وجے کمار
ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو، جموں یونیورسٹی ،جموں و کشمیر
’’شکستہ پر‘‘ میں جدیدعورت کی نفسیاتی اُلجھن اور ذہنی تناؤ کی عکاسی
1970 کے بعد اردو افسانہ نگاری کی روایت میں جن فکشن نگاروں نے اپنی تخلیقات میں نئے نئے تجربے کیے اور اپنے تخیل کے ذریعے صنف افسانہ میں اضافہ کیا پروفیسر بیگ احساس اُن میں ایک اہم حیثیت کے حامل ہیں۔اُنھوں نے اپنی زندگی میں تین درجن کے قریب افسانے تخلیق کیے جو فن ،موضوع ،ہئیت،اسلوب اور واقعات کی پیش کش کے لحاظ سے اُن کے معاصر افسانہ نگاروں سے بالکل مختلف ہیں۔اُن کے اولین دور کے افسانوں میںرومانیت اور جنس کا عنصرکسی نہ کسی صورت میں ضرور دیکھنے کو ملتا ہے ۔اِس نوعیت کے افسانے اُن کے پہلے افسانوی مجموعے ’’خوشہ گندم ‘‘ میں شامل ہیں۔بیگ احساس کے دوسرے دور کے افسانوں میں علامتی،استعاراتی اور تمثیلی انداز ِبیان دیکھنے کوملتا ہے ۔افسانوی مجموعہ ’’حنظل‘‘ کے افسانوں میں اُنھوں نے سماجی ،سیاسی ،معاشی ،قومی اور بین الاقوامی مسائل کو علامتوں ،استعاروں، تمثیلوں اور تلمیحات کے ذریعے پیش کر نے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ اُن کے تیسرے یعنی آخری دور کے افسانوں میں اکیسویں صدی کی تیز رفتار زندگی کے مسائل اور اُلجھنیں،سائنس اور تیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور اِس کے منفی و مثبت نتائج ،جدید طرزِ حیات کی اندھی تقلید ،سماجی بے راہ روی اور دہشت گردی سے اُبھرنے والے مسائل جیسے موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اِس قسم کے افسانے اُن کے آخری افسانوی مجموعہ’’دخمہ‘‘ میں دیکھنے کو مِلتے ہیں۔بیگ احساس کے تینوں افسانوی مجموعوں کو ادبی حلقوں میں سراہا گیا ہے ۔یہاں تک کہ 2017میں اُن کو ساہتیہ اکیڈمی انعام سے بھی نوازا گیا ۔
زیرِ نظر مضمون اُن کے مشہور افسانے ’’شکستہ پر‘‘ میں اُبھارے گئے جدید عورت کے مسائل،گھریلو زندگی اور اُس کی ذہنی و نفسیاتی الجھن پر مرکوز ہے ۔افسانہ ’’شکستہ پر‘‘ بیگ احساس کا آخری دور کا افسانہ ہے جو افسانوی مجموعہ ’’دخمہ ‘‘ میں شامل ہے ۔
افسانہ’’شکستہ پر‘‘کا موضوع جدید عورت کی فطرت اور اُس کی نفسیات ہے۔اِس افسانے میں بیگ احساس نے رشتوں کے درمیان درار،تضاد اور کشمکش کو بڑی ہُنر مندی سے پیش کیا ہے ۔عام طور سے ماں اور بیٹی کا رشتہ شفقت ،خلوص اور محبت کاہوتا ہے مگر اِس افسانے میںافسانہ نگار نے جو کردار پیش کیے ہیں وہ خونی رشتوں کی کڑواہٹ اور نفرت کے جذبات سے لبریز ہیں ۔اِس افسانے میں مصنف نے تین نسلوں کے درمیان کے تضاد،تلخی ، درار،نفرت اور جذبات سے عاری رشتوں کے نفسیاتی پہلوؤں کوجنسی پہلوؤں کے ساتھ تقابل کرکے پیش کیا ہے۔
افسانہ ’’شکستہ پر‘‘میں سشمامرکزی کردار کا رول نبھاتی ہے جس کی شادی اُس کی ماں نے کم عمری ہی میں کی تھی مگر اُس کا شوہر اُسے ذہنی طور پر قبول نہیں کر پاتا ہے ۔کیونکہ وہ اپنی بھابی کے ساتھ جذباتی اور جسمانی طور سے وابستہ ہو گیاہوتا ہے۔کم عمری کے باعث اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اُسے اپنا نہیں پاتی ہے اور اپنی ہی جٹھانی سے ہار جاتی ہے ۔سشما کی ماں اُسے شوہر سے طلاق دِلواکر واپس گھر لا کر نوکرانی کی طرح برتاؤ کرنے لگتی ہے۔سشماکو اپنی ماں سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔ایک روز سشماکی ملاقات اُس کے پرُانے آشنا سمیر سے ہو جاتی ہے ۔دونوںشادی کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں اور اُس دِن سے ایک ساتھ رہنے لگتے ہیں۔جب سشماکی ماں کو پتہ چلتا ہے تو وہ اُس وقت بہت احتجاج کرتی ہے مگر سشما اپنی ماں کی باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی اور سمیر کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہے۔سشما کی شوہرِ اول سے پیدا ہونے والی بیٹی’’ سمن‘‘پہلے نانا نانی کے ہاں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے مگر کُچھ سالوں کے بعداپنے نانا کے ساتھ آکر سشما اور سمیر کے ہاں رہنے لگتی ہے۔جس سے سشما کو کُچھ عرصہ خوشی ہوتی ہے لیکن یہ خوشی جلد ہی اُس کو ذہنی اُلجھن میں مبتلا کر دیتی ہے جبکہ سمیر سمن کو بطورِ بیٹی دِل سے قبول کر تا ہے اور ایک شفیق والد کی طرح اُس کی ہر خواہش کاخیال بھی رکھتا ہے ۔
افسانہ میں نیا موڑ اُس وقت آجاتا ہے جب سمن اپنے سوتیلے والد سمیر کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کرنے لگتی ہے ۔جب کہ سشمااور سمیر چاہتے تھے کہ وہ ایک بیٹی کی طرح رہے۔مگر اُس کی نا سمجھی اور الھڑ پن اُسے مجبور کرتاہے وہ دِن بدن سمیر کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بے تکلف ہونے لگتی ہے ۔وہ سمیر کو باپ کم اور دوست زیادہ ماننے لگتی ہے۔حالانکہ سشما اپنی بیٹی سمن کو بہت بار سمجھانے کی کوشش کرتی ہے مگر سمن اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتی ۔سمیر جیسے ہی آفس سے واپس آجاتا ہے وہ کپڑے پہن کر بن ٹھن کر اُس کا انتظار کرنے لگتی ہے۔سمن کا سوتیلے والد سمیر کے ساتھ بے حیائی سے پیش آناسشما کو ناگوار گزرتا ہے۔وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے اُسے یہ ڈر ستاتا ہے کہ جس طرح اُس نے پہلے اپنے شوہرِ اول کی بھابی سے شکست کھائی تھی اور شوہر کو اپنا نہ بنا سکی تھی اور اُسے طلاق کی دہلیز تک پہنچنا پڑا تھا۔اُسی طرح آج وہ پھر اُسی ذہنی کیفیت سے دوچار ہے۔سمن کی چڑھتی جوانی اور سمیر کے ساتھ بے باک ہونااُسے اِس بات کا خدشہ دِلا رہاہے کہ کہیں وہ ایک بار پھر نہ ہار جائے وہ سمیر کی شاطر نظر سے بخوبی واقف تھی ۔وہ احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگتی ہے ۔اُس کی زیادہ عمر اور پھر حمل ٹھہرنا جس سے اُس کے جسم کی بناوٹ میںتبدیلی آنے لگتی ہے ایسے ہی بہت سے خیالات اُس کے ذہن میںجب آتے ہیں تو اُس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔وہ اپنی ہی بیٹی کو اپنا دشمن تصور کرنے لگتی ہے۔سمن آئے روز مختلف بہانوں سے سمیر کے ارد گرد منڈلانے لگی اور حد سے زیادہ بے تکلف ہونے لگی تو ایک روز سمیر نے اُس کو ڈانٹا تو سمن رات بھر اپنے کمرے میں اکیلی پڑی رہی ،صبح اُٹھتے ہی گھر سے فرار ہو گئی ۔اِس سانحہ سے سشماکے اندر ایک طرف ممتا کے جذبے کی وجہ سے احساسات اور جذبات نے بے چین کر دیا اور وہ رونے لگی مگر اگلے ہی پل وہ ایک طرح کا ذہنی سکون محسوس کرنے لگی اور اُس کے چہرے پر ایک الگ ہی قسم کی خوشی رونما ہونے لگی جس کو مصنف نے اِس طرح سے بیان کیا ہے ۔
’’سشمانے عجیب سا اطمینان محسوس کیا۔رات میں بھی کوئی اُسے منانے نہیں گیا ۔صبح سمیر کے دفتر جانے تک وہ باہر نہیں آئی ۔ سشما نے جھانک کر دیکھا وہ سو رہی تھی ۔شام کو سمیر دفتر سے آیا تو سمن کہیں نظر نہیں آئی ۔‘‘ (افسانوی مجموعہ دخمہ ،افسانہ شکستہ پر۔ص121)
اس افسانے میں بیگ احساس نے نام نہاد آزاد خیالی ،جدید طرزِ حیات کی اندھی تقلید ،بے حیائی ،عریانی اور فحاش ماحول کی بھی بھر پور عکاسی کی ہے۔ملاحظہ ہو افسانے کا یہ اقتباس۔
’’کھانے کی میز پر پہلا نوالہ اپنے ہاتھ سے سمیر کو کھلانا اور اُس کے ہاتھ سے خود پہلا لقمہ لینا ……… آفس جاتے وقت گال یا ہونٹ آگے بڑھا دینا…………………خوبصورت بیڈ۔بے داغ چادر پر گلاب کی پتیاں بکھیر دینا ۔سوتے میں کوئی پتی گال یا جسم پر چپک جائے تو اُسے ہونٹوں سے نکالنا۔……………دونوں کا ایک سفید چادر اوڑھے برہنہ سونا ۔رات دیر گئے تک فیشن چینل اور گندی گندی فلمیں دیکھنا ۔صبح انگریزی فلموں کی ہیروئن کی طرح چادر میں جسم لپیٹے باتھ روم کے دروازے تک جانا اور ایک دم چادر چھوڑ کر باتھ روم میں گھس جانا ۔شاور کے نیچے اکٹھے نہانا۔
کِسی ریسورٹ(Resort) میں جاکر واٹر گیمس کھیلنا ،خوب بھیگنا اور ٹرانسپیرنٹ ہو جانا ۔ گھر میں جینز،شارٹس اور لنگریز پہن کر گھومنا ،پابندی سے بیوٹی پارلر جانا،فیشل،پیڈی کیور ،مینی کیور ……اسٹیپ کٹنگ ۔‘‘
(افسانوی مجموعہ دخمہ،افسانہ شکستہ پر ۔ص 106)
افسانہ ’’شکستہ پر‘‘ میں بیگ احساس نے ایک طرف عورت کے نفسیات کوپیش کیا ہے تو دوسری جانب کم عمری میںکی گئی شادی کے مضر نتائج کو بھی اُجاگرکیا ہے۔اِس افسانے میں ایک اور اہم مسئلہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ شادی کے بعد سب سے زیادہ غلط مشورے ماں جب اپنی بیٹی کو دیتی ہے تو بیٹی کے ذہن میں غلط تصور ات اُبھرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے اُس کی ازدواجی زندگی میں خلل پڑتا ہے یہاں تک کہ کہیں کہیں طلاق کی نوبت تک آجاتی ہے ۔عورت کا ذہنی کرب اور نفسیاتی کشمکش ،جدید طرز حیات کی اندھی تقلید ،تہذیبی اور روائتی قدروں کا زوال کا تذکرہ بھی اِس افسانے میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔سشماایک ایسی ہی عورت کا کردار ہے جس کی شادی کم عمر میں ہی اُس کی مرضی کے خلاف کرا دی جاتی ہے اور ایک سال بعد ماں کے غلط مشورے اور شوہر کے بدکردار ہونے کی وجہ سے طلاق لے کر گھر میںبیٹھنا پڑتا ہے ۔ ایک لڑکی کی ماں ہوتے ہوئے تمام حالات سے اکیلے نبردآزما دکھائی دیتی ہے ۔دوسری طرف اُس کی ماں اُس کی زندگی کے ہر معاملے میں مداخلت کرتی ہے اور اُس کے ساتھ نوکرانی جیسا برتاؤ کرتی ہے ۔جس کی وجہ سے سشمااپنی ماں سے نفرت کرنے لگتی ہے ۔
ششما کے کردار میںعورت کی فطرت اور نفسیات بھی اُبھر کر سامنے آتا ہے ۔وہ بدلتی حالات کے ساتھ ساتھ خود کو ڈھالنے کی بھر پور کوشش کرتی ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی نظر آتی ہے ۔حالانکہ اُس کے سر پر بہت سے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔مگر وہ سب سے مقابلہ کرتی ہے ۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب اُس کے لاشعور میں ڈر پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ پھر سے تنہائی کے احساس میں مبتلا نظر آتی ہے اُس کی نفسیاتی اُلجھن اور ذہنی تناؤ بڑھتا جا تاہے اُسے یہ ڈرلگتا ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ کہیں اُس کی جگہ اُس کی بیٹی نہ لے ۔
’’سشما خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔وہ بھی سمن کی عمر کی تھی اُس کی شادی کردی گئی ……… جوانی تو آئی ہی نہیں۔دس برس سے وہ ماں باپ کی خدمت میںلگی ہے ۔ اب شائدبھگوان کو اُس پر رحم آیا۔اُس کے اندر کی لڑکی جاگی ہے تو مقابل میں اُس سے خوبصورت جوان لڑکی کھڑی ہے ۔…… کیا وہ پھر ہار جائے گی ؟ نہیں!!‘‘ (افسانوی مجموعہ دخمہ،۱فسانہ ،شکستہ پر۔ص 114)
اِس افسانے کا ایک اور نسوانی کردار سمن ہے جو نئی نسل سے تعلق رکھنے والی الھڑ،سرکش ،گستاخ اور بے حیا لڑکی کی نمائندگی کرتا ہے۔سمن ایک ایسی نوجوان لڑکی کا کردار ہے جو اپنی عمر سے پہلے ہی بالغ ہو جاتی ہے ۔جس کے اندر رشتوں کا کوئی لحاظ نہیں رہتا ۔رشتے میں سوتیلے باپ سمیر میںبطورِ باپ کم اوردوست کے طور پر زیادہ دلچسپی لینے لگتی ہے ۔یہ کردار عصرِ حاضر کے فحش ماحول سے متاثر نظر آتاہے ۔ یہ اپنی ماں کے ساتھ بھی ہر بات بے باکی سے کہہ دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب اُس کی ماں سشما حاملہ ہو جاتی ہے تب بھی ماں کو فیگر خراب ہونے پر طنز کرتی ہے ۔
’’ممی کیا ضرورت تھا………… سارا فیگر خراب ہو جائے گا۔‘‘
’’مُجھے سمیر کے پیار کی ایک نشانی چاہئے۔‘‘
’’کیا نشانیاں ہی جمع کرتی رہیں گی ؟‘‘ سمن نے کہا ۔
’’ہاں کُچھ اچھی نشانیاں بھی چاہئیں۔‘‘ سشما نے جل کر کہا۔ (افسانوی مجموعہ دخمہ،افسانہ شکستہ پر،ص119)
سمن کا برتاؤ اور ماں کو ذہنی طور پر جس طرح سے وہ پریشان کرتی تھی ذیل کے اقتباس میں اُس کی ایک جھلک ہے۔
’’کالج سے آتے ہی ایک طرف سینڈل اُچھال دیتی ۔بیگ ایک طرف پھینک دیتی ۔منہ ہاتھ دھوئے بغیر کپڑے تبدیل کیے ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتی ۔سمیر کے گھر لوٹنے کا وقت ہوتا تو فریش ہو کر کپڑے تبدیل کرکے انتظار کرنے لگتی ۔کیا ہے اِس لڑکی کے دِل میں………؟ ‘‘(افسانوی مجموعہ دخمہ،افسانہ شکستہ پر ۔ص 119)
دراصل نو جوان نسل کو بے راہ روی،سرکشی اور بے حیائی کی طرف لے جانے میں فحش تصاویر ،ٹیلی ویژن اور موبائل فون کا نا جائز استعمال اہم رول نبھا رہے ہیں۔صحیح تربیت نہ ہو نے کے باعث نئی نسل فحاش ویڈیوزدیکھ دیکھ کر عمر سے پہلے ہی بہت سارے معاملات سے آگاہ نظر آتے ہیں۔
’’چار پانچ برس میںکتنا کُچھ بدل گیا ۔میوزک چیانلس کی اینکرس،ایٹم گرلس،ری مکسنگ گرلس، جیسے ساری جوان لڑکیاںننگی ہونے کو اتاؤلی ہو رہی ہیں۔شہرت پانے کا یہی شارٹ کٹ ہے ۔ ٹی وی اور انگریزی میگزینوں اور اخباروںنے وقت سے پہلے ہی بچوں کو ذہنی طور پر بالغ کر دیا ہے۔‘‘
(افسانوی مجموعہ دخمہ،افسانہ شکستہ پر۔ص 111)
اِس افسانے کا ایک اور نسوانی کردار سشما کی والدہ ہے جو اِس کہانی کی وِلن ہے ۔وہ اپنے شوہر سے پوچھے بغیر ہی تمام فیصلے لیتی ہے اور اپنے لئے گئے فیصلے دوسروں پر زبر دستی تھوپتی رہتی ہے یہاں تک کہ سشما کے بچپن میں ہی اُس سے پوچھے بغیر اُس کی شادی ایک ایسے شخص سے کرا دیتی ہے جو اپنی بھابی کے ساتھ جسمانی طور پر ناجائز تعلقات میں مبتلا رہتا ہے اور سشما کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا ۔ سشما کی ماں اُس کی ازدوجی زندگی میں مسلسل مداخلت کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ طلاق کی نوبت آجاتی ہے اور پھر سشما سے گھر میں نوکرانی کی طرح کام کراتی رہتی ہے ۔جب سشما اپنی مرضی سے بچپن کے دوست سمیر سے شادی کرتی ہے تو اُس وقت بھی اڑچنیں ڈالتی ہے ۔ماں بیٹی کے درمیان جو نظریاتی تضاد آجاتا ہے اُس سے دونوں کا رشتہ بجائے شفقت کے تلخ ہو جاتا ہے۔بقولِ مصنف:
’’اُسے اپنی ماں سے سخت نفرت تھی۔ممی نے ہی اُس کی شادی کم عمری میں کر دی تھی ۔علیحدگی کا فیصلہ بھی اُنھیں کا تھا ۔سمن کو اُس کے باپ کو نہ دینے کا فیصلہ بھی اُنھوں نے ہی کیا تھا ۔جب اُس کی مُلاقات سمیر سے ہوئی تھی تو شادی کی سخت مخالفت بھی ممی نے ہی کی تھی۔ پھر سمن پر اُس کا کوئی اختیار بھی نہیں تھا۔ممی نے اُس کو کبھی ماں بننے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔سمن نے کبھی اُسے ماں سمجھا ہی نہیں۔اور اب اچانک ممی نے سمن کو اُس کے حوالے کر دیا ۔سمن کو ممی ہی نے ہی بگاڑا ہے ۔لیکن اب کیا ہو سکتا ہے؟ ‘‘(افسانوی مجموعہ دخمہ ،افسانہ شکستہ پر ۔ص (118
مختصریہ کہ افسانہ ’’شکستہ پر ‘‘ میںجہاں ایک طرف عورت کی نفسیاتی کشمکش اور ذہنی اُلجھن کو پیش کیا گیا ہے وہیں دوسری جانب اِس افسانے میں بیگ احساس نے انسانی معاشرے میں پنپنے والی بُرائیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے ۔زندگی کی مختلف رنگینیوں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کابے راہ روی ،بے حیائی اور سرکشی کی طرف رجوع کرنا ،مغربی یعنی جدید طرزِ حیات کی اندھی تقلید پر بھی مصنف نے کُھل کر طنزکیا ہے۔عورتوں کی صحیح تربیت نہ ہونے کے منفی نتائج ،دیکھا دیکھی ،چاپلوسی ،چغل خوری ،کانا پھوسی ،عریانی ، بدفعلی اور بے حیائی جیسی سماجی بُرائیوں سے بھی افسانہ نگار نے اِس افسانے میں پردہ اُٹھایا ہے ۔
افسانہ ’’شکستہ پر ‘‘ فن کے لحاظ سے بھی اہم افسانہ ہے ۔جہاں اِس میں مکالمہ نگاری کی عمدہ پیش کش دیکھنے کو مِلتی ہے وہیںافسانے میں پیش کیے گئے مناظر بھی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔افسانہ ’’شکستہ پر ‘‘ کا پلاٹ مربوط ہے کہانی میں ابتداء تا انجام تسلسل برقرار نظر آتا ہے ۔افسانے کا نکتہ نظر عورتوں کی خانگی پریشانیاں اور کم عمری میں کی جانے والی شادی اور طلاق کے بعد کی مصیبت زدہ زندگی پر مرکوز ہے ۔اِس افسانے میں اکیسویں صدی کی عورت جس ذہنی تناؤ اورنفسیاتی اُلجھن اور گھریلو پریشانیوں خاص کر ازدواجی زندگی سے متعلق دوچار ہوتی ہے کو بڑی مہارت کے ساتھ افسانہ نگار نے اُجاگر کیا ہے۔
***
VIJAY KUMAR
Ph.D SCHOLAR
PG Deptt.Of URDU,UNIVERSITY OF JAMMU
JAMMU,TAWI 180006(J&K)
M.No.7889315716