You are currently viewing غضنفر شناسی سے شناسائی

غضنفر شناسی سے شناسائی

ایس معشوق احمد

تبصرہ

کتاب کا نام : غضنفر شناسی

ترتیب : ڈاکٹر رمیشا قمر

غضنفر شناسی سے شناسائی

       پروفیسر غضنفر کے تخلیقی اور علمی کارناموں سے کون واقف نہیں ،ایک کثیر الجہات شخصیت ، فکشن  کا ایک بڑا نام ،نو ناولوں کا خالق ، بہترین خاکہ نگاری ، ایک رفیع المنزلت  ناقد ، جہاں دیدہ شاعر اور بلند پایہ ادیب جس نے اردو  قارئین  کو منفرد اسلوب دیا کبھی  میٹھا  ‘پانی’ پلایا تو کبھی ‘کہانی انکل’ کے روپ میں  دویہ بانی ،فسوں، مم اور وش منتھن کی کہانیاں سنائیں اور کبھی ‘مانجھی’ بن کر ہمیں دنیا کی  سیر کرائی  تاکہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ‘دیکھ لی دنیا ہم نے’۔ کبھی  فکشن سے الگ  ہوکر  ‘لسانی کھیل’ کھیلے تو کبھی  ‘پارکینگ ایریا’ میں بیٹھ کر ‘ کرب جاں’  کے قصے سنائیں ، کبھی’ روئے خوش رنگ’ کو ‘سرخ رو’ کیا تو کبھی زبان و ادب کے تدریسی پہلو کو ‘جدید طریقہ تدریس’ کے ذریعے سمجھانے کی سعی کی تاکہ ‘خوش رنگ چہرے ‘ان پہلوؤں کو سمجھ سکیں۔کبھی ہمیں یہ باور کرایا کہ اللہ نے جس کو تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہو وہ جلد ‘کوئلے سے ہیرا’ بن جاتا ہے اور اس کی آنکھ ہمیشہ روشن رہتی ہے کبھی اس کی ‘آنکھ میں لکنت’ نہیں آتی۔ان تمام نکات کو  اس متنوع  خوبیوں کے مالک  فنکار نے ہمیں بہتریں طرز میں سمجھایا ۔اس مختلف الجہات تخلیق کار کے  سوانحی کوائف ، ان کے تخلیقی عمل ،  ان کے حلیہ اور عادات و اطوار ، ان کی ناول نگاری، اسلوب کے انحرافی پہلو  ، ان کے  ناولوں کے موضوعات ، ان کے ناولوں کی فکری و فنی سچائیاں  ، ان کی لفظیات ، ان کے رنگ و آہنگ اور ان کے ناولوں کے تنقیدی اور تجزیاتی جائزوں  کو”  غضنفر شناسی  ” ( ناولوں کی روشنی میں ) ” نامی کتاب میں موضوع بنایا گیا ہے اور غضنفر کے حوالے سے اس  مفصل اور اہم ماخذ  کو  ڈاکٹر رمیشا قمر نے مرتب کیا ہے۔ یہ صخیم کتاب 484 صفحات پر مشتمل ہے ۔کتاب کو  چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر باب اپنی نوعیت کے حوالہ سے اہم ہے۔
ابتداء میں مرتبہ نے’ مرتب کے معروضات’ کے عنوان سے غضنفر سے تعارف ،ان کی تحریروں کو پڑھ کر ان کے سحر بیانی سے لطف اندوز ہونے ، ان کے شگفتہ ،پرلطف، داستانی طرز اور ان کے ناولوں کا مختصر تعارف کیا ہے۔اس کے علاوہ کتاب کے چار ابواب کا نقشہ بھی کھینچا ہے اور مقالہ نگاروں کا تعارف بھی کرایا ہے۔
