طفیل احمد مصباحی
علامہ شوقؔ نیموی کی نعت گوئی
رئیس المحدثین ، ماہرِ عروض و لسانیات حضرت علامہ ظہیر احسن شوقؔ نیموی علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۱۹۰۴ ء ) کی ہشت پہلو شخصیت کے مختلف رنگ و روپ ہیں ۔ وہ عالم ، محدث ، فقیہ ، مناظر ، حکیم و طبیب ، ماہرِ لسانیات ، ناقد و محقق ، ادیب و شاعر اور ایک کامیاب مدرس تھے ۔ اسلامی علوم کے علاوہ ادبی فنون میں بھی غایت درجہ کمال حاصل تھا ۔ ” مولویت ” نے ان کی ” ادبیت ” پر آج دبیز پردہ ڈال دیا ہے ، ورنہ شوقؔ نیموی صوبۂ بہار کے اس نامور سپوت کا نام ہے ، جس کی شاعرانہ عظمت اور ادبی جاہ و جلال کا ڈنکا عظیم آباد اور لکھنؤ سمیت پورے ہندوستان میں بجتا تھا ۔ آج سے ۹۰ / سال قبل ماہنامہ ” ندیم ” ، گیا کے مدیرِ اعلیٰ نے لکھا تھا کہ صوبۂ بِہار میں حضرت علامہ آزادؔ ، حضرت شادؔ مرحوم ، حضرت شوقؔ نیموی مرحوم وغیرہ ………… شعرا اور ادبا کی ایک ایسی جماعت تھی جس نے پورے ہندوستان پر اپنا سکّہ بٹھا رکھا تھا ۔
( ماہنامہ ندیم ، گیا ، بِہار نمبر ، ص : ۵ ، جولائی و اگست ۱۹۳۳ ء )
اس مختصر سے مضمون میں موصوف کی شاعری اور بالخصوص ان کی ” نعت گوئی ” پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ علامہ شوقؔ نیموی ایک قادر الکلام اور منجھے ہوئے شاعر تھے ۔ شاعری کی تمام مروجہ اصناف پر استادانہ ملکہ حاصل تھا ۔ والیِ ریاست رام پور نواب کلب علی خان ، داغؔ دہلوی ، منشی امیرؔ مینائی ، احسنؔ مارہروی ، مولانا ابو الکلام آزاد اور خود ان کے اساتذۂ کرام میں علامہ سعید حسرتؔ عظیم آبادی ، شمشادؔ لکھنوی و تسلیمؔ لکھنوی ان کے شاعرانہ کمال کے معترف و مداح تھے ۔ داغِ دہلوی و امیرؔ مینائی نے شوقؔ کی مثنوی ” سوز و گداز ” کے لیے قطعاتِ تاریخ بھی کہے ہیں ۔ داغؔ دہلوی نے اپنے ایک مکتوب میں شوقؔ کو ” اریکہ آرائے بزمِ کمال و محققِ بے مثال ” لکھا ہے ۔ ابھی درسِ نظامی کی ابتدائی کتاب گلستاں و بوستاں ہی پڑھتے تھے کہ شعر کہنے لگے تھے اور ” بیت بازی ” میں فی البدیہہ اشعار موزوں کر مقابلہ جیت جاتے تھے ۔ دورانِ تعلیم غازی پور کے مختلف مشاعروں میں شرکت کرتے اور اپنی اعلیٰ شاعری سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتے ۔ اسی طرح لکھنؤ کے زمانۂ تعلیم میں کثرت سے مشاعرے میں شریک ہوتے تھے ۔ ان کی پہلی غزل کا مطلع و مقطع ملاحظہ کریں اور اندازہ لگائیں کہ جب شاعری کی ابتدا ایسی ہے تو انتہا کیسی رہے ہوگی :
سوزِ غم سے آبلہ اپنا دلِ تفتیدہ ہے اور سارا جسم شکلِ موئے آتش دیدہ ہے
کر تجسّس گوہرِ مقصود مل جائیں گے شوقؔ دل کے ویرانے میں گنجِ معرفت پوشیدہ ہے
غزل گوئی کا پہلا یا دوسرا سال تھا کہ آپ کو خبر ملی کہ لکھنؤ میں ایک عظیم الشان مشاعرہ منعقد ہوا تھا ، جس کی طرح بڑی سخت تھی : ” زمینِ شعر میں کرتے ہیں ہم تعمیر پتھر کی ” ۔ شوقؔ نے بھی اس پر طبع آزمائی کی اور ایک شان دار غزل لکھی ، جس کا مطلع اور مقطع ہے :
ہوا جب جل کے سرمہ بڑھ گئی توقیر پتھر کی
کیا چشمِ بتاں میں گھر زہے تقدیر پتھر کی
نہایت کاوشِ دل سے جو میں نے یہ غزل لکھی
زمینِ شعر میں اے شوقؔ کی تعمیر پتھر کی
مذکورہ بالا شعر میں جو لطف ، کشش اور معنویت ہے ، وہ اہلِ ذوق سے پوشیدہ نہیں ۔ ردیف کا نباہ لے جانا ، شاعرانہ کمال کی دلیل ہے ۔ شوقؔ نیموی جس وقت لکھنؤ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ وہاں ایک مشاعرہ ہوا ، جس کا مصرعِ طرح تھا : ” خنداں کا ، ایماں کا ” ۔ شوقؔ نے بھی ایک غزل لکھی اور خراماں خراماں مشاعرے کے لیے روانہ ہو گئے ۔ بعدِ ختمِ مشاعرہ جناب شیخ محمد جان صاحب شادؔ لکھنوی نے شوقؔ نیموی سے فرمایا کہ ” یہ مشاعرہ آپ ہی کے ہاتھ رہا ” ۔ اس غزل کے دو شعر آپ بھی ملاحظہ کریں :
جنوں میں ایک دن ڈنکا بجے گا جوشِ ایماں کا
ہے ‘ الاّ للہ ‘ آوازہ مرے چاکِ گریباں کا
ورق مجھ کو جو ہاتھ آ جائے خورشیدِ درخشاں کا
تو لکھوں وصفِ روئے پاک کچھ محبوبِ یزداں کا
( تذکرہ مسلم شعرائے بہار ، حصہ دوم ، ص : ۳۱۱ ، ناشر : درج نہیں )
جب آپ نے بلند پایہ کتاب ” ازاحۃ الاغلاط ” تصنیف کی تو علمی و ادبی حلقوں میں کافی پسند کی گئی ۔ کتاب خالص علمی و تحقیقی نوعیت کی ہے اور عربی و فارسی کے غلط الفاظ کی تحقیقاتِ نادرہ و تنقیحاتِ مفیدہ پر مشتمل ہے ۔ نواب کلب علی خاں والیِ رام پور کی نظروں سے جب یہ کتاب گذری تو کافی متاثر ہوئے اور شوقؔ نیموی کو رام پور بلایا گیا ۔ چنانچہ آپ رام پور پہنچے اور شعرا کے دستور کے مطابق نواب صاحب کی مدح میں لکھا اپنا ایک قصیدہ پیش کیا ۔ شوقؔ جس دم یہ قصیدہ پڑھ رہے تھے ، مجلس میں داغؔ دہلوی بھی موجود تھے اور وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ قصیدے کے چند اشعار دیکھیں :
وحشت زدہ ہوں بوئے گلِ تر سے زیادہ
مشکل ہے ٹھہرنا کہیں دم بھر سے زیادہ
تقدیر اُڑائے لیے پھرتی ہے شب و روز
ہر تارِ نَفَس ہے مجھے شہپر سے زیادہ
ہوں اشک چکیدہ نہیں جز خاک مجھے چین
ہے فرشِ زمیں بالش و بستر سے زیادہ
ہر چند کہ ہے تا بہ گلو چشمۂ حیواں
لیکن ہوں جگر تشنہ سکندر سے زیادہ
تشبیبؔ کے بعد گریزؔ پھر اصل مدعا یعنی مدحؔ اور خاتمہؔ ( فنی لحاظ سے قصیدہ کے یہی چار اجزائے ترکیبی ہیں ) کے اشعار ملاحظہ کریں :
ایسے کا ثنا خواں ہوں کہ اوصاف ہیں جس کے
وسعت گہِ تخئیلِ سخن ور سے زیادہ
جمشید حشم ، ظلِ خدا ، کلبؔ علی خاں
دارائے جہاں بخش سکندر سے زیادہ
اے شوقؔ شب و روز پئے حضرتِ ممدوح
کر عرض یہی خالقِ اکبر سے زیادہ
یا رب مرے سلطان کو صحّت رہے حاصل
ہو عمر عطا خضرؔ پیمبر سے زیادہ
( دیوانِ شوق ، ص : ۸۶ ، ۸۷ ، ۸۸ ، مطبوعہ : مطبع سیدی ، گور ہٹہ ، پٹنہ )
غرض کہ شوقؔ نیموی کی شاعرانہ حیثیت و عظمت مسلم ہے اور شاعر بھی ایسے کہ قواعدِ عروض ، مبادیاتِ لسانیات اور اصولِ زبان و بیان کے معاملے میں ” مجتہدِ عصر ” کے منصب پر فائز تھے ۔ شاعری کی مختلف اصناف بالخصوص ” غزل گوئی و مثنوی نگاری ” میں آپ کو کمال حاصل تھا ۔ پروفیسر مظفر اقبال ، ڈاکٹر احمد حسن دانشؔ بھاگل پوری اور پروفیسر حقانی القاسمی وغیرہ نے آپ کی مثنوی نگاری کا فکری و فنی جائزہ لیتے ہوئے ہندوستان کے عظیم مثنوی نگاروں میں آپ کا نام بھی شامل کیا ہے ۔ دشتِ شعر و سخن کے اس مجنوں کی بات ہی نرالی ہے ۔ آپ کا تخلص ” شوقؔ ” شعر و سخن کے معاملے میں آپ کے شوقِ فراواں کا ظاہر کرتا ہے ۔ جناب غلام رسول قوسؔ حمزہ پوری کے مجموعۂ کلام ” قرینۂ غزل ” پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر طلحہ رضوی برقؔ دانا پوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ” تخلص کے پیچھے شاعر کا اپنا میلانِ طبع ، اپنا رجحانِ فکر اور اپنی پسند کام کرتی ہے ، یہی اس کی وجہِ تسمیہ ہے ۔ شاعر کا تخلص اس کی شخصیت کا مختصر آئینہ اور اس کے اندرون ( باطن ) کا عکاس ہے ۔ رفتہ رفتہ تخلص و شخصیت کے روابطِ نہفتہ ( پوشیدہ ) اپنے اوصاف کے ساتھ آشکارا بھی ہوتے ہیں ” ۔
برقؔ صاحب کی اس بات میں بڑی سچائی معلوم ہوتی ہے ۔ مرزا غالبؔ کے غلبۂ شعر و سخن اور ڈاکٹر اقبالؔ کے عروجِ فکر و فن میں ان کے تخلص کی کارفرمائی محسوس کی جا سکتی ہے ۔ علیٰ ہذا القیاس اسی تخلص کے آئینے میں ہم علامہ شوقؔ نیموی کے شوقِ فراواں اور ذوقِ بیکراں کو دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ سراپا شوق تھے ۔ علم و حکمت کا شوق ، شعر و ادب کا شوق ، تحقیق و تنقید کا شوق ، لسانی تنقیح کا شوق ، شاعری کا شوق اور نعت گوئی کا شوق ، ان کی تہہ دار فکر و شخصیت کا نمایاں ترین پہلو ہے اور یہی شوقِ فرواں آگے چل کر ذوق اور فطرتِ ثانیہ کا روپ دھار لیتا ہے اور ان کی ذات سے کارہائے عظیم انجام پاتے ہیں ۔
شوقؔ نیموی مختلف شعری اقسام اور ان کے بنیادی صنفی تقاضوں سے پوری طرح واقف تھے ۔ ان کی شعری مہارت کا حال یہ ہے کہ جدھر رخ کرتے ہیں ، اپنی مہارت کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ چنانچہ جب غزلیاتؔ کے میدان میں آتے ہیں تو غزل کے شبنمی لہجوں کو برقرار رکھتے ہیں ۔ جب قصیدہ نگاری پر آتے ہیں ، اس وقت ان کے تخیل کی پرواز قابلِ دید ہوتی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اپنے وقت کے ” مرزا رفیع سوداؔ ” ہیں ، جن کی قصیدہ نگاری پر اہلِ ادب کو ناز ہے ۔ جب مثنوی گوئی کی وادی میں قدم رکھتے ہیں تو اس کے صنفی مقتضیات سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہوتے ہیں اور جب تقدیسی شاعری ( حمد و نعت و منقبت ) کی پُر کیف فضا میں تشریف لاتے ہیں ، اس وقت ایک ممتاز عالم و محدث اور محتاط نعت گو شاعر کا اندازِ بیان اپناتے ہیں ۔ لیکن یہاں بھی ان کی شاعرانہ بصیرت قابلِ دید اور لائقِ داد ہوتی ہے ۔
حضور نبیِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مدح و ثنا ، فکر و فن کی آبرو ، شعر و سخن کی معراج اور زبان و قلم کے لیے باعثِ اعزاز ہے ۔ یہ سعادت ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی اور یہ شرف ہر سخنور کو حاصل نہیں ہوتا ۔ نعت گو شاعر اپنی قسمت کی ارجمندی پر جس قدر ناز کرے کم ہے کہ اسے خالقِ لوح و قلم اللہ جل مجدہ نے اپنے ممدوح جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف کی توفیق ارزاں فرمائی ہے ۔ نعت کی دشواری اور اس راہِ پُر خار کی آبلہ پائی کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں ، جو اس راہ کے مسافر رہ چکے ہیں ۔ سعادت مند روح اور محبت آشنا دل ہی نعت کی دشواریوں اور اس کی رفعتوں کا صحیح اندارہ کر سکتا ہے ۔ نعت گوئی کے لیے قلبِ سلیم اور فکرِ مستقیم کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں اس کارِ خیر کی انجام دہی کے لیے تاریخ و سیرت اور اسلامیات کا وسیع مطالعہ بھی لازمی ہے ۔ نعت رقم کرنے کے لیے صرف شاعری اور ادبیت و شعریت کا علم ہی کافی نہیں ، بلکہ شریعت کا علم بھی ضروری ہے ۔ شریعت کا علم شاعرِ نعت کو قدم قدم پر ٹھوکر کھانے اور ایمان و عقیدہ کے ضیاع سے بچاتا ہے ۔ نعت کا موضوع حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات و صفات ہے اور آپ کی ذات و صفات کے روح پرور بیان کو ” نعت ” کہتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام کی ذات و صفات کس قدر ارفع و اعلیٰ ہیں ، اس بات کا علم قرآن و حدیث سے حاصل ہوتا ہے ۔ لہٰذا قرآن و حدیث کا جو جتنا بڑا عالم ہوگا ، اس کی نعتیہ شاعری بھی اتنی ہی کامیاب اور عظیم ہوگی ۔ عصرِ حاضر کے نامور ادیب و ناقد جناب ناوکؔ حمزہ پوری ( جنہوں نے نعتیہ شاعری پر مستقل کتاب بھی لکھی ہے ) نے اپنے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ” زاویۂ نظر ” میں بڑی سچی بات کہی ہے اور وہ یہ کہ :
” موضوعِ نعت ، ذات و صفاتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو ، آپ کے سراپا کا بیان ہو ، شبیہ ( صورتِ مبارک ) کی لفظی تصویر کشی ہو ، عادات و اخلاق کا بیان ہو ، فضائل و محاسن کا ذکر ہو ، آپ سے خطاب ہو اور عقیدت و محبت کا اظہار ہو ۔ اردو میں اب یہ روایت مستحکم ہو گئی ہے کہ ( حضور علیہ السلام کی تعریف و توصیف پر مشتمل ) صرف کلامِ منظوم ہی کو ” نعت ” کہتے ہیں ۔ یعنی ہر وہ شعر نعت ہے ، جس کا تاثر ہمیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب لائے ……….. جو شاعر جس قدر قرآنی آیات و احادیث کا علم رکھتا ہے ، اسی تناسب سے وہ ” نعت گوئی ” میں مہارت رکھتا ہے ” ۔
( زاویۂ نظر ، ص : ۴۰ ، ۴۱ ، ناشر : دار الادب ، حمزہ پور ، گیا ، بہار )
علامہ شوقؔ نیموی کی علمی گہرائی و گیرائی ان کے نعتیہ کلام سے ظاہر ہے ۔ ان کی نعت کے ہر شعر سے کوئی نہ کوئی اسلامی عقیدہ یا سیرتِ طیبہ کا کوئی اہم گوشہ ضرور بر آمد ہوتا ہے ۔ ان کی کی نعت گوئی اگر چہ کمیت کے لحاظ سے مختصر ہے ، لیکن کیفیت کے اعتبار سے پُر کیف ، سحر انگیز اور معنیٰ خیز ہے ۔ ان کی مشہورِ زمانہ ” مثنوی سوز و گداز ” جو ایک زمانے تک عصری دانش گاہوں کے نصاب میں شامل رہی ہے ، کے ابتدائی نعتیہ اشعار اتنے وقیع اور معنی خیز ہیں کہ ان کی توضیح و تشریح میں ایک مختصر ” رسالۂ سیرت ” تیار ہو سکتا ہے ۔ ان کی نعتیہ شاعری کا یہ نمونہ دیکھیں :
جو وقتِ ذکرِ نعتِ مصطفیٰ ہے
زبانِ خامہ پر صلِّ علیٰ ہے
نہ کیوں کر شور ہو صلِّ علیٰ کا
تصور ہے جنابِ مصطفیٰ کا
جو محبوبِ خدائے کبریا تھے
سراپا مظہرِ نورِ خدا تھے
سوئے ہستی ہوئے جب رونق افروز
گری ابلیس پر برقِ جگر سوز
چمک اٹّھا یکایک بختِ اسلام
زمیں پر گر پڑے منہ کے بل اصنام
یہ چھایا رعبِ حکمِ شاہِ اسریٰ
کہ کانپ اٹّھا یکایک قصرِ کسریٰ
براقِ باد پا پر برق آسا
زمیں سے پہنچے تا عرشِ معلّیٰ
ہوا قربِ خداوندِ دو عالم
ہوئے کیا نیاز و ناز باہم
ادب اب مانعِ طولِ سخن ہے
خیالِ این و آں مُہرِ دہن ہے
( مثنوی سوز و گداز ، ص : ۴۶ ، ناشر : بک امپوریم ، سبزی باغ ، پٹنہ )
شوقؔ کے نعتیہ کلام میں سادگی کے ساتھ پرکاری اور صفائی و برجستگی کے ساتھ معنوی تہہ داری پائی جاتی ۔ سادہ طرزِ بیان ، عام فہم شعری اسلوب ، سلاست و روانی ، فصاحت و بلاغت اور ادبی لطافت و نفاست بھی ان کی نعتیہ شاعری کی ایک امتیازی خصوصیت ہے ۔ عشق و اردات ، جذبات کی شدت و حرارت اور سوز و گداز کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔
ہے جو سرگرم شفاعت طَلَبی
شوقؔ لکھ نعتِ رسولِ عَرَبی
سایۂ ذاتِ حقِ جلّ و علا
مظہرِ نورِ خدا ، صلِّ علیٰ
شاہدِ بزمِ ازل کے محبوب
خالقِ کون و مکاں کے مطلوب
بادشاہِ عرب و فخرِ عجم
سرورِ دین و شفیعِ عالم
بلبلِ گلشنِ رحمت ہیں آپ
گلِ گلزارِ شفاعت ہیں آپ
آپ ہیں سروِ گلستانِ کمال
نو نہالِ چمنستانِ جمال
بدرِ تابانِ نبوت ہیں آپ
مہرِ رخشانِ رسالت ہیں آپ
آپ ہیں گوہرِ دریائے کرم
آپ ہیں لعلِ بدخشانِ ہِمَم
بحرِ موّاجِ مراحم ہیں آپ
قُلزمِ جوشِ مکارم ہیں آپ
آپ نے کتنے دکھائے اعجاز
آپ پر کون و مکاں کو ہے ناز
( نغمۂ راز ، ص : ۷ ، مطبوعہ : قومی پریس لکھنؤ )
یوں تو مذکورہ کلام کے سارے اشعار اچھے ہیں ۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ چھٹا اور ساتواں شعر بے مثال ہے ۔ ” سرورِ گلستانِ کمال ، نونہالِ چمنستانِ جمال ، بدرِ تابانِ نبوت ، مہرِ رخشانِ رسالت ، بحرِ موّاجِ مراحم ، قلزمِ جوشِ مکارم ، گوہرِ دریائے کرم ، لعل بدخشانِ ہِمَم ” جیسی دلکش تراکیب اور وقیع مفاہیم کا جواب نہیں ۔
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ” رحمۃ للعالمین ” بنایا ہے اور ” مقامِ محمود ” کا منصب عطا کر کے شفاعتِ کبریٰ کا تاج آپ کے سرِ اقدس پر سجایا ہے ۔ قرآن شریف میں آپ کے ان دونوں اعزاز و انعام کا تذکرہ صاف لفظوں میں موجود ہے ۔ و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین اور عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما محمودا ۔ ” ذکرِ شفاعت ” اور ” رحمت طلبی ” نعت کا بیحد اہم موضوع ہے ۔ شوقؔ نیموی سراپا عجز و نیاز بن کر کہتے ہیں کہ میں شافعِ روزِ محشر کا غلام اور خاک پائے رہِ آل و اصحاب ہوں ۔ مجھے سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ و السلام کی رحمت و شفاعت کی بھرپور امید ہے ۔ کل قیامت کے دن حضور اس گنہگار پر ضرور چشمِ رحمت فرمائیں گے اور اپنے دستِ رحمت سے جامِ کوثر عطا کریں گے ۔ اشعار دیکھیں :
یہ تو مانا کہ گنہگار ہوں میں
صورتِ خامہ سیہ کار ہوں میں
ہوں سراپا میں پریشاں احوال
اور اچھے نہیں میرے اعمال
لیکن اس کا مجھ سے کھٹکا کیا ہے
پُرسشِ حشر کی پروا کیا ہے
شافعِ روزِ جزا کا ہوں غلام
ہوں میں خاکِ رہِ اصحابِ کرام
اور ہیں جن کو ہے طاعت پر ناز
مجھ کو ہے آپ کی رحمت سے نیاز
ہے یہ امید کہ روزِ محشر
ہوگی مجھ پہ بھی عنایت کی نظر
دستِ رحمت سے وہ محبوبِ خدا
جامِ پس خوردہ کریں مجھ کو عطا
پھر تو کچھ اور ہی کیفیّت ہو
ہوش منّت کشِ محویّت ہو
( مثنوی نغمۂ راز ، ص : ۷ )
شوقؔ نیموی نے ” عید ” کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے اور اس کو ” قصیدۂ نعتیہ ” کا نام دیا ہے ، اس میں ذیل کے یہ نعتیہ اشعار بھی خوب ہیں :
اللہ رے یہ جلوۂ حسن و جمالِ عید
چمکا برنگِ ابروئے خوباں ہلالِ عید
آتا ہے اس میں ذکر جنابِ رسول کا
حسنِ بیاں سے جن کے کھلا صاف حالِ عید
زلفِ سیاہ جن کی تھی شامِ ” شبِ برات “
جن کی بَہارِ صفحۂ رخ تھی مثالِ عید
کرتے قیام خطبے میں جب وہ امامِ دین
آتی نظر بہارِ قدِ نو نہالِ عید
نازاں نہ کیوں ہو یہ فَرَسِ چرخِ تیز گام
عکسِ رکابِ پاک ہیں دونوں ہلالِ عید
یوں ہے تصورِ رخِ روشن بندھا ہوا
