You are currently viewing خیالوں کا سفر: ایک جائزہ

خیالوں کا سفر: ایک جائزہ

 

محمد شہنواز عالم

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو،اسلام پور کالج،اتر دیناج پور (مغربی بنگال)

خیالوں کا سفر: ایک جائزہ

کیشری ناتھ ترپاٹھی ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے، وہ بیک وقت عمدہ شاعر، بہترین وکیل، قابل اعتماد سیاست داں، دور اندیش، فرض شناس اور اعلیٰ پائے کے مفکر ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے احساسات، جذبات اور دلی واردات کا اظہار جس اندا ز سے کیا ہے وہ قابل غور اور لائق مطالعہ ہے۔ ان کی شاعری اچھوتے موضوعات اور رزمرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کی ترجمان ہے۔ گویہ کہ سیاسی، سماجی، نفسیاتی، معاشی ہر رویے کا عکس ان کی شاعری میں جابجا نظر آتا ہے۔ اب تک ان کے چھ شعری مجموعے منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ان مجموعوں کے علاوہ ان کا شعری کلیات ’’سنچئیتا‘‘ کے نام سے منشائے شہود پر آچکا ہے۔ اس بات کا انکشاف کردینا بہتر ہوگا کہ یہ تمام شعری مجموعے اور کلیات ہندی زبان میں ہیں۔ کیشری صاحب کی شاعری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان کی شاعری کا ترجمہ ملک و بیرون کی دیگر زبانوں میں کیا جاچکا ہے۔ مختصر یہ کہ کیشری صاحب اپنی شاعری کے گوناگوں اوصاف کی بنا پر اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہیں۔

اردو ادب بالخصوص اردو شاعری میں زرینہ زرّیں صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ان کی شاعری کی جانب جوچیزیں ہمیں سب سے پہلے متوجہ کرتی ہیں وہ ان کی شاعری کے موضوعات، تانیثی مسائل، مطالعۂ کائنات، تخیل، تفحص الفاظ اور انداز بیان ہے ان کی شاعری کے یہی وہ عناصر ہیں جو ان کی شاعری کو فطری بنانے میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ زرینہ زرّیں صاحب عمدہ شاعرہ کے ساتھ ہی ساتھ تحقیق کار، تنقید نگار اور مترجم بھی ہیں۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں کے مطالعے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع، شعور پختہ، ذہن آسودہ، فکر بلیغ اور انداز بیان دلچسپ ہے۔ اس ضمن میں ان کی تصنیف ’’حلقۂ ارباب ذوق‘‘ اور ’’اردو میں عملی تنقید کے مختلف پہلوؤں کا تنقیدی مطالعہ‘‘ قابل ذکر ہیں جن کا تعلق تحقیق و تنقید سے ہے، بحیثیت مترجم بھی ان کا نام قابل احترام ہے، اس میدان میں بھی انہوں نے اپنے علم کا ثبوت پیش کیا ہے انہوں نے نہ صرف کیشری ناتھ ترپاٹھی کی نظموں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا بلکہ اسے پوری سلیقگی کے ساتھ کتابی شکل میں پیش بھی کیا ہے جس کی حیثیت اردو ادب میں ایک اضافہ کی ہے۔ ’’خیالوں کا سفر‘‘ کے متعلق زرینہ صاحب اپنی غرض و غائط بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔

’’خیالوں کا مسودہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں اردو زبان کے الفاظ خاصی تعداد میں نگاہوں سے گذرے، مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی، اور یہ ظاہر ہوا کہ جناب کیشری ناتھ ترپاٹھی کو اردو زبان سے بھی شغف ہے میںنے ’’خیالوں کا سفر‘‘ اردو رسم الخط میں بھی شائع کرنے کا مشورہ دیا۔ آپ کو میری بات پسند آئی اور یہ ذمہ داری میرے ہی حصے میں آگئی، میں نے یہ محسوس کیا کہ آپ کے اندر ایک تجسس موجود ہے، آپ اکثر و بیشتر مجھ سے اردو زبان، اسلوب، تلفظ، معنویت اور تہذیب کے متعلق واقفیت حاصل کرتے رہتے ہیں۔

میں نے الفاظ کے تصحیح کرکے ’’خیالوں کا سفر‘‘ دیوناگری سے اردو رسم الخط میں تحریر کرکے ان کے حوالے کردیا۔ اب یہ کتاب اردو رسم الخط میں قارئین کی دلچسپی کے لئے حاضر ہے۔‘‘

(دیباچہ ۔’’خیالوں کا سفر‘‘ از-  زرینہ زرین۔ سن اشاعت: مارچ  ۲۰۱۷، ناشر: ارون کمار گھوش، آج کل پبلشر کولکاتا۔ صفحہ: ۸۔۹)

