You are currently viewing غزل

غزل

فیضان بریلوی

غزل

جستجو تھی پھول کی خاروں کو اپنا کر لیا

مل گیا قسمت سے جو اس پر گزارا کر لیا

ایک تو پہلے غم دوراں سے ہم تھے مضطرب

دل لگایا اور غم جاناں اضافہ کر لیا

آشیانے کے اندھیرے سے ہی جب ڈرنے لگے

آشیانے کو جلا کر کے اُجالا کر لیا

اب نہ کھولے کوئی بھی ان پاؤں کی زنجیر کو

آج ہم نے رقص کرنے کا ارادہ کر لیا

ہم جو ٹھہرے تھے تو سارے راستے سنسان تھے

ہم چلے تو سب نے راہوں کا احاطہ کر لیا

بن گئی دنیا تماشائی تو کیا کرتے بھلا

ہم نے بس اتنا کیا خود کا تماشا کر لیا

آئینے کے سامنے بیٹھا ہوں میں اس سوچ میں

زندگی تھی کس لئے اور میں نے کیا کیا کر لیا

کس قدر تنہائی کے عالم میں تھے مت پوچھیے

خود سے ہی باتیں کریں اور خود سے جھگڑا کر لیا

عادتوں کو چھوڑنا فیضان مشکل تھا مگر

زندگی میں یہ بھی ہم نے رَفتہ رَفتہ کر لیا

Leave a Reply