فیضان بریلوی
غزل
اب تو ہر بات پہ اس درجہ خوشی ہوتی ہے
جب بھی ہنستے ہیں تو آنکھوں میں نمی ہوتی ہے
سوچتے ہیں جو کبھی اپنے حسیں ماضی کو
پھر تو اس حال پہ بس نوحہ گری ہوتی ہے
خانہ دل میں حسیں تاج محل کی صورت
کئی ارمانوں کی اِک قبر بنی ہوتی ہے
دن کے ڈھلتے ہی چلے آتے ہیں بھولے بھٹکے
شب میں ہر شاخ پرندوں سے سجی ہوتی ہے
ہر طرف شور خموشی میں دبی اِک آواز
میرے کانوں میں ہمیشہ ہی پڑی ہوتی ہے
اب مری ذات سے لپٹے ہوئے ہیں غم ایسے
جیسے دیوار پہ تصویر لگی ہوتی ہے
ساری دنیا کی کرو سیر مگر یاد رہے
خانہ دل میں فقط ایک گلی ہوتی ہے
نقص چہرے پہ نظر آتا ہے اپنے فیضان
آئینے پہ لگی ہر چیز بری ہوتی ہے