’’خیالوں کا سفر‘‘ میں شامل نظموں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زندگی کے سفر میں جدید تقاضوں اور نئے مطالبوں کو بروئے کار لانے میں عہد رفتہ کی روشنی میں اپنی منزل کے نشانات کی تلاش و جستجو کے لئے ماضی کی پرتوں کو کھولنا ضروری ہے کیوں کہ ماضی وہ بھی ہے جو ابھی ابھی گذراہے، ماضی وہ بھی ہے جو کچھ دہائیوں اور صدیوں قبل گذر چکا ہے اور ماضی وہ بھی ہے جو ہزار سال پہلے گذر چکا تھا۔ گویا انسان اپنے گذرے ہوئے زمانی البعاد اور فاصلوں سے اسی طرح جڑا ہوا ہے جس طرح گذرے ہوئے کل یا اس لمحے سے جو ابھی ابھی گذرا ہے، چنانچہ انسان کا وجود جو آج کل ہے اس وجود کا تسلسل ہے جو ہزاروں سال پہلے تھا۔ اس سلسلے میں اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہوئے کیشری ناتھ ترپاٹھی رقمطراز ہیں۔

’’جس شکل میں من میں گنگناہٹ آئی ویسی ہی قلم کے ذریعہ کاغذ پر اتاردی، ظاہر ہے کہ خیالات، روزمرہ عام آدمی کی زندگی سے جڑے ہوں گے۔ انسان کی خواہشیں مختلف طریقے سے ظاہر ہوتی ہیں۔ شاعر کسی عمر یا حالات سے بندھا نہیں رہ سکتا۔ اس کی سرحد بے انداز ہوتی ہے۔ ذہن میں منڈراتے خیالوں کو قلم بس تحریر کردیتی ہے ’’خیالوں کا سفر‘‘ میں جو کچھ بھی ہے اسے نظم کہیں، شعر، کویتا کہیں یا کچھ اور، میں نہیں جانتا، لیکن یہ سب کافی عرصہ پہلے کی ہیں تقریباً بیس پچیس سال پہلے کی ہیں۔ کہیں کاغظ کے ٹکڑوں میں یا کسی ڈائری کے صفحوں میں چھپی ہوتی تھیں۔ تلاش کرنے پر مل گئیں۔‘‘

(پیش لفظ،’’ خیالوں کا سفر‘‘از- کیشری ناتھ ترپاٹھی۔ سن اشاعت: مارچ ۲۰۱۷، ناشر: ارون کمار گھوش، آج کل پبلشر کولکاتا۔ صفحہ: ۷)

مذکورہ اقتباس سے بات واضح ہوتی ہے کہ کیشری صاحب کے ذہن میں جو خیالات آئے انہوں نے اسے من و عن شاعری کے قالب میں ڈھال دیا جو بڑے فنکار اور شاہکار تخلیق کی پہچان ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ سچا فن کار وہی ہے جو اپنی ذات اور کوائف سے پرے فن کے تقاضوں کو پورا کرے، جس میں جمالیات کی حس، احساس حسن، داخلی و خارجی کیفیات، حسن و عشق کی سرمستیاں، سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل بخوبی بیان کئے گئے ہوں، گویا یہ تمام خوبیاں ہمیں کیشری ناتھ ترپاٹھی کی نظروں میں صاف نظر آتی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ان کی نظموں میں رومانی فضا بھی ہے اور زمانے کا شکوہ بھی اور کہیں کہیں تنہائی کا احساس بھی۔

جب خیالوں کے سفر میں گم ہوا

ایک لمحہ ٹھہر کر کچھ کہہ گیا

مل گئی دستک کہیں سے زندگی کو

ہر صفحے پر داستان لکھ کر گیا

بے وفائی اور شکستیں، بے انتہا مایوسیاں

بے وقت ہی چھن لی رخ سے ہمارے سرخیاں

آہ کی آہٹ نہ کوئی پاسکا

خشک اشکوں سے سمندر بھر گیا

(جب خیالوں کے سفر میں گم ہوا)

تم ایک بار تو آؤ پتہ بتاتے ہیں

کیوں انتظار کراؤ پتہ بتاتے ہیں

تیری پلکوں میں نظر بند ہیں سپنے میرے

ذرا نظر تو اٹھاؤ خطا بتاتے ہیں

میرے شکوؤں درد معلوم ہے کیا تجھ کو

بن کے گنہگار تو آؤ سزا بتاتے ہیں

تمہاری لو سے کہیں روشنی روشن ہوگی

کہاں چراغ جلاؤ مکاں بتاتے ہیں

(تم ایک بار آؤ پتہ بتاتے ہیں)

میں نے ہر خواب تمہاری ہی نظر سے دیکھا

تجھ میں خوابوں سے بھرا ایک سمندر دیکھا

بدلے حالات میں نظریں بھی بدل جاتی ہیں

جانے کیا بات ہے تجھ میں نہیں انتر دیکھا

(میں نے ہر خواب تمہاری ہی نظر سے دیکھا)

