علی زاہد ملک
ریسرچ اسکالر شعبۂ فارسی
علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی علیگڑھ
فانی کشمیری کے احوال و آثار کا تجزیاتی مطالعہ
ملا شیخ محمد محسن فانی کشمیر ی گیارھویں صدی ہجری کے مشہور شاعر، عالم ، ، فلسفی اور فارسی کے نامور اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اِن کے والد کانام حسن بن محمد تھا ۔فانی کو بچپن سے ہی شاعری کا شغف تھا ۔ وہ شیخ محمد یعقوب صرفی کے شاگرد تھے ۔ فانی ابتدا میں شاہی اورسلطانی تخلص کرتے تھے ۔اپنے کلام میں اُنہوں نے جابجا اِس کا ذکر کیا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل شعر سے واضح ہوتا ہے ۔
بسکہ مدح پادشاہ شاھزادہ گفتہ ام
گاہی شاہی شد تخلص و گاہ سلطانی مرا
فانی کی پیدائش کے سلسلے میں ناقدین کی آراء میں اختلاف پایا جاتاہے۔ ڈاکٹر ضمیرہ غفاراوا اپنی تصنیف ادبیات فارسی در کشمیرقرن ۱۶ و ۱۷ میلادی میں متعدد تذکروں کا حوالہ دیتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
’’ راجع بہ سال تولد او نظرات مختلفی میان تذکرہ نگاران و مورخین رایج است۔ خواجہ عبداللہ عرفانی (۳۰۰،ص.۱۴۸) تولد شاعر ر ا ۱۶۱۵ و و.جانس میان سال ہای ۱۶۱۵۔۱۶۲۳ (۴۵۳،ص۱۵۰) نوشتہ اند‘‘ ؎۱
فانی نے ابتدائی تعلیم کشمیر میں حاصل کی۔ اِس کے بعد مزید تعلیم کی حصولیابی کے لیے بیرونی ممالک کا سفر کیا۔ سفر کے دوران متعدد علماء سے مستفید ہوئے۔ اسی دوران جب وہ بلخ پہنچے تو وہاں کے امیر نذر محمد خان نے اِن کے علم و فضل کا احترام کرتے ہوئے اپنے ہاں ملازمت عطا کی ۔ فانی نے بھی نذر محمد کی مدح میں کئی قصائد کہہ کراسکا حق ادا کیا ۔ قیام ِبلخ کے بعد ہندوستان آکر شاہجہان کے دربار سے منسلک ہوگئے ۔ شاہجہان نے اِن کی سرپرستی میں کوئی کمی فروگذاشت نہ چھوڑی بلکہ اِن کے علم و مرتبے کو دیکھتے ہوئے الہ آباد کی صدارت کے عہدے پر فائز کیا۔شہزادہ داراشکوہ نے بھی انکی قدر و منزلت میں کوئی کمی نہ آنے دی بلکہ فانی کے ساتھ برادرانہ سلوک کیا ۔ جیسا کہ ڈاکٹر نبی ہادی کے قول سے مترشح ہوتا ہے ۔۲؎
“Prince Dara Shikoh treated him as a friend and secure him the post of sadr=President of religious endowmens, of the province of Allahabad”
الہ آباد کے دوران قیام فانی شاہ محب اللہ الہ آبادی کے ارادتمندوں میں شمار ہوئے ۔ سید محب اللہ اپنے وقت کے جید عارف اور وحدت الوجود کے زبردست مبلغ تھے ۔فانی نے اِن کے ہاتھ پر بیعت کر کے خرقہ درویشی زیب ِ تن کیا ۔ شاہ محب اللہ کے دربار میں عوام الناس کے علاوہ بادشاہ ، امراء اور حکام بھی تشریف فرما رہتے تھے ۔ فانی نے اپنے کلام میں جابجا اِس کی طرف اشارہ کیا ہے اوراِن سے اپنی ارادتمندی کا ثبوت بھی دیا ہے ۔ ذیل میں ایک شعر بطورِ نمونہ پیش کیا جاتا ہے ۔
ہفت گردون خلوتی از خانقاہ پیر ماست
از گدا تا شہ مرید پیر عالم گیر ماست
اس کے علاوہ ایک رباعی میں فانی اپنے پیر و مرشد کی عقیدت و محبت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :۳؎
پیرم و مرید حضرت اللہ ایم
یعنی کہ محب خاص ملا شاہیم
محبوب و محب و حب ما گشت یکی
در سلسلہ شاہ محب اللہ ایم