پہلے باب کو “ذات و حیات” کا عنوان دیا گیا ہے اور اس میں چار تحریریں شامل ہیں۔پہلی تحریر  غصنفر  کے سوانحی کوائف ہے جس میں ان کی مکمل حالات زندگی ، ان کی تصانیف کی فہرست ، ان پر ہوئے تحقیقی کام ، ان کی ادبی خدمات کے عوض ملے  اعزازات وانعامات اور مختلف اداروں سے وابستگی کی تفصیل درج ہے۔اس حصے کی دوسری تحریر “میرا تخلیقی عمل “میں غضنفر نے اپنے تخلیقی پروسس اور ایک تخلیق کار کن عوامل سے گرزتا ہے کا نقشہ کھینچا ہے جو اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں انہوں نے اپنے بارے میں  مکمل اظہار خیال کیا  ہے جس سے ان کے تخلیقی عمل کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔اس باب کی تیسری تحریر پروفسیر علی احمد فاطمی کا غضنفر پر لکھا گیا خاکہ ہے۔اس خاکے میں غضنفر سے پہلی ملاقات سے لے کر اس کے خوبصورت بالوں کا ذکر ، دوستوں کا حلقہ ، ان کی شاعری ،  ریسرچ، بے روزگاری اور روزگار کا ملنا، ان کے عشق اور  شادی ، ان کی افسانہ نگاری ، ناول نگاری کا ذکر عقیدت اور محبت سے کیا ہے۔اس باب کی آخری تحریر ڈاکٹر  رمیشا قمر کا لیا گیا انٹرویو ہے جس سے غضنفر کے تخلیق اور تخلیقی سفر ، ان کی شخصیت ، فکرو فن ، فکشن میں کئے گئے تجربوں ، ان کی مثنوی نگاری ،  ناول نگاری ،درس و تدریس سے وابستگی ، اردو زبان کی صورتحال غرض غضنفر کے خیالات سے شناسائی ہوتی ہے۔باب دوم کا عنوان “فنی و فکری جہات” رکھا گیا ہے اور اس میں کل سولہ مضامین غضنفر کی ناول نگاری ، ان کے موضوعات ، ان کے اسلوب کے  انحرافی پہلو، ان کی لفظیات ، ان کے استعارات اور احتجاجی رحجانات کے حوالے سے شامل کئے گئے ہیں۔اس باب کا پہلا مضمون “غضنفر : ایک نئے ذہن کا ناول نگار ”  اردو ادب کے بلند پایہ ناقد پروفیسر وہاب اشرفی کے قلم سے نکلا ہے۔اس مضمون میں غضنفر کی ناول نگاری کے حوالے سے مکالمہ باندھا گیا ہے اور ان کے ناولوں کے موضوعات ، کردار نگاری اور زبان و بیان پر بحث ہوئی ہے۔
اس حصے کا دوسرا مضمون ” غضنفر کی ناول نگاری ” ماہر لسانیات اور پارکھ پروفیسر  مرزا خلیل احمد بیگ کی جنبش قلم کا نتیجہ ہے۔اس میں غنضفر کی ناول نگاری اور تمام ناولوں پر مختصر مگر جامع تبصرہ کیا گیا ہے۔تیسرا اور غضنفر کے اسلوب کے حوالے سے اہم  مضمون” غضنفر کے اسلوب کا انحرافی پہلو” پروفیسر علی رفاد فتیحی کا شامل کتاب ہے جس  میں غضنفر  کے  ناولوں میں اسلوب کے تصوراتی انحراف اور غیر تصوراتی انحراف  پر مثالوں کے ساتھ بات ہوئی ہے۔ اردو ناول جب زمینی آواز سے محروم ہوا اور اس پر سکوت طاری ہوا تو اس سکوت کو توڑنے اور ناول کی تجدید نو میں غضنفر کے رول اور ان کے ناولوں کے کردار کو مضمون “اردو ناول کی تجدید اور غضنفر” میں پیغام آفاقی نے موضوع بنایا ہے۔اس مضمون میں پانی ، مم ، کہانی انکل ، دویہ بانی کے موضوعات اور غضنفر کی فنی مہارت پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔اس مضمون میں غضنفر کو ناول کی تجدید کا کامیاب دستکار قرار دیا گیا ہے۔
