محمد شفاء اللہ صدیقی ندوی
سب ایڈیٹر روزنامہ روشنی ،سری نگر
صدر شعبہ اردو ،عربی و مطالعہ اسلامیات ،گرین ویلی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ، سری نگر
عصر حاضر میں فکر اقبال کا ترجمان شاعر ڈاکٹر ماجد دیوبندی
ڈاکٹر ماجد دیوبندی اردو شعروادب ایک سرمایہ فخر ہستی اور اردوغزل و نظم کے وہ خوش نصیب اور سفید بخت صاحب اسلوب شاعر ہیں جو بہت کم عمری میں میدان مشاعرہ میں فاتحانہ داخل ہو کر اردو نواز تنظیموں کے دلوں کی دھڑکن اور سخن شناس لوگوں کے منظور نظر ہو گئے ۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ روز بروز منعقد ہونے والے مشاعروں و کوی سمیلنوں میں عوام و خواص کی آنکھوں کا انتظار،،ان کی سماعتوں کی مانوس آواز،ان کے خیالات کے عکاس ، ان کے محسوسات کی زبان اور ان کی فکروں کے ترجمان بن گئے ۔کچھ ہی سالوں میں ان کی سعادت مندی نے ہو اڑان بھری کہ اہل فکر و نظر نے انھیں سروں پر بٹھا لیا اور بڑی تیزی کے ساتھ بہ فضل خداوندی دیکھتے ہی دیکھتےاصحاب دعوت حق اور داعیان دین متین کو ان کی شاعری میں دینی تعلیمات کی تبلیغ اور اسلامی اقدار کی ترسیل نظر آنے لگی ۔پھر کیا تھا! اب وہ مذہبی رہنماؤں کے مصلحانہ جذبات کی عکاسی کرنے والے شاعر کی حیثیت سے حلقہ خواص امت میں مقبولیت کے زینے چڑھنے اور محبوبیت کے موتیاں چننے لگے۔
ڈاکٹر ماجد دیوبندی گول، خوبصورت اور پرکشش چہرے کے حامل اور دیدہ زیب شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سنجیدہ اور بہت متین طبیعت سے لیس اردو کے ممتاز شاعر و نثر نگار ہیں ۔ وہ آزاد ہندوستان کی دھرتی زرخیز اور دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ بستی سے پیدائشی تعلق کے باعث سر زمین دیوبند کی سرمایہ فخر شخصیت ہی نہیں بلکہ 21/ویں صدی میں فکر اقبال کی پرزور نمائندگی کے باعث پورے بر صغیر ی اردو ادب کی نمایاں شعری دیوقامت ہستی ہیں ۔
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
میرے اشعار میرے ہونے کی گواہی دیں گے
ڈاکٹر صاحب سرزمین دیوبند کے ایک علمی گھرانے میں 7/جولائی 1964 میں پیدا ہوئے۔زمانے کی مروجہ دینی و عصری تعلیم کے آداب اور اس کی اخلاقیات کے مطابق دینی اور علمی ماحول میں پرورش و پرداخت پائی۔دسویں کا امتحان 1979میں امتیازی نشانات کے ساتھ پاس کیا۔بارہویں کے امتحان میں بھی وہ 1981میں اپنے تمام ہم جماعت ساتھیوں میں نمایاں رہے۔بیچلر آف آرٹس یعنی فن و ادب میں گریجویشن کی تکمیل 1983میں کی اور فوراً بعد اردو زبان و ادب پر ماہرانہ قدرت کے حصول کی سند بہ شکل ایم ۔اے اردو 1987میں عمده اور امتیازی نمبرات کے ساتھ حاصل کی۔
اردو ادب کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ڈاکٹر ماجد دیوبندی صاحب جیسا محقق ملا۔جس نے خواجہ حسن نظامی کی علمی ،ادبی اور متصوفانہ شخصیت سے اہل علم و فن کو واقف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو تحقیق کی درست رہ نمائی کی۔ آپ کی یہ تحقیقی کاوش فسلفے میں آپ کی پی ایچ ڈیانہ مہارت کی سند کی اساس و بنیاد ہے۔آپ نے اردو زبان و ادب میں ڈاکٹریٹ کی سند سے سرفرازی 2005میں حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے لیے یہ شرف سرمایہ فخر اور زر اصل سے کم نہیں کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے لکھا گیا ان کا مقالہ “خواجہ حسن نظامی:ایک تحقیقی مطالعہ” ہندوستان کی بیسیوں یونیورسٹی میں داخل نصا ب ہے۔اس سے بھی بڑی خوش قسمتی اور اردو ادب کے حوالے سے ان کی بلند قامتی یہ ہے کہ ان پر متعدد تحقیقی مقالے ہندوستان و پاکستان کی یونیورسٹیوں میں لکھے گیے اور بنا بریں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں ان کے ادبی کارناموں کو گنوانے والوں کو عطا کی گئیں۔چنانچہ لاہور یونیورسٹی پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کی انفرادیت اور ان کی ادبی نمائندگی پر تحقیقی فرائض کی انجام دہی کے عوض ایک محقق کو 2015میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہو چکی ہے۔دیگر کئی یونیورسٹیوں میں ان پر تحقیقی کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔
خوبصورت لوگ جب خوبصورت آواز میں خوبصورت بات کہتے ہیں تو اس کی تاثیر نفسیاتی طور پر کچھ اور ہی کیفیت و تاثیر اپنے جلو میں اپنے مخاطبین ، سامعین اور ناظر ین کے لیے رکھتی ہیں ۔ ایسا ہی کچھ ڈاکٹر ماجد دیوبندی صاحب کی شاعری اور اس کی منفردانہ کا بھی ہوا کہ خوبصورت شاعری خوبصورت آواز میں خوبصورت شاعر نے کی تو تمام اہل ادب اردو بلا تفریق دبستان ہائے ادب ان کے خیالات و احساسات کی ہمنوائی و حوصلہ افزائی پر مجبور ہوگئے۔
ڈاکٹر صاحب کی انفرادیت دنیائے شعر و ادب میں ان کی وہ مخصوص شعری و ادبی شناخت اور بیدار کن انداز تخاطب ہے جو ان کے ہشت پہلوئی علمی ،ادبی صحافتی ،سماجی اور رفاہی شخصیت کے باعث قائم ہوئی ہے۔ان کی تحریریں ،ان کے اشعار ،ان کی تقریریں اور ان کے مقالات ؛سب کے سب ان کی شخصیت کے غماز اور ان کی ہستی کے عکاس ہیں ۔وہ جتنے اچھے اور سچے شاعر ہیں اتنے ہی پکے اور منجھے ہوئے نثر نگار ہیں۔چنانچہ ان کی شعری خصوصیات اگر “لہو لہو آنکھیں”،”شاخ دل”،” جگنو بولتا ہے”،”وہ میرا نبی ہے”اور” ذکر رسول” میں بولتی دکھائی دیتی ہیں تو ان کی نثری صلاحیتوں کے جواہر اور ان کے قلم کی علمی اور فیصلہ کن طاقت تحقیقی تناظر میں “خواجہ حسن نظامی: ایک تحقیق مطالعہ”-یہ کتاب ہندوستان کی بیسیوں یونیورسٹی میں داخل نصا ب ہے-میں نظر آتی ہے جبکہ ادب لطیف کی چاشنی “میری تحریریں” اور “میری کاوشیں” میں سطر سطر میں خوب میں دکھائی دیتی ہے۔یوں تو ماجد صاحب کی شعری و نثری جملہ نگارشات، قابل مطالعہ ہیں تاہم ذیل میں” وہ میرا نبی ہے” کہ تناظر میں ان کی شعری شخصیت پر گفتگو کی جاتی ہے۔
