You are currently viewing شفیق فاطمہ شِعرؔیٰ کی شاعری میں مقامی تہذیبی عناصر

شفیق فاطمہ شِعرؔیٰ کی شاعری میں مقامی تہذیبی عناصر

ڈاکٹر شیخ ریحانہ بیگم

(ڈاکٹر رفیق زکریا سینٹرفارہایر لرننگ اینڈ اڈوانسزڈ ریسرچ،روضہ باغ اورنگ آباد،مہاراشٹرا)

شفیق فاطمہ شِعرؔیٰ کی شاعری میں مقامی تہذیبی عناصر

         شفیق فاطمہ شِعرؔیٰ ایک متوسط تعلیم یافتہ گھرانے میں (۱۷؍مئی ۱۹۳۰ء ،ناگپورسہارنپور)پیدا ہوئیں ۔ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی جو عربی فارسی اور مذہبی علوم کی ماہر تھیں۔گھر میں کئی کتابیں تھیں جسے شِعرؔیٰ نے بچپن ہی میں پڑھ لیاتھا۔کلیات اکبرؔ آبادی اور انیسؔ کے مرثیے پڑھ چکی تھیں۔ قرآن حفظ کیا تھا۔ان کے نانا سرکاری ملازم تھے۔دادا اور چچا بھی تحریک آزادی سے جڑے تھے۔والد مخلوط تعلیم کے خلاف تھے۔والدہ ظفر النساء بیگم علم کی دلدادہ اور ایک اچھی شاعرہ تھیں۔لیکن ان کا کلام کبھی شائع نہیںہوا۔وہ لڑکیوںکو تعلیم دینا چاہتی تھیں۔ شِعرؔیٰ نے عالم وفاضل کا امتحان پاس کیا۔عربی ،فارسی،قرآن و حدیث کی تعلیم والدہ سے حاصل کی ۔انھیں شاعری سے لگائو تھااور عربی کے بے شمار اشعار یاد تھے۔ شِعرؔیٰ جس ماحول میں بڑی ہوئیں انھیں دومتضادمسلکوں سے واسطہ پڑاایک طرف نانا مذہبی جلسوںمیں تصوف کے خلاف بولتے تو دوسری طرف دادا تصوف کے حامی تھے۔گھر میں تصوف کا سرمایہ موجودتھاگھرمیںجب دینی بحثیں ہوتیں توشعریؔبھی اس میں حصہ لیتیں اور دلائل سے اپنی بات منواتیں۔شِعری نے رامائن ،مہابھارت، گیتا (مراٹھی)میں پڑھیں اور حافظ و رومی و سعدی کی شاعری کا مطالعہ کیا۔عربی کے سبعہ معلقات(سات شِعراء جن کا کلام عہد جاہلیت میں کعبہ کی دیوار پر لگایا جاتا تھا۔)سے بے حد متاثر تھیں۔عربی کی بحروں سے واقف تھیں لہٰذا ان کی شاعری میں عربی بحروں کا بھی استعمال جابجاملتاہے۔شعریؔنے کئی انگریزی نظموں کے تراجم کئے۔۱۹۴۸ء میں ناگپور سے اورنگ آباد ہجرت کی ۔میٹرک پاس کیا ،بی اے اور ایم سے فراغت حاصل کی۔ابتداء میں اسکول میں ملازمت اختیار کی ۔ایم سے کرنے کے بعد آزاد کالج اورنگ آبادمہاراشٹرا میں لکچرر کے عہدہ پر فائز ہوئیں۔ان کی شاعری کرنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ایک طرف اورنگ آباد میں ان کے گھر قاضی سلیمؔ،وحید ؔاختر،فضیلؔ جعفری،صفیؔ الدین صدیقی وغیرہ شِعراء ادباء کی نشستیں ہوتیں تو دوسری طرف اورنگ آباد کے بزرگان دین ، اجنتا ایلورہ کی گپھائیں،قدیم تہذیبوں کے آثار اور اورنگ آباد کےشِعراء (ولی ؔ،سراؔج،صفیؔ،وجدؔ،قاضی سلیمؔ،بشرؔنواز،قمر اؔقبال)نےانھیں متاثر کیا۔۱۹۶۵ء میں شادی کے بعد اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوئیں۔سسرال کا ماحول روایتی تھا لیکن شعریؔنےایک فرض شناس مشرقی خاتون کی طرح بچے اور گھر کی ذمہ داری کو بخوبی نبھایااور شاعری کرتی رہیں۔بیس برس کی عمر سے شاعری کررہی تھیں۔پہلی نظم ’’نذرانہ‘‘بڑی بہن کنیز فاطمہ کے لئے لکھیں۔شفیق فاطمہ شعرؔیٰ ایک ایسی شاعرہ ہیں جس نے تاریخ مذہب اور مختلف زبانوں کےشِعراء کے کلام کوذمہ داری سے پڑھا،سمجھااور اپنی شاعری میں اس سے استفادہ حاصل کیا۔قدیم ہندوستانی تاریخ و تہذیب سے آگاہی ان کی نظموںمیں دکھائی دیتی ہے۔شفیق فاطمہ شعرؔیٰ نے اقبال کی نظموں کا منظوم ترجمہ بھی کیا جس کا اثران کی شاعری میں جابجا دکھائی دیتا ہے۔