جس طَرْح آخرِ رَمَضاں میں خیالِ عید
للہ اب تو خواب میں صورت دکھائیے
دم توڑتا ہوں ہجر میں اے نو نہالِ عید
( دیوانِ شوق ، ص : ۸۰ ، مطبوعہ : مطبع سیدی ، گور ہٹہ ، پٹنہ )
شوقؔ نیموی کو نادر تشبیہات اور پُر لطف استعارات کے استعمال میں فنکارانہ کمال حاصل تھا ۔ علاوہ ازیں ” پیکر تراشی ” اور ” سراپا نگاری ” میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے ۔ موصوف نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت و سیرت اور آپ کے حلیہ شریف کا نقشہ بڑے خوب صورت انداز میں کھینچا ہے :
قدِ بالا نہالِ باغِ جنت
فدا سو جان سے جس پر قیامت
سوادِ زلف شامِ ” لیلۃ القدر “
جمالِ روئے روشن غیرتِ بدر
دُرِ دنداں درخشاں مثلِ انجم
بہارِ صبح اندازِ تبسم
وہ تھے سیبِ زنخداں روح پرور
مَلَک صلِّ علیٰ پڑھتے تھے جس پر
گلا تھا یا صراحی نور کی تھی
قلم شیشے کی یا بلّور کی تھی
برنگِ آئینہ تھا صاف سینہ
دُرِ اسرارِ عرفاں کا خزینہ
جسے کہتے ہیں سب مُہرِ نبوت
وہ تھی اک خاتمِ گنجِ حقیقت
اب اس سے بڑھ کے کیا کہیے کہ کیا تھے
وہ اک آئینۂ وحدت نُما تھے
( مثنوی سوز و گداز ، ص : ۴۶ ، ناشر : بک امپوریم ، سبزی باغ ، پٹنہ )
ڈاکٹر فرحانہ شاہین لکھتی ہیں :
شوقؔ نیموی کی نعتیہ مثنویاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی تعریف و توصیف میں اپنا منفرد و ممتاز مقام رکھتی ہیں ۔ اشعار سادہ ، سلیس ، عام فہم اور رواں دواں ہے ۔ ساتھ ہی شعری محاسن اور فنی چابک دستی بھی کام لیا ہے اور کلام جذب و شوق ، عشق و عقیدت کے رنگ میں بھی ڈوبا ہوا ہے ……….. علامہ شوقؔ نیموی نے جناب محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حلیۂ مبارک اور سراپا سے متعلق جو اشعار قلم بند کیے ہیں ، وہ سراپا نگاری اور تصویر کشی کی روشن اور کامیاب مثالیں ہیں ۔ نادر تشبیہات و استعارات کے خزینۂ بیش بہا ہیں ۔
( بہار کی اردو کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ ، ص : ۳۵۰ ، ۳۵۱ ، ناشر : درج نہیں )
مذکور بالا اشعار میں حسنِ تشبیہ و استعارہ اور ” پیکر تراشی و سراپا نگاری ” کے علاوہ ” تغزل ” کی چاشنی بھی موجود ہے ، جو اہلِ نظر سے مخفی نہیں ۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شوقؔ نیموی کی غزلوں اور مثنویوں میں ” تغزل ” کی چاشنی پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے اور ان کا شعری اسلوب چوں کہ ” دہلوی و لکھنوی رنگِ تغزل ” کا آئینہ دار ہے ، اس لیے ان کی نعت گوئی میں بھی تغزل کا نکھرا ہوا سماں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ‘ تغزل ‘ اور ‘ رنگِ تغزل ‘ کے بارے میں کسی دانش وار نے بجا کہا ہے کہ ” تغزل بنیادی طور پر ایک کیفیت کا نام ہے اور اس کی کوئی جامع و مانع اور حتمی تعریف نہیں کی جا سکتی ۔ یہ غزل میں پائی جانے والی ایک ایسی کیفیت ہے ، جس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ، بیان نہیں کیا جا سکتا ” ۔ تغزل ایک وجد آفریں مخصوص کیفیت اور ایک رومان پرور خاص اسلوب کا نام ہے ، جسے پڑھنے یا سننے کے بعد قاری و سامع پر سوز و گداز کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ ” فرہنگِ ادبیات ” میں تغزل کا مفہوم کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے :
تغزل کا لفظی معنیٰ ہے : اظہار میں غزلیت کا وصف ۔ اصطلاحاً روایتی مفہوم میں عاشقانہ ، رندانہ ، صوفیانہ اور فلسفیانہ موضوعات کا غزل میں نظم کیا جانا ۔ اسے غزل کی شعریت یا غزلیت بھی کہہ سکتے ہیں ، جو شعری تراکیب اور لوازم کے اشعار میں برتے جانے سے پیدا ہوتی ہے ۔ بقول سیماب اکبر آبادی : تغزل اس رنگ اور اسلوبِ بیان کو کہتے ہیں جو غزل میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ تغزل کا تعلق انسان کی لطیف ترین روحانیت اور نفسیات سے ہے ۔ حسن و عشق ، یاس و امید ، وصل و فراق ، انتظار و کامیابی اور اسی قسم کی مختلف فطری حالتوں کو گہرے تاثرات کے ساتھ مصوَّر کرنے کا نام تغزلؔ ہے ………… تغزل کو قدرتی طور پر نفسانیت سے پاک اور روحانیت سے لبریز ہونا چاہیے ۔ غزل کی تعریف میں ” با معشوق سخن گفتن ” اور تغزل کی تعریف میں ” معاملہ بندی ” کہہ کر خاموش ہو جانا ، غزل اور تغزل دونوں کی توہین ہے ۔ تغزل کے مختلف اسکول ہیں ، لیکن حقیقی تغزل وہی ہے جس کی بنیادیں جذباتِ لطیفہ پر قائم کی گئی ہوں اور جس میں ابتذال و رکاکت کا شائبہ تک نہ ہو ۔ تغزل صرف غزل سے مخصوص نہیں ۔ جن کیفیات سے یہ وصف بیان میں پیدا ہوتا ہے ، اگر وہ مرثیہ اور مثنوی وغیرہ ( نعت و منقبت ) میں بھی ہو تو ان اصناف کو ” متغزل ” سمجھنا بے جا نہ ہوگا ۔
( فرہنگِ ادبیات ، ص : ۲۵۳ ، ناشر : منظر نما پبلیشرز ، مالیگاؤں )
مذکورہ بالا اشعار کے علاوہ شوقؔ کے درج ذیل کے اشعار بھی ” پیکر تراشی ” کے ساتھ ” تغزل ” کے جلوؤں سے آراستہ ہیں :
نقاطِ خال روئے مہرِ طلعت
سویدائے دلِ حورانِ جنت
لبِ جاں بخش رشکِ آبِ حیواں
خضرؔ بھی سبزۂ خط پر تھے قرباں
آنکھیں ایسی کہ ہرن تک صدقے
صورت ایسی کہ چمن تک صدقے
دونوں ابرو ہیں ہلالِ عیدین
ہونٹ وہ لعل کہ دل ہو بے چین
شکلِ خورشید ہے چہرہ جن کا
رات پر جس سے ہو دھوکا دن کا
خلاصۂ کلام یہ کہ شوقؔ نیموی کی نعتیہ شاعری قلب کو تسکین ، روح کو بالیدگی ، فکر و قلم کو توانی اور ذہن کو پاکیزگی فراہم کرتی ہے ۔ خالص ادبی و فنی نقطۂ نظر سے ان کا شعری دیوان پڑھنے اور اس میں پوشیدہ جواہرِ غالیہ کو بر آمد کرنے کی ضرورت ہے ۔
***