شاعر اور غم شناس ہوتا ہے۔اس کی شاعری میں حسن خوبصورتی کی اپج،اس کے اثرات و ثمرات پر مبنی احساسات و تمناؤں کی جلوہ گری کے ساتھ ساتھ رنج و غم کی ہلچل بھی پائی جاتی ہے۔ڈاکٹر صاحب بھی حسن پسند، بیدار مغز، درد شناش اور جہاں دیدہ شاعر ہیں۔ چنانچہ ان کی شاعری میں حسن و عشق کی باتیں بھی ہیں اورحکمت و دانائی کے مضامین بھی، اسلامی تلمیحات و تاریخی اشارے بھی ان کی شاعری میں جا بجا ملتے ہیں تو سیرت و سوانح کے انمٹ نقوش کی گلکاریاں بھی ان کے مصرعوں میں خوب دکھائی دیتی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے ایک مشہور گیت کے ایک بند میں اپنے خیالا ت کی ترجمانی کچھ اس طرح کرتے ہیں :
جو تیراساتھ مل جائے دکھا دوں میں زمانے کو
مکمل کر کے اپنے عشق کے سارے فسانے کو
کتاب زیست کا اپنی تجھے عنواں بناؤں گا
تجھے تجھ سے چرالوں گا تجھے تجھ سے چرا لوں گا
وہ محبت کے قائل ہیں مگر وہ اس کا دائرہ خود متعین کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں:
میں تیری محبت میں گرفتار ہوں لیکن
تجھ کو میں خدا سمجھوں یہ امکان نہیں ہے
حوصلہ مندی ان کے یہاں نمایاں ہے ۔جب کہ تلمیحات سے وہ خوب کام لیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں :
ہم نے تو سمندر میں بھی رستے ہیں بنائے
یوں ہم کو مٹانا کوئی اسان نہیں ہے
تاریخی حقائق کو وہ علم اور شعار کے طور پر پیش کرنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مطہر اور آپ ؐ کے فیوض وبرکات کی جلوہ سامانی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
جس کے فیض سے ساری کائنات روشن ہے
کام کر رہا ہے وہ بکریاں چرانے کا
ارد و کی جملہ اصناف شعر و سخن پر انھیں فاتحانہ تسخیر حاصل ہے ۔وہ “ادب برائے زندگی “کے نظریے کے حامل ہیں اور”ادب اسلامی” کی حسین آمیزش ان کی شاعری میں نظر آتی ہے ۔”حمد” ،”نعت” ،”منقبت” ، “مناجات” ،”دعا’، “قطعہ”،”نظم” اور” غزل” ؛ سبھی اصناف سخن میں فن کاری،معنی آفرینی ،جدت طرازی اور مضمون کشی کے حوالے سے انھیں ید طولی حاصل ہے۔اردو شاعری میں ان یہ مہارت ان کی جہد مسلسل ،عمل پیہم،متواتر کوشش،لگاتار مشق و تمرین اور ان کی انتھک لگن کا ثمرہ ہے۔وہ اپنے ایک ایک شعر کو فنی اور فکری دونوں لحاظ سے کئی کئی بار پرکھتے پھر نذر سامعین و قارئین کر تے ہیں۔
حمد اردو شاعری کی مقبول و مبارک صنف ہے۔اس”حمد ” میں ان کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کی سبھی حمدیہ نظمیں پروقار الفاظ اور اچھوتی تعبیرات کے ساتھ موحدانہ خیالات و احساسات کی ترجمان ہو تی ہیں۔خدا تعالی کی وحدانیت و صمدانیت کا بڑی خو صورتی سے وہ احاطہ کرتے اور اس کی معبودیت،الوہیت،ربوبیت اور قادر مطلقیت کو بڑی چابک دستی اور نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔حمد کی روایتی اور منفردانہ دونوں خصوصیات کے حامل ان کے چند حمدیہ اشعار دیکھیے:(١)
وہ قادر مطلق ہے وہ خلاق جہاں بھی
پوشیدہ ہے نظروں سے ہر اک سے عیاں بھی
کہتا ہے یہ قرآن خدا سب سے بڑا ہے
آقا کا ہے فرمان خدا سب سے بڑا ہے
کهسار میں ذرات میں اور دشت و شجر میں
سورج کی شعاؤں میں ستاروں میں قمر میں
ہے اس کا یہ فیضان خدا سب سے بڑا ہے
آقا کا ہے فرمان خدا سب سے بڑا ہے
وہ چاہے تو چڑیاں کریں کعبے کی حفاظت
وہ چاہے تو پامال ہو فرعون کی طاقت
ہر دم یہ رہے دھیان خدا سب سے بڑا ہے
آقا کا ہے فرمان خدا سب سے بڑا ہے
ہو اس کی عنایت تو سنور جائے مقدر
راضی رہو ہر حال میں ماجد تم اسی پر
کہتے رہو ہر آن خدا سب سے بڑا ہے
آقا کا ہے فرمان خدا سب سے بڑا ہے
نعت کے میدان میں وہ بہت ہوشیارانہ منفررنگ کے ساتھ اپنے ہم عصر شعرا میں اب تک سب کے سر خیل ہیں۔ڈاکٹر ماجد دیوبندی کو نعت کہنے کا خاص ہنر ہے ۔الفاظ و تعبیرات ،خیالات و احساسات، بندش و تراکیب ،پیرایہ بیان اور انداز پیش کش ؛سب کے سب ایک دوسرے کے قالب میں اس طرح حلول کر جاتے ہیں کہ ان کی فنکاری کا قائل اور ان کے پیش کردہ مضمون نعت سے بے پناہ متاثر ہونا پڑتا ہے۔ان کے بعض اشعار اہل ایمان کی دلی دھڑکن اور جملہ مداحان رسول کے ذہن کا حصہ بن چکے ہیں ۔اس قبیل کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمی رسالت کی عظمت اور اس کے ایک ایک روشن پہلو کو اجاگر کر نے کے بعد سیرت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مشعل زندگی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: (٢)
وہ جو آقائے ہر زمانہ ہے
ہم نے رہبر اسی کو مانا ہے
سیرت مصطفی پڑھے ماجد
خود کو انساں اگر بنانا ہے
عشق رسول پاک اور مدح نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے مختلف نمونے ذیل کے اشعار میں دیکھیے اور تعمیری و خالص اسلامی شاعری کا حظ اٹھائیے۔
ہونے لگتی ہے حسیں لفظوں کی بارش اس دم
مدح سرکار میں جاری جو قلم ہوتا ہے
روز و شب درود ان پر اس لیے میں پڑھتا ہوں
مدحت پیغمبر سے ذہن جگمگاتا ہے
یہ لہلہاتی ہوئی فصل دین احمد کی
کرم ہے ان کا صحابہ کی کاشتکاری ہے
دنیا سے پردہ کر گئے آقا اسی کے بعد
جب حکم آیا دین میں کوئی کمی نہیں
روکھی سوکھی مل گئی جیسی بھی کھالی آپ نے
کچھ شکایت کی نہ حضرت عائشہ کے سامنے
ہم جیسے عاصی ان کی توصیف کیا کریں گے
ان کا قصیدہ ہر دم قرآن پڑھ رہا ہے
ان کی محبوبیت دیکھیے رب نے کیا کیا عطا کر دیا
ہر اشارہ کرشمہ بنا ہر سخن معجزہ ہو گیا
ادب سے جھکائے ہوئے سر کھڑے ہیں
فرشتوں سے پوچھو وقار مدینہ
مقبول بارگاہ خدا بس وہی ہوئی
ہوتا ہے جس دعا میں وسیلہ رسول کا
سب دور جہالت میں یثرب جسے کہتے تھے
طیبہ وہی کہلایا سرکار کے آنے سے
منقبت اردو شاعری کی خالص عقیدتانہ و والہانہ صنف ہے۔ڈاکٹر صاحب کے یہاں ان کی منقبتانہ شعری تخلیقات کے تحت دنیائے انسانیت کی گوہر نایاب شخصیات اور مذہب اسلام کی انمول نمونہ جاتی ہستیاں منظوم ہوئ ہیں۔انھوں نے منقبت نگاری میں اپنی مخصوص شناخت قائم کرتے ہوئے عقیدت و محبت کے وہ پھول نچھاور کئے ہیں کہ اشعار پڑھتے جائیے اور گھنٹوں روحانی کیفیات کے ساتھ جھومتے رہیے۔ان کہ یہاں خلفائے راشدین اربعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ساتھ تمام اجلہ صحابہ اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عشق و محبت کا اظہار ملتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہ نبی کی دین کی امانت اور رسول پاک علیہ السلام کی چاہت قرار دیتے ہوئے تمام تر جرأت ایمانی کے ساتھ ان کے اوصاف و کمالات پر نہ صرف یہ کہ عقیدت افزا روشنی ڈالتے ہیں بلکہ اپنے احساسات و خیالات کو بے باکانہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں:(٣)
دین نبی کی ایک امانت ہیں یار غار
یعنی رسول پاک کی چاہت ہیں یار غار
جو یار غار کا نہیں اللہ کا نہیں
اللہ تک رسائی کی نسبت ہیں یار غار
شاید اے دوزخی تجھے معلوم ہی نہیں
جنت کے راستوں کی ضمانت ہیں یار غار
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند اور مسلمانوں کی فخر گراں مایہ شخصیت خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رہبری اور ان کی قائدانہ صلاحیت کو بہترین خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک جگہ کہتے ہیں۔
عمر جیسا کوئی رہبر عطا کر ہمیں پھر آزمایا جا رہا ہے
الہٰی بھیج دے شامل ہدایت اندھیرا ہے کہ چھایا جا رہا ہے
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت اور ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب ان کی مثالی حیا داری، نبی پاک علیہ السلام سے تشابہ داری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی نسبتی ونسبی رشتہ داری کو سمجھتے ہوئے نہایت اعلی درجے کی منقبت پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں :(٤)
حضور سے تھی مشابہ وہ ذات کیا کہنے!
غنی نے دین کو بخشی حیات کیا کہنے !
حیا کو دیکھ امام حسن (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا
جواب لا نہ سکی کائنات کیا کہنے !
فرشتے جن سے حیا کرتے تھے سبحان اللہ !
کہاں کسی میں ہے ایسی صفات کیا کہنے!
وہ پھوپھی زاد بہن کے تھے بیٹے آقا کی
ہے ذکر ان کا حصول نجات کیا کہنے !
خلیفہ رابع حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت و بہادری، بو ترابی و غضنفری اور ان کی اعلی اخلاقی و بلند مروتی پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کمال فن کے ساتھ نہایت عادلانہ انداز میں انہیں بہترین خراج عقیدت و محبت پیش کی ہے ۔ مثلاً:
حوصلوں کا سمندر علی مرتضیٰ
اک شجاعت کا پیکر علی مرتضیٰ
بو تراب و غضنفر علی مرتضیٰ
ضیغم وقت حیدر علی مرتضیٰ
علم کا شہر ہے خاتم المرسلیں
علم کے شہر کا در علی مرتضیٰ
حسن اخلاق میں ضبط و ایثار میں
آپ سے کون بڑھ کر علی مرتضیٰ
مناجات-ایسی نظم یا ایسے اشعار جن میں خدا کی حمد و تعریف اور اپنی عاجزی و نا توانی کا اظہار کر کے دعا اور التجا کی جائے-اردوشاعری کی مقبول صنف ہے۔مناجات -جس کا مطلب ہی “طلب نجات کے لیے اللہ کی بارگاہ میں التجا کرنا “ہے – اللہ سے سرگوشی کرنا ہے۔ڈاکٹر ماجد دیوبندی صاحب کے یہاں”مناجات “اپنے لغوی ،اصطلاحی اور صنف شعر؛ تینوں زاویوں سے اسم با مسمی کی حیثیت رکھتی اور اپنے تمام تر عناصر کے ساتھ نظر آتی ہے ۔بلکہ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ مناجات مطلوبہ کیفیات اس ضمن میں کہے گیے ان کے اشعار کے ہر مصرعے سے نمایاں ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے:
قندیل عشق دل میں جلا دے میرے خدا
وحدانیت کی راہ دکھا دے میرے خدا
آرام گیر جس میں رسول کریم ہیں
وہ سرزمین پاک دکھا دے مرے خدا
اسلام کے وجود سے ہے جن کو دشمنی
ان ظالموں کو سخت سزا دے میرے خدا
دعا “اللہ سے مانگنا،طلب کرنا،التجا کرنا اور اسے پکارنا” مومن کا ہتھیار اور اہل ایمان کا وہ ہمدم ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے۔شاعری میں بھی اس صنف پر خوب طبع آزمائی ہوئی ہے۔ڈ اکثر شعرا نے اپنے صبر آزما حالات سے رہائی اور پیش آمدہ مشکلات کی دلدل سے خلاصی پانے کی غرض سے بارگا خداوندی میں فنکارانہ دعائیں کی ہیں۔ڈاکٹر ماجد دیوبندی نے بھی اپنی شاعری میں متضرعانہ و عابدانہ انداز میں “دعا “کو موضوع بنا کر بہت کچھ کہا تاہم ان کی دعائیہ شاعری کا منفرد پہلویہ ہے کہ اس میں عاجزی و انکساری کے مظاہر نمایاں اور بے سروسامانی و توکل کے عناصر غالب دکھائی دیتے ہیں ۔یہ خصوصیاتِ دعا بارگاہ خداوندی میں اس(دعا) کی قبولیت کے لیے ضروری اور لازم ہیں۔اس قبیل کے ان کے کچھ اشعار دیکھیے:
میں دیکھ کر بھی تجھے دیکھنے سے قاصر ہوں
میں بے بسر ہوں مجھے صاحب نظر کر دے
قلندری مجھے دی ہے تو یہ کرم بھی کر
میرے خدا مجھے دنیا سے بے خبر کر دے
قطعہ تو ڈاکٹر ماجد دیوبندی صاحب کی جیب کی گھڑی معلوم ہوتا ہے ۔وہ جب جس موضوع پر اور جس طرح چاہتے ہیں بھر پور قدرت کے ساتھ اس صنف کا استعمال کرلیتے ہیں۔انہوں نے بے شمار موضوعات پر فی البدیہ اور موزوں قطعات کہے ہیں ۔ان کے قطعات میں سیاسی، تہذیبی، علمی، دینی ،نبوی اور وحدانی موضوعات؛ کی خوبصورت جلوہ کاری دیکھنے کو ملتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ن کی ناقابل تسخیر شاعر انہ برتری میں ان کی قطعہ نگاری کو خاصا دخل ہے۔ ان کے تخلیق کردہ قطعات میں موزونیت ،مناسبت ، پختگی ،امنگ نمائی ، عزم آوری اورحوصلہ مندی کے موتیاں بہ کثرت چنے جاسکتے ہیں ۔تصدیق کے لیے ذیل کے چند قابل مطالعہ قطعات ملاحظہ کیجیے:
نفرتوں کے جہاں میں رہ کر بھی – امن کا سائبان رکھتے ہیں
جس کے ہر لفظ میں ہے یکجہتی-ہم وہ اردو زبان رکھتے ہیں
********
ماؤں بہنوں کی عزتیں کرنا -ہم کو قرآن یہ سکھاتا ہے
کوئی کہہ دے یہ بے وقوفوں سے-پردہ تو عظمتیں بڑھاتا ہے
*********
صاف ذہنوں کی آزمائش کی -ملک کے ساتھ مل کے سازش کی
دیکھنا ہے نتیجہ کیا ہوگا -چور نے چور کی سفارش کی
*******
اب زمیں کا بدن نہ چھوڑیں گے
یعنی ہر گزکفن نہ چھوڑیں گے
اپنا ایمان ہے یہی ماجد
مرکے بھی ہم وطن نہ چھوڑیں گے
********
رب کا بخشا کلام کافی ہے- مصطفی کا نظام کافی ہے
ساری دنیا کے ظالموں کے لیے- ان کا ادنی غلام کافی ہے
*******
نظم شاعری کی وہ صنف ہے جس میں ہر شاعر اپنی بات پوری طرح کھل کر کہتا ہے۔ماجد صاحب بھی نظم کو اپنے خیالات و احساسات کی ترصیل کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں۔ڈاکٹر ماجد دیوبندی کی شعری تخلیقات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کے نظمیہ خیالات بھی ان کے غزلیہ خیالات کی طرح پرمغز،زود فہم اور تعمیری ہیں۔منظر نگاری اور تصویر کشی میں انہیں وہ مہارت حاصل ہے کہ نظمیں اپنے خیالات کو عملی طور پر پیش کرنے کا ہنر حاصل کر لیتی ہیں۔محاکات و جزئیات نگاری بھی ان کی مفتوحہ ادبی آلات معلوم ہوتی ہیں۔نظموں میں عنوان کے مطابق ان کے پیش کردہ خیالات اور اس میں سموئے ہوئے احساسات میں نشیب و فراز ،اتار چڑھاؤ ،زیر و بم ،تمہید، عروج اور اختتام، موزونیت، معقولیت اور نفسیات کو برتنے کی گلکاریاں دکھائی دیتی ہیں۔
انہوں نے نظیر اکبر آبادی ،ڈاکٹر علامہ اقبال ،خواجہ الطاف حسین حالی اور شمس العلماء محمد حسین آزاد کی طرح موضوعاتی نظمیں بھی خوب کہی ہیں۔
نظم “ماں” ان کی اہم شاہ کار موضوعی نظم ہے۔اس میں انہوں نے زندگی کے چاروں ادوار بچپن، نوجوانی، جوانی اور ادھیڑ عمری؛ اور ان سبھی ادوار و مراحل کے تئیں پسرانہ خیالات ،مادرانہ مزاج ،پدرانہ شفقت و ہمدردی، سرپرستانہ نگرانی و نگہداشت کو نہایت منطقیت اور فطری پن کے ساتھ پیش کیا ہے۔ادبیت و داخلیت اور معلومات و کیفیات دونوں سے لبریز ان کی یہ کامیاب نظم ’’ماں‘‘ مثالی امومت کی تصویر کشی کے باب میں ایک مستقل حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔اس نظم میں انہوں نے سوفیصدانہ صداقت اور سر تاپا دیانت داری سے کام لیتے ہوئے شاعرانہ مہارت کی طشت میں پسرانہ جذبات کو بھرپور کامیابی نہایت ادب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ماں کی جملہ مرحلہ وار سرگرمیاں ،متنوع قربانیاں، بے شمار مشفقانہ مظاہرۂ ایثار و ترجیحات، بے لوث خدمات اور ان کی مخلصانہ تمناؤں کا بڑی بے باکی سے اظہار کیا ہے۔اس نظم کے کچھ اشعار دیکھیے۔
ماں کی ہمدردی اور بیٹے کے رد عمل کو فطری پن کے ساتھ دودوچار کی طرح نمایاں کرکے نذر قارئین کرنے والی اس نظم کے سبھی اشعار قابل مطالعہ ہیں۔
ماں کے احسان اور ان کی قربانیوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یہ مانا فرشتہ کوئی بھی نہیں ہے
مگر ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
مجھے نومہینے شکم میں رکھا ہے
خوشی میں مجھے خود کو غم میں رکھا ہے
سدا خود کو رنج والم میں رکھا ہے
مجھے اپنے دست کرم میں رکھا ہے
بدل اس عطا کا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
بچوں کے تئیں ماں کے پیار کو نہایت البیلے انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
غریبی میں رہ کر بھی پالا ہے مجھ کو
پریشانیوں سے نکالا ہے مجھ کو
میں گرنے لگا تو سنبھالا ہے مجھ کو
ہمیشہ بھنور سے نکالا ہے مجھ کو
نگہبان ایسا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں
ماں کی ممتا کی انفرادیت اور اس کی بے نظیر شفقتوں اور ان کے متنوع مظاہر کو بڑی مشاقی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اسی نظم کے ایک بند میں اس لے میں نظر آتے ہیں :
اگر آنکھ میں میری آنسوبھی آئے
تڑپ کر گلے مجھ کو فوراً لگائے
کبھی گال چومے کبھی لوری گائے
بہانے بہانے سے مجھ کو ہنسائے
اب ایسا سہارا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ڈاکٹر صاحب اپنی خوش نصیبی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی والدہ کے ہاتھو ں پان کھانے کے جذباتی منظر کو فنکارانہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
وہ خود پان کھانا مجھے بھی کھلانا
مجھے پیش کرتے ہوئے مسکرانا
مرا ان سے جب جب بھی ملنے کو جانا
مجھے چھوڑنے ان کا باہر تک آنا
مرے حق میں ایسا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ڈاکٹر صاحب نے بڑی شفافیت سے نہ صرف یہ کہ اپنی والدہ کی عابدانہ طبیعت کا پردہ چاک کیا ہے بلکہ تہجد سے ان کے فطری لگاؤ کا پورے پس منظر کے ساتھ بیان کرکےموجود ہ دور کی ماؤں کو ایک خوبصورت پیغا م دیتے ہوئے کیا خوب فن کاری کی ہے ملاحظہ کیجیے :
تہجد میں اُٹھ کر انگیٹھی کو بھرنا
وضو کے لیے گرم پانی بھی کرنا
مصلے پروہ دیر تک پھرٹھہر نا
ہوتکلیف کتنی بھی شکوہ نہ کرنا
اب ایسا سراپا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ماں کی انمول ہستی کی خوبیوں کو تمام ترجزئیات کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ایک بند میں کہتے ہیں :
ہوسردی کہ گرمی سبھی سے بچایا
کلیجے سے مجھ کو ہمیشہ لگایا
کبھی پیٹ بھر اس نے کھانا نہ کھایا
مگر لب پہ حرف شکایت نہ آیا
زمانے میں ایسا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ماں کی اپنے بچوں کے تئیں پائی جانے والی مثالی فکرمندی کا احاطہ کرتے ہوئے اسی نظم کے ایک اور بند میں اس طرح لب کشا دکھائی دیتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہ صرف یہ پورا منظر آجاتا ہے بلکہ اپنی بیتی ہوئی زندگی کے متعلقہ سبھی مناظر تازہ ہوکر وجہ حسرت اور سبب الم بن جاتے ہیں یا پھر والدہ کے تئیں عقیدت وتعظیم کے کے احساسات فزوں تر ہونے لگتے ہیں ۔چنانچہ وہ بچوں کی بے رخی وہٹ دھرمی اور ماں کی فکرمندی و ہمدردی کو مکالماتی صورت میں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اگر اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو
تو میں اس پہ چیخا کیوں چلا رہے ہو
ہے کیا غم بتاؤ کیوں شرما رہے ہو
ابھی ماں ہے زندہ کیوں گھبرارہے ہو
وہ پیارا سالہجہ کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ڈاکٹر صاحب ’’ماں‘‘ جیسی مقدس ہستی کو اپنے بال بچوں کے لیے سراپا برکت ،وجہ خوش حالی ،بہترین تعلیم وتربیت کا محرک ،بچوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنے والی ہستی اور بہترین مربیہ و محافظہ گردانتے ہیں ۔چنانچہ وہ کہتے ہیں :
کبھی درمیاں تنگ دستی نہ آئی
بہر طور تعلیم مجھ کو دلائی
کوئی زندگی میں کمی آنہ پائی
کسی کو شکایت نہ میری بتائی
مجھے اس سے شکوہ کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ہر ماں کی نظر میں اس کا بچہ قیمتی ہیرا ہوتا ہے ۔وہ اپنے بچے کی کامیابی کے لیے رورو کردعائیں کرتی اور اسے بہت شفقت ونرمی سے پالتی ہے ۔اس جگ ظاہر کیفیت مادر کو ڈاکٹر صاحب ایک الگ زاویے سے اس فنکاری کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اس میں ایک قسم کی انفرادیت و دلکشی پیدا ہوجاتی ہے ۔مثلاً یہ بند دیکھیے :
نمازوں میں روروکے مانگا ہے مجھ کو
جوانی لٹادی سنوارا ہے مجھ کو
کبھی زندگی میں نہ ڈانٹا ہے مجھ کو
اسی کا تویعنی یہ صدقہ مجھ کو
نہیں وہ تو میرا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
کسب معاش کی غرض سے غریب الوطنی کی مارجھیلنے والے بیٹے اور وطن میں رہنے والی ماں کے باہمی جذبات واحساسات کی موثر ترجمانی ڈاکٹر ماجد دیوبندی کے قلم کا شاہ کار ہے ۔مثلاً یہ بند :
ضرورت کی خاطر میں پردیس آیا
دعائیں کیں ہاتھوں کو اس نے اٹھایا
ہر اک صدمہ یوں میری خاطر اُٹھایا
کہ کانٹا بھی میرے کبھی چبھ نہ پایا
جو دے میرا صدقہ کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ماں کے بول میں جو شیرینی اور حوصلہ مندی ہے وہ یقینا کسی اور آواز میں نہیں ۔ خوا ہ یہ بول براہ راست سنائی دیں یا بہ واسطہ خط و فون ۔ڈاکٹر صاحب ماں کی گفتگو کی تاثیر آفرینی پر روشنی ڈالتے ہوئے ’’ماں اور بیٹے‘‘ کے مابین ہونے والی حوصلہ بخش ٹیلیفونک گفتگوکا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں:
یہ جب میں نے پوچھا کہ گھرخیریت ہے
ہمیشہ کہا ہے یہاں عافیت ہے
میں جو کچھ ہوں یہ اس کی ہی تربیت ہے
ہمارے سروں پر جو شفقت کی چھت ہے
یہ اس کی عطا ہے کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
جن والدائیں بہ قید حیات ہیں انھیں ان کی قدردانی کی ترغیب دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب ناصحانہ کہتے ہیں:
میں خوش تو ہوں پردیس میں پریہ غم ہے
جدائی میں اس کی مری آنکھ نم ہے
ہر اک حال میں اس نے رکھا بھرم ہے
وہ زندہ ہے یہ بھی خدا کا کرم ہے
مجھے جس نے چاہا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
والدہ کی جدائی کبھی نہ مندمل ہونے والا زخم ہے ۔انسان عمر کی جس منزل پر ہووہ اپنی ماں کے سامنے ایک بچہ ہی ہوتا ہے ۔ماں کے سایے سے محرومی ہر طرح کی عافیت سے محرومی ہے ۔والدہ کا وجود دنیا وآخرت کی کامیابیوں کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔ماں کا جنازہ اولاد کے کندھوں پر کیسا پہاڑ غم ہے ؟یہ ڈاکٹر صاحب ان مصرعوں میں نمایاں ہے :
ستم ہائے افسوس دن وہ بھی آئے
تھا کاندھوں پہ اس کا جنازہ اُٹھائے
مجھے فون اس نے بہت ہی کرائے
مگر ایک دوجے سے ملنے نہ پائے
کہ بخشش کا رستہ کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ڈاکٹر ماجد دیوبندی اصلاحی شاعری کے لیے معروف ہیں ۔وہ اپنے مخاطبین کو ماں کی زیارت کرنے اوراس کے چہرے کو محبت کی نظر سے دیکھنے کو عبادت سے تعبیر کرتے ہوئے دوٹوک کہتے ہیں:
جویہ چاہتے ہو عبادت کرو تم
توروز اپنی ماں کی زیارت کروتم
پڑھو اس کا چہرہ تلاوت کروتم
سدا زندگی اپنی جنت کرو تم
عمل اس سے اچھا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
والدہ کے حق میں دعائے مغفر ت کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں :
خدا وند عالم کرم اتنا کرنا
کہ ہو اونچادرجہ مری والدہ کا
رہے اس کا جنت ہی مسکن ہمیشہ
وہاں اس کو مشکل کوئی بھی پڑے نا
شفیق اتنا میرا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ڈاکٹر صاحب کی شاعری میں آفاقیت ،عالمیت ،تعمیریت اور صالحیت کے عناصر کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔وہ پیامی شاعراور مصلح سماج فن کا رہیں۔وہ اپنے مخاطبوں اور اپنی تخلیقات کے مطالعہ کرنے والوں کو تکریم ماں کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں :
سنو دنیا والو قسم اب یہ کھاؤ
کبھی بھی نہ تم اپنی ماں کو ستاؤ
جوتم چاہتے ہوکہ جنت میں جاؤ
یہی بات سارے جہاں کو بتاؤ
گیا ہے جو آیا کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
’’ماں ‘‘ وہ بے نظیر ہستی ہے جس کی کمی دنیا میں کسی اور کے ذریعے پوری نہیں ہوسکتی ۔اس کی جدائی اولاد کے لیے فرقت ،اشک باری ، افسوس ،مایوسی ،دردوغم اور رنج واندوہ کے سبب کے علا وہ کچھ بھی نہیں ۔چنانچہ خود کو مخاطب کرتے ہوئے مقطع میں کہتے ہیں :
