You are currently viewing طارق شبنم…کشمیر میں معاصر اُردو افسانہ نگاری کا اہم نام

طارق شبنم…کشمیر میں معاصر اُردو افسانہ نگاری کا اہم نام

قیصرالحق

ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو کشمیریونی ورسٹی سرینگر

طارق شبنم…کشمیر میں معاصر اُردو افسانہ نگاری کا اہم نام

         افسانہ نگاری کا ذکر ہوتے ہی انسانی ذہن پریم چند، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی وغیرہ کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ اگرچہ افسانہ کی صنف’’فسانہ‘‘ کے قبیل سے منسلک ہے لیکن تخلیق کاروں کی پختہ خیالی اور منفرد طرزِ تحریر نے اسکی افسانویت پر حقیقت کے اثرات مرتب کیے۔افسانہ ایک مخصوص زمانے کا تقاضا اور پیداوار ہے۔ داستانوی ماحول سے انسانی ذہن فرار چاہتا تھا تو ناول کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ناول بھی کہانی کے پھیلائو اور غیر ضروری طوالت سے آزاد نہ ہوسکا تو نتیجہ افسانہ کی صورت میں برآمد ہوا۔ ایک ہی نشست میں کہانی، کردار، واقعات اور تاثر کے تسلسل کو معنی خیز انجام تک پہنچانے کا نام افسانہ ہے۔

         ریاست جموں و کشمیر میں اُردو افسانے کی روایت اور تاریخ میں کئی معتبر اور بزرگ افسانہ نگاروں کا نام اہمیت کا حامل ہے جن میںمحمد دین فوق، پریم ناتھ پردیسی، ٹھاکر پونچھی، نورشاہ، حامدی کاشمیری، دیپک بدکی، عمر مجید، وحشی سعید، ترنم ریاض وغیرہ شامل ہیں۔ کشمیر میں معاصر اُردو افسانہ نگاری کے حوالے سے طارق شبنم کا نام اہم ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے میدان افسانہ میں قلم آزمائی کررہے ہیں۔ قومی اور مقامی سطح کے اخبارات ،رسائل و جرائد میں مسلسل انکے افسانے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ چند سال قبل بین الاقوامی سطح پر پاکستان سے شائع ہونے والا رسالہ’’ندائے گل‘‘ کے سالنامے میں بھی ان کی افسانوی تحریروں کو جگہ ملی۔

         طارق شبنم کا پہلا افسانوی مجموعہ’’گمشدہ دولت‘‘ ۲۰۲۰ء؁ میں ادبی منظر نامے پر نمودار ہوا۔ اس مجموعہ میںکل ۲۷ افسانے موجود ہیں جو زندگی کے مختلف واقعات اور مشاہدات پر مشتمل ہیں۔ تخلیق کار بھی اسی سماج اور معاشرے کا حصّہ ہوتا ہے۔ گردو نواح میں رونما ہونے والے واقعات اور حادثات سے اس کا ذہن لازمی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ کوئی فن پارہ معرض وجود میں آتا ہے۔ طارق شبنم بھی اپنے افسانوی خمیر کو دورِ حاضر کے حالات اور مشاہدات تیار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انکے قلم سے مقامی حالات کے تناظر میں خوبصورت افسانے جنم لیتے ہیں۔ افسانہ ’’اندھیرے اُجالے‘‘ کا یہ اقتباس وادی کشمیر کے قدرتی منظر نامے کا ماضی اور حال کی روداد بیان کررہا ہے:

’’کتنا حسین دل موہ لینے والا سماں ہے۔ یہ باغ یہ گلستان کتنا خوبصورت ہے، یہ رنگ برنگے پھول، یہ سرسبز پتوں والے درخت، یہ نیلے پانی کا جھرنا، یہ فلک بوس پہاڑیاں۔واقعی یہ کوئی جنت کا ٹکڑا ہے…… مگر ہائے نہ جانے کس کی نظرِ بد لگ گئی میرے ہنستے کھیلتے آشیانے کو…میرے جسم سے خون بہہ رہا ہے…میری کوکھ میں نہ جانے کتنے گمنام قبرستان وجود پاچکے ہیں… میرے دلفریب نظارے دہشت زدہ ہیں۔ بارود کی گندی بُو نے میرے پُرامن گھر کو صحرا بنادیا ہے۔‘‘

