You are currently viewing غالب ٹیکنالوجی کے دور میں

غالب ٹیکنالوجی کے دور میں

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو و، پرنسپل،گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد تلنگانہ

غالب ٹیکنالوجی کے دور میں

اہل اردو خوش قسمت ہیں کہ ان کا تعلق اس زبان سے ہے جس میں غالب نے شاعری کی اور اپنے شہرہ آفاق خطوط لکھے ۔غالب سے اپنے آپ کو وابستہ کرنے کی اردو کی نئی نسل کی یہ جدت ہے جو جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے فخر کے ساتھ یہ کہتی ہے کہ آج وہ بھی عہد غالب میں جی رہی ہے کیوں کہ اردو مادری زبان بولنے والی نئی نسل غالب کی پرستار غالب کو جس واسطے سے جانتی ہے وہ جدید ٹیکنالوجی ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو انسان کو اپنے ماضی کے عظیم سرمایے سے جوڑ رہی ہے اور دنیا بھر میں پل پل ہورہی تبدیلیوں کو گھر بیٹھے اپنے فون یا کمپیوٹر اسکرین پر فراہم کر رہی ہے۔ اکیسویں صدی تیز رفتار معلومات کی صدی ہے۔ اور یہ معلومات انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذرائع انٹرنیٹ ‘کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سے دنیا بھر میں موجود لوگوں کو مل رہی ہیں۔آج اہل اردو جس عقیدت و احترام سے غالب کو یاد رکھتے ہیں اردو زبان کے بارے میں جاننے والا غیر اردو داں بھی یہ جانتا ہے کہ اردو شعر و ادب کے سرمایے میں غالب جیسا عظیم شاعر بھی رہاہے جس کا دیوان تو مختصر ہے لیکن اس کی شاعری کی آفاقیت اس کی پیدائش کے دو سو سال بعدکم نہیں ہوئی۔ ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع کمپیوٹر اور اسمارٹ فون نے وسیع تر معلومات کو ہماری پہنچ میں کردیا ہے۔ اور معلومات کی ترسیل کے اس اہم ذریعے کی افادیت کے پیش نظر اہل اردو نے بھی اپنے شعر و ادب کے عظیم سرمایے کو انٹرنیٹ کے ذریعے ترسیل عامہ کے اس عظیم ذریعے میں محفوظ کردیا۔ ایک دور تھا جب لوگ اپنے ذوق کی کتابوں کے حصول کے لیے سرگرداں رہا کرتے تھے اور کتب خانوں میں گھنٹو ں بیٹھ کر یا اپنے گھر لا کر اردو کی بیش قیمت کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔جس دور میں غالب قلعہ معلی کے مشاعروں میں کلام سنایا کرتے تھے اس وقت تو لوگوں کے ذوق کا یہ عالم تھا کہ کسی مشہور شاعر نے کوئی غزل پیش کردی تو لوگوں کے سینہ بہ سینہ وہ منتقل ہو کر بہت جلد زبان زد خاص و عام ہوجایا کرتی تھی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ سے اس ذوق میں تبدیلی آتی گئی اور ریڈیو‘ٹیلی ویژن اور اب انٹرنیٹ کی آمد نے جہاں لوگوں کے لیے دنیا سمٹ دی اور معلومات کا انبار لگادیا وہیں لوگوں کے ذوق مطالعہ میں کمی آئی اور لوگوں کا حافظہ بھی اب ایسا نہیں رہا کہ لوگ کسی شاعر کے کلام کو یاد رکھ سکیں۔ آج کتاب کا مفہوم بدل گیا ہے۔ یعنی پہلے لوگ حقیقی کتاب کا مطالعہ کیا کرتے تھے اب فون اور کمپیوٹر اسکرین پر کتاب اور لوگوں کے ذوق کا درکار مواد باآسانی دستیاب ہے۔ اب لوگ کتب خانوں کا رخ نہیں کرتے۔ بس گوگل میں اپنی پسند کی کوئی چیز ٹائپ کردیں تو انہیں ان کے ذوق کی چیز مطالعے‘بصارتوں اور سماعتوں کے لیے مل جاتی ہے۔ کتاب کے اس بدلتے دور اور ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں اگر ہم اردو کے عظیم شاعر غالب کو تلاش کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ بیسویں صدی کے مقابلے اکیسویں صدی میں غالب ہم سے بہت قریب ہیں اور ان کی بے شمار جہتیں ہماری منتظر ہیں کہ ٹیکنالوجی کے اس جدید وسیلے کا استعمال کرتے ہوئے اردو کے ہمہ جہت شاعر کی حیات ان کی شاعری کے مختلف زاویوں کے بارے میں ہم بہت کچھ معلوم کرسکتے ہیں۔ غالب کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ انہوں نے ابتداء میں فارسی میں شاعری کی اور وہ مشکل پسندی کی جانب سے مائل تھے لیکن زمانے کی چال ڈھال دیکھ کر اردو میں انہوں نے جو مختصر دیوان چھوڑا ہے وہ اس دور سے لے کر آج تک ان کی مقبولیت کا باعث رہا ہے۔غالب اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے جب ہم جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے مختلف شعبوں کا رخ کرتے ہیں تو ہمیں غالب شناسی کا سب سے اہم ذریعہ یوٹیوب نظر آتا ہے۔ جن لوگوں نے یادگار غالب کا مطالعہ کیا ہے انہیں اندازہ ہے کہ حالی نے غالب کی لفظی تصویر پیش کی تھی جو سب کے ذہنوں میں الگ الگ ہوسکتی تھی لیکن جب یوٹیوب پر ہم مرزا غالب ٹائپ کرتے ہیں تو ہمیں غالب بہ نفس نفیس نظر آتے ہیں۔غالب کی زندگی پر پہلی فلم سیاہ و سفید سہراب مودی نے بنائی جس میں بھارت بھوشن نے غالب کا کردار بخوبی نبھایا۔اس فلم میں اداکارہ ثریا کی جانب سے گائی گئی غالب کی غزلیں مشہور ہوئیں۔ فلم کو پنڈت نہرو نے پسند کیا اور اسے کئی ایوارڈز ملے۔ غالب کے موضوع پر گلزار کی ہدایت میں جو ٹیلی ویژن سیریل بنایا گیا اس میں ہماری فلمی دنیا کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے غالب کا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ سیریل کے آغاز میں غالب کا یہ مشہور شعر ہماری سماعتوں سے گزرتا ہے کہ

                  ہیں اور بھی دنیا میں سخنوربہت اچھے              کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

         اس سیرئیل میں قلعہ معلی میں غالب اور ذوق کے ایک مشاعرے میں کلام سنانے کا سین کافی دلچسپ ہے۔ اس مشاعرے میں نصیر الدین شاہ غالب کے کردار میں جو غزل پیش کرتے ہیں اس کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

         رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل     جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

         غالب کی حیات کو فلموں اور ٹیلی ویژن سیرئیل اور اسٹیج ڈراموں میں جس طرح اجاگر کیا گیا ہے اس کا بہت بڑا ذخیرہ ویڈیو کی شکل میں موجود ہے۔ اردو کے اساتذہ جو ٹیکنالوجی سے واقف ہیں وہ غالب کی تدریس کے دوران اس طرح کے ویڈیو طلباء کو دکھاتے ہوئے اپنی تدریس کو موثر بناتے ہیں اور دیگر اساتذہ کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہئے۔ غالب کی وہ غزلیں جو سہل ممتنع کے زمرے میں آتی ہیں فلموں میں شامل ہیں خاص طور سے وہ غزل جس میں غالب نے کہا تھا کہ

                  دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے      آخر اس درد کی دوا کیا ہے

         1954میں بنی فلم مرزا غالب میں طلعت عزیز اور ثریا نے غالب کی اس غزل کو سوز وگداز سے گنگناتے ہوئے امر کردیا۔اس غزل کو بعد میں جگجیت سنگھ‘حنا ثریا ‘ آیوشمن کھرانا اور دیگر نوجوان گلوکاروں نے اپنی آواز میں گاتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ غالب جس طرح انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مقبول تھے اسی طرح وہ ہر زمانے کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ اور غالب کے ان پرستاروں تک ہم ٹیکنالوجی کے جدید ذریعے یوٹیوب سے پہونچ سکتے ہیں۔ یوٹیوب پر غالب کے تعلق سے ڈاکیو منٹر ی فلمیں اور ان کی فکر و فن پر تقاریر اور بہت کچھ موجود ہے۔اردو غزل کے شیدائیوں کے لیے یوٹیوب پر جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی غالب کی مقبول غزلیں آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک‘ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا ‘بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے‘نہ تھا کچھ تو خدا تھا اور نقش فریادی ہے کس کی شوخئی تحریر کا وغیرہ موجود ہیں۔جب یوٹیوب پر ہم اردو میں مرزا غالب سرچ کرتے ہیں تو ہمیں غالب کے منتخب اشعار‘مرزا غالب عالمِ خاکی میں ڈرامہ اورغالب کے فکر و فن سے متعلق تدریسی ویڈیوز ملتے ہیں۔ ایک نوجوان شاعر حسنین زخمیؔ نے مرزا غالب کی غزل ہر ایک بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے کہ پیروڈی بڑے دلچسپ انداز میں پیش کی ہے زخمی ؔ کہتے ہیںکہ

         ہر ایک دانت بھی توڑوں گا صرف منہ کیا ہے      میں ترے باپ سے ڈرتا نہیں ہوں تو کیا ہے

         صحن میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل       جو ساس ہی کہ نہ پٹکے تو پھر بہو کیا ہے

         بنا ہے رئیس کا ٹیچر پھرے ہے اتراتا     وگر نہ شہر میں زخمیؔ کی آبرو کیا ہے

         غالب کے بارے میں کویت میں جشن غالب کے 60 ویں پروگرام کا ویڈیو بھی اہم ہے جس میں مشہور اداکار قادر خان نے نئی نسل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اردو زبان کو درست استعمال کرے اور جس طرح غالب نے خطوط سے پیغام رسانی کا ایک نیا طریقہ اختیا رکیا تھا نئی نسل کو چاہئے کہ وہ ایس ایم ایس اور پیغام رسانی کو استعمال کرتے ہوئے اس میں درست اردو استعمال کریں۔ایک اور پروگرام میں پروفیسر نسیم الدین فریس مانو اور دیگر کا مذاکرہ بھی یوٹیوب کا حصہ ہے اس طرح غالب شناسی کے لیے یوٹیوب پر کافی ذخیرہ موجود ہے جس سے استفادے اور اس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔  دنیا بھر میں غالبیات کی تفہیم میں جو بھی لیکچر اورسمینار ہوئے ہیں وہ انٹرنیٹ پر دستیا ب ہیں۔ اس طرح کا ایک سلسلہ جناب احمد جاوید کے ویڈیوز ہیں جنہوں نے غالب کے منفرد اشعار کو فکری و فنی اعتبار سے سمجھایا ہے۔ غالب شناسی اور جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں ایک اہم پہلو غالب کے سراپے اور ان کی شکل و صورت کی پیشکشی کا ہے اس کے لیے ہمارے فلم سازوں اور سیرئیل بنانے والوں نے غالب کی اس پرانی تصویر کو بنیاد بنایا ہے جس میں وہ اونچی ٹوپی ‘داڑھی اور ڈھیلے لباس میں دہلی کی ایک وضع دار شخصیت نظر آتے ہیں۔ غالب کی جو رنگین تصویر ہے وہ قدیم تصاویر کو دیکھ کر تیار کی گئی ہے اور انٹرنیٹ پر وہی مقبول ہے۔غالب کی تصویر کا ذکر خطوط غالب میں بھی موجودہے۔25اگسٹ1867ء کو میاں داد خاں کے نام لکھے گئے غالب کے ایک خط میں ذکر ہے کہ غالب اپنی اچھی سی تصویر کھنچوانے کے لیے فوٹو گرافر کا انتظار کر رہے تھے لیکن فوٹو گرافر نہیں آیا اور غالب خود فوٹو گرافر کے پاس نہیں پہونچ سکے تھے۔ اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کی زندگی میں انگریزوں کی لائی بہت سی جدید ٹکنالوجی موجود تھی اور خود غالب نے بھی اپنے سفر کلکتہ کے مشاہدات میں انگریزوں کی صنعتی ترقی کا مشاہدہ کیا اور جا بجا اپنے خطوط میں اس کا تذکرہ کیا۔

         غالب اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے انٹرنیٹ پر دوسرا اہم پہلو غالبیات پر لکھی گئی کتابوں کی دستیابی ہے۔اور ان کتابوں کا سب سے بڑا ذخیرہ اردو کی مشہور ویب سائٹ ریختہ پر ہے جس کے مالک سنجیو صراف ہیںجنہیں حال ہی میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی نے ان کی فروغ اردو خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند دی تھی۔ ریختہ پر غالب سے متعلق قدیم و جدید884کتابیں موجود ہیں جنہیں اسکرین پر پڑھا جاسکتا ہے اور ان کا امیج حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دور قدیم میں کسی محقق کو غالب یا کسی بھی ادیب یا شاعر سے متعلق کتابوں کی دستیابی کے لیے کتب خانوں کی خاک چھاننا پڑتا تھا لیکن ریختہ نے اردو کی ایسی خدمت کی ہے کہ غالبیات کا سب سے بڑا ذخیرہ اس کی ویب سائٹ پر محققین کی علمی پیاس بجھا رہا ہے۔ غالب سے متعلق اہم کتابوں میں بچوں کے غالب‘آثار غالب‘احوال غالب‘باقیات غالب‘عظمت غالب‘دیوان غالب‘فارسی اور اردو‘دستنبو‘یادگار غالب‘ خطوط غالب‘فیضان غالب‘فرہنگ غالب‘غالب اور آج کا شعور‘غالب اور حیدرآباد‘املائے غالب‘انشائے غالب‘محاسن کلام غالب‘شرح دیوان غالب اور غالب سے متعلق اردو کے  بیش قیمت قدیم و جدید ادبی رسائل موجود ہیں جن کے مطالعے کے لیے ایک عمر چاہئے۔ اور اس ٹیکنالوجی کے دور کی یہ خاص بات ہے کہ محبان غالب کے لیے ان کے ذوق کا ہر سامان ریختہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔تلنگانہ یونیورسٹی نظام آبا سے حال ہی میں مریم سلطانہ نے غالب کی نثر پر تحقیقی کام کیا۔ اور انہیں غالب کی نثر سے متعلق بہت سی اہم معلومات اسی ویب سائٹ ریختہ سے حاصل ہوئیں۔ریختہ پر آڈیو فائل کی شکل میں شمس الرحمٰن فاروقی اور دیگر کی آواز میں غالب سے متعلق 80سے زائد ویڈیوز موجود ہیں جن کی سماعت سے کلام غالب کی درست قرائت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اور یہ سہولت اسی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہمیں میسر ہے۔ غالب سوشل میڈیا پر بھی دستیاب ہیں ان سے متعلق فیس بک پر مختلف پیج اور گروپ ہیں جہاں ان کے اشعار پوسٹ ہوا کرتے ہیں۔اسی طرح ٹوئٹر پر بھی غالب کے نام سے کوئی اکائونٹ چلا رہا ہے جس پر غالب کے منتخب اشعار پیش ہوتے ہیں ۔واٹس اپ کے مختلف ادبی گروپوں میں غالب اور غالبیات سے متعلق مواد پیش ہوتا رہتا ہے۔ تصاویر کی شکل میں غالب کے اشعار کو اردو کے علاوہ ہندی میں بھی سلائیڈ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جو انٹرنیٹ میں گوگل امیجز کی سہولت سے دیکھے جاسکتے ہیں۔اگر تصاویر پر مبنی غالب کے اشعار کے ان سلائڈز کو فیس بک‘واٹس اپ اور ٹوئٹر وغیرہ پر شئر کیا جائے تو اردو داں طبقہ غالب کے اشعار سے مستفید ہوسکتا ہے۔ انٹرنیٹ پرمواد کی فراہم کا ایک اہم ذریعہ گوگل سرچ ہے جس میں اگر ہم اردو میں مرزا غالب ٹائپ کرتے ہیں تو ہمیں اردو وکی پیڈیا کی شکل میں غالب کی حیات اور ان کی شاعری اور ان کے فکر و فن سے متعلق بے شمار مضامین مقالات اور دلچسپ تحریریں ملتی ہیں جن کے مطالعے سے ہم غالب کے فکر وفن سے بخوبی واقف ہوسکتے ہیں۔ مختلف بلاگ اور انفرادی تحریروں کی شکل میں غالب سے متعلق مواد ہمیں گوگل کے سرچ انجن سے دستیاب ہوتا ہے۔ گوگل نے غالب کے 220ویں یوم پیدائش پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے خصوصی ڈوڈل لگایا تھا جس سے اردو کے اس عظیم شاعر کی ٹیکنالوجی کے دور میں بھی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اینڈرائیڈ فون کے پلے اسٹور پر بھی کلام غالب‘ غالب کے اشعار اور دیگر کتابیں موجود ہیں جنہیں فون کے اسکرین پر پڑھا جاسکتا ہے۔غالب کی عظمت ان کی شاعرانہ جدت تھی اور ان کے کلام کے معنی کی آفاقیت تھی کہ آج بھی لوگ کلام غالب سے اپنی فہم اور سمجھ کے مطابق مختلف معنی اخذ کر رہے ہیں۔

           غالب کے چاہنے والے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں اور ان کے چاہنے والے شہروں کے علاوہ اضلاع میں بھی ہیں ۔ غالب کے ایک ایسے ہی پرستار تلنگانہ کے شہر نظام آباد میں ہیں ان کا نام سید وسیم احمد ہے جو پیشے سے باغبان ہیں لیکن ان کا ادبی ذوق اور اردو کے ادبی سرمایے کو کمپیوٹر میں محفوظ کرنا دیوانگی کی حد تک ہے وہ ہرسال غالب سے متعلق ایک ویڈیو پروگرام بڑے اسکرین پر پیش کرتے ہیں اور درمیان میں خود کمنٹری دیتے ہوئے غالب کی شخصیت اور فکر کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرتے ہیں ’’غالب کا ہے انداز بیاں اور‘‘ کے نام سے حال ہی میں جناب وسیم احمد صاحب نے نظام آباد میں ایک کامیاب پروگرام پیش کیا تھا جسے شہر حیدرآباد میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ غالب اور خطاطی و مصوری بھی ایک اہم شعبہ ہے۔ کمپیوٹر کے پروگرام پاور پوائنٹ کا استعمال کرتے ہوئے غالب کے منتخب اشعار کو سلائیڈ شو کے ذریعے پیش کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے اردو یونیکوڈ اور جمیل نوری نستعلق فانٹس کو استعمال کرتے ہوئے خوبصورت انداز میں کلام غالب کو پیش کیا جاسکتا ہے اور اس کی مثالیں کمپیوٹر پر موجود ہیں۔کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے غالب کے حوالے سے غیر اردو دانوں میں اردو کو مقبول کیا ہے اور خاص طور سے غزل گلوکاری میں گانے والوں اور سننے والوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو اردو سے محبت کرتی ہے اور اردو زبان کی چاشنی انہیں اس زبان کو سیکھنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔تفہیم غالب کے ضمن میں انٹرنیٹ کا اہم رول ہے ۔دہلی میں مرزا غالب کے مزار کی قدیم تصاویر بی بی سی کے ایک پیج پر دستیا ب ہیں۔ غالب کی دیگر یادگاروں کو بھی ہم انٹرنیٹ کے واسطے سے دیکھ سکتے ہیں۔غالب اکیڈیمی کی سرگرمیوں اور دیگر پروگراموں سے بھی ہم واقف ہوسکتے ہیں۔حیدرآباد میںغالب شناسی کے احیاء کی ایک کوشش مرزا غالب اکیڈیمی کا قیام اور اس کے تحت ہونے والے ادبی اجلاس ہیں جن کی تفصیلات ہمیں اردو کے نوجوان شاعر‘ادیب ‘ محقق و نقاد ڈاکٹر محبوب خان اصغر کی ٹائم لائن سے ملتی ہیں۔ غالب اکیڈیمی کے ادبی اجلاس بہت جلد مقبول ہوگئے ہیں ۔ خوبصورت اشتہار کے ذریعے سوشل میڈیا سے اس پروگرام کی تشہیر ہوتی ہے اور پھر تصاویر اور ویڈیو کی مدد سے انہیں محبان اردو میں عام کیا جاتا ہے۔ مرزا غالب اکیڈیمی کے پروگراموں کی افادیت کے پیش نظر غالب کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے اور اس اکیڈیمی کی روداد کو انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے ’’ غالب اکیڈیمی حیدرآباد‘‘ نامی ویب سائٹ گوگل کی بلاگر سہولت سے بنادی گئی ہے اور آج جس کتاب کا رسم اجرا ہوا ہے اسے دنیا بھر کے قارئین کے لئے اس بلاگ پر پیش کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر ماہ اس اکیڈیمی کے جو اجلاس منعقد ہوں گے ان کی روداد مقالے اور تصاویر اس بلاگ پر پیش کی جائیں گی اس طرح اقبال کے بعد غالب شناسی میں حیدرآباد کی خدمات اسی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ساری دنیا کے قارئین تک عام ہوں گی۔ فیس بک کی سہولت فیس بک لائیو کی مدد سے آج ادبی اجلاسوں اور مشاعروں کو ویڈیو کی شکل میں براہ راست پیش کیا جارہا ہے جو فروغ اردو کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اور اردو ادب کے باذوق ناظرین جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں وہ اس سوشل میڈیا سہولت سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اس لیے میری رائے ہے کہ غالب اکیڈیمی کے سبھی پروگراموں کو فیس بک پر لائیو پیش کیا جائے۔ غالب کی خاص بات یہ ہے کہ لوگ ان کے اشعار میں اپنے جذبات کو ڈھونڈتے ہیں اور انہیںمختلف مواقع پر پیش کرتے ہیں۔ غالب کا شعر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے کو مختلف مواقع پراستعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح کے اشعار کے انتخاب کے لیے لوگ انٹرنیٹ کے سرچ انجن سے مدد لیتے ہیں۔غالب کی شاعری کے علاوہ غالب کے خطوط بھی ہمیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ان خطوط سے ہمیںمغلیہ دور کی تاریخ اور تہذیب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ تاریخ مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہہ سے تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے ناپاک عزائم ناکام ہوجاتے ہیں۔ غالب کے کلام میں جدید ٹیکنالوجی کے اشارے بھی ہوں گے جب کہ حیدرآباد سے پروفیسر وہاب قیصر صاحب نے کلام غالب میں سائنسی اشارے نامی کتاب لکھی۔ اور پروفیسر سلیمان اطہر جاوید صاحب نے دیوان غالب کا پہلا شعر نامی کتاب لکھ کر غالب کے کلام کے نئے گوشوں کو تلاش کرنے میں اہل حیدرآباد کا نام روشن کیا۔اسی طرح غالب اور جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ گفتگو بھی غالب شناسی میں جدت کی ایک کوشش سمجھی جائے گی۔اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی غالب سے متعلق قیمتی مواد انٹرنیٹ پر موجودہے۔کولمبیا یونیورسٹی کے فرانسس ڈبلیو پریشٹ نے اے ڈیزرٹ فل آف روزس کے نام سے غالب کے اشعار ان کے اقوال اور تصاویر پر مبنی سائٹ تیارکی ہے۔غالب کی حیات ان کی شاعری اور فکر پر مبنی انگریزی کتب امیزان کی ویب سائٹ پر آن لائن دستیاب ہیں اور کتابوں کے عنوانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی تفہیم غالب پر بہت کچھ کام ہوا ہے۔ غالب پر لکھے گئے انگریزی اخبارات کے مضامین کا ذکر بھی ہمیں گوگل میں ملتا ہے۔ انسٹا گرام پر غالب کے نام سے ہیش ٹیگ چلایا گیا تھا جس پر دنیا بھر سے چار لاکھ پوسٹ کئے گئے۔ اس طرح غالب کی ہمہ جہتی شخصیت اور مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

 جس طرح غالب کی شاعری کی مختلف جہات ہیں اور ہر زمانے میں کچھ نئیء پہلو ان کے کلام سے نکل آتے ہیں اسی طرح غالب اور جدید ٹیکنالوجی کی بھی کئی جہتیں ہیں جن کی مدد سے ہم غالب کو مزید بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔

غالب اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے اور معلومات کا ذخیرہ بڑھتا جارہاہے ویسے ویسے ہمیں غالب کے مزید نئے گوشوں سے واقفیت ہورہی ہے۔آج اس بات کی ضرورت ہے کہ اردو ادب اور غالب کے حوالے سے جو کچھ بھی مواد ابھی ٹیکنالوجی کی مدد سے محفوظ نہیں ہوا ہے اردو جاننے والے ٹیکنالوجی کے ماہرین اس جانب توجہ دیں اور غالب کے پوشیدہ سرمایے کو انٹرنیٹ کی سہولت سے محفوظ کرتے جائیں۔تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ہم سے بہتر طور پر غالب شناسی میں پیشرفت کریں گی۔اور اس طرح غالب ایک عہد ساز اور مقبول دوام شخصیت بن کر ہمارے دلوں میں آباد رہیں گے۔اور ہم کہتے رہیں کہ

                  ع       ہوئی مدت کہ غالب مرگیا پر یاد آتا ہے

Leave a Reply