ہمیشہ یہاں کس کور ہنا ہے ماجد
ہر اک درد کچھ روز سہنا ہے ماجد
جو اشک اس کی فرقت میں بہنا ہے ماجد
مگر آج مجھ کو یہ کہنا ہےماجد
کہ ماں جیسا رتبہ کوئی بھی نہیں ہے
مری ماں کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
ان کی شاندار موضوعاتی نظموں میں ’’شب برات ‘‘،’’لیلۃ القدر کی عظمتیں لوٹ لو‘‘،’’ رمضان کی باتیں کریں‘‘اور’’ قرآن کی عظمت ‘‘قابل ذکر ہیں ۔ان نظموں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ سبھی نظمیں نثر جیسی سہولتِ اظہار کے ساتھ متعلقہ موضوعات پر مفصل اور مستند روشنی ڈالتی ہیں۔ مثال کے طور پر بالترتیب یہ اشعار دیکھیے۔(٥)
شب برات کا یوں اہتمام کرنا ہے
ہر ایک لمحہ عبادت کا نام کرنا ہے
***
ایک لمحے کا بھی کچھ نہیں ہے پتہ
زیست ہے کتنی کوئی نہیں کہہ سکا
یہ شب قدر ہو سکتی ہے آخری
رب کی بخشی ہوئی راحتیں لوٹ لو
لیلۃ القدر کی عظمتیں لوٹ لو
***
ہر نفس ایمان کی باتیں کریں
حکمت قرآن کی باتیں کریں
منزل عرفان کی باتیں کریں
حشر کے سامان کی باتیں کریں
آئیے رمضان کی باتیں کریں
***
مچھلیاں دریا میں کرتی ہیں دعا
اے میرے معبود اے میرے خدا
مرتبہ سب روزے داروں کا بڑھا
بخش دے ان کو بحق مصطفیٰ
جذبہ ایمان کی باتیں کریں
آئیے رمضان کی باتیں کریں
***
قرآن کی انساں کو ہے ہر وقت ضرورت
ملتی ہے اسی سے تو ہمیں راہ ہدایت
پائی ہے زمانے سے اسی سے تو بصیرت
قرآن کا ہر لفظ ہے مثل صداقت
قرآن میں پوشیدہ اجالوں کی اذا ں ہے
مولیٰ کی زباں ہے مرے مولیٰ کی زباں ہے
***
قرآن سکھادیتا ہے انسان کو جینا
قرآن سے مل جاتا ہے اسرار خزینہ
قرآن میں ہے مومنو!اللہ کا زینہ
قرآن سے معمور ہے اگر کوئی بھی سینہ
اس شخص کی عظمت کا ٹھکانہ ہی کہا ںہے
مولیٰ کی زباں ہے مرے مولیٰ کی زباں ہے
غزل کے معرکہ کارزار میں بے پناہ فتوحات سے سر فراز ڈاکٹر صاحب کی غزل میں اخلاقی درس ،اصلاح معاشرہ ،نفرت کے خاتمے اور محبت کے فروغ پر زور ،منافرت کو مٹانے کی تدابیر، روحانی تعلیم، مجاہدۂ نفس کی تلقین، وقت کے ساتھ چلنے کی نصیحت ،جفا کشی و مہم جوئی کی ترغیب، میڈیا کی ریشہ دوانی اوربڑی شد ومد کے ساتھ چل رہی خبر سازی کی چوطرفہ مہم کے تئیں ہوشیار رہنے کا مشورہ ؛ جیسے گہر ہر سو محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔اس حوالے سے یہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
مومن کی زندگی نہیں بازار کے لیے
خود کو مٹا دو عظمت کردار کے لیے
*******
کہتا ہے وقت کیجئے محفوظ اپنے ہاتھ
کافی ہے یہ اشارہ سمجھدار کے لیے
******
جو لوگ صرف پھول کی باتوں سے ہوں خوش
ہمت کہاں سے لائیں گے تلوار کے لیے
********
اچھوں کو ہم برا نہ لکھیں پھر تو کیا لکھیں
مضمون کچھ تو چاہیے اخبار کے لیے
******
ان کے شعری مجموعہ ’’شاخ دل‘‘ مطبوعہ انجم بکڈپو،دہلی ۲۰۱۱کے حوالے سے اردو کے مضبوط پلیٹ فارم’’ ریختہ‘‘ پر موجود ان کے شاعرانہ فن کے عکاس یہ اشعار بھی اسی حوالے سے قابل غور ہیں :
پیش خیمہ ہیں تنزل کا تکبر اور غرور
مرتبہ چاہو تو پہلے انکساری سیکھ لو
*******
خود بدل جائے گا نفرت کی فضاؤں کا مزاج
پیار کی خوش بو لٹاؤ مشکباری سیکھ لو
*****
چن لو قرطاس وقلم یا تیغ کرلو انتخاب
کوئی فن اپناؤ لیکن شاہ کاری سیکھ لو
**********
ان کی ایک مشہورزمانہ غزل- جس کا مطلع ’’سامان تجارت میرا ایمان نہیں ہے‘‘ ہے اور جس کے سبھی اشعار حاصل غزل اور تاریخ اسلامی اور دینی اخلاقیات کی تبلیغ کے عکاس ہیں-ان کی عالمی شناخت کا حوالہ اور ان کی باعزت ادبی پہچان کا محرک بن چکی ہے ۔بلکہ ان کی ناقابل فراموش مقبولیت کااسے ایک اہم عنصر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔اس غزل کایہ شعر’’ اللہ مرے رزق کی برکت نہ چلی جائے -دوروز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے ‘‘ تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر جانے کے باعث پوری دنیا میں ان کی یاد کا نقطہ ارتکاز بن چکا ہے۔ اسی غزل کے وہ انقلابی اشعارجو تقریبا ہر بندۂ مومن کو یاد اور ہر شعر پسند شخص کو ازبر ہیں، یہ ہیں:
ہر لفظ کو سینے میں بسا لو تو بنے بات
طاقوں میں سجانے کو یہ قرآن نہیں ہے
اللہ کے احکام کی تعمیل ہے لوگو
یہ فاقہ کشی مقصد رمضان نہیں ہے
مذکورہ غزل انہوں نے 1995 میں کہی تھی اور اس کے بعد 1997 میں انہوںں نے حج کی سعادت حاصل کی تھی ۔ اس موقع پر ایک سانحہ آگ زنی بھی پیش آیا تھا۔وہ اس سانحے سی دلی طور پر بہت دکھی ہوئے۔وہ اس واقعہ کو اپنے اور اہل ایمان کے اعمال کی سزا قرار دیتے ہوئے گویا ہوئے تھے کہ :
جس جگہ رحمتوں کی بارش تھی
اس جگہ آگ کی ہوائیں ہیں
دل یہ کہتا ہے کہ اے ماجد ؔ
سب یہ اعمال کی سزائیں
وہ چھوٹی اور بڑی دونوں بحروں میں غزلیں کہہ لیتے ہیں ۔خدا نے حسن صوت کی نعمت سے سرفرازکیا ہے اس لیے انھیں پوری تاثیر بھرپور داخلیت کے ساتھ گنگنا کر اپنے شعری احساسات اور دلی جذبات کی موثر ترسیل میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔چھوٹی بحر میں کہی گئی تغزل سے لبریز ایک غزل کے چند اشعار دیکھیے :(٦)
لاکھ جہاں میں جھوٹوں کی من مانی ہے
سچائی کی اپنی ریت پرانی ہے
کمزوروں پر رحمت بن کر چھاجاؤ
میرا قول نہیں حکم ربانی ہے
دھرتی ،عنبریاری اس کی ہے سب سے
ماجد جس کو کہتےہ ہیں سیلانی ہے
ایک شاندار غزل- جو انہوں نے پروفیسر مسعود احمد صاحب کے لیے غالباً کسی رسالے میں اشاعت یا مطالعے کے لیے خود اپنے قلم سے لکھ کر ارسال کی تھی- میں ان کا غزلیہ تیور قابل دید ہے ۔اس میں ان کا شاعرانہ انداز تخاطب قابل تقلید اور مضامین وخیالات تعمیری اور ایمان افروز ہیں۔اس کے سارے اشعار لائق حفظ ہیں ۔مثلاً یہ اشعار دیکھیے :
