You are currently viewing عابد پشاوری کی تحقیقی خدمات

عابد پشاوری کی تحقیقی خدمات

محمد رفیع

ریسرچ اسکالر،جواہرلعل نہرویونیورسٹی،نئی دہلی

عابد پشاوری کی تحقیقی خدمات

(نقطے اور شوشے کی روشنی میں)

لفظ’’ تحقیق ‘‘اصلاً عربی زبان کا مصد رہے جس کا مادہ ’حقق یحقق تحقیقاً‘‘سے ماخوذ ہے۔جو لفظ باطل کی ضد ہے۔ تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت معلوم کر نا ،کسی امر کی اصلیت کا سراغ لگانا بھی ہے اوراصطلاحاًتحقیق ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتاہے۔تحقیق ماضی کی گم شدہ کڑیاںبھی دریافت کرتی ہے حال کے تقاضوں سے بھی نبرد آزما ہوتی ہے اور مستقبل کے لیے بھی ایک لائحۂ عمل بھی فراہم کرتی ہے۔تحقیق موجود مواد کو مرتب کرتی ہے۔پھر اس پر تنقید کرتی ہے اور پھر اس سے اخذ ہونے والے نتائج سے آگاہ بھی کرتی ہے۔

دیگر اصناف ادب کی طرح تحقیق بھی ادب کا ایک اہم شعبہ ہے۔مختلف ماہرین نے تحقیق کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔جن میں سے چند تعریفیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

ڈاکٹر گیان چند جین اپنی کتاب  ’تحقیق کا فن ‘میں کچھ یوں رقمطراز ہیں۔

’’جب کسی امر کی اصل شکل پوشیدہ یا مبہم ہوتو اس کی اصل شکل کو دریافت کرنے کا عمل تحقیق ہے۔ ‘‘(1)

مالک رام؛

         ’’تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کا مادہ ح ق ق ہے،جس کے معنیٰ ہیں کھرے کھوٹے کی چھان بین یا کسی بات کی تصدیق کرنا ہے۔دوسرے لفظوں میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے علم وادب میں کھرے کو کھوٹے سے ،مغز کو چھلکے سے،حق کو باطل سے الگ کریں ۔انگریزی لفظ ریسرچ کے بھی یہی معنیٰ اور مقاصد ہیں۔‘‘(۲)

قاضی عبدالودودنے تحقیق کے ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیاہے:

’’تحقیق کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے۔(۳)

درج بالا مختلف ماہرین کے ذریعے پیش کی گئی تحقیق کے متعلق تعریفوںکے تجزیاتی مطالعے کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق سچ اور جھوٹ کے مابین فرق کر نے کا نام ہے۔کسی مبہم یا پوشیدہ امر کی تلاش سائنٹفک طریقۂ کار کا استعمال کر کے ایک نئی دریافت سامنے لانا تحقیق ہے۔یعنی کہ تحقیق حقیقت کی بازیافت کا نام ہے اور تحقیق کا مکمل اور صحیح مفہوم’تلاش حق‘ہے۔

اردو تحقیق کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو تحقیق کی عمر دوسوسال سے زائد نہیں ہے او ر باقاعدہ ادبی تحقیق کی عمر تو اس سے بھی کم ہے۔اردو میں تحقیق کے نقوش ہمیں پہلے پہل تذکروں میں نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر گیان چند جین اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’اردو میں تحقیق کی بری بھلی داغ بیل تذکرو ںمیں ہی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان ہی میں تحقیق کے لیے مواد ملتا ہے۔‘‘(۴)

 اردو تحقیق کی تاریخ میں تذکروں کی اہمیت و افادیت مسلم ہے ۔اکثر محققین نے ان ہی تذکروں سے مستفید ہوکراپنے تحقیقی سفرکا رخت سفرباندھا اور پھربعض تحقیقی امور کا فیصلہ بھی کیا۔ادبی تاریخ کے مرتبین او رلسانیات کے ماہرین کو بھی ان  تذکرو ںسے کافی مدد ملی ،لہٰذاتذکروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اردو تحقیق کے ارتقائی سفر کے سلسلے میں سراج الدین علی خان آرزو کانام خصوصیت کا حامل ہے۔انھوں نے اردو کی پہلی باقاعدہ لغت ’’نوادر الالفاظ‘‘لکھ کرلسانی تحقیق میں ایک کام سرانجام دیا جس کی تاریخی اورتحقیقی اہمیت مسلّم ہے۔خان آرزو کے بعدتقریباً اس بابت کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔یوں انیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کے مصنفین نے اردو تحقیق کے ارتقا میں اہم کردار اداکیا۔اس کے بعد سرسید احمد خاں اور ان کے رفقا نے بھی اردو تحقیق کے تحقیقی سرمائے میں اپنی بے بہا خدمات انجام دیں جن کی اہمیت وافادیت اپنی جگہ قائم دائم ہے۔ لیکن ان کی تحقیقی کاوشوں کو باقاعدہ تحقیق کا مثالی نمونہ قرارنہیں دیا جاسکتاہے۔انیسویں صدی کے آخری دورتک بھی کوئی باقاعدہ تحقیقی نمونہ منظر عام پر نہیں آتاہے۔لیکن اردو تحقیق کی تاریخ میں بیسویں صدی ایک نوید لے کر آئی اور اردو تحقیق کوایسے محقق میسر آئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہی اردو تحقیق کے دامن میں وہ سب کچھ میسر آیاجس پر کوئی بھی زبان یا ادب فخر کرسکتا ہے۔بیسویں صدی میں اردو تحقیق کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے لہٰذااس حوالے سے بیسویں صدی ایک اہم کڑی کہی جاسکتی ہے۔اس صدی کے ابتدائی دور میں مولانا حسرت موہانی،مولاناشبلی،مولوی عبد الحق ،حبیب الرحما ن خاں شیروانی ،حافظ محمود شیروانی ،مسعود حسین خاں رضوی ،قاضی عبدالوددو،مولانا امتیاز علی عرشی ،نصیرالدین ہاشمی ، مالک رام ،شمس اللہ قادری،رشید حسن خاں،نورالحسن ہاشمی وغیرہ کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔جنھوں نے تحقیق کی روایت کو مستحکم کیااور اسے ایک وقار بخشا اورتحقیق کا  ایک معیار قائم کیا۔ تحقیق کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت بخشی۔

ان کے بعد آنے والے نسل میں ڈاکٹر سید عبداللہ،ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان،ڈاکٹر وحید قریشی،ڈاکٹر سہیل بخاری، ڈاکٹر جمیل جالبی ،مشفق خواجہ ، ڈاکٹر گیان چند جین،سیدہ جعفر،تنویر احمد علوی،یوسف حسین خاں،خلیق انجم ، کالی داس گپتا رضا،مختارالدین احمد،اسلم فرخی،ڈاکٹر عندلیب شادانی، پروفیسر نورالحسن نقوی،پروفیسرانصاراللہ نظر، پروفیسر عبدالستار دلوی،پروفیسر منظراعظمی،ڈاکٹر حنیف نقوی اور ڈاکٹر شیام لال کالڑعابد پشاوری  وغیرہ کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔جنھوںنے اردو تحقیق کو ٹھوس بنیادو ںپر کھڑا کرنے کا کام  انجام دیا ۔اردو تحقیق کی ترویج  و ترقی میں   اہم رول ادا کیا۔ نیزتحقیق کے اصول وضوابط مرتب کر کے تحقیق کو باقاعدہ سائنسی علم بنادیا۔

مذکورہ محققین کی صف میں  ایک درخشاں نام ’’عابدپشاوری ‘‘کا بھی ہے۔عابد پشاوری کی شناخت بطور محقق اردو ادب کی تاریخ میں مسلم ہے۔ ان کا شمار اپنے عہد کے بلند پایہ محققین میں ہوتاہے۔انھوں نے قاضی عبدالودود،گیان چند جین،مشفق خواجہ،تنویر احمد علوی جیسے قدآور محققین کے زیر سایہ تحقیقی تربیت پائی اور ان کے زیر تربیت اپنی تحقیقی صلاحیتوں کونکھارااوردیکھتے ہی دیکھتے عابد پشاوری نے اپنی صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرکے اردوتحقیق کے سرمائے میں تحقیق کے اعلا نمونے پیش کرکے اہم اضافے کیے اور اپنے معاصرین کے ہمراہ اپنے اکابرین سے بھی اپنے فن کا لوہا منوایا اور اردو تحقیق کی تاریخ  میں اپنے لیے ایک منفرد مقام محفوظ کرلیا۔چنانچہ گیان چند جین عابد پشاوری کی تحقیقی صلاحیت کا اعتراف کچھ ان الفاظ میں کرتے  ہیں:

’’ان کے چلے جانے سے میرا ذاتی نقصان تو ہوا ہی اس سے زیادہ اردو تحقیق نے کھویاہے۔وہ ہمارے دور کے اردو کے بہترین محققوں میں تھے۔‘‘(۵)

ڈاکٹر حنیف نقوی یوں رقم طراز ہیں

’’پروفیسرشیام لال کالڑا عابد پشاوری ]متوفی:26جنوری[1999اردو کے ان اساتذہ میں سے تھے جنھیں ان کے تحقیقی کارناموں کی بنا پر عصر حاضر کے نمائندہ محققین میں شمار کیا جاتاہے۔ان کی وسعت مطالعہ ،ان کی صاحب نظری ،ان کی خوش ذوقی اور ان سے سب سے بڑھ کر ان کے استحضا رعلم اور برہنہ گو ئی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘(۶)) عابد ؔ پشاوری  بنیادی طور پر شاعر تھے لیکن انھوں  ؔنے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز تحقیق سے ہی کیا۔اردو دنیامیں عابد پشاوری ایک باکمال محقق کے طورپر معروف ہیں ۔اردو تحقیق کا جو معیار محمود شیرانی،عبد الحق،قاضی عبدالودودجیسے قدآورمحققین نے قائم کیا تھا عابد نے ان ہی محققین کے نقش قدم پرچل کر اس معیار کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے ایک  وقار بخشا اور مزید مستحکم کیا۔انھوں نے اپنی عمر کا نصف سے زیادہ حصہ اردو تحقیق کی خدمت میں صرف کیا۔اور اپنی پانچ تحقیقی تخلیقات سے اردو ادب کے تحقیقی سرمائے میں اہم اضافہ کیا اور ادبی ایوانوں میں اپنی تحقیقی کاوشوں سے تہلکہ مچا دیا۔

عابد کی تمام تر تحقیق کلا سیکی ادب کے تحقیقی زمرے میںشمار ہوتی ہیں اور جس خوبی اور دیانت داری اور باریک بینی ،محنت ولگن اور خلوص سے اس کا م کو انھوں نے سرانجام دیاہے یہ ان ہی کا خاصہ ہے جس کی بدولت واقعی آج عابد بلندپایہ محققین کی صف میں شمارہوتے ہیں۔

تحقیق کی دو خاص قسمیں گنائی گئی ہیں ایک پابند تحقیق اور دوسری قسم غیر پابند یا آزاد تحقیق کہلاتی ہے اور عابد نے دونوں قسم کی تحقیق کے عملی نمونے پیش کیے ہیں۔ پابند تحقیق سے مراد وہ تحقیق ہوتی ہے جو کسی سند کو  حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔اس میں تحقیق کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح سند حاصل ہوجائے جس میں محقق اپنی رائے کو پوری وضاحت کے ساتھ نہیں لکھتا۔جس میں اکثر تعریفی کلمات کی بھر مارہوتی ہے ۔اختلافات سے زیادہ اجتناب کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے توعابدکا یہ امتیازی پہلو ہے کہ انھوں نے نہ صرف سندی تحقیق کی بلکہ اس تحقیق میں ایک مثال بھی قائم کی جو سندی تحقیق پر حرف رکھنے والوں کے لیے بطور ثبوت پیش کی جاسکتی ہے۔ عابدپشاوری کا موضوع ’انشاء اللہ خاں انشا‘تھے اور اس موضوع کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں عابد کو کم وبیش 12 سے 13سال کا عرصہ لگاجس کو عابد پشاوری نے’تیسرے بن باس‘سے بھی تعبیر کیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’ہندو دیومالا میں دو بڑے بن باسوں کا ذکر ملتا ہے ۔پانڈوؤں کو 12+1=13برس اور شری رام کو 14برس کا بن باس بھگتنا پڑا ۔زیر نظرمقالہ تیسرا بن باس ہے ۔جس کی مدت ان دوتاریخی بن باسوں کے بین بین ہے۔‘‘ (۷)

اس طرح عابد پشاوری نے انشاء اللہ خاں انشاپر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرکے اپنے عہد کے نمائندہ محققین میں اپنا نام درج کروالیا۔جس میں عا بد نے حقائق کو بڑی بے باکی اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ان کے اس کارنا مے کے متعلق ان کے نگراں ڈاکٹر گیان چند جین خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’محمود الٰہی نے اپنی رپورٹ میں لکھاکہ انھوںنے آج تک اتنا اچھا تحقیقی مقالہ نہیں دیکھا ۔ڈاکٹر ہاشمی نے بھی تقریباًیہی بات کہی تھی۔‘‘(۸)

 گویا ظاہر ہے کہ عابد پشاوری نے محض سند حاصل کرنے کے لیے تحقیق نہیں کی بلکہ ایک مکمل محقق کی طرح تحقیق کو اپنا فرض جان کر حق اداکیا۔جیسا کہ ظاہر ہے کہ ’انشاء اللہ خاں انشا‘ان کی تحقیق کا موضوع تھے تو ایسے میں عابد نے انشا کے تعلق سے تین تحقیقی کتابیں تصنیف کی ۔جن کی اہمیت مسلّم ہے۔جن کی تفصیل کچھ یوں ہے

۱۔       انشا کے حریف وحلیف

۲۔      انشا اللہ خاں انشا

۳۔      متعلقات انشا

مذکورہ تین کتابوں کے علاوہ بھی عابد کی دو اور اہم تحقیقی کتابیں ہیں جو مختلف موضوعات پرتصنیف کی گئی ہیں ۔یہ بھی اردو کے تحقیقی ادب کے سرمائے میں اہم اضافے کی حیثیت  رکھتی ہیں۔عابد پشاوری  کی تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر گیان چند جین کچھ یوں رقم طراز ہیں:

’’ان کے مقلدوں میںقاـضی عبد الودودرشید حسن خاں،ڈاکٹر عابد پشاوری اور ڈاکٹر حنیف نقوی اہم ہیں لیکن یہ محض اعتراضات کے ہی مرد میدان نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عابد پشاوری اور حنیف نقوی کے اپنے کام ان کے تصحیی۔کاموں سے زیادہ وقیع ہیں۔‘‘(۹)

نریندرناتھ سوز کچھ یوں رقم طراز ہیں:

’’عابد پشاوری کا تعلق محققین کی اس نسل سے ہے جو آج ہماری دانش گاہوں سے متعلق ہے۔اس صدی کی ساتویں دہائی میں عابد صاحب نے میدان تحقیق میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنا ایک مقام بنالیا۔آج یہ نہ نام نہ صرف جانا پہچانا ہے بلکہ اردو کی ادبی تحقیق میں ایک معتبر نام بھی ہے۔‘‘(۱۰)

درج بالا اقتباسات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ واقعی عابد نے اردو تحقیق کی دنیا میں اپنے لیے ایک الگ مقام محفوظ کرلیاہے۔انھوں نے اردو تحقیق کو ایک معیار ،ایک سمت ورفتار عطا کی اور یوں اپنی تحقیقی خدمات کے سبب اردو تحقیق کے سرمائے میں اہم اضافہ کیا۔جس کو اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

عابد پشاوری کے تحقیقی سفر کا دورانیہ ۱۹۶۲سے لے کر ۲۶ جنوری ۱۹۹۹ تک پھیلا ہوا ہے ۔اور اس عرصے کے دوران  ان کے جو کام شائع ہو کر داد و تحسین کی منزل سے ہو گزرے ان کے عنوانات حسب زیل ہیں ۔

۱۔  انشا کے حریف و حلیف                  ۱۹۸۰

۲۔نقطے اور شوشے                        ۱۹۸۰

۳۔متعلقات انشا                        ۱۹۸۵

۴۔انشااللہ خان انشا                    ۱۹۸۵

۵۔ذوق اور محمد حسین آزاد               ۱۹۸۷

۶۔گاہے گاہے باز خواں                ۱۹۹۴

          فی الوقت ہمیں غرض  عابد پشاوری کی تحقیقی کتاب نقطے اور شوشے سے ہے۔

نقطے اور شوشے

’’نقطے اور شوشے ‘‘  ——–  پروفیسرشیام لال کالڑا عابد پشاوری کی دوسری شائع شدہ تصنیف ہے جسے انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ،بمبئی نے1980میںشائع کیاہے۔درحقیقت اس کتاب کی ابتدا بصورت تبصرہ  ہوئی تھی۔جو عابد پشاوری نے ڈاکٹر عبد الحق کی مرتب کردہ کتاب ’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘ 1977 پرکیاتھا ۔ کتابی صورت میں آنے سے قبل یہ تبصرہ بہ عنوان’’نسخۂ خوش خط وبسیار غلط‘‘قسط وار1978-79میں رسالہ’’نوائے ادب‘‘بمبئی سے شائع ہوا تھا۔جس میں پہلی قسط، جلد: 28،شمارہ:1،اپریل 1978۔دوسری قسط،جلد: 28، شمارہ:2، اکتوبر 1978اور تیسری قسط،جلد:29،شمارہ:1،اپریل 1979کی ہے۔

لیکن ادارہ انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اس تبصرے کی اہمیت وافادیت کے پیش نظراسے کتابی صورت میں شائع کردیا اور مذکورہ تبصرے کا عنوان ’’نسخۂ خوش وخط وبسیار غلط‘‘سے بدل کر ’’نقطے اور شوشے‘‘رکھ دیا ۔

کتاب’’نقطے اورشوشے‘‘کے پیش لفظ میں نظام الدین کوریگر لکھتے ہیں:

’’زیر نظرکتاب ’’نقطے اورشوشے ‘‘دراصل ڈاکٹرشیام لال کالڑا ]جو اردو دنیا میں عابد پشاوری کے نام سے موسوم ہیں[کا جامع اور مبسوط تبصرہ ہے۔جو انھوں نے ڈاکٹر عبد الحق کی مرتب کردہ کتاب بنام’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘پر صاحب تالیف کی ایما بلکہ اصرارپر لکھا اور جو بالاقساط ہمارے ادارے کے ترجمان ’’نوائے ادب‘‘میں شائع ہوا۔تبصرے کی ادبی اہمیت اور قارئین کے اصرار پر ہم اسے کتابی صورت میں شائع کرنے کی جسارت کررہے ہیں۔‘‘(۱۱)

درج بالا اقتباس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کتاب’’نقطے اورشوشے‘‘کی اہمیت مسلّم ہے۔اگرچہ یہ محض ایک کتاب کا تبصرہ ہے لیکن اس کی ادبی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کتاب ’’نقطے اورشوشے‘‘147صفحات کو محیط ہے جس کے ابتدائی چار صفحات ابجدی شمارمیں’’پیش لفظ‘‘کے ہیں اورباقی 143صفحات باقی ماندہ کتاب کے ہیں۔مذکورہ کتاب کو سات حصوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔سب سے پہلے’’ پیش لفظ‘‘،’’پھر اعتذار‘‘ ،’’فرہنگ‘‘،’’مقدمہ‘‘،’’متن‘‘،’’حواشی واختلاف نسخ ‘‘اور آخر میں ’’زبان وبیان ‘‘درج ہے۔ اور یوں عابد پشاوری نے ڈاکٹر عبد الحق کی مرتب کردہ کتاب ’’انتخاب حاتم ۔دیوان قدیم‘‘کا بڑاہی دل چسپ اور بھر پور تبصرہ کیا ہے اور شاید ہی کوئی ایسا گوشہ رہ گیا ہوگا کہ جس پر عابد پشاوری نے قلم نہ اٹھایا ہوگا۔چاہے کتاب کا حرف آغاز ہو ،مقدمہ ہو،حواشی ہوں ۔متن ہو یا مصادر ہوں،ہر حوالے سے عابد نے بحث کی ہے۔

کتاب’’ نقطے اورشوشے ‘‘کا پیش لفظ نظام الدین کوریگرنے تحریر کیا ہے اور کماحقہٗ کتاب کے خدوخال سے روشنا س کرایا ہے ۔جس میں کتاب کی اہمیت اور ضرورت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔چنانچہ نظام الدین کوریگر لکھتے ہیں:

’’دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استادڈاکٹر عبد الحق کو مجموعہ انتخاب کا ایک نسخہ کہیں سے ہاتھ آگیااور انھوں نے اس میں کلام حاتم کو الگ کرکے ’’انتخاب حاتم ۔دیوان قدیم‘‘کے نام سے شائع کردیا۔اس قسم کی کوششوں سے نہ تو ادب کی تاریخ میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ اس سے تحقیقی کام کرنے والے طلبا کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے بلکہ گمراہی کے امکانات کچھ بڑھ ہی جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس ضرور ت اس بات کی ہے کہ ایسی غلط اور گمراہ کن تالیفات کا سختی سے محاسبہ کیا جائے تاکہ تحقیق میں سہل انگاری اور منافع اندوزی کی روش کی حو صلہ افزائی ہونے نہ پائے ۔زیر نظر کتاب’’نقطے اور شوشے‘‘اسی خیال کے پیش نظر ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ عابد پشاوری نے تصنیف نے کی ہے۔‘‘(۱۲)

پیش لفظ کے بعد’’اعتذار‘‘کا حصہ ہے ۔عابد کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اپنے اعتراض کو معذرت کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور اعتذار میں عابدپشاوری نے  داکٹر  عبد الحق سے معذرت کی ہے کیوں کہ وہ عابد پشاوری کے دوست بھی تھے اور دوست کی غلطی کی نشان دہی کرنا آسان نہیں ہوتاہے لیکن اگر غلطی ادب سے جڑی ہوتوپھراس غلطی پر قلم نہ اٹھانا ادبی بددیانتی میں شامل ہوتا ہے جس کا احساس عابد پشاوری کو بہ خوبی تھا اور انھوں نے اپنے دوست کی مرتب کردہ کتاب پر تحقیقی وتنقیدی تبصرہ پیش کیا۔عابد پشاوری اعتذار میں کتاب کا تعارف کچھ اس انداز میں کراتے ہیں کہ قاری کا تجسس مزید بڑھ جاتاہے کہ آیا ایسا کیا ہوگا کہ ڈاکٹر عبد الحق کی مرتب کردہ کتا ب ’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘پر لکھاگیاتبصرہ اس قدر اہم ہے کہ یہ نہ صرف اردو ادب میں ایک اہم اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ تحقیق کے طالب علموںکے لیے بھی مشعل راہ ہے ۔حالاں کہ ادب کے سرمائے میں اضافے کی حیثیت تو مرتب ڈاکٹر عبد الحق کی مرتب کردہ کتاب ’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘کوحاصل ہونی چاہیے تھی۔لیکن یہاں ٖ کہانی کچھ اور ہے۔

اعتذار کے بعد’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘پر عابد پشاوری کا تبصرہ شروع ہوتاہے۔عام طور پر قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی کتاب کے تبصرے کی شروعات تو کتاب کی ظاہری شکل وصورت سے ہی ہوتی ہے اور پھر بالترتیب کتاب  پرتبصرہ کیا جاتا ہے۔لیکن عابد پشاوری نے اس حوالے سے ایک نئی راہ نکالی ہے۔انھوں نے اپنے تبصرے کی شروعات کتاب کے اختتامی حصے سے شروع کی ہے جواپنے آپ میں ایک انوکھا انداز بھی ہے۔جس کا ذکر عابد پشاوری نے ان الفاظ میں کیاہے:

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی بات کا آغاز کہاںسے کیا جائے ۔چوں کہ ابتدائی حصہ اتناگنجلک ہے کہ سرآغاز گفتگو کو ڈھونڈنا،پکڑنا اور اس کے سہارے آگے بڑھنا اگر محال نہیں تو مشکل ضرور ہے چنانچہ آسانی کے لیے میں اپنی بات کا آغاز کتاب کے اختتام سے کرتا ہوں۔‘‘(۱۳)

