You are currently viewing اقبال کے مجموعۂ کلام بال جبریل پر ایک طائرانہ نظر

اقبال کے مجموعۂ کلام بال جبریل پر ایک طائرانہ نظر

محمد شفاء اللہ صدیقی

صدر شعبہ اردو ،عربی و مطالعہ اسلایات

جی ۔وی ۔ای ۔آئی ،سری نگر کشمیر

اقبال کے مجموعۂ کلام بال جبریل پر ایک طائرانہ نظر

          بال جبریل( ۱۹۳۵؁ء )آخری عمر میں تخلیق کردہ علامہ کا دوسرا مجموعۂ کلام اور اردو شاعری کا ایک حسین گلدستہ ہے ۔ اسے اسرارخودی (۱۹۱۴؁ء)،رموزبے خودی(۱۹۱۵ ؁ء  )پیام مشرق( ۱۹۳۲؁ء)،زبور عجم (۱۹۲۷؁ء )اور جاوید نامہ( ۱۹۳۲؁ء )کا عطر مجموعہ یا معجون مرکب کہا جا سکتا ہے ۔ اسمیں چھوٹی بڑی تمام نظمیں ۵۹،غزلیں ۶۱،قطعات ۲اور کل رباعیات ۳۹ ہیں ۔ مجموعہ کے سر ورق پر مرقوم یہ شعر ؎  ’’ پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر ۔مرد ناداں پرکلام نرم و نازک بے اثر ‘‘نادان و کج فہم افراد پر گہرا طنز ہونے کے ساتھ ساتھ نا قدر شناسان اقبال  کے لئے ایک زبردست تازیانہ ہے ۔

         بال جبریل اپنے مشمولات اور شعری ہیئتوں کے تجربے دونوں لحاظ سے اپنی نوعیت ایک منفرد ادبی وشعری تخلیق ہے۔اس کی اس مسلمہ انفرادیت و خصوصیت کے سلسلے میں پرو فیسر آل احمد سرور اپنی کتاب’’ دانشور اقبال‘‘ میں صفحہ نمبر ۲۷۷پر کچھ اس طرح رقمطرازہیں کہ’’اسمیں اقبال کی شاعری کابدر کا مل ہی نہیں اردو شاعری کی صدیو ں کی چمن بندی کا حاصل بھی مل جا تاہے ۔ اسکی نظمیں  ، غزلیں دونو ں اردو شاعری کی آبرو ہیں ۔بنا بریں اگر مجھے ہزاروں کتابوں میںسے ایک کا انتخاب کر نا ہو ،سمند ر میں سے ایک موج پر توجہ مرکوزکرنی ہو ،باغ میں سے ایک پھول چننا ہو،دھنک کے سات رنگوں میں سے ایک کا نام لینا ہو  تو بال جبریل کا نام لونگا ،، ۔(۱)

          بلاشبہ اقبال کی شعری تصنیف’’ بال جبریل‘‘ سر تا پاانسانی زندگی کے اہم عناصر کا ایک دلکش اوردیدہ زیب منظر نا مہ ہے ۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجمو عہ میں شامل تمام نظموں،غزلوں،قطعوں اور رباعیوں کا تجزیہ اس مختصر سے مضمون میں پیش کر پانا مجھ جیسے اردو کے ایک طا لب علم کے لئے بہت مشکل ہے ۔ لہذامیں اپنے اس مضمون میں اقبال کے مذکورہ بالا مجموعہ’’بال جبریل‘‘کی صرف اُنہی نظموں کامختصر تجزیہ یا اجمالی جائزہ پیش کروں گاجن کی وجہ سے اقبال دنیائے شعر و ادب میں امر ہیں۔ چنانچہ’’ لینن خدا کے حضور میں‘‘ ،’’فرمان خدا ‘‘،’’جبریل و ابلیس ‘‘،’’الارض للہ‘‘ ،’’ لالہ صحرا‘‘،’’ فرشتے آدم کو رخصت کرتے ہیں‘‘ ، ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ ،’’ اذان‘‘ ،’’طارق کی دعا‘‘اور ’’شاہین ‘‘ مختصر نظموںمیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔جب کہ’’ مسجد قرطبہ ‘‘ ،’’ ساقی نامہ ‘‘،’’ ذوق و شوق ‘‘ اور ’’ پیر رومی ومرید ہندی ‘‘ طویل نظموں میں مجموعۂ بال جبریل کی وہ قابل قدر اور لائق تقلید اردو کی نما ئندہ نظمیں ہیں جنہیں اقبال کی شاعرانہ عظمت کے بلند مینار کی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم ذیل میں طوالت کے خوف سے صرف انہی نظموں کا مختصراً تجزیہ پیش ہے جو ان نظموں میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