ابتدائی سطور میں ذکر ہوا کہ فانی نے بلخ کے والی نذر محمد خان کی مدح میں قصائد کہے تھے لیکن جب شہزادہ مراد نے بلخ کو فتح کیا تو بلخ کے کتابخانہ سے فانی کے یہ قصائد دستیاب ہوئے ۔ اِن قصائد میں فانی نے نذر محمد خان کی مدح کی تھی جوشہزادہ مراداور شاہجہان کو سخت ناگوار گزرے لہذا یہ قصائد اِن کے لئے اذیت کا باعث بنے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فانی کو الہ آباد کی صدارت سے دستبردار کر دیا گیا۔ شہزادہ داراشکوہ کو ہر گز گوارہ نہ تھا کہ انھیں اتنی بڑی سزا دی جائے ۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ نذر محمد کی مدح میں فانی کے قصائد مغلیہ دربار میں وابستگی سے پہلے کے ہیں۔ داراشکوہ اِنھیں ہردلعزیز رکھتا تھا لہذا اِس کی سفارش پر اِنھیں کشمیر کی صدارت نیز کچھ وظیفہ مقرر کر کے کشمیر رونہ کیا گیا۔اِس ضمن میں ڈاکٹر نبی ہادی یوںرقمطراز ہیں :۴؎
“On the recommendation of Dara-Shikoh, a pension was approved for him and the rest of his life passed in Kashmir”
جب فانی الہ آباد سے اپنے وطن کشمیرلوٹے تو اِنھیں شاہجہان آباد کی یاد ستانے لگی ۔ کشمیر جسے جنت بے نظیر اور وادی گل پوش کہا جاتا ہے۔ہر شخص کشمیر کی سیر کا خواہشمند ہوتا ہے لیکن اِن پر شاہجہان آباد کی محبت حاوی نظر آتی ہے اور فانی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں :
فانی آخر منزوی در گوشہٗ کشمیر شد
گرچہ جای بہتر از شاہجہان آباد نیست
اس کے بعد فانی نے کشمیر میں ہی سکونت اختیار کی ۔ اِن کا گھر حوض خاص ــ کے نام سے مشہور تھا جہاں اُنہوں نے ایک مدرسے کا آغاز کیاتھا۔یہیں وہ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا کام انجام دیتے تھے۔ اِن کی تعلیم و تربیت کا ہی اثر تھا کہ کشمیر نے ادبیاتِ فارسی کو تین نامورشاعر( غنی کشمیری، ملا محمد زماں قانع اور حاجی محمد اسلم سالم ) عطا کیے۔یہ تینوں فانی کے شاگرد تھے لیکن تینوں میں جو مرتبہ ملا طاہر غنی کشمیری کو حاصل ہوا وہ ادبیاتِ فارسی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی کشمیری شاعر کو حاصل نہ ہوا۔فانی کو علم و فن پر کامل دسترس تھی لیکن اِس کے باوجود بھی شاعری میں غنی اپنے استاد کو پیچھے چھوڑ گئے ۔ ظفر خان احسن جب کشمیر کے والی مقرر ہوئے تو ابتدا میں فانی اور احسن کے درمیان اچھے مراسم تھے ۔ فانی احسن کی سرپرستیوں سے بخوبی واقف تھے چنانچہ اِس کی تعریف میں لکھتے ہیں :
بہار گلشن کشمیر باز رنگین شد
کہ ابر فیض ظفر خان کامگار آمد
ناقدین کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مراسم دیر تک قائم نہ رہ سکے اور دونو ں کے درمیان رنجش پیدا ہو گئی جس کی وجہ عشق تھی۔دراصل نجی نامی ایک رقاصہ جسے ظفر خان پسند کرتے تھے اتفاق سے فانی بھی اُسی کے عاشق نکلے۔ جب معشوقہ نے احسن کی جانب توجہ نہ دی تو اِس نے دونوں(نجی اور فانی) کی ہجو کہی ۔ ڈاکٹر امیر حسن عابدی تصحیح شدہ مثنویات فانی کشمیری کے مقدمہ میں احسن کی ایک رباعی نقل کرتے ہیں جس میں دونوں کی ہجو کہی ہے:۵؎
خفتہ را بیدار سازد باد دامان نجی
