You are currently viewing علمائے دیوبند اور اردو ادب: ایک نظر میں

علمائے دیوبند اور اردو ادب: ایک نظر میں

ندیم احمد انصاری

شعبۂ اردو، الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن

علمائے دیوبند اور اردو ادب: ایک نظر میں

’علماے دیوبند اور اردو ادب‘ مولانا عبداللہ حیدرآبادی،فاضلِ دیوبند، کی اپنے موضوع پربے نظیر اور اولین تصنیف ہے۔اس سے قبل شاید علماےدیوبند کو موضوع بنا کر اس جہت سے کام نہیں کیا گیا۔ کتاب نایاب ہے اور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ ہمیں سالہا سال کی مسلسل تگ و دو کے بعد کتاب کا عکس حاصل ہو سکا۔ ادب کے طالبِ علموں کے لیے یہ ایک قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ مصنف کی تمام آرا سے متفق ہونا تو ممکن نہیں، لیکن معلومات میں اضافہ اور ذہن کے دریچوں کو کھولنے، نیز تاریخِ ادب کو مالامال کرنے کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ عبداللہ حیدرآبادی نے یہ کتاب ایک خاص مقصد اور جذبے کے تحت تصنیف کی، ’احوالِ واقعی‘ میں وہ لکھتے ہیں:

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ علماے دیوبند شعر و سخن سے عاری اور اردو زبان پر احسان کرنے سے قاصر رہے ہیں، ان کا یہ خیال اور قول بعید از صداقت ہے۔ خاک سار نے ثبوتِ شعریت اور ادبیت کے سلسلے میں تقریباً ہر ایک کا نمونۂ کلام (نثرونظم) پیش کیا ہے اور ان حضرات کی تصانیف بھی ذکر کر دی ہیں۔

کتاب کی ضخامت فقط 167 صفحات ہے، اس کے باوجود اپنی بات کو ثابت کرنے میں مصنف کام یاب نظر آتے ہیں۔ دو ایک جگہ اس بات کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ مصنف نے سہل پسندی یا جلدبازی سے کام لیا ہے، خصوصاً حضرت مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی نذر فقط ایک صفحہ کیا گیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے لکھتے لکھتے اچانک ’قلم بند‘ کر دیا۔ حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ پر لکھے گئے مضمون میں بھی  صرف ایک مرثیے کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن یہ تفصیل کا موقع نہیں۔

 مصنف کا کہناہے:

بعض احباب کی رائے کی روشنی میں جی چاہتا تھا کہ کتاب اگر ضخیم ہو جائے تو اچھا ہے، مگر یہ دیکھتے ہوئے کہ زمانے کا مذاق بدل چکا ہے، عام طور پر بزرگوں کے احوال اور ان کے علم و ادب کے مطالعے کا شوق مفقود ہے، اگر کہیں کچھ باقی بھی ہے تو کتاب کی طوالت اور ضخامت کو دیکھ کر لوگ کچھ گھبرا جاتے ہیں اور اس کو سونگھ کر وہیں چھوڑ جاتے ہیں، اس لیے میں نے کتاب کی ضخامت کو بڑھانے کے بجائے جامعیت کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔

کتاب میں تاریخِ تصنیف، تکمیل یا اشاعت درج نہیں،اندازہ یہ ہے کہ پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہوگا، اس بات کو ذہن میں رکھنے سے مصنف کی باتوں کو صحیح پس منظر میں سمجھنا آسان ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:

زیادہ عرصہ نہیں گزرا، صرف پچاس سال پہلے تک قابلیت کا معیار عربی اور فارسی کی مہارت تسلیم کی جاتی تھی، علماےدیوبند اور ان کے پیش رو بزرگ یعنی خاندانِ ولی اللّٰہی کے علماے کرام کی مسلّمہ قابلیتیں بھی اظہارِ مافی الضمیر کے لیے غیر اختیاری طور پر فارسی عربی ہی کو ترجمان بناتی تھیں۔اس کے باوجود اردو زبان کی جس طرح سرپرستی کی، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اب سے تقریباً پونے دو سو برس پہلے جیسے ہی اردو نے حریمِ علم کی طرف آرزومندانہ اور للچاتی ہوئی نظروں سے تاکنا شروع کیا، سیدنا حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒکے خلف الرشید اور فرزندِ ارجمند سیدنا حضرت شاہ عبد القادر صاحبؒنےاس نوخیر زبان کو کلام اللہ شریف کی ترجمانی کے لیے منتخب فرما لیا، پھر اس سلسلے کے جانشینِ علم میں جن بزرگوں کے اسماے گرامی تاباں ہیں -جنھوں نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا اور اپنی جد و جہد سے اس کو مرکزِ علوم کی حیثیت دی- ان بزرگوں نے زبانِ اردو کے دامن کو حدیث، تفسیر، فقہ، تاریخ اور علمِ کلام کے جواہر سے دولت مند بنایا۔

علماےدیوبند کی ادبی خدمات کا اعتراف کرنے میں ہمیشہ بخل سے کام لیا گیا، جب کہ ان کی خدمات اس میدان میں بھی قابلِ ذکر ہیں۔علماےدیوبند اردو ادب میں مشہور کیوں نہیں ہوئے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا عبد اللہ حیدرآبادی مقدمے میں رقم طراز ہیں:

جب اردو ادب ایک فن کی حیثیت سے اسکولوں اور مدرسوں کے کورس میں داخل کیا گیا تو ادبی کتابیں اور ان کے اقتباسات ہی کورس کا جُز بنائےگئے، یہ بزرگ ادیبانہ حیثیت سے اردو کے اسٹیج پر جلوہ افروز نہیں ہوئے تھے، لہٰذا ان کی کوئی تصنیف بھی کورس میں داخل نہیں کی گئی۔ بس اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ نے انھیں کو اردو زبان کا معمار اور مربی سمجھا جن کی کتابوں کے اقتباسات ان کے مطالعے میں آئے تھے۔

زبان و ادب اور شعر و شاعری میں علماےدین عام طور سے کبھی بھی مستقل مشغول نہیں ہوئے، اس کی سب سے بڑی وجہ قرآن مجید میں وارد وہ آیت ہے جس میں سرورِ کائنات ﷺ کے متعلق ارشادِ ربانی ہے:

وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَهٗ   ۭ[یٰس]

ترجمہ:اور ہم نے اپنےپیغمبر کو نہ شاعری سکھائی ہے، اور نہ وہ ان کے شایان شان ہے۔

اس لیے علماےدیوبند کی بابت مصنف کا یہ کہنا درست ہے کہ

ان حضرات نے بھی شعر کو اپنا پیشہ یا مخصوص فن نہیں بنایا، لیکن شعریت ذکاوتِ حِس اور ذہانتِ فکر کا فطری جوہر ہے، یہ حضرات-جن کو ذہانت و ذکاوت کے بھرپور خزانے عطا ہوئے تھے- شعریت سے تہی دامن کس طرح ہو سکتے تھے؟ چناں چہ غیراختیاری طور پر ان بزرگوں کے فکرِرسا نے خاص خاص حالات اور خاص خاص موقعوں پر قصیدے، نظمیں اور غزلیں موزوں کیں۔

مولانا عبداللہ حیدرآبادی کا درجِ ذیل بیان بھی بالکل درست ہے اور اہلِ علم اس سے اتفاق کریں گے کہ:

جب شاعری حدِ جواز میں ہو توکسی فرد کے لیے باعثِ ننگ نہیں، چناں چہ اسی وجہ سے صحابہ، تابعین، تبعِ تابعین، ائمہ وغیرہ میں سے کئی ایک فصیح شاعر، خطیب اور ادیب تھے، ان کے خطبے، مقالے وغیرہ ان کی زندگی کی یادگاریں بن کر رہ گئے۔

مصنف درجِ ذیل رائے میں بھی صائب ہیں، اور شاید کسی بھی اہلِ نظر اہلِ علم کو اس حقیقت سے انکار نہ ہوگا:

یہ بزرگ اگرچہ اردو ادب اور شعر و سخن کے استاذ نہیں مانے گئے، تاہم ان کی فکرِ نازک اور طبعِ رسا نے جب بھی اس میدان میں جولانی کی ہے تو ان کے قدم ماہرینِ فن کے قدموں کے ساتھ ساتھ رہے ہیں اور اپنی تصنیفات اور تالیفات کے لحاظ سے اردو زبان کے محسنین کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔

مولانا عبد اللہ حیدرآبادی نے کتابِ ہٰذا میں چھبیس علماے دیوبند کی ادبی خدمات کا تعارف کروایا ہے، آگے اس کتاب کی تلخیص پیش کی جائےگی اور حسبِ ضرورت ترمیم و اضافوں سے بھی کام لیا جائےگا۔

[۱]حاجی امداداللہ مہاجرِ مکّی:

حضرت موصوف ’علماے حق‘ کے مصنف کی ترتیب کے مطابق پہلے طبقے کے میرِکارواں اور سیدالطائفہ ہیں یعنی جس طرح ولیؔ دکنی کو شعرا کا باوا آدم کہا جاتا ہے اور سنجیدہ تعبیر میں جس طرح ولیؔ دکنی کو اولیت کا تاج پہنایا جاتا ہے، اسی طرح حضرت حاجی صاحب علماےدیوبند کے قافلے میں ولیؔ دکنی ہیں، جو نظم و نثر، فارسی، اردو میں مقامِ اولیت رکھتے ہیں۔ آپ کی زندگی تصنع سے پاک تھی، آپ نے اپنے تخلص میں بھی تصنع پسند نہیں کیا، امداداللہ نامِ نامی تھا، اختصار کر کے ’امداد‘ تخلص رکھا۔ آپ حقیقت پسند بزرگ تھے، آپ کی شاعری میں بھی یہی شان نمایاں ہے۔ جذباتِ عشق و محبت، سوز و گداز اور وہ سب کچھ جو غزل کے لیے درکار ہے، آپ کے کلام میں موجود ہے، مگر یہ عشق ومحبت مجازی نہیں، حقیقی ہے، لہٰذا تمام کلام معرفت ِ ربّانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

