ڈاکٹر ارشاد شفق
پوسٹ گریجویٹ ،شعبۂ اردو،ٹی ڈی بی کالج،رانی گنج،مغربی بنگال
صالحہ عابد حسین کے افسانے
صالحہ عابد حسین کا اصل نام صالحہ مصداق فاطمہ تھا۔ ان کی پیدائش ۱۸؍اگست ۲ ۱۹۱ ء کو پانی پت میں ہوئی۔ چونکہ ان کا تعلق خواجہ الطاف حسین کے ادبی گھرانے سے تھا اس لئے انہیں علمی وادبی ماحول بچپن سے ملا۔ ڈاکر عابد حسین سے شادی کرنے کے بعد ادبی دنیا میں وہ صالحہ عابد حسین کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ ان کے والد گلبرگہ میں جج کے عہدے پر فائض تھے۔ انہوں نے اپنے ادبی ذوق کا ثبوت بچپن میں ہی دے دیا تھا۔ چونکہ وہ حالی سے متاثر تھیں اس لئے انہوں نے حالی پر کئی مضامین بھی لکھے اور ادبی دنیا کو اپنی گراںقدر تصانیف سے مالامال کیا۔ انہوں نے ناول ،ڈرامے ،افسانے ،بچوں کی کہانیاں اور ادبی مضامین سب کچھ لکھا لیکن ادبی دنیا میں ان کی پہچان فکشن کے حوالے سے قائم ہوئی۔صالحہ نے تقریباً دس ناول اورچھ افسانوی مجموعے یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’نقش اوّل‘‘کے عنوان سے ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا۔ اس کے یکے بعد دیگرے ’’سازِ ہستی ‘‘(۱۹۴۶)،’’نراس میں آس‘‘ (۱۹۴۸) ، ’’نونگے‘‘ (۱۹۵۹)،’’دردودرماں‘‘اور ’’تین چہرے تین آوازیں ‘‘شائع ہوئے۔ ان کے اہم ناولوں میں ’’عذرا ‘‘،’’آتش خاموش‘‘،’’قطرے سے گہر ہونے تک ،’’یادوں کے چراغ‘‘،’’اپنی صلیب‘‘،’’اُلجھی ڈور‘‘اور ’’ساتواں آنگن ‘‘وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوںنے لکھنے کی شروعات بچپن میں ہی کی تھی۔ اس ضمن میں وہ لکھتی ہیں:
’’میں نے بہت کم سنی میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ غالباً ۹ برس کی ہوں گی جب باقاعدہ لکھنا شروع کردیا تھا۔ میرے ابتدائی مضامین ’’تہذیب نسواں‘‘اور ’’پھول‘‘میں شائع ہوتے تھے۔ مگر میں نے اپنا پہلا ناول سولہ سال کی عمر میں یعنی ۱۹۲۹ء میں لکھا تھا جس کا نام ’’حسن اتفاق ‘‘تھا مگر یہ ناول ظاہر ہے کہ بہت بچکانہ تھا اس لئے میں نے اسے کبھی شائع کرانے کا خیال نہیں کیا۔‘‘(۱)
صالحہ عابد حسین کا پہلا افسانہ ۱۹۲۸ء میں ’’نور جہاں‘‘میں شائع ہوا جس کا عنوان’’ لمبی داڑھی والا پوپ‘‘تھا۔انہوں نے جس زمانے میں لکھنے کا آغاز کیا وہ ہندوستانی سماج کا بہت پر آشوب دور تھا۔ اس زمانے میں مسلم معاشرے میں بہت سی برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ بالخصوص عورت کے حوالے سے دقیانوسی اور قدامت پرستی عروج پر تھی۔ صالحہ نے اپنے افسانوں کے موضوعات اسی فرسودہ معاشرے سے لیا۔ انہوں نے اپنے عہد وماحول کا نہ صرف گہرائی سے مشاہدہ کیا بلکہ اس میں پیداہونے والے انتشار کو قلب وجگر سے محسوس بھی کیا۔ ان کے افسانوں کے خاص موضوعات ہندوستانی عورت کے مسائل،سیاست، تعلیم ،معاشرے کی ابتری ،ملک کی بدحالی وغیرہ ہیں۔ موصوفہ نے ان تمام موضوعات کو عام فہم زبان میں اپنے عہد وماحول کے مسائل اور بدلتے حالات کو سلیقے سے سمیٹا ہے۔ ترنم ریاض لکھتی ہیں:
’’صالحہ عابد حسین اپنے ادبی سفر کا آغاز ۱۹۲۹ء کے آس پاس کیا۔اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک پورے عہد کی گواہ (witness to an era)تھیں تو بے جانہ ہوگا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ ایک عہد مختلف ادواروں کی گواہ تھیں۔وہ ایک دم توڑتے ہوئے عہد کی اقدار کو پختہ ہونے کا تماشہ بھی دیکھ رہی تھیںاور ان کی جگہ نئے اقدار کے پروان چڑھنے کا نظارہ بھی کررہیں تھی۔‘‘(۲)
صالحہ عابد حسین کسی رنگ ،مذہب ،خطّہ یا ملک کی تفریق کی قائل نہیں تھیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں گنگا جمنی تہذیب کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں اس عہد میں جو بد حالی پھیلی ہوئی تھی وہ اس سے حد درجہ متاثر رہیں۔اپنے افسانوی محرکات کے حوالے سے وہ خود لکھتی ہیں:
’’میں افسانہ کیوں لکھتی ہوں،اس کا جواب تو نہیں دے سکتی ۔یہ جانتی ہوں کہ میںکسی رسالہ یا ریڈیوں کی فرمائش پر کہانی نہیں لکھتی ۔یا کبھی کبھار لکھنا پڑجائے تو وہ اکثر مجھے خود ہی پسند نہیں آتی ۔میںکہانی اسے سمجھتی ہوں جو خود زبردستی مجھ کو لکھوالیتی ہے ۔اور ہر گام سے بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اس انتخاب میں میری تقریباً سبھی کہانیاں ایسی ہی ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ کہانی فنکار کی دل کی گہرائیوں میں پلتی اور وہیں سے اُبھرتی ہے ۔دماغ کے کارخانے میں نہیں ڈھلتی۔جب تک کوئی واقعہ حادثہ یا کوئی کردار ،دل کے تاروں تک نہ جھنجھنا دے کہانی کے سُر نہیں جاگتے۔‘‘(۳)
صالحہ کے افسانوںمیں معاشرے کی بدحالی عروج پر ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کی گھریلوں زندگی ، سماجی حالات، فرسودہ روایات کے خلاف آواز بلند کی۔ عورت ہونے کی بناپر انہوں نے عورت کے کرب کو بخوبی سمجھا تھا۔ صدیوں سے دکھ،مصیبت اور سماج کے سخت گیر روّیوں کو سہتی ہوئی عورت ذات کی محرومی اور مجبوری کوانہوںنے قریب سے دیکھا تھا، چنانچہ ان کے افسانوں میں قدامت پرستی اور عورت کے تئیں رواں رکھے جانے والی رجعت پسندی کے خلاف بغاوت ملتی ہے۔ انہوں نے بہت ہی خوش اسلوبی اور غیرجابنداری سے عورتوں کی حالت کو قاری کے سامنے نہ صرف پیش کیابلکہ معاشرے میں عورت کے تعلق سے ان کے حق کے لئے آواز بھی بلند کی ۔افسانہ ’’درد ودرماں ‘‘کا یہ منظر دیکھئے:
’’پھول دئی، پھول رانی ،رام دائی ،لاجونتی اور اس جیسی ہزاروں سال لاکھوں عورتیں یہ جو صدیوں سے ہماری خدمت کررہی ہیں ۔جو آج بھی آزاد ہند میں ہماری سیوا کرتی ہیں۔ ہماری گندگی دھوتی ہیں۔اور ہم نے کیا دیا؟آئین سے انہیں کچھ حق ملے ہیں،وہ بڑے فخر سے ووٹ ڈالنے جاتی اور بس…….اس سماج نے اسے کیا دیا؟……مرد کی سماج نے ؟…….رسوم ورواج نے ؟……..‘‘(۴)
صالحہ عابد حسین کے افسانوں میں ملک وقوم سے محبت کا جذبہ بھی اُبھرتا ہے ۔انہوں نے تقسیم کے بعد ظہور پذیر ہونے والے حالات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ملک کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں برپا قتل وغارت گری اور فسادات کو انہوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا ،لہذا ان کے افسانوں میں تقسیم سے پیدا ہونے والے مسائل اور انسانی کرب بہت شدّت سے اُجاگر ہوتے ہیں۔ افسانوی مجموعہ ’’نرا س میں آس‘‘میں شامل بیشتر افسانوں میں اس کی جھلک بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔اس دور میں آپسی بھائی چارگی ،ٹوٹتے بکھرتے اخلاقی رشتے اور عورتوں کی عزّت کی پامالی وغیرہ جیسے مسائل جس سطح پرابھر رہے تھے، اس سے صالحہ ذہنی طور پر متاثر تھیں۔’’بھائی‘‘،’’آخری سہارا‘‘ ،’’نراس میں آس‘‘اور ’’دستگیر‘‘وغیرہ ان کی اس نہج کی کہانیاں ہیںجس میں تقسیم وطن کے دور کے حالات قلمبند ہوئے ہیں۔افسانہ ’’نوٹ‘‘میں انہوں نے اس موضوع پر لکھنے والے دیگر افسانہ نگاروں کی طرح تقسیم ہند کی مذ مت کرتے ہوئے انسان دوستی کا پیغام دیا ہے۔وہ لکھتی ہیں:
’’یہ ہندومسلمان اور سکھ کی لڑائی نہیں یہ تو درندوں اور وحشیوں کی جنگ ہے…..مذہب کا نام لے کر اسے بدنام کرنا ہے۔دنیا کا کون سا مذہب ہے جس نے اس ظلم وفساد کی ،اس قتل وخوں کی اجازت دی ہے؟کون مذہب ہے جو ہم وطنوں کو لڑاسکتا ہے۔یہ تو زبردست کی زیردست کی لڑائی ہے ۔ظالم کی مظلوم سے …….حیوانیت کی انسانیت سے لڑائی ہے۔‘‘(۵)
صالحہ کے افسانوی سفر کا مطالعہ تصدیق کرتا ہے کہ وہ کبھی کسی تحریک یا رجحان سے متاثر نہیں ہوئیںنہ ہی وہ کسی خاص فلسفہ ونظریہ سے متاثر نظر آتی ہیں۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا اپنے تجربے اور شعور کی آنکھوں دیکھا حال لکھا ۔ اگرچہ ان کے بیشتر افسانوں کا محرک کوئی نہ کوئی ایسا واقع ضرور ہوتا تھا جو حقیقت میں ظہور پذیر ہوا ہو لیکن ان واقعات کو بھی انہوں نے فن کے لبادے میں لپیٹ کر اس فنکاری سے پیش کیا کہ حقیقت کو افسانوی قالب میں ڈھالنے میں کبھی دشواری کا سامنا نہیں کر نا پڑا۔ایسا اس لئے کہ صالحہ کا فن بہت پختہ اور نکھرا ہوا ہے۔ ان کے افسانے مختلف مسائل کو اپنے اندر سمونے کے باوجود بھی کہانی پن کے لحاظ سے نہ کبھی ترسیل کے مسئلے کا شکار ہوئے اورنہ ہی ان میں افسانویت کا فقدان نظرآتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فنکار کی ذاتی زندگی کا عکس ان کے فن پارے پر بہت گہرا مرتسم ہوتا ہے ۔صالحہ بھی اس کرب سے آزاد نہیں تھیں۔ زندگی کی محرومیوں اور دلخراش لمحات نے ان کے فن کو اور پختہ بنادیا۔اپنی نجی زندگی میں انہوں نے بہت سے اُتار چڑھائو دیکھے تھے ۔ان کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ بچے سے محرومی تھا۔ وہ ایک بچے کی ماں تو بنیں لیکن پھر اس کے بعدانہیں یہ ابدی خوشی نصیب نہیں ہوئی۔چنانچہ زندگی کی اس تلخ حقیقت سے وہ کبھی نبرد آزما نہ ہوسکیں۔ ان کے افسانے ’’میاں بیوی‘‘،’’محرومی‘‘،’’پرتیں…پٹیا….پھاہے‘‘اور’’خواب آرزو‘‘وغیرہ میں ممتا کے جذبات ابھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماں کی محبت کے علاوہ ان کے افسانوں میں انسانی رشتوں کا بڑا عمل دخل ہے ۔انہوں نے نجی رشتوں اوراخلاقی قدروں کو بڑی اہمیت دی ہے۔ ’’جوہی کی بیل‘‘ان کا مشہور افسانہ ہے جس میں انسانی رشتوں کی اہمیت بڑی فنکاری سے واضح کی گئی ہے۔صالحہ نے اپنی پوری زندگی ادب کے نام کردی تھی جس کے صلے میں حکومت ہند نے انہیں ۱۹۸۳ء میں ’’پدم شری ‘‘کے اعلیٰ خطاب سے نوازا۔اس کے علاوہ ۱۹۸۷ء میں غالب اکاڈمی دہلی کی طرف سے انہیں ’’غالب ایوارڈ‘‘بھی ملا۔ عنوان چستی ان کی اہمیت اور انفرادیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’صالحہ عابد حسین اردو دنیا کی ممتاز قلم کار ہیں۔ انہوں نے اپنے تخلیقی سفرکا آغاز افسانوی ادب سے کیا۔لیکن علمی ،تنقیدی اور تحقیقی میدان میں بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اردو کی بے لوث انتھک ادیبہ ہیں ۔صلہ وستائش سے بے نیاز ہوکر تقریباً نصف صدی سے اردو زبا ن وادب کی مشاطگی میں مصروف ہیں ۔جو سادگی ،خلوص اور دردمندی ان کی شخصیت کا جوہر ہے وہی ان کے تنقید ی اور تخلیقی شہہ پاروں کا طرہ امتیاز ہے۔‘‘(۶)
المختصر صالحہ کے افسانوں کی انفرادیت اپنے دور کے حالات ورجحانات کی صحیح اور سچی عکاسی میں پوشیدہ ہے، جسے انہوں نے نہایت ہنر مندی سے افسانے کے قالب میں ڈھالا ہے۔
٭٭٭
حواشی:
(۱)ماہنامہ کتب نما،خصوصی شمارہ صالحہ عابد حسین نمبر،مدیر شاہد علی خان ،۱۹۸۹،ص۲۴
(۲)بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب،مرتب ترنم ریاض،ساہتیہ اکاڈمی،نئی دہلی،پہلا اڈیشن،۲۰۰۴،ص۱۰۰
(۳)’دردودرما‘ ،صالحہ عابد حسین ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی ،باراوّل،۱۹۷۷،ص ۸
(۴)ایضاً،ص۲۳۰
( ۵)نراس میں آس،صالحہ عابد حسین،کتب پبلشرز لمٹیڈ،ممبئی،بار اوّل ،دسمبر۱۹۴۸ء،ص۸۱
(۶)ماہنامہ کتب نما،خصوصی شمارہ صالحہ عابد حسین نمبر،مدیر شاہد علی خان ،۱۹۸۹،ص۲۰
Dr.Irshad Shafaque
PG.Department of Urdu
Trivenidevi Bhalotia College
Raniganj-713347(WB)
irshadansari@tdbcollege.ac.in
Ph:8100035441