         کسی فنکار کے احساسات جب فکروفن کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو تہذیب از خود درآتی ہے۔ یہ سانچے کسی بھی شکل میں ہوسکتے ہیں چاہے مصوری ہو، سنگتراشی ہو،موسیقی ہو یا ادب۔ ادب فنون لطیفہ کی وہ شاخ ہے جس نے تہذیب کےتمام فنون کو اپنے بطن میں سمویا ہے۔گویا تہذیب کا اصل وسیلہ زبان ہے ۔ تہذیب دراصل تاریخ اور اس کے بدلتے نقش و نگار کو اپنے اندر سموتی ہے۔زندگی گزارنے کاطریقہ وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہےزبان کی طرح تہذیب بھی بدلتی ہے ۔ہماری تہذیب وزبان صوفی،سنتوں (تصوف اوربھکتی تحریک ) سے متاتر رہی۔ان صوفی سنتوں نے مختلف تہذیبوں کے اشتراک سے کام لیا۔ صوفی سنتوں کا مذہب (دین وایمان) عشق رہا۔شاعر وادیب کے احساسات اسی وقت فکرو خیال کی منزلیں طے کرتےہیںجب ان میں انسانی محبت کا جذبہ ہو۔محبت کا جذبہ شاعری کا اصل جُز ہے۔شاعری کی تمام اصناف میں محمد قلی قطب ؔشاہ سے لے کر میراؔجی تک اور پھر دکنی شعراء ہو یا شمالی ہند کے ان کی شاعری میں محبت اور اتحاد کا پیغام موجود ہے۔ قلی قطب ؔشاہ کی ہولی، بسنت، دیوالی،شبِِ برات والی نظمیں ہوں یا جرأتؔ،فایزؔ کی نظمیں ہوں ، یانظیر ؔکی آدمی نامہ اور بنجارہ نامہ جیسی نظمیں ہوں۔شاعروادیب اپنے آس پاس کے ماحول اور تہذیبی اقدار غرض انسان کا ہر وہ عمل جو اس کی زندگی سے متعلق ہو رقم کرتے ہیں پھر وہ عشق ومحبت کی داستان ہو،قدرت کے حسین مناظر ہوں، اجڑتے لہلہاتے کھیت کھلیان ہوں ، یاموسم وتہوارہوں۔اردو ادب کا رشتہ دیگر ادبی روایات سے رہا۔مغلوں کی حکومت کے سبب فارسی کا اثر اردو پر پڑااور فارسی زبان خود عربی سے متاثر رہی۔ اسطرح ہندوستانی تہذیب پر بیرونی اثرات کا ایک ملا جلا رنگ شامل رہا جسے مشترک تہذیب کہا گیا۔

          سر زمین دکن کی شاعرات میں لطف النسا امتیازؔ، مہ لقا چنداؔ کے بعددکن کی جدید اردو شاعری میں شفیق فاطمہ شعرؔ یٰ کا نام سر فہرست ہے۔شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کی پہلی مطبوعہ نظم ’’فصیلِ اورنگ آباد‘‘ ہے۔جو1953میں شائع ہوئی۔ اس نظم میں سرزمین اور نگ آباد سے وابستگی اور محبت کا اظہار ہے ۔ماضی کی گم گشتہ فضائوں کی تلاش ہے۔ اداس ویران کھنڈر انہیں گزرے حکمرانوں کی یاد دلاتے ہیں۔اور اسی طرح زندگی کے تندوتیز ہوا کے جھونکے نئی حسرتیں اور امنگیں پیدا کرتے ہیں۔کھنڈرات کے پرسکون ماحول کے ذرے ذرے سے  بوئے عشق آتی ہے۔ایک طرف کھیتوں کی خوشگوار ہریالی، چڑیوں کی چہچہاہٹ دلوں میں نغمے پیدا کرتی ہے تو دوسری جانب ہزاروں مکان، اسپتال، ،چمنیوں سے اگلتا دھواں، روگ اور آرزوئیں ہیں ،پہاڑوں کی حصار بندی اور گپھاوں کی سحر کاری اور حسن جاوداں شاعرہ کومتاثر کرتاہے۔اجنتا کے غاروں کا بیان دیکھیے:

          گونجتا ہے غاروں میں ساز دل کازیروبم

         بربط عقیدت پر نغمہ نشاط و غم

         سرد سرد کچھ آہیں گرم گرم کچھ انفاس

         مرتعش ہے ہر جذبہ منعکس ہے ہر احساس

         ضرب تیشہ کی اب بھی آرہی ہے اک آواز

         کہہ رہا ہے صدیوں کے سوز وساز کااعجاز

         ہم نے فتح کے پرچم رفعتوں میں لہرائے

         تیرگی میں بھی مشعل لے کے ہم اتر آئے

         (فصیل اورنگ آباد۔ گَلَّۂ صفورہ ۔ شفیق فاطمہ شعرؔیٰ۔مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ۔صفحہ23-(

اسی طرح دلرس کے کنگن کی خوبصورتی ملاحظہ ہو:

         دیکھنا وہ دلرس کے ہاتھ کا حسین کنگن

         جگمگا اٹھا جس سے کوہسار کا دامن

         جیسے شمع جلتی ہوشام کے اندھیرے میں

         جیسے چاند ہو محصور بادلوں کے گھیرے میں

         جوئے شیر کا جیسےپربتوں میں نظارہ

         جیسے خشک صحرا میں پھٹ رہا ہو فوارہ

)فصیل اورنگ آباد۔ گلَّۂ صفورہ ۔ شفیق فاطمہ شعرؔیٰ۔مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ۔صفحہ24-(

دلرس کے کنگن کو کوہسار کے دامن میںشام کے اندھیروں میں جلتی شمع سے،بادلوں میں جگمگاتے چاندسے، پہاڑوں سے نکلتی جوئے شیر اورخشک صحرا میں فوارے کےپھٹنے جیسے حسین فطری مناظرسےاس طرح تشبیہ دی ہے کہ منظر آنکھوں کے سامنے آجاتاہے ۔کھیتوں کی سرسبزی وشادابی کو کچھ اسطرح بیان کیاہے:

          ایک سمت کھیتوں کی خوشگوار ہریالی

         فرط سر خوشی سے ہے پتی پتی متوالی

         ننھی ننھی چڑیوں کے دل یہاں بہلتے ہیں

         کھیت کی خوشی سے زمزمے ابلتے ہیں

         کاشتکار کے دل کے سب دبے چھپے ارماں

         ان حسین خوشوں کی گودیوں میں پلتے ہیں

         ایک ہوا کے جھونکے سے کھیت ہوگئے ترچھے

         جھک کےپھر وہ اٹھتے ہیں

         گر کر پھر سنبھلتے ہیں

         پھوٹتے ہیں آنکھوں سےتازگی کے سرچشمے

         جاگ اٹھتے ہیںدل میں کچھ نئے نئےنغمے

         )فصیل اورنگ آباد۔ گلَّۂ صفورہ ۔ شفیق فاطمہ شعرؔیٰ۔مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ۔صفحہ22-(

پتیوں کا متوالاپن، چڑیوں کا دل بہلنا،کاشتکاروں کے دبے چھپے ارمان کا خوشوں کی گود میں پلنا اور ہوا سے کھیتوں کے جھک کر اٹھنے کا منظر قاری کے ذہن و دل میں تازگی پیداکردیتا ہے ۔منظر نگاری اور پیکر تراشی کے متحرک اور غیر متحرک نمونے ان کی دیگر کئی نظموں میں موجود ہیں جو قاری کے احساس کو بیدار کرتے ہیں۔ نظم’’فصیل اور نگ آباد‘‘ تہذیبی آثار کی ایک عمدہ مثال ہے۔اس نظم میں اورنگ آباد کی جامع مسجد ،غار ہائے اجنتا کا جاودانی فن اور اطراف و اکناف کی بستیاں، کھیت کھلیان ،بی بی کے مقبرہ کا ذکرشاعر کی اپنی مٹی سے محبت کو بیان کرتا ہے۔’’خلد آباد کی سرزمین‘‘  ،  ’’ایلورہ‘‘  ،  ’’شفیع الامم ‘‘  اور  ’’یادِ نگر‘‘جیسی نظموں میں مناظر فطرت کی حسین عکاسی دلکش فضا کو قائم کرتی ہے۔تخیل کی یہ پرواز ان کے عمیق مشاہدے کی دین ہے۔نظم ’’ایلورہ‘‘میں سکونِ دلِ گوتم کی تلاش ہے جس کی بند آنکھوں سے سرور ازلی جھلکتا نظر آتا ہے اور جہاں کی فضائوں میںشعریؔکو فرشتوں کے پروں کی آواز سنائی دیتی ہے۔یہ ہنگامہ خیز دنیا جہاں گیس اور بارود کی بدبو سے فضائیں مسموم ہیں۔یہاں ظالم اور مظلوم،حاکم اور محکوم نظر آتے ہیںانسان نہیںلیکن ایلورہ کے یہ غار انسانوں کو مسرت اور سکون بخشتے ہیں۔اس نظم کا آخری بند ملاحظہ ہو:

         تشنہ لب عہد کو کیا کیا ہیں تقاضے مجھ سے

         اور خاموش ہوں میں

         میرے شیشے میں ہیں خونیں آنسو

         حوصلوں ،آرزوئوں اور امنگوں کا لہو

         یہ ندامت مجھے آبادی سے

         دور ویرانوں میں لے آتی ہے

         دیپ غاروں میں جہاں جلتے ہیں

         اور فطرت کے سکوں زار میں

         نغمات حسیں پلتے ہیں

)فصیل اورنگ آباد۔ گلَّۂ صفورہ ۔ شفیق فاطمہ شعرؔیٰ۔مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ۔صفحہ30-(

         شفیق فاطمہ شعرؔیٰ سماجی ،ثقافتی اور تہذیبی واقعات کو تاریخ کا حصہ مانتی تھیں۔وہ خود تاریخ نویسی کے جدید فن و نظریات سے واقف تھیں۔کلیات میں ایسی کئی نظمیں موجودہیں جس میں تاریخی واقعات کو علامت و استعارہ کی مدد سے پیش کیا گیا ہے۔گوتم بدھ ، سیتا،مریم صدیقہ،رابعہ تابعہ،بانوئے فرعون،اجنتا ،ایلورہ ہوں یا خلدآباد کے صوفیائوں کی سرزمین سبھی ان کے عنوانات رہ چکے ہیں۔مذہبی واقعات ،مذہبی اساطیر اور شخصیات کو نئے فکر کا پیرہن عطا کرتی ہیں۔انسانی اعلیٰ اقدار، فنا اور بقاکے فلسفے کی بہترین عکاسی ان کی نظموںمیں موجود ہے۔نظم ’’زوالِ عہدِ تمنا‘‘میں قرآنی اور ہندو اساطیر کا ذکر ہے۔حضرت ابراہیمؑاور حضرت اسماعیلؑکا معجزہ،،موسیٰؑکا واقعہ اوریوسف ؑ کا ذکرہے۔نظم’’ مریم صدیقہ ‘‘میں حضرت مریم کے واقعہ کو بیان کیا ہے جس میں وہ بی بی مریم ؑ  کو ’’افتخارکنبۂ آدم ‘‘قرار دیتی ہیں۔

         مریم صدیقہؑ نے تصدیق کی کلماتِ رب کی

         اور سچائی پہ آیاتِ صحائف کی بھی دی

         سچی گواہی

                  )مریم صدیقہ ۔سلسلۂ مکالمات:ص۔۱۶۵(

 وہ ان کرداروں کے ذریعے کئی سوالات کھڑا کرتی ہیں اوران کے جوابات تلاش کرتی ہیں۔محمد حسین لکھتے ہیں کہ:

         ’’اردو شاعری کی روایت میں شفیق فاطمہ شعرؔیٰ نے اساطیر،مذہبی تلمیحات کا استعمال کرکے ایک نئی حسیت سے روشناس کروایا ۔اس طرح کا استعمال عام قاری کے لئے مبہم اس لئے ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے مذاہب کا مطالعہ ،اساطیر سے واقفیت اور گہرے علمی و ادبی شعور کی ضرورت ہے ‘‘

)شفیق فاطمہ شِعرؔیٰ کی شاعری میں مذہبی حوالے:محمد حسین ۔ترجیحات(آن لائن)ادب فن اور ثقافت(

         تذکیر و تانیث کی بحث سے بعید شفیق فاطمہ شعرؔیٰ نے عورتوں کے مسائل کو محسوس کیا  وہ بحیثیت شاعر خود اس بات کی معترف تھیں کہ شاعری پر مرد اور عورت کا لیبل نہیں لگا یا جاسکتا ۔شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کے یہاں نسائی حسیت تو موجود ہے لیکن تانیثیت کی شدت پسندی یا مرد اثاث معاشرہ کے خلاف بغاوت نہیںہے ۔ دیگر خواتین شاعرات کے مقابلے نہایت سنجیدہ اور لطیف پیرائے میں وہ اپنے احساسات کو پیش کرتی  ہیں۔ قاضی سلیمؔ نے شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کوپہلی نسائی آواز قرار دیا۔’’گلّۂ صفورہ ‘‘کے گِرد پوش پر قاضی سلیمؔ نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے کہ :

’’شفیق فاطمہ شعرؔیٰ اردو شاعری کی پہلی نسائی آواز ہے جس نے الفاظ کو صیقل کرکے ایسا پادرشی بنا یا ہے کہ اس کی ہر بات ماورائی لگتی ہے ۔‘‘

                           ) شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کا شِعری کینوس اور نسائی حسیت۔قمر جہاں(

قمرجہاںلکتھی ہیں:

’’ان کے لہجے پر عرب شاعروں کے عشقیہ کابھی اثر ہے لیکن جو چیز انھیںممتاز کرتی ہے وہ ان کی افسردگی آمیز تفکر ہے۔اس افسردگی میں کھوکھلے رجائیت سے زیادہ ایمان افروز کیفیت ہے۔دوسری خصوصیت جو انھیں تمام خواتین شعراء سے ممتاز کرتی ہے ان کا نسائی لب  و لہجہ ہے۔‘‘

(شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کا شِعری کینوس اور نسائی حسیت۔قمر جہاں)

شفیق فاطمہ شعرؔیٰ نے ہندوستان کی عظیم خواتین اور مذہبی موضوعات کے تحت نسوانی احساسات کو پیش کیا۔نظم ’’سیتا‘‘میں نسائی حسیت اور دردو کرب کو سیتا کی علامت کے طور پر پیش کیا ۔وہ سیتا کی عظمت اس کی پاک دامنی ،حوصلہ مندی اور وفا شعاری کا اعتراف کرتی ہیں ۔یہ نظم آج کی عورت کا استعارہ بن جاتی ہیں۔نظم کا آخری بند ملاحظہ ہو:

         صلیب ایک باقی جو تھی مامتا کی

         اسے بھی لازم تھا تنہا اٹھانا

         عجب ہیں یہ اسرار و صل و جدائی

         کہ منزل کو پاکر بھی منزل نہ پائی

         یہ کیسا ستم تھا کہ عفت کی دیوی

         ثبوت اپنی عفت کا دینے کو آئی

         وہ شعلے کی مانند شعلوں سے گزری

         وہ بجلی سی بن کر زمیں میں سمائی

 (’’سیتا‘‘گلہ صفورہ،شفیق فاطمہ شِعرؔیٰ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،ص۔39)

اسی طرح نظم’’اسیر‘‘میں عورت کی اسیری کو علامتوں اور استعاروں کے توسط سے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

         افق کے سرخ کہرے میں کہستاں ڈوبا ڈوبا ہے

         پکھیرو کنج میں جھنکار کو اپنی سموتے ہیں

         تلاطم گھاس کے بن کا تھما،تارے درختوں کی

         گھنی شاخوں کے آویزاں میں موتی سے پروتے ہیں

         سبھی سکھیاں گھروں کو لے کے گاگر جاچکیں کب کی

         دریچوں سے اب ان کے روشنی رہ رہ کے چھنتی ہے

         دھنواں چولھوں کا حلقہ حلقہ لہراتا ہے آنگن میں

         اداسی شام کی اک زمزمہ اک گیت بنتی ہے

(’’اسیر‘‘گلہ صفورہ،شفیق فاطمہ شِعرؔیٰ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،ص۔66)

         گائوں میں شام کا دھندلکا، پکھیرو ئوںکی آواز،گھروں سے چھن کر آتی ہوئی روشنی۔پن گھٹ سے گھاگر بھرکر لانے کاذکر، چولھے پر عورت کے کھانا پکانے اوردھویںکا حلقہ بن کرلہرا نے کادیہاتی منظربیان کیا گیا ہے، یہ حلقہ عورت کے لئے حلقۂ زنجیر ہے جس میں وہ اسیر ہے۔شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کے شاعری کے ایک مجموعہ کا نام گلہ صفورہ ہے اور اسی مجموعہ میں ایک نظم کا عنوان بھی’’گلہ صفورہ‘‘ہےاس نظم میں قرآنی واقعے کا سہارا لے کر عورت کی بے بسی کا اظہار کیا گیا ہے (صفورہ حضرت شعیبؑ کی بیٹی کا نام ہے۔ حضرت شعیبؑ نہایت بوڑھے اور ضعیف ہوچکے تھے وہ نابینا تھے ان کی بیٹیاں بھیڑ بکریوں کی نگرانی کرتی تھیں۔مدین کےمقام پر حضرت موسیٰؑ نے دیکھا کہ بہت سے چرواہے پانی کھینچ کر اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اوریہ دولڑکیاں اپنی پیاسی بھیڑوں کو پانی پلانے سے رکی ہوئی ہیں۔حضرت موسیٰؑ کے دریافت کرنے پر لڑکیاں بتاتی ہیں کہ وہ اس وقت تک پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ لوگ اپنے مویشیوں کو پانی نہ پلالیں۔چشمے پر بھاری سل رکھی ہوتی ہے جسے ہٹانالڑکیوں کے لئے مشکل ہوتا تھا۔حضرت عمرؓ کے بیان کے مطابق اس کنویں کو چرواہوں نے ایک بڑے پتھر سے بند کردیا تھا جو لڑکیوں سے نہ ہٹ سکتا تھا۔حضرت موسیٰؑ  سل کو ہٹاکر بکریوں کو پانی پلا دیتے ہیںبا لآخر انہی میں سے ایک لڑکی صفورہ سے ان کا نکاح ہوجاتا ہے۔)دراصل یہ واقعہ بھی عورت کی بے بسی کی طرف اشارہ کرتاہےبشر ؔنواز نےاس نظم کی خوبصورت توضیح یوں کی ہے:

’’صفورہ کا گلہ اور اس کے بے زبان جانور،عورت کے احساسات و جذبات بے زبان جانوروںکی طرح اپنی پیاس کا احساس تو دلا سکتے ہیں لیکن ان کی تکمیل کا راستہ نہیں پاسکتے کیوں کہ چشمہ ٔ حیات پر ایسی سل رکھی ہے جسے ہٹانے کی طاقت ان کے پاس نہیں ہے۔گو بے قرار پیاسے ارمانوں کو یہ احساس نہیں کہ ’’راہ میں سنگ گراں ہیں‘‘لیکن صفورہ جو نظم میں نسائیت کی علامت ہے خوب جانتی ہے کہ اس کا مدین ابھی بہت دور ہے۔عورت کو ابھی اس کا صحیح مرتبہ و مقام نہیں مل پایا ہے اور وہ آج بھی چشمۂ حیات کے کنارے اپنی پیاسی آرزوئوں اور بے تاب امیدوں کا گلہ لئے گھڑی ہیں۔‘‘

(بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب،ترتیب و انعقاد: عتیق اللہ،ماڈرن پبلشنگ ہائوس،ص۔342)

