You are currently viewing شوکت حیات: ایک اہم افسانہ نگار

شوکت حیات: ایک اہم افسانہ نگار

شیخ بدرالدین

علی گڑھ

شوکت حیات: ایک اہم افسانہ نگار

         جو چراغ یکم دسمبر ۱۹۵۰ء کو صدر گلی  پٹنہ سٹی میں روشن ہواتھا وہ یکم اپریل ۲۰۲۱ء کو کرونا کی وبا کی وجہ سے بجھ گیا۔  وہ روشن چراغ کا نام شوکت حیات ہے۔ اصل نام سید شوکت حیات محفوظ الحق ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر بی ایس سی تک کی تعلیم پٹنہ سے حاصل کیا۔ مگدھ یونی ورسٹی سے ایم۔اسے اردو کیا۔

         شوکت حیات کے ادبی زندگی کا آغاز۱۹۷۰ء میں ہوا۔پہلا افسانہ ’’بکسوں سے دبا آدمی‘‘جو کتاب، لکھنو سے شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے تخلیقات آہنگ، شب خون، اوراق، جیسے مشہور رسائل میں چھپتے رہے۔ان کے دو  افسانوی مجموعہ ہیں۔

۱۔بانگ،(بارہ افسانے) ۱۹۷۷ء

۲۔گنبد کے کبوتر،(پچیس افسانے)۲۰۱۰ء

         شوکت حیات جدید افسانہ نگاروں میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔وہ اجتماعی فن کار ہیں۔ جن کے ہاں ناہمواریوں کے خلاف مسلسل جدوجہد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بیشتر کہانیوں میںکردار کوسفر کی حالت میں دکھلاتے ہیں۔ وہ اپنے کردار کو عام زندگی اور عام عمل سے الگ کرسکتے ہیں۔ ’’ڈھلان پر رکے ہوئے قدم‘‘ اور ختم سفر کی ابتدا‘‘ جیسے افسانوں میں سفر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

گوپی چند نارنگ ’’ اردو افسانہ روایت و مسائل‘‘ میں شوکت حیات کے افسانوںکے بارے میں کہتے ہیں۔

         ’’شوکت حیات کے افسانے جن میں خیال کی رو Association کے ذریعے جوڑی جاتی ہے۔ تکنیک کے نقطئہ نظر سے سب سے دلچسپ ہیں۔ اس کی مثالیں شوکت حیات کے ’’لا‘‘  ’’شگاف‘‘ ’’دراڑ‘‘ خلا‘‘ ’’ہوا‘‘ میں ملتی ہے۔

         شوکت حیات کے افسانہ نگاری کے متلق وہاب اشرفی رقمطرازہیں:۔

         ’’شوکت حیات نے مختلف طریقے پر مسلمانوں کی زبوں حالی، ان کا انتشار، فرقہ پرسرتی کے نتیجہ میں ان کا المیہ، اپنے وطن سے ہجرت کے بعد وطن واپس لوٹنے پر ان کی بے سرسامانی اور لیڈرشپ وغیرہ جیسے موضوعات کو فنی طریقے سے تخلیقی جہات دینے کی کوشش کی ہے۔ ایسے افسانوں میں’’تفتیش‘‘ بلی کا بچہ ،گھڑیال‘‘، سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ‘‘ اور گنبد کے کبوتر وغیرہ قابل مطالعہ ہیں اور شوکت حیات کی تخلیق صلاحیت کے آیئنہ دار بھی ‘‘۔

         شوکت حیات کے ابتدائی دور کے افسانوں میں علامتی اور استعاراتی رنگ غالب ہے۔ انفرادیت کے اظہار اور فن کی نئی جہات کی تلاش میں وہ کبھی کبھی اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ وہاں تک قاری یا ادیب رسائی مشکل سے ہوپاتی ہے۔ ’’ بکسوں سے دبا آدمی‘‘ سیاہ چادریں اور انسانی ڈھانچہ میں زندگی کی مختلف جذبوں اور شخصیت کی مختلف جہتوںکو مختلف رنگ میں پیش کیا ہے جب کہ ’’ تین مینڈک‘‘ طبقاتی ظلم و جبر اور طبقاتی کش مکش کی علامیہ ہے۔ اس کے بعد ہی شوکت حیات نے اپنی روش بدلی اور ذاتی علامتوں سے گریز کیا اور عام فہم علامت کو ترجیح دی۔ لہذا انھوں نے افسانہ ’’بانگ‘‘ تخلیق کیا جو اس عہد کی افسانہ نگاری اور خود ان کی افسانہ نگاری کا Turning Point  ثابت ہوا۔جس کے بعد شوکت حیات کے اکثر افسانے بیانیہ لہجہ لیے ہوئے سامنے آئے مگر ان کا بیانیہ ترقی پسندوں کے بیانیہ سے مختلف ہے۔ اس میںہلکا سا ابہام اور پردہ داری ہوتی ہے۔ جو تخلیق کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ بہ قول وارث علوی:۔

         ’’شوکت حیات نہ کسی نقاد کی توجہ کی پرواکرتے ہیں اور نہ دوسروں کی بخشی ہوئی بیساکھیوں پر راہِ ادب طے کرتے ہیں۔ وہ اپنا راستہ خود بناتے ہیںاور اپنے اظہار و بیان کے طریقے آپ ہی ایجاد کرتے ہیں ‘‘۔      (پیش لفظ، گنبدکے کبوتر، ص۱۱)

         شوکت حیات کے افسانے عصر حاضر کے دبے کچلے انسان کے احتجاج کی آواز ہیں اور یہ احتجاج اخلاقی بحران، بکھری ہوئی قدروں، ٹوٹتے ہوئے رشتوں، طبقاتی کش مکش اور ظلم و جبر کے خلاف ہیں۔زندگی اتنی پر آشوب ہے کہ انسان کا وجود بے حقیقت ہے اور انسان معاشرے کی خامیوں پر نظر رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا سوائے احتجاج کے شوکت حیات کے یہی موضوعات ہیں۔ ان کاایک افسانہ ’’شکنجہ‘‘ ہے۔ جس میں غریب مزدور کا بچہ تعلیم حاصل نہیں کرپاتا بلکہ اس کا باپ اس قدر لاچار ہے کہ آخر کا ر اسے مزدور بنا دیتا ہے۔Child Labour” ”  کے قوانین اور بنیادی تعلیم کا حق اپنی جگہ پر، حالات کا جبر اپنی جگہ۔ شوکت حیات یہ نہیں بھولتے کہ انسانی زندگی کی بے بسی کا کوئی مداوا نہیں۔ اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:۔

         ’’ سنو بھائی ! میں اس بچے کو اپنے ساتھ لے جاتا ہوں تمھارے گھر اسے حفاطت سے پہنچا کر ہی میں سسرال جائوں گا !۔‘‘

         ’’حجور! آپ کی بڑی مہربانی ۔۔۔ لیکن یہ پرائیویٹ کام کرتا ہے۔ اس کو چھٹی کہا ں ملے گی۔ تیوہار کے اوسر پر کام اور بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے کہاں نصیب کہ ہم تیوہار میں اپنے گھر جائیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ کھوسیاں منائیں۔ جو بچے ہوٹل میں کام کرتے ہیں ان کی یونین بھی نہیں بن سکتی۔ کوئی مانگ نہیںکی جاسکتی۔ بچوں کا کام کرتا تو گیرکانونی ہے نا حجور۔۔۔ اسی لیے تومالک لوگ من مانی کرتا ہے۔ ‘‘

         ظلم و استحصال کے علاوہ شوکت حیات نے فرقہ وارانہ فسادات پر بھی بہت سے افسانے

 لکھے ہیں۔ اس ضمن میں ’’بھائی‘‘، تفتیش‘‘،سانپوں سے ڈرنے والا بچہ‘‘، گنبد کے کبوتر ، خاص طور سے اہم ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ شوکت حیات نے اردو افسانوں کی دنیا میں اپنا لوہا منواکر انفرادیت قائم کرلی ہے۔ اردوافسانوں کی ارتقاء میں شوکت حیات کو ایک اہم افسانہ نگارکے روپ میں یادد کیا جائے گا۔

امدادی کتب:۔

۱۔  اردو افسانہ: نئی جست ،  از  محمد غالب نشتر

۲۔گنبد کے کبوتر ، از شوکت حیات

۳۔گوپی چند نارنگ۔ مابعدجدیدیت:اردوکے تناطر میں

۴۔وارث علوی۔ پیش لفظ۔ گنبد کے کبوتر

۵۔وہاب اشرفی۔تاریخ ادب اردو(جلد سوم)

***

Leave a Reply