You are currently viewing عصمت چغتائی ایک ترقی پسند ناول نگار

عصمت چغتائی ایک ترقی پسند ناول نگار

نجمہ ۔سی کے

ریسرچ اسکالر

شعبہ اردو ،جامعہ سری شنکراچاریہ  برائے سنسکرت ،کالڈی،کیرالا

عصمت چغتائی ایک ترقی پسند ناول نگار

     اردو ادب کی تاریخ میں بیسویں صدی اہم تبدیلیوں کی صدی رہی ۔ اس صدی کی چوتھی دہائی  میں ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب  کئے ۔ترقی پسندوں نے ادب کو افسانہ نظم  اور رپورتاز نگاری کے فن سے ہمنکانا کیا وہی  ناول نگاری کو بھی بام عروج پر پہنچا دیا ۔ جو 1936 ء  کے آس پاس ترقی پسند ادیبوں نے ناول نگاری کے ذریعہ  نئے رجحانات کی عکاسی  اور اردو زبان و ادب کو انسانی زندگی کی  سچائیوں عصری تہذیب و تمدن کے حقیقتوں کا ترجمان بنایا ۔ زندگی کے  نئے سماجی  تقاضوں یعنی مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے حصول ،سرمایہ داری اور زمین داری کے خلاف اپنی آواز بلندگی ۔  ترقی پسند تحریک نے اردو ناول کو موضوعات اور رجحانات کی سطح پر نئے امکانات سے ہمکنار کیا ۔ترقی پسند ادیبوں نے اردو زبان و ادب کو انسانی زندگی کی سچائیوں ،عصری تہذیب و تمدن  کی کروٹوں اور اجتماعی تحریکوں سے ہم  آہنگ کرنے کا بیڑااٹھایا ۔چونکہ یہ ایک ہم جہت تحریک تھی جس کی بنیاد سائنسی اصولوں پر تھی اور جس کا رشتہ سیاسی،سماجی اور معاشی نظریات و تصورات سے گہرا تھا۔اس عہد کے ناول نگاروں نے اپنے علمی ،سماجی ،سیاسی اور فنی شعور سے کام لیتے ہو ئے بے شمار ایسے موضوعات کو ناول میں داخل کئے۔اس ضمن میں انور پاشا کہتا ہے کہ :

“ناول ایک جدید صنف ادب ہے اور یہ پہلے کی روایتی قصوں،

کہانیوں ،رومان اور داستانوں سے نہ صرف اس لئے مختلف ہے

کہ قدیم قصوں،کہانیوں ،رومان اور داستانوں کے بر عکس ناول

میں حقیقی زندگی کی جیتی جاگتی تصویرین ملتی ہیں”۔1

بہر  حال اس بات سے انکار نہیں کے ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں خصوص ادب میں زندگی کی حقیقتوں کو بیان کرنا اور عام انسانوں کے مسائل، خواتین کے خلاف ظلم و ستم نا انصافی، دیہاتیوں کا استحصال یہ ایسے مسائل تھے جن کو پیش کرنا نہایت ضروری تھا۔ تاکہ عوام میں شعور کو بیدار کیا جائے ان کے معمولات زندگی کو تبدیل کیا جائے استعماری قوت کے خلاف ان کو متحد کیا جائے تاکہ وہ جدو جہد کریں اور اپنے حق کو حاصل کریں۔

ڈاکٹر قمر رئیس ترقی پسند ناول نگاروں کے تجربات سے متعلق لکھا ہے:

’’عام بیانیہ اور حقیقت پسندانہ روایت سے ہٹ کر بھی ترقی پسند ادیبوں نے ناول کے میدان میں اہم تجربے کیے ہیں خواجہ احمد عباس نے اپنے ناولٹ’’سیاہ سورج سفید سایے‘‘‘میں اشتراکی جمہوریت کے راستے پر گامزن نو آزاد ملکوں کے خلاف سامراجی طاقتوں کی گھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ کرشن چندر کے نیم تمثیلی قصے اور فنطاسیے بھی عصر حاضر کے تضادات کے گہرے شعور کی غمازی کرتے ہیں‘۔2

 دراصل یہ سب حقیقت نگاری کی وجہ سے ممکن ہو پایا اردو ناول مجموعی طور پر ترقی پسند نظریہ ادب اور زندگی سے بہت زیادہ قریب رہا۔چونکہ ترقی پسند تحریک نے ادب اور ادیبوں کو انفرادی علاقائی اور علاقائی اور قومی مسائل سے بھی جوڑ دیا تھا۔لہذا اس عہد کے ناولوں میں قومی اور ملکی موضوعات اور مسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی موضوعات اور مسائل اور عام انسانی زندگی میں موجودہ انتشار اور کشمکش کی بھر پورا عکاسی ملتی ہے ۔

اس تحریک کے علمبردار سجاد ظہیر نے “لندن کی ایک رات ” لکھا جس میں ترقی پسندی کی نظریات و افکار کو توضیح و تشریح کے ساتھ بیان کیا ۔  سجاد ظہیر کے علاوہ احمد علی ،ملک راج آنند ، رشید جہاں وغیرہ نے اس تحریک کو آکے بڑھانے میں اور اس کے افکار و نظریات کو  عوام تک پہنچانے میں ایک اہم رول ادا کیا ۔ ان کی ادبا کی فہرست  کی موجودگی میں کرشن چندر ، راجیندرسنگ بیدی،سعادت حسین منٹو، عصمت چغتائی  وغیرہ کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے آتی ہے ۔

اردو نثر کی خواتین قلم کاروں میں عصمت چغتائی کا بحثیت افسانہ نگار  اور ناول نگار جنم اس وقت ہوا ،جب ترقی پسند تحریک اور مارکسی نظر یات  کی جڑیں ادب میں پھیل رہی تھیں۔عصمت بھی اپنے آزادانہ خیالات و نظریات کی وجہ سے ترقی پسند تحریک و مارکسی نظریات سے جڑتی چلی  گئیں اور آج اپنے بے پناہ مشاہدہ ،جداگانہ اسلوب ،انداز بیان کی مضبوط گرفت کی وجہ سے اردو کی ممتاز ترین افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں تسلیم کی جاتی ہیں۔

عصمت چغتائی ترقی پسند تحریک کے دور میں کامیاب ناول نگار ہیں۔انھوں نے ترقی پسند تحریک سے متاثر تھی متوسط طبقے کو انھوں نے اپنے یہاں جگہ دی۔ اس طبقے کے نفسیات پر انھوں نے عبور حاصل کی ۔ عصمت چغتائی کی شہرت میں عظمت کم اور حیرت زیادہ تھی ۔عصمت  ایک ترقی پسند ادیبہ تھی اور وہ روز اول ہی سے متوسط طبقے کی مسلم خواتین کے حق میں جوش و خروش سے آواز بلند کی رہی تھیں  مگر انھوں نے اپنے فن کو اپنے نظریات سے الگ تھلگ رکھا اور  دونوں کے اختلاط کو فن کے حق میں مضرت رساں جانا۔عصمت نے جنسی حقیقت نگاری کو اپنے ناولوں میں  پیش کیا ہے ۔ ان کے ناولوں میں سماج کے برائیوں  اور عورتوں کے دل  کی پوشیدہ راز کھولے گئے ہیں ۔ اس تعلق سے ہارون ایوب لکھتی ہیں :

“عصمت چغتائی کے ناولوں کا اہم موضوع جنسی ہے جس کو

انھوں نے بڑی بے باکی اور بے تکلفی سے پیش کیا ہے۔ لیکن

جنسی حقیقت نگاری میں لذتیت کا کوئی پہلو نمایاں نہیں

ہوتا بلکہ وہ متوسط گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کے گھٹی

ہوتی کیفیت کو پیش کرتی ہیں تاکہ پردے کے اندر پیدا  ہونے

والے بے شمار جرائم منظر عام پر آسکیں اور پڑھنے والے سبق

حاصل کرکے ایک صحت مند زندگی گزارنے کی طرف راغب

ہوں اور اس بات پر غور کریں کہ زندگی کے گھنو نے پن کو

روایتی اخلاق کے پردوں میں  چھپا کے رکھنے کی کیا ضرورت ہے”۔3

عصمت نے  اپنے ناولوں کے ذریعہ بتانے کوشش کرتی  ہے کہ عورتوں کی پوری دنیا چہار دیواری کے اندر محصوص تھی جبکہ مردوں کی دنیا کسی   چہار دیواری  میں محدود نہ تھی کیون کہ عورت کو سماج کس  طرح طرز فکر رکھنے پر مجبور کرتا ہے  وہ بھی بتایا ہے اور اس  کے متعلق مرد کو سوسائٹی کیا کہتی ہے وہ خود بھی اپنے آپ کو کمتر سمجھتی ہے اور یہ معاشرہ اس کے متعلق  عورت کی بے چارگی کی حقیقی عکاسی کی ہے ۔

عصمت چغتائی کی ادبی زندگی  کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے  میں ہوا ۔ان کے ناولوں میں ضدی، ٹیڑی لکیر اس دور کے لکھی گئے ناول ہیں۔عصمت کے پہلا ناول “ضدی ” ہے۔یہ ترقی پسند  تحریک کے حوالہ سے ایک اہم ناول ہے اور طبقاتی کشمکش پر  مختصر ہے ۔یہ 1944 ء میں لکھا گیا ہے  جس میں انھوں نے فرسودہ رسم و رواج   پرانی   روایات اور کھو کھلے سماج  کے خلاف باغیانہ روش کو اپنا یا ہے ۔جو گر چہ فنی لحاظ سے کمزور ہے ۔کیوں کہ اس میں رومانیت اور جذباتیات حقیقت نکاری پر غالب آگئی ہے۔

اس ناول کا ہیرو پورن سنگھ  ایک امیر زمین دار کا نوجوان بیٹا ہے  اور آشا  ایک غریب  اور کم ذات کی لڑکی ہے ۔ پورن سنگھ اس سے محبت کرنے لگتا ہے  اور شادی کرنا چاہتا ہے  وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہے اور روشن خیال ترقی پسند خیالات اور مساوات کا حامی بھی ہیں  بلکہ اس میں دو طبقے کی محبت  کو زیر بحث  لا گیا ہے ۔ خاندانی روایت کے سبب ان کی شادی نہیں ہو پاتی ہے اور آخر کار ان کی محبت دم توڑ دیتی ہے ۔والدین اور پورن کی یہ  طبقاتی کشمکش  کسی ایک گھر کی ،ایک  گاؤں کی نہیں بلکہ پورے سماج کی کہانی ہے ۔یہ ناول جس عہد میں لکھا کیا اس وقت حقیقت نکاری کا دور رہ تھا عصمت کے یہاں حقیقت نکاری ، کردار نگاری ،اور جنسی مسائل کا بیان بڑے خوبصورت انداز میں ملتا ہے اور اس میں عصمت نے سماب ،طبقہ ،روایت، مذہب ،م وغیرہ کے ہاتھوں ترقی  پسندی کو نا کام دیکھتی ہیں ۔انور پاشا  لکھتے ہیں:

“موضوع کے اعتبار سے اس ناول میں اس عہد کے چند اہم

مسائل یعنی سماج میں ارنچ  نیچ ،جاگیردار اور سرمائے دار طبقے

کی روایت پرستی  اور جھوٹے و قار کے کر یہہ چہرے سے نقاب

اٹھانے کی کو شش کی گئی ہے”۔4

اس ناول میں عصمت چغتائی نے اعلا طبقے  کی روایت پرستی اور ادنا طبقے کی قدامت پرستی کی بھر پورا عکاسی کی گئی ہے ۔ترقی پسند دور  میں اردو ادب میں سماج اور انسانیت کو حقیقت کو ترجمانی  موذر بنایا ہے اس لیئے  اس ناول میں  اس زمانے میں معاشرہ میں جو سماجی رسمیں اور سرمایہ دارانے نظام پر گہرا طنز بھی ہے ۔ انھوں نے روایتی اور فرسودہ رسم و رواج  سے ہٹ کر ایک الگ راہ  اپنے  ناولوں میں  چل پڑے ۔

مجموعی طورپر  عصمت چغتائی نے ناول “ضدی” میں حقیقت نگاری کو رومانیت کے پیرایے میں  ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے جو ترقی پسند ادیبوں کی  خاصیت ہے اور ایک اہم سماجی مسئلہ کو ترقی پسندانہ انداز میں پیش کرنے کی  کوشش کی ہیں ۔خاص طور پر اس میں ذات پات ،سماجی اونچ نیچ ،ادنا اور اعلا کے تضادات اون اس کے نتائج ،خاندانی روایت پرستی  اور چھوٹے خاندانی وقار کو اپنے طنز و تشنیع  کا نشانہ بنایا ہے ۔

ناول “ٹیڑی لکیر” ترقی پسند دور میں لکھی گئے ایک اہم  اور مقبول ناول ہے  ۔ یہ ناول 1946 ء میں لکھا گیا ۔ اس ناول کا مرکزی کردار شمن ہے  وہ متوسط طبقے کی ایک لڑکی ہے ۔دراصل یہ ناول عصمت کا سوانح ناول ہے کیونکہ اس میں ایک تعلیم یافتہ لڑکی کی بچپن سے جوانی تک کے سفر حیات کو قلمبند کرنے  کی کوشش کی گئی ہے۔انھوں نے اپنے اس ناول کے ذریعہ مسلم متوسط گھرانوں کی پردہ نشین لڑکیوں کی نفسیاتی اور جذباتی کشمکش اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل پر بھر پور روشنی ڈالی ہے ۔اس ناول میں انھوں نے اپنے عمیق  مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر متوسط طبقے کی زندگی کی معاشرتی پیچید گیوں اور نفسیاتی گتھیوں کی پیش کیا ہے

       شمن اپنے ماں باپ کی دسویں بیٹی ہے۔  اس کی پیدائش پر سب غم ہوتا ہے  کہ بد بخت لڑکیوں سے بس یہی ایک گھر دیکھ لیا۔بے تو جہی سے شمن کی پرورش ہوتی ہے ۔جس کے نتیجے میں بچپن ہی سے اس کی نفسیات میں محرومی ،تشنگی ،اکھڑپن،اور ٹیڑھے پن کے عناصر جنم لینے لگتے ہیں ۔شمن کی بڑی بہن بیواہ ہوکر اپنی بیٹی نوری کے ساتھ باپ کے گھر آجاتی ہے وہ اپنی بچی نوری کو شمن سے دور رکھنے کی کو شش کی جاتی ہے ۔جس سے شمن کے دل میں نفرت کی شدید جذبات پیدا ہواجاتے ہیں۔رفتہ رفتہ وہ اسکول ،کالج کی فضا میں آتی ہے اور وہاں کے ماحول سے متاثر ہوتی ہے ۔اسکول میں شمن کے ایک استانی مس چرن سے واسطہ پڑتاہے ۔ وہ ہم جنس کے مرض میں مبتلا ہے ۔اور اس کے بعد رسول فاطمہ اور نجمہ سے اس کی دوستی ہوتی ہے ۔یہ دونوں بھی اسی لغت میں گرفتار ہیں ۔کالج میں تعلیم کے دوران اس کی ملاقات پکی عمر کے رائے صاحب سے ہوتی ہے اور وہ ان سے اضہار محبت کر بیٹھتی ہے اس قدم سے اس میں شرم کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔اور اس کا جی چاہنا ہے وہ زمین سماجائے۔اس کے بعد اس کے زندگی میں اعجاز آتا ہے،پھر افتخار آتا ہے آخر وہ گمراں  ہوکر بہت  سے لوگوں سے رشتہ جوڑ لیتی ہے ۔آخر  وہ ایک آئرش نوجوان روفی ٹیلر سے شادی کرلیتی ہے

غرض یہ ناول سوانحی انداز رکھتاہے ۔جس میں عصمت چغتا‏ئی نے شمن کی زندگی، اس کی  نفسیات اور ذہنیت کی تشکیل و تعمیر اور ارتقا میں بے پناہ حقیقت نگاری کا ثبوت دیا ہے  ۔پورے ناول میں متوسط طبقے کے مسلم گھرانوں کی زندگی کا عکس نظر آئے گا۔ ان کے معاشی ،اخلاقی اور ذہنی رویے ،ان کے طرز حیات ،طور طریقے ،اخلاق و آداب ،نفسیاتی  اور جذباتی کیفیات ،سماجی و سیاسی صورت حال  کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سماج کے اندر موجود کمیوں ،خامیوں،برائیوں کا بر ملا ذکر ہویا پھر مختلف سماجی و انسانی حقائق کا  انکشاف ،عصمت  کی تحریروں کی خاص شناخت بھی ہے ۔

ناول میں عصمت نے اپنے بہت سارے کرداروں کے ساتھ زندگی کے بے شمار حقیقی پہلوں کی عکاسی کی ہے ۔ان کے سارے کردار جیتے جاگتے ،زمانے کے نباض، دنیا کے عمل و حرکت پر تنقیدی نظر رکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد اشرف لکھتا ہے کہ “یہ ناول ہمارے ہندوستانی گھرانوں کی   سچی تصویر کش کرتا ہے جس کا ہر ایک رخ ہماری زندگی کی تلخیوں اور خوشیوں کی بھر پور نشان دہی کرتا ہے ،اور یہ عصمت کا بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے شمن کا کردار پیش کرکے محض  اس کی نفسیاتی اعمال و افعال کو ملحوظ نہیں رکھا بلکہ اس کے ماحول اور اس کے گھرانوں یعنی متوسط طبقے کے جملہ مسائل اور اس کی غور و فکر کو ماضح کر دیا ہے۔ “۔5

غرض یہ کہ عصمت ہمیشہ اپنے ناولوں میں آپ کو سماج کی برائیوں  سے روبرو کراتی ہیں۔ سماجی برائیوں کے ساتھ ساتھ معاشی و جنسی الجھنون کو بھی منظر عام پر لاتی ہیں اور زندگی کی  حقیقتوں کو  اپنا موضوع بنایا ان کے دل میں قوم کا درد تھاجو کچھ  وہ دیکھتے اور اس کو محسوس کرتے اس کو ناول کے سانچے میں ڈھال دیتے۔

حواشی:

1۔ترقی پسند اردو ناول۔انور پاشا۔پیش رو پبلی کیشرز۔1990۔ص 36۔

2۔تنقیدی تناضر۔قمر رئیس۔ایجوکیشنل بک ہاؤس۔1978۔ص 171۔

3۔اردو ناول پریم چند کے بعد۔ڈاکٹر ہارون ایوب۔اردو پبلیشیرز۔1978۔ص 142

4۔ ترقی پسند اردو ناول۔ص 116

5۔ اردو فکشن کے ارتقاء میں عصمت چغتائی کا حصہ۔ڈاکٹر محمد اشرف۔نصرت پبلیشیرز۔ص۔76

NAJMA CK

Research scholar

Sree sankaracharya university of Sanskrit

Regional center,koyilandy.

Najmack34@gmail.com

Leave a Reply