         مسجد قرطبہ : ۔’’مسجد قرطبہ ،،یقینا ہسپانوی سرزمین پر واقع سنگ و خشت سے مرقوم ایک مستند تاریخ اور مسلمانان اندلس کی جانفشانی کی علامت ،انکے ذوق عبودیت کی پہچان اور اسلامی تصور حیات کی جیتی جا گتی ایک تصویر کہی جا سکتی ہے ۔مسجد شاعر کی نظر میں مانند حر م پا ک اور خون مسلمانان اندلس کی امین ہے ۔ بقول آل احمد سرور’’ مسجد قرطبہ بیانیہ نظم ہونے کے ساتھ ساتھ علامتی نظم بھی ہے ۔ غالبا دنیا کی کسی شاعری میں مسجد کو علامت بناکراس طرح کی نظم نہیں کہی گئی ،،(دانشور اقبال)نظم کی موضوعاتی وسعت،دائرۂ تخیل کی ہمہ گیریت،اس کے کینوس کے پھیلائو،اس کے پس منظر کے طویل وعریض تاریخی شعور پر مبنی ہونے اوراس میں پائے جانے والے مضامین کی آفاقیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے روائع اقبال کے مترجم مولوی شمش تبریز ’’نقوش اقبال‘‘میں ایک جگہ ر قمطراز ہیں ’’ اس میں تقریبا فتح اندلس سے لیکر زمانہ حال تک کے تاریخی حوادث و انقلاب اور فکرو فلسفہ کی اہم تحریکات تک کا ذکر آگیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اقبال ؒ کا نظر یہ حیات وکائنات ،ان کا فلسفہ خودی ، مردمومن کا تخیل ، ایمان وعشق کے بارے میں واضح تصورات ،ان کا فلسفہ و تاریخ ، ان کا نظریہ شعروادب ،فنون لطیفہ کے بارے میں ان کا طرز عمل زندگی کے تخلیقی و تحریکی عناصر اور ان کے علاوہ بہت سے واضح نظریات اس نظم میں آگئے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسجد قرطبہ کے آئینہ میں ہم اقبال کی  ہشت پہلوشخصیت کے خط و خال دیکھ سکتے ہیں اور ان سے مل سکتے ہیں ،،۔(۲)

          جہاں تک نظم کی فنی خوبیوں کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں جگن ناتھ آزاد کا یہ ایک اقتباس کا فی ہے ،جو ڈاکٹر فخر الاسلام کی مرتب کردہ کتاب ’’ اقبال کی نظموں کا تجزیا تی مطالعہ‘‘ کے صفحہ نمبر ۸۰ -۸۱پر درج ہے ۔چناچہ وہ (جگن ناتھ آزاد ؔ) اس نظم کی ادبی اور فنی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی ایک نگارش میں لکھتے ہیں:۔

          ’’ اس نظم کا ہر بند غیر مردف اشعار پرمشتمل ہے اور ٹیپ کا ہر شعر مردف ہے ۔ خدا جا نے یہ محض اتفاق ہے یا التزام جو شاعر کے نغمہ آشنا احساس نے بر قرار رکھا ہے ۔یہ نظم صرف اقبال کا ہی شاہکا ر نہیں  بلکہ ساری اردو شاعری کا شاہکا رہے ۔اردو شاعری میں اس نظم کے سوا کچھ نہیں ہو تاتو بھی ہماری اردو شاعری دنیا کی صف اول کی شاعری میں ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتی تھی۔ مسجد قرطبہ شعریت و رومانیت ،حقیقت پسندی ،رمزیت اور ایمائیت کا  ایک ایسا حسین  امتزاج  ہے  کہ ہماری ساری اردو شاعری روزاول سے آج تک اس کی مثال پیش کر نے سے قاصر ہے ،،(۳)

         ساقی نامہ:۔

         ’’ساقی نامہ، ، اقبال کی ایک شاہکار  انقلابی نظم ہے ۔جس میں خودی اور زندگی پرسیر حاصل بے لاگ تبصرہ کیا گیا ہے ۔ نظم

مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدارکرنے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ۔ زندگی اور موت کی حقیقت کو دو دوچار کی طرح سمجھانے والی یہ نظم خداشناسی کے لیے خودی کو لازمی قرار دیتے ہوئے اسے انسانوں کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ گردانتے ہیں ۔

         ڈاکٹر کلیم الدین احمد نے نظم کے پس منظری حسن اور اچھوتے خیالات دونوں لحاظ سے انفرادیت کی حامل نظم ’’ ساقی نامہ ‘‘ کو اقبال ؒ کی بہترین نظموں میںشمار کیا ہے ۔انہوںنے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ نظم کا عنوان یقینا پرانا ہے تاہم  اس میں پیش کردہ خیالات و احساسات نئے ہیں ۔گویا پرانی بوتل میں نئی اور بھری ہوئی شراب پیش کی ہے ۔مثلاً یہ اشعار دیکھیے( ۴ )  ؎

                  ہوا خیمہ زن کاروان بہار-ارم بن گیا دامن کوہسار

                  گل ونرگس و سوسن ونسترن -شہید ازل لالہ خونیں کفن

                  جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں – لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں

         صنائع لفظی اور بدائع معنوی کا حسین مرقع یہ نظم اپنے ایک ایک شعر میں اسلامی تاریخ کے کئی کئی اور اق سمیٹے ہوئی ہے ۔ نظم سات بندوں پرمشتمل مستقل سات مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہے ۔ چنانچہ منظر نگاری ، مسلمانوں کے موجودہ حالات کاتجزیہ دور حاضر کی روشنی میں ،نوجوانان امت کیلئے بارگاہ الہی میں دعا ریزی ،زندگی کی ماہیت ،زندگی کی خصوصیات ،خودی کی ماہیت اورخودی کی خصوصیات اس نظم کے با لترتیب موضوعات ہیں مثلا یہ اشعار دیکھئے !

      فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور

         ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

          حقیقت خرافات میں کھوگئی

          یہ امت روایات میں کھوگئی

          جوانوںکو سوزجگر بخش دے

         مراعشق میری نظر بخش دے

              یہ ثابت بھی ہے اور سیاربھی

          عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی

              بڑی تیز جولاں بڑی زود رس

           ازل سے  ابد تک رم یک نفس

                خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے

                   فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

                                              خودی شیر مولا جہاں اسکا صید!

                                              زمیںاسکی صید ،آسماں اسکا صید!

         فنی طور پر اس نظم میں سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ رعنائی و غنائیت ہے ۔ یہاں فصاحت  و بلاغت کا صحیح مطلب ،جذبات نگاری و فطرت کشی کی بہترین مثال ،فلسفہ و حکمت کا موجزن سمندر محسوس کیا جا سکتا ہے ۔بقول آل احمد سرور ’’ ساقی نامہ میں منظر نگاری ،حال پر تبصرہ ،زندگی کے ارتقااور حیات کے موت پر فتح پانے کی اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کی جو مثالیں ملتی ہیں وہ حکیمانہ شاعری کی بڑی دل کش نمائندگی کرتی ہیں۔ساقی نامہ کا اعجاز یہ ہے کہ اس کے ایک ایک مصرعے میں داستان حیات کے بہت سے اوراق آگئے ہیں ‘‘(۵) بالخصوص نظم کا آخری حصہ قاری پر بے خودی کی کیفیت طاری کر دیتا ہے ۔ اسلوب سادہ ، بندش دلنشیں اور عمدہ فارسی تراکیب  اس میں نظر آتی ہیں ۔ نظم کی مندرجہ بالا خصوصیا ت کی بنا پرہی کلیم ا لدین احمد جیسا بت شکن نقاد بھی اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کر  نے پر مجبورہوا۔ ’’نظم ’’ساقی نامہ‘‘ ایک بہت ہی لطیف ،پیچیدہ ،رنگین اور توانا نظم ہے اور اس میں نقوش و آہنگ کی ایسی فنکارانہ گونج ہے جو اردو نظموں میں نا پید ہے ،،(۶)

         لینن خدا کے حضورمیں :۔

          اقبال نے اس نظم میں مغربی تہذیب و تمدن کی تصویر کشی کی ہے اور وہا ں کی اخلاق باختہ و انسانیت سوز صورتحا ل کا منظر نامہ لینن کی زبان سے بارگاہ الہی میں پیش کیا ہے۔نظم میں پیش کردہ اقبالی ؒ خیالات سے اس (نظم ) کا اشتراکی انقلابات کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات کے لیے ایک جواز قرارپانا معلوم ہوتا ہے ۔جب کہ نظم اپنے جملہ مشمولات اور افکار کے تناظر میںایک فنکار کے تئیں دوسرے فنکا رکی ہمدردی اور اسکی کردار نگار ی میں دوسرے فنکار کا حقیقت پسندی کے پہلو کو تلاش لینے کی ایک عمدہ ترین مثال ہے ۔ ساتھ ہی ایک مفکر کا دوسرے مفکر کی قدر شناسی کو یقینی بنانا بھی ہے ۔آل احمد سرور بقول ’’ اقبال ؒ نے لینن کے نقطہ نظر کو جس شاعرانہ چابکدستی سے پیش کیا وہ انھیں کا حصہ ہے‘‘ (۷)

         چند اشعار دیکھئے !

                  یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے

                                     حق یہ ہے کہ بے چشمئہ حیواں ہے یہ ظلمات

                           یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت

                                          پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

                           بیکار ی و عریانی و مے خواری و افلاس

                                    کیا کج ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

          غور کیجئے اقبال نے کیا ہی خوبصورت لب و لہجہ میں حقیقی تعلیم  او ر ربانی علم کا تعارف کراتے ہوئے صحیح نظام تعلیم کی طرف ہم سب کی تو جہ مرکوز کرائی ہے ۔ جبکہ مغربی علوم کے منفی اثرات کے نمونے کے طور پر انہوں نے یورپ کا نقشہ ہمارے سامنے لا کر رکھدیا ہے ۔ یہیں سے اسلامی تعلیمات کی افادیت او ر تعلیمی طرز نبوی ﷺ کی اہمیت طشت از بام ہو جا تی ہے ۔

          دوسرے شعر سے حکومت کی ظاہر داری ،ارباب اقتدار کی چنگیزیت ،حکمرانوں کے ظلم و جو ر کا منظر نامہ ،سامراجیت ،بے روح سائنسی معلومات اور  بے دین تہذیب کاخوبصورت نقشہ سامنے آتا ہے ۔ جس سے  انسانیت سوز مغربی تہذیب و تمدن کا پردہ  با لکل چاک ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس شعر میں اقبال نے حقیقی تعلیم او رصحیح حکمت و دانائی کا درس دیا ہے ۔ جو طویل غو ر و خوض کے بعد قاری پر نمایا ں ہو تا ہے ۔

           تیسرا شعر یو رپ کی انتہا ئی درجہ کی ذلت و خواری کی داستا ن او رگمراہی و بے راہ روی کی کہا نی ہے ۔ اقبال نے دورئہ یو رپ کے بعد شاید اسی لئے کہا تھا ۔ کہ ان مدارس کو یونہی رہنے دو ورنہ یو رپ کے میخانے دیکھ آیا ہوں ۔ہرطرف حیوانیت و  عریا نیت کا ننگا نا چ ہو تا ہے ۔ ظلم و بر بریت کی سنگ باری ہو تی ہے ۔ ہر سو بد کا ری و عیاشی کے اڈے او رغربت و افلا س کی تصوریریں ہی تصویریں نظر آتی ہیں۔

         نظم فرمان خدا : ۔

         یہ نظم ایک مؤثر اور معنی خیز کا میاب تمثیل ہے ۔ اقبال کی سیاسی بصیرت کو ظاہر ا ور مزدور طبقہ کی ز ندگیوں میں لہرو تموج پیدا کرتی ہے ۔ اس میںدین کے نا م پر دھوکہ باز پجاریو ں کی  قلعی کھو ل دی گئی ہے ۔اس میں ظالم ومظلوم کے مابین ایک جنگ چھیڑدی گئی ہے ۔مظلوموں کی انقلابی آوا ز جو حالات سے پیدا شدہ جھنجھلاہٹ کا ثمرہ قرار دیا ہے ۔اسی طرح یہ نظم مذہبی امورمیں خلوص کے عنقا ہونے کو بھی نہایت طنزیہ انداز میں بیان کرتی ہے۔چنانچہ نظم حرم پاک کو تصنع و تکلف کے بجائے فطری او ر اصلی سادگی بخشنے پرز و ر اور اس میں ظاہر داری کی جملہ خود ساختہ علامتو ں کو نیست و نابود کردینے کا ایک حسین درس بھی دیتی ہے ۔ اکثر نقادوں نے اس نظم کو اشتراکیت کا منشور قرار دیا ہے ۔ردیف و قافیہ کا فنکارانہ استعمال یقینا نغمگی و مو سیقیت کا حق ادا کر تامحسوس ہو رہا ہے ۔ آغاز سے انجام تک ایک ا نقلابی لہجہ ،گرجدار آواز اورجلالی کیفیت نمایاں ہے ۔ نظم کے مندرجہ ذیل اشعار قابل حفظ ہیں ۔مثلا یہ اشعار دیکھیے !