’دردنامۂ غم ناک‘ کو لیجیے، اس میں کیفیتِ عشق، دورِ جدائی، طلبِ دیدار، سوز و گداز، شکوہ و شکایت سب کچھ موجود ہے۔ ’جہادِ اکبر‘ میں کیفیتِ عشق، غم و اندوہ، اضطراب و بےقراری کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ نفس کو دنیا سے منھ موڑ کر خالقِ اکبر کی طرف لَو لگانے کی تعلیم دی جا رہی ہے، اسی کے مناسب لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔’دردنامہ‘ اور ’جہادِ اکبر‘ میں مثنوی کا رنگ جھلکتا ہے اور ’گلزارِ معرفت‘ میں رنگِ تغزل نظر آتا ہے، یہ منظوم رسالہ عشقِ ازلی، حبِ رسالت و معرفت سے لبریز ہے۔ یوں تو اس میں چودہ معرفت کی اور چار فارسی کی اور پانچ نعتیہ غزلیں ہیں، نیز ایک شجرہ سلسلۂ بیعت فارسی میں اور ایک رباعی آخر میں درج ہے۔

رُباعی

ہے برا اچھا جو سمجھے آپ کو

اور بالا سب پہ کھینچے آپ کو

مردمِ دیدہ سے سیکھ امدادؔ تو

سب کو دیکھے اور نہ دیکھے آپ کو

نعتیہ غزلوں کے چند اشعار

لانے لگی اب بادِ صبا بوئے مدینہ

دل اڑنے لگا ہو کے ہوا سوئے مدینہ

وہ چھوٹ گیا بند دو عالم سے سراسر

جو پھنس گیا اندر غم گیسوئے مدینہ

**

لالہ و گلشن و گل کی نہیں پروا ہم کو

کثرتِ داغ سے ہے سینہ گلستاں اپنا

آ سکے غیر تِرے خانۂ دل میں کیسے

کہ خیال رخِ دل دار ہے درباں اپنا

وسعتِ دل کی کیا کرتے ہیں سیر اے امدادؔ

کہ یہی باغ ہے اپنا یہی میداں اپنا

ان مذکورہ اشعار سے حضرت اقدس حاجی صاحبؒکی قادر الکلامی صاف ظاہر ہے۔ اربابِ فن غور فرما لیں کہ کس خوبی اور روانی کے ساتھ مضامین کے حسن کو قائم رکھا گیا ہے، اس زمین کا کون سا قافیہ ہے جس کو سلیقے کے ساتھ استعمال نہ کیا گیا ہو؟ طرزِ افہام و تفہیم کا یہ عالم کہ مضمون دل میں اترتا چلا جاتا ہے، جس سے شاعر کی مہارت اور قدرت ظاہر ہوتی ہے اور یہ ہی بہترین شاعر اور ادیب کا جوہر ہے کہ جذبات کو برانگیختہ کرے، بہ ہر حال حاجی صاحب کو شاعری میں ملکہ حاصل تھا۔

[۲]مولانا محمد قاسم نانوتوی:

حضرت مولانا موصوف کے دینی، علمی، اصلاحی، مجاہدانہ کارنامے مستغنی عن التعارف ہیں یا یوں کہیے کہ اظہر من الشمس ہیں، ہاں البتہ صرف ادیب اور شاعر کی حیثیت سے آپ کو اور آپ کے کارناموں کو بہت کم افراد جانتے ہیں۔

مولانا خود بے پناہ ذہین و ذکی اور فطری شاعر تھے، اس پر شعری ماحول کے اثرات اور اساتذہ و شیوخ کی توجہات نے سونے پر سہاگا کا کام کیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آگے چل کر دارالعلوم دیوبند کا یہ مؤسس اعلیٰ درجے کا فصیح، بلیغ، خطیب، مناظر، شائستہ قلم انشا پرداز اور سخن سنج شاعر بن کر جولان گاہِ عمل میں نمودار ہوا۔ آپ کی تقریر ہو یا تحریر، خواہ مکتوبات کی شکل میں ہو یا علمی رسائل کے رنگ میں، اگر آپ ملاحظہ فرمائیں گے تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ آپ کے جملہ خطبات یا تصنیفات میں عالمانہ رنگ غالب ہے، طرزِ تحریر میں صفائی اور سادگی کے علاوہ ایک قسم کا زور ہے۔ تشبیہ اور استعارے کی چاشنی بھی جا بہ جا لطف پیدا کر دیتی ہے۔ بہ ہر حال متانتِ بیان، پختگیِ کلام، زورِ الفاظ اور ندرت و جلوت ہر جگہ جلوہ فرما ہے۔

’قصائدِ قاسمی‘ میں اردو، عربی، فارسی تینوں زبانوں میں آپ کا پاکیزہ کلام ہے، اردو میں ’قصیدہ بہاریہ در نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘ ہے، جس کے ڈیڑھ سو اشعار ہیں۔تمہیدی اشعار زور و شور کی اٹھان کے ساتھ پُر معنی و پُر مغز ہیں۔ اسی اٹھان کے ساتھ اشعار کا سلسلہ بڑی دور تک چلا گیا ہے، جسے ہم نے طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کیا۔ طویل تمہید ختم کرتے ہوئے مولانا فرما رہے ہیں:

ثنا کر اس کی فقط قاسمؔ اور سب کو چھوڑ

کہاں کا سبزہ کہاں کا چمن کہاں کی بہار

ثنا کر اس کی اگر حق سے کچھ لیا چاہے

تو اس سے کہہ اگر اللہ سے ہے کچھ درکار

مولانا نے سرورِ کائنات ﷺ کے مختلف اوصاف اور کمالات کو اجاگر کرنے کے بعد اپنے مدعا کو جا بہ جا جدت و جودت کے ساتھ پیش کیا ہے، مثلاً ایک جگہ بارگاہِ نبوت میں عرض کر رہے ہیں:

تو بہترین خلائق میں بدترینِ جہاں

تو سرورِ دو جہاں میں کمینہ خدمت گار

بہت دنوں سے تمنا ہے کیجیے عرضِ حال

اگر ہو اپنا کسی طرح تیرے در تک بار

وہ آرزوئیں جو مدتوں سے دل میں بھری

کہوں میں کھول کے دل اور نکالوں دل کا بخار

مگر جہاں ہو فلک آستاں سے بھی نیچا

وہاں ہو قاسمؔ بے بال و پر کا کیوں کر گزار

اس طرح موقع بہ موقع مختلف تعبیرات میں اپنی تمناؤں کو پیش کر چکنے کے بعد نبی کریم ﷺ پر درود شریف پڑھنے کے لیے مولانا اپنے نفس سے خطاب کر رہے ہیں:

بس اب درود پڑھ اس پر اور اس کی آل پر تو

جو خوش ہو تجھ سے وہ اور اس کی عشرتِ اطہار

الٰہی اس پہ اور اس کی تمام آل پہ بھیج

وہ رحمتیں کہ عدد کر سکے نہ ان کو شمار

حضرت نانوتویؒ کے خطوط بھی ادبی حیثیت سے اپنی جگہ مسلّم ہیں۔ زمانے کی ناقدری کا کیا علاج کہ اس نے اس طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، حالاں کہ آپ کے خطوط کی طرزِ نگارش میں غالبؔ کا رنگ جھلکتا ہے، خواہ سادگی کے لحاظ سے ہو یا قافیہ آرائی کے لحاظ سے۔

پھر مصنف نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ہر دو حضرات کے دو دو مکتوب پیش کیے ہیں اور موازنے و تقابل کے بعد لکھا ہے کہ ان دونوں خطوط کو پیش کرنے سے ہمارا منشا یہ ہے کہ باہمی قدروں کے اشتراک کا اندازہ ہو سکے اور مخاطب کہہ اٹھے کہ واقعی غالبؔ کے خطوط کی طرح آپ کے خطوط میں بھی لطافت، سادگی، بےساختگی، قافیہ بندی وغیرہ کا پورا ظہور ہے۔

آخر میں لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا نانوتویؒ نے اردو کی جو خدمات انجام دی ہیں ان سے اہلِ نقد و نظر کے چشم پوشی کرنے پر حیرت بھی ہے اور شکایت بھی! غور طلب بات ہے کہ چوں کہ آپ کے اور دیگر اکابر علماے دیوبند کے خطبات اور تصنیفات کا اصل اور ماخذ قرآن و حدیث اور دیگر احکامِ شریعت ہوتے ہیں، اس لیے ان کا عموماً شوق اور رغبت سے مطالعہ اور استفادہ نہیں کیا جاتا اور بعض لوگ بہ وجہ ناواقفیت کے ان کے مطالعے کی کوشش نہیں کرتے، اب آپ بتلائیے کہ قصور کس کا ہے؟

[۳]مولانا رشید احمد گنگوہی:

حضرت امام ربانیؒ فقہ اور حدیث کے ایک جلیل الشان مبصر اور فقید المثال ماہر ہیں جنھوں نے مسائلِ فقہیہ کو احادیث پر منطبق کر کے درسِ حدیث کا ایسا طرز قائم فرمایا جو یقیناً بے نظیر اور ضروری تھا۔ آپ کی اردو میں تصانیف جس قدر بھی ہیں ان میں سادگی اور صفائی بہ درجۂ احسن موجود ہے۔ تصنع اور آورد کا کہیں نام نہیں، جس مضمون کو ادا کرتے ہیں نہایت سادہ عبارت میں تحریر کرتے ہیں، اگرچہ رنگ عالمانہ زیادہ نمایاں ہے، لیکن خیالات کا تسلسل اور زبان کی پختگی خود بہ خود دل پر اثر کرتی ہے۔

