ڈاکٹر شوکت محمود شوکتؔ
غالب کے ایک شعر کی تفہیم
اسد اللہ خان غالب (پ: ۲۷ دسمبر،, ۱۷۹۷ء _ م: ۱۵ فروری، ۱۸۶۹ء) اردو اور فارسی کے ایک عالم گیر شہرت یافتہ شاعر، ادیب، مزاح نگار اور مکتوب نگار تھے۔ آپ کا شعری سرمایہ (جو کہ اردو اور فارسی زبانوں میں دستیاب ہے) اپنے اندر وہ تہ داری اور مفاہیم رکھتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اردو دیوان کی سو سے زائد شروح لکھی جا چکی ہیں۔ جن میں سے کچھ شروح مکمل، کچھ جزوی اور کچھ ردیف وار شروح شامل ہیں۔بہرحال، ان تمام شروع کے بالاستیعاب مطالعے سے ایک بات ضرور مترشح ہوتی ہے کہ غالب کی شاعری جہاں اپنے اندر استفہامیہ لہجہ رکھتی ہے وہاں انسانی نفسیات سے بھی مکمل طور پر مملو نظر آتی ہے۔ چاہے، آپ کی وہ شاعری فارسیت زدہ ہے یا سلامت کا مرقع، مگر سطحی اور سرسری شاعری اسے ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ آپ کا ایک شعر دیکھیں جس میں کوئی ثقیل لفظ یا ترکیب کا استعمال نہیں ہوئی ہے،مگر اس شعر کے اندر، مفاہیم و مطالب کی ایک دنیا آباد ہے، شعر ملاحظہ ہو:
؎پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلاؤ،کہ ہم بتلائیں کیا!
بہ ظاہر، یہ ایک سادہ اور مبنی بر سلاست شعر ہے مگر اپنے اندر یہ شعر بھی وہ تہ داری رکھتا ہے کہ اس کی مختلف تشریحات و توجیہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی تشریح، یوں ہو سکتی ہے جیسا کہ شعر کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غالب کا محبوب لوگوں سے پوچھ رہا ہے کہ، غالب کو ن ہے؟ جواب میں غالب کہتا ہے کہ کوئی اسے (میرے محبوب کو) بتائے کہ ہم کون ہیں؟ لیکن، یہ ایک بہت سرسری اور سطحی بات ہو گی۔ اگرچہ! اسی حوالے سے نعمت خان عالیٰ کا ایک فارسی شعر ہے:۔
؎ زمردم یار می پرسد کہ عالیؔ کیست طالع بیں!
کہ عمرم در محبت رفت و کار آخر رسید اینجا
یعنی، عالیؔ کا محبوب لوگوں سے پوچھ رہا ہے کہ عالیؔ کون ہے؟ جواب میں عالیؔ کہتے ہیں کہ میری ساری عمر اس(محبوب) کی محبت میں گزر گئی اور اس کا انجام یہی ہونا تھا کہ وہ میرے نام ہی سے واقف نہیں ہے۔ غالب کے شعر کی دوسری جہت دیکھیے کہ غالب کا محبوب غالب سے اچھی طرح آشنا ہے مگر، تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے کہ غالب کون ہے؟ یہاں غالب کا محبوب، جان بوجھ کر انجان بننے میں ایک طرف تو غالب کو چھیڑ رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غالب سے حد درجہ بے تکلف ہے جب کہ دوسری طرف انجان بننے میں پرانی آشنائی بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اب وہ یعنی غالب کا محبوب اور غالب ایک دوسرے سے ناراض ہیں تاہم! دونوں کے درمیان محبت کا سلسلہ کہیں پرانے زمانے میں ضرور رہا ہے۔ جیسا کہ راقم الحروف کا ایک شعر ہے:۔
؎ کہیں ظاہر مراسم ہو نہ جائیں
بدل کر راستہ چلتے نہیں ہیں
غالب کے مذکورہ شعر کی تیسری تشریح دیکھیے، جسے بیخود دہلوی نے کچھ یوں بیان کیا ہے، کہ جب غالب کے محبوب نے محفل میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ غالب کون ہے؟ تو گویا! غالب پر ایک برقِ بلا گر پڑی اور گھبرا کر بزم میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا! خدا کے لیے بتا دو کہ میں کون ہوں؟ اور یہ بھی بتا دو کہ میں اپنے محبوب کی اس بے اعتنائی کا کیا جواب دوں؟
بہرحال! مذکورہ تشریحات عام سی ہیں اور غالب کے نزدیک اس شعر میں عام سی بات نہیں بل کہ ضرور کوئی خاص بات ہی بیان کی گئی ہے۔ اب ہم اس خاص نکتے اور بات کو تلاش کرتے ہوئے مذکورہ شعر کی دو اور تشریحات پیش کرتے ہیں۔
پہلی تشریح یوں ہو سکتی ہے کہ غالب اور ان کا محبوب لڑ پڑے ہیں اس (محبوب) نے غالب کو زمین پر گرا دیا ہے اور اب وہ غالب کے چھاتی پر بیٹھ کر ببانگِ دہل کہہ رہا ہے، اب بتاؤ! کہ غالب کون ہے؟ تم تو اب مغلوب ہو۔لیکن، غالب نیچے لیٹے ہوئے آواز لگاتا ہے کہ کوئی بتلاؤ کہ ہم کیا بتلائیں؟ کیوں کہ ہم تو اب بھی غالب ہیں۔ ا ب اس شعرِ تشریح طلب کی دوسری تشریح ملاحظہ ہو کہ غالب اور ان کا محبوب کسی کمرے میں بیٹھے ہو ئے ہیں، باہر کسی نے دروازے پر دستک دی، تو غالب کا محبوب گھبرا کر کہتا ہے کہ غالب کون ہے؟ یعنی، اے غالب!باہر دروازے پر کون کھڑا ہے؟ جواب میں غالب زور سے آواز لگاتے ہیں کہ دروازے پر جو بھی موجود ہے وہ اپنا نام بتائے کیوں کہ ہم کس طرح اندر کمرے میں رہتے ہوئے بتا سکتے ہیں کہ باہر کون صاحب/صاحبہ ہیں؟
بہرحال! غالب کی شاعری، نہ صرف پہلودار ہے بل کہ اپنے اندر تہ داری اور کئی مفاہیم و مطالب اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
٭٭٭