   گرمائو غلامو ںکالہو سوز یقیں سے

کنجشک فر و مایہ کو  شاہیں سے  لڑادو

   کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

       جس کھیت سے دہقا ں کو میسر نہ ہو روزی

ا س کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلادو

     میں ناخو ش و بیزار ہو ں مرمرکی سلوں سے

 میرے لئے مٹی کا حرم او ربنادو

         نظم جبریل و ابلیس :۔

          یہ ایک تمثیلی نظم ہے اس میں فنی لحاظ سے تقریبا جملہ خوبیا ں بدر جۂ اتم مو جو د ہیں ۔ نظم کا آغاز جبریل و ابلیس کے مابین مکالمہ سے اسطرح ہو تا ہے ۔ ؎  ہمدم دیرینہ ؟!کیسا ہے جہان رنگ و بو ۔سوز و ساز و دردو داغ و جستجوئو آرز و۔ اس شعر میںجہاں ہمدم دیرینہ سے شاعری کارمزیہ انداز بیان ظاہر ہے ۔وہیں یہ نظم استعارات و تشبیہا ت کے پردے میں استقامت و خودداری ، اخلاقی جرأت و ہمت اورپامردی و ثبات قدمی کے راز بھی کھولتی ہے ۔نظم مومن کو فقط احکا م الہی کا پابند گردانتی ہے ۔  ایک شعر ملاحظہ کیجئے!

     میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح

    تو   فقط  اللہ   ہو   اللہ   ہو     اللہ   ہو

         طارق کی دعاء :

         ’’طارق کی دعاء،، شاعری کی تیسری آواز کی نمائندہ او راقبال کی ایک عمدہ شاہکار نظم ہے ۔طارق بن زیاد کی زبانی اقبال نے قوم مسلم کے لئے عز ت وسربلندی  اور اولعزمی و عالی حوصلگی کی دعاء کی ہے ۔ نظم کی ابتدا میں کی گئی مجاہدین کی تعریف کو ان اشعا ر میںپڑھئے اور سردھنیے۔

    یہ غاز ی یہ تیرے پر اسرا ر بندے

 جنہیں تو نے بخشا ہے ذ و ق خدائی

   دو نیم انکی ٹھوکر سے صحرا ء و دریا

سمٹ کر پہا ڑ  انکی  ہیبت سے عاری

      دو عالم سے کرتی ہے بے گا نہ دل کو

 عجب چیز ہے  لذت  آشنائی

         یہ نظم  سر زمین اندلس میں بپا ہوچکے معر کۂ حق و باطل او ر اس موقع پر دکھائی دے رہی فرزندان تو حید کی نہایت بے سرو سامانی کو برملا پیش کرتی ہے۔جب کہ نظم کے اشعار طارق بن زیاد کے ہاتھوں جلائی جاچکی کشتیوںکے دلفریب نظارے کو بھی بڑی خوب صورتی سے بیان کرتے ہیں۔

         نظم ایک اسم بامسمیٰ شعری تخلیق اور اپنے جلو میں اسلامی تاریخ کے حسین باب کو لیے ہوئے ہے ۔ ایسے پرخوف اور جنگی ما حول میں مختصر مسلم فوج کا قائد با صفا ،پیکر زہد و تقا ،طارق بن زیا د خدا ئے و حدہ لاشریک لہ کی قدرت کا ملہ پر کلی اعتماد کر تے ہو ئے ،نصرت الٰہی او رمدد خداوندی کی آس لگائے ،اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کر نے کے لئے مو منا نہ وار رزمگاہ توحید و شرک میں کھڑے دربا ر الٰہی میں دست دراز ہیں ۔کیو نکہ اب یہی وہ  واحد ہتھیار ہے جو فتح و ظفر سے اس امت مسلمہ کو سر فراز کرسکتی ہے ۔ جب کہ نبی پاک ﷺ نے بھی غزوئہ بدر  کے صبرآزما موقع پر -جب مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار مشرکوں کے مقابلہ میں صرف زائد از تین سو تھی – قبلہ رو ہوکر دونوںہاتھ دراز کرکے بارگاہ خدا میں ان الفاظ میں دعا فرمائی تھی ،اللہم این ماوعدتنی ؟اللہم أنجز ماوعدتنی ، اللہم انک اِن تہلک ہذہ  العصابۃ من أہل الاسلام فلا تعبد فی الأرض ابداً۔ترجمہ: اے اللہ! وہ کہاں ہے جس کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایاتھا ۔اے اللہ! آپ نے جو مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اسے پورا فرمائیے ۔اے اللہ ! اگر آپ نے اس( مٹھی بھر)اہل اسلام کی جماعت کو  ہلاک کردیا تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کبھی نہیں ہو سکے گی ۔(۸) اسی سنت کی اتباع میں اقبال نے بھی طارق بن زیاد کے کردار کے ذریعہ اپنی امت کے لئے اسطرح دعا کی ہے ۔

