سید خادم رسول عینی
علامہ قدسی کی تقدیسی شاعری
ابو الشعرا علامہ سید اولاد رسول قدسی کے تقدیسی کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے اشعار جہاں قرآن و حدیث کے ترجمان ہوتے ہیں وہیں آپ کے اشعار صنعت بلاغت سے مزین رہتے ہیں ۔
آپ کے ایک نعتیہ کلام کا مطلع ملاحظہ فرمائیں:
سب میں وہ بے مثال کیا کہنا اس پہ قرآں ہے دال کیا کہنا
یہ شعر کلام بلاغت کی بہترین مثال ہے۔اولی’ میں دعویٰ کیا گیا اور ثانی میں دلیل بھی پیش کردی گئی۔دلیل وہ بھی کسی عام کتاب انسان کی نہیں ، بلکہ قرآن، مقدس کتاب رحمان کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ شاعر محترم اگر چاہتے تو کسی ایک مخصوص آیت قرآن کو دلیل کے طور پر پیش کرسکتے تھے ۔لیکن آپ نے *قرآں ہے دال* کہہ کر یہ اشارہ کیا ہے کہ قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں جو یہ ثابت کر رہی ہیں کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کا کوءی ثانی نہیں اور آپ بے مثال ہیں ۔اعلی’ حضرت علامہ رضا بریلوی فرماتے ہیں؛
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا خالق کا بندہ خلق کا مولیٰ کہوں تجھے
کلام کا دوسرا شعر تلمیحی ہے :
سل ربیعہ* پہ رحمتیں ہیں نثار ان کا طرز سوال کیا کہنا
صحابیء رسول حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کے اظہار خواہش ( انھیں خلد میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جگہ ملے) کو خوب صورت انداز سے پیش کیا گیا ہے۔شعر کا اولی’ بہت ہی معنی خیز ہے۔
سل ربیعہ پہ رحمتیں ہیں نثار۔۔۔اس مصرع سے مراد یہ ہے کہ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ربیعہ کی انوکھی خواہش کو قبول فرمالیا۔گویا یہ شعر علامتی شعر ہے اور علامہ قدسی کو ملک علامت نگاری کا شہنشاہ کہا جاتا ہے۔
اس کلام میں اور بھی کئی تلمیحی اشعار ہیں ۔جیسے:
ان کے جیسا ہوا نہ ہوگا کبھی ہے یہ امر محال کیا کہنا
اس شعر میں حضرت جبریل علیہ السلام کے قول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو حدیث نبی سے ثابت ہے
ان کے اعدا کی حرکت شر پر میرے رب کا جلال کیا کہنا
اس شعر میں بھی واقعات کی طرف اشارہ ہے ، مختلف مواقع پر رب ذوالجلال نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں دشمنان رسول کی تردید میں آیتیں نازل فرمائیں ۔
ایک اور تلمیحی شعر ملاحظہ فرمائیں:
قول حضرت عمر پہ عشق فدا میرے سید بلال کیا کہنا
اس شعر میں عشق کی تجسیم بہت پر کیف ہے
آیت تطہیر کے تعلق سے مقطع بھی خوب ہے :
قدسی مصداق آیت تطہیر ان کی پاکیزہ آل کی کیا کہنا
اور یہ بھی صنعت تلمیح کے حسن سے مزین ہے۔
اس کلام میں کئی اشعار ایسے ہیں جن میں صوفیانہ رنگ ہے اور یہ اشعار متکلم کے عشق رسول کے غماز ہیں ۔جیسے:
جاؤں طیبہ نہ لوٹ کر آؤں یوں جو گزرے خیال کیا کہنا
یہ شعر پڑھ کر مجھے ایک کلاسیکل شاعر کا شعر یاد آگیا:
مدینہ جاؤں نہ آؤں وہیں پہ رہ جاؤں وہیں پہ زندگی میری تمام ہوجائے
علامہ قدسی کے عشق رسول سے معمور چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ان کی گلیوں میں جاکے کھو جاؤں ہو کبھی ایسا حال کیا کہنا
درد فرقت کی شدتیں بڑھ کر جان پر ہوں وبال کیا کہنا
ان اشعار میں جو عشق کی وارفتگی ہے وہ کسی بھی مومن کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔
صنعت محاورہ کے حسن سے آراستہ یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں:
اڑ گیے ظلمتوں کے ہوش و حواص ان کا نور و جمال کیا کہنا
اس شعر میں صنعت تجسیم کا حسن بھی جلوہ گر ہے ۔
بھر کے نعتوں سے میں بیاض اپنی ہو گیا مالا مال کیا کہنا
اس شعر میں تحدیث نعمت بھی ہے جسے صنعت تعلی کہا جاتا ہے
نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تین اہم عناصر ہوتے ہیں :
مدح رسول، مدح محبوبان رسول اور رد دشمنان رسول۔
دور جدید میں چوتھے عنصر کو بھی اہمیت حاصل ہے ، وہ ہے اصلاحی شعر۔مثلا”
اعلیٰ حضرت علامہ رضا بریلوی فرماتے ہیں؛
دن لہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرم نبی خوف خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
زیر تبصرہ کلام میں علامہ قدسی کا یہ اصلاحی شعر ( جس میں صنعت مراعات النظیر کا حسن بھی ہے) بھی قابل صد توصیف ہے:
روز و شب صبح و شام ہر لمحہ نفس سے ہو قتال کیا کہنا ۔
اس موقعے پر مجھے ایک کلاسیکل شعر یاد آ رہا ہے:
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
علامہ قدسی کا یہ شعر بھی بہت پسندیدہ ہے:
در ہو آقا کا اور سر ہو مرا رب سے ہو یوں وصال کیا کہنا
ایک مومن کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا چیز ہوسکتی ہے ۔
اس شعر میں صنعت تجنیس زائد اور صنعت تکریر کی رعنائیاں بھی جلوہ گر ہیں علامہ قدسی کا ایک اور نعتیہ کلام میری نظر سے گزرا۔اس کلام میں ردیف ہے دل۔
دل شعراء کا محبوب عنوان ہوا کرتا ہے۔علامہ قدسی نے نعت میں دل کا ردیف کے طور پر انتخاب کرکے دل کے عنوان کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
یہ کلام تشبیہ و استعارے کے حسن سے مزین ہے۔ اشعار میں دل مشبہ ہے ، لیکن مشبہ بہ کئی ہیں ۔دل کو کبھی باب سے تشبیہ دی گئی ہے تو کبھی محراب سے تو کبھی مہتاب سے ، وغیرہ
کلام کا مقطع یوں ہے:
ان کے در پر لٹاتا ہے سجدے عجب قدسی چرخ عقیدت کا مہتاب دل
اس شعر میں دل کو مہتاب سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہاں وجہ تشبیہ شکل و صورت میں یکسانیت اور نورانیت ہے ۔جس دل میں سرور کاءنات صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت موجزن ہو وہ بھی چرخ کے آفتاب کی طرح چمکتا اور دمکتا رہتا ہے ۔اس تشبیہ کو تشبیہ بلیغ کہا جاسکتا ہے کیونکہ شعر میں نہ وجہ تشبیہ کا ذکر ہے نہ حرف تشبیہ کا استعمال۔
اس شعر میں شاعر محترم نے دل کے سجدے کی بات کہی ہے ، سر کی نہیں۔گویا یہاں بھی شریعت کا پاس و لحاظ رکھا ہے۔جیسا کہ اعلیٰ حضرت علامہ رضا بریلوی فرماتے ہیں:
وہ دیکھو آیا نو بہار، سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے
ایک شعر میں محراب سے تشبیہ دی گئی ہے:
ان کے دامن کی تقدیس کے نور سے بن گیا فضل و رحمت کی محراب دل
اس شعر میں تشبہ بہ محراب ہے اور وجہ تشبیہ تقدیس ہے۔جس دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن اقدس کا نور ہو وہ دل بھی تقدس آمیز ہوجاتا ہے اور ایسے دل کی تشبیہ فضل و رحمت کی محراب سے کی گئی ھے۔
کلام کا آغاز بہت ہی خوبصورت مطلع سے ہوا ہے:
ان کے بحر کرم سے ہے سیراب دل
جانے کیوں پھر بھی رہتا ہے بیتاب دل
یہ تصوف کا شعر ہے۔شاعر کا دل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بحر کرم سے سیراب ہے۔لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔دل پھر بھی بیتاب و بے قرار رہتا ھے۔شاید متکلم کے دل کو وصل یار کی تلاش ہے جس کے بغیر سوزش عشق کو تسکین نہیں ملتی۔
علامہ قدسی کا یہ کلام حسن بلاغت کا آیینہ دار ہے۔کہیں صنعت تکریر کا جمال ہے تو کہیں صنعت تجنیس زائد کی رعنائیاں تو کہیں صنعت مراعاۃ النظیر کا لطف۔
سہ ماہی ادبی محاذ، کٹک (جس کے مدیر اعلیٰ سعید رحمانی صاحب ہیں ) کے تازہ ترین شمارے میں علامہ قدسی کی نعت شایع ہوئی ہے جس کی ردیف ہے :مجھے تسکین مل گئی۔اس کلام میں لمبی ردیف کا انتخاب بہت خوب ہے ۔اس خوب صورت ردیف نے کلام کو مترنم بنادیا ہے اور اس کی شیفتگی میں اضافہ بھی کیا ہے۔
اس کلام کا مطلع یوں ہے:
یاد ان کی آگئی مجھے تسکین مل گئی سب غم بھلا گئی مجھے تسکین مل گئی۔
اس شعر میں عشق کی وارفتگی بھی ہے اور ندرت خیالی بھی۔لفظ یاد کی تجسیم بھی بہت برکیف ہے۔یقینا” تجسیم نگاری علامہ قدسی کا طرہء امتیاز ہے۔
باد صبا در شہ عالم سے یوں چلی تن من سجا گئی مجھے تسکین مل گئی
اس شعر میں بھی صنعت تجسیم کا خوب صورت استعمال ہے۔
سرکار دو جہاں کی عنایت کی اک نگاہ قسمت بنا گئی مجھے تسکین مل گئی
یہاں بھی صنعت تجسیم کا حسن ہے۔ اس شعر میں صنعت تلمیح بھی جلوہ گر ہے ۔
یہ شعر پڑھ کر ہمیں اعلیٰ حضرت کا شعر یاد آگیا:
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا اس نگاہ عنایت پہ لاکھوں سلام
علامہ قدسی نے اس شعر میں سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی اک نگاہ سے قسمت جگانے کی بات کہی ہے۔کسی مخصوص فرد کی قسمت کے بارے میں بات نہیں کی ہے بلکہ عمومی بات کہی ہے۔کیونکہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک فرد کی قسمت نہیں بنائی ، بلکہ ہزاروں کی قسمتیں آپ کی نگاہ التفات سے جاگ اٹھیں ۔انھی خوش قسمت افراد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ہیں تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں تو حضرت اب بو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی۔وغیرہ وغیرہ
میں تھک کے بیٹھ جاتا مگر ان کی انسیت
ہمت بڑھا گئی مجھے تسکین مل گئی
یہ شعر بھی تلمیحی ہے اور اس میں کئی واقعات کی طرف اشارہ ہے۔فتح خیبر کا واقعہ ہی دیکھ لیں۔حضرت علی علیل تھے ، لیکن سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی انسیت اور ان کی حوصلہ افزاءی نے حضرت علی کو فاتح خیبر بنا دیا اور تاریخ میںآپ کا نام نامی اسم گرامی ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگیا۔
فیضان ہے یہ رب کا ، شریعت رسول کی
سب کچھ بتاگئی مجھے تسکین مل گئی۔
یہ شعر بھی تلمیحی ہے اور قرآن کی آیت اکملت۔۔۔۔ کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کا دین مکمل ہوگیا اور شریعت رسول (جو قرآن و حدیث پر مشتمل ہے) میں قیامت تک کے لیے سارے مسائل کا حل موجود ہے اور سارے احکام جاری ہوگئے اور ان احکام میں کسی قسم کی ترمیم کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
الفت نبی کی تیرہ و تاریک قلب میں
سورج اُگاگئی مجھے تسکین مل گئی
اس شعر میں صنعت تجسیم کے ساتھ ساتھ صنعت طباق کا جمال بھی جلوہ گر ہے۔
شاعر محترم نے یہاں تیرہ و تاریک قلب میں چاند اگنے کی بات نہیں کی بلکہ سورج کے اگنے کی بات کہی ہے تاکہ مفہوم کو مزید وسعت ملے ۔چاند سے صرف دھرتی کو روشنی ملتی ہے، لیکن سورج پورے سولر سسٹم کو روشنی پہنچاتا ہے جس میں سولر سسٹم کے سارے سیارے اور سبھی سیارچے شامل ہیں ۔جس طرح سورج سے کئی سیارے اور سیارچے جگمگاتے ہیں اسی طرح نبی کی الفت جس دل میں بس جاتی ہے وہ دل اس قدر پر ضیا ہوجاتا ہے کہ وہ ہزاروں دلوں کو فیضیاب کرتا ہے۔اس تشبیہ کو تشبیہ بلیغ کہتے ہیں کیونکہ اس شعر میں نہ وجہ تشبیہ ہے نہ ہی حرف تشبیہ۔تشبیہ بلیغ، صنعت تجسیم اور صنعت طباق کے حسن سے معمور اس شعر پر علامہ قدسی کو خصوصی مبارک باد۔
علامہ قدسی کے نعتیہ کلاموں میں جہاں مدح نبی، مدح محبوبان نبی اور رد دشمنان رسول پر مبنی اشعار ہوتے ہیں وہیں اصلاح معاشرہ کے عنوانات پر بھی اشعار ہوتے ہیں ۔مثلا” زیر تبصرہ کلام میں:
اک توبہء نصوح گناہوں کے قصر کو
پل میں گراگئی مجھے تسکین مل گئی
عصیاں کے شوق کو شہ کونین کی وعید
دل میں دبا گئی مجھے تسکین مل گئی
میں سو رہا تھا خواب میں غفلت کے ، شاہ کی
سیرت جگاگئی مجھے تسکین مل گئی
ان تینوں اشعار میں صنعت تضاد کی رعنائیاں بھی ہیں ۔گویا آپ کے اصلاحی اشعار بھی فصاحت و بلاغت کے آءینہ دار ہیں۔
اچھا ہوا کہ شر کے نشیمن کو برق خیر گر کر جلا گئی مجھے تسکین مل گئی
یہ شعر علامتی ہے۔شر اور خیر دونوں کو علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔شر سے مراد کیا ہے اور خیر کے مراد کیا ہے،؟
یہ الفاظ اور یہ شعر معنی میں بے پناہ وسعت لیے ہوئے ہیں ۔شر سے مراد بُرائی، کفر، شرک، وغیرہ اور خیر سے مراد اسلام، غزوات، ہدایات نبوی وغیرہ۔
اس شعر میں صنعت تجنیس زائد اور صنعت طباق کا حسن بھی جلوہ گر ہے۔
مقطع بھی خوب میں ہے ۔اس شعر میں تعلی کے ساتھ ساتھ پیکر تراشی اور ندرت خیالی کا حسن بھی جلوہ گر ہے۔
لمبی ردیف والا ایک اور نعتیہ کلام نظر سے گزرا جو علامہ قدسی کے رشحات قلم سے ہے۔
اس کلام میں ردیف ہے ہم نبی کے ہوگئے۔
اس کلام میں نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی اہمیت کو مختلف انذار سے پیش کیا گیا ہے۔کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے قسمت پرنور ہونے کی بات کی گئی ہے تو کبھی شان و عظمت مسلم ہونے کی۔کبھی نسبت کے سبب شفاعت رسول کا ذکر کیا گیا ہے تو کبھی خود کا بیش قیمت ہونے کی بات کہی گئی ہے۔اس کلام کا مطلع یوں ہے :
رب اکرم کی عنایت ہم نبی کے ہوگیے
ہوگءی پرنور قسمت ہم نبی کے ہو گیے
اس شعر میں تجنیس زاءد کا حسن بھی ہے
صنعت محاورہ کے جمال سے مزین شعر ملاحظہ فرمائیں:
موت آءیگی لگاءینگے گلے سے ہم اسے
تاکہ ان کی ہو زیارت ہم نبی کے ہوگیے
علامہ قدسی کا یہ شعر بھی بہت پسندیدہ ہے:
ہے لبوں پر ذکر ان کا روز و شب صبح و مسا
پڑ گئی اب ایسی عادت ہم نبی کے ہوگیے
اس شعر میں صنعت مراعات النظیر کا حسن جلوہ گر ہے۔تشبیہ مؤکد کی خوشبو سے معطر یہ شعر بھی بہت نرالا ہے:
یوں ہے پھیلی ان کی اب یادوں کی خوشبوءے لطیف
بن گیا دل باغ جنت ہم نبی کے ہوگیے
اس شعر میں دل کو جنت کے باغ سے تشبیہ دی گءی ہے ۔دل مشبہ ہے اور باغ جنت مشبہ بہ۔
اور وجہ تشبیہ ہے خوشبو۔جس دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد بسی ہو اس کی خوشبوءے لطیف کا کیا کہنا۔چونکہ اس شعر میں حرف تشبیہ نہیں ہے لیکن تشبہ، تشبہ بہ اور وجہ تشبیہ موجود ہیں اس لیے اس تشبیہ کو تشبیہ مؤکد کہا جاءیگا۔
گویا علامہ قدسی کے کلاموں میں تشبیہ مؤکد بھی ہے اور تشبیہ بلیغ بھی۔پیکر تراشی لمسی بھی ہے اور پیکر تراشی سمعی و بصری بھی ۔استعارے کی رعنائیاں بھی ہیں اور علامت نگاری کا جمال بھی ۔
صنعت طباق و صنعت تجنیس بھی ہیں اور صنعت تلمیح و صنعت ترصیع بھی۔
***