”غضنفر : آبیانہ سے آبیاژہ تک” میں پروفسیر ارتضی کریم نے غضنفر کو طرز کہن اور تقلید سے پرے کا فکشن نگار قرار دیا ہے اور ان کی منفرد نثر کو سمجھانے کے لیے مثالیں بھی دی ہیں۔پروفیسر ارتصی کریم نے اس مضمون میں غضنفر کے دو ناولوں پانی اور کہانی انکل پر اظہار خیال کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ  غضنفر کے معاصرین میں غضنفر کی طرح موضوعات میں تنوع اور رنگا رنگی خال خال نظر آتی ہے۔ ” ‘آبیاژہ ‘ انسانی زندگی کے تضاد و تصادم کا علامتی اظہار”  دوسرے باب کا چھٹا مضمون ہے۔پچھلے سال ڈاکٹر رمیشا قمر نے غضنفر کے نو ناولوں کو آبیاژہ کے عنوان سے یکجا کیا ۔اس مضمون میں پروفیسر صغیر ابراہیم نے اس مجموعے کو موضوع بنایا ہے اور ان نو ناولوں کا جائزہ بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ان ناولوں کی خصوصیات ، کردار نگاری ، زبان و بیان ، ان میں کئے گئے فنی  تجربات اور ان کی تکینک کا بھی جائزہ لیا ہے۔
عدیم الفرصتی میں ہر فرد  کے ساتھ ساتھ قارئین بھی جلدبازی کے شکار ہیں۔قاری مختصر تحریرات کو پڑھ کر ہی ذوق مطالعہ کی تسکین کرنا چاہتا ہے۔ایسے میں اگر کوئی ضخیم کتاب مصنہ شہود پر آتی ہے تو اسے پڑھنے کی خواہش دب سی جاتی ہے اور مطالعے کے دوران انسان اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے اس اکتاہٹ اور آبیاژہ کے مفصل جائزہ  کو ابو ذر ہاشمی نے اپنے مضمون” پانی آبیاژہ کا”  میں موضوع بنایا ہے۔جہاں انہوں نے اس مضمون میں آبیاژہ کے ناولوں  پر خامہ فرسائی کی ہے وہیں آبیاژہ کی ضخامت کو دیکھ کر کچھ گبھرائے بھی ہیں۔گبھراہٹ رفع ہوئی تو ابو ذر ہاشمی تھوڑے کھل گئے اور کھل کر آبیاژہ پر اظہار خیال کیا جس میں پانی کی طلسمی داستان بھی رقم کی اور دویہ بانی کی سحر بیانی پر بھی اظہار خیال کیا،فرقہ وارانہ ذہنیت کے وش  منتھن پر  بھی  خامہ فرسائی کی اور مانجھی بن کر  شوراب کی بھی سیر کرائی جس میں عورت کی بے چارگی اور ناقدری کا احساس جگایا گیا ہے ۔ابو ذر ہاشمی نے غضنفر کی ناول نگاری کے اختصاص میں بارے میں لکھا کہ غضنفر حق کے متلاشی فنکار ہیں۔مقصود دانش نے اپنے مضمون” غضنفر کے ناولوں کی فکری و فنی سچائیاں ” میں دانش اور ہنری مندی کے ساتھ غضنفر کی فکر اور فن کو پرکھا ہےاور غضنفر کے حوالے سے یہ سچائی بھی رقم کی کہ غضنفر کے بیانیہ کے پٹاروں سے سپاٹ واقعات کے سانپوں کے بجائے حسن و معنی کے سنگیت نکلتے ہیں۔ناول دویہ بانی میں غصنفر نے اشلوکوں کی سولی پر پورے دلت سماج کو چڑھایا ہے ، پانی میں مصنف نے استعاروں میں ماضی بعید و قریب کو آنکھوں کے سامنے ہویدا کردیا ہے،کینچلی میں غضنفر چونکاتے نہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں ،مانجھی کا بیانیہ سالم ہے اور غضنفر نے ایمائی پیرائے اظہار اختیار کیا ہے،   فسوں کا موضوع اردو کے قارئین کے گلے نہیں اتر سکتا جیسی سچائیوں کے علاوہ دانش مقصود نے  غضنفر کو لفظوں کا جادوگر مانا ہے۔
ایک پرخطر راستے کی سیر سہیل وحید نے اپنے مضمون” لفظیات کے جمہوری نظام کے ادیب : غضنفر”  میں کرائی ہے۔اس مضمون میں لفظ کیسے وجود میں آتے ہیں ، غضنفر کی زبان دانی ، غضنفر کا ہندی الفاظ کا اپنے ناولوں میں بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ   غضنفر کی فکشن نگاری کو بھی موضوع بنایا ہے۔ غضنفر کی ناول نگاری ، ان کے یہاں رنگارنگی ، اور ان کے ناولوں  کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹر اقبال حسن آزاد نے ” غضنفر : ایک مختلف رنگ و آہنگ کا ناول نگار ” نامی مضمون میں لیا ہے۔ناولوں کا جائزہ لینے کے بعد ڈاکٹر اقبال حسن آزاد لکھتے ہیں کہ ___
” غضنفر نے اپنے ناولوں میں زندگی کے تمام رنگوں کو ایک ساتھ سمو دیا ہے۔دنیا میں جتنے بھی علوم و فنون ہیں سب کا رس ان میں  موجود ہے۔مذہب ،سیاست ،ادب ، تواریخ ، فلسفہ ، منطق ، عمرانیات، لسانیات اور سائنس کے تمام مظاہر ان میں نظر آتے ہیں۔”
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے “غضنفر  کی ناول نگاری” نامی مضمون میں غضنفر کے ناولوں پر اظہار خیال کیا ہے اور ان کے اسلوب ، الفاظ کے برتاؤ اور ان ناولوں کے کرداروں کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ڈاکٹر شہاب ظفر نے غضنفر کے ناولوں میں دویہ بانی کو اپنا پسندیدہ ناول قرار دیا ہے۔”غضنفر : کشتی سخن کا مانجھی” میں سلیم سرفراز نے غضنفر سے اپنے پہلے تعارف کا ذکر جو ان کے افسانے کڑوا تیل سے ہوا ، ان کے ناول پانی کے چرچے، ان کے ناولوں کے موضوعات اور اسلوب، زبان و بیان کی جادو گری  اور ان کی شاعری کو موضوع بنایا ہے۔ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا نے “غضنفر کے ناولوں میں احتجاجی رحجانات” میں  غضنفر کے ناولوں میں احتجاجی رحجانات کی نشاندہی مثالوں کے ساتھ کی ہے۔ناول پانی میں غضنفر  پانی پر مگر مچھ کی اجارہ داری کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ، کینچلی میں سماج ، فلسفہ ،قانون ، رسم و رواج کے مروجہ اصولوں کے خلاف توانا آواز بلند کرتے ہیں، کہانی انکل میں مروجہ نظام ظلم و جبر کے خلاف احتجاج، فسوں میں غضنفر نے احتجاج کے کئی الاؤ سلگائے ہیں اور وہ   ناقص تعلیمی نظام ،مادہ پرستی ، خود غرضی ، حق تلفی اور استحصال کے خلاف احتجاج ، شوراب میں نوجوان تعلیم یافتہ  طبقہ کی بیداری ، دویہ بانی میں طبقاتی نظام ،بھید بھاؤ، اونچ نیچ، تفریق کے خلاف احتجاج ، وش منتھن میں کمزور اور مظلوم طاقتور اور ظالم کے خلاف احتجاج اور مانجھی میں غضنفر نے برہنگی اور عورت کو ننگا کرنے کے خلاف احتجاجی صدا بلند کی ہے۔ڈاکٹر صابرہ خاتون کا یہ مضمون باقی مضامین سے منفرد  ہے اور اس میں غضنفر کے ناولوں کو مختلف زوایے سے دیکھا اور پرکھا گیا ہے۔غضنفر  احتجاج کو زندگی کی علامت سمجھتے ہیں اور احتجاج کے بغیر زندگی روح سے خالی جسم کی مانند ہے۔
ڈاکٹر سلمان عبد الصمد نے” پانی کی خشکی کا تخلیقی استعارہ اور غصنفر”  میں غضنفر کے ناول پانی میں استعمال کی گئی  علامتوں کی گرہیں کھولی ہیں اور پانی ، نہنگ ،آبیاژہ جیسی علامتوں کی شرح بھی کی ہے۔پانی اور  مم میں مماثلتوں ،منظر نگاری اور اسلوب تخاطب پر بھی مختصر روشنی ڈالی ہے۔”اردو ناول کے امکانات : غضنفر کے ناولوں کی روشنی میں”  شفا فاطمہ کا مضمون ہے جس میں حوالوں کی بھرمار کے ساتھ غصنفر کی ناول نگاری پر روشنی تو ڈالی گئی ہے لیکن اردو ناول کے امکانات پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ باب دوم کا آخری مضمون کتاب کی  مرتبہ ڈاکٹر رمیشا قمر کا “شہ گام اسلوب کا خالق:  غضنفر ”   ہے۔غضنفر کے افسانوی تخلیقات کے امتیازات ، غضنفر کی شاعرانہ نثر ، دریا کو کوزے میں سمیٹنے کا ہنر ، فن کارانہ سیاسی شعور ، اسلوب کی رنگا رنگی ، دیگر زبانوں کا استعمال  غرض اس مضمون میں غضنفر کی مختلف جہات پر اظہار خیال کیا گیا ہے اور ان خوبیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

باب سوم کا عنوان  “پانی سے دیکھ لی دنیا ہم نے تک کی شناخت “باندھا گیا ہے۔اس باب میں کل اکیس مضامین شامل کئے گئے ہیں۔یہ سارے مضامین غصنفر کے ناولوں کو سمجھنے میں معاون ہیں۔اس باب کا پہلا مضمون غضنفر کے پہلے ناول پانی پر پروفیسر بیگ احساس نے لکھا ہے۔اس میں ناول کے موضوع، کہانی ، اس ناول کی معنویت ، استعارہ سازی اور ناول میں پیش کئے گئے  نفسیاتی نکتوں کو سلجھایا گیا ہے۔اس باب کا دوسرا نام جو شامل کتاب ہے خالد اشرف کا  “پانی : جدید علامتی اسلوب کا اظہار” میں بڑی فنکاری اور چابکدستی سے ناول پانی پر اظہار خیال کیا ہے۔پروفسیر نیر مسعود نے” کینچلی : تازگی بھرا  ناول” میں کینچلی کو پرکھا ہے اور  لکھا ہے کہ اس کا موضوع مانوس ہی نہیں پامال اور پیش افتادہ بھی ہے اور ایسی کہانی ہمارے فکشن میں بار بار دہرائی گئی ہے لیکن غضنفر نے اپنے موضوع کو تازگی سے بھرا ہے۔اس ناول کے موضوع اور جزئیات کے حوالے سے پروفیسر نیر مسعود  کو کینچلی کچھ سطحی سی کہانی نظر آتی ہے۔ڈاکٹر جمشید  قمر نے ” کینچلی : فنکاری کے چند پہلو “نامی مضمون میں فنکاری سے کینچلی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے۔انور ظہیر نے “کہانی انکل اور ہمارا معاشرہ”  میں غضنفر کے ناول کہانی انکل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور  کہانی انکل کی ناکام اور مایوس زندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ غضنفر کہانی انکل میں اس لیے کامیاب ہیں کہ ناول میں  آرٹ نے زندگی کی حقیقتوں کو آشکار کیا ہے۔”کہانی انکل اور وقت کا تصور” میں ڈاکٹر طیب فرقانی نے اس ناول کے حوالے سے بعض غلط فمہیوں کا ازالہ کیا ہے اور اسے سوچ سمجھ کر لکھا گیا ناول قرار دیا ہے۔اس مضمون میں کہانی انکل کی کہانیوں کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ڈاکٹر طیب فرقانی نے کہانی انکل کو مستقبل کا ناول قرار دیا ہے۔ ” دویہ بانی : پہلی قرآت کے بعد” میں حسین الحق نے دویہ بانی کے متعلق بعض انکشافات کئے ہیں جیسے کہ انہیں اس ناول پر رشک آتا ہے، مجھے غضنفر پر فخر ہے ، ناول کا قصہ اچھوتا ہے اور اسلوب رواں دواں۔ اس ناول کو حسین الحق نے آگ کا دریا اور اداس نسلیں کے برابر کا ناول قرار دیا ہے۔” دویہ بانی ایک دلت بیانیہ”  ناول دویہ بانی پر ایک بہترین اور مفصل مضمون ہے جس میں پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ نے  دلت کون ہیں؟ ،ان کا نقشہ ، عادات و اطوار ، رہن سہن ، ان کے ساتھ روا سلوک ، دویہ بانی کا اسلوب ، ناول کا تانا بانا، سماجی بھید بھاؤ اور تفریق ، دویہ بانی کی مکمل  کہانی ، اس ناول کے پلاٹ ، اس ناول کے بنیادی کرداروں اور اس کے استعاراتی نظام کا مکمل جائزہ لیا ہے۔پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے مضمون ” اردو کا اہم کمیپس ناول ” میں فسوں کو کیمپس ناول قرار دیا ہے اور کیمپس کی تعریف کے ساتھ ساتھ  ناول کے موضوع اور کردار نگاری کا جائزہ پیش کیا ہے۔” ایک قاری کا تاثر ( فسوں کے حوالے سے)” مضمون میں پروفیسر طارق چھتاری  ناول فسوں کے قاری بن گئے ہیں اور انہوں نے اس ناول پر تاثرات ہی رقم نہ کئے بلکہ اس ناول کی بنیاد اور کرداروں کا تنقیدی جائزہ بھی  پیش کیا ہے۔پروفیسر طارق چھتاری کے مطابق جو ناول سچے واقعات پر مبنی ہوتے ہیں وہ غیر دلچسپ ہوتے ہیں لیکن غضنفر نے واقعات میں مناسب تبدیلی ، کرداروں کی شخصیت میں ذرا سا اضافہ  اور قصے کی صداقت میں بجا اور فطری مداخلت کرکے علی گڑھ کے ایک عہد کو تخلیقی پیکر میں ڈھال کر زندہ جاوید بنا دیا۔” وش منتھن ایک تنقیدی جائزہ”  ایک بہترین مضمون ہے جس  میں ڈاکٹر شگفتہ یاسمین نے وش منتھن  کے آغاز اور کردار نگاری کا جائزہ لیا ہے اور اسے ایک جذباتی ناول قرار دیا ہے۔اس ناول میں غضنفر نے تمثیلی ،علامتی اور استعاراتی طرز کا جابجا استعمال کیا ہے۔اس ناول میں غضنفر کی سوچ کو  اہم قرار  دیا ہے کہ اس کے ذریعے انہوں نے ہند اسلامی کلچر کے پس منظر میں مسلمانوں کے وجود کا جواز فراہم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔” وش منتھن اور تطہیر ذات کا عمل ” میں ڈاکٹر دانش اثری نے وش منتھن کو موضوع بنایا اور اس ناول کی خوبیوں اور مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا ہے۔ “مم : تخلیقی تجدید کی مہم جوئی کا استعارہ ” میں فرحت احساس نے مم کی تفہیم ، اس کے قصے ، کرداروں ، خضر کا چشمہ حیوان اور آب حیات کی  خبر دینا اور پانی اور مم کے غضنفر کو الگ الگ قرار دینا جیسے پہلوؤں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ڈاکٹر فیروز عالم نے بھی مم کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ مم  کا پلاٹ حضرت آدم سے دور حاضر تک کے منتخب واقعات سے ترتیب دیا گیا ہےپروفیسر مولا بخش نے”  غضنفر کے ناول شوراب پر ایک نظر”  میں شوراب پر ایک نظر ہی نہیں ڈالی بلکہ متواتر اسے دیکھا اور پرکھا ہے اور اس کی تکنیک ، اس کی آئیڈولوجی، اس ناول کے کردار ، شیبا کی ذہنی حالت اور کرب اور غضنفر کی زبان پر اظہار خیال کیا ہے۔انہوں نے شوراب کو ایک فیملی ڈراما قرار دیا ہے۔” غضنفر کا تخلیقی رویہ اور شوراب ” مضمون میں ڈاکٹر زبیر شاداب نے غضنفر کے تخلیقی رویوں، ان کے ناولوں کے  موضوعات اور اسلوب میں نت نئے تجربات کے علاوہ شوراب اور اس کی موضوعاتی اور فنی جہات کو موضوع بنایا ہے۔” غضنفر کا ناول مانجھی ایک مطالعہ” میں نور الحسنیں نے مانجھی کے اسلوب ، مرکزی کردار ، تکنیک  کو موضوع بنایا ہے اور لکھا ہے کہ دریا کی اس سیر کے آڑ میں  غضنفر نے دریا کو  زندگی کا استعارہ بنا دیا ہے۔پروفیسر صفدر امام قادری نے”  مانجھی – نئی دیو مالا گڑھنے کی کوشش”  میں لکھا ہے کہ مانجھی میں غضنفر نے قدیم اسطور کی بحث شروع کی ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے   غضنفر کے فکشن کا جائزہ بھی لیا ہے اور مانجھی کو بھی موضوع بنایا ہے۔اس مضمون میں پروفیسر صفدر امام قادری یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ غضنفر کے ناول مختصر ہوتے ہیں اور ان میں دانشورانہ لہر آتی جاتی ہے۔انہوں نے مانجھی کو دلچسپ اور قابل مطالعہ ناول قرار دے کر غضنفر کی زبان کو سحرکارانہ بتایا ہے۔ناول مانجھی پر ایک جامع مضمون ڈاکٹر خالد مبشر نے ” مانجھی : روحانی اضطراب کا استعارہ ” کے عنوان سے قلمبند کیا ہے۔اس میں انہوں نے غضنفر کی فکشن نگاری ، مانجھی کا جائزہ ، اس کی کردار نگاری ، اس کے اساطیری اسلوب اور داستانوی فضا کو موضوع بحث بنایا ہے۔وہ مانجھی کو داستانویت سے لبریز ناول قرار دیتے ہیں ۔” غضنفر کی خود نوشت : چند تاثرات”  میں سید محمد اشرف نے غضنفر کی سوانح عمری پر  اپنے خیالات رقم کئے ہیں اور دیکھ کی دنیا ہم نے کو ایک درمیان حجیم کا ناول قرار دیا ہے اور لکھا ہے اس کے ہیرو فقط غضنفر نہیں  بلکہ اس کے والد ، چچا ، شہریار اور قاضی عبدالستار بھی بانکپن کے ساتھ ہیرو جیسی شان رکھتے ہیں۔دیکھ لی دنیا ہم نے کی تکنیک فلیش بیک ، بعض اشخاص کا ذکر محبت سے کرنے  کا ذکر ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کے اساتذہ کا ذکر اور اس کی زبان وبیان پر سید محمد اشرف نے نگاہ ڈالی ہے۔باب سوم کا آخری مضمون ڈاکٹر دائم محمد انصاری کی جبشن قلم کا نتیجہ ہے جو غضنفر کی دیکھ لی دنیا ہم نے کو دوام بخشنے کے لیے کافی ہے کہ اس میں اس کتاب میں درج  مختلف واقعات  اور  اسلوب کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

       کتاب کا چوتھا باب فکر و فن پر اجمالی تاثرات میں مرتبہ نے بتیس  بلند قامت ناقدین اور ادباء  کے تاثرات اور تنقیدی آراء کو یکجا کیا ہے۔ان میں شامل چند  اہم نام  یکھ کر یہ اندازہ کرلینا مشکل نہیں کہ غضنفر  کے فکروفن کو کن نامور اور وقیع ناقدین نے موضوع بنایا ہے اور ان تاثرات کی اہمیت کتنی ہے۔ ان میں پروفیسر مسعود حسین خان ، پروفیسر گوپی چند نارنگ ، شمس الرحمن فاروقی ، پروفیسر قمر رئیس ، پروفسیر شہریار ، پروفسیر شمیم حنفی ، سید محمد اشرف ، حقانی القاسمی ، ڈاکٹر ریاض توحیدی جیسے ناقدین  شامل ہیں جن کے گراں قدر خیالات سے  غضنفر کی ناول نگاری اور ان کی  فنی باریکیوں سے  قارئین شناسائی حاصل کرتے ہیں۔
غضنفر شناسی ( ناولوں کی روشنی میں ) نامی کتاب  کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات وثوق  سے کہی جاسکتی ہے کہ غضنفر کی ناول نگاری ، ان کی فکری جہات ، ان کے ناولوں کے موضوعات ، ان کے نالوں کی کردار نگاری ،  اسلوب کے مختلف پہلوؤں  ، زبان و بیان کی جدت طرازیوں اور ان کے ناولوں کے تنقیدی تجزیوں کے حوالے سے یہ ایک مفید اور کارآمد  کتاب ہے۔ غضنفر شناسی جیسی ضخیم کتاب کو پڑھنا مشکل ہے اور اس کا جائزہ لینا جان بازی کا کام ہے۔اتنی ضخیم  کتاب کو ترتیب دینے میں  خدا جانے مرتبہ کو   کتنی راتوں کی نیند  قربان کرنی پڑی ہوگی۔اتنی ضخیم کتاب کو ترتیب دیکھنا جانفشانی ، عرق ریزی ،  حوصلے  اور ہمت کا کام ہے اور اس میں کچھ کمیوں اور خامیوں کا در آنا خلاف توقع نہیں۔کتاب میں بعض املا کی غلطیاں موجود ہیں جن کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔کتاب کے دوسرے باب میں  ایسی تحریروں کو جگہ دی گئی ہے جن میں تواتر کے ساتھ یکسان باتیں دہرائی گئی ہیں اور اس باب میں سوائے چند منفرد مضامین کے غضنفر کے حوالے سے مختلف اسلوب اور انداز اپنا کر یکسان  باتیں دہرائی گئی ہیں۔اسں کتاب کے تمام مضامین میں تنقیدی رویے اور زبان کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو اس کتاب کی خوبی میں اضافے کا سبب ہے۔مجموعی طور پر دیکھیں تو غضنفر شناسی کے حوالے سے یہ ایک منفرد اور مفید تنقیدی کارنامہ ہے جس سے غضنفر کے فکرو فن،  ان کے ناولوں کی تکنیک ،موضوعات ، اسلوب اور امتیازات وانفرادات پر روشنی پڑتی ہے۔

***

Leave a Reply