طبّی اخلاقیات : حکیم فخرِ عالم کی ایک شاندار کتاب !
تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
طبّی اخلاقیات
کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے؟ اس سوال کی روشنی میں وضع کیے جانے والے اصول و ضوابط کو اخلاقیات کہا جاتا ہے ۔ اخلاقیات سے عاری ہر مہذب پیشہ انسانیت کے خلاف جرم ہے ، بالکل اُسی طرح جیسے کوئی بداخلاق آدمی انسانیت کے نام پر دھبّا ہوتا ہے ۔ ہر پیشے کے لیے اخلاقی اصول و ضوابط لازمی ہیں ، کیونکہ کسی بھی پیشے میں بداخلاقی بددیانتی کو جنم دیتی ہے ، اور بددیانتی پیشے اور پیشے سے وابستہ ماہرین کو ، اُن کی نظروں میں ، جو اپنی مشکلات کا مداوا چاہتے ہیں ، متنفّر بنا دیتی ہے ۔ اخلاقیات سے متعلق یہ چند جملے بطور تمہید حکیم فخر عالم کی کتاب ‘ طبّی اخلاقیات ‘ کا تعارف کرانے سے پہلے اس لیے لکھ دیے ہیں تاکہ اس مختصر سی تحریر کو مکمل پڑھنے سے پہلے لوگ ذہن بنا لیں کہ جس کتاب پر بات کی جانی ہے وہ ایک سنجیدہ علمی کتاب ہے ، اور ان دِنوں سنجیدہ علمی کتابیں کم کم ہی آتی ہیں ۔ حکیم فخر عالم سے میرا تعارف فون پر ہوا ہے ، وہ بھی مکتبہ جامعہ علی گڑھ کے انچارج صابر بھائی کے توسط سے ۔ کتاب کے پس ورق پر ان کا انتہائی متاثر کن تعارف دیکھا : ” حکیم فخر عالم نے عربی و فارسی زبان و ادب اور دینیات کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل مشہور دینی و عربی درسگاہ مدرستہ الاصلاح ، سرائے میر اعظم گڑھ سے 1991 میں کی ۔ اس کے بعد اجمل خاں طبیہ کالج ، مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ سے 1999 میں بی یو ایم ایس اور 3 – 2002 میں علم الادویہ میں ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ طبّی موضوعات پر مبنی ان کی چار سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں نیز مختلف عنوانات پر متعدد مضامین رسائل و جرائد میں بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ آج کل حکیم فخر عالم ‘ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن ، نئی دہلی ‘ میں ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔”
حکیم فخر عالم کو کیوں محسوس ہوا کہ طبّی اخلاقیات پر کتاب کی ضرورت ہے ؟ حکیم صاحب نے اس سوال کا جواب ، کتاب کے تعارف کے طور پر لکھی گئی اپنی تحریر بعنوان ‘ ایک آخری بات ‘ میں ، تفصیل سے دیا ہے ۔ حکیم صاحب لکھتے ہیں : ” مصنف اپنی کتاب کا پہلا قاری خود ہوتا ہے ، اس حیثیت سے طبّی اخلاقیات پڑھتے ہوئے کئی بار یہ سوال ذہن میں آیا کہ جب اخلاق انسانی طبیعت کا حصہ ہے تو انسانی سرشت میں اس کے نمو کے لیے خارجی محرکات کی ضرورت کیوں؟ شاید یہ سوال قارئین کے ذہن میں بھی آئے اور آنا بھی چاہیے ۔ در حقیقت اخلاق درسی عنوان کے بجائے اصلاح و تربیت سے تعلق رکھتا ہے اور جذبہ اصلاح کی بیداری کے لیے تذکیر سب سے موثر آلہ ہے ۔ یہ کتاب محض تذکیر کا ایک سامان ہے ، جو یاد دہانی کرتی ہے کہ نہاں خانۂ دل میں چھپی اس شے کو سامنے لایا جائے جو ہم سے قریب ہونے کے باوجود بہت دور ہوگئی ہے ، اس طرح یہ اخلاق کے جذبۂ خفتہ کو بیدار کرنے کا کام کرتی ہے ، یہی اس کی تصنیف کا مقصد ہے ۔”
یقیناً یہ ایک نیک مقصد ہے ، بالخصوص اس لیے کہ آج کے دور میں طب جیسے مہذب پیشے سے وابستہ افراد میں سے اکثر اخلاقی طور پر کمزور ہیں ۔ حکیم صاحب نے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ” اس کتاب میں طبّی اخلاقیات کے رسمی عناوین مثلاً طبیب کے اوصاف و خصائل اور حاملین طب کے غیر مطلوب رویوں کے احاطہ کے علاوہ ان مسائل کو بھی حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے ، جن سے معاصر دنیا اس وقت دوچار ہے ۔ ان مسائل کا دائرہ طبیب کے ذاتی اخلاقی رویوں سے لے کر سماجیات اور ماحولیات تک پھیلا ہوا ہے ۔”
کتاب نو ابواب میں تقسیم ہے ۔ پہلے باب کا عنوان ‘ پس منظر ‘ ہے ۔ یہ باب چھ ضمنی ابواب پر محیط ہے ؛ ‘ اخلاق اور فلسفۂ اخلاق ‘ ، ‘ تاریخ اخلاقیات ‘ ، ‘ علم الاخلاق کا اسلامی نظریہ ‘ ، ‘ فن طب کی فضیلت ‘ ، ‘ طبیب کے لیے اخلاقی قدروں کی اہمیت ‘ اور ‘ طبیب کی سماجی عظمت ۔’ اس باب کے آخری دونوں ضمنی ابواب کی چند سطریں ملاحظہ کریں : ” موجودہ عہد میں اخلاقی ضوابط کی باتیں ماضی سے زیادہ ہو رہی ہیں ، مگر اس وقت طبّی پیشے میں اس کے مظاہر بہت کم نظر آ رہے ہیں ، بلکہ عملی نمونے کا تو ایک طرح سے فقدان معلوم ہوتا ہے ۔ لہذٓا اخلاقی قدروں سے اس پیشے کی موجودہ تہی دانی کی علّت معلوم کرکے ، اس کا تدارک ضروری ہے ۔” حکیم صاحب مزید لکھتے ہیں : ” ماضی میں طب کے طلبہ اور اساتذہ دونوں ہی فن طبابت کو ایک منفعت بخش پیشہ کے بجائے ، انسانی خدمت کا وسیلہ سمجھتے تھے اور اس کی تعلیم و تعلم بھی اسی جذبے سے کرتے تھے ۔ جب کہ ہمارے عہد میں اخلاقیات کی تعلیم زبانی درس تک سِمٹ گئی ہے اور فنی تعلیم بھی ٖصرف ایک پیشہ سیکھنے اور سکھانے کے طور پر ہو رہی ہے ۔ اسی لیے عہدِ حاضر کی طب ، اخلاقی قدروں سے عاری محض ایک پیشہ بن گئی ہے ۔” حکیم فخرِ عالم اس کا علاج تجویز کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” اس سلسلے میں سب سے پہلے تعلیم گاہوں کے اہداف متعین کرنے ہوں گے ، پھر اساتذہ اور طلبہ کے انتخاب کا ایک جامع پیمانہ وضع کرنا ہوگا ۔ گویا یہ عمل تعلیمی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاح کا متقاضی ہے ۔ مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی اور جمہوری مصلحتوں سے اوپر نہ اٹھا جائے ۔” حکیم صاحب نے جو تجاویز پیش کی ہیں کیا ان پر عمل ممکن ہے ؟ اس سوال کا جواب اربابِ حل و ؑعقد کو دینا ہے ۔ اس باب کے آخر کا اقتباس ملاحظہ کریں : ” اقوامِ عالم کی تاریخ میں ہر دور کے سماج میں طبیبوں کو بے حد قدر و منزلت حاصل رہی ہے ۔ اگر سماج نے حاملینِ طب کو اس قدر عزت و توقیر عطا کر رکھی ہے ، تو ظاہر ہے کہ ان سے اس کی توقعات بھی ہوں گی ، جس پر کھرا اترنا اطبّا کی ایک بڑی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے اور ان پر یہ اخلاقی فریضہ بھی عائد ہوتا ہے کہ کہ انھیں جو سماجی عظمت حاصل ہے ، اس کے تقاضوں کو پورا کریں ۔”
دوسرا باب ‘ قدیم تہذیبوں میں طبّی اخلاقیات کا تصور ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں ہمورابی کے طبّی ضوابط اور بقراط کی وصیت کے حوالے سے اخلاقی ضوابط پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اور قدیم ہندوستان اور چین کے طبّی اخلاقیات پر بات کی گئی ہے ۔ تیسرے باب ‘ طبیب کے اوصاف و خصٓائل ‘ میں ذہنی صلاحیت ، وسعت مطالعہ ، قدیم طبّی سرمائے سے واقفیت ، تجربہ ، رازداری اور دین داری کی ضرورت کو اطبّا کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ چوتھا باب ‘ حاملین طب کے غیر مطلوب رویے ‘ اہم باب ہے ، اس میں ؑبتایا گیا ہے کہ عصبیت ، علمی سرقہ ، کمیشن خوری اور اشتہارات و تشہیر پسندی کا رجحان حاملین طب کے غیر مطلوب رویے ہیں ۔ پانچویں باب میں ‘ ادویاتی اور صیدلیاتی امور ‘ پر گفتگو کی گئی ہے ۔ چھٹا باب ‘ ماحولیات ‘ کے اخلاقی تقاضوں پر ہے ۔ ساتویں باب ‘ متفرقات ‘ میں ازالۂ مرض کی مجموعی کوشش ، ایوتھنیز کا طبّی تصور اور معاون طبّی عملہ کے موضوعات پر گفتگو ہے ۔ آٹھوں باب ‘ منقولات ‘ ہے ، اس میں حکایات اور اخلاقی واقعات اور ‘ چہار مقالہ ‘ کی اخلاقی حکائتوں کے ذریعے اخلاقیات کا درس دیا گیا ہے ۔ نواں باب ‘ اصول و ضوابط ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں ‘ سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن ‘ کا ٖضابطۂ اخلاق ، نیورمبرگ کوڈ اور ہلسنکی اعلامیہ پر بات کی گئی ہے ۔
یہ کتاب کیسی ہے ؟ اس سوال کا جواب کتاب میں شامل حکیم وسیم احمد اعظمی ( سابق ڈپٹی ڈائرکٹر ، سنٹرل کونسل فار ریسرچ اِن یونانی میڈیسن ، نئی دہلی ) کی ‘ تقریظ ‘ سے دینا چاہوں گا ۔ حکیم اعظمی صاحب لکھتے ہیں : ” ‘ طبّی اخلاقیات ‘ کے اِن مباحث میں حکیم فخر عالم کا سچ کا ‘ اعتراف ‘ اور غلط سے ‘ انحراف ‘ دیکھا جا سکتا ہے ۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں تقلید محض کی بجائے جو حق جانا اور جو سچ سمجھا ، اسے بغیر کسی مصلحت کے بیان کیا ہے ، انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ جمہور اطبّا ان کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے اور ان کے بارے میں کیا کچھ کہا اور لکھا جائے گا ۔ ہمیں یقین ہے کہ حکیم فخر عالم کی یہ کتاب طبّی دنیا میں بے حد پسند کی جائے گی ، کیونکہ اس میں طبّی اخلاقیات کے مالہ و ماعلیہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔” حکیم وسیم احمد اعظمی کی طرح مجھے بھی اس کتاب کے بے حد پسند کیے جانے کا یقین ہے ۔ کتاب ‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، وزارت تعلیم حکومتِ ہند ‘ نے شائع کی ہے ، یہ 234 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت محض 150 روپیے ہے ۔
***