You are currently viewing شیفتہ شخصیت اور فن

شیفتہ شخصیت اور فن

نازیہ حسن

ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

شیفتہ شخصیت اور فن

 

نواب مصطفیٰ خان فارسی میں حسرتیؔ اور اردو میں شیفتہؔ تخلص کرتے تھے۔شیفتہ  (۱۸۰۶ تا ۱۸۶۹ء) کی زندگی ۵۴ برس کی عمر پر محیط ہے۔ خوش شکل، خوش رنگ، خوش وضع اور ایک عاشق مزاج انسان تھے۔ شیفتہ کی زندگی کا ابتدائی زمانہ عیش و عشرت میں گزرا بعد میں عشق کی راہ میں ناکامی کے صدمے سے دل برداشتہ ہوئے تو نانی اور والدہ کو اس کے سوا کوئی اور سبیل نظر نہیں آئی کہ و ہ ان کو حج کے لیے آمادہ کریں۔ ان کے سامنے حج کی خواہش کا اظہار کرکے انھیں حج کے لیے آمادہ کیا۔سفر حج کے بعد ان کی روش زندگی تبدیل ہوگئی۔ یہ ان کی زندگی کا دوسرا رخ ہے۔ اس کے بعد تمام لغویات سے توبہ کرلیا ۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔  ؎

جب سے آئے ہیں حرم سے

شوق صنم و خواہش صہبا نہیں رکھتے

شوق خوباں اڑ گیا حوروں کا جلوہ دیکھ کر

رنج دنیا مٹ گیا آرام عقبیٰ دیکھ کر

شیفتہ اردو شعر گوئی اور سخن فہمی کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ شاعر کے علاوہ انھیں شعر و ادب کا ایک اہم نکتہ داں کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو اور فارسی دونون زبانوں میں شعری تجربہ کیا۔  شعرائے اردو کا ایک تذکرہ بھی لکھا جو ’’گلش بے خار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس تذکرہ سے شیفتہ کی تنقیدی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے لیکن ان کی اصل شناخت اردو غزل گوئی ہے۔

اردو غزل کی روایت میں شیفتہ کی غزل مجموعی طور پر بہت بڑے اضافے کا باعث نہین بنی البتہ اس روایت کو ایک نئے رنگ و آہنگ سے آشنا ضرور کیا۔ ان کا اصل کارنامہ ایک متوازن اور سادہ اسلوب کی تلاش ہے۔ کسی شاعر کی انفرادیت کو سمجھنے کے لیے تین چیزوں کا سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ خیالات، انداز بیان اور زبان۔ زبان کے معاملے میں شیفتہ کافی مشہور تھے۔ دبستان لکھنؤ کی طرح وہ زبان کے الجھنوں کے پابند نہیں۔ ان کی غزل اس اعتبار سے بلند مقام رکھتی ہے کہ انھوں نے زبان و بیان اور شوکت الفاظ کے استعمال میں کوئی خاص اہتمام نہیں کیا ہے۔ انھوں نے سیدھے سادے اانداز میں عام بول چال کی زبان استعمال کی ہے لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ اس زبان کو انھوں نے ادب و شاعری کی زبان بنادیا۔ شیفتہ نے تکلف اور تصنع سے کام نہیں لیا۔ اسی لیے ان کی زبان میں سادگی کا حسن ہے۔ مجموعی طور پر ان کی شاعری کی انفرادیت یہی ان کا انداز بیان ہے جس کی شہادت خود شیفتہ نے دی ہے۔  ؎

شیفتہ سادہ بیانی نے ہمیں چمکایا          ورنہ صنعت میں بہت لوگ ہیں بہتر ہم سے

شیفتہ کیسے ہی معنی ہوں مگر نامقبول              اگر اسلوب عبارت میں متانت کم ہو

شیفتہ نے مومن خان مومنؔ کی شاگردی اختیار کی تھی چناں چہ اپنے استاد کے نقش قدم پر چل کر انھوں نے بھی اپنی غزلوں کا اصل موضوع حسن عشق کو بنایا ہے۔ شیفتہ کے یہاں تصور عشق میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ عمومیت ہے۔ انھوں نے اپنی غزل میں عشق کو ایک عام انسان کا فکری جذبہ بناکر پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں محبوب اور عاشق کے تمام حرکات و سکنات اور واردات و کیفیات میں بعید از قیاس باتیں نظر نہیں آتیں۔

شیفتہ نے اپنے محبوب کو غیر معمولی شخصیت کا حامل نہیں دکھایا ہے بلکہ اس میں عام انسانوں کی سی خصوصیت نمایاں ہیں۔  ؎

عاشق بھی ہم ہوئے تو عجب شخص کے ہوئے

جو ایک دم خون کرے سو ندیم کا!

اس وقت ہم گنے گئے احباب خاص میں

آیا جو تذکرہ کبھی لطف عمیم کا

لڑتے ہو جب رقیب سے کرتے ہو مجھ سے صلح

مشتاق یاں نہیں کوئی اس التفات کا

اس شوخ ستم گر سے پڑا ہے مجھے پالا

جو قتل کئے پر بھی تاسف نہیں کرتا

وعدہ کس شخص کا اور وہ بھی نہایت کچا

ہم بھی کیا خوب ہیں سچ مچ ہمیں باور آیا

شیفتہ نے اپنی غزلوں میں محبوب کے ناز و ادا کے مختلف پہلوؤں کی تصویریں بڑے مصورانہ انداز میں پیش کی ہیں۔ ان کے یہاں ایک ایسے محبوب کا تصور پیش کیاگیا ہے جو صرف ظلم و ستم اور جور جفا ہی نہیں کرتا بلکہ زندگی سے لطف اندوز ہونا بھی جانتا ہے۔ بذلہ سنجی اس کے مزاج کی اہم خصوصیت ہے۔ ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں جس کا ہر شعر ڈرامے کا ایک سین بن جاتا ہے۔  ؎

کہا کل میں نے اے سرمایہ ناز

تلون  سے تم کو مدعا کیا

کبھی مجھ پر عتاب بے سبب کیوں

کبھی خلوت میں یہ شرم و حیا کیا

کبھی تمکین صولت آفریں کیوں

کبھی الطاف جرأت آزما کیا

کبھی شعروں سے میرے نغمہ سازی

کبھی کہنا کہ یہ تم نے کہا کیا

کبھی اس دشمنی پر بہر تسکیں

پئے ہم جلوہ ہائے دلربا کیا

یہ سب طول اس نے سن کر بے تکلف

جواب ایک مختصر مجھ کو دیا کیا

ابھی اے شیفتہ واقف نہیں تم

کہ باتیں عشق میں ہوتی نہیں ہیں کیا کیا

شیفتہ کی غزلوں کا بنیادی موضوع عشق و عاشقی ضرور ہے لیکن اس کے علاوہ بھی انھوں نے اپنی شاعری میں اپنے عہد کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورت حال کی عکاسی کی ہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان کی شاعری کا خمیر اپنے معاشرے میں پھیلے ہوئے انتشار اور ابتری سے تیار ہوا ہے۔

آرام سے ہے کون جہان خراب میں              گل سینہ چاک اور صبا اضطراب میں

اس شعر میں ’’جہان خراب‘‘ ایک سیاسی رمز ہے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے جس کا تعلق غدر کے انقلاب اور مصائب سے ہے بالخصوص ان اذیت ناک حالات سے جن سے شیفتہ کو دوچار ہونا پڑا تھا۔ انگریزوں نے شیفتہ کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا اور جائیداد اور مکانات نذر آتش کردیا تھا۔ اس لحاظ سے اس شعر میں آپ بیتی کا رنگ بھی ہے لیکن ان کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے آپ بیتی کو جگ بیتی کا روپ دے دیا ہے۔ غدر کے ہنگامے کی وجہ سے دلی کی کیا حالت بنی اور دلی والوں پہ کیا بیتی شیفتہ نے اپنی غزلوں میں اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔  ؎

مدت ہوئی بہار جہاں دیکھے ہوئے               دیکھا نہیں کسی نے گل بے خزاں ہنوز

حسرت سے اس کے کوچے کو کیونکر نہ دیکھئے       اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانا تھا

نہ مے کدے میں ترانہ نہ خانقاہ میں سماع          دعائے خیر ہے اس آفت جہاں کے لئے

شیفتہ کی غزلوں کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں بارہا ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن میں کوئی نہ کوئی اخلاقی درس موجود ہوتا ہے۔  ؎

ہر شغل میں اہم ہے نگہبانی نفس سے سوا

اس سے سوا جہان میں شغلِ اہم نہیں

شیشہ اتار شکوہ کو بالائے طاق رکھ

کیا اعتبار زندگیٔ بے ثبات کا

کس واسطے ہم آئے ہیں دنیا میں شیفتہ

اس کا جو دیکھئے تو بہت کم خیال ہے

اگر رنگ و مزاج کے علاوہ شیفتہ کی شاعری کو دیکھا جائے تو وہ ایک قادرالکلام شاعر نظر آئیں گے۔ ان کی قادرالکلامی کا ثبوت غالب کے اس شعر سے ملتا ہے۔  ؎

غالب بفن گفتگو نازد بدیں ارزش کہ او            ننوشت در دیوان غزل تامصطفی خاں خوش نہ کرد

شیفتہ کے عہد میں انفرادی رنگ کی شناخت جہاں شعرا کے خیال اور مضامین سے ہوتی تھی وہیں ایک ذریعۂ مخصوص تراکیب بھی ہواکرتی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ اشعار میں ان تراکیب سے شعر کے حسن میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے مگر اس بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس اجتہاد نے زبان کا دائرہ وسیع کیا۔ شیفتہ کی چند تراکیب بطور مثال :

تقویم سال رفتہ، اختر بخت نژند، پیمان ترک جاہ، سرناصیہ فرسا، داغ آہوئے حرم وغیرہ

ہے کارنامہ جب سے بیاض اپنی شیفتہ

تقویم سال رفتہ دیوان کلیم کا

سجدے کی کسی درپہ تمنا نہیں رکھتے

گردن پہ سرناصیہ فرسا نہیں رکھتے

شعلہ زخم سے اے صید افگن

داغ آہوئے حرم یاد آیا

بلند اور خوش آہنگ شاعر وہ ہے جس کا کلام قبول عام کی سند حاصل کرلے۔ اس کے اشعار زبان زد ہوجائیں اور ضرب المثل کا شکل اختیار کرلیں۔ ہمارے شاعروں میں میر، غالب، مومن، اقبال بلاشبہہ صف اول کے ایسے شاعر ہیں جن کا کلام اس خصوصیت کا حامل ہے۔ شیفتہ کے یہاں بھی ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے۔  ؎

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ

بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی

میںکیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ

اک آگ سی جو سینے کے اندر لگی ہوئی

شیفتہ نے صنف غزل کو غزل ہی کے معنی میںبرتا اور اسے زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کے اظہار کا کامیاب ترین ذریعہ بنایا۔ ان کا منفرد لب و لہجہ، زبان و بیان اور انداز فکر و خیال اردو کے غزل گو شاعروں میں انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔

***

Leave a Reply