لاکھ خوف طاری ہوزلزلوں کے آنے کا
حوصلہ نہ چھوڑیں گے ہم بھی گھر بنانے کا
کامیاب کرتی ہے فیصلوں کی مضبوطی
دل میں حوصلہ رکھیے کشتیاں جلانے کا
اک عظیم شخصیت ہم کو یاد آتی ہے
ذکر جب بھی ہوتا ہے آسماں پہ جانے کا
تم حدیث وقرآں میں راہ خیر کی ڈھونڈو
ختم ہوچکا ہے با ب انبیاکے آنے کا
مرکے بھی نہیں مرتے ہم جگہ بدلتے ہیں
خواب دیکھتے رہنا تم ہمیں مٹانے کا
کامیاب ہوتے ہیں ایسے لوگ ہی ماجد
جودلوں میں رکھتے ہیں درد اس زمانے کا
دنیائے شعروادب میں ان کی عالمی پہچان کا ایک سب سے بڑا محرک ان کا مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں شریک ہونا اور اپنی نت نئی شعری تخلیقات سے سامعین وحاضرین کو محظوظ کرنا ہے ۔چنانچہ ہندوپاک کی عصری دانشگاہوں میں ادبی تحقیقات کا موضوع رہ چکی یہ ادبی شخصیت مشاعرے میں اپنی منفرد،مختصر ،جامع، متواضع ،پر مغزاور معتدل تمہیدی گفتگو کی وجہ سے بے حد مقبول رہی ہے۔ان کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مشاعرہ کے ایک ایک سامع تک اپنے ایک ایک لفظ کے ذریعے پہنچ جاتے ہیں۔ مثلاً بھاگلپور کے ایک مشاعرے میں انہوں نے جب اپنی شاعری بوقت تہجد پیش کی تواس کے لیے نہایت جامع تمہید اس طرح باندھی کہ ’’صدر عالی وقار! صف سامعین میں موجود مدنی حضرات! مکی حضرات! قاسمی حضرات! ندوی حضرات !مظاہری حضرات اور نورانی نورانی چہروں کے نمائندوں کو میں اپنا سلام پیش کرتا ہوں‘‘۔ اس تمہید سے مشاعرے میں شریک سامعین کا تنوع بھی ظاہر ہوتا ہے اور شاعر کی وسیع المشربی اوران کی کشادہ قلبی بھی ۔اس مشاعرے میں ان کی زبانی پیش کی گئی ان کی پوری شاعری کا حاصل یا شاہکار پیغام ان چار مصروں میں پوشیدہ ہے جسے پیش کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں۔ ؎
خدا جو چاہتا ہے ہو رہا ہے
کوئی پاتا ہے کوئی کھو رہا ہے
عطاؤں پر عطائیں ہو رہی ہیں
تہجد میں وہ لیکن سو رہا ہے
ڈاکٹر ماجد دیوبندی ہمہ جہت اردو خدمت اور اس زبان خسروی کی ترویج واشاعت کا دوسرا نام ہے۔ انہوں نے اپنے دور طالب علمی میں محض نویں جماعت میں زیر تعلیم رہتے ہوئے شاعری شروع کی۔ آغاز شاعری ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ سے ان کی یہ مماثلت یقیناً ایک نیک فال اور ان کی ادبی زندگی سے بھرپور مماثلت رکھتی ہے۔ جبکہ اسی شاعر مشرق ؒ کے افکار ،خیالات ،نظریات اور تصورات فن سے ان کی شاعرانہ فکروں اور ان کے تصور فن کا تقریباً پوری طرح مشابہت رکھنا اردو شعروادب کی خوش نصیبی ہے۔شعری شناخت بنانے،سامعین کے ذہن ودل پر راج کرنے اور شاعری کے مبلغانہ استعمال میں تو وہ اقبالؒ کےبالکل پرتو کہے جا سکتے ہیں۔ان کی پوری شاعری مذہبی تقاضوں کی تکمیل، دینی موضوعات کی تبلیغ، اسلامی احکامات کے حکیمانہ مقاصد کی تشریح اور اتحاد مسالک کی ترجمانی سے عبارت ہے۔وہ ملک کے حالات و واقعات کو بھی بڑی خوبی کے ساتھ اپنی شاعری میں اس طرح مناسب جگہ دے دیتے ہیں کہ ہر آنے والا شعر نواز مؤرخ اور ادب پسند قلم کار ان کے اشعار سے ہندوستان کی معاصر تاریخ رقم کر سکتا ہے۔انہوں نے اپنی شاعری میں ’’چور نے چور کی سفارش کی‘‘،’’ ایک دن کی سزا سے کیا ہوگا‘‘،’’ جو مجاہد ہیں ان کا اے ماجدؔ -آندھیوں میں چراغ جلتا ہے‘‘ اور’’ راج ایک دن بہار آ جائیں ہم اسے آدمی بنا دیں گے‘‘؛ ان جیسے مصرعوں سے نہ صرف یہ کہ شعری تلمیحات پر ان کی گہری گرفت کا اندازہ ہو جاتا ہے بلکہ ملک کی آب و ہوا کو مستعدانہ اپنی شاعری کے پنجرے میں قید کرلینے کی ان کی شاعرانہ قدرت بھی سامنے آجاتی ہے ۔ڈاکٹر صاحب اردو مشاعرے کو طبقہ اردوداہ کی تہذیب اخلاقی درسگاہ ادمی سازی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے خاندانی پس منظر کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اسلامی تاریخی حقائق کو بے لاک بیان کرنے کے امین رہے ہیں بلکہ وہ تہجد گزار والدین کی آغوش میں پلنے اور بڑھنے کی وجہ سے اپنی عادات صالحہ، اپنے خصائل حمیدہ،اپنے پاکیزہ افکار و خیالات اور اپنی حصولیابیاں و کامیابیاں؛ ان سب کووہ اپنے والدین کی دعائے نیم شبی کا نتیجہ اور ان کی مستجاب و مقبول دعاؤں کا خوبصورت ثمرہ ثابت کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔چنانچہ حق بیانی میں جو شدت مطلوب ہوتی ہے اس کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت اعتماد کے ساتھ وہ ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نصیحت کرتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت حق گوئی کی گواہی کے لیے ان کا یہ شعر کافی ہے:
ہم نے دیکھا ہے فرعون کا فنا ہونا
تیرا غرور بھی ایک روز ڈوب جائے گا
ان کی شاعری میں اسلامی تشخص کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور بے باکی کے ساتھ جذبات و احساسات کی پیشکشی بھی خوب نظر آتی ہے۔ زمانہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اور عہد تابعین رحمہم اللہ کی کی آئینہ دار ی بھی اس میں پائ جاتی ہے ۔ان کی شاعرانہ ہمت کو سلام کہیے کہ وہ “اسلامی ممالک کو سلامی ملک کا نام ان کی بے کرداری بے ضمیری بے مروتی بے حمیتی کے باعث قرار دیتے ہیں۔وہ ایک جگہ متسفانہ لہجے میں ایک حقیقت اور ممکنہ نتائج کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ماضی کی عظمتوں کا معیار کھو نہ جائے
اسلاف کی امانت دستار کھو نہ جائے
حالات کا تقاضا کچھ بھی ہو چاہے ماجد
لیکن خیال رکھنا کردار کھونے جائے