                  (افسانہ’’اندھیرے اجالے‘‘مشمولہ،گمشدہ دولت،ص:۱۹)

         طارق شبنم نے اس افسانے میںایک طرف خود کلامی سے کام لیا ہے اور دوسری طرف وادی کشمیر کے حُسن کو بطور کردار بنا کر پیش کیا ہے۔ اس افسانے میںخوشحالی سے خستہ حالی کی درد انگیز داستان قاری کے ذہن و دل کو ایک مخصوص کیفیت میں مبتلا کردیتی ہے۔ یہ افسانہ فلیش بیک تکنیک کی ایک اچھی مثال پیش کرتا ہے ، جہاں زمانہ ماضی کی خوبصورت یادیں گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ موجودہ دور کی انسانی خود غرضی اور مختلف قسم کی آلودگیاں وادی کشمیر کے حُسن و جمال کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے لیے کافی ہیں۔ یہ افسانہ انسانی روگردانی کا عمدہ مرثیہ بھی ہے۔ جہاں فقط اُداسی اور نالہ زاری کی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔

         اس مجموعہ میںشامل افسانہ’’صدمہ‘‘ کے عنوان سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص کی روداد اس میں پیش کی گئی ہے جو حالات کے خوفناک چہرے کی وجہ سے ذہنی مرض میںمبتلا ہوچکا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار’’کاکا‘‘ ہے جس کا اصلی نام محمد شفیع ہوتا ہے۔تیس سال کا یہ خوبرو جوان اپنی بستی میں ہر دلعزیز ہوتا ہے۔ ایک دن بازار میں اچانک دوران خریداری گولیوں کی خوفناک آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس دوران کاکا نے انسانی خون کو سڑک پر بہتے ہوئے دیکھا۔ یہی وہ واقعہ ہے جو اسکے دماغ میںگھر کر چکا تھا۔ افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’خون…بم… گولیاں، میں گھر سے باہر نہیں جائوں گا…ہر گز نہیں… وہاں لوگ مرتے ہیں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘                               (افسانہ’’صدمہ‘‘،ص:۲۲)

         کا کا کی دن بہ دن بگڑی حالت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دلخراش واقعہ اسکے لیے جان کا صدمہ ثابت ہوا، جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا۔مذکورہ افسانے کا یہ درد انگیز اقتباس ملاحظہ ہو:

’’اس دن کے بعد کاکا کے زخم جیسے اور گہرے ہوگئے اور وہ مکمل طور پر اپنا دماغی توازن کھو کر بستر پر دراز ہوگیا۔ کئی مہینوں تک اس اذیت ناک کیفیت میں مبتلا رہ کر ایڑیاں رگڑتا رہا اور گھر سے باہر قدم رکھنے کے لئے کبھی راضی نہیں ہوا‘‘۔

                                    (افسانہ’’صدمہ‘‘ ،ص:۲۴)

طارق شبنم کا یہ تخلیق کردہ کردار یہاں کی ہر بستی اور ہر گھر کی علامت ہے۔ گزشتہ تین دہائیوںکے پُر آشوب حالات میں ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں جو ’’کاکا‘‘ کی کہانی کے زندہ گواہ ہیں۔

         افسانہ ’’بے درد زمانہ‘‘ میں افسانہ نگار نے سماجی اثرورسوخ اور انسانی لاچارگی کی بہترین عکاسی کی ہے۔ افسانے کی مرکزی کردار ’’سندری‘‘ ایک محنتی اور باکردار مگر غریب عورت ہوتی ہے۔مفلسی کی وجہ سے بیمار شوہر کا بروقت علاج کروانے سے قاصر ہوتی ہے۔ سرکاری اسپتال میں سفارش کے بغیر چارہ نہیں اور مجبوراً سندری کو سونے کی بالیاں نصف قیمت پر فروخت کرنی پڑتی ہیں اور لیبارٹری پر شوہر کو لے کر ٹیسٹ کروانے جاتی ہے تو وہاں چند پیسے کم ہونے کی وجہ سے اسکو دھتکارا جاتا ہے اور مایوسی کے عالم میں بیمار شوہر کے ساتھ آنسو بہاتی واپس لوٹ آتی ہے۔