مردا را در جنبش آرد بوی انباں نجی
لتہٗ حیض نجی شد شملہ و دستار شیخ
رشتہ ٗ تدبیر او شد بادتنبان نجی
بالآخر فانی اور احسن کے درمیان رنجش پیدا ہو گئی اور فانی کشمیر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اِس کے بعد فانی دہلی منتقل ہو گئے لیکن جب اِنھیںکشمیر کی یاد ستاتی تو وہ اپنی بد بختی گلہ یوں کرتے:
فانی از بخت سیاہت شدہ در ہند وطن
ورنہ جای تو بجز گوشہ کشمیر نبود
اِس شعر سے واضح ہوتا ہے کہ فانی اپنے وطن کشمیر کو کس قدر پسند کرتے تھے اور دہلی میںپناہ گزین ہونے کو اپنی سیاہ بختی سمجھتے تھے۔دہلی میں رہتے ہوئے فانی کو جب اپنے کشمیری دوست و احباب کی یاد ستاتی تو اِس کا اظہار اِن الفاظ میں کرتے:
در بیان گلشن کشمیر فانی ہر طرف
جز شراب ناب شمع مجلس احباب نیست
بظاہراِس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک دو کا ضمناً ذکر کیا جاتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ اِن کا اصل عشق کشمیر سے تھا اور اِن کا عشق بھی کشمیر میں ہی تھا۔ حالات سے دوچار ہو کر اِنھیں اپنے عشق سے دور زندگی گزارنی پڑی ۔ دوسری وجہ یہ کہ ہندوستان اور خصوصاً دہلی کی آب و ہوا اِن کے لئے موزوں نہ تھی جس کا ذکر یوں کرتے ہیں :
ہوا پرشگال ہند خوش آمد مرا لیکن
نسیم نو بہار کابل و کشمیر می باید
ڈاکٹر گرداری لال ٹیکو تذکرہ مرآت الخیال میں ظفر خان احسن اورفانی کے درمیان رنجش کی متذکرہ حکایت کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رنجش کی یہ وجہ حقیقت پر مبنی معلوم نہیں ہوتی:
’’چنین بر می آید کہ میانۂ ظفر خان حکمرانی کشمیر با محسن فانی بعلت وجود یک زن بنام نجی بھم خورد ولی این نکتہ درست بنظر نمیرسد ـ‘‘؎۶
مذکورہ عبارت کے ساتھ فانی کے دو اشعار بطور نمونہ پیش کرتے ہیں جنہیں و ہ مستند سمجھتے ہیں اور اِن اشعار سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ فانی اور احسن کے درمیان کوئی رنجش نہ تھی بلکہ فانی نے اپنے اشعار میں احسن کی تعریف کی ہے۔ شعرمندرجہ ذیل ہیں :
کو ظفر خان داغ امشب را کہ فانی این غزل
در الہ آباد پیش قدر دانی گفتہ است
بہار گلشن کشمیر باز رنگین شد
کہ ابر فیض ظفر خان کامگار آمد
اِس میں شبہ نہیں کہ فانی نے اِن اشعار میں احسن کی تعریف و توصیف کی ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اِن کے درمیان الہ آباد میں قیام کے دوران نہیں بلکہ قیام ِکشمیر کے دواران رنجش پیدا ہوئی ۔ شعر اول کے مصرع ثانی سے بخوبی عیان ہوتا ہے کہ یہ غزل دوران قیام الہ آباد کہی گئی ہے۔ جہاں تک رنجش کا تعلق ہے تو یہ کشمیر کے دورانِ قیام پیدا ہوئی۔ اِس ضمن میں ڈاکٹر ٹیکو جو دوسرا شعر پیش کرتے ہیں وہ فانی نے اُس وقت کہا تھا جب احسن کشمیر کے حاکم بن کر آئے تھے ۔اکثر تذکرہ نگار اور محققین اِسی پر متفق ہیں ۔ حالانکہ اِس کا ذکر گذشتہ اوراق میں بھی ہو چکا ہے۔بحرحال اِن تمام واقعات کہ علاوہ فانی نہایت ہی نیک، شریف اور پاکیزہ انسان تھے ۔ اِن کے علم و فضل ، عزت و وقار ، پاکیزگی اور نیک مزاجی سے متاثر ہو کر میر شیر علی خان مولف’ مرآت الخیال‘ یوں رقمطراز ہیں:
