کا معاملہ درمیان میں نہ ہوتا تو رمضان چلا جاتا ” ۔
رمضان تو یہی چاہتا ہے ۔کہ وہ اس کو خوب ڈانٹے کیونکہ اس کو پتا ہے کہ ڈانٹنے کے بعد اس سے پیسہ ملنے والا ہے مگر اب کی بار اُنھوں نے پیسہ دینے کے بجائے دوسرا املیٹ لے کر آنے کے لئے کہا تو رمضان سمجھ گیا کہ اس کا یہ طریقہ ناکام ہوا ۔ اب رمضان نے واویلا کرنا شروع کیا ،کہ اس کے پلیٹ کا نقصان ہوا ہے ،تو اس کو پانچ سو کے دو نوٹ ملے ۔ایک اور حربہ جو ہانجی رمضان نے استعمال کیا ،وہ کچھ یوں ہے اقتباس:
“اس واقعہ کو ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے ،کہ رمضان نے ایک روز ان کے لنچ میں جان بوجھ کر کافی دیر لگا دی ،تا کہ صاحب اور میم اس پر برس پڑے اور پھر پرس کھولیں”۔
لیکن اس دن معاملہ ان کی ترکیب کے برعکس ہوا اوردونوں روٹھ کر بغیر لنچ کے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ اس کا اثر اس کے پورے کنبے پر پڑا کیونکہ ان کی روزی روٹی کا معاملہ ہے ۔جس میں بوڑھی ماں کے علاوہ بیوی اور بچے تھے ۔ ان سیاحوں کو دوسری ہوس بوٹ میں جانے سے روکنے کے لئے خاندان مل کر آپس میں لڑنے جھگڑنے کا ناٹک کرنے لگے اور سب زور زور سے چلانے لگے۔ ایک دوسرے پر گالی گلوج تک کرنے کا ناٹک کرنے لگے ۔شور سن کر رابرٹ اور ان کی مسز ڈرائنگ روم میں واپس آکر رمضان سے شور شرابے کا وجہ پوچھا تو رمضان انہیں اس طرح جواب دیتا ہے۔اقتباس میں جواب پیش خدمت ہے :
“جناب آپ نے جو دو ہزار روپے مجھے دیے تھے ،ان کو میں بینک میں جمع کرنے جا رہا تھا ،وہ مجھے راستے میں کھو گیا ۔اسی پر ہم سب پچھتا رہے ہیں ” ۔
رابرٹ اور ان کے مسز نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے رمضان سے کہا کہ کل ہم خود تمہارے نام دوہزار بینک میں جمع کرا دیں گے ،تم جا کر ان سے کہہ دو کہ رونا پچھتانا بند کریں ۔
پورے چار مہینے رمضان کے ہوس بوٹ میں قیام کرنے کے بعد جب ان کے واپس جانے کا وقت آیا تو اُنھوں نے رمضان کو ائیر پورٹ تک اپنے ساتھ لے لیا اور رمضان کے ہاتھ میں ایک چابی تھمادی اور کہا کہ ہم نے تمہاری الماری میں ایک بکس رکھا ہے ۔یہ چابی اس بکس کی ہے ۔جو تمہارے پاس ہماری امانت ہے۔ اس کے بارے میں ہم وطن پہنچ کر تمہیں بتائیں گے ۔اب رمضان کو اس بکسے کو دیکھنے کا اشتیاق پریشان کرنے لگا۔ ایک دن اس نے بکس کھول کر دیکھاتو پتا چلا کہ اس میں ڈالر رکھے ہیں ۔ڈالر دیکھ کر وہ خوشی اور مسرت سے باغ باغ ہوا۔ اور اپنے گھر والوں سے کیا کہا ملاحظہ فرمایئے ہے ۔اقتباس
“وہ ایک دم کھڑا ہوا ،اور اس روم کا دروازہ بند کر کے ساتھ والے بوٹ میں آیا اور غلطان و پیچان ہو کر بوڑھی ماں اور بیوی سے مخاطب ہوا ،تم کھڑی کھڑی کیا دیکھ رہی ہو ،جاؤ خدا سے دعا مانگو کہ صاحب اور میم دوبارہ یہاں نہ آئیں ،تم آستانوں پر جا کر منت زاری کرو ،دونوں کہی مر جا ئیں ” ۔
شبنم قیوم کے ان افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ان افسانوں کے ذریعے کشمیر کی دیہی و معاشرتی زندگی میں رائج رسومات، تہذیب و ثقافت اوران کی دکھ درد کے ساتھ ہی ساتھ ہاوس بوٹوں میں رہائش پزیر باشندوں کے ذرائع معاش،ان کے پیسہ وصولنے کے مختلف حربوں اور یہان کے نوکری پیشہ سے تعلق رکھنے والے حضرات کی مشکلات کو ادبی انداز میں قارئیں تک پہنچانے کا بہتریں کارنامہ انجام دیاہے۔
Dr ISSA MOHD
Assistant Professor(contractual)
Department Urdu Kargil Campus
University of Ladakh
Mob.7051805659ا