You are currently viewing شمس الرحمن فاروقی کا افسانہ ’سوار‘ دہلوی تہذیب کا بیانیہ

شمس الرحمن فاروقی کا افسانہ ’سوار‘ دہلوی تہذیب کا بیانیہ

 

اسلم مصباحی

شمس الرحمن فاروقی کا افسانہ ’سوار‘ دہلوی تہذیب کا بیانیہ

اولاًتہذیب کے حوالے سے سید ضمیر حسن دہلوی کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں:

’’تہذیب کمہار کے آوے کی طرح انسانیت پر جو رنگ چڑھاتی ہے پختہ چڑھاتی ہے،تہذیب کا تعلق لطیف معروضی عقائد اور سنجیدہ ذہنی اقدار سے ہے ۔ تہذیب ظاہر میں نہیں باطن میں تبدیلیاں لاتی ہے۔ اسی لیے تہذیب کا درس نامعتبر نہیں۔ تہذیب ریاکار نہیں ،زمانہ ساز نہیں۔ دلی کی تہذیب کا یہ اثر تھا کہ اس نے ہمیشہ نیک نیتی،بھلمنساہی،شرافت نفس اور انسانیت کو فروغ دیا۔ دلی ایک دن میں نہیں ،ایک سال میں نہیں، ایک صدی میں نہیں قرنوں میں بنی تھی اس لیے اس کا جادوئی اثر بھی دیر پا اور دائمی تھا۔ ‘‘

(سید ضمیر حسن دہلوی: غالب کی دلی،ص۱۱،تاج پبلشردہلی۔1977)

شمس الرحمن فاروقی کی تخلیق کردہ کہانی ’سوار‘ ۵۱/صفحات پر پھیلی ہوئی ہے،اس کی اشاعت ’شب خون ‘شمارہ نمبر 222 بابت ماہ دسمبر 1998میں ہوئی۔فاروقی نے اسے ’عمر شیخ مرزا‘ کے فرضی نام سے شائع کیا جو در حقیقت مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے والد کا نام ہے۔ ــ’غالب افسانہـ‘ کی اشاعت کے بعد بینی مادھو رسواؔ کو جاننے کے لیے لوگوںمیں کافی بے چینی رہی،کچھ لوگوں نے تو پہچان ہی لیا تھا لہذا فاروقی نے نام بدل لیا ،حالانکہ عمر شیخ مرزا بھی زیادہ دیر تک چھپے نہ رہے۔گیان چند جین ،نیر مسعود،عابد سہیل اور دوسرے کچھ احباب نے پہچان لیا کہ یہ کام شمس الرحمن فاروقی کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔واضح ہو کہ فاروقی نے اس کے علاوہ ۹/افسانے اور تخلیق کیے ،جو جاوید جمیل اور شہرزاد کے فرضی نام سے شائع کیے گئے جس میں جدید تخلیقی رویوں کی پیشکش نظر آتی ہے۔لیکن متذکرہ بالا افسانوں کو وہ شہرت اور پذیرائی نہ مل سکی جو ’غالب افسانہ،سوار،آفتاب زمیں، ان صحبتوں میں آخر‘ کو حاصل ہوئی۔چونکہ یہ افسانے ہمارے کلاسیکی ادب اور ہند اسلامی تہذیب کی عکاسی کرتے تھے،ساتھ ہی اردو ادب کے یکتائے روزگار ،استاد شعرا کے حالات و کوائف پر روشنی ڈالتے ہیں، اسی سبب ان افسانوں میں مزید جاذبیت پیدا ہو گئی ہے۔اردو ادب اور ہند اسلامی تہذیب سے دل چسپی رکھنے والا ہر شخص ان افسانوں کی کہانی،زبان کی چاشنی،اسلوب کی دلکشی،تہذیب کی پیش کش اور مکالموں کے حسن سے لطف اندوز ی کرتا نظر آتاہے۔

شمس الرحمن فاروقی کا دل چسپ اور شفاف بیانیہ اس کہانی میں اپنے عروج پر نظر آتا ہے ،اس کہانی کا مرکزی کردار شہر دہلی ہے، فاروقی نے دلی کی تہذیب کو مرکزی نقطہ دے کر کہانی خلق کی ہے۔ دلی دنیا کے ان بڑے شہروں میں سے ایک ہے جو اپنی تہذیب ، کلچر اور فنکاری کے لیے مشہور ہیں، بہ قول سید ضمیر حسن دہلوی’’روم ایک دن میں نہیں بنا تھا،یہ قول دلی پر بھی صادق آتا ہے۔پانڈووں کے زمانے سے لیکر مغلوں کے زمانے تک دلی نے خدا جھوٹ نہ بلوائے ، سینکڑوں انقلابات دیکھے ہوں گے‘‘اتنے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد بھی دلی نے اہل ہنر کو اپنے سینے سے لگائے رکھا، خسرو اسے ’جنت عدن‘کہتے تھے،ہندو مؤرخین اسے بے شمار جواہرات کا خزانہ مانتے رہے، دلی میں اسلامی سلطنت کے استحکام کے بعد یہاں سمرقند ، بخارا،ایران اور افغانستان سے بے شمار علما، فضلا، فنکار،اہل حرفہ،صنعتکار و دانشور اور حکما آکر بسے ۔ ترک امیر دور دراز کے صوبوں سے دولت لیکر آتے اور یہاں آکر داد عیش دیتے، غوری کی موت کے بعد قطب الدین نے اسے ایسا شہر بنایاکہ روم، دمشق اور بصرہ اس پر رشک کرنے لگے۔ دولت کی فراوانی کے سبب ہر جگہ سے لوگ آکر بستے گئے اور مختلف مذاہب و مشترکہ تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑی جو عہد مغلیہ میں اوج کمال کو جا پہنچی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں محمد شاہ کے قتل کے بعد دلی سیاسی لحاظ سے بے وقعت ہو گئی تھی لیکن ادبی ہنگامہ خیزی اور فنون کی رنگا رنگی جوں کی توں قائم تھی، اس کی تہذیبی حیثیت بالکل مستحکم نظر آتی تھی۔ فاروقی لکھتے ہیں:

’’اٹھارہویں صدی کو میں ہند اسلامی تہذیبی تاریخ کا زریں باب سمجھتا ہوں۔ اردو فارسی ادب ، تصوف،علوم عقلیہ و نقلیہ،فنون حرب وضرب،موسیقی ،ان میدانوں میں اٹھارہویں صدی والوں نے جو نئے نئے مضمار و بیداد دریافت اور فتح کیے ان کی مثال پہلے نہیں ملتی، بعد میں ملنے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں،اور اٹھارہویں صدی کی دہلی کا کوئی کیا حال لکھے،ہم لوگ چند شہر آشوبوں ،چند ہجوؤں ،تعصب اور کینہ پر مبنی چند افسانوں کو تاریخ قرار دے کر اٹھارہویں صدی کی دہلی کو زوال، انتشار،بد امنی، طوائف الملوکی،امیروں کی مفلسی اور غریبوں کی فاقہ کشی کا شہر سمجھتے ہیں۔‘‘

(شمس الرحمن فاروقی: سوار اور دوسرے افسانے،ص20)

مذکورہ اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہلی علوم و فنون کی آماجگاہ تھی لہذا کسی ادیب اور فنکار کے لیے دلی سے وابستگی یااس کی تہذیبی شناخت سے عقیدت رکھنا فطری بات ہے ، فاروقی کے افسانوں پر غور کریں تو واضح ہوجاتا ہے کہ دلی کی تہذیب سے محبت ہی ان کے افسانوں کی تخلیق کا اصل محرک ہے ، فاروقی لکھتے ہیں:

’’میں اس دلی کا دلدادہ تھا کیوں کہ اردو کی ادبی تہذیب صحیح معنی میں اپنا رنگ اور طور طریق محمد شاہ اور احمد شاہ پھر شاہ عالم ثانی کے زمانے میں حاصل کرتی ہے۔ سیاسی قوت اس شہر کی بھلے گھٹ گئی ہو لیکن اس کی تہذیب زوال آمادہ اور انحطاط آلود نہ تھی ،اور دس بار لٹنے کے بعد بھی اس شہر کی گلیوں میں بھیرو نہیں ، بلکہ اس زمانے کی حسین ترین رقاصائیں ناچتی پھرتی تھیں، دلی کا چھوٹا سا پیکر آصف الدولہ کے وقت سے لیکر واجد علی شاہ کے عہد کا لکھنؤ تھا، لیکن افسوس کہ لکھنؤ کی تہذیب ہمارے ذہنوں میں پریم چند کے افسانوں اور ستیہ جیت رائے کی فلم نے بنائی ہے، ٹھوس تاریخ نے نہیں۔‘‘

(شمس الرحمن فاروقی: سوار اور دوسرے افسانے،ص27)

اس میں شک نہیں کہ اٹھارہویں صدی کے آتے آتے جب کمپنی بہادر کا غلبہ پورے ملک پر ہوگیا تو مقامی بادشاہوں اور حکمرانوں کو سرکار انگلشیہ کے حضور سرنگوں ہونا پڑا۔ روہیلوں نے اکبر شاہ ثانی کی ناک میں دم کر رکھا تھاان سے نپٹنے کے لیے شاہ نے مرہٹوں سے مدد مانگی لیکن سوئے قسمت کہ مرہٹے اور جاٹ پہلے سے ہی تاک میں بیٹھے تھے دونوں ایک ہو گئے ،دونوں نے ملکر دلی پر یورش کردی، مجبورو لاچار شہنشاہ نے انگریزوں سے محافظت کا معاہدہ کرلیا۔ سرکار انگلشیہ سے شہنشاہ کو ایک لاکھ معاوضہ ملتا تھا،اس شرط پر کہ بہادر شاہ ظفر کے بعد مغلیہ سلطنت کاکوئی بادشاہ نہیں ہوگا۔ ایسے مصائب و آلام بھی آئے کہ شہزادہ اور شہزادیوں نے فاقے برداشت کیے، ایسے وقت میں دلی کی سیاسی قوت بالکل ختم ہو چکی تھی لیکن اس کی تہذیب کی شہرت ایران و توران ، سمرقند و بخارا اور یورپ تک تھی ، فاروقی نے دلی کی عظمت اور اس کی فراموش کردہ تہذیب کو اجاگر کرنے کا عزم کیا، رفتہ رفتہ فاروقی نے مرقع دہلی، آب حیات،متفرق اشعار اور میر جعفر زٹلی کے دیوان سے وہ نمونے اخذ کیے جن کا تعلق دہلی اور اس کی تہذیب و ثقافت کے بیان میں معاون تھا، کہانی کے لیے خام مواد یکجا کرنے کے بعد دلی کا نقشہ کھینچنے بیٹھے،فاروقی لکھتے ہیں:

’’دلی کا حق تھوڑا بہت ادا کرنے کے لیے میں نے پہلے میر کے بارے میں افسانہ نہیں لکھا، بلکہ سوار لکھا، میرے اپنے حساب سے اس افسانے کا مرکزی کردار خود شہر دہلی ہے کہ جس کے بغیر وہ پر اسرار سوار ہوتا نہ بدھ سنگھ قلندر، نہ عصمت جہاں اور نہ افسانے کا راوی مولوی خیر الدین۔ ان سب کی شخصیتیں دلی کی شخصیت کا ذرا ذرا سا ٹکڑا ہیں۔ پھرسوار کے بعد مجھے’ان صحبتوں میں آخر‘لکھنا ہی تھا اور وہاں بھی جیسا کہ بہت سے پڑھنے والوں نے محسوس کیا،صرف میرنہیں ہیں۔ اس کے بعد ’آفتاب زمین ‘آتا ہے جس میں دلی کی جھلک بھی ہے اور دلی کی اولاد معنوی یا اس کے جانشین کے طور پر لکھنؤدھیرے دھیرے خود کو قائم کررہا ہے، لیکن اس کے لیے شجاع الدولہ اور سعادت علی خان کا خون گرم برق خرمن بن گیا۔‘‘

(شمس الرحمن فاروقی: سوار اور دوسرے افسانے،ص 28)

کہانی:

خیر الدین اس کہانی کا راوی ہے جو شاہ عبدالرحیم کے قائم کردہ مدرسہ رحیمیہ میں زیر تعلیم ہے وہ اپنی کہانی سناتا ہے ۔ اسکے گھر ماں کے علاوہ ایک بہن ستی ہے جوجوان ہے ، والد کا انتقال ہو چکا ہے، ستی اپنے بھائی خیرالدین سے کسی ’خنگ سوار‘کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے جو روز شہر میں نکلتا ہے اور لوگ جوق در جوق اس کا دیدار کرتے ہیں ، سوار کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی بزرگ ہستی ہے جسے دیکھ کر لوگ منتیں مانگتے ہیں جو پوری بھی ہو جاتی ہیں۔ خیر الدین کے ہمراہ ستی ایک دن اس سوارکا دیدار کرتی ہے اور اپنے بھائی کے لیے ایک دلہن مانگتی ہے اور خیر الدین ستی کے لیے رشتے کے منت مانگتا ہے ،سوار کے جانے کے بعد ستی بیگم کے لیے بقاء اللہ نامی شخص کا رشتہ آجاتا ہے جو بہت مناسب ہے ، ادھر خیر الدین کی ملاقات ایک بازار میں کتاب فروش کی دکان پر بدھ سنگھ قلندر سے ہو جاتی ہے۔ دونوں دوست بن جاتے ہیں ،قلندر کے مشورے پر دونوں خانقاہ مظہری جاتے ہیں جہاں انھیں مرزا مظہر جان جاناں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے اسی وقت مرزا مظہر کی بیگم بد زبانی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں، خیرالدین ایک دن بسنت کی سیر کو نکلا اور شیخ کلیم الدین کی درگاہ کے سامنے قوالوں کی ایک ٹولی شاہ مبارک آبروؔکی غزل پڑھ رہی تھی جس کے مضمون سے خیر الدین بھی مسرورہورہا تھا، اتنے میں ایک بسنتی پوش پرخیر الدین کی نگاہ پڑی اور وہ دیکھتا ہی رہ گیا، یہ بسنتی پوش در اصل عصمت جہاں تھی، ایک دن عصمت جہاںسے سرسری بات چیت ہوئی لیکن جلدی کے سبب عصمت واپس چلتی بنی،خیرالدین اس کے حسن کا شیدائی ہونے کے بعد بھی دوبارہ اس کے راستے میں نہ آیا نہ کبھی اس سے راہ بنانے کی سعی کی۔ خیرالدین کی والدہ کا انتقال ہوگیا، خیرالدین نے شادی کا خیال دل سے نکال پھینکا اور عصمت تخلص اختیار کرکے شاعری کرنے لگا۔

زبان:

فاروقی نے اس کہانی میں سب سے زیادہ فوکس دلی اور دلی کی زبان پر کیا ہے چونکہ دہلوی تہذیب کے عناصر میں ایک اہم عنصر اس کی زبانی شناخت ہے لہذا اس کی زبانی شناخت کو کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ فاروقی کا مزاج یہ ہے کہ وہ مستند چیزوں کو ہی قبول کرتے ہیں، ہر خشک و تر کو نشان امتیاز نہیں بناتے ، جہاں شک ہوتا ہے وہاں مناسب تنقید بھی کرتے ہیں ، دلی کے حوالے سے بھی فاروقی نے تمام روایات کو من وعن قبول نہیں کیا، زبان کے ساتھ مروجہ علوم و فنون، معاصر شخصیات، آپس کا میل جول، ہندو مسلم یکجہتی ’سوار‘میں شیر شکر نظر آتی ہے۔ فاروقی ایک انٹر ویو کے دوران اس پر روشنی یوں ڈالتے ہیں:

’’اگرچہ میں نے دہلی کی بعض مرکزی باتوں سے انکار کیا ہے ، میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتاکہ دلی کی زبان کو مستند مانا جائے، میں اس بات سے بھی انکار کرتا ہوں کہ ولی نے دلی کو شعر گوئی سکھائی،لیکن اس کے باوجود دلی کی تہذیبی ،ثقافتی اور مرکزی حیثیت اردو ادب میں ہمیشہ رہے گی، دلی اس زمانے میں کیسے جیتی تھی،ایک طرف تو سیاسی زوال بھی ہورہاہے اور ایک طرف تہذیبی عروج بھی ہے، اس تناظر میں میں نے افسانہ ’سوار ‘لکھا۔ ‘‘

(سوتکلف اور اس کی سیدھی بات [مرتب: انیس صدیقی] ص 390)

فضا:

اس کہانی میں دلی کی پوری فضا بولتی ہے ، خانقاہیں ہوں یا دربار، مدرسے ہوں یا قلندروں کی کٹیاں سب کا گذر کہانی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ روحانی ہستیاں بھی جلوہ افروز ہیں،کہیں خواجہ بختیار کاکی علیہ الرحمہ کہیں شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد الرحیم ہیں ، کہیں شیخ کلیم الدین ہمدانی ہیں ۔ موسم ،تیوہار،رسومات، مقامات اور عقائد کا رنگ بھی خوب دکھائی پڑتا ہے، کہیں جامع مسجد کی جھلک ہے کہیں بسنت منایا جارہا ہے کہیں قوالیاں سنی جارہی ہیں،کہیں درگاہوں پر عرس کی محفل ہے اور کہیں شعر وشاعری کا دربار لگا ہے غرض دلی اپنی پوری سج دھج کے ساتھ کہانی کے افق پر ظاہرہوتی ہے،کہانی کے توسط سے دلی کا نقشہ اور خاص طور سے اٹھارہویں صدی کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔سوار دلی میں پرورش پا نے والی اردوشاعری یا اردو کی ادبی تہذیب کا استعارہ ہے ، اسے ہر کوئی اپنے نظریے سے دیکھتاہے اور اپنے حساب سے ہی معنی متعین کرتا ہے ، کسی کو وہ رضیہ سلطانہ نظر آتی ہے ، کسی کو سانڈ،کسی کو مرد تو کسی کو خوبصورت عورت وغیرہ۔فاروقی کے مطابق ’سوار‘ اردو شاعر ی یا اردو کی تہذیب ہے جو دلی کی گلی کوچوں میں ،خانقاہوں میں ،درباروں میں ہر جگہ سفر کرتی ہے، ہر کوئی اسے پانا چاہتا ہے ، ہر آدمی اس سے قریب ہونے کا متمنی ہے۔ یہ اس تہذیب کا جادو ہے جو اس کی شیرینی اور وسیع المشربی سے پیدا ہوا ہے۔ اسے ہر انسان بلا تفریق مذہب و ملت برت رہا ہے،اصلاحیں لے رہاہے، اگراس تناظر میں دیکھیں تو یہ کہانی علامتی انداز پر بھی مشتمل نظر آتی ہے۔اس سب کے باوجود کہانی کا بیانیہ متاثر نہیں ہوا ہے ،ظاہری اور باطنی معنی کی دونوں لہریںساتھ ساتھ چل رہی ہیں، ظاہراً تو وہ جو خیرالدین اور عصمت کی شکل میں چل رہی ہے،اور باطنی طور سے وہ جو الفاظ و معنی کی بحث میں آگے بڑھ رہی تھی، فاروقی کے اس افسانے کو ہم دوسرے تمام افسانوں پر فوقیت دے سکتے ہیں۔ڈاکٹر حنیف فوق لکھتے ہیں:

’’سوار میں شمس الرحمن فاروقی نے قصے کی دل کشی، بیان کی دل آویزی اور کرداری مرقعوں کی جاذبیت کا کمال دکھایا ہے ، اس لحاظ سے ’سوار ‘ایک ایساا فسانہ بن گیا ہے جسے اردو افسانے میں اہم اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر حنیف فوقؔ،روشنائی ،جلد ۴،شمارہ ۱۴ ،ص ۱۴۱،کراچی۔2003)

شمس الرحمن فاروقی نے اس کہانی کی بنت میں الفاظ کی جادوگری پر بے حد توجہ صرف کی ہے، یہ محض لفاظی نہیں ہے بلکہ مختلف اردو،ہندی،فارسی اور دیسی الفاظ کی مدد سے منظر نگاری اور جزئیات نگاری کے بہترین نمونے پیش کیے گئے ہیں،بعض حضرات نے اسے طول نگاری کہہ کر اس کی اہمیت پر گرد ڈالنا چاہی،لیکن یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ دہلوی تہذیب کا بیان فارسی آمیز الفاظ اور مختلف مناظر کی رنگا رنگ تفاصیل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اس تفصیل میں بہت سے زیورات،ملبوسات ،اوزار،پھول ،اور دیگر چیزوں کے نام ملتے ہیںجو اس وقت کی ادبی ،سیاسی و سماجی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔مثلاً جب خیر الدین عصمت جہاں کو دیکھتا ہے اس وقت کا منظر ملاحظہ کریں:

’’کھلتا ہوا سانولا رنگ، بڑی بڑی سیاہ روشن آنکھیں ، گھنی بھوؤں کے نیچے سے مجھے دیکھتی ہوئیں،لمبے سیاہ بالوں کی کھجوری چوٹی سینے پر پڑی، موباف کے بغیر ہی اتنی بھاری کہ گات کو دبائے دیتی تھی، ہلکے کبریتی کام کی زرد ململ کا گھیردار جامہ جس کے دامن پر ذرا بھاری کشمیری کام بنا ہوا تھا، جامہ کمر پر بے حد تنگ ، یا شاید کمر ہی موئے میاں کی طرح باریک تھی۔اوپر بدن پر تنگ کرتی جس کے نیچے مخملی پیٹ جھلکتا ہوا، کرتی کے نیچے پڑاقے کی انگیا کسی ہوئی، لمبی گردن میں سرمئی سچے موتیوں کا ہار، گات کے بیچوں بیچ گردن سے ذرا نیچے نیلم کی دھکدھکی جس کے چاروں طرف ہیرے جڑے ہوئے۔ کانوں میں مٹر کے دانوں کے برابر بالکل یکرنگ زمرد کے گوشوارے جن پر جے پوری میناکا کام ، ناک میں چنے کی دال کے برابر یاقوت کی کیل۔ کلائیوں میں سبز کریلیاں، ان کے ساتھ ٹھوس سونے کے شیردہاں۔ پاؤں میں سنہری جگمگ کرتی جوتیاں، اتنی نیچی دیوار اور مختصر دوڑ کی کہ بمشکل پنجوں اور ایڑی کو ڈھانکتی تھیں،باقی پیر پر نگار کے نقوش پیچاں صاف نظر آتے تھے، ہاتھوں کی محض ایک ایک انگلی میں الماس کی انگوٹھی ، ناخنوں پر کچھ گلابی رنگ کا چمکیلاروغن،کف دست پر بھی پیچ دار نگار نمایاں۔ دا ہنی کلائی پر سرخ چمڑے کی پٹی پر ایک شاہیں بچہ۔جامے کا دامن تھوڑاٹھا ہواکہ نازک نازک ٹخنے اور سڈول پنڈلیوں کی بناوٹ نظر آتی تھی۔ پاؤں میں سنبھل پوری پازیبیں ،گلبدن کا پائجامہ اس قدر کسا ہوا کہ لگتا تھا بدن پر پہنا نہیں مڑھا گیا ہوگا۔‘‘

(شمس الرحمن فاروقی: سوار اور دوسرے افسانے،ص101)

فاروقی نے مرقع کشی اور منظر نگاری میں بے مثال نثر تخلیق کی ہے، فاروقی کو بندش الفاظ اور جملوں کی تراش خراش میںید طولی حاصل ہے،وہ خود نمائی کے لیے ایسا نہیں کرتے بلکہ دہلوی تہذیب و ثقافت کا بیانیہ اس کا متقاضی ہے، اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی ادبی و تنقیدی نثر کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فاروقی اسی طرز کا تتبع کررہے ہیں تاکہ پھر سے اس کا احیا کیا جا سکے۔فاروقی کے یہاں نثر کی سلاست قاری کو اپنی گرفت میں لیے بغیر نہیں چھوڑتی، یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’بہت گورا رنگ،دبلا ڈیل،کشیدہ قامت، سفید داڑھی، کچھ نوک دار نفاست سے ترشی ہوئی،لبیں کتری ہوئی،لیکن بہت ہلکی نہیں ، بہت لطیف سبز ڈھاکے کی ململ کے انگرکھے کے نیچے سفید براق شبنم کا کرتا، اتنا سفید کہ ململ کی سبزی معلوم ہی نہ ہوتی تھی، انگرکھے پر کوئی عبایا چغہ نہ تھا لیکن پاس ہی نہایت سلیقے سے تہہ کی ہوئی کاغذی جامہ وارکی عبا، خفیف سبزوزرد دھاریوں والا مشروع کا ڈھیلا پاجامہ۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں جن میں شب بیداری کی کچھ کچھ سرخی۔ سر پر چوگوشیہ کڑھی ہوئی ٹوپی جس کے نیچے سے سفید بالوں کی ایک لٹ کان کے پاس کا کل کی صورت ایک منظم انداز بے پروائی سے جھانک رہی تھی۔ میں نے اس قدر خوبصورت اور اس قدر پر رعب شخص کبھی نہ دیکھا تھا۔ اور میں کیا، شاید اس ساری محفل نے کبھی نہ دیکھا ہو،سب اس طرح مؤدب تھے گویا کوئی دربار ہو۔ اگر شخصیت کے داب و دبدبہ کے لحاظ سے وہ حضرت محی الدین اورنگ زیب عالم گیر برد اللہ مضجعہ لگتے تھے تو دلنوازی کے لحاظ سے قطب دوراں حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب قدس سرہ ونور اللہ مرقدہ کی یاد دلاتے تھے۔‘‘