                          عزائم کو سینو ں میں بیدار کردے

                        نگاہ  مسلما ں کو  تلوار  کردے

         غرض یہ کہ نظم ’’ طارق کی دعا ‘‘ اقبال کی اسلام پسندی اور تاریخ اسلام سے ان کے تعلق ولگائو کا سچا ثبوت ہے ۔ملت کی ترقی اور ترفعی اور اس کے سامنے درپیش مسائل کے موزوں حل کے لیے اسلامی تعلیمات کا سہارالینے کی تعلیم وتبلیغ بڑی خوش اسلوبی اور خوش آہنگی کے سا تھ اس نظم میں جگہ پا گئی ہے ۔

         مجموعی طور پر ’’بال جبریل،،میں شاعرانہ شوخیاں ،سرمایہ دارو ں کی مذمت ،حقائق زندگی کا دلنشیں اظہار ، رجائیت و املیت ، عشق نبوی و تعریف محمدی  ،اور شعریت و غنائیت سب کچھ ہے ۔ مثلا یہ اشعار دیکھئے !

با غ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

 اس کھیت کے  ہر خوشئہ  گندم کو جلادو

   ا ے طائر لا ہو تی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی

   نہیں ہے  نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

 ذرا نم  ہو تو  یہ مٹی  بڑی  زر خیز ہے  ساقی

 وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے

 غبار  راہ  کو  بخشا   فروغ    وادی   سینا

قناعت  نہ کر  عالم رنگ  و بو  پر

چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں

         آل احمد سرور کے الفاظ میں ’’ بال جبریل ‘‘ میں وہ نشہ ہے جس میں نجات بھی ہے ، اس میں شاعری کی پہلی آواز ’’غنائیت ‘‘ دوسری آواز ’’ خطابت ‘‘ اور تیسری آواز ’’ڈرامائی اسلوب ‘‘ تینوں ملتی ہیں‘‘(۹)

                            مراجع وحوالاجات                                        

   ۱۔پروفیسر آ ل احمد سرور ، دانشور اقبال، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ ، ص۲۷۷

۲۔ مولوی شمش تبریز ’’نقوش اقبال،مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ،لکھنؤ،ص ۱۸۳-۱۸۴

۳۔بحوالہ اقبال کی نظموں کا تجزیا تی مطالعہ مرتب کردہ ڈاکٹر فخر الاسلام ص ۸۰ -۸۱

۴۔ڈاکٹر کلیم الدین احمد ،اقبال-ایک مطالعہ، کریسنٹ کو آپریٹیو ،پبلشنگ سوسائٹی لمیٹیڈ،جگ جیون روڈ ، گیا ، ص ۲۰۰

۵۔پروفیسر آل احمد سرور ، دانشور اقبال ، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ ، ص ۲۸۰

۶۔ڈاکٹر کلیم الدین احمد ، اقبال -ایک مطالعہ ،کریسنٹ کو آپریٹیو ،پبلشنگ سوسائٹی لمیٹیڈ،جگ جیون روڈ ، گیا ، ص ۲۱۷

۷۔پروفیسر آ ل احمد سرور ، دانشور اقبال، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ ، ص ۲۸۱

۸۔امام مسلم ؒ، مسلم شریف ، حدیث نمبر : ۱۷۶۳؍ امام احمد بن حنبل، مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۰۸

۹۔پروفیسر آ ل احمد سرور ، دانشور اقبال،ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ ،۲۸۲

***

Leave a Reply