         نظم’’جب بھی سحر آئی‘‘میں انبیاء کرام کا بیان ہے کہ جب بھی رسولوں اورنبیوں کی آمد ہوئی انسان نور سے منور ہوتے رہے۔نظم ’’مجذوب‘‘ میں حضرت خضر ؑ اور موسیٰ ؑ کا قرآنی واقعہ مذکور ہے۔نظم خوابوں کی انجمن میں شفیق فاطمہ شعرؔیٰ گزرے زمانے کی باز یابی کے خواب دیکھتی ہیں اور ہندوستان کی عظیم تاریخی ہستیوں ٹیپو سلطان،رانا پرتاب کا ذکر کرتی ہیں اور سنہرے مستقبل کی خواہاں ہے۔ شفیق فاطمہ شعرؔیٰ نے عربی ،فارسی الفاظ کے ساتھ ہندی کے لطیف لفظوں کا بھی استعمال کیا ہےجیسے پن گھٹ،دھنک،پھلواری،بسنت،سکھی، پجارن وغیرہ وغیرہ۔ہندی لفظوں کا استعمال بدھ اساطیر، ہندواساطیر خالص ہندوستانی تہذیب کے آئینہ دار ہیں۔

         شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کے فقروں،محاوروں اور ان کی نظموں کی نشست پر عربی آمیز ہونے کا گمان ہوتا ہے بلکہ اکثر و بیشر مقامات پر یہ واقعتاً عربی آمیز ہیں۔اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کوعربی اور فارسی دونوں ہی زبانوں کے ادب سے نہ صرف دلچسپی رہی بلکہ انھوں نے ان زبانوں کی شعریات کو انگیز بھی کیا۔اگر ہم شعریٰ کی فارسی اور عربی آمیز لب و لہجہ پر بات کریں تو یہ ایک طویل بحث کا موضوع بن جائے گا۔لہٰذا زیر نظر مضمون میں ان عناصر کا ذکر کیا گیا ہے جو مقامی تہذیب سے ماخوذہیں۔شفیق فاطمہ شعرؔیٰ کی شاعری میں اتنے رنگ ہیں کہ ان کی نظموں کا احاطہ کرناناممکن ہے۔تاریخ ،مذہب ،فلسفہ، اساطیر ،نسائی مسائل، تلمیحات کا استعمال قاری کے لئے حظ کا باعث تو بنتا ہے لیکن قاری کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ کلام کی گہرائی و گیرائی تک پہنچنے کے لئے ان اساطیر اور تلمیحات کا بخوبی علم رکھتا ہو۔

تعارفی خاکہ :شفیق فاطمہ شِعرؔیٰ

نام :     شفیق فاطمہ شعرؔیٰ،پیدائش۱۷؍مئی ۱۹۳۰ء ،ناگپور (سہارنپور)

والد:    سید شمشاد علی(علی گڑھ سے بی اے ،تاریخ سے ایم اے)

والدہ:   ظفرالنساء(جوخود شاعرہ تھیں لیکن کلام شائع نہیں ہوا)

پر دادا:   سید قاسم شاہ(افغانستان سے ہندوستان آئے تھے)

نانا:     (محکمۂ تعلیم سے وابستہ تھے اور تحریک آزادی میں شریک شہریوںمیں نام لیا جاتا ہے )

بہنیں:  انیس فاطمہ،کنیز فاطمہ،ڈاکٹرذکیہ عابدی(انگریزی میں نظمیں لکھیں جو اکثر رسالہ  mirror  میں شائع ہوا کرتی تھیں۔

بھائی:    راجہ غضنفرعلی(مدرس ،طنزومزاح نگار)،سلمان علی(موظف الیکٹریکل انجینئر)

بیٹے:    واصف اللہ،اکرام اللہ،ثناء اللہ(تینوں آرکیٹیٹ ،فارمیسی،کمپیوٹر سائنس سے جڑے ہوئے ہیں )

ایوارڈس:         غالب ایوارڈ،

مجموعۂ کلام:       گلۂ صفورہ(غزل،قطعات اورنظموں کا مجموعہ)۱۹۹۰ء،آفاق نوا(نظموں کا مجموعہ)۱۹۸۷ء،سلسلۂ مکالمات ۲۰۰۶ء،عکس نغمہ

(تراجم):اسپین کے شاعر  Juan Ramon Jimener کی نظموں کا ترجمہ۔،آئینہ ،صبا،سوغات،شاعر،شعروحکمت، شب خون رسائل میںشعریؔکا کلام چھپتا رہا۔

***

Leave a Reply