(شمس الرحمن فاروقی: سواراور دوسرے افسانے،ص88)

جزئیات نگاری:

جزئیات نگاری، منظر نگاری اور محاوراتی زبان کی پیش کش زبان کے ہی مختلف زاویے ہیں، یہی زبان کا افتخار ہے ،اسی کے سبب داغؔ نے سارے جہاں میں دھوم ہونے کی بات کہی تھی۔ فاروقی نے اپنے فکشن میں زبان کے اس افتخارکو قائم رکھنے کی بھرپور سعی کی ہے ،فاروقی کے یہاں جزئیات نگاری اپنے شباب پر نظر آتی ہے،یہ اقتباس دیکھیں ، اس میں دلی کی اعلی زبان اور اہل دہلی کی نزاکت، حسن پرستی ، عیش کوشی،خوش سلیقگی اور بلند معیار زندگی کا پتہ چلتا ہے:

’’بالکل سیاہ رنگ کا مرکب، نہایت بلندوبالا، عراقی مرکبوں سے بھی زیادہ تنومند ایک نظر تو لگاہی نہیں کہ فرس ہے ، مرصع ساز ویراق سے آراستہ، رکاب میں شہسوار کی جوتی ہیرے کی طرح جگمگاتی ہوئی،سنہری روپہلی کسی ہوئی لجام۔فرس کی ہال میں موتی پروئے ہوئے، اس کے سر پر سفید سرخ نیلگوں پروں کی کلگی۔سیاہ عمامہ بر سراور چار قب جیسا مخملی لباس دربر، لیکن زیور شایدکچھ نہیں، ایک لمحے کے لیے آنکھ اس کی رکاب پر دوبارہ پڑی تو پتا لگا کہ سوار کی جوتی ہی نہیں اس کی رکاب بھی الماس نگار ہے۔ گردن اونچی اٹھی ہوئی ،ناک کی سیدھ میں دیکھتا ہوا،نگاہ بالکل روبرو،گویا بھرے پڑے شہر سے نہیں کسی لق و دق صحراسے گذر رہاہو،چہرے پر شادابی لیکن احساس برتری اور جذبۂ نخوت کی وجہ سے ایک طرح کی ہلکی سی رونق اور چمک، جسے دیکھ کر آنکھیں روشن بھی ہوں اور خوف بھی آئے، اس قدر پر رعب کہ نگاہ ٹھہرتی نہ تھی، ایک ہاتھ میں قد آدم سے طویل نیزہ بجلی کی طرح روشن۔ بدن قطعی ساکت،لیکن تحرک اور شور کے تاثر سے لبالب، جیسے استاد منصور یا منوہر کے مرقعے کی کوئی تصویر ہو، یہ سمجھ میں نہ آسکا کہ سوار کا چہرہ مہرہ قدوقامت ،یہ سب کیسا ہے ،چاروں طرف،ہر طرف ایک روشنی کا احساس ہوتا تھا۔‘‘

(شمس الرحمن فاروقی:سواراور دوسرے افسانے،ص76)

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوں میں سب سے دل چسپ زبان ہے، وہ زبان جو کلاسیکی دور کی ادبی و تہذیبی صورت حال کی عکاسی کرتی ہے، دلی کی زبان کوئی فاروقی سے سنے،ایسا لگتا ہے جیسے عہد مغلیہ کی با محاورہ اور شستہ زبان سن رہا ہو، فارسی آمیز تراکیب،شگفتہ تلمیحات اور شاہی جاہ و جلال اس کے لہجے میں سرایت کیے ہوئے ہے،اس قدر لطف آمیز کہ بس کیا کہنے،جب فاروقی اشراف کے مکالمے رقم کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دربار اردوے معلی سجا ہو۔ جب ٹھیٹھ عورتوں کی محاوراتی زبان لکھتے ہیں تو دہلی اور پیرامنش کی صدائیں سنائی دیتی ہیں، مرزا مظہر جان جاناں کی بیوی جب بد زبانی پر اترتی ہے تو اس وقت کی زبان ملاحظہ کریں:

’’ارے کہاں ہے وہ بھڑوا مرزا، کہیں مرگیا کیا۔ بڑا پیر اولیا بنا پھرتا ہے، تانبے کے پیسے پر رکھ کر اس کی بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلاؤں ، اس سے کہو کسی اور کو اپنے ناز دکھلائے، یہاں تیسرا پہر ہونے کو آیا، میں دروازے پر کھڑی سوکھتی ہوں، اب تک میرے محافے کے ساتھ چلنے والے نفر نہیں آئے۔ اے لوگو بتاؤ میں اکیلی کس طرح ہرے بھرے صاحب کی درگاہ پر جاؤں۔ میں نہ جاؤں گی تو کیا وہ اپنی ماں بہنو کو بھیجے گا؟ کون اسکی صحت اور سلامتی کی دعا کرے گا، کون اس کے نخرے اٹھانے والے مریدوں کو جمع کرنے کا انتظام کرے گا؟‘‘

(شمس الرحمن فاروقی: سواراور دوسرے افسانے،ص89)

اختتام:

خیر الدین اور عصمت جہاں کی ملاقات کہانی کا نقطۂ عروج ہے، اور خیر الدین کا عصمت سے کنارہ کشی کرلینا کہانی کا اختتام ہے، کہانی کے اختتام پر خیر الدین کی ’انا‘ جیت جاتی ہے اور اس کی مولویانہ غیرت بھی جاگ جاتی ہے، سوار دولت جاوید سے خیر الدین کی منت تو پوری ہو جاتی ہے لیکن ستی کی مراد نامکمل رہتی ہے اور خیر الدین کا یہ شک کہانی کے اختتام کی پیشین گوئی ثابت ہوتا ہے کہ انوکھی صورتوں میں مانگی جانے والی مراد تو پوری ہو جاتی ہے لیکن اس کے بدلے میں کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ خیر الدین اپنی والدہ کے انتقال کے بعد سوداوی مزاج ہو جاتاہے اور مدرسہ رحیمیہ بھی چھوڑ جاتا ہے ، عصمت جہاں کے آنے سے خیرالدین کی زندگی میں نیا رنگ آتاہے،لذت عشق نے خیر الدین میں چھپے عام انسان کو بے پردہ کردیا اور عشق نے لذت زیست کا مزہ چکھایا۔ خیرالدین کی تنہا زندگی کی کڑیاں فاروقی کی اس نظم میں مل گئیں جو انھوں نے کہانی کے آغاز میں نقل کی تھی۔طاہرہ نورانی کی رائے یہ ہے کہ:

’’ حرف آخر یہ ہے کہ فاروقی کی تمام عمر کی عرق ریزی کا نتیجہ ’سوار‘ ہے۔لگ بھگ ان کی تمام تصانیف کا نچوڑ ’سوار‘میں ملتا ہے ۔ اس میں لفظ و معنی کی بحث بھی ہے ،اور اردوکے ابتدائی زمانے کا ذکر بھی، ساحری شاہی، صاحب قرانی بھی ہے اور انداز گفتگو بھی۔ اردو غزل کے اہم موڑ بھی ہیں اور تحقیق و تنقیدی شعور بھی، بیان کی دل آویزی بھی ہے اور اردو زبان کا جادوبھی، انھیں تمام خصوصیات کی بنا پر سوار کا شمار اردو کے بہترین افسانوں میں ہوتا ہے اور فاروقی کو اردو افسانہ نگاری کا شہسوار تسلیم کیا گیا ، لہذافاروقی کے لیے یہ اعزاز اور افسانے کی شہرت بے سبب نہیں۔‘‘

(شمس الرحمن فاروقی کی افسانہ نگاری کا جائزہ،ص39)

’غالب افسانہ‘پڑھنے کے بعد ’سوار‘کا مطالعہ کیا۔ غالب افسانہ میں کرداروں کی کثرت ہے لیکن سوار میں نہ میرؔ ہے نہ سوداؔ،نہ دردؔ نہ غالبؔ،بس دلی ہی دلی ہے۔ فاروقی نے تاریخ سے زیادہ ’روح تاریخ‘ کو پیش کرنے پر زور صرف کیاہے کیوں کہ روح تاریخ کو جانے بغیر تاریخ کو نہیں جانا سکتا،تاریخ اور روح تاریخ کا حسین امتزاج ٹالسٹائی کے ناول ’وار اینڈ پیس‘میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ٹالسٹائی نے تاریخ کو اس طرح تشکیل دیاکہ کئی نسلوں پر محیط حقیقت کے پہلو کو ہشت پہلو بنادیا ہے، اس کے پیچھے تاریخ کی چھان پھٹک اور تاریخ سے پہلے کے عناصر پر تحقیق کا راز پوشیدہ ہے ، اس نوعیت کی تحریریں بہت جدوجہد کے بعد وجود میں آتی ہیں ، لکھنے والا ہی بہتر جانتا ہے، البتہ اس طرح کی تخلیقی نثر جس عالم جذب کا تقاضا کرتی ہے وہ اس عالم میں تو میسر نہیں ہے، اب سے دو صدی قبل یہ عام گفتگو کا لہجہ تھی۔ مبین صدیقی لکھتے ہیں:

’’عمر شیخ مرزاخاص مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے زبان کی ایسی تہذیب و تزئین کی ہے کہ جس میں پرانی دہلی کی چہیتی اردو کے ہمراہ کیف و سرود، منطق و فلسفہ و تصوف تک ہزار رنگینیاں کہ درجہ مثال کو جا پہنچتی ہیں ، ایسی تحریروں سے نئی نسل جس قدر مستفید ہوسکے بڑی بات ہوگی۔‘‘

(شب خون، شمارہ ۲۲۵ بابت ماہ اپریل ۱۹۹۹،ص76)

دہلی سے انوار رضوی لکھتے ہیں:

’’سوار ایک پیریڈ اسٹوری ہے ، اس کہانی کے پس پشت کس درجہ تحقیق ہے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے، اس میں اٹھارہویں صدی کی دہلی کو اپنے کرداروں ،کلچر اور زبان کے ساتھ زندہ کردیا گیاہے۔ دہلی کی گلی کوچے تک اس کہانی میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ بیشتر تعلیم یافتہ طبقے کی نگاہ میں اٹھارہویں صدی کی دہلی پس ماندہ اور طنزو مزاح کا موضوع ہے لیکن سوار کی دہلی بھر پری اور اپنے غیر معمولی کرداروں کے باعث لائق محبت و توقیر ہے۔‘‘

(شب خون، شمارہ ۲۲۵ بابت ماہ اپریل ۱۹۹۹،ص76)

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوں میں کچھ مناسبات یا مماثلت دیکھنے کو ملتی ہے چونکہ افسانے یکے بعد دیگرے خلق کیے گئے لہذا کرداروں کے مکالمات، نفسیات، لفظیات اور منظر نگاری میں کئی جگہ مماثلت پائی جاتی ہے مثلاً ’غالب افسانہ‘ کا بینی مادھو رسواؔا ور’سوار‘ کا بدھ سنگھ قلندر دونوں کی وضع قطع، فلسفہ طرازی، تصوف، جمالیات اور ادب سے روشناسی ملتی جلتی ہے،غالب اورمرزا مظہر سے ملاقات کے آداب میں مناسبات کا ایک سلسلہ پایا جاتا ہے ،اس سے یہ اندازہ لگانامزید آسان ہو جاتا ہے کہ بینی مادھو رسواؔ ہی عمر شیخ مرزا ہے۔الحاصل شمس الرحمن فاروقی نے دہلی کی گمشدہ تہذیب اور فراموش کردہ عظمت کی بازیافت کے لیے متعدد کتب سے اس کے نمونے اخذ کرکے صحتمند بیانیے میںمکمل فنکاری سے پرویا ہے ۔دلی کی تہذیب زبان،ثقافت،سیاسیت، اخلاق، تصوف،معیشت،مذہب،بود و باش غرض کہ ہر زاویے سے رنگا رنگی سے عبارت ہے ،اس تہذیب کو کسی ایک کتاب یا ایک حوالے سے دریافت نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ شمس الرحمن فاروقی کے فکشن میں وہ تمام زاویے جو دلی کی اعلی تہذیب کو پیش کرتے ہیں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہی فاروقی کا کمال ہے کہ انھوں نے ایسی متنوع چیز کو فکشن کے چند صفحات میں سمیٹ دیا جو تاریخ،فلسفہ، ادب، اور سیاست کی طویل داستان پر مشتمل تھی۔ دہلوی تہذیب کی اہمیت پر یہ اقتباس بہت اہم معلوم ہوتا ہے۔

’’دلی ایک شہر نہیں،ایک تہذیبی روایت ہے ۔روم اصفہان ، غرناطہ،سمرقند،استنبول،بغداداور کابل کی طرح دلی کی عظمت پارینہ سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں،ترکوں کے زمانۂ حکومت میں علما،فقہا،صناع اور صاحب کمالوں نے چار دانگ عالم سے آکر یہاں سکونت اختیار کی تو ایشیا میں کوئی شہر اس کی ٹکر کا نہ رہا۔مغلوں کے وقت میں بابر نے اسے دوبارہ بسایا تو ہندوستان کی قدیم تمدنی روایات کو ملک کے کونے کونے سے سمیٹ کر یہاں لایا گیااور انھیں خاطر خواہ فروغ دینے کی سعیٔ مشکور ہوئی ۔ اس کے بعد جب شاہجہاں نے بڑے چاؤ چونچلے سے فصیلی دہلی یا جہاں آباد کی بنیاد رکھی تو یہ شہر جو اب اجڑا دیار کہلاتا ہے اپنے حسن انتظام، سجاوٹ، خوبصورتی ، فن اور صناعی کے اعتبار سے یکتائے روزگار ٹھہرا۔‘‘

(سید ضمیر حسن دہلوی:غالب کی دلی،ص9)

MOHD ASLAM

VPO HAMIRPUR, RAMPUR UP- 244927

MOB: 9528807078

Leave a Reply