آصفہ زینب
ریسرچ اسکالر ، جامعہ ملیہ اسلامیہ
شرؔر کی کردار نگاری ”فردوس بریں “کے حوالے سے
ناول کا مرکز انسان کی ذات ہے اور اسےتجربے ،مشاہدات اور تخیئل کی ہم آہنگی کے ذریعے لکھا جاتا ہے ۔دراصل انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں ،تاریخی اور رومانی ۔انسانی زندگی کا تاریخی پہلو اس کے اعمال و افعال سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کا رومانوی پہلو اس کے جذبات و احساسات سے روشن ہوتا ہے ۔ناول میں انسانی زندگی کا رومانوی پہلو پیش کیا جاتا ہے جبکہ تاریخی ناول میں انسانی زندگی کا تاریخی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔
تاریخ اور تخیئل یا افسانویت کا معتدل اور حسین امتزاج تاریخی ناول ہے۔ تاریخی ناول کا عہد رفتہ سے متعلق ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ عہد رفتہ گزرے ہوئے ایک سال سے ایک ہزارسال تک بھی ہو سکتا ہے ۔اسے چار یا پانچ سے مزید ضرب دی جا سکتی ہے یعنی جہاں تک تاریخ کی روشنی ماضی میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہے اور پھر اس سے بھی پیچھے۔
تاریخ ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنے، سوچنے اور یادوں کو محفوظ رکھنے کا عمل ہے ۔اس عمل میں عصر حاضر کے اضطراب کا ہاتھ ہوتا ہے۔انسان نا مساعد اور سنگین حالات زندگی سےبیزار ہو کر پرسکون زندگی گذارنے کی خواہش کرتا ہے۔اس کے دل میں جنم لینے والی یہی آرزوا سے ماضی کی دنیا میں لے جانے پر مجبور کرتی ہے۔
تاریخ میں واقعات و حالات کا ایک عظیم سلسلہ ہوتا ہے لیکن تاریخی واقعات ایک ہی مسلک میں مضبوطی سے پروائے نہیں جاتے بلکہ واقعات اپنے آس پاس کے دوسرے واقعات کے ساتھ ہم رشتہ ہوتے ہیں ۔مورخ ان کی پہچان کر اتا ہے ان کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان کے درجات کا تعین کرتا ہے اور ان کے باہمی رشتوں کی تلاش وہ جستجو کرتا ہے۔ تاریخی واقعات تغیر پذیر ہوتے ہیں اور دنیاوی حالات کے نشیب و فراز کے مرہون منت بھی۔
ناول کی کہانی اور اس کے کردار کی سیرت و شخصیت کو عصری زندگی کا جیتا جاگتا نمونہ ہونا چاہیے۔ ناول کے لیے حقیقت نگاری اور عصری زندگی سے موضوع کا انتخاب لازمی ہے۔تاریخ انسان کا رزمیہ ہے تو ناول عہد جدید کا رزمیہ ہیں ۔
تاریخی ناول نگار میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ماضی اور حال دونوں سے اوپر اٹھ کر تاریخ کے آفاقی کردار کو ڈھونڈ نکالنے اور موجودہ دور کے انسانوں کے لیے تاریخ کے آئینے میں اپنی شکل دکھا ناممکن بنا دے۔ لیکن یہ کام دشوار طلب ہے۔ تاریخی ناول نگار کو ہر قدم پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ مسائل ان ہی تاریخی ناول نگاروں کو درپیش آتے ہیں جو تاریخی ناول کو ایک اہم اور سنجیدہ صنف ادب سمجھتے ہیں محض قصہ گوئی کا ذریعہ نہیں ۔
ماضی کے سبھی واقعات تاریخ نہیں بن سکتے ،مورخ عہد گذشتہ کے ایسے واقعات کا مطالعہ پیش کرتا
ہے جن میں انفرادیت اور مخصوص چمک دمک ہوتی ہے۔ تاریخ کی دنیا غور و فکر اور مطالعہ کی دنیا
ہے۔مورخ ایسے ماضی کو پیش کرتا ہے جو حال میں بھی زندہ رہتا ہے۔
کردار نگاری ناول کا سب سے اہم عنصر ہوتی ہے۔ وہ ستون ہے جس کے سہارے ناولوں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ کردار نگاری بنیادی طور پر جذبات سے تعلق رکھتی ہے اور جذبات کے لیے انسانی نفسیات کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔
کردار نگاری ایک بہت ہی بنیادی اور دشوار طلب فن ہے ۔ یہ واقعہ نگاری اور قصہ گوئی دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ عام طور پر قصے میں دو طرح کےکردار آتے ہیں، کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے۔بڑےکرداروں میں ہیرو، ہیروئن اورویلن کا کردار شامل ہوتا ہے ۔ان کے علاوہ دوسرےکردارچھوٹےکرداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ہیرو ہیروئین کا کردار زندگی کے صالح ،تعمیری ،انسانی اور اعلی ٰ قدروں کی نمائندگی کرتا ہے اور ویلن کا کردار زندگی کے تخریبی، غیر صحت مند اور منفی پہلوؤں کا ترجمان ہوتا ہے۔ ان دونوں کردار کے تصادم سے واقعات سامنے آتے ہیں اور قصّہ آگے بڑھتا ہے۔
عبدالحلیم شرر کے ناولوں کے کردار کے متعلق علی احمد فاطمی اپنی کتاب ”عبدالحلیم شرر بحیثیت ناول نگار “میں کہتے ہیں:
”شؔرر کا میدان تاریخ ہے۔ تاریخ جسے انھوں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ صرف پڑھا ہے سنا ہے۔ اس لیے تاریخی ناول میں کردار نگاری کچھ زیادہ ہی مشکل شکل اختیار کر لیتی ہے ۔اس وجہ سےناول نگار اپنے ناول کے لیے صرف قصہ لیتا ہے۔اس میں کردار اکثر و بیشتر خیالی ہوتے ہیں۔ خیالی کردار کو حقیقی شکل دینا مشکل کام ہے ۔عام طور پر شؔر رکے بارے میں یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کے کرداروں میں جان نہیں ہوتی ۔ان کے تمام ہیرو ایک ہی خصوصیات کے مالک ہوتے ہیں۔ ہیروئین بھی ایک طرح کی ہوتی ہیں۔ہیروئین کے معاملے میں وہ پہلے سے ہی بہت سی باتیں طے کرکے چلتے ہیں۔ درمیان میں خواہ کیسے ہی ہادثے سے پیش آئیں ان کی شکلوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عام طور پر شؔر راپنے ناولوں میں تاریخی گہرائی نہیں پیش کرتے۔ ماحول نہیں پیدا کرتے وہ فضا نہیں بناتے جن کی وجہ سے کردار ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ایک ہی مقصد ایک ہی ماحول ہر جگہ ہو تو کردار بھی ایک سے رہتے ہیں“۔(ص 424)
عبدالحلیم شرؔر پہلے مصنف ہیں جنھوں نے اپنی کہانیوں کے لیے ناول کا لفظ استعمال کیا۔”فردوس بریں“( ٫1899 ) شؔرر کا شاہکاراور کامیاب ترین تاریخی ناول ہے ۔”فردوس بریں “دراصل فرقہ باطنیہ کی اسلام کے خلاف سازشوں کا احوال ہے۔اس کا موضوع حسن بن صباؔح کی بنائی ہوئی مصنوعی جنت اور فرقہ باطنیہ کے فتنہ پردازیاں ہیں۔ اس میں انھوں نے فرقہ باطنیہ کے سر گرمیوں پر تاریخی حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔ناول کے ضروریات کے تحت ناول نگار نے تاریخ میں ترمیم وتسنیخ کی ہےلیکن تاریخی مواد اور واقعہ کو سلیقے سے برتا ہے۔ اس میں پلاٹ، قصہ، کردار ،مکالمے،ماحول،منظر کشی ،جذبات نگاری اور فلسفہ حیات مل کر وہ آہنگ پیدا کرتے ہیں جو ڈرامائی ناول کا امتیازی وصف ہے۔ نا ول نگا رنے انتہائی خوبصورتی اور سلیقگی سے حسن بن صباؔح کی جنت کی تشکیل نو کی ہے۔
”فردوس بریں“ کا قصّہ فرقہ ٔباطنیہ پر منحصر ہے ۔فرقۂ باطنیہ حسن بن صباؔح کا لگایا ہوا پودا ہے جو پانچویں صدی ہجری میں دنیائے اسلام کے لیے ایک خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا ۔حسن بن صباؔح جواپنی سفاکی،فریب کاری اور ظلم کے لیے مشہور ہے ایک مصنوعی جنت بنائی تھی اور بھولے بھالے نوجوانوں کو فریب دے کر ان سے غلط قسم کے کام لیا کرتا تھا ۔اس کے ساتھ پورا ایک گروپ تھاجو اس طرح کے کام انجام دیا کرتا تھا ۔
فرقۂ باطنیہ کے حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر دو رومانی کردار کو جنم دے کر شؔر ر واقعات کی کڑیاں اس خوبصورتی سے جوڑتے چلے جاتے ہیں کہ قاری ہر وقت تجسس، حیرت اور دلکشی میں ڈوبا رہتا ہے۔باوجود اس کے کہ ناول کے سفر میں بعض جگہوں پر کھانچےاور رخنے ہیں لیکن قاری ان کو اسی انداز سے پسند کرتا ہوا لطف لیتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔
شرر نے ”فردوس بریں “میں طلسم باندھے اور طلسم کشائی دونوں مواقع پر منطقی انداز سے کام لیا ہے۔ناول کا آغاز ہی پر اسرارہے اور وہ اسرار کی کیفیات کو بتدریج بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ کہانی کا ارتقا٫ عام انداز سے ہوتا ہے اور عروج پر پہنچنے کے بعد قاری کا ذہن شک و شبہات میں مبتلا ہونے لگتا ہے۔ کہانی کی ابتداء سے لے کر انتہا تک دلچسپی کا عنصر اس کمال فن کے ساتھ برتا گیا ہے کہ قاری لمحہ بھر کے لیے بھی بے توجہ نہیں ہوتا ،ہر لمحہ تجسس بڑھتا جاتا ہے اور افشائے راز کو قبول کرنے لینے کے لیے قاری کا ذہن پوری طرح تیار ہو جاتا ہے۔ اس میں قاری کے تجسس اور اس کی یادداشت اور ذہانت کو ناول نگار الجھا ئے رکھتا ہے ۔اس میں کوئی نیا تجربہ نہیں لیکن مجموعی طور پر اس ناول کا پلاٹ ہر اعتبار سے کامیاب ہے۔
زمرّد اور حسین دو عاشق اور معشوق ہیں۔ وادی طالقان سے گزرتے رہتے ہیں۔ حج کرنے کے بعد شادی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس وادی میں زمرّد اپنے بھائی موسی کی قبر تلاش کرتی ہے جس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ پریوں کے غول کے ذریعہ مار ڈالا گیا ہے ۔آخر موسیٰ کی قبر مل جاتی ہے لیکن اچانک پریوں کا غول نظر آتا ہے اور ایک دھماکا ہوتا ہے ۔دونوں بے ہوش ہو جاتے ہیں اگرچہ یہ سب کچھ عجیب سا لگتا ہے لیکن ان سارے اعمال کو شر ؔرنے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے مثال کے طور پر اقتباس ملاحظہ کیجئے:-
”ناگہاں ایک پہاڑی کی ڈھلوسطح پر کچھ روشنی نظر آئی جس پر زمرّد کی نظر پڑی اور اس نے چونک کر کہا”یہ روشنی کیسی؟ حسین نے بھی اس روشنی کو کثرت تحیّرسے دیکھا اور کہا خدا جانے کیا بات ہے اور دیکھ ادھر بڑھتی چلی آتی ہے۔ اس رات کی تاریکی میں یہاں آنےوالے کون لوگ ہو سکتے ہیں“؟
دونوں عاشق و معشوق روشنی میں گھبرا کر اور ساعت بہ ساعت زیادہ متحیّر ہوکر دیکھ رہے تھے کہ وہ بالکل قریب آگئی۔ بڑی بڑی پندرہ بیس مشعلیں تھیں اور ان کے نیچے حسین پری جمال عورتوں کا ایک بڑا غول جن کی صورت دیکھتے ہی زمرّد اور حسین دونوں نے ایک چینخ ماری۔دہشت زدگی کے عالم میں دونو ں کی زبان سے نکلا ”پریاں“ !
اور دونوں غش کھاکر بےہوش ہوگئے“۔(ص14 ۔15)
زبان و بیان کی دلکشی ،خوبصورت منظر نگاری اور اسلوب بیان کے اعتبار سے ”فردوس بریں“ کے مقابلے میں ان کا کوئی بھی ناول نہیں ٹھہرتا بلکہ اس بنا پر ہی شرؔرکاءیہ کامیاب ترین ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔
کردار نگاری کے اعتبار سے بھی” فردوس بریں“ دوسرے ناولوں سے بدرجہ بلند ہے۔اس میں مرکزی کردار صرف حسین اور زمردکا نظر آتا ہے اور تمام کہانی انھیں کے گرد گھومتی ہے ۔دوسرے ضمنی کردار وں میں شیخ علی وجودی کا کردار اردو ادب کا شاہکار کردار ہے۔باقی دوسرے کرداروں میں موسیٰ، بلقان خاتون ،وغیرہ شامل ہیں ۔
زمرّد کہانی کا مرکزی کردار ہے اور ہیروئین کی حیثیت رکھتی ہے ۔وہ مستقل مزاج خاتون ہے۔اس کے میں کردار میں دلکشی ہے اور وہ اپنی عصمت و عفت کو بچانے کے لیے مصائب و آلام میں مبتلا ہوتی ہے۔ وہ جذباتی ہے لیکن غور و فکر سے کام لیتی ہے، دل کے ساتھ دماغ بھی رکھتی ہے۔اس کی شخصیت منفرد و ممتاز ہے۔جنت کی سیر کرنے والا ہر فدائی اسے یاد رکھتا ہے ۔تمام تکلیفوں اور ترغیبوں کے باوجود وہ حسین کی محبت میں ثابت قدم رہتی ہے۔ اس کے ثابت قدمی اور حسین کی سادہ لوحی سے باطنی بڑا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ زمرّد کو بھی آلہ کار بننا پڑتا ہے ۔زمرّد سے باطنیوں نے خطوط لکھوا کر حسین کو جس طرح چاہا موڑ لیا لیکن وہ خودا پنی میں زمرّد کو رام نہ کر سکے۔آخر میں زمرّد ہی کی ذہانت وفطانت اور تگ ودو سے جنت کا راز افشاں ہوتا ہے ۔اور اہل دنیا کو ان ظالم باطنیوں کے پنجہ ستم سے نجات ملتی ہے۔ حسین کہانی کا ہیرو اور زمرّد کا عاشق ہے ۔اس کے کردار کا پہلا تاثر یہ ہے کہ وہ محبت کا دلدادہ ہےاورمذہب کا شیدائی بھی ہے ۔لیکن ایک اچھے کردار کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ خیالات کے حوالے سے آزاد ہو ۔اس ناول میں حسین ایک بزدل کردار ہے ۔وہ مستقل مزاج اور باحوصلہ شخص نہیں بلکہ زمرّد کے مقابلے میں خوفزدہ سا ہے۔ کیونکہ موسی ٰ کی قبر پر جاتے وقت مرد ہونے کے باوجود زمرد سے زیادہ وہ خوف محسوس کرتا ہے اور پریوں کو دیکھتے ہی ڈر کے مارے بے ہوش ہو جاتا ہے ۔ساتھ ہی وہ آزاد اور خود مختار بھی نہیں ۔وہ اپنی سادہ لوحی کی بنا ٫پر اور زمرد کی محبت میں اندھا ہو کر شیخ علی وجودی کے ہاتھوں بالکل بے جان آلہ بن جاتا ہے ۔وہ شروع سے لے کر آخر تک بے جان آلے کی طرح حرکت کرتا ہے۔پہلے زمرد کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا ۔پھر شیخ علی وجودی کے ہاتھوں میں او آخر میں بلقان خاتون کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح حرکت کرتا ہے۔الغرض جو جدھر چاہتا ہے موڑ لیتا ہے جو کام چاہتا ہے اس سے کروا تا ہے ۔لیکن ز مرّد کے لیے اس کی محبت جنون کی حد تک ہے۔زمرّد کی محبت میں دشوار گذار مراحل طے کرتا ہے۔دلیرانہ اور حیرت انگیز کام بھی کرتا ہے جیسے۔ لوگوں کا قتل کرنا ، اس کی چلاکشی کو ہ جو دی کے ہیبت ناک غار میں صرف گھاس اور پتے کھاکر چالیس روزگزار لینا ،شہر خلیل کے تہہ خانے میں چلہ کشی ،شیخ علی وجودی کے دربار کے سخت اصولوں کی پابندی ان سب کی قوت زمرّد کی محبت عطا کرتی ہے ۔وہ نیک اور خداترس چچا کو بھی قتل کر ڈالتا ہے ۔ان تمام حیرت انگیز اور سنسنی خیز واقعات کے باوجود حسین کے کردار میں و ہ دلکشی نہیں جو زمرّد کی شخصیت میں ملتی ہے۔ جنت کی سیر اور زمرّ د سے جنت میں ملاقات محض احمقانہ خیالات ہیں۔بعض کمزوریوں کے باوجود حسین کا کردار حقیقت سے بہت قریب ہے۔ وہ محض افسانوی کردار نہیں ہے بلکہ اس کے کردار میں انسانی خوبیاں اور خامیاں ہیں ۔بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حسین کا کردار خوبیوں اور خامیوں کی آمیزش سے تیار شدہ کردار ہے۔اس کی اضطراری کیفیت ،سادہ لو حی، علم کے ساتھ جہالت اور خوش اعتقادی ، اپنی غلط حرکات پر پشیمانی نے اس کو عام انسان بنا دیا ہے۔
حسین کا کردار بحیثیت ہیرو ان کے تمام ناولوں کے ہیرو سے الگ ہے۔ حسین عام ہیرو کی طرح نہ تو بہادر ہے اور نہ پورے ناول میں اس کی خوبصورتی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ صرف وہ سیدھا سادہ مسلمان عاشق ہے جو اپنے معشوق کے لیے قتل جیسے جرم کو بھی انجام دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی قاری کا ہر دل عزیز ہے کیونکہ قاری اس کے اس جرم کے پیچھے کی وجہ جانتاہے اور یہی اس کردار کی خصوصیت ہے۔
زمرّد کا کردار”فردوس بریں“ میں عقل ،سمجھ بوجھ اور شرافت کے اعتبار سے حسین کے مقابلے میں زیادہ اہم مانا جاتا ہے۔حسین کے کردار کے بر خلاف زمرد کے کردار میں ہمیں دلکشی نظر آتی ہے ۔حسین جب اس کے بھا ئی کی قبر پر جانے سے ڈرتا ہے تو وہ اکیلے جانے کا فیصلہ کرتی ہے ۔پھر جس طرح ایک مکمل پلان کر کے فرقہ باطنیہ کی مصنوعی جنت کا راز فاش کرتی ہے وہ اس کے نڈر ،باحوصلہ اور دماغی استقلال کی نشانی ہے۔ اس کر دار کی خوبی یہ ہے کہ شؔرر اس کے حسن پر زیادہ توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی اسکے چہرے کے نقوش کا تفصیلی بیان لکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس کی حرکت سے رومان ٹپکتا ہے ۔وہ وفا ایثار کی پتلی ہے۔شیطانوں کے ہتھے پڑ جانے کے بعد بھی اپنی عصمت کو محفوظ رکھتی ہے اور انتہائی عقلمندی اور مستقل مزاجی کے ساتھ فرار کے راستے تلاش کرتی رہتی ہے۔ اس کے اسی ضبط و تحّمل کی وجہ سے اس کا کردار اپنے آپ رومان میں بھیگ جاتا ہے اور دلکش ہو جاتا ہے۔وہ حسین کو دل سے چاہتی ہے ۔وہ جذبات سے متاثر ہوتی ہے اور غور فکر سے بھی کام لیتی ہے۔یہاں تک کہ وہ فرقہ باطنیہ کی آلہ کار بھی بنتی ہے لیکن مجبوراً ،کیونکہ اس کے انکار سے حسین کی زندگی ختم ہو سکتی تھی ۔وہ حسین کو گمراہ کرنے والے خطوط بھی اپنے ہاتھوں سے لکھتی تھی ۔ لیکن وہ سب کچھ حسین کی زندگی بچانے کے لیے کرتی تھی ۔ہم کہہ سکتے ہے کہ زمر کا کردار ناول کا باہمت کردار ہے۔آخر میں وہ اپنی عقل و سوجھ بوجھ سے فرار کا راستہ بھی نکال لیتی ہے ۔حسین کو چپکے سے خط لکھتی ہےاور اسے ہر خط میں عمل کرنے کا جذبہ سکھاتی ہے کیونکہ اسی راستے سے فرار ممکن ہے ۔آخر کار صرف اس کی وجہ سے ہی اس فرقہ کا کام تمام ہوتا ہے۔
عبدالحلیم شرؔر کے ناولوں کے کچھ کردار ایسے ہیں جو ادب میں ہمیشہ زندہ ر ہینگے ۔جیسے ناول
”فردوس بریں “ میں شیخ علی وجودی کا کردار ہے ۔شیخ علی وجودی کی شکل میں پہلی بار اردو ناول کی تاریخ میں ایک ویلن اس قدر توانائی کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔یہ کردار قاری کے دل دماغ پر اپنے ایسے نقش چھوڑتا جس کو چاہ کر بھی قاری کسی صورت میں فراموش نہیں کرسکتا۔فرقہ باطنیہ کے دوسرے عیار اور چالباز اس کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں ۔اس کی علمیت ،مصنوعی تقدس ،اس کا جلال سب فنکارانہ ہے۔اس میں جو دبدبہ ،طنطنہ اور سفاکی ہے اس کی وجہ سے پورے ناول پر چھایا رہتا ہے۔ عبدالحلیم شؔرر کا مقبول ترین ناول ”فردوس بریں“ تاریخ کے ایک ایسے کردار کو ڈرامائی شکل میں ہمارے سامنے لاتا ہے جسے ہم حسن بن صباح ؔ کے نام سے جانتے ہیں۔ حسن بن صبا ح ؔ وہ کردار ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے زمین پر ایک جنت بنائی تھی اور بڑا دعویٰ کرتا تھا ۔اس ناول میں شؔر رنے اس جنت کا ذکر ڈرامائی انداز میں کیا ہے۔ شرؔر کے فن ناول نگاری کا نمونہ ”فردوس بریں “کے دو پیراگراف کے ذریعے پیش کر رہی ہوں:ـ
”حسین نے نہایت ہی جو ش وحیرت سے دیکھا کہ انہی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے“۔
لوگ پُرتکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دلفریب اور ہوش ربا کمسن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کے بے فکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں ۔خوبصورت ،خوبصورت آفت روز گار لڑکے کہیں تو سامنے سے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزگ کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اُڑ جاتے ہیں“۔(ص 60)
اس ناول میں شؔر رنے شیخ علی وجودی کے کردار کو اتنا بھاری بھرکم اورر عب دار بنا کر پیش کیا ہے کہ حسین جب پہلی بار شیخ علی وجودی سے ملتا ہے تو اس کی شخصیت کا رعب اور اس کے پر جلال چہرے کی چمک سے اس طرح سہم جاتا ہے کہ یہ ڈر اور رعب پورے ناول پر چھا جاتا ہے۔صرف حسین ہی نہیں سارے مرید اس کے ہاتھوں میں بے جان آلے بن جاتے ہیں۔وہ شکوک رفع کرنے میں مہارت رکھتا ہے ۔وہ مادی جسم کے ساتھ فردوس بریں میں جب چاہے سیر کرتا ہے ۔اس کی تعلیمات سادہ مگر عیارانہ ہوتی ہے۔پورے ناول میں علی وجودی کا کردار اپنی پراسرار شخصیت ،اپنے اعمال و افعال کی بناء پر ایک مکمل کردار کہا جاسکتا ہے۔
شیخ علی وجودیؔ شؔر ر کا کامیاب ترین کردار ہے۔ یہ اردو ناول کے چند لافانی کرداروں میں سے ہے ۔وہ قصہ میں نمودار ہونے کے بعد پورے قصہ پر چھا جاتا ہے ۔اسکی گفتگو ،حرکات و سکنات ،غیظ وغضب اور اس کی علمی تشریحات میں کامل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس کا مصنوعی تقدس ،اس کی علمیت و ہمہ دانی ،اس کا جلال ہر چیز فن کارانہ ہے۔ وہ باطنی تحریک کا روح رواں ہے ۔ اس کی منطق نرالی ہے لیکن بڑی کاری ہوتی ہے۔اس کا کمال یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں میں پہنچ کر ہر مرید بے جان آلہ بن جاتا ہے۔وہ مریدوں کے دل میں ابھرنے والے شک و شبہات رفع کرنے کی مہارت رکھتا ہے اور جہاں منطق ساتھ نہیں دیتی وہاں اپنی اداکاری سے کام لیتا ہے۔وہ منہ میں کف بھر لاتا ہے اور اپنے جلال سے مریدوں کو ساکت کر دیتا ہے۔اسکی نفس کشی اور ریاضت بھی صرف مریدوں کو مرعوب کرنے کی خاطر ہے۔اس کی اداکاری اتنی کامیاب ہے کہ مدتوں اس کے ساتھ رہنے کے باوجود اس کے مرید اس کےراز سے واقف نہیں ہوتے ۔وہ اپنے مریدوں کے دل دماغ پہ جاگزیں کر دیتا ہے کہ ”ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے “۔مرید کی نظر عموماًظاہر پر رہتی ہے ۔وہ باطن سے واقف ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔وہ جب مرید کو غضب ناک نظروں سے دیکھتا ہے تو مرید رعب و دبدبہ سے کانپ اٹھتا ہے۔ ،انہیں ”بحر وجود کا ناپاک قطرہ “کہہ کر پکارتا ہے ۔اس سے اس کی کمتری اور اس کی برتری ثابت ہوتی ہے۔”فردوس بریں “سے متعلق بڑے بڑے مکار ہیں لیکن سب کے سب شیخ علی وجودی کے سامنے طفل مکتب ہیں ۔شرؔر نے شیخ علی وجودی کے کردار میں وہ تمام مجرمانہ خصوصیات دکھائی ہیں جو فرقۂ باطنیہ قسم کے لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔
اس ناول میں موسیٰ نام سے ایک مردہ کردار بھی ہے ۔اس کے متعلق صرف اتنا معلوم ہے کہ یہ زمرد کا بھائی ہے اور اس کا پریوں کے ہاتھوں قتل ہوا ۔مردہ ہونے کے باوجود یہ کردار بے حد اہم ہے کیونکہ اسی کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے زمر د جاتی ہے اور وہاں پریوں کے ہاتھوں اغوا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بلغان خاتون کے والد چغتائی خان کا ذکر ہے ۔چغتائی خان کا قتل بلغان خاتون کے جذبہ انتقام کو ابھارتا ہے اور آخر میں فرقہ باطنیہ کے اسرار سے پردہ اٹھتا ہے۔اس طرح سارے کرادار کے ذریعے فرقہ باطنیوں کے مظالم سے دنیا والوں کو نجات مل جاتی ہے۔
اس طرح مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شرؔر کی کردار نگاری اپنے عروج پر پہنچ گئی۔شیخ علی وجودی جیسا لازوال منفی کردار تخلیق کرنے کے ساتھ زمرّد اور حسین وغیرہ کے ذریعے بھی انھوں نے اعلیٰ کردار نگاری کی مثالیں پیش کی ہیں اور ان کی بشری اور نفسیاتی جہات کو بڑی عمدگی کے ساتھ آشکار کیا ہے۔
***