محمد اظہر الدین صدیقی
ریسرچ اسکالر، ہوگلی محسن کالج، کولکاتا
غزل
یوں تو کانٹوں کے میلے بسائے ہوئے ہو
پھر لبوں پر ہنسی کیوں سجائے ہوئے ہو
دل میں چاہت نہیں ہے، نا ہے آنکھوں میں شدت
پھر یہ ملنے کی ضد کیوں لگائے ہوئے ہو
تم تو ہرجائی ہو، بے وفا ہو ، ستم گر
پھر محبت کے دھن کیوں بجائے ہوئے ہو
نہیں تم کو الفت، نا ہے کچھ محبت
پھر میرے دل میں گھر کیوں بنائے ہوئے ہو
ہمارے اشکوں کی قیمت تمہیں کیا پتا ہے؟
پھر یہ در بھاو کیوں تم لگائے ہوئے ہو
یہ ہے غیروں کی دنیا ، نہیں کوئی اپنا
پھر غموں سے کیوں دل کو جلائے ہوئے ہو
***