ـ’’ مردی فاضل و متبخر و صاحب جاہ و پاکیزہ روزگار و خوش خو و خوش صحبت بود‘‘؎۷
فانی نے اپنی زندگی کے آخری ایام اپنے وطن کشمیر میں ہی گزارے ۔ یہیں ۱۰۸۱ھ بمطابق ۱۶۷۱ء میں اِس دنیا فانی کو خیر آباد کہا اور خانقاہِ داراشکوہ معروف بہ پری محل(The Palace of Fairies) کے نزدیک مدفون ہوئے۔کسی صاحب کمال نے اِن کے ایک مصرعے ’رفت فانی بہ عالم باقی‘سے مادہ تاریخ نکالی ہے۔
شعر و شاعری: فانی نے شاعری کا آغاز کب کیا اِس ضمن میں تذکرے خاموش ہیں اور اگر کسی نے اِس کا ذکر کیا ہے تو شاید وہ میری نظر سے نہیں گزرا ۔ مگر اِس میں کوئی شک نہیں کہ فانی اپنے معاصرین میں نامور شاعر تھے ۔ اِن کا اصل میدان غزل تھا ۔ البتہ غزل کے علاوہ اُنہوں نے قصیدہ نگاری ، مثنوی نگاری اور رباعیات میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔محمد افضل سرخوش نے تذکرہ کلمات الشعرا میں جہاں ایک طرف دیگر شعرا کامفصل بیان کیا ہے تو وہیں جب فانی کا ذکر کرتے ہیں تو صرف اِن ہی الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں :
’’خود را از موحدان میگرفت از اکابر کشمیر صوفی مشرب بود۔ از مصاحبان داراشکوہ است ۔ دیوان و مثنوی خوب دارد ۔ دو بیت ازو یاد است‘‘
دیدہ نہان داشت نقش آن کف پارا
اشک بمردم نمود رنگ حنا را
موی سفید خندہٗ صبح اجابت است
گشتیم پیر بردر او تا دعا رسید؎۸
اُستاد سعید نفیسی نے فانی کی شخصیت اور شاعری کی تعریف کرتے ہوئے فانی اور غنی کی شاعری کے بنیادی فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’تفاوتی کہ درمیان شعر فانی و غنی ھست اینست کہ غنی خود از بسیاری از غزلیات خود اشعاری را کہ نمی پسندیدہ حذف کردہ۔۔۔۔۔اما ظاھراً آنچہ فانی سرودہ دست نخوردہ بمارسیدہ و می توان بدین وسیلہ از ھمہ ٗ افکار او آگاہ شد۔۔۔۔۔۔۔ از نظر فنی و شعر شناسی اندک تفاوتی ہم درمیان شعر فانی و غنی ہست و آن اینست کہ شعر فانی بسبک شعر ایران در قرن نھم و بیشتر دارای جنبۂ رئالیسم و ناتورالیسم است و شعر غنی پیرو روش اکثریت نزدیک باتفاق شعرای ہندوستان برروش امپرسیونیسم گفتہ شدہ است‘‘؎۹
ممدوحین: فانی نے متعدد شاہوں اور امیروں کی مدح میں قصائد کہے ہیں جن میں شاہجہان ، شہزادہ داراشکوہ، ملا شاہ بدخشی ، نذر محمد اور ظفر خان احسن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
سبکِ شاعری: اپنے معاصرین کی طرح فانی بھی سبکِ ہندی کے پیرو تھے۔ دقیق اور پیچیدہ اصطلاحات اِن کے کلام میں کوٹ کوٹ کر پائی جاتی ہیں۔ تازہ تشبیہات و استعارات ، فلسفیانہ انداز اور خصوصاً فلسفہ وحدت الوجود اِن کے کلام کی خصوصیات میں شامل ہے۔ اِس کے علاوہ ہندی الفاظ اور اصطلاحات کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ شاہجہان کی مدح میں فانی کے قصیدے کا ایک شعر بطور ِنمونہ پیش کیا جاتا ہے جس میں فانی نے ہندی اور سانسکرت الفاظ کا بھرپوراستعمال کیا ہے۔ڈاکٹر ٹیکو تصحیح شدہ دیوان کے مقدمہ میں اِن الفاظ کی بہترین نشاندہی کرتے ہیں ۔ شعر مندرجہ ذیل ہے۔
در چمن ہر صبح مینا بر کند راگ بسنت
نیست طوطی را بجز کلیان چون بلبل زبان
فانی نے بعض اوقات رباعی میں حافظ کی پیروی کی ