ڈاکٹر شگفتہ فردوس
اسسٹنٹ پروفیسر جی سی وومن یونیورسٹی سیالکوٹ
صغیر افراہیم کی افسانہ نگاری : ایک جائزہ
ادب میں زندگی کی رعنائیوں اور کرب کی عکاسی سماجی پس منظر میں کی جاتی ہےیہ تخلیق کار کا کمال ہے کہ وہ زندگی کے کتنے متنوع رنگوں کو ادب کے کینوس پر بکھیر کر شاہکار تخلیق کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ تخلیق کے اس عمل میں زندگی سے قریب تر رہ کر حقائق کو رمزیت کے پیرائے میں یوں بیان کرنا کہ قاری اس کے زیریں معنی تک با آسانی رسائی حاصل کرلے ،افسانہ نگار کی مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔پروفیسر صغیر افراہیم کا افسانوی مجموعہ “کڑی دھوپ کا سفر —” حقیقت، خواب اور انسانی رشتوں کے تارو پود سے تخلیق ہو ا ہے،اس میں سماج ، نفسیات اور علامتی رنگوں کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ اس مجموعے میں پیش کئے گئے کرداروں کو قاری اپنے اردگرد پھیلی زندگی میں بخوبی دیکھ سکتا ہے۔صغیر افراہیم دنیائے ادب میں اپنی تنقیدی فکر و بصیرت کی وجہ سے منفرد مقام رکھنے کے ساتھ ممتاز افسانہ نگار بھی ہیں ۔انہوں نے اپنے افسانہ نگاری میں بھی تمام تکنیکی پہلووں پر خصوصی توجہ دی ۔ متنوع موضوعات پر قلم اٹھاتے ہوئے اانہوں نے پنے افسانوں میں سماجی ، معاشی ، نفسیاتی اور جنسی مسائل کو کہیں واضح اور کہیں رمزیہ انداز میں پیش کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے عنوانات سے لے کر اسلوب تک میں ا ُن کی انفرادیت جھلکتی ہے۔
ہمہ جہت شخصیت محمد صغیر بیگ افراہیم جنہیں دنیائے اردو ادب میں صغیر افراہیم کے قلمی نام سے جانا جاتا ہےاردو تنقید کا درخشاں ستارہ ہیں ۔ انہوں نے بطور نقاد، محقق، مبصر، دانشور اور اب بحیثیت افسانہ نگار ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ ان کے اس مخفی جوہر کو آشکار کرنے میں قاضی عبالستار کی حوصلہ افزائی کا بھی بہت دخل رہا جن کی ایما پر وقتی طور ہر انہوں نے اپنی اس صلاحیت کو تنقیدی جہات کے فروغ کے لیے وقف کیا اور اپنی انفرادیت قائم کی – صغیر افراہیم ۱۲ جولائی ۱۹۵۳ ء کو اناو اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور ۱۹۸۰ء میں ایم اے اردو کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ ۱۹۸۶ ء میں اسی جامعہ سے پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ان کی کامیابیوں کے اس سفر میں علی گڑھ یونیورسٹی کے فضا نے بھر پور کر دار ادا کیا انہوں نے اپنی تعلیم کے دو سرے ہی سال تمام علمی و ادبی سر گر میوں میں شمولیت ا ختیار کی فروغِ اردو ادکے ہر میدان میں آگے رہے۔
پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم تحصیل علم کے بعد اسی جامعہ سے منسلک ہو کر بحیثیت صدرشعبہ اردو ریٹائر ہوئے ۔اُن کی تصنیفات کی تعداد ۱۷ ہے جن میں ، پر یم چند ایک نقیب ، اردو افسانہ ترقی پسند تحریک کے بعد، نثری داستانوں کا سفر، اردو فکشن تنقید اور تجزیہ ، اردو کا افسانوی اد ب(تحقیقی و تنقیدی مضامین)، اردو ادب کی نئی قرات، اردو شاعری تنقید و تجزیہ، جگت موہن لال رواں ، اردو ناول تعریف ، تاریخ اور تجزیہ،پریم چند کی تخلیقات کا معروضی مطالعہ، اردو افسانہ-تعریف ، تاریخ اور تجزیہ۔سارک ممالک میں افسانہ،متن کی قرات۔،سعادت حسن منٹو( ایک صدی بعد)،اردو کے مختصر افسانے،ہم عصر اردو غزل ، سمت و رفتاراور کڑی دھوپ کا سفر(افسانوی مجموعہ) شامل ہیں ۔انہوں نے نے مختلف رسائل کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے جن میں رفتار ، دانش اور تہذیب الاخلاق کے علاوہ خصوصی نمبر تحریک ادب (بنارس)شمارہ نمبر ۱۹ ، ۲۱،۲۷، ۲۳، ۲۷، ۳۰، ۳۵ ۔خصوصی نمبرتزئین ادب ( شیر پور) شمارہ نمبر ۲۔ خصوصی نمبر جہان اردو ( دربھنگہ)شمارہ نمبر ۶۳،۶۴شامل ہیں ۔
صغیر افراہیم کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر کئی اعزازات سے نوازہ گیا جن میں ۲۰۱۴ء میں اردو فکشن اور تنقید میں بہترین کارکردگی کے اعتراف میں نواب محمد علی والا جاہ ایوارڈ،اردو ادب ایوارڈ: ہندی اردو ساہتیا ایوارڈ، ڈاکٹر انجم جمالی ایوارڈ، اصغر مہدی قومی یکجہتی ایوارڈ،صغریٰ مہدی قومی یکجہتی ایوارڈ۲۰۱۵ء اتر پردیش اردو اکیڈمی ،جامعہ اردو علی گڑھ کی جانب سے اردو زبان و ادب کے فروغ ، علم ، ادبی اور تعلیمی خدمات کے لیے انہیں جشن سرسید کے موقع ہر ۲۰۱۵ء- ۲۰۱۶ء کے” فخراردو” ایوارڈ ، اُن کی بلا تفریق رنگ و نسل مذہب ادبی خدمات کے اعتراف میں آگرہ سے ۲۰۱۶- ۲۰۱۷ ء میں سمیتا ایوارڈ،اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں کی جانے والی خدمات کے اعتراف میں” اردو ادب ایوارڈ ” ، ۲۰۱۸ ء میں “مغربی بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ” بمعہ تعریفی سند دیا گیا، علاوہ ازیں انہیں وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون ، سائنس و ٹیکنالوجی پاکستان سے نشان سپاس سے بھی نوازہ گیا۔
صغیر افراہیم نے متنوع جہات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوں نے تنقید ہی نہیں تخلیق میں بھی اپنے فن کے جو ہر دکھائے۔ ان کا افسانوِ ی مجموعہ “کڑی دھوپ کا سفر—“انہی کاوشوں کا عملی اظہار ہے۔صغیر افراہیم کو اپنے گھر میں ہی علم ادبی ماحول میسر آیا جس نے ان کے فن کی آبیاری کی ،ہائی سکول کے زمانے سے انہوں نے کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا اورعلی گڑھ کے علم و ادبی ماحول نے اس فن کو نکھار بخشا ۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران صغیر افراہیم نے فنوں لطیفہ میں خصوصی دلچسپی لی۔، اس حوالے سے قاضی عبدالستار کی خدمات قابل ستائش ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ ” راوی “کے ذریعے طالب علموں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع فراہم کیئے بلکہ انہیں بہترین مشوروں سے نوازتے ہوئے مستقبل کے تعین میں ان کی معاونت بھی کی ۔انہوں نے ڈاکٹرصغیرافراہیم کو افسانہ نگاری کی نسبت تنقید پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا ۔ اور جب وہ اس میں خوب نام کما چکے تو ایک بار پھر سے افسانہ نگاری کی جانب متوجہ کیا اس حوالے سے وہ اپنے ایک انٹر ویو میں کہتے ہیں :
“اب جب کہ صغیر افراہیم کا نقاد کی حیثیت سے مقام بن چکا ہے ۔ اُن کا اب
افسانوی مجموعہ منظرِ عام پر ضرور آنا چاہئے ۔ “(۱)
قاضی عبدالستار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے صغیر افراہیم نے انہیں ” فکشن کا میر کارواں ” کہا ہے۔ صغیر افراہیم کی افسانہ نگاری کا آغاز بھی قاضی عبدالستار کی نگرانی اور ان کی ہدایات کی روشنی میں ہوا ۔سہ ماہی ،عالمی میگزین میں دئیے گئے ایک انٹرویو میں قاضی عبدالستار نے صغیر افراہیم کی افسانہ نگاری کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے ان سے اپنے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
” صغیر میں اگر صلاحیت نہ ہوتی، تو ان کے والد سے کتنے ہی مراسم ہوتے، میں اُن کی تعریف نہیں کرتا۔ہمت افزائی نہیں کرتا،سکوت اختیار کرتا۔اُن میں صلاحیت تھی اس لیے میں نےہمت افزائی کی اور برابر کہانی لکھنے کے لیے اکساتا رہا، سنتا رہا اور نوک پلک سنوارتا رہا۔یہ بھید رست ہے کہ جب میں نے مناسب سمجھا انہیں تنقید پرخصوصی توجہ کی تلقین کی۔”(۲)
۱۹۷۷ءقاضی عبدالستار کے زیر نگرانی ادبی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں صغیر افراہیم نے اپناعلامتی اسلوب میں لکھا گیا افسانہ “ننگا بادشاہ “ پڑھا جسے بے حد پذیرائی ملی ۔ اس حوالے سے وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
“میں نےا فسانہ ننگا بادشاہ پڑھا ، جس کی نوک پلک قاضی عبدالستار نے درست کی تھی ۔تین سال بعد یہ افسانہ ، ماہنامہ” افکار”کراچی سے شائع ہوا۔بیرون ملک شائع ہونے والایہ میرا پہلا افسانہ تھا”(۳)
قاضی عبد الستار نے صغیر افراہیم میں تنقیدی صلاحیتوں کو ابھرتا دیکھ کر انہیں مشورہ دیا کہ فی الوقت افسانہ نگاری کو موخر کرکے وہ تنقید پر خصوصی توجہ دیں ، اُن کی تمنا تھی کہ ان کے ہونہار طالب علموں میں سے کوئی تنقید کے میدان میں بھی نمایاں نا م ہو۔انہیں یہ صلاحیت سب سے زیادہ صغیر افراہیم میں دکھائی دی۔ اس حوالے سے انہوں نے صغیر افراہیم کی کتاب ” پریم چند ایک نقیب ” پر رائے دیتے ہوئے لکھا :” ڈاکٹر صغیر افراہیم اپنے ہم عصروں اور اپنے ہم عمروں میں سب سے کم عمرصاحبِ تصنیف ہیں”-ا ۔پنے تخلیقی کام کے بجائےتنقید و تحقیق پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر صغیر افراہیم فرماتے ہیں کہ ا ن کی افسانہ نگاری کی راہ میں پہلے تنقیدی مضامین اور بعد ازاں سائنسی تراجم حائل ہوئے لیکن انڈیا ریڈیو کی بدولت یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان کےریڈیائی افسانوں کو ” کڑی دھوپ کا سفر—” کے عنوان سے اُن کی شریک حیات ڈاکٹر سیما صغیر نے مرتب بھی کیا اور اس کا مقدمہ بھی لکھا۔ اُن کی یہ خواہش بھی رہی کہ صغیر افراہیم اپنی تخلیقی سرگرمیوں پر بھرپور توجہ دیں ا۔ وہ اس مجموعے کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
” صغیر افراہیم کےافسانے ان کے ادبی دور کے ابتدائی ایام کی یادداشتیں ہیں ،
جنہیں منظر عام پر لاکر ماضی سے رشتہ جوڑنے کی یہ ایک کاوش ہے۔”(۴)
” کڑی دھوپ کا سفر—” کے کردار ہمیں اپنی سماجی زندگی میں ہر طرف متحرک دکھائی دیتے ہیں ۔ بظاہر بہت عام فہم انداز میں تحریر کردہ ان افسانوں کے زیریں معنی قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں ۔ ان کے افسانوی کردار ہر گز مافوق الفطرت نہیں بلکہ انہوں نے اپنے معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقے کے مسائل کو خصوصاً اپنا موضوع بنایا ہے ، اس کی بنیادی وجہ صغیر افراہیم کے دل میں سماجی اصلاح کیوہ تمنا ہے جس کے تحت وہ عورتوں کے بنیادی حقوق سے لے کر طبقاتی تفریق کی چکی میں پسنے والے بے بسی کی قطار میں لگے کرداروں کو منتخب کر کے اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں ۔قاضی عبدالستار بھی صغیر افراہیم سے ایسے ہی موضوعات پر قلم اٹھانے کی توقع رکھتے ہیں:اپنے انٹرویو میں ایک جگہ قاضی عبدالستار نے کہا کہ:
” تنقید کتنی ہی بڑی ہو جائے تخلیق کے برابر نہیں ہو سکتی ۔دونوں میں بہت فرق ہے۔
اور میں چاہوں گا کہ صغیر افراہیم پھر سے افسانے لکھیں ، اور آج کے مسائل پر لکھیں ۔
آج کے مسائل پر بہت کم لوگ لکھ رہے ہیں—–میں صغیر افراہیم سے توقع بھی کرتا
ہوں کہ وہ ان تمام مسائل مثلاًبھوک، افلاس، بیماری ، تعصب جیسے ڈھیروں مسائل پر
لکھیں گے تو مجھے امید ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے ۔”(۵)
صغیر افراہیم کے افسانے ان کی تنقید کی مانند ندرت کے حامل ہیں ، جن زندگی کے حقائق کا بے لاگ اظہار ملتا ہے۔ وہ عنوان کی موزونیت کا خاص خیال رکھتے ہوئے کہانی کا پلاٹ ترتیب دیتے ہیں ۔اور اسی مناسبت سے کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ان کی تحریروں کا مقصد صداقت کا تعین کرنا بھی ہے وہ معاشرتی اصلاح کے لیے کفایت لفظی سے کام لے کر کہانی کو ایک منطقی انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ وحدت تاثر ان کے افسانے کو پر تاثیر بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔جیسا کہ پروفیسر وقار عظیم نے کہا :
“کسی ایک واقعے،ایک جذبے،ایک احساس،ایک تاثر ،ایک اصلاحی مقصد،ایک رومانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری چیزوں سےالگ اور نمایاں ہو کرپڑھنے والے کے جذبات و احساسات پر اثر انداز ہوافسانے کی وہ امتیازی خصوصیت ہےجس نے اسے داستان اور ناول سے الگ کیا ۔”(۶)
صغیر افراہیم کے افسانے موضوع کی مناسبت سے ایجاز و زمزیت کی عمدہمثال پیش کرتے ہیں ۔ ان کے کردار جاندار ہوتے ہیں اور وہ بیانہ انداز میں اپنی کہانی کے تسلسل کو آگے بڑ ھا تے ہیں ، جیسا کہ ڈاکٹر سیما صغیر ان کی افسانہ نگاری میں اس فنی خوبی کو سراہتے ہوئے لکھتی ہیں :
صغیر افراہیم جو بنیادی طور پر فکشن کے نقاد ہیں ان کی کہانیاں سیدھے سادے انداز میں لکھی گئی ہیں ۔پلاٹ کی تعمیر اور کرداروں کے ارتقاکے ساتھ جو لہجہ صورتِ حال اور ماحول کے مطابق ہے۔اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے سلیس مگر عمیق بیانیہ طرز اور راست گوئی کے ساتھ علامتوں کا بر محل استعمال کیا ہے۔ “(۷)
یہ حقیقت ہے کہ ایک تخلیق کاراگر نقاد بھی ہو تو وہ معاشرے کی رسوم و رواج کو ،انسانیت کے بنیادی اصولوں کی کسوٹی پر بھی پرکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تحریریں اپنی تہذیب وثقافت کی عکاسی کے ساتھ عصری مسائل کا بے لاگ اظہار بھی ہیں ۔وہ خواب ” اور “یہ کیسا فرق ہے”تعلیم و ترقی کے یکساں مواقع کے حصول کی تمنا ، کے پس منظر میں لکھے گئے جب کہ مرد کی بے وفائی کے باوجود اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے حقائق جان کر خاموشی سے مناسب وقت کا اانتظار کرنے والی عورتوں کے کردار ،صغیر افراہیم عورت کے خوابوں اور اس کی تمنا کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کا تجزیہ مجموعی طور پر اس میں موجود سماجی و عصری شعور ، نفسیاتی جہات اور علامتی حوالوں سے با آسانی کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ کسی بھی انسان کی فکری وحسی پرداخت پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں سماجی رویے ااہم کردار ادا کرتے ہیں ۔صغیر افراہیم کے افسانوی کردار اسی سماج کے باطن سے جنم لیتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کے مافی الضمیر کو واضح کرنے کے لیے کہیں روایت اور کہیں جدت سے کام لیتے ہی۔ یہ حقیقت ہے کہ ادب ،سماج اور تہذیب کے ملنے سے جنم لیتا ہے ۔ایک مشاق افسانہ نگار ان سماجی قدروں کو موزوں عنوان۔ پلاٹ ا و رکرداروں کے ذریعے بیان کرتا ہے۔صغیر افراہیم نے ان سماجی رویوں میں افسانہ” پیسے کی پیاس ” کے ذریعے سب سے پہلے مادیت پرستی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس افسانے میں رشیدہ کا ا کردر اپنی بہن سے صرف اس لیے رشتہ ختم کرتا ہے کہ اس کے پاس اب مال و دولت کی ریل پیل نہیں رہی۔اس کردار کی کی لالچ کی عکاسی کرتے ہوئے صغیر افراہیم لکھتے ہیں :
“رشیدہ شروع ہی سے سہانے خواب دیکھا کرتی تھی آراستہ مکان اور گاڑی کو اس نے اپنا نصب العین بنا لیا تھا۔ جس کے حصول کے لیے وہ ایک ایک پیسے کو دانتوں سے دبا کر رکھتی تھی۔جب کہ بیشتر اخراجات چھوٹی بہن فریدہ کے سر تھے۔ ” (۸)
راشدہ اپنی بہن کے مخدوش مالی حالات کے پیش نظر بچپن میں طے کردہ رشتے سے انکار کرتے ہوئے اپنی بہن کو مشورہ دیتی ہے کہ:
“کوئی اچھا لڑکا دیکھ کر ثروت کی شادی کردے، تیرے سر سے ایک بوجھ اتر جائے گا۔ “(۹)
راشدہ نے اونچے گھرانے سے اپنے بیٹے کو بیاہا وہ اپنے گھر کی اکلوتی بیٹی تھی جو اپنے ساتھ لاکھوں کے جہیز کے علاوہ زرو جواہر کا ڈھیر لائی تھی، مگر گزرتے وقت کے ساتھ راشدہ کو اپنی غلطی کا حسا س ہوا۔ اس افسانے کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے اختتام پر صغیر افراہیم انسانی قدروں کی بحالی کا منظر بھی دکھایا ، جہاں لالچ میں ڈوبے ہوئے رشتوں کو ایک بار پھر انسانیت کی اصل پہچان یاد آئی ۔
“رشتوں کی قدر وقیمت نے سونے چان چاندی کی دیوار توڑ دی تھی ۔وہ رکھ رکھاو جس نے محبت کے بندھن کو پامال کر دیا تھا ۔ختم ہو چکا تھا، سب ایک دوسرے سے گھل مل گئے تھے،”(۱۰)
اسی طرح ” میرا کرب ” میں بھی مالی طور پر مستحکم خاندان سے تعلق رکھنے والی اس مجبور عورت کی کہانی کو بیان کی گیا جو شوہر کی وفات کے بعد اپنی چار بیٹیوں کو بیاہ کر آخری بیٹی کی شادی کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی سانولی رنگت والی بیٹی صائمہ کے لیے ہر طرف سے سات سال سے انکار ہوتاہے۔ کیونکہ” کوئی خوبصورت لڑکی چاہتا ہے تو کسی کو ڈھیر ساری رقم چاہیئے۔”(۱۱)اس میں راشدہ کی مانند” سید صابر علی” کا کردار احسان فراموشی کی مثال ہےجو بچپن میں مانگے ہوئے صائمہ کے رشتے سے اس کی غربت اور سانولے پن کی وجہ سے انکار کرتے ہوئے اس کی ماں کو اس کا رشتہ ایک لنگڑے لڑکے سے طے کرنے کا مشورہ دیتا ہے ۔ ان دونوں خاندانوں میں فرق بیان کرتے ہوئے وہ اپنے خط میں لکھتا ہے:
“میرا بیٹا میری طرح بزنس مین ہے ، آپ کی بیٹی نوکری پیشہ ہے، اس لیے رشتہ کے لیے ضروری ہے کہ پیشہ کی مناسبت رکھی جائے ، تاکہ جوڑے میں مماثلت قائم ہو سکے۔ “(۱۲)
صغیر افراہیم کے نزدیک اصل دولت من کی دولت ہے جس سے غریب مالا مال جب کہ امیر محروم ہیں اس بات کا اظہار وہ “انجان رشتے میں اس طرح کرتے ہیں :
“جیب سے کنگال لوگ دل سے خوش حال ہوتے ہیں ۔ چونکہ اُن کے پاس پریم اور ممتا کا خزانہ ہوتا ہے “(۱۳)
” گھر جنت” میں عورت کے تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت کو اجا گر کیا گیا ہےجب کہ ” بڑھتے قدم” میں بھی اسی موضوع کو ایک اور انداز سے بیان کی گیا جہاں فرسودہ سوچ رکھنے والے لوگوں کی عکاسی کرتے ہوئے فاخرہ کے گھر والے زیاد تعلیم کے خلاف تھے کہا جاتا ہے کہ”لڑکی زیادہ پڑھی ہو تو اچھا اور خاندانی رشتہ نہیں ملتا” (بڑھتے قدم۔ ص۷۰)لیکن شوہر کی وفات کے بعد فاخرہ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرکے نہ صر اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے بلکہ اس کی بیٹی آئی-اے –ایس کی۔ٹریننگ کے لیے منتخب ہو جاتی ہے جو آس کی ماں کی محنتوں کا ثمر ہے۔
“آخری پڑاو” اپنوں سے دوری ، اکیلے پن ، بے چارگی اور مادیت پرستی کا شکار انسانیت سے دور جاتے معاشرے کی عکاسی کرنے والا افسانہ ہے۔یہاں والدین اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑےہو جائیں لیکن آخر میں خود تنہا رہ جاتے ہیں ۔ان کی جرنلسٹ بیٹی اپنے والدین کی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرکے شہر میں شادی کیئے بنا تنہازندگی گزارنا پسند کرتی ہے۔ اس بےحسی کی کہانی بیان کرتے ہوئے بوڑھی عورت کہتی ہے:
“کتنی محبت سے ہم نے اپنے بچوں کے لیے آشیانہ بنایا ، سجایا، سنوارا تھا — بچوں کے پر لگے پُھر سےاُ ڑ گئے۔ بڑا بیٹا دبئی میں ہے۔ دو چار سال میں آتا ہے—–آٹھ سال سے چھوٹا امریکہ میں ہے۔پلٹ کر نہیں آیا——ہاں پیسے بھیجنا نہیں بھولتا۔”(۱۴)
اس افسانے کے اختتام پر خاتون سوچتی ہے کہ کیا یہ سب کچھ جو ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے ہمارا مقدر بھی بننے والا ہے۔اس معاشرتی المیے کا المیے کا اظہار صغیر افراہیم نے یوں کیا ہے:
” کیا اُس کے بچے بھی بڑے ہو کر اُسے اسی طرح بے سہارا چھوڑ جائِں گے۔”(۱۵)
“نیاراستہ ” اور”فیصلے کی تکمیل “دونوں افسانوں میں مرد کی بے وفائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہاں شوہر اپنی بیویوں سے جھوٹ بول کر اپنی زندگی میں دوسری عورتوں کو جگہ دیتے ہیں ۔لیکن دونوں عورتیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے خاموشی اختیار کیے رہتی ہیں لیکن مناسب وقت آنے پر انہیں چھوڑ دیتی ہیں ۔ ان دونوں افسانوں میں صغیر افراہیم نے مرد کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔کیونکہ گھر بنانے میں محبت کا خمیر شامل ہوتا ہے۔
گھر صرف دیواروں اور چھتوں سے نہیں بنتا ، اور نہ ہی گھر صرف رشتے نبھائے جانے کا نام ہے۔”(۱۶)
طبقاتی تقسیم کے موضوع پر لکھا گیا افسانہ”وہی فاصلہ ہے کہ جو تھا”اس میں اپنی سے نچلی ذات کی نو مسلم عورت سے شادی کرنے کے جرم کی پاداش میں قاضی نثار کو قتل کردیا جاتا ہے ، حویلی تباہ ہوجاتی ہے۔اس ناگہانی کی وجہ یوں بیان کی جاتی ہے:
روایت مشہور ہے کہ تباہی قاضی نثار احمد کی اپنی لائی ہوئی تھی جنہوں نے ایک کم ذات نو مسلم
عورت سے شادی کر کے قاضی خاندان کے وقار کو پامال کیااور اُن کے نام وناموس کو چکنا چور کردیا۔”(۱۷)
اس کہانی کے دو کردار اشرف اور ایمن کلاس فیلوز اور ایک ہے خاندان سے تعلق رکھتے تھے کہانی کے اختتام پر اختتام پر ڈاکٹر علامتی انداز میں کہتا ہے:
“تم جانتے تھے اس کے مہلک مرض میں افاقے کے آثار پیدا ہوچلے تھے—- اگر
تم توجہ دیتے تو وہ بچ سکتا تھا۔ “(۱۸)
“بے نام رشتہ”انسانیت کا پیغام دینے والا افسانہ ہے جو لاجو جھگیوں میں بسنے والی غریب عورت کی نہ صرف ایکسیڈنٹ میں جان بچاتا ہے بلکہ اسے اپنے گھر میں ماں کی جگہ بھی دیتا ہے کہ وہ بھی ایک حادثے میں اسی طعح اس سے بچھڑ گئی تھی اور فرقان کی خوشیاں نہ دیکھ سکی تھی۔”بے بسی کی قطار”معاشی ناہمواریوں کو منعکس کرتا ہے جس کا مرکزی قطار زندگی کے ہر میدان میں قطار میں لگ کر اپنی باری آنے کا منتظر ہےاور اسی بے بسی کی قطار میں لگے ہوئے اس کی بیوی کا انتقال ہو جاتا ہے اور وہ وقت پر اسے دوائی لا کر نہیں دے سکتا۔”ایسی پستی”بھی معاشی مسائل کو منعکس کرتا ہے جہاں بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئےشہر جاتا ہے لیکن کامیابی اس کا مقدر نہیں۔”حمیدہ”بےوفا بیوی سے بھی نباہ اس کی ذمہ داریوں کو نبھانے کا جذبہ انسانیت کا ایک نیا روپ ہمیں ملتا ہے۔”سرخ تاج “بھی عورت کی بے وفائی پر مشتمل ہے۔ جب کہ” سفر ہے شرط” میں بشارت حسین کی بیوی اور “منزل’ میں ایک بچی کا کردار ایک نئی امید لے کر وارد ہوتے ہیں ۔
بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں علامت کو بھی اظہار کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ایسے افسانوں میں عصری آگہی کی خوبی پائی جاتی ہے اور افسانہ نگارروایت سے ذراسا ہٹ کر علامتی انداز میں زندگی کا رخ دکھاتا ہے۔صغیر افراہیم کے بعض افسانوں کے کرداروں میں علامتی انداز پایا جاتا ہے۔”ننگا بادشاہ”کرداری افسانہ ہے جو انسان کی منافقت کا پردہ فاش کرتا ہے۔ پچاس سالہ چھوٹے میاں اپنی بیوی کے کسی کے ساتھ بھاگ جانے پر علاقہ چھوڑکر ایک بستی میں آکر رہنے لگا، کوٹھڑی اور دکان کرایہ پر لی ان کی شخصیت و مزاج امتیازات کا مرکز تھا۔صنف مخالف سے راز ونیاز سے بات کرناا ور انہیں رعایت دینا اس کا معمول تھا:خاموش امداد جب بھی نگاہوں کے سامنے آجاتی وہ کچھ کرنے کو بے چین ہو جاتے۔ بند مٹھی کی طرح چھپاکر کرتے کہ آنکھیں بے زبان نہیں ہوتیں ۔ اُن کی فراخدلی ہمیشہ سر چڑھ کر بولتی ۔وہ کسی معاملہ کو دیکھنا ہو یا کسی شخصیت کا مطالعہ”عریاں ” کر کے دیکھنے پر زور دیتے۔جسے مصنف شطرنج کے ننگے بادشاہ سے تعلق قائم کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے۔ شطرنج کے کھیل میں بھی چھوٹے میاں مخالف کے ننگے بادشاہ کی حمایت کرتےاسے امکانی عجلت سے گھیر کرمات دینے کی کوشش بھی کرتےارشاد صاحب نے انہیں ان کی کوٹھڑی میں دیکھ لیا اور اس کی حقیقت کھول دی ۔ اس کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف بیا نیہ انداز میں کہتا ہے:
“میں یہ سوچ کر حیرت زدہ تھا کہ چھوٹے میاں کے قول و فعل میں کس قدر ہم آہنگی تھی۔”(۱۹)
افسانہ” انکشاف “پچاس سالہ خوش مزاج محفل پسند پرو فیسر وشال کس کی بیوی مالتی اور آشا کے گرد گھومتا ہے۔ آشا مالتی کی کم گو طبیعت اور کسی تقریب میں نہ جانے پر سوچتی ہے کہ:
“کیا یہ عورت ایسے وجیہہ مرد کی شریک حیات بننے کے قابل تھی؟جس میں
نہ کوئی نفاست ہے نہ نزاکت، سجنا سنورنا تو شاید مالنی کو آتا ہی نہیں تھا۔”(۲۰)
آشا نے اس کے گھر آنا اور رہنا بھی شروع کی اس کی لائبریری کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ آشا نے ان کی شرافت کا بھی فائدہ اٹھایا۔وہ اپنی غلطی پر پچھتاتی ہے وشال کا سامنا نہیں کر پاتی ۔ وہ چاہتی تھی کہ پروفیسر وشال اور مالتی کے قدموں میں گر کر اعتراف جرم کرلے۔اسے یہ احساس بھی تھا کہ:
” میں نے سچ مچ ایک فرشتہ کی عبادت میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تھی، اُسے باغِ بہشت سے نکالنے کا جتن کیا تھا، اور خود دوزخ کی آگ میں جھلس رہی تھی۔ (۲۱)
آشا نے گرو جی اور مالتی کے خطوط کے جوابات بھی نہ دئیے تھے جس پر وہ شرمسار تھی جب ہی مالتی کہتی ہے:
مجھ پر تو یہ تباہی تیس سال پہلے ہی آچکی تھی جب میں بیاہ کر آئی تھی، شب وصل کو برف کی آگ نے ایساجلایا کہ کلی پھول بننے کا ارمان لیے مرجھا گئی۔۔ مالتی کے انکشاف نے گزرے ہوئے لمحے کو نئے معنی پہنا دئے۔ “(۲۲)
“وہ اچھا لڑکا نہیں ہے”شرافت کے پردے میں دوسروں کی منشیات کے ذریعے زندگی برباد کرنے والے کی کہانی کو موضوع بنا کر آخر میں اس بھید کو کھولا جاتا ہے کہ بظاہر ان کے چنگل میں پھنسا عرفان اس انسانیت کے دشمن گروہ کو منصوبہ بندی سے ان کے کیفر کردار تک پہنچا کر بہادری کا تمغہ حاصل کرتا ہے۔ دوسروں کی خاطر قربانی کا جذبہ بھی صغیر افراہیم کے افسانوں میں نمایاں ہے ،اُن کے افسانے بلا تفریق مذہب اور رنگ و نسل عالم گیر انسانیت کے جذبے کو فروغ دینے کی ایک کاش بھی ہے جس کی بہترین مثال “رام دین” ہے۱۹۴۷ء میں ہجرت کے دوران برپا ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں جنم لینے والے اس افسانے کا مرکزی کردار بلا تفریق مذہب و ملت ہر کسی کے غم و خوشی میں افراد خانہ کی مانند شریک رہتا۔ حتیٰ کہ اس کی موت کے بعد اس کی وصیت کے مطابق تمام مذاہب کے پیشواجمع ہوئے کریا کرم سے قبل سب کے سامنے رام دین کا صندوق کھولا گیا جس میں موجود خط پڑھا گیا تو سب دنگ رہ گئے۔ لکھا تھا :
“میں مٹی سے آیا ہوں ،مٹی میں رہنا چا ہتا ہوں —–میں دین محمد بے خوف و خطر
اعلان کرتا ہوں کہ مجھے دفن کیا جائے۔”(۲۳)
یا افسانہ”” روشنی کا مرکزی کردارارشد ہے جو اپنی مالکن چندر گپتا کی خاطر بینائی سے محروم ہو گیا یا” یہ دونوں افسانے تاریخہی پس منظر میں فسادات کے حوالے سے لکھے گئے ۔ اور ان میں انسانیت کے عالم گیر پیغام کو بیان کیا گیا ہے۔
صغیر افراہیم کے افسانوں کا ایک اور اہم موضوع انسانی نفسیات کی عکاسی بھی ہے۔ ان کے ہاں انسانی نفسیات کی گہرائی کے پس منظر میں کئی افسانے ملتے ہیں ۔ وہ عورت کو بحیثیت انسان مرد کے برابر مقام دینے اور اولاد کی تعلیم و تربیت میں بیٹے، بیٹی میں فرق رکھنے کے مخالف ہیں ان کا افسانہ” یہ کیسا فرق ہے!” اسی عمومی رویے کو بیا ن کرتا ہے ۔صغیر افراہیم نے اس افسانے میں اپنے والدین کی بے حد محبت میں پلنے والی لڑکی کی کہانی جسے والدین بڑا ہونے کے بعد بہت سی پابندیاں عائد کرتے ہیں تواس لمحے اس لڑکی کے جذبات و احساسات کو صغیر افراہیم یوں بیان کرتے ہیں :
” وہ اپنے آپ کو اُس پرندے کی طرح محسوس کررہی تھی جسے گھر کےسبھی لوگ پیار کرتے تھے مگر انجانے خوف کی وجہ سے پنکھ کُتر رکھے تھے تاکہ وہ اپنی حدود سے باہر نہ جا سکے۔”(۲۴)
وہ لڑکی اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ ان رویوں کا الزام کسے دے اپنے والدین کو یا اس سماج کو جس میں بیٹے کو ہنسنے، دوستوں سے گھلنے ملنے، باہر جانے اور اعلیٰ تعلیم و نوکری کے لیے پردیس جانے کی اجازت تو تھی لیکن بیٹی کے لیے معیارات کچھ اور تھے جو سکالر شپ لے کر بھی دوسرے شہر تعلیم اور ڈگری حاصل کرنے کے بعد دوسر شہر نوکری کرنے نہیں جاسکتی تھی۔اور وہ میگزین پر لکھے ان الفاظ پر کہ” لڑکا ہو یا لڑکی دونوں برابر ہیں ۔ آج کل لڑکے اور لڑکی میں کوئی فرق نہیں۔”(۲۵)اسے اپنے بچپن میں کہے گئے الفاظ یاد آتے”ہمارے لیے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہیں ۔” لیکن ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب اماں کہتی ہیں “ہر بات میں بھیّا کی برابری کرتی ہو—–وہ لڑکا ہے—-تجھے کچھ تو سوچنا چاہیئے تھا!!”(۲۶)
” خوابیدہ چراغ” میں بھی صغیر افراہیم کا اگہرا نفسیاتی شعور منعکس ہوتا ہے۔اس افسانے کا مرکزی کردار ا”روحی ” منفرد شخصیت کی مالک تھی جیسا کہ انفرادی نفسیات( Individual Psychology )کےنظریے کے مطابق کہ ہر فرد اپنی انفرادیت کے ساتھ پیدا ہوتا اور اسی کے مطابق پرورش پاتا ہے۔ ایک ہی ماں باپ کی اولادیں بہت سے معاملات میں ایک دوسرے مختلف ہوتی ہیں۔” روحی ” اپنے بچپن سے والدین کی عدم توجہ کا شکار ہوکر دل میں خوف محسوس کرتی رہی کہ وہ سب سے کمتر ہے اور اس خوف کی وجہ سے اس سے غلطیاں سرزد ہونے لگیں ۔ جس کے نتیجے کے طور پر اسے Abnormal کہا جانے لگا۔صغیر افراہیم کے نزدیک ایسے افراد کا علاج بھر پور توجہ اور محبت سے ممکن ہے۔ افسانے میں ماہر نفسیات ،عزیر نے روحی کا علاج کیا ، اسےاُس کی اہمیت کا احساس دلایا اور زندگی کی رونقوں میں واپس لانے کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کو بھی احساس دلایا کہ یہ حساس بچی ان کی عدم توجہی کے باعث احساس کمتری کا شکار ہو کر سب سے الگ گم صم ہوگئی ہے۔ اس افسانے میں صفیر افراہیم نے والدین کو ان کا خاص فرض بچوں کی متوازن تربیت اور ان سے مساوی سلوک کا پیغام بھی دیا ہے۔
“وہ خواب “کچھ کر کے دکھانے کا جذبہ رکھنے والی لڑکی اپنی ڈگری کے حصول کے فوراً بعد بیاہ دی گئی جو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اپنے شوہر کے تعاون کی تمنائی تھی لیکن ، اس کا احساس برتری اسے اپنی بیوی کے احساسات وجذبات کو سمجھنے میں حائل رہا حتی کہ وہ اس پر تشدد سے بھی باز نہ آیا،وہ اپنی بیوی کی تنہائی ، گھٹن ، اور عدم توجہی سے اس کی شخصیت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ناآشنا رہا۔اس کا بیوی سے ناروا سلوک ایک بھیانک خواب کی تعبیر بن گیا۔ اس کی بیوی خود کو انسان سے زیادہ گھر کی بے جان اشیا کی مانند تصورکرنے لگی جو ضرورت پر کام آتی اور ضرورت پوری ہو جانے کے بعد گھر کے دوسرے سامان میں شامل ہوجاتی ہیں، اس کیفیت کو مصنف اس طرح بیان کرتا ہے:
” عامر کے پاس وقت نہیں وقت جس نے اُسے اچانک بے مایا اور بے وقعت بنا ڈالا ۔
اُس سے اُس کی شناخت چھین لی۔”(۲۷)
“انجان رشتے”ایک نوجوان اس کی سوتیلی ماں اور باپ کی کہانی ہے جس میں ان تینوں کرداروں کی نفسیاتی کیفیت کو مصنف نے بہت چابکدستی سے بیان کیا ہے۔جہاں ۱۹ سالہ نوجوان اپنی والد ہ کی وفات کے چود ہ سال بعد اچانک اپنے بیٹے سے چند سال بڑی لڑکی سے شادی کو سمجھ نہیں پاتا ، اسے طنزیہ اپنے دوستوں سے ” یہ میری نئی ماں ہیں ” کہہ کر مخاطب کرتا ہے جوابا ًسلمیٰ متین مسکرا کر اضافہ کرتیں ” سوتیلی ماں” والد کی اچانک موت کے بعد بیٹے کو پوری جائیداداد دینے کے بعد واحد شرط کہ سلمیٰ متین کو سگی ماں کی طرح رکھا جائے۔ سلمیٰ کے شدید علیل ہونے پر راز کھلا کہ اس کے والد نے اس بیمار بے سہارا لڑکی کو جو ان کے دوست کی بیٹی تھی اپنی منکوحہ بنا کر اس کی ذمہ داری قبول کی تھی، کیونکہ یہ سماج انہیں اس جوان لڑکی کو منہ بولی بیٹی کے طور پر قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سیماصغیر اس افسانےکا تجزیہ کرتے ہوئےلکھتی ہیں:
” انجان رشتے میں المیے کا رنگ آفاقی ہے۔ لہذا اس کی معنویت زمان و مکاں کی قید سے باہر ہے۔”(۲۸)
“کڑی دھوپ کا سفر” میں حمیرا کا کردار بھی نفسیاتی مسائل کا شکار دکھائی گئی ہے جواپنے شوہر کی توجہ سے اپنی زندگی کی جانب لوٹ آتی ہے۔”جگ سونا ہے تیرے بنا”اس افسانے کا مرکزی کردارطاہر دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، وہ حادثاتی طور پر معذور ہوگیا ، اس کے بعد وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر کم گو، حساس اور اپنے حصار میں قید ہو کر رہ گیا اسے سہارے سے نفرت تھی ۔
” بے پناہ چاہنے والے والدین اور نوکر چاکر تھے ، مگر اپنے ہم عمروں اور کلاس فیلوز سے وہ اپنے
آپ کو کمتر سمجھتا ، کھیل نہیں سکتا تھا ، کسی ٹولی میں وہ شامل ہوتا بھی تو تھوڑی دیر بعد اس پر رحم
کھا کراُسے الگ بٹھا دیا جاتا تھا ۔ طاہر اسے اپنی توہین سمجھتا ۔ ذلت کایہ احساس اُسے تنہائی کی طرف
مائل کرتا گیا۔ وہ گھنٹوں اپنے آپ سے باتیں کیا کرتا۔رفتہ رفتہ اُس کی عادت بن گئی اور وہ سخت دل،
بد دماغ مشہور ہو گیا، ہم جماعت چھوڑ گئے، ملازم کترانے لگے۔”(۲۹)
عامر اپنی اس جسمانی کمزوری کی وجہ سےذہنی طور پر ڈپریشن کا شکار ہوکر سب رشتوں سے بھی متنفر ہو گیا ۔اسے “سہارا” لفظ سے نفرت تھی خواہ وہ بیوی کی صورت میں ہو یہی ویہ ہے کہ اس کی بیوی اپنے تمام خلوص اور محبت کے باوجود اپنے شوہر کے دل میں گھر نہ کرسکی، لیکن اس کی برین ٹیومر سے وفات کے بعد عامر کواپنے کیے پر شرمندگی اور سہارے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
مجموعی طور پر اگر صغیر افراہیم کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سادہ بیانیہ انداز اختیار کیا گیا ہے جس سے ابلاغ اور ترسیل کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ قاری کے سامنے زندگی کی پرتیں کھولتے چلے جاتے ہیں ۔ اُن کے افسانے انسانی رشتوں میں تفاوت پیدا کرنے والی وجوہات ،معاصر صورتحال اور ہندوستانی تہذیب وثقافت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں ۔ان میں ماورائی عناصر ہیں اور نہ ہی اُن کےکردار جامد ہیں ، بلکہ ان میں حقیقی زندگی کا عکس جھلکتا ہے۔ان کے فنّی کمال میں وحدت تاثر کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ صغیر افراہیم اپنے افسانوی کرداروں کی شخصیت پر پڑے ہوئے پردوں کو بتدریج ہٹا کرقاری کو بعض اوقات حیران کرتے ہیں جیسا کہ’ننگا بادشاہ ” کے چھوٹے میاں یا “انکشاف “کی مالتی ، وہ اچھا لڑکا جو نہیں” میں عرفان کا کردار ۔ اسی طرح صغیر افراہیم ہمارے لیے کچھافسانوں کے اختتام پر سوال چھوڑجاتے ہیں جیسے مادیت پرست معاشرے میں انسانی رشتوں کی ناقدری اور شکست و ریخت کےموضوع ب پر لکھا گیا افسانہ” آخری پڑاو ” میں خاتون اپنے آپ سے سوال کرتی ہے کہ:
” کیا اُس کے بچے بھی بڑے ہو کر اُسے اس طرح بے سہارا چھوڑ جائیں گے۔”(۳۰)
ڈاکٹر سرور مارہروی صغیر افراہیم کے افسانوی مجموعے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:” جہاں جہاں اردو بولی یا پڑھی ، لکھی جاتی ہے۔وہاں وہاں پروفیسر صغیر افراہیم صاحب کو بحیثیت ماہر پریم چند جانا جاتا ہے لیکن انھوں نے ” کڑی دھوپ کا سفر” لکھ کر ثابت کیا ہے کہ ایک اچھا نقادایک اچھا تخلیق کار بھی ہو سکتا ہے۔” اس طرح ان کے افسانوں کا مجموعی تاثر سماجی ، تہذیبی اور نفسیاتی علامتوں سے نکھرتا ہے۔ان کے افسانوں میں ،طبقاتی تقسیم ، عورت و مرد کی بے وفائی، نفسیات اور معاشرتی مسائل جیسے مو ضو عات ملتے ہیں لیکن ان سب کا مرکز انسان ہے۔ بے شک صغیر افراہیم نے کڑی دھوپ کے سفر میں خیال یار سے کام لے کر مسائل حیات تک کے موضوعات کا احاطہ بہت مہارت سے کیا ہے۔ ان کا یہ افسانوِ ی مجموعہ اُن کی بہتریں تخلیقی صلاحیتوں کا بیّن ثبوت ہے۔
حوالہ جات
(۱)عالمی میگزین ۔سہ ماہی ۔”تزئین ادب “(بھارت)اپریل تا جون ۲۰۱۷ء۔ ص ۷۹
(۲) ایضاً۔ ص ۸۰
(۳) صغیر افراہیم “اپنی بات ” مشمولہ ۔ کڑی دھوپ کا سفر، مرتبہ سیما صغیر، نئی دہلی: بران پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء۔ ص ۱۰
(۴)صغیر افراہیم ۔ کڑی دھوپ کا سفر۔ نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶۔ ص۱۸)
(۵)عالمی میگزین ۔سہ ماہی ۔”تزئین ادب “(بھارت)اپریل تا جون ۲۰۱۷ء -ص۸۵
(۶ )سید وقار عظیم ، داستان سے افسانے تک – علی گڑھ: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاوس ۔۲۰۰۳ء-ص۲۲
(۷)مقدمہ، مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر، مرتبہ،سیما صغیر، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء۔ ص ۱۳
(۸) “پیسے کی پیاس” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء-ص ۲۶
(۹) ایضاً-ص ۲۷
(۱۰)ا یضاً-ص ۲۸
(۱۱) “میرا کرب “مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء- ص۱۴۳
(۱۲) ا یضاً – ص ۱۴۵
(۱۳)”انجان رشتے”مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء-ص ۲۹
(۱۴)”آخری پڑاو”مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء۔ ص ۷۵
(۱۵) ا یضاً ۔ ص، ۷۱
( ۱۶)”فیصلے کی تکمیل” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء – ص ۸۸
(۱۷)”وہی فاصلہ ہے کہ جو تھا”-مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء ،ص۹۵)
(۱۸)ء ا یضاً – ص۹۸)
(۱۹)”ننگا بادشاہ” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء – ص ۴۵)
(۲۰) ا یضاً ۔ ص۶۲
(۲۱)”انکشاف” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء ۔ ص۶۴)
(۲۲) ا یضاً – ص۶۴
(۲۳)”رام دین” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء – ص ۱۱۹)
(۲۴)”یہ کیسا فرق ہے” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء “- ص ۹۹
(۲۵) ا یضاً ۔ص۱۰۰
(۲۶) ا یضاً ۔ص ۱۰۱
(۲۷)”وہ خواب ” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء ۔ ص ۲۳)
(۲۸)”مقدمہ” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء ۔ ص۱۷)
(۲۹)”جگ سوناہے تیرےبغیر” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء “۔ص ۸۰)
(۳۰)” آخری پڑاو” مشمولہ، کڑی دھوپ کا سفر۔صغیر افراہیم، نِئی دہلی، براّن پبلی کیشنز۔ ۲۰۱۶ء ، ص ۷۱)
***