’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘کتاب کا اختتام فرہنگ اور مصادر پر ہوتا ہے لہٰذا عابد پشاوری نے سب سے قبل فرہنگ اور مصادر پر ہی قلم اٹھایا ہے۔فرہنگ جو کہ چار صفحوں کو محیط ہے۔اس کا جائزہ لینے کے بعد عابد پشاوری اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ درج فرہنگ الفاظ کو مرتب کی ترتیب کردہ کتاب ]انتخاب حاتم۔دیوان قدیم[سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نیز مرتب نے تمام معانی درج کردیے ہیں جوامرخلاف اصول ہے ۔عابد پشاوری فرہنگ کے مقصدپر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور اس سلسلے میں رقم طرز ہیں:

’’فرہنگ کا مقصد ہوتا ہے مشکل اور نامانوس الفاظ کی تشریح وتعبیر یہ لغت یا کن کارڈ [Concard]نہیں کہ جس میں ہر لفظ درج کیا جائے لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ اس میں وہ تمام لفظ تو درج کردیے جائیں جو آسان اور عام فہم ہوںاور ان الفاظ کونظرانداز کردیا جائے جوقدیم اور نامانوس ہوں ۔مرتب نے یہی کیاہے۔‘‘(۱۴)

گویا ظاہر ہوتا ہے کہ مرتب نے محض سہل انگاری کوہی ترجیح دی ہے جب کہ ضرورت یہ تھی کہ ایسے الفاظ کو درج فرہنگ کیا جاتاجن کی واقعی ضرور ت بھی تھی۔اور عابد پشاوری کی نظر میں مرتب کی پیش کردہ فرہنگ ناقص اور نامکمل ہے۔عابد پشاوری نے خود مثالیں پیش کی ہیں اور فرہنگ کے اصل مقصد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ملاحظہ ہوں چند مثالیں:

ص:276۔      بیراگی:  فقیر،تارک دنیا،بیراگ

                  یہ سب معنی غلط ہیں:۔

دیکھ تیری بھنواں کی بیراگی

چھوڑسب دل مرا ہوا ہے اتیت

یہاں ہندوفقیروں کی چھڑی کے معنی ہیں۔ عموماًسادھوؤں کے ہاتھ میں ایک خمیدہ چھڑی ہوتی ہے جسے بیراگی کہتے ہیں۔ابرو کی مشابہت بیراگی سے ظاہر ہے۔(۱۵)

    ص:277۔  پشو:۔ جانور

          پہلے وہ شعر دیکھیے جس میں یہ شعر استعمال ہوا ہے:

ہوا صحرا حق مجنوں سیں گل زار

کیا ہے عشق کے پشو نے بَن سرخ

’’مصر ع میں یہ لفظ مشدد آیا ہے جو غلط ہے ۔جانور کے معنی میں یہ لفظ مخفف ہے نا کہ مشدد،پشو سے مصرع ناموزوں ہوجائے گا ۔یہاں ’’ٹیسو‘‘چاہیے یعنی ڈھاک جو سرخ رنگ کا ہوتا ہے‘‘(۱۶)

درج بالا مثالوں سے یہ واضح ہے کہ عابد نے کس انداز سے مرتب کی تیار کردہ فرہنگ پر تبصرہ کیا ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔فرہنگ کے بعد مصادر پر بھی عابدپشاوری نے خامہ فرسائی کی ہے۔

فرہنگ ومصادرکے بعد مرتب نے کے پیش کردہ ’’متن‘‘پر عابد پشاوری نے اپنی تحقیقی وتنقیدی نگاہ دوڑائی ہے اور’’ متن‘‘ کے سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’قدیم متون کے پڑھنے کے لیے خاص مشق ومہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔کاتب نسخہ کے املا اورسواد خط سے کماحقہٗ آگاہی اور باریک بینی شرط اول ہے‘‘(۱۷)

’’متن ‘‘کے سلسلے میں عابد پشاوری نے اپنی بات ’’ضمیمے‘‘سے شروع کی ہے۔ضمیمے میں موجود تسامحات واغلاط کی باضابطہ نشان دہی کی ہے۔جس میں مصرعوں کی موزونیت  اور ناموزونیت مصرعو ںکی نوک پلک  بھی سنواری ہے۔عابد پشاوری نے مع مثال کے پیش کیا ہے کہ اصل ’’متن‘‘کیا ہے،کیاہونا چاہیے تھا اور مرتب کی لاپرواہی سے کیا درآیا ہے۔ملاحظہ ہو ضمیمے کے متن سے چند مثالیں:

’’ص:252پر درج غزل کی ردیف محفوظ‘‘درج ہے جو غلط معلوم ہوتی ہے۔اسے مخطوط ہونا چاہیے ۔مطلعے سے کچھ دھوکا ضرورہوتا ہے لیکن دوسرے اشعار کے ساتھ ملا کر پڑھنے کی بات واضح ہوجاتی ہے۔ملاحظہ ہو:

جہاں میں تم کو ہمیشہ رکھے خدا محفوظ

ہے آشنائی کی خوشی جو ہو آشنا محفوظ

میں کہہ رہا ہوں تو مت مل بتاں سے کیا حاصل

ملے سے ان کے اب اے دل ہوا تو کچھ محفوظ

دوسرے شعر سے صاف ظاہر ہے کہ ردیف ’’محفوظ ‘‘کی جگہ ’’مخطوظ‘‘ہونی چاہیے۔‘‘(۱۸)

ایک اور مثال پیش ہے:

 ’’ص:273

ع        تیرے ورپر ہے اس قدر اذدہام

مصرع نا موزوں ہے ’’پرہے‘‘کی جگہ ’’پہ ہے‘‘چاہیے۔

ع       ہوئی مجھ اوپرزندگانی حرام

’’اوپر‘‘سے مصرع ناموزوں ہوجاتا ہے۔یہاں ’’اُپر‘‘لکھنا تھایا مرتب کو اس کی صراحت کرتی تھی کہ ’’اوپر‘‘ کوبہ تخفیف پڑھا جائے‘‘۔(۱۹)

گویا عابد پشاوری نے درج بالا خطوط پر ضمیمے کے ضمن میں کئی ساری اغلاط کی نشان دہی کی ہے جو دل چسپ بھی ہیں اور اہم بھی ہیں اورعابد پشاوری نے اپنی بات کو مدلل ومنصفانہ انداز میں پیش کیاہے۔جس میں اختلاف کی گنجائش بہت کم نکلتی ہے۔

’’ضمیمہ ‘‘پر تبصرہ کرنے کے بعد عابد پشاوری اصل متن کی طرف لوٹ آتے ہیں اور مرتب کی ملکیت والے مخطوطے کے متن کا بھر پور جائزہ لیتے ہیں ۔متن میں عابد پشاوری نے بہت سارے اشعار کو ناموزوںٹھہرایا ہے نیز زبان وبیان کی تسامحات،املائی خامیوں کی نشان دہی کے ہم راہ حسب لیاقت تصحیح بھی کی ہے اور صفحہ نمبر 230سے لے کر صفحہ نمبر۔۔۔۹۰  تک مخطوطے کے متن کے حوالے سے بات کرتے ہیں ۔ملاحظہ ہو عابد پشاوری کی پیش کردہ چند مثالیں:

’’ص:230

مصور کا اک ہر موقلم ہو

بنے نہیں تو بھی تصویر سخن کو

مصرع اولیٰ میں ’’اک‘‘کی جگہ ’’اگر چاہیے‘‘۔مصرع ثانی میں تصویر سخن گو چاہیے‘‘’’کو  ‘‘نہیں۔اس کے علاوہ  نھیں  کو  نئیں لکھنا تھا ورنہ حاشیے میں صراحت کرنا تھی کیوں کہ نئیں کو اگر بہ تخفیف نہ پڑھا جائے تو مصرع ناموزوں ہوجائے گا۔‘‘(۲۰)

’’ص:221

چاہوں ہوں میں کہ آئینہ دل صفا کروں

ہمت کوں اپنے راہ پر و رہنما کروں

مصرع ثانی :       ’’ہمت کوں اپنی راہ برو رہنما کروں ‘‘ہونا چاہیے۔‘‘(۲۱)

’’ص:132

چاہتے تھے غنچۂ دل کوں مرے خنداں کرے

’’چاہتی‘ تھی بجائے ’’چاہتے‘‘تھے غزل کی ردیف بہار ہے۔‘‘(۲۲)

       ’’ ص:108       برہ فوج کا ہوا ہے نقیب

برہ فوج معنوی اعتبار سے غلط ہے۔ممکن ہے نسخے میں ’’برہ اور فوج‘‘کے درمیان ’’کی‘‘لکھنے سے رہ گیاہو یعنی یہ ’’برہ کی فوج‘‘ہو۔(۲۳)

درج بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عابد پشاوری نے مرتب کے پیش کر دہ متن کے اغلاط کی نشان دہی کی ہے جہاں مصرعوں کی موزونیت تراش  خراش ،املاعی غلطی ،زبان بیان وغیرہ پربھی بحث کی ہے جو اپنے آپ میں اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی ۔

متن کا جائزہ لینے کے بعدعابد پشاوری اپنے احساسات کا اظہار ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’ترتیب متن کا کام جس بصیرت کا تقاضا کرتا ہے اس کے لیے نہ صرف متون قدیم کے مسلسل مطالعے اور مشق ومہارت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے ایک خاص رجحان یا میلان طبع کے لیے خاص تربیت بھی ضروری ہے جس کے بغیر ترتیب متن کا کام ناممکن ہے ۔مرتب نے غالباً اس طرح کی کوئی تربیت حاصل نہیں کی ہے اور نہ ہی اسے اس کام کا تجربہ ہے ۔‘‘(۲۴)

درج بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متن میں کس درجے کی تسامحات درآئی ہوں گی جن کی نشان دہی عابد پشاوری نے کی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرتب ترتیب متن کے معمولی اصولوں سے بھی ناآشنا تھے۔

’’متن ‘‘کے حصے کے بعد کتاب ’’نقطے اور شوشے ‘‘میں ’’مقدمہ‘‘کا حصہ ہے جس میں مرتب کے ترتیب کردہ کتاب ’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے اور مقدمے میں درآئیں غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ مزید عابد پشاوری نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ :

’’کسی نسخے کے مرتب کا پہلا فرض ہے کہ وہ مخطوطے کے بعدپورا تعارف پیش کرے تا کہ قارئین اس کی اہمیت سمجھ سکیں۔‘‘(۲۵)

لیکن عابد پشاوری کے مطابق مرتب اس چیز سے قاصر ہی نظر آتے ہیں اور مرتب نے محض مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے جس کا انداز ہ مقدمے کے مطالعے سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔مرتب عبدالحق ،اپنی ترتیب کردہ کتاب’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘کا مقدمے لکھنے میں اتنا الجھ گئے ہیں کہ جیسے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں خبر ہی نہیں کہ کب کیاکہنا ہے ۔کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتے نظر آتے ہیں اور اپنے ہی پیش کیے گئے بیانات میں اتنا الجھ گئے ہیں کہ قاری کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے ۔جہاں مرتب ایک طرف اپنی تالیف کردہ کتاب کو شمالی ہند کا پہلا دیوان قرار دینے کی شعوری کوشش کرتے نظرآتے ہیں تو دوسری طرف یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ جو متن وہ ]مرتب [پیش کررہے ہیں وہ حاتم کا قدیم دیوان نہیں ہے ۔ملاحظہ ہو یہ بیان:

’’میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ جو متن پیش کیا جارہا ہے وہ حاتم کا قدیم دیوان نہیں جو 1142ھ میں مرتب ہوا تھا نہ اس کا تمام وکمال حصہ ہے جسے میں بڑی شدومد سے شمالی ہند کا پہلا اردودیوان کہہ رہا ہوں۔ میں قارئین کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘(۲۶)

درج بالا بیان اپنے آپ میں ایک مضحکہ خیز بیان ہے اور عابد پشاوری اس بیان کو رد کرتے ہوئے یہ ظاہرکرتے ہیں کہ دراصل ان]مرتب[ کی نیت قارئین کو گمراہ کرنے کی ہی تھی  اور ایسے بیانات دینا سراسر ادبی بددیانتی ہے جس کا مکمل احاطہ عابد پشاوری نے کیاہے اور مع دلائل انکے بیانات کو رد بھی کیا ہے۔

’’مقدمہ ‘‘کے سلسلے میں عابد پشاوری نے ڈاکٹر عبد الحق کی غلط بیانی کو رد کیا ہے  اور مرتب کی ترتیب کردہ کتاب سے حوالے بھی پیش کیے ہیں              کتاب کا نام مرتب نے’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘رکھا ہے جب کہ عبدالحق کے اپنے ہی ایک بیان کے مطابق کتاب میں شامل متن اس قدیم دیوان کا متن ہے جو1142ھ میں مرتب ہوا تھا بلکہ یہ متن ایک ایسی کتاب سے لیا گیا ہے جس میں چار شاعرو ںکا انتخاب ہے۔ملاحظہ ہو مرتب کا بیان:

’’یہ نسخہ دراصل ایک مجموعہ انتخاب کی حیثیت رکھتا ہے جس میں ولی،حاتم،آبرواور قطبی کے کلام کا انتخاب شامل ہے ۔‘‘(۲۷)

تو گویا یہ بات ثابت ہے کہ مرتب کے ترتیب کردہ دیوان کو حاتم کا دیوان کہنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے ۔ جب کہ مرتب نے دعویٰ اس کے بر عکس کیا ہے اور عابد پشاوری نے مرتب کو ازسرنو جائزہ لینے کا مشورہ دیا ہے۔

ترتیب متن کے لیے جو نسخے مرتب کے پاس موجود تھے ان پر بھی عابد پشاوری نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے عابد پشاوری کے مطابق مرتب نے جن نسخوں کا ذکر کیا ہے وہ محض اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ان کا ذکر کیا ہے ، مرتب نے کسی نسخے کو اہم اورکسی کو غیر اہم قرار دیا ہے اور یوں سراسرغلط بیانی کا ارتکاب کیاہے۔

مرتب نے مقدمے میں اس بات کا دعویٰ بھی کیا ہے کہ:

’’میں نے قدیم زبان(اصلاً)کی اصل صورت برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے تا کہ اس عہد کی اردو کا نقش ابھر سکے اس لیے متن کی قدیم املائی اور صوتی صورتوں کو برقرار رکھنے کاخاص اہتمام کیا گیاہے۔‘‘(۲۸)

لیکن اس کے بر عکس عابد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مرتب نے اس سلسلے میں محض سہل انگاری سے کام لیا ہے ۔مرتب کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ شاہ حاتم کی زبان وبیان کی خصوصیات کا ذکر کرتا لیکن مرتب نے محض سہل انگاری سے کام لیا ہے اور عابد پشاوری نے خود شاہ حاتم کی زبان وبیان کی خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور بڑی باریک بینی سے اس حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔ملاحظہ ہوں چند مثالیں:

(1)’’   ہائے ہوزکا ہمزہ سے بدل یا حذف

چھپا نہیں  جابجا حاضر پیارا

کہا ں ہے گا سکندر کہاں ہے دارا          ‘‘(۲۹)

 (2)’’  ہائے ہوز کا ادغام یا وصل:    جو خاک ہونے سیتی آگے ہووئے خاک   ع   سرنوشت ہے میری کتاب کی طرح‘‘(۳۰)

’’(3)   اضافت کا بے ضرورت اور غلط استعمال :

ضرورت شعری سے مجبورہوکر کبھی کبھی شاہ حاتم اضافت کا غلط استعمال بھی روا رکھتے ہیں ۔مثلاً:ع    مھدی راہ نماں کوں عشق ہے‘‘۔(۳۱)

درج بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کس طور سے عابد پشاوری نے مثالیں دے کر حاتم کی زبان و بیان کا ذکرکیاہے اور  انکی زبان و بیان کی خصوصیات واضح کی ہیں۔

مقدمہ کے بعدحواشی۔اوراختلاف نسخ پر بھی عابدپشاوری نے خامہ فرسائی کی ہے۔عابد حواشی کے سلسلے میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ  ’’انتخاب حاتم۔ دیوان قدیم‘‘ کتاب میں افراتفری کا ماحول ہے۔  اسکے حواشی میں عابد کو بد سلیقگی اوربے قاعدگی کے سوا اوکچھ نظر ہی نہیں آتاہے ۔ عابد پشاوری نے یہ واضح کیا ہے کہ حواشی میں کس قدر مرتب سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ۔مثالیں ملاحظہ ہوں:

’’حاشیہ:234،’’یہ غزل نسخۂ لاہور کے مطابق 1140ھ اورنسخۂ رام کے مطابق 1130ھ کی تخلیق ہے‘‘یہ غزل 1130ھ کی ہو یا 1140ھ کی۔اسے متن میں درج کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔لیکن جہاں سنہ تخلیق ترتیب دیوان قدیم سے بعد کا ہے وہاں مرتب کو تامل سے کام لینا تھامثلاًص:۳۵۲پر درج غزل میں لکھا ہے:’’یہ غزل نسخہ لاہور کے مطابق 1140ھ کی ہے اور نسخہ رام پور کے مطابق 1145ھ میں لکھی گئی ہے‘‘جب 1145ھ میں لکھی گئی تو اسے شامل متن کرنا مناسب نہیں تھا۔‘‘(۳۲)

’’حاشیہ239:’’یہ غزل زمین طرح میں ہے ۔نسخہ لاہور میں 1141ھ درج ہے جب کہ نسخہ رام پور میں 1147ھ لکھا ہے۔‘‘حاتم کا دیوان قدیم 1142ھ میں مرتب ہوا ۔اس غزل کا مقطع :

کئی دیوان کہہ چکا حاتم

اب تلک پر زباں نہیں ہے درست

جب پہلا دیوان 1142ھ میں مرتب ہوا تو 1141ھ تک کئی تو کیا ایک دیوان بھی مرتب ہونا ممکن نہیں ۔ پھرمرتب نے کیا سوچ کر شامل متن کیاہے۔‘‘(۳۳)

درج بالا مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرتب کے پیش کیے گئے حواشی میں کس قدر خامیاں راہ پاگئی ہیں اور کس انداز سے عابد پشاوری نے حواشی کے سلسلے میں سوالات کھڑے کیے ہیں جن پر مرتب کو غور کرنے کی ضرورت تھی۔نیز مرتب نے حواشی کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے اور جب جیسے مرضی میں آیا ہے حواشی درج کرتے گئے ہیں جو کسی بھی محقق کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔

حواشی کے ہمرا ہ’’ ا ختلاف نسخ ‘‘کے سلسلے میں بھی عابد پشاوری نے بات کی ہے اور اختلاف نسخ درج کرنے کے مقصد سے بھی  آگاہ کیا ہے۔چنانچہ عابد پشاوری لکھتے ہیں ۔

’’اختلاف نسخ درج بھی اس لیے کیے جاتے ہیں تا کہ قاری بطور خود فیصلہ کرسکے جو قرأت متن میں درج ہے ، وہی صحیح ترین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اختلاف نسخ سے یہ پتہ نہ چل سکے کہ کون لفظ کس مقام سے متعلق ہے تو اختلاف نسخ درج کر نے کا مقصد ہی فو ت ہوجاتا ہے۔‘‘(۳۴)

اور عابد پشاوری مرتب کے پیش کردہ دیوان کا اختلاف نسخ کا جائزہ لینے کے بعداس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس میں اختلاف نسخ کی خصوصیات مفقود ہیں اور یوں اختلاف نسخ کی اغلاط کی نشان دہی عابد پشاوری نے بڑے ہی محققانہ،عالمانہ اور ناقدانہ انداز میں کی ہے۔ملاحظہ ہو ں اختلاف نسخ کے ضمن میں چند مثالیں:

’’متن۔ص:125         ع       مل ہر ایک رنگ بیچ آب کی طرح

حاشیہ:4          ’’دیوان زادہ :      مل تو ہراک رنگ بیچ آب کی طرح ‘‘

جب پورا مصرع ہی بدلا ہواہونشان مصرع کے آخر میں لگانا چاہیے نہ کہ بیچ میں بہر حال یہاں مرتب کو صراحت کرنی تھی کہ متبادل مصرع ناموزوں ہے۔‘‘(۳۵)

’’متن ۔ص:198         ع       تیز پھرتی نگہہ ترک کماں ابرو کی

حاشیہ:3 ’’دیوان زادہ ’’  تیر پھرتے ہیں‘‘ظاہر ہے کہ ’’تیر پھرتے ہیں‘‘مہمل ہے۔کیا یہ متن بعد کا اصلاح شدہ ہوسکتا ہے ؟اصل مصرع یوں ہونا چاہیے:

تیز پھرتی ہے نگہہ ترک کماں ابرو کی۔‘‘(۳۶)

گویا اس قبیل سے عابد پشاوری نے اختلاف نسخ کے اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔جو واقعی اپنے آپ میں اہم بھی ہے۔

کتاب’’نقطے اور شوشے‘‘کا آخری حصہ ’’زبان وبیان‘‘کے عنوان سے ہے جس میں مرتب کے لکھے مقدمے کا زبان وبیان کے حوالے سے تحقیقی وتنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور  عابد پشاوری نے سب سے قبل تحقیقی زبان کے حوالے سے بحث کی ہے اور اپنی رائے ظاہر کی ہے۔

’’اصولاً تحقیق میں ہر قسم کی انتہا پسندی سے بچنا چاہیے ۔اس کی زبان نہ اس قدر علمی ہو کہ عبارت چیستا ں ہوجائے اور نہ اس قدررنگین ومرصع ہوکہ تحقیق رنگینی میں تحلیل ہوجائے۔تحقیق صرف علم ہی نہیں ادب بھی ہے اورادب کی ہر صنف کی طرح اس کے بھی ادبی تقاضے ہیں ۔تحقیق کی زبان کا سلیس اور رواں دواں ہونا ضروری ہے۔‘‘(۳۷)

اور پھر عابد پشاوری نے ڈاکٹر عبدل الحق کے لکھے مقدمے کی زبان وبیان کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور عابد پشاوری نے اپنی بات کو حرف آغاز سے ہی شروع کیاہے۔ اور حرف آغاز کے تیرہ(13)جملوں کی  زبان وبیان کی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے اور ان کی تصحیح بھی کی ہے۔ملاحظہ ہو ایک مثال:

’’میرے لیے بے بضاعتی میں ان بکھرے ہوئے مواد تک رسائی ممکن نہ تھی۔‘‘

’’بے بضاعتی کے سبب‘‘کے لیے’’بے بضاعتی‘‘لکھنا مشکوک ہے۔’’ان ‘‘کی جگہ’’اس‘‘ہونا چاہیے۔مواد واحد ہے خواہ کتنا ہی بکھرا ہوا ہو۔‘‘(۳۸)

حرف آغاز کے بعد ’’مقد مہ انتخاب حاتم دیوان قدیم ‘‘کی زبان وبیان کا جائزہ لیا ہے۔جہاں عابد پشاوری نے 260جملوں پر بحث  کی ہے اور اغلاط کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ حسب لیاقت تصحیح بھی کی ہے۔ملاحظہ ہوں چند مثالیں:

’’ص:10        ’’شاہ حاتم سماجی شعور کا بہت گہرا احساس رکھتے تھے۔‘‘

’’شعور‘‘رکھتے تھے یا ’’احساس‘‘غالباً کچھ نہیں۔

’’ان کی دل نواز شخصیت بہت سادہ ،پرخلوص اور پہلو دار ہے اور فکروعمل کی ہم آہنگی نے اسلوب زندگی میں بڑی دل کشی پیداکردی ہے۔‘‘

اگر شخصیت سادہ ہے تو پہلو دار نہیں ہوسکتی ۔دوسرا جملہ بے ربط ہے،ہم آہنگی نے کس کے اسلوب  زندگی میں دل کشی پیدا کردی تھی ؟علاوہ ازیں زندگی میں دل کشی پیدا کی یا اسلوب میں ؟(۳۹)

’’لیکن ایسا نہیں کہ ان طرحی زمینوں میں حاتم کاانفرادی رنگ وآہنگ دوسرے فن کا رو ںکی سایہ نشینی سے معدوم ہوگیا ہو۔‘‘

مہمل جملہ ہے۔پہلے کہہ چکے ہیں کہ ’’انفرادی اسلوب پر توجہ نہ دی۔‘‘

’’انفرادیت قائم نہ رکھ سکے ‘‘اور اب اس کے برعکس بیان دے رہے ہیں ۔دونوں میں کون سا بیان صحیح ہے۔ ‘‘(۴۰)

ص:86 ’’حاتم کا کلام درحقیقت اپنے عہد و احسا س کا ایک نگارخانہ ہے۔‘‘

اپنے عہد کا ،اپنے عہد کے احساسات کا یا اپنے احساسات کایہ ’’اپنے عہد واحساس کا نگار خانہ کیا ہوا ؟‘‘(۴۱)

القصہ مقدمے کی زبان وبیان کے سلسلے میں عابد پشاوری نے تسامحات کی ایک طویل فہرست در ج کی ہے اور قاری کے سامنے سوالات کھڑے کیے ہیں کہ کیا کوئی تصنیف ایسی بھی ہوسکتی ہے جس میں اس قدر غلطیاںدرآئی ہوں ۔اپنے احساسات کا اظہار عابد ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔

’’اس میں بہت سی خامیاں راہ پاگئی ہیں بلکہ اسے خامیو ںکا جنگل کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔‘‘(۴۲)

 عابد پشاوری نے اپنی بات کو ان ہی  احساسات کے ساتھ ختم کیا ہے کہ ڈاکٹر عبد الحق نے جہاں اپنا یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے اردوادب کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ کیا ہے کہ مرتب کا ترتیب کردہ دیوان اب شمالی ہند کا پہلا دیوان کہلائے گا اور یوں ایک نیا کارنامہ انجام دیا۔لیکن عابد کے مطابق یہ محض غلط بیانیوں پر مبنی ہے بلکہ عابد کے مطابق ڈاکٹر عبد الحق نے اغلاط کی ایک رپورٹ شائع کی ہے اور یوں عابد نے ڈاکٹر عبد الحق کو کچھ نصیحت بھی کی ہے۔جسے کتاب’’نقطے اور شوشے‘‘میں درج نہیں کیا گیا ہے البتہ’’نسخہ ٔ خوش خط وبسیار غلط‘‘کے آخر میں درج  ہے مالاحظہ ہواقتباس :

’’آئندہ اپنے فعل مستحسن سے توبہ کرو اور کان پکڑو اسے دیکھ کر۔اگر یہ نہ سیکھ سکو کہ کام کس طرح کرنا چاہیے تو کم ازکم اتنا تو سیکھ ہی لو کہ کام کس طرح نہیں کرنا چاہیے۔‘‘     (۴۳)(نواب ادب، ممبئی)

اور یوں واقعی کتاب’’نقطے اور شوشے‘‘کے مطالعے کے بعد قاری کویہ احساس بھی ہوتا ہے کہ عابد پشاوری نے جس انداز سے ڈاکٹر عبدل الحق کی مرتب کردہ کتاب  ’’انتخاب حاتم  دیوان قدیم‘‘ پر تبصرہ کیا ہے کہ اگر عابد چاہتے تو ’’انتخاب حاتم  ۔دیوان قدیم  ‘‘سے اچھا نسخہ قارئین کے سامنے آسکتا  تھا۔‘‘

اور عابد پشاوری کی آرزو بھی یہ تھی کہ کتاب’’ نقطے یا شوشے ‘‘کے منظرعام پر آجانے کے بعدمرتب کو چاہیے کہ وہ اپنے ’’انتخاب حاتم ۔دیوان قدیم‘‘پر نظر ثانی کرکے دوبارہ شائع کرے اور ان ہی خطوط پر شائع کرے جن کی رہ نمائی عابد پشاوری نے کی تھی۔اور عابد پشاوری کی اس تجویز پر عمل بھی ہوا ہے اور مرتب نے مذکورہ تالیف کو نظر ثانی کے بعد اردو اکاڈمی کی وساطت سے دوبارہ شائع  بھی کروایا ہے۔

ڈاکٹر عبدل الحق نے پہلے 1977میں ’’انتخاب حاتم دیوان قدیم‘‘مرتب کرکے ایک نئی دریافت کا دعویٰ کیا تھا ۔لیکن ۱۹۹۸۔۱۹۷۸ میں جب عابد پشاوری نے ’’نسخۂ خوش خط و بسیار غلط‘‘کے عنوان سے مذکورہ کتاب پر اپنا تحقیقی وتنقیدی تبصرہ قسط وار ’’نوائے ادب،ممبئی‘‘میں شائع کروالیااور 1980میںاس تبصرے کو کتابی صورت دی گئی تو ٹھیک 11سال بعد 1991میں اردو اکادمی ،دہلی سے عبد الحق نے ’’انتخاب حاتم ۔دیوان قدیم ‘‘کتاب پھر سے شائع کی ہے اور اس بارکتاب میں  کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں اور یوں عابد پشاوری کی ایما پر عبد الحق نے ایک عملی نمونہ پیش کیا ہے اور ان سارے تسامحات کا ازالہ کرنے کی ایک شعوری کوشش کی ہے جو پہلے ایڈیشن میں درآئیں تھیں اورٹھیک ٹھیک ان ہی خطوط پر مذکورہ ایڈیشن کو ترتیب دیا گیاہے جن کی نشان دہی عابد پشاوری نے کی تھی ۔ملاحظہ ہو چند مثالیں متن کے حوالے سے۔

انتخاب حاتم ۔دیوان قدیم۔ص:118۔میں شعر اس طرح درج ہے ۔

ص:118

ہستی نظر پڑا ہے مجھے گل عذار آج

دل کے چمن کے پھر کے ہوتی ہے بہار آج

      تبصرہ عابد :  ص:118’’ہستے‘‘بجائے ’’ہستی‘‘مصرع ثانی میں ’’چمن‘‘میں ہوتو بہتر ہے لیکن اگر مخطوطے میں چمن کے ہے تو کسی دوسرے نسخے کی عدم موجودگی میں اسے چمن پڑھنا چاہیے۔(۴۴)

انتخاب کلام حاتم ۔مرتبہ:ڈاکٹر عبد الحق 1991میں کچھ یوں  درج ہے:

ہنستے نظر پڑا ہے مجھے گل عذار آج                    (ص:35 ۔انتخاب حاتم۔اردو اکادمی،دہلی  ۱۹۹۱)

1977انتخاب حاتم دیوان قدیم

ص:117           دیکھ کر انکھیاں کو تیری اوٹھ گئے نرگس کے لاج

 تبصرہ  عابد:       اٹھ گئی نرگس کی لاج  بجائے  اوٹھ گئے نرگس کے لاج ۔(۴۵)

انتخاب کلام حاتم ۔1993

             ’’دیکھ کر انکھیاں کو تیری اوٹھ گئی نرگس کی لاج ‘‘(ص:52،1991 )

انتخاب حاتم ۔دیوان قدیم :1977

         ص:119 پر مصرع اس طرح درج ہے:

                   دریا ہمارے چشموں سے جاتاہے پور آج

تبصرہ عابد:        ہمار ی بہ جائے ’’ہمارے‘‘قافیہ ُپور ہے نہ کہ پور ،جیسا کہ فرہنگ میں لکھا ہے۔( ۴۶)

انتخاب کلام حاتم 1991

’’دریا ہماری چشموں  سے جاتاہے پُور آج ‘‘(ص:24،کلام حاتم 1991)

انتخاب حاتم دیوان قدیم۔ص:124

عشق نے چٹکی لیے ہے پھر کے میری جان کے بیچ

آگ سے یارولگی مجھ سینہ بریاں کے بیچ

تبصرہ عابد :           چٹکی لیے ہے مہمل ہے ۔دوسرا مصرع متقاضی ہے کہ یہاں ’’چٹکی سی لی ہے‘‘ہو۔دیوان زادہ کے کسی نسخے میں ’’سی لی ہے‘‘موجودہے اس کو ترجیح دینا تھی۔‘‘(۴۷)

انتخاب کلام حاتم۔1991

عشق نے چٹکی سی لی ہے پھر کے میری جان کے بیچ (ص:60)

انتخاب حاتم۔دیوان قدیم۔1977۔ص:129

کیا ہے عشق کے پسو نے بن سرخ

تبصرہ عابد:        ’’پسو‘‘کوئی لغت نہیں ہے ۔تفصیل فرہنگ کے ذیل میں گزرچکی ہے۔یہاں’’ ٹیسو‘‘کو ترجیح دینا تھی۔(۴۸)

انتخاب کلام حاتم۔1991

کیا ہے عشق کے ٹیسونے بن سرخ(ص:64)

ایک اور مثال ملاحظہ ہو:

عابد پشاوری لکھتے ہیں کہ :’’ص:252پر درج غزل کی ردیف ’’محفوظ‘‘درج ہے جو کہ غلط معلوم ہوتی ہے اسے’’محظوظ‘‘ہونا چاہیے۔مطلعے سے کچھ دھوکہ ضرور ہوتا ہے لیکن دوسرے اشعار کے ساتھ ملاکر پڑھنے سے بات واضح ہوجاتی ہے۔ملاحظہ ہو:

جہاں میں تم کو ہمیشہ خدا رکھے محفوظ

ہے آشناکی خوشی جو ہو آشنا محفوظ

میں کہہ رہا ہوں تو مت مل بتاں سے کیا حاصل

ملے سے ان کے اب اے دل ہوا تو کچھ محفوظ

(۴۹)

انتخاب کلام حاتم۔1991

جہاں میں تم کوں ہمیشہ رکھے خدا محظوظ

کہ ہے آشنا کی خوشی جو ہو آشنا محظوظ

(ص:79)

  درج بالا مثالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ عابد پشاوری کے پیش کیے گئے’’نقطے اور شوشے‘‘میں مشوروں کو مرتب نے جوں کا توں قبول کیا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جہاں 1977میں مرتب نے ادبی  بددیانتی کی تھی اورآنے والی نسلوں کو گمراہی کے دلدل کی طرف دھکیلنے کی شعوری کوشش کی تھی وہی 1991میں بھی مرتب نے ایسی ہی بد دیانتی کا ارتکاب کیا ہے۔ مرتب نے عابد پشاوری کے دیے گئے مشوروں سے متن کی تصحیح تو کی ہے لیکن 1991کے شائع شدہ نسخہ میںعابد کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا ہے  جو سراسر ناانصافی اور جعل سازی کی واضح دلیل ہے۔حالاں کہ مرتب  عابد کے دیے گئے مشورے پر اپنی پیش کردہ کتاب کا نام تک بدل دیتے ہیں ۔’’انتخاب حاتم ۔دیوان قدیم‘‘سے ’’انتخاب کلام حاتم‘‘رکھ دیتے ہیں اس کے باوجود بھی نہ اپنے مقدمے میں ہی نہ اپنے  پیش لفظ میں ہی عابد پشاوری کا کسی طور پر ذکر وشکر کرتے ہیں ۔ تو ایسے میں  اسے کھلے لفظوں میں ادبی بددیانتی کہا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں ۔

پروفیسر وہاب اشرفی نے کتاب’’نقطے اور شوشے‘‘کے تعلق سے اپنی رائے کا  اظہارکیا ہے اور انھوں نے زیر بحث کتاب کا مطالعہ کیے بغیر ہی اپنا تبصرہ پیش کیا ہے ۔ چناچہ وہ لکھتے ہیں ۔

’’نقطے اور شوشے‘‘ان کے مضامین کا گراں قدر مجموعہ ہے جن میں تحقیقی مضامین ان کی فراست اور ادبی سوجھ بوجھ کا پتا دیتے ہیں۔(۵۰)

ڈاکٹر ٹی آر  رینا  نے بھی کچھ اسی قسم کا گمراہ کن تبصرہ کتاب ’’نقطے اور شوشے‘‘کے تعلق سے پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ:

’’اسی سال اپ کی ایک  چھوٹی سی کتاب نقطے اور شوشے منظر عام پر آئی ۔یہ املا سے متعلق ہے ۔اس مین بتایا گیا ہے کہ کسی لفظ کا ایک نقطہ اپنی جگہ سے زرا ادھر یا اُدھر ہو جایے یا شوشے کی کمی بیشی ہو جائے تو لفظ کا تلفظ بدل جائے گا۔اور تلفظ کے بدلتے ہی اسکے معنی بھی بدل جائیں گے۔  ‘‘(۵۱)                                                                                                                                  القصہ یہ ہے کہ ’’نقطے اور شوشے‘‘کتاب ایک ہی طویل مضمون ہے جسے عابد پشاوری نے عبد الحق کی مرتب کردہ کتاب ’’انتخاب حاتم۔دیوان قدیم‘‘پر لکھا گیا ایک تحقیقی و تنقیدی ،مفصل ومدلل تبصرہ ہے اور یوں بجاطور پر تحقیق وتنقیدکا ایک اہم نمونہ پیش کیا ہے جسے اردو ادب میں ایک اہم اضافے کی حیثیت حاصل ہے۔جس کا ہر باب معلومات کا ذخیرہ معلوم ہوتا ہے جس کے مطالعے سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ تحقیقی وتنقیدی تربیت بھی ہوتی ہے اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاید ہی اردو ادب میں کسی کتاب پر اس قسم کا تبصرہ قلم بند ہوا ہوگا اور یوں  ہم نظام الدین گوریکر کی اس رائے پر اپنی بات کو ختم کر تے ہیں :

’’نقطے اور شوشے اردو ادب کے سرمائے میں بالخصوص اوردنیائے ادب میں بالعموم نہ صرف ایک گراں مایہ اضافہ ہے  بلکہ ایک تحقیق کے طالب علم کے لئے مشعل راہ سے کم نہیںہے  ‘‘۔(۵۲)

حواشی۔۔۔

۱۔    جین،ڈاکٹر گیان چند۔تحقیق کا فن۔اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھئنو،۱۹۹۰۔صَ۳

۲۔رام ،مالک۔اردو میں تحقیق،مشمولہ،رہبر تحقیق،لکھنئو۔۱۹۷۶۔ص ۵۵

۳۔ جین،ڈاکٹر گیان چند۔تحقیق کا فن۔اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھئنو،۱۹۹۰۔صَ۳

۴۔ جین،ڈاکٹر گیان چند۔اردو تحقیق پر ایک نظر،مشمولہ،حقائق۔ص  ۱۹۸

۵۔رینا ،ٹی ۔آر۔پروفیسر عابد پشاوری شخصیت اور فن،قاسمی کتب خانہ تالاب کھٹیکاں ،جموں۔۲۰۱۴۔ص ۔ ۱۵

۶۔نقوی ِ،حنیف تحقیق و تعارف۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی۔۲۰۱۳ص۔۲۷۳

۷۔پشاوری ،عابد۔انشااللہ خان انشا،اترپردیش اردو اکیڈمی ،لکھنو،۱۹۸۵۔ص۔۷

۸۔رینا ،ٹی ۔آر۔پروفیسر عابد پشاوری شخصیت اور فن،قاسمی کتب خانہ تالاب کھٹیکاں ،جموں۔۲۰۱۴۔ص ۔ ۱۶

۹۔ جین،ڈاکٹر گیان چند،کھوج،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس ،دہلی۔۱۹۹۰۔ص۔۲۰۷

۱۰۔سوز،نریندر ناتھ۔مشمولہ ذوق اور محمد حسین آزاد۔ادارہ فکر جدید دہلی۔۱۹۸۷،فلیپ۔

۱۱۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔ج۔

۱۲۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔د۔

۱۳ ۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۲

۱۴۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۱۰

۱۵۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۴

۱۶۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۵

۱۷۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۱۱

۱۸۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۱۳

۱۹۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۱۱

۲۰۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۱۷

۲۱۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۲۱

۲۲۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۳۷

۲۳۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۴۰

۲۴۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۴۲

۲۵۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۴۳

۲۶۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۴۳

۲۷۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۵۷

۲۸۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۵۷

۲۹۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۶۱

۳۰۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۶۱

۳۱۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص۔۶۱

۳۲۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۷۴

۳۳۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۷۴

۳۴۔  پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۷۶

۳۵۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۷۹

۳۶۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۸۵

۳۷۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۹۰

۳۸۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۹۳

۳۹۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۹۴

۴۰۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۹۶

۴۱۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۱۴۲

۴۲۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۲

۴۳۔کوریگر،نظام الدین۔نوائے ادب ممبئی(ششماہی)،جلد۲۹۔شمارہ۔۱،اپریل۔۱۹۷۹۔۵۴

۴۴۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ،۳۹

۴۵۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۳۹

۴۶۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۳۹

۴۷۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۳۹

۴۸۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۳۸

۴۹۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۱۳

۵۰۔اشرفی ،پروفیسر وہاب۔تاریخ ادب اردو ابتداء سے ۲۰۰۰ تک،جلد دوم۔ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس ،دہلی۔ص۔۱۱۰۷

۵۱۔۔رینا ،ٹی ۔آر۔پروفیسر عابد پشاوری شخصیت اور فن،قاسمی کتب خانہ تالاب کھٹیکاں ،جموں۔۲۰۱۴۔ص ۔۹۹

۵۲۔پشاوری ،ڈاکٹر عابد،نقطے اور شوشے،انجمن اسلام  اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ممبئی۔۱۹۸۰۔ص  ۔۷

***

Leave a Reply