دور دکھتے تھے وہ کسی بادل کی طرح

کسے یقین تھا کہ وہ برس بھی جائیں گے

مدتوں سے انتظار تھا گھنے سائے کا کہیں

کسے یقین تھا کہ وہ ترس بھی کھائیں گے

کس جانب یہ پہل تھی، کسی کو یاد نہیں

احساس اتنا ہوا کہ ان کو عظیم پائیں گے

(دور دکھتے تھے کسی بادل کی طرح)

دو جام اس نے دیئے نظروں سے ہی سہی

مجھ کو اب میری موت کا کوئی گلہ نہیں

کربلا کو لے چلے تابوت میں مجھے

کھولا، وہاں اس کے سوا کچھ بھی نہ ملا

اس جام عشق سے تو قیامت بھی پست ہے

اس پار سے اس پار تک ہے سلسلہ وہی

بے رخ نظارے اور ہیں، رخ کے کہیں کچھ اور

دیدار پر جو رک گیا ایک دم ہلا نہیں

کس کا کریں ہم شکریہ، کوئی ساتھ تو دکھے

میں خواب میں پلتا رہا، اس کا گلہ نہیں

کیشری ناتھ ترپاٹھی کے یہاں شاعری صرف تفنن طبع کا ذریعہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیہ شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ان کی شاعری میں گوناگوں خصائص ملتے ہیں۔ ان کی نظموں میں عشقیہ مضامین اور جمالیاتی اسلوب کی کارفرمائی اپنی پوری توانائی اور تحرک کے ساتھ نظر آتی ہے۔ جو ایک مخصوص رومانی طرز احساس کا غماز ہے جہاں شاعر حقیقی دنیا سے الگ ایک غیر مرئی شاعرانہ دنیا آباد کرکے عشق و محبت کا سہارا لیتا ہے۔ مختصر یہ کہ ان کے یہاں وجود کی بے قراری شکست ذات اور شکست آرزو کے سائے جگہ بہ جگہ نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کا رشتہ سماج اور انسان سے گہرا اور مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس سلسلے کی نظموں کے بند مثال کے طور پر پیش خدمت ہیں:

نہ ذات نہ مذہب یہاں

نہ قوم کا ہی کام

بس ایک ہی قوم ہو

نام ہو انسان

(نہ ذات نہ مذہب یہاں)

میں تیری زبان سے بولوں

تو میری زبان سے بول

ہو مٹنا تفرقے

تو اک زبان سے بول

یہ انسان کی زبان ہے

محبت ہے اس کا نام

انسان ہے انسان سے

اس کی زبان سے بول

کیوں لوگ بولتے ہیں

علیحدگی کی اب زبان

حد بندیوں پر لوگ کیوں

کرتے ہیں اب گمان

ایک ہی زمین یہاں

ہے ایک آسمان

صرف امن کے بول یہاں

ہرزبان سے بول

(میں تیری زبان سے بولوں)

نظم کے ٹکڑوں سے بات واضح ہوتی ہے کہ کیشری ناتھ ترپاٹھی انسان دوستی، عالمی برادری، حب الوطنی اور امن آشتی کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں انسانیت، خلوص و محبت اور جذبۂ ایثار کو مختلف صورتوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعہ عالم انسانیت کو بھائی چارہ اور امن اور آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ کیوں کہ موجودہ دور سیاسی بحران کا دور ہے، کل کائنات میں تناؤ کا ماحول برپا ہے، انسان انسان کا دشمن بنتا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں ہر روز انسانیت سوز حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ جن کے سبب عالم انسانیت کو فکر لاحق ہورہی ہے کہ عالمی امن و سکون اٹھتا جارہا ہے اور انسانیت سوزی کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے، لہٰذا کیشری ناتھ ترپاٹھی نے ان تمام واقعات کو موثر انداز سے اپنی نظموں میںپیش کیا ہے کہ ملکوں کی فلاح و بہود، اور خوشحالی آپسی میل ملاپ، اخوت، بھائی چارہ اور یکجہتی میں پوشیدہ ہے۔

مجموعی طور پر ’’خیالوں کا سفر‘‘ کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زرینہ زرّیں صاحب نے ایک غیر معمولی شخصیت کی نظموں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کرکے ایک اہم کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ ان کی گراں قدر کاوش کو بہت دیر تک یاد رکھا جائے گا۔

  1. SHAHNAWAZ ALAM

Assistant professor

Department of Urdu

Islam Pur College, Uttar Dinaj Pur

PIN: 733202

WEST BENGAL

Mb. 9874430252

Email: shahnawazalam_26@yahoo.com

Leave a Reply