یہ درست ہے کہ آپ شاعر نہ تھے، لیکن یہ ضرور ہے کہ حسبِ حال کسی کا شعر پڑھنا خوب جانتے تھے، گویا شاعر نے خاص اسی موقع کے لیے کہا ہے۔ کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ کو اگر شعر سمجھنے کی صلاحیت تھی تو شعر کہنے پر قدرت بھی تھی، یہ اور بات ہے کہ آپ نے کوئی شعر موزوں نہیں فرمایا۔ تاہم دیگر شعرا کا کلام آپ کے پیشِ نظر تھا، کھرے کھوٹے کا امتیاز تھا۔ برمحل، حسبِ موقع کسی کا شعر چسپاں کرنا آپ کو خوب آتا تھا۔

[۴]مولانا محمد یعقوب نانوتوی:

آپ مولانا مملوک علی نانوتویؒ، مدرسِ اعلیٰ مدرسہ دہلی کے صاحب زادے تھے اور دارالعلوم دیوبند کے صدرالمدرسین تھے۔ آپ کی فیضِ صحبت سے بڑے باکمال علما منظرِ عام پر آئے۔ آپ کو شعر و سخن سے بھی لگاؤ تھا، بلکہ یوں کہیے کہ ذوق تھا، چناں چہ ’بیاضِ یعقوبی‘ میں کئی ایک غزلیں، نعتیں، قطعات وغیرہ عربی، فارسی، اردو زبان میں ہیں۔ آپ شاعری میں گمنامؔ تخلص فرماتے تھے۔

رباعی

جس کو نہ سما سکا ہو یہ ارض و سما

اس جائے میں کس طور سے وہ جائے سما

گمنامؔ یہ بھید اور کچھ ہے ورنہ

اِک مضغۂ گوشت کی حقیقت ہی کیا

کلام اپنی جگہ نہایت اہم اور اونچا ہے، آپ نے حدیثِ قدسی ( بہ اعتبارِ روایت بالمعنی) :لا يَسَعُني أرضي ولا سَمائي ولكِن يَسَعُني قَلبُ عَبدِيَ المُؤمِن. یعنی یہ کہ: نہیں وسعت رکھتی میرے لیے زمین اور میرا آسمان، مگر وسعت رکھتا ہے میرے لیے دل، میرے بندۂ مومن کا۔ مومن سے مراد مومنِ کامل ہے۔

آپ نے ایک قصیدہ میمیہ نعتِ سید الابرار کے عنوان سے لکھا ہے، جس کے اشعار دو سو سے زائد ہیں۔ ہم ان میں سے چند اشعار پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے اور لطافتِ تخیل، وسعتِ نظر، واقعیت، سادگی، شیرینی، جدتِ ادا کی داد دیجیے:

تمام تم نے کیا آ مکارمِ اخلاق

کہ جس کو دیکھ کے چکرائے گردشِ ایّام

تمھارا نور ہوا اصل نور ہستی کا

زبان آپ کی اور اس پہ ہے خدا کا کلام

اسی کی ذات سے ظاہر ہوا یہ سب عالم

ملا ہے آپ کو اس بزم میں پہلا جام

یہاں ہے وہم غلط کار عقل ہے ششدر

سمجھ نے تھک کے کیا آخر اپنی جا آرام

خدا ہے عارف و مداح ذاتِ عالی کا

کہ اس سے رتبۂ عالی نہ ہو بلند مقام

خدا کے بندۂ مقبول ابنِ عبداللہ

تمھیں ہو سیدِ عالم، ہیں سب تمھارے غلام

[۵]مولانا ذوالفقار علی دیوبندی:

آپ شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحبؒکے والد ماجد اور حضرت مولانا مملوک علی صاحبؒکے تلامذہ میں سے نیز دارالعلوم دیوبند کے خیرخواہ اور رکنِ مجلس اور اکابر میں سے ہیں اور عربی زبان کے بہترین ادیب ہونے کے علاوہ ادبِ اردو سے بھی مناسبت رکھتے تھے اور اردو شعرا کے سیکڑوں اشعار آپ کی نوکِ زبان پر تھے۔ ہماری اس بات کی موئید ’تذکرۃ البلاغت‘ ہے۔ یہ کتاب اردو زبان میں آپ کی سب سے پہلی تصنیف ہے، جس میں علمِ معانی و بیان اور بدیع کے اصطلاحی پہلوؤں پر وضاحت سے آپ نے روشنی ڈالی ہے، مثالوں میں اساتذۂ فن کے اشعار کا استعمال کیا ہے، جن سے آپ کی حاضر دماغی اور ذوقِ صحیح اور کمالِ علمی کا ظہور ہوتا ہے۔

اس عظیم الشان اور سنہری کتاب کے علاوہ اردو زبان میں متعدد عربی ادبی کتب کے تراجم ہیں، چناں چہ ’دیوانِ حماسہ‘، ’دیوانِ متنبی‘، ’سبعہ معلقات‘، ’قصیدہ بردہ‘، ’قصیدہ بانت سعاد‘ کی مفید شروح- تسہیل الدراسۃ، تسہیل البیان، التعلیقات، عطرالوردہ، الارشاد اور الہدایۃ السنیۃ کے ناموں سے موسوم ہیں-آپ کی بہترین علمی یادگار ہیں۔ایک جلیل القدر عالم، ادیب، شارح و مترجم کی تصانیف اردو کے دامن میں ہوں اور پھر انھیں نظرانداز کیا جائے، یہ کچھ مناسب بات نہیں، بلکہ عقل اور عدل سے بہت بعید ہے۔

[۶]مولانا فضل الرحمن عثمانی دیوبندی:

دارالعلوم دیوبند کی سب سے پہلی مجلسِ شوریٰ جن ارکان پر مشتمل تھی، ان میں آپ کا اسمِ گرامی بھی تھا۔ آپ کو شعر و شاعری سے لگاؤ تھا اور اچھے شاعر تھے۔ نمونۂ کلام یہ ہے:

اس کے بانی کی وصیت یہ ہے کہ اس کے لیے

کوئی سرمایہ بھروسے کا ذرا ہو جائےگا

پھر قندیلِ معلق اور توکل کا چراغ

یہ سمجھ لینا کہ بے نور و ضیا ہو جائے گا

ہے توکل پر بنا اس کی تو بس اس کا معین

اِک اگر جائےگا پیدا دوسرا ہو جائےگا

یہ الفاظ اس مضمون کی طرف مشیر ہیں کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒنے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کو قندیلِ معلق سے تشبیہ دی ہے، جو توکل اور اعتماد علی اللہ کی سنہری زنجیر میں آویزاں ہے۔

[۷]مولانا محمود حسن دیوبندی:

آپ دارالعلوم کے سب سے اول تلمیذِ رشید ہیں۔ آپ کی عبارت صاف اور سلجھی ہوئی ہوتی ہے اگرچہ منطقی استدلال اور تحقیق و تدقیق کا مادہ پایا جاتا ہے، لیکن پھر بھی صفائی اور سلاست پر کہیں کہیں صنائع بدائع کی رنگینی و دل کشی اور شگفتگی پیدا کر دیتی ہے۔ عام طور پر اندازِ بیان میں زور اور عبارت میں توازن پایا جاتا ہے۔ بہ ہر حال آپ ایک محقق، وسیع النظر اور زبردست مصنف تھے۔موزونیتِ طبع، نظم کا شوق، شعر و شاعری کا مذاق ایامِ طالبِ علمی ہی سے تھا، قدیم اساتذہ اور مستند شعرا مثلاً غالبؔ، ذوقؔ وغیرہ کے صدہا اردو،فارسی اشعار آپ کو از بر تھے۔ آپ ایک باکمال شاعر ہیں۔ بلند تخیل، لطیف تغزل، عمیق فلسفہ، جذبات کی صداقت اور اندازِ بیان کی ندرت کلام میں جان ڈالتے ہیں، پھر قرآن و احادیث کے مضامین کی طرف لطیف اشارات اس جان میں روحِ ایمان بھر دیتے ہیں۔

آپ نے مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا احمد حسن امروہوی اور مولانا غلام رسول کی وفات پر مرثیے کہے تھے۔ یہاں صرف ایک شعر ملاحظہ کیجیے جو حضرت شیخ الہند کی زبان پر بے ساختہ نکل پڑا جب کہ حضرت نانوتوی کو دفن کیا جارہا تھا۔ دیکھیےکس قدر معنی خیز شعر ہے؎

مٹی میں کیا سمجھ کے دباتے ہو دوستو

گنجینۂ علوم ہے یہ گنجِ زر نہیں

مناجات نما دو شعر ملاحظہ فرمائیے:

نفس و ابلیس کے پھندے میں پھنسا ہوں لیکن

دل سے اقرار یہی ہے کہ ہوں بندہ تیرا

ہم سیہ بخت اگر آئیں، ناکام رہے

کیسے جانیںگے کیا فضل ہے ربّا تیرا

آپ نے حضرت شیخ الہند کی نظموں کے نمونے ملاحظہ فرمائے، اب نثر پر بھی نظر کیجیے:

آپ میں جو حضرات محقق اور باخبر ہیں، وہ جانتے ہوںگے کہ ہمارے بزرگوں نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم و فنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا، ہاں بے شک کہا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگے جائیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب اور اپنے مذہب والوں کا مذاق اڑائیں یا حکومتِ وقت کی پرستش کرنے لگیں، تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے۔

دیکھیے حضرت شیخ الہند کی تحریر میں پاکیزگی اور ستھرائی کے علاوہ عزم کی کیفیت ملتی ہے، ہر جملے میں ایک وزن اور وقار ہے، ہر سطر میں ایک تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ اجنبی زبان سیکھنے سے متعلق دلیل ایسی دل نشین اور طرزِ ادا ایسا متین کہ سلیم الطبع کے لیے باعثِ تسکین ہے۔

[۸]مولانا احمد حسن امروہوی:

آپ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کے مخصوص اور ممتاز تلامذہ میں سے ہیں۔ بہ قول مولانا نسیم احمد فریدیؒ: قیامِ مدرسہ امروہہ کے چند سال بعد دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ نے حضرت محدثِ امروہویؒکو دارالعلوم دیوبند میں بلا لیا۔ حضرت شیخ الہند کو اور آپ کو برابر درجے پر رکھا گیا، البتہ حضرت مولانا امروہوی کی تنخواہ قدرے زیادہ رکھی گئی۔ حضرت مولانا وہاں پر غالباً دو ماہ سے زائد نہیں رہے۔

آپ کی تحریر میںحضرت نانوتویؒ کی تحریر کا رنگ جھلکتا ہے جس کی تائید مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ کا یہ جملہ کرتا ہے کہ ’حضرت قاسم العلوم و الخیرات کے دقیق اور غامض علوم کو ان ہی کے لب و لہجے اور طرزِ ادا میں نہایت صفائی اور سلاست کے ساتھ بیان فرماتے تھے‘۔ آپ چوںکہ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور ایک عظیم اور جلیل القدر اردو کے مصنف کو نظر انداز کرنا بعید از عدل ہے، اس لیے ہم نے اپنی کتاب میں آپ کا تذکرہ کیا ہے۔

[۹]مولانا اشرف علی تھانوی:

آپ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒکے تلمیذِ رشید ہیں، علاوہ ازیں شیخ الہندؒ کی شاگردی کا بھی آپ کو شرف حاصل ہے۔ اگر ہم یہ دعویٰ کریں تو غلط نہ ہوگا کہ کثرتِ تصانیف کے لحاظ سے اردو کا کوئی مصنف بہت ہی مشکل سے آپ کے مقابلے میں پیش کیا جا سکےگا اور غالباً صحیح یہ ہے کہ نہیں پیش کیا جا سکتا۔

آپ کی عبارت میں علمی اور حکیمانہ عمق ہوتا ہے، لیکن مضمون اس قدر سلجھا ہوا ہوتا ہے کہ لفظ لفظ میں تاثیر ہوتی ہے اور مطلب اور مدعا نہایت آسانی سے ذہن نیشن ہو جاتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ آپ نے لب و لہجہ اور اندازِ بیان ہر فن کے مناسب اختیار فرمایا ہے، مثلاً ’بہشتی زیور‘ کو لیجیے، اس میں جدت کے ساتھ دل آویزی اور عام فہمی کا خیال ملحوظ رکھا ہے اور وہ اردو محاورات اور عام فہم زبان کی بہترین مثال ہے۔’تفسیر بیان القرآن‘ کو لیجیے، اس میں کتابی تحریر ہے، جسے حضرت تھانویؒ نے بعض وجوہ سے قصداً اختیار فرمایا ہے۔ بہ ہر حال تسلیم کرنا ہوگا کہ محسنینِ اردو میں آپ کا مرتبہ بلند ہے۔ آپ فارسی کے بہترین شاعرتھے اور اردو میں بھی آپ شعر کہتے تھے۔ ’مناجاتِ مقبول‘ آپ کے اردو کلام کا مقبول شاہ کار ہے۔

[۱۰]مولانا حافظ محمد احمد نانوتوی:

آپ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے خلف الرشید تھے۔ 1313ھ میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قرار دیے گئے۔ 1341ھ تا 1344ھ آپ ریاستِ حیدرآباد (دکن) میں عدالت العالیۃ (ہائی کورٹ) کے مفتیِ اعظم رہے۔ آپ کو ’شمس العلما‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔

جس قدر بھی آپ نے مضامین تحریر فرمائے ہیں، ان کے مطالعے سے آپ کی ادبیت اور تحریری صلاحیت بہ خوبی ظاہر ہوتی ہے۔ نمونہ ملاحظہ کیجیے:

اے مومنو نوید ہے دربارِ عام کی

آئے ہیں دن صیام کے راتیں قیام کی

آسمان پر رمضان المبارک کا چاند جلوہ گر ہے، زمین اس کی نورانیت سے جگمگا رہی ہے، جود و سخائی مخمل کا فرش بچھا ہوا ہے، رافت کے فوارے جوش زن ہیں، عنایت کے گل دستے رکھے ہوئے ہیں، مغفرت کے پنکھے کھنچ رہے ہیں، کرم کے شامیانے تنے ہوئے ہیں، انوار کی قندیلیں روشن ہیں، رحمت کے گلاب پاش چھڑکے جا رہے ہیں، بندہ نوازی کی گھٹائیں امڈی چلی آرہی ہیں، انعام و عطا کی بارش کا آغاز ہے، لطف کی جھڑی لگی ہوئی ہے، نسیمِ رحمت سَن سَن چلتی ہے اور دلوں کی خزاں رسید کلیوں کو اپنی مسیحائی سے زندہ جاوید بنا دیتی ہے، تیس دن تک یہی برکات ہیں، دن عید اور رات شبِ برات ہے، منادی ندا کررہا ہے کہ اے رضاے مولیٰ کو طلب کرنے والو! اس دربار میں شریک ہو جاؤ! اور اے گنہ گارو گناہوں سے باز آو!

دیکھیے اس مضمون میں ایک خاص قسم کی ادبی چاشنی ہے، الفاظ کی سجاوٹ ہے، جملوں کی خوب صورت ترتیب ہے، خیالات کی رنگینی کے ساتھ علم کی خوش بو محسوس ہوتی ہے، الفاظ و تراکیب کے حسین مجموعے میں بنیادی افادیت بھی ہے۔

[۱۱]مولانا حبیب الرحمن دیوبندی:

آپ کا شمار حضرت شیخ الہندؒ کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا ہے، یوں تو آپ متبحر عالِم اور عربی کے بہترین ادیب تھے، لیکن اس سے بھی انکار (کی) مجال نہیں کہ آپ اپنے دور کے اہلِ قلم حضرات میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے، اس بات کے شاہد دارالعلوم دیوبند کے مجلّے القاسمؔ اور الرشیدؔ ہیں، جو آپ کی زیرِ ادارت منظرِ عام پر آئے تھے۔ یہ واقعہ ہے کہ دونوں رسالے علمی حلقوں میں بہت مقبول ہوئے۔ ’القاسم‘ کا نام سرکاری رپورٹ میں بھی ان رسائل کے ذیل میں درج ہے جنھوں نے اردو علم و ادب میں ترقی کا حصہ لیا ہے، چناںچہ ماہِ اپریل 1912ء کے ’ادیب، الٰہ آباد‘ میں جو مضمون سرکاری رپورٹ صوبہ جات متحدہ کی بابت نقل ہوا ہے، اس میں اور رسالوں کے ساتھ القاسم، دیوبند کا نام بھی ہے۔

یہ بات القاسم کے لیے کچھ کم فخر کی نہیں ہے کہ اس کی دو سالہ زندگی میں اس کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ ہر طبقۂ انام میں وسعت پذیر رہا۔ بہ ہر حال ایک طرف القاسم میں جلیل القدر علماے دیوبند کے معیاری مضامین ہوتے تو دوسری طرف آپ اس کے مدیر تھے۔ ادیبِ دوراں تھے۔ آپ کے مضامین اور تصانیف میں عالمانہ استدلال پایا جاتا ہے۔ آپ کا خاص میدان تاریخ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آپ تاریخ بیں نہ تھے، بلکہ تاریخ داں تھے۔ اس تاریخ دانی کی مثال ’اشاعتِ اسلام‘ کتاب ہے، جو کئی سو صفحات پر مشتمل ہے، جس کی بڑی خصوصیت تحقیق و تدقیق اور استحکامِ رائے اور جانچ پڑتال ہے۔ آپ کی تحریر کا طرز نہ تو اس قدر رنگین ہے کہ تصنع اور آورد کا عیب آنے پائے اور نہ اس قدر عاری کہ خشکی اور بے لطفی کی شکایت ہونے پائے۔

[۱۲]مولانا انور شاہ کشمیری:

آپ شیخ الہندؒ کے مخصوص تلامذہ میں سے ہیں۔ آپ کا حافظہ، آپ کی جامعیت اور تبحرِ علمی ضرب المثل ہے۔ بہ قول مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ: آپ ایک چلتا پھرتا کتب خانہ تھے۔

یوں تو حضرت شاہ صاحب عربی کے بے نظیر ادیب اور شاعر ہیں، اسی سے آپ زیادہ تر مشہور بھی ہیں، لیکن آپ کا (ذوقِ) اردو ادب بھی اچھا ہے۔ ہم آپ کی زبان اور طرزِ تحریر کا ایک نمونہ پیش کر رہے ہیں، تاکہ ناواقف حضرات کے مطالعے میں زیادتی پیدا ہو جائے۔ ملاحظہ کیجیے:

ہندوستان جس طرح ہندوؤں کا وطن ہے، اسی طرح مسلمانوں کا بھی وطن ہے۔ ان کے بزرگوں کو ہندوستان آئے اور رہتے ہوئے صدیاں گزر گئیں، انھوں نے ملک پر صدیوں حکومت کی، آج بھی ہندوستان کے چپّے چپّے پر مسلمانوں کی شوکت و رفعت کے آثار موجود ہیں۔ موجودہ نسل کا خمیر ہندوستان کے آب و ہوا سے ہے۔ ہندوستان میں ان کی عظیم الشان مذہبی اور تمدی یادگاریں ہیں، کروڑوں روپے کی جائےدادیں ہیں، اعلیٰ شان تعمیروں اور وسیع قطعات زمین کے مالک ہیں۔ ان کو ہندوستان سے ایسی محبت ہے جیسی ایک سچّے محبِ وطن کو ہونی چاہیے، اور کیوں نہ ہو جب کہ ان کے سامنے اپنے سید و مولیٰ، محب و آقا ﷺ کا حبِ وطن میں اسوۂ حسنہ موجود ہے، وہ یہ کہ حضور نے کفار کے جور و ستم سے مجبور ہو کر حکمِ خداوندی کے ماتحت اپنے پیارے وطن مکہ معظمہ سے ہجرت کے وقت وطنِ عزیز کو خطاب کر کے فرمایا: ’خدا کی قسم! خدا کی تمام زمین میں تو مجھے سب سے پیارا شہر ہے اور اگر میری قوم تیرے اندر سے مجھے نہ نکالتی تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا‘۔

آپ کا طرزِ نگارش سلیس، رواں اور بے تکلف ہے اور بیان میں زور ہے۔ آپ اردو میں بھی شعر کہتے تھے۔

[۱۳]مفتی عزیزالرحمن عثمانی دیوبندی:

آپ ایک متبحر عالم تھے، نیز عابد و زاہد اور طریقت و سلوک کے ماہر۔ دارالعلوم میں آپ کا یہ ممتاز وصف رہا ہے کہ تدریس کے ساتھ افتا کی جلیل القدر خدمت انجام دیتے تھے۔ آپ نے تقریباً اٹھارہ ہزار فتاویٰ اپنے زمانے میں تحریر فرمائے۔ آپ کی تحریر میں عالمانہ رنگ غالب ہے۔ کبھی آپ شعر بھی کہتے تھے اور کہنہ مشق شعرا کو حیرت میں ڈال دیتے تھے۔ نمونے کے چند اشعار آپ کی صلاحیتوں کے آئینے میں ملاحظہ فرمائیے اور مسئلۂ وحدۃ الوجود کا سبق بھی یاد کر لیجیے:

ہے ظاہر اور خفی اِک نظر سے

اگر جانے کوئی جانے اثر سے

جو سچ پوچھو کوئی کیا اس کو جانے

یہ شرکت ہے کوئی میری جو مانے

وہ خود عارف ہے اور معروف ہے

وہی محبوب اور مشفوف وہ ہے

ظہور اس کا ہے جو کچھ دیکھتے ہو

وجود اس کے سوا کب ہے کسی کو

لباسِ عاشقی میں گاہ پیدا

گہے در صورتِ لیلیٰ ہویدا

غرض ہر رنگ میں ہے رنگ اس کا

خرد ہے دیکھ جلوہ دنگ اس کا

بنایا خلق کو سودائی اپنا

ہر اِک ہے جستجو میں اس کی شیدا

[۱۴]مولانا سید اصغرحسین دیوبندی:

آپ کا شمار بھی حضرت شیخ الہندؒ کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے وقت کے محدثِ دارالعلوم رہے ہیں۔ اردو میں آپ کا قلم اچھا ہے، اگرچہ زبان اور طرزِ بیان سادہ ہے، مگر اس کے باوجود آپ کی تحریر میں بڑی تاثیر اور کشش ہے۔

حضرت میاں صاحب کو شعر سے بھی مناسبت تھی بلکہ قدرت تھی۔ چوں کہ آپ کا قلبی میلان تصوف کی طرف زیادہ تھا، اس لیے خاص جذبے سے متاثر ہو کر آپ نے اکثر اشعار نظم کیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقی شاعری وہی ہے جو جذبات پر مبنی ہو اور جس سے سامعین متاثر ہوں اور یہ صفت حضرت میاںصاحبؒکے اشعار میں پائی جاتی ہے۔ نمونہ ملاحظہ ہو:

بھلا کہو تو سہی رنگ دل سے مٹے کیوں کر

خدا کی یاد میں جب تک کہ چشم زار نہ ہو

یقیں آ ہی نہیں سکتا ہے اس کا عاقل کو

کہ دل میں درد رہے اور بے قرار نہ ہو

یہ راہِ دین ہے گِر گِر کے ہو رہو سیدھے

گِرے نہیں کوئی جب تک شہسوار نہ ہو

خدا کے حکم کو مانو بہ جان و دل ایسا

کہ سر پہ مار پڑے اور دل پہ بار نہ ہو

سمجھ کہ اس میں کمی ہے ابھی کمال نہیں

فقیر ہو کے بھی جو شخص خاک سار نہ ہو

کوئی بتائے کہ اس میں بوئے اسلامی

کہ جو گناہ کرے اور شرم سار نہ ہو

خداے پاک مصیبت میں آزماتا ہے

مصیبتوں میں تو بے صبر و بے قرار نہ ہو

نہیں محال و لیکن بہت بعید ہے یہ

کہ خاک ہو کے کوئی پھر بھی پُر بہار نہ ہو

دیکھیے ان اشعار میں تصوف و فلسفے کا حسین امتزاج ہے۔ الفتِ خدا کا عنوان نہایت مناسب ہے۔حضرت میاں صاحبؒ کے اور بہت سے اشعار ہیں جو جذب و کیف لیے ہوئے ہیں، آپ کے الفاظ میں الفاظ کی سجاوٹ تو نہیں لیکن جذبات کی حقیقی اور فطری جھلک ضرور پائی جاتی ہے۔ جہاں تک نثر کا تعلق ہے، صاف اور سادہ ہے، کہیں کہیں رنگینی اور شگفتگی بھی پائی جاتی ہے۔

[۱۵]مولانا حسین احمد مدنی:

آپ کاشمار حضرت شیخ الہندؒ کےمخصوص تلامذہ میں ہوتا ہے۔ آپ کی نثر میں سادگی، سلاست اور صفائی بہ درجۂ احسن موجود ہے، جس بات کو لکھتے ہیں قلم برداشتہ، لیکن اسے دلائل و براہین سے مضبوط کرتے جاتے ہیں۔ مشکل سے مشکل اور دقیق سے دقیق مبحث پر قلم اٹھاتے ہیں تو عالمانہ رنگ میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ فوراً ذہن نشین ہوتا ہے، گویا آپ کی عبارت میں لفاظی مطلق نہیں ہوتی، بلکہ آپ تو مطلب سے مطلب رکھتے ہیں۔ جہاں تک عبارت آرائی کا تعلق ہے، آپ علمی مبحث اور مسائل میں اس کو اختیار نہیں فرماتے، کیوں کہ آپ کے پیشِ نظر افادۂ عام ہوتا ہے اور عبارت آرائی سے اصل مقصود مفقود ہو جاتا ہے، تاہم کبھی کبھی بے ساختہ عبارت میں رنگینی آجاتی ہے اور کہیں کہیں آپ حسبِ موقع اہلِ لسان کی زبان ذومثالین تحریر فرماتے ہیں۔ کبھی عربی اور فارسی کے شعر سے بیان میں جان ڈال دیتے ہیں اور کبھی ہندی اور اردو کے اشعار سے لطف دو بالا کرتے ہیں۔ یہ رنگ ہمیں مکتوبات میں زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

یوں تو آپ کے بہت سے ملفوظاتِ عالیہ اور قلم بند درسی تقریریں اور کچھ رسائل اور خطبات بھی ہیں، لیکن ’نقشِ حیات‘ تاریخی نقطۂ نظر سے اور ’مکتوبات ِ شیخ الاسلام‘ علمی اور ادبی افادیت کے لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔

[۱۶]مولانا شبیر احمد عثمانی:

آپ بھی حضرت شیخ الہندؒ کے مخصوص تلامذہ میں سے ہیں۔ اپنی خدادادذہانت اور ذکاوت اور غیرمعمولی و ادبی خدمات کے باعث ہند و پاک میں مشہور ہیں۔

مولانا عثمانی جس طریقے سے اپنے مفہوم کو ادا کرتے ہیں، اس میں بڑی حلاوت اور شیرینی ہوتی ہے، خواہ مخواہ دل و دماغ متاثر ہوتے ہیں۔ بہ ہر حال آپ بھی نثر میں ایک خاص طرز اور اسلوب کے موجد اور مالک ہیں۔ الفاظ اور تراکیب کے حسن اور اندازِ بیان سے اپنی عبارت میں ایک مخصوص رنگ آمیزی کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں آپ کے شاعر ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور آپ بہترین شاعر بھی ہیں۔ آئیے آپ کی شاعری کی ایک جھلک بھی دیکھیے:

خدارا جلد آکر دیکھ لو چشمِ محبت سے

ہمارا بس تمھاری اِک نگہ پر فیصلہ ہوگا

تِرے الطاف پر قربان سب پیر و جواں ہوں گے

جماعت میں ہر اِک خورد و کلاں تم پر فدا ہوگا

ادا سے تم جو دیکھوگے تو ہم نذرِ قضا ہوں گے

یہ جاں وقفِ ستم ہوگی یہ دل مشتاقِ جفا ہوگا

تماشا لوگ دیکھیںگے ہنر ہم آزمائیں گے

تِرے ناوک کا اور میرے جگر کا سامنا ہوگا

تبسم کر کے جس دم تم دہن سے گل فشاں ہوں گے

تو بلبل کا اسی دم غنچۂ امید وا ہوگا

بہار آ جائےگی پھر عیش کے ساماں بہ ہم ہوں گے

چلے گا دورِ ساغر اور تسلسل دور کا ہوگا

وہی مینا وہی خم اور وہی جام و سبو ہوں گے

وہی ساقی وہی مے اور وہی پھر مےکدہ ہوگا

بدل جائیںگے ایامِ نحس ظلِ ہمایوں سے

نصیبہ یوم کا بھی ہم بختِ ہما ہوگا

یہ چند اشعار ایک طویل مرثیے کے ہیں جسے آپ نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب رائےپوریؒکی وفات پر نظم فرمایا تھا۔ آغازِ مرثیہ میں آپ کی ذہانت اور رفعتِ تخیل کا مظاہرہ زبانِ حال سے ایک شعر کرتا ہے، وہ یہ ہے:

اگر یہ مانتے ہو موتِ عالِم موتِ عالَم ہے

تو موتِ مرشدِ عالَم کا بولو نام کیا ہوگا

مولانا عبداللہ حیدرآبادی نے مولانا عثمانی کے مزید اشعار نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

مولانا عثمانیؒ کے کلام میں پختگی اور مشاقی کے جوہرپوری تاب ناکی کے ساتھ جھل مل کر رہے ہیں، ان اشعار میں سادگی اور پُرکاری کے ساتھ واقعیت کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ایک طرف بے نظیر ادیب و خطیب اور دوسری طرف بہترین شاعر، یہ آپ کے وہ اوصاف ہیں جن کی بنا پر ظلم ہوگا اگر اب اردو کے اُدبا و شعرا کے سلسلے میں آپ کو نظرانداز کیا جائے۔یوں تو ’الاسلام‘، ’العقل و النقل‘، ’ہدیہ سنیہ‘ ’اعجازالقرآن‘ وغیرہ اردو میں متعدد تصانیف آپ کی ہیں، لیکن حضرت شیخ الہندؒ کے ترجمۂ قرآن پر جو آپ نے تفسیر لکھی ہے، وہ آپ کا مایۂ ناز کارنامہ ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ایک جلیل القدر عالم، متکلم، مفسر اور صاحبِ طرز ادیب کا ایک علمی اور ادبی نمونہ ہے۔ زبان اور طرزِ بیان میں مولانا نے جو کمال دکھایاہے وہ قابلِ صد ہزار ستائش ہے۔ بہ ہر کیف آپ کی ہمہ گیر طبیعت اور رسائی ذہن ہر رنگ اور ہر روش میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریر میں ایک طرح کی شگفتگی، ایک طرح کی تازگی، اور ایک عجیب طرح کا حسن و لطف پایا جاتا ہے، اور جدت پسندی اور انوکھاپن قدم قدم پر نمایاں ہے، ہر ہر فقرے، بلکہ ہر ہر لفظ زبانِ حال سے کہتا ہے کہ پہلے آپ نے سوچا ہے، تولا ہے، پھر مناسب، موزوں بلکہ دل کش ادبی انداز میں تفسیر کی ہے، اور کم سے کم اور بہتر سے بہتر الفاظ میں مقصد ادا کیا ہے۔

[۱۷]مولانا سید مناظر احسن گیلانی:

آپ کو حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ تلمذ و بیعت کی سعادتیں حاصل تھیں، علاوہ ازیں دارالعلوم کے اساتذہ میں جن سے آپ کو غیرمعمولی استفادے کے مواقع میسر آئے، وہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی ذاتِ گرامی تھی۔ مجلہ ’الفرقان‘ لکھنؤ کے ’افاداتِ گیلانی‘ نمبر سے آپ کی علمیت اور ادبیت پر روشنی پڑتی ہے۔ مولانا کے اسلوبِ نگارش کی خصوصیات میں ایک خصوصیت ان کے جملوں کی بےساختگی اور برجستگی اور ان کی البیلی ترکیب ہے۔ جملوں کے اجزا کی ترکیب میں وہ کسی قاعدے اور ضابطے کے پابند نہیں، بس جو چیز بے ساختہ قلم سے پہلے نکل گئی، وہ پہلے ہو گئی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جملہ پورا نہیں ہونے پاتا کہ ایک جملۂ معترضہ شروع ہو جاتا ہے، اور کبھی کبھی ناتمام جملے کے بقیہ اجزا بھی اسی میں گم ہو جاتے ہیں، جن لوگوںکو مولانا کے مضامین سے نیا سابقہ پڑتا ہے، وہ تو کچھ گھبرا سے جاتے ہیں، مگر جو لوگ مولانا کے اسلوب سے آشنا ہو چکے ہیں، انھیں اسی انداز میں بڑا مزا آتا ہے۔

حضرت مولانا گیلانیؒ ایک طرف بہترین صاحبِ قلم تھے، تو دوسری طرف شعر بھی کہتے تھے، اور اچھا کہتے تھے، چناں چہ کلام کی بندش، روانی، سلاست کے علاوہ معنویت آپ کے باذوق ہونے پر دال ہے۔آپ ہندی میں بھی شعر کہتے تھے، ایک نعت شریف کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

پیارے محمد جگ ساجن

تم پر واروں تن من دھن

تمری صورتیا من موہن

کہو کراتیو تو درشن

تمری دوریا کیسے چھوڑوں

تم سے توڑوں تو کس سے جوڑوں

تمیری گلیگ کا دھول بٹوروں

تمرے نگر میں دم بھی توڑوں

جی کا اب ارمان یہی ہے

آٹھوں پہر اب دھیان یہی ہے

[۱۸]مولانا محمد اعزاز علی دیوبندی:

آپ نے حضرت شیخ الہندؒ کے علاوہ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒاور حضرت مولانا انور شاہ صاحبؒکشمیری سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زبان اردو اور عربی دونوں کے آپ ادیب اور شاعر ہیں اور درسِ نظامی کی کتابوں کی تعلیقات و تالیفات کے ساتھ بہترین محشی، مترجم اور شارح ہیں، چوں کہ آپ نے زیادہ تر عربی ادب میں حصہ لیا ہے اور دنیاے علم پر آپ نے گراں قدر احسان فرمایا ہے۔ دارالعلوم میں پوری نصف صدی تک عربی ادب کی کتابوں کے درس اور دیوانِ حماسہ اور دیوانِ متنبی وغیرہ کے مطلب خیز تراجم آپ کے نمایاں کارنامے ہیں، انھیں کے پیشِ نظر آپ کو شیخ الادب کہا جانے لگا۔

یوں تو آپ کو شعر و شاعری کا مذاق خردسالگی اور کم سنی سے تھا، آپ نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی اور نشونما پایا کہ جدھر دیکھو شعر و سخن کا چرچا تھا۔ جہاں تک آپ کی شاعری کی اصلاح کا تعلق ہے، حضرت شیخ الہندؒ کی توجہ کو بہت کچھ دخل ہے یعنی یہ کہ آپ نے اپنے حضرت استاذ سے اردو شاعری میں اصلاح لی ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

مانا کہ تاکنا مِرا فسق و فجور تھا

زلفوں کا دام تم کو بچھانا ضرور تھا

کس نے کہا کہ وادیِ غربت میں تھے جدا

دل سے بہت قریب تھا گو جسم دور تھا

اس دل میں حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا

جو دل کہ تم کو دیکھ کے وقفِ سرور تھا

ہلچل زمین پہ مچ گئی افلاک ہل گئے

یا رب کسی کی آہ تھی یا نفخِ صور تھا

عفو اور صفح سے نہ لیا آپ نے بھی کام

مانا کہ عشق آپ سے میرا قصور تھا

تیری نشیلی آنکھ نے بے خود بنا دیا

اعزازؔ ورنہ صاحبِ عقل و شعور تھا

**

انقلابِ چمنِ دہر کی دیکھی تکمیل

آج قارون بھی کہہ دیتا ہے حاتم کو بخیل

بو حنیفہؒ کو کہے طفلِ دبستاں جاہل

مہرِ تاباں کو دکھانے لگی مشعل قندیل

سامریِ موسیٰ عمراں کو کہے جادوگر

شیخ کی کرتے ہیں اسکول کے بچّے تجہیل

جہاں تک آپ کی نثر کا تعلق ہے؛ زبان نہایت صاف، سادہ، رواں اور شیریں (ہے)، تحریر میں بےتکلفی اور بے ساختہ پن ہے۔ آپ تشبیہ اور استعارے سے بھی دل کشی پیدا کرتے ہیں، متانت اور سنجیدگی کا سررشتہ ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ آپ ایک عرصے تک القاسمؔ اور الرشیدؔ کے اداریے تحریر فرماتے رہے ہیں۔

[۱۹]مولانا حافظ عبد السمیع دیوبندی:

آپ بھی حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ میں سے تھے اور اپنے وقت کے جید عالم اور بہترین استاذ تھے۔ ادب، معانی، حدیث، منطق وغیرہ کے میدانوں میں آپ کی جولانی قابلِ دید تھی۔ آپ کی طبیعت کا میلان مضمون نگاری کی طرف بھی تھا، شعر و سخن سے بھی لگاؤ تھا۔ زبان و بیان کی صفائی اور روانی آپ کی تحریر کی خصوصیات ہیں۔

جہاں تک آپ کی شاعری کا تعلق ہے، ہم نمونے کے طور پر اس مرثیے کو پیش کرتے ہیں جو آپ نے حضرت شیخ الہندؒ کی وفات پر ’فغانِ درد‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ (چند اشعار) ملاحظہ کیجیے:

یا الٰہی کیا ہوا اِک دم کے دم میں انقلاب

گلشنِ ایجاد کی کیوں یک بہ یک بدلی ہوئی

کیوں اداسی چھا رہی ہے تجھ میں اے دارالعلوم

کیوں تِری بزمِ مسرت بن گئی بزمِ عزا

کیا کوئی مادہ دو ہفتہ چھپ گیا ہے زیرِ خاک

ہو رہی ہے خاک بر سر کس لیے بادِ صبا

ہو گئے گاوِ زمیں ثورِ فلک جل کر کباب

دونوں جانب نعرۂ آتش فگن ہے کیوں بپا

ہو گیا مشکل ہمیں فرقِ حقیقت اور مجاز

ہیں یہ کوکب یا ہیں اشکِ ملائک رو نما

تھا اسی دریائے غم میں غوطہ زن قلبِ حزیں

آسماں سے ناگہاں کانوں میں پہنچی یہ ندا

آفتابِ چرخ ہمت نیز برجِ کمال

مطلع نورِ ولایت گوہرِ درجِ ہدا

چشمۂ نورِ ولایت مہبطِ انوارِ حق

سرمۂ چشمِ بصیرت دیدۂ اہلِ صفا

نکہتِ گلدازِ قدس و گلبنِ زہد و سلوک

طوطیِ نخلِ حقائق بلبلِ باغِ صفا

آخری شعر ملاحظہ ہو، جس سے تاریخِ وفات بھی نکلتی ہے:

کشتۂ غم سے کہا ہاتف نے یہ سالِ وفات

آفتابِ زہد عرفان و معارف چھپ گیا(1339ھ)

[۲۰] مولانا سراج احمد رشیدی:

قدرتِ الٰہی نے آپ کو نہ صرف اچھا عالم بنایا تھا بلکہ ادب، شعر و سخن کا بھی ذوق عنایت کیا تھا۔ آپ کے ادارتی مقالات جو القاسم ؔ اور الرشیدؔ میں شائع ہوتے تھے آپ کے ادبی ذوق کے شاہد ہیں۔ نثر نگاری سے زیادہ آپ کی قصائد نویسی نمایاں تھی۔ افسوس آپ کا کلام شائع نہ ہو سکا، ورنہ قصائد اور مثنویات کا اچھا ذخیرہ ادبِ اردو کے خزانے میں موجود ہوتا۔ آپ کے قصائد زیادہ تر اپنے اساتذہ، بزرگوں اور اپنے مشائخ کی شان میں ہوا کرتے تھے اور عربی نظم کا ترجمہ اردو نظم میں بھی کرتے تھے۔

شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن قدس سرہ العزیز چند سال مالٹا میں اسیر رہے، جب آپ کی رہائی اور ہندوستان تشریف لانے کی خبر مشہور ہوئی تو فرطِ شوق کے ترنم نے ایک نظم کی صورت اختیار کر لی، جس کا عنوان تھا ’مژدۂ جاں فزا‘، اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

مالٹا سے اب نسیمِ جاں فزا آنے کو ہے

دل میں جاں آنے کو ہے عیسیٰ ادا آنے کو ہے

وہ گئے تو زندگی کا مزا جاتا رہا

اب وہ آتے ہیں تو جینے کا مزا آنے کو ہے

اب لبوں پر خیر مقدم مرحبا آنے کو ہے

قاسمِ خیرات کا وہ لاڈلا آنے کو ہے

بحرِ ہستی کا سفر آساں ہوا بالقیں

کشتیِ طوفاں زدہ کا ناخدا آنے کو ہے

ہو مبارک تجھ کو اے دارالحدیثِ دیوبند

وہ تیرا شیخِ حدیثِ مصطفیٰ آنے کو ہے

پھر پھلے پھولےگا گلزارِ رشیدی قاسمی

سالکو گھبرائیو مت رہنما آنے کو ہے

بہ طور نمونہ مذکورہ بالا چند اشعار کو نقل کرنے کے بعد مولانا عبد اللہ حیدرآبادی لکھتے ہیں:

ہم نے پلاؤ کی دیگ میں سے چاول کے چند دانے پیش کیے ہیں، انھی سے خوش بو اور ذائقے کا اندازہ بہ خوبی کیا جا سکتا ہے، آپ کی نظموں اور غزلوں وغیرہ کو یک جا جمع کیا جائے تو ایک مختصر دیوان تیار ہو سکتا ہے۔

[۲۱] مولانا احسان اللہ تاجور نجیب آبادی:

آپ کا شمار علامہ مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے تلامذہ اور ماضی قریب کے ممتاز ادبا اور شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ کو شعر و شاعری کا ذوق ایامِ طالبِ علمی ہی سے تھا، یہی وجہ تھی کہ آپ کے اشعار کا اچھا خاصا چرچا اسی دور میں پھیلا ہوا تھا۔ تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد ادبی دنیا میں قدم رکھا تو یہ خداکی دین تھی کہ اس وقت اصحابِ ذوق نے خوش آمدید کہا اور آپ کا شمار اردو زبان کے ممتاز شعرا میں ہو گیا۔ آپ کی ادبیت اور شعریت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ خود حکومت نے بھی آپ کو ’شمس العلما‘ کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔

حیدرآباد جو کبھی علم و ادب کی نشر و اشاعت کا مرکز تھا، اس کے مطلعِ ادب سے ایک مجلّہ آپ نے نکالا تھا، جس سے اردو کی بڑی خدمت انجام دی ہے۔ آپ کی متعدد تصانیف ہیں اور ’روحِ انتخاب‘ اور ’روحِ نظم‘ کے مرتب بھی ہیں۔ حصہ اول میں اردو کے چیدہ چیدہ نثّار کا تذکرہ ہے اور حصہ دوم میں ممتاز شعرا کے منتخب کلام کا مجموعہ ہے۔ اس میں آپ کی بھی نظم اور غزل بہ طور نمونہ درج ہے، ہم بھی آپ کی اپنی پسندیدہ اور منتخبہ روح کو پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

حسن و عشق سے جنگ

بتانِ بد خو کے حسنِ دل جو پہ دل کو شیدا نہ کیجیےگا

بروں سے اچھا سلوک گر کیجیےگا اچھا نہ کیجیےگا

متاعِ دل ان کی رو نمائی ہے ان کا بیعانہ نقد جاں ہے

بہت ہی مہنگے پڑیںگے بت بھول کر یہ سودا نہ کیجیےگا

کسی کے دردِ طلب میں جینا ہےموت کا دردناک منظر

یہ زندگی ہے تو زندگی کی کبھی تمنّا نہ کیجیےگا

ادھر ہے ذوقِ تلاشِ جاناں میں دل کی ہٹ راج ہٹ سے بڑھ کر

ادھر تقاضائے عقل یہ ہے کہ دل کا کہنا نہ کیجیےگا

محبت جاں گداز نے آہ کی دنیا تباہ کر دی

خدا جو توفیق دے تو دل میں درد پیدا نہ کیجیےگا

زمانہ ساز ہی ہے التفاتِ جمال بھی اس بلا سے بچیے

نظر نوازی پہ حسن رنگیں کی کچھ بھروسا نہ کیجیےگا

نیاز مندِ جمال ہو کر وبالِ انسانیت نہ بنیے

جو چھٹ پڑی ہے جوانی تو اس کو رسوا نہ کیجیےگا

یہ تاجورؔ خوب پالیسی ہے اسی پہ بس کاربند رہیے

کہ سب سے دنیا چھڑائیے آپ ترکِ دنیا نہ کیجیےگا

**

نہ طوافِ کعبہ کا عزم کر نہ جبیں کو نذرِ صنم بنا

تیرا دل ہے دیر و حرم اسی کو حریفِ دیر و حرم بنا

یہ انتقامِ ستم گری کہ ستم پذیر نہ بن کبھی

جو مٹے تو پیکرِ پائے مال کو یادگارِ ستم بنا

تِری قوم ہے تِری آبرو اسی آبرو کو تلاش کر

کبھی ’تو‘ سے آپ بھی بن ہی جائےگا

تِرے دل کا جام سقال جام جہاں نماں ہے تِرے لیے

اسے اپنا ساغرِ جم سمجھ اسے اپنا ساغرِ جم بنا

مٹے دیر و کعبہ کی کش مکش یہی شیخِ کعبہ تو کام کر

کہ صنم کدہ کے پجاریوں کو شریکِ بزمِ حرم بنا

اربابِ فن خود فیصلہ فرمائیں کہ کس قدر ہر شعر فنی لحاظ سے اور نیز رنگینی، تخیل، سوز پروری اور نشاط آفرینی کا حامل ہے۔

[۲۲]مفتی کفایت اللہ دہلوی:

آپ بھی حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ میں سے ہیں، آپ کی سیاسی، ملّی اور دینی خدمات محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ جمعیۃ العلماء ہندکے صدر اور مدرسہ امینیہ، دہلی کے صدر مدرس رہے۔آپ کے قلم سے سیکڑوں فتاویٰ نکلے۔ آپ متعدد کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔’تعلیم الاسلام‘ آپ کی مشہور کتاب ہے۔آپ شاعر بھی تھے۔ ہمارے سامنے آپ کی ایک نظم ہے، جس میں حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒلدھیانوی کے قیامِ اسیری اور رہائی، اخلاق، ساتھیوں کی خدمت، ذاتی اوصاف، قید و بند، دعا، اولاد کے لیے دعا، مبارک باد کا تذکرہ ہے، جو رہائی سے دو دن پہلے جیل کے تمام ساتھیوں کے ایک مجمع میں سنائی۔ یہ واقعہ ہے کہ اس نظم میں مولانا مرحوم کے تمام اوصافِ زندگی کا بیان ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اے صدیقِ محترم لدھیانوی

لو تمھاری بھی رہائی آ گئی

اے شفیقِ قوم رحماں کے حبیب

آ گئی تیری جدائی آ گئی

دوستوں کو چھوڑ کر تو بھی چلا

آہ کیسی شاق ہے فرقت تیری

یہ مضمون نامکمل اور ادھورا محسوس ہوتا ہے اور ویسے بھی حضرت مفتیِ اعظم کی شخصیت و شاعری اس سے بہت زیادہ کی مستحق ہے۔(ندیم)

[۲۳]مولانا قاری محمد طیب قاسمی:

آپ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پوتے اور مولانا حافظ احمد صاحبؒسابق مہتمم دارالعلوم کے فرزندِ سعید اور شیخ الہندؒ اور حکیم الامت تھانویؒ جیسی مقدس اور مقتدر ہستیوں کی توجہات کو اپنے دامن میں لیے ہوئے، نیز علامہ کشمیریؒ کے تلامذہ میں سے ہیں اور شیخ الاسلامؒ کے مرکزِ نظر رہے ہیں۔

اگر ایک طرف آپ بے نظیر خطیب ہیں تو دوسری طرف بہترین انشا پرداز اور اچھے شاعر ہیں۔ علمی مسائل میں گہرا غور و فکر جب آپ کی تقریر یا تحریر کے گل و گلزار میں آراستہ ہو کر سامنے آتا ہے تو ہمہ گیر محویت پیدا کر دیتا ہے۔آپ کا قلم رواں دواں ہے اور حکمتِ قاسمی سے روشناس ہونے کا موقع آپ ہی کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ ہندوستان کا کوئی مشہور علمی و دینی مجلّہ ایسا نہیں ہے جس کے صفحات پر ان کے نقوشِ قلم ثبت نہ ہوں۔

نثر نگاری اور اعلیٰ خطابت کی طرح قدرت نے آپ کو (ذوقِ) شعر و سخن ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کا ملکہ عطا فرمایا ہے، جو کسی خاص موقع پر نمایاں ہوتا ہے تو کہنہ مشق شعرا کو بھی حیرت زدہ کر دیتا ہے۔فروری 1960ء میں آپ کے دوسرے فرزند مولانا محمد اسلم صاحبؒکی شادی حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒناظم جمعیۃ العلماء ہند، دہلی کی صاحب زادی محترمہ عائشہ سے ہوئی۔ بارات دیوبند سے دہلی گئی۔ اس چند گھنٹے کے سفر میں سہرے کے تقریباً ایک سو اشعار موزوں کر دیے۔ (سہرےمیں) فاضلانہ اور حکیمانہ نکات کے ساتھ عجیب و غریب تلمیحات بھی ہیں اور الفاظ کی بندش سے ادبی لطائف پیدا کیے گئے ہیں۔ مثلاً حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب جمعیۃ علما کے ناظم ہیں، جمعیۃ علما کے قریب آپ کی قیام گاہ ہے، اس تفصیل کے بعد ایک تلمیح ملاحظہ ہو؎

نگاہِ دیوبند دِلّی پہ ہے آج

کہ اس کے دل کی جمعیت یہیں ہے

دِلّی پہنچنے کی کیفیت ملاحظہ ہو:

جو تھی دِلّی ہوئی اِک دم نمودار

تو بولے سب مراد اپنی یہیں ہے

دلوں کے شوق کی پُر کیف منزل

کہ جس پر سر نگوں دل کی جبیں ہے

بھلا دِلّی سے دل کیوں کر جدا ہو

کہ دل دِلّی کا جزوِ اولیں ہے

سنبھل کر یاں چلو مہر و وفا سے

یہ اقلیمِ محبت کی زمیں ہے

ان سو اشعار میں موقع بہ موقع تمام رفقا کے نام آگئے ہیں۔ بہ ہر حال حضرت مہتمم صاحب کےفکرِ نازک اور طبعِ سوزاں کا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ افسوس ہمارے بزرگوں کے کلام مطبوعہ نہیں ہیں۔ یہ سہرا دولھا صاحب کے احباب نے طبع کرا لیا تھا تو ہمیں نمونہ پیش کرنے کا موقع مل گیا، اگر دوسرے قصائد اور نظمیں بھی مطبوع ہو گئیں تو شاید ہم اس سے بہتر نمونے پیش کر سکتے ہیں۔

[۲۴]مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی

آپ حضرت مولانا انور شاہ صاحبؒکے تلامذہ میں سے ہیں۔ آپ بہت سی صلاحیتوں کے مالک اور آج اپناایک مخصوص مقام رکھتے ہیں۔ ایک عرصے تک دارالعلوم دیوبند میں افتا کی خدمت سے مشرف ہو چکے ہیں (بعدہٗ پاکستان میں دارالعلوم، کراچی قائم کیا اور گوناگوں علمی  دینی خدمات انجام دیتے رہے)۔ تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف درسِ نظامی کی کتابوں کے حاشیے اور تعلیقات سپردِ قلم فرمائی ہیں۔ اردو زبان میں بھی آپ کی متعدد کتابیں ہیں۔ زبان صاف، شستہ ہے۔ جا بہ جا ادب کی چاشنی بھی ملتی ہے۔ آپ کی فکرِ رسا نے خاص خاص موقعوں پر آپ کو اشعار کہنے پر مجبور کیا ہے، چناں چہ اس وقت ہمارے سامنے ایک طویل مرثیہ ہے جو آپ نے اپنے استاذ حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحبؒمحدث دارالعلوم کی وفات حسرت آیات پر لکھا ہے۔ سب سے پہلے دنیا کی بے ثباتی کا خاکا ہے، جو خیالات کی وسعت اور بلندی کی غمازی کرتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اکبر و شاہ جہان و عالم گیر

اور جہاں گیر اور تغلقِ افخم

درسِ عبرت ہیں آگرہ کے محل

اور دہلی ہے کل فسانۂ غم

حسرتوں کے مرقعات ہیں آج

سب حصونِ عرب قصورِ عجم

ذرّہ ذرّہ جہان پڑھتا ہے

مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ فافہم

[۲۵]مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:

آپ حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے ممتاز تلامذہ میں سے ہیں اور جمعیۃ علماء ہند کے انتظامی اور ملّی معاملات میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحبؒمدنی نوراللہ مرقدہ کے معتمدِ خاص اور دوش بہ دوش رہے ہیں اور آج بھی حکمتِ عملی سے گتھیوں کو سلجھاتے ہیں۔

آپ کی خطابت ایسی بے پناہ اور سحرطراز ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع اور جلسے کو ایسے ساکت و صامت کرتی ہے گویا کہ وہاں کوئی ہے ہی نہیں، یہ فضیلت آپ کے حق میں قدرت کی وہ فیاضی ہے جو کہیں کہیں نظر آتی ہے، فوّارے کی سی تیزی، ابلتے ہوئے چشمے کی سی روانی، بادل کی سی گرج، بجلی کی سی چمک آپ کی تقریر ہوتی ہے، جس کی نظیر آج کہیں نہیں ہے۔ آپ کے علمی کمالات میں جو چیز آپ کو اقران و اعیانِ عصر میں سب سے زیادہ ممتاز کیے ہوئے ہے وہ آپ کی ادبیت اور تصنیف و تالیف ہے جیسا کہ دہلی کا ’ندوۃ المصنفین‘ آپ کی علمی اور ادبی یادگار ہے، جس کی خدمات آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ بہ ہر حال آپ کا شمار عہدِ حاضر کے بہترین انشا پردازوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی تحریر میں پختگی اور ادبیت ہوتی ہے، جس میں خیالات اور معلومات کی ترتیب اور بیان کا زور، عالمانہ متانت، خوب صورت تشبیہات اور دل کش استعارات لطف پیدا کر دیتے ہیں۔ آپ کی طرزِ نگارش میں خطیبانہ انداز نمایاں ہے۔ آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں ’قصص القرآن‘ فصاحت و بلاغت، ادبیت اور معنویت کے لحاظ سے قابلِ ذکر اور بے نظیر ہے۔

[۲۶]مفتی عتیق الرحمن عثمانی:

آپ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی صاحبؒسابق مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبند کے خلفِ اکبر ہیں اور دیوبند کے اس عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے اکابر دنیاے علم کے آفتاب و ماہتاب گزرے ہیں۔ آپ صرف اس وجہ سے ادبِ اردو کے معمار و محسن نہیں ہیں کہ آپ نے ’ندوۃ المصنفین‘ جیسا ادارہ قائم کیا، جس سے شائع ہونے والی تقریباً ایک سو گراں قدر تصنیفات نے دامنِ اردو کو علوم کے خزانوں سے بھرپور کر دیا اور آپ نے اس کو آندھیوں کے تھپیڑوں اور زلزلوں کے ہچکولوں میں محفوظ و سلامت رکھنے کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ الغرض! ندوۃ المصنفین جیسے عظیم الشان ادارے کے بانی کی حیثیت سے اردو کی ترقی کی وہ شاہ راہ کھولی ہے، جس پر آج خود اردو کو بہ جا طور پر فخر ہے۔ آپ کی طبعِ موزوں، آپ کا فکرِ نازک اور آپ کے انشا پرداز قلم کا نشان اردو کی تعبیر میں مصروف رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو نطق کی بھی شیرینی عطا فرمائی ہے جو دلوں کو موہ لیتی ہے اور مجلس میں جب شعر و سخن کا سلسلہ چلتا ہے تو آپ کے برمحل اور برجستہ اشعار سے مجلس باغ و بہار بن جاتی ہے۔ عرصے سے رسالہ ’برہان‘آپ کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے، جس کے بیش تر مضامین آپ کی قلمی اصلاح کے رہینِ منت ہوتے ہیں۔

مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے تذکرے پر کتاب اختتام پذیر ہوئی ہے، آخر میں مولانا عبداللہ حیدرآبادی لکھتے ہیں:

(کتابِ ہٰذا میں) صرف ان اکابر علما کا ذکر کیا ہے جن کا ادبی ذوق ان کے (دیگر) کمالات کے مقابلے میں اس طرح نظر انداز ہو گیا ہے کہ اُدبا کی فہرست میں ان کا ذکر تک نہیں آیا۔ ان کے علاوہ دارالعلوم کے فضلا اور دورِ حاضر کے اکابر -جن کا تعارف زیادہ تر کسی اخبار رسالے کے راستے ہی سے ہے اور جن کی ادبی اور صحافتی کمالات کا سکّہ آج پوری دنیاے اردو میں رائج ہے- جیسے حضرت مولانا سید محمد میاں صاحبؒناظم جمعیۃ علماے ہند، حضرت مولانا سعید احمد صاحبؒاکبرآبادی، ڈپٹی آف تھیولوجی، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، حضرت مولانا حامدالانصاری غازیؒ، حضرت مولانا قاضی زین العابدین صاحبؒسجاد میرٹھی، پروفیسر دینیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی، مدیر رسالہ ’الحرم‘ میرٹھ اور وہ سب حضرات جن کے قلمی کارناموں سے سنگلاخِ پاکستان ادبِ اردو کا گلشن بنا ہوا ہے، اخباری دنیا ان سے اسی طرح واقف ہے جیسے چشمِ بینا ماہتابِ شب تاب سے، لہٰذا یہاں ان کا تذکرہ ظاہر ہے غیر ضروری ہے۔**

Leave a Reply