اسلامی تلمیحات ان کی شاعری میں جگہ جگہ اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ذہین قاری کو جھنجھوڑتی اور اسلامی تعلیمات کی شد بد رکھنے والے شخص کو بامعنی ٹھہراؤ پر مجبور کرتی اور اہل فکر و نظر کو مفید غور و فکر پر ابھارتی ہے ذیل میں چند اشعار اس قبیل کے قابل حفظ ہیں۔ مثلاً:
ہم نے تو بنائے ہیں سمندر میں بھی رستے
یوں ہم کو مٹانا کوئی آسان نہیں ہے
******
جس کے فیض سے ساری کائنات روشن ہے
کام کر رہا ہے وہ بکریاں چرانے کا
*****””
کامیاب کرتی ہے فیصلے کی مضبوطی
دل میں حوصلہ رکھیے کشتیاں جلانے کا
*********
جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ملازمتانہ تعلق ثقافتی تنظیموں سے ممبرانہ انسلاک ،ملی اداروں سے ان کی دانشورانہ وابستگی ،ان کی گفتگو کی سنجیدگی،ان کی باوقار ادبی،علمی ،سماجی اور گھریلو زندگی،ان کی شخصی متانت اور ان کے باوزن بول انھیں دانشوروں کی صف اول میں جگہ دلانے کے اسباب و محرکات ہیں۔وہ اپنی قابلیت اور اپنی روشن خیالی کے باعث ملک کی قومی نگرانی کمیٹی برائے اقلیتی امور، وزارت تعلیم حکومت ہند کے رکن رکین بھی رہے اور انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر نئی دہلی کے ممبر بھی۔ان حوالوں سے بھی ان کی خدمات یقینا قابل تحسین اور لائق صدآفریں ہیں۔ان ٹی ۔وی مباحثوں میں ان کی شرکت بھی خوب ہو رہی ہے۔
زائد از 18 /سال آل انڈیا ریڈیو دہلی میں اناؤنسرانہ خدمات، عرصہ دراز سے انڈین ٹیلی ویژن پر خبر خوانی کا طویل سلسلہ ،زی سلام چینل پر شخصی انٹرویو “بعنوان ملاقات”کی تعمیری سرگرمیاں ؛ان کی ہمہ جہت علمی، شعری، ادبی ،مترنمانہ اور صحافتانہ صلاحیتوں کی دلیل قاطع ہیں سچ ہے کہ ڈاکٹر صاحب موجودہ صدی کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہیں۔
ڈاکٹر ماجد دیوبندی ایک شخص نہیں بلکہ شخصیت ہیں ان میں تحرک نہیں بلکہ حرکیت ہے۔اردو ادب کی ہمہ جہت اور حشت پہلوئی دیوقامت ہستی ہیں۔ملک کے مشہور ٹی وی چینلوں پر ان کی شعری تخلیقات نشر کی جاتی ہیں۔ہزاروں سی ڈی اور آڈیو کیسٹ میں ان کی آوازیں مقید ہیں۔ہر محفل میں ان کی مقبولیت ہے ہر ترنم پسند ادب شناس شخص کے موبائل میں ان کی ویڈیو اور آڈیو موجود ہیں۔ دوران تقاریر مقرروں اور واعظوں کی زبانوں پر ان کے اشعار کا جاری ہونا ان کی تعمیری ،دینی اور ملی شاعری کی دلیل ہے۔جب کہ ان کی غزلوں کا نئی نسل کے نو آموزشعرا کے لیے مشعل راہ ثابت ہوجانا ان۔ کی مستند کلامی کا ثبوت ہے۔
7/ جولائی 1964 سے 7 /جولائی 2024 تک کی مدت میں انہوں نے بے انتہا ترقی کے مراحل طے کیے ،اس عرصے میں وہ مقبولیت و محبوبیت کے زینے بھی خوب چڑھے، قوم و ملت کے تعلیمی اور ادبی مسائل میں انہوں نے اپنی حاضری درج کرائی اور بین الاقوامی سطح پر ملک ہندوستان کی ادبی نمائندگی کا شرف بھی وافر مقدار میں حاصل کیا۔ 1978 میں پہلا مشاعرہ پڑھتے ہی ان کی شہرت،ان کے فن شاعری اور مشاعرے میں ان کی شرکت کو پر لگ گئے۔سعودی عرب کی دھرتی ہو یا بحرین و امارات کی سرزمین، قطر میں سجائی جانے والی ادبی محفلیں ہوں یا کویت کی سماعت گاہوں میں آراستہ کی جانے والی ادبی نشستیں، نیپال کے ادبی منظر نامے پر ابھرنے والی شعر و شاعری کی تقریبات ہوں یا عمان جیسے خوبصورت ملک میں بزم شعرو سخن کا انعقاد ؛ہر جگہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی شاعرانہ فوقیت کا سکہ جمایا اور اپنے شاعرانہ فن،قادرانہ کلام اور انداز پیشکش سے سامعین کو اپنا گرویدہ اور اسیر بنایا ہے۔
ڈاکٹر ماجد دیوبندی وہ خوش نصیب شاعر ہیں جن کو اپنے وطن میں رہتے ہوئے بے انتہا مقبولیت اور بے حد و حساب محبوبیت عطا ہوئی۔وہ سبھی طبقات انسانی میں مساوی احترام پانے والے اکلوتے شاعر ہیں جن کی پذیرائی سبھی مسالک کے پیروکاروں نے کی ہے۔
ان کو ملنے والے 50 سے زائد انعامات کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان کی ہمہ جہت مقبولیت کی تحریری دستاویزات بن گئے ہیں۔وہ 1993 میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفرازی کے بعد 2021 میں بیکل اتساہی ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔اس کے علاوہ چند قابل ذکر ایوارڈ میں “راجیو گاندھی ایوارڈ 1997،مولانا محمد علی جوہر اردو شاعری ایوارڈ 2008،فخر دیوبند ایوارڈ 2006،آبروئے غزل ایوارڈ 2013،مولانا حالی ایوارڈ 2015،قومی اتحاد ایوارڈ 2018 پاسبان اردو ادب ایوارڈ 2018
مختصر یہ کہ ڈاکٹر صاحب کی انفرادیت ترنم ،صلاحیت شعر گوئی اور رموز و نکات ہائے شاعری سے ان کی واقفیت ؛یہ سب کی سب انھیں موجودہ صدی کے لیے ادب کا بے تاج بادشاہ ،شیریں پیکر اور نئی تراکیب میں قرآنی اور حدیثی پیغامات کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دینے والا فنکار تسلیم کرنے ، حالات حاضرہ پر صحیح تبصرہ اور شائقین علم و ادب کی درست شاعرانہ رہنمائی کرنے کے باب میں ایک نعمت غیر مترقبه مان لینے پر مجبور کر دیتی ہے۔انہوں نے اپنی صلاحیت شاعری ،لیاقت نثر نگاری ،صدق بیانی،براھیمی جذبہ داری،حیدرانہ بہادری نمائی ،حسینی دینی حمیت سے سر فرازی ،ملکہ راست گوئی ،قابلیت حق گوئی ،بے باکی و بے خوفی ،فنی مهارت، سادہ گوئی ،علم دوستی، دوست نوازی،علما نشینی ،صلحا تعلقی ، زبان دانی ، خو ش سلیقگی اور مہارت گفتگو کے باعث اپنا مقام خود بنایا ہے اور وہ بجا طور پر اپنے تئیں یہ کہنے کا سو فیصد استحقاق بھی رکھتے ہیں کہ
میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لوں گا
مجھے مقام نہ دو میں خود مقام لے لوں گا
*******************
مراجع و حواشی
١-وہ میرا نبی ہے ،ص 80-81
٢-وہ میرا نبی ہے ،ص 112-174
٣-وہ میرا نبی ہے ،ص 268
٤-وہ میرا نبی ہے ،ص272
٥-وہ میرا نبی ہے ،ص ۲۷۸
٦-شاخ دل ،انجم بکڈپو دہلی ، مطبوعہ ۲۰۱۱،ص ۲۳