         افسانے کے اختتام پر سندری کی بے بسی،لاچاری اور سماج کے ناروا سلوک کا درد انگیز منظر یوں کھینچاگیا ہے:

’’اس بے درد زمانے میں ،میں اکیلی بے سہارا عورت کیا کروں۔ کس سے مدد مانگوں ،کہاں انصاف ڈھونڈوں ،یہاں صرف پتھر دل انسان ہیں، پتھر کے ضمیر ہیں، چاپلوسی، خود غرضی اور حرص ہے‘‘۔

                           (افسانہ’’بے درد زمانہ‘‘،ص:۱۶)

         اس مجموعہ کا کلیدی افسانہ ’’گمشدہ دولت‘‘ ہے۔ جس میں انسانوں کی ترقی اور دولت و شہرت کے باوجود بے سکون زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ افسانہ نگار کے تخلیقی برتائو نے اس کہانی کے بنیادی کردار’’جنرل ٹام‘‘ کو پہلے رشک اور بعد میں حیرت کی کیفیات سے دوچار کردیا۔ اس افسانے کا مرکزی کردار مریخ سے اتر کر کرۂ ارض پر انسانوں کی پریشان حالی کا اپنی صورت بدل بدل کر تجزیہ کرتا ہے۔ علم و دانش کی فراوانی کے باوجود اور شہرت و دولت کے انبار جمع کرنے کے بعد بھی انسان آخر بے سکونی اور بے چینی کا شکار کیوں ہوگیا ہے؟ افسانے کا یہ خوبصورت اقتباس ان بے قرار سوالات کا جواب بھی دیتاہے:

’’دھرتی پر آباد تمام فرقوں سے وابستہ انسان قدرت کے آفاقی اصولوں سے روگردانی کر کے اپنے ہی وضع کردہ خود غرضانہ اور رسودہ اصولوں کے تابع زندگی گزارنے کی احمقانہ غلطی کے سبب ذہنی و دلی سکون کی انمول نعمت کو کھو بیٹھے ہیںجسے واپس حاصل

کرنے کے لئے اگرچہ یہ سخت جتن کررہے ہیں لیکن اپنی روش بدلنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہیں‘‘۔

                           (افسانہ’’گمشدہ کلمات‘‘،ص:۱۰۴)

         طارق شبنم کے اس افسانوی مجموعے میں دیگر افسانے بھی قابل مطالعہ ہیں جن میں کہانی کا المیہ ،دہشت کے سائے، اعتبار ، پشیمانی، چڑھتے سورج کے پُجاری، مسیحا کی تلاش، سنہرا پھندا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ طارق شبنم افسانے کی فنی نزاکتوں اورباریکیوں سے آشنا ہیں۔کہانی لکھنا اور اس میں ایک خاص قسم کا تاثر برقرار رکھنا ہی افسانہ نگار کی کامیابی پر دلالت کرتا ہے۔ فنی اعتبار سے ان رموز و اسرار کے برتائو میں طارق شبنم ایک کامیاب افسانہ نگار نظر آتے ہیں۔ طارق شبنم پیشہ وارانہ طور پر اگرچہ محکمہ زراعت سے وابستہ ہیںلیکن اسکے باوجود ادبی حلقوں میں اپنی تحریروں سے پذیرائی حاصل کرتے رہتے ہیں تویہ ان کا کمالِ ہنر ہی کہلائے گا جو اسے ایک عمدہ کہانی خلق کرنے پر ہر وقت سرگرم عمل رکھتا ہے۔ بقول ڈاکٹر ریاض توحیدی:

’’تخلیقی ادب میں اعلیٰ تعلیم سے زیادہ اعلیٰ صلاحیت ہی کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طارق شبنم کے اکثر افسانے سماجی مشاہدے کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں اور ان میں فنی چابکدستی کے ساتھ ساتھ کہانی پن بھی موجود ہوتا ہے‘‘۔

         (مضمون’’گمشدہ کلمات کا تنقیدی جائزہ‘‘،ڈاکٹر ریاض توحیدی)

***

Leave a Reply