رُخسانہ بانو
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر شُعبہ اُردو
سینٹرل یو نیورسٹی آف کشمیر
صادقہ نواب سحر کے ناولوں میں عورت کی کردار نگاری
عورت کے وجود سے یقیناً کا ئنات کی تصویر رنگین ہے۔ لیکن خود یہ مخلوق بیشمار سنگین مسائل سے دو چار ہے۔ تخلیق کار جب کسی تخلیق کو خلق کرتا ہے۔ تو آس پاس کے ماحول اور معاشرے کے مسائل کو ہی موضوع بنا تا ہے۔ صدیوںکے اس مرد اساس سماج یا معاشرے میں مرد کے مقابلے میں عورت زمانہ قدیم سے محکومیت اور مظلومیت کا شکار رہی ہے۔اور محکومیت و مظلومیت ہمارے افسانوی ادب کا ایک اہم اور محبوب موضوع رہا ہے۔ چونکہ تخلیق کار اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ اس لئے عورت سے جڑے مسائل کی عکاسی و ترجمانی مرد فکشن نگاروں نے اپنے اپنے طور سے کی ہے۔ مثلاً پریم چند، منٹو، بیدی وغیرہ وغیرہ مگر وہ واردات و معاملات کی اُس گہراہی و گیراہی تک رسائی حاصل کر کے جس شدت سے آج کل حقیقی جھلکیاں ہمیں خواتین کی پیش کش میں نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ خواتین فکشن نگاروں نے عورت سے متعلق سماج ناہمواری اور انصافی نا برابری کو اپنے فکشن میں مرکذیت عطا کی ہے۔ خواتین نے بھی عورت سے وابستہ کئی مسائل و موضوعات کو اپنے کہانیوں میں جگہ دی ہے۔ اگر چہ ابھی ان فکشن نگاروں کی تعداد قدرے کم ہے۔ لیکن یہ قلم کار خواتین اس وجہ سے اہمیت کی حامل ضرور ہیں۔ کہ ان کی تخلیقات میں ہندوستان کی فضائوں اور ہواو ٗں کی مقامی بوہاس کا احساس ملتا ہے۔
اُردو دنیائے ادب میں صادقہ نواب سحر ایک بلند مقام حاصل کر چکی ہے۔ ان کا شمار جنوبی ہند کی بلند پائیہ تخلیق کار خواتین میں سے ہے۔ انہوں نے تخلیقی ادب کے سیاسی و معاشی مظاہر کو نمائندگی دینے کیلے ناول نگاری کی طرف توجہ نہیں دی۔ بلکہ ماحول اور معاشرے کے علاوہ سماج میں تیز رفتاری کے ساتھ پھیلتے ہوئے یورپی افکار اور ان کے ذریعے سے تہذیب و اخلاق کی بگڑتی صورتحال کو عوام تک پہنچانے کیلے تخلیقی ادب کو وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔
جسکی وجہ سے ان کے افسانوں اور ناولوں میں حقیقت پسندی اور معاشرے و سماج کی نمائندگی کا بھر پورا حق ادا ہوتا ہے۔ چونکہ صادقہ نواب سحر حساس معاشرے میں سماجی رشتوں کو موضوع بنانے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے بیک وقت کئی شمعیں روشن کر رکھی ہیں۔ شاعری، افسانہ، ناول، ڈامہ، ترجمہ نگاری کو ایک ساتھ ایک معیار کے ساتھ لکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن صادقہ نواب سحر نہ صرف اظہار کی ان ساری شمعوں سے جہاں اُردو کو روشن کیا ہے۔ بلکہ اپنی مختلف الجہات شخصیت اور اپنی تخلیقی ہنرمندی سے اُردو دنیا کو اپنا معترف بھی بنایا ہے۔ کہانی کوئی سنائو متاشا ’’منت‘‘ خلش بے نام سی‘‘ اور جس دن سے‘‘ کی کہانیوں سے صادقہ نواب سحر نے فکشن کی ایک نئی کائنات تخلیق کی ہے۔ اور ایسی کائنات جس کی ہر دیوار پر ان کی شناخت قائم ہے۔
جب بھی تانیثیت میں اُردو ناولوں کی بات ہوگی تو صادقہ نواب سحر کے ناول ـــــ’’ کہانی کوئی سنا ئومتاشا ‘‘ کے بغیر ادھوری سمجھی جائے گئی۔ کیونکہ اس ناول میں صرف ایک عورت یعنی ’متاشا‘ کی کہانی نہیں، بلکہ ان تمام عورتوں کی کہانی ہے جو آج کے ترقی یافتہ دور میں ظلم وستم اور استحصال کی شکار بنی ہے۔ اور جنھوں نے مرد اساس اس معاشرے میں صنفی عدم مساوات ظلم وتشدد اور خاص کر جنسی استحصال کو اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔صادقہ نواب سحر کے یہاں موضوعاتی بحران نہیں ہے۔ بلکہ سماجی اور معاشی حالات کے بیان میں جنسی مسائل ذیلی طور پر احتیاط کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔صادقہ نواب مثبت اور پختہ ذہن کی مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں صرف عورت کو ہی سماج کا مظلوم نہیں ٹھہرایا۔ جو کہ اکثر ہوتا ہے۔ کہ کہیں کہیں گھریلوں زندگی میں بکھراو کے لئے خوتین قصوروار ہوتی ہیں۔ صادقہ نواب خود عورت ہیں۔ نسوانی احساسات و جذبات کی ترجمانی بہتر طریقے سے کرتی آئی اور اپنی کہانیوں میں یہ حق ادا بھی کیا ہے۔
ان کا ایک شعر ’’عورت‘‘ کے بارے میں یوں سمجھے:۔
’’میں عورت ہوں یہ فطرت میں ہے میری‘‘
میں اپنا گھر بسانا چاہتی ہوں
اس طرح کی سوچ اور فکر واقعی صادقہ نواب سحر کے تخلیقی موضوعات کو مضبوطی فراہم کرتی ہیں۔
ناول ’’کہانی کوئی سنائو متاشا‘‘ کو بر صغیر ہندوپاک میں بے انتہا شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ ناول ’’متاشا کردار‘‘ کی مظلوم داستان پر مبنی ہے۔جس میں ہندوستانی معاشرے میں عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور ظلم کے خلاف عورت کی محاذ آرائی، جبر وتشدد کو متاشا کو مرکزی کردار میں رکھ کر بہترین انداز میں پیش کی گیا ہے۔ اس ناول میں ’’متاشا‘‘ کردار کے تحت کئی سماجی اور نفسیاتی مسائل سے پڑ ھنے والوں کو روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اگر چہ یہ ناول ’’ایک لڑکی‘‘ کی کہانی کے اردگرد گھومتی ہے۔ مگر اس میں وہ آہ وبکار اور چیخ و پکار دیکھنے کو نہیں ملتی۔ جو آزادی نسواں کے حامی اکثر لگاتے ہیں۔ یہ ناول عورت ذات کے دردوکرب اور اس کی بے بسی کا ذکر ہے۔ لیکن ناول نگارنے اس بے بسی کے پردے میں جن جنسیات کے پہلو کو بے با کا نہ طریقے سے کریدنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اگر ناول نگار اس موضوع کو ذیادہ چھیڑچھاڑ کرتیں۔ تو اصل مقصد تھیم سے بھٹک جاتیں۔ یہاں پر نواب سحر صاحبہ کا لکھنے کا اسلوب واقعی نظر آتی ہیں۔ کہ انہوں نے جس موضوع کو اصل میں اس ناول چھیڑا وہ ہے سماج میں ایک لڑکی کے وجود کا ہے۔ اس کے پیدا ہونے سے لیکر اس کے جوانی کی دہلیز تک پچنے اور پھر جوانی کے طوفان سے لیکر اس کے شناخت ہونے تک کے تمام مراحل میں جتنے مسائل سے عورت دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہ اس ناول کا موضوع ہے۔ یہ ناول ایک کامیاب ناول ثابت ہوئی ہے۔ جس کا مرکزی کردار ایک عورت ہے۔ اور عورت ذات کو ہی محور بنا کر صادقہ نواب سحر نے اسے لکھا ہے۔ جس میں عورت اپنی زندگی کی بپتا خود سناتی ہے۔ اور اس ناول میں جگہ جگہ خود کلامی متاشا کی نفسیاتی شبیہ کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر چہ اس ناول میں متا شا کی مظلومیت ایک علامت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اس ناول کو نسائی ادب کے خانوں میں رکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہانی اُس طبقے کی کہانی پر مبنی ہے۔ جہاں لوگ غربت وافلاس کے مارے حاشیے پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس ناول کا موضوع یوں تو علاقائی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ناول کا مرکزی کردار متا شا اور اس کے رشتہ داروں کی زندگی کیلے جدوجہد ظلم اور استحصال کے خلاف احتجاج ۔ یہ موضوع مقامی نہ ہو کر آفاقی بن جاتا ہے۔
اگر چہ اس ناول کے کہانی ’’کوئی سنائومتاشا‘‘ میں صادقہ نواب سحر نے عورت کی نبض ٹٹول کر اس کے دُکھ درد کو بڑی چابک دستی سے اُجا گر کیا ہے۔ وہیں ان کی دوسری ناول ’’جس دن سے‘۔۔۔‘ میں صادقہ نواب سحر نے اس ناول میں والدین کے درمیان ہونے والے جھگڑے سے بچوں پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ اور اس جھگڑے سے خاندان کس طرح متاثر اور بکھر جاتا ہے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ اس ناول میں اور بھی مسائل ہے جن کو مصنفہ نے قاری تک اور سماج میں رہنے والے اُن نام نہاد لوگوں تک پہچانے کی کوشش کی جو سماج میں بیٹھے بڑے دعوے کررہیں اس ناول میں ایک ایسے لڑکے کی داستان ہے جس سے نہ باپ کا پیار اور نہ ماں کی محبت ملتی۔ اس ناول کا اہم کردار جیتیش جس کو سب جیتو کہہ کر پکارتے ہیں۔ جیتو کے والدین اکثر آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اور جب یہ لڑائی کا معاملہ اور ذیادہ بڑھ گیا۔ تو جیتو کے والدین الگ رہنے لگے ۔ یعنی ماں ہمیشہ کیلے میکی چلی گئی اور جیتو باپ کے پاس رہ جاتا ہے۔ اس دوران جیتو کا باپ اپنی بیوی سے اتنی نفرت کر بیٹھا۔ کہ اس نے اپنے بیٹے کو بھی ماں سے نفرت کرنے کیلے اُکسایا اور حد تو یہ ہے کہ باپ بیٹے کو پی سی اوہلے جا کر فون پر ماں کو گالیا دلواتا ہے۔ یعنی یہاں قاری تجس میں رہ جاتا کہ چھوٹا سا بچہ ماں کو گالیاں کیسے دے گا۔
جیتو کے الفاظ اس طرح ہیں۔
’’اور پھر میری زندگی میں وہ دن بھی آگئے جب رات کے وقت ڈیڈی مجھے پی سی او لے جاتے‘ماں کو گالیاں دے‘ پبلک فون کا رسیور زور سے میرے کان پر دبا دیتے‘‘ تیری ماں نے۔۔۔۔ ایسا کیا ویسا کیا۔۔۔ تو اس کو گالیاں دتے وہ شراب کے نشہ میں ہوتے مجھے جھنجوڑتے پیٹتے میں آپ ہی ماں کو گالیاں دیتا اور روتا۔۔۔۔مما سے کہہ نہیں پاتا کہ یہ الفاظ میرے نہیں‘‘ ص (۳۵)
آخر جیتو کی نفسیات اور ذہن پر نہ جانے کیا کیا اثرات پڑجاتے وہ دوسرے بچوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ۔ کہ کاش میری بھی زندگی اسطرح کی خوشیوں سے بھر جاتی۔ مگر آہ! اس کی یہ حسرت پوری نہ ہوئی۔ جیتو کے باپ اس کی ماں
کو چھوڑ کر پھر دو اور شادیاں کر لیتا۔ اور سوتیلی ماں جیتو کو بہت زیادہ پریشان کرتا۔ اگر یہ شکایت کرتا بھی۔ تو بدلے میں جیتو کو ہی مار کھانا پڑتا نتیجتاً جیتودل میں رفتہ رفتہ ماں باپ کیلے نفرت کا زہر کھول جاتا۔
جیتو کے الفاظ:۔
’’مجھے اکثر لگتا ہے۔ کہ ماں، ماں نہیں صرف زریعہ ہے۔ دنیا میں لانے کا۔ میری ماں ’’مدر نیچر‘‘ میری ماں قدرت ہیکیونکہ اس نے مجھے جینا سکھایا ہے۔ زندگی میں بہت کچھ سوچتا ہوں۔ ایسا کرنا ہے۔ممی ڈیڈی ہیں ہی نہیں میں چاہتا تھا۔کہ عام لوگوں کی طرح رہوں۔ دوسرے گھروں کی طرح جہاں سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوں (ص ۲۱)
یہاں سوتیلی ماں جیتو کے ساتھ ایسا سوتیلا پن کیوں کرتا۔ اگر چہ وہ عورت ہے کیا اُس کے دل میں ممتا نہیں جاگ جاتا ؟ ایک بڑا سا سوال؟ عورت ہو کے عورت کی ذات پر ایک بڑا سوال؟
جیتو کے ساتھ صرف سوتیلی ماں کا سوتیلا پن کا ہی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ اپنے باپ کے قریب جاتا تو باپ ماں کو الزام دیتے۔ اپنی ماں کے قریب جاتا۔ تو ماں اس کے باپ کو بُرابھلا کہتے۔ جس سے جیتو کے دل میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے دل میںتلخی بھر جاتی رفتہ رفتہ اس کے دل میں اپنے ہی ماں باپ کیلے نفرت بڑھ جاتی نتیجتاً ان دونوں (یعنی ماں باپ ) کے جھگڑوں سے جیتو پر اتنا اثر ہوا کہ وہ پڑھائی میں بھی ناکام ہوا۔اور جیتو کوزندگی نے قدم قدم پر امتحان لیا۔اس کو جب دلی سکون نہیں ملا۔ تو کوئی خوشی نہیں ملی۔ غرض جیتو کے یہاں نفسیاتی عوامل کام کرتے نظر آتے ہیں۔ فطری طور پر اس ناول میں ایک کردار دوسرے کردار سے نفرت کرتا ہے۔
ناول ’’جس دن سے ۔۔۔‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے۔ کہ وہ تمام نظریات ا ور افکار سے بالاتر ہو کر ناول لکھنے کی طرف توجہ دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے۔ کہ ان کے ناول میں ہندوستان کی سر زمین کی انسانی زندگی اور اس کے مسائل کی بھر پور نمائیدگی محسوس کی جاسکتی ہے خاص طور پر صادقہ نواب سحر نے اپنے ناول پر اپنے زمانے کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی افکار کو ناول کا حصہ بنانے سے گریز ہوتا ہے ۔مگر ناول پڑھتے ہوئے پڑھنے والے کو خود احساس ہو جاتا ہے۔ کہ جن کردار وں اور ان کے رویوں کے توسط سے وہ ناول کا مطالعہ کر رہا ہے اس کا تعلق
نہ تو یورپ کی سر زمین سے ہے اور نہ تو ایشاء کے دوسرے علاقوں سے اس کا رابطہ استوار ہوتا ہے۔ بلکہ صرف اور صرف ہندوستانی تہذیب سے ہے۔اور جس کا ثبوت ناول ’’جس دن سے‘‘ کے ذریعہ چلتی پھرتی اور قاری کے ذہن کو متاثر کرتی نظر آتی ہے۔
الغرض صادقہ نواب سحر کہانی کی تخلیق سے پہلے وہ کہانی کا حصہ بن کر کردار کی روح میں اتر جاتی ہیں۔ کردار چاہے متاشا کا ہو یا جیتش کا دونوں ناولوں کے مرکزی کرداروں کے ساتھ مصنفہ کا (Treatment )مرہم فطری ہے۔ صادقہ نواب عورت کا کردار پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔ اورمرد کا کردار بھی۔ بہر کیف صادقہ نواب سحر کے ناول موضوعاتی اور فنی اعتبار سے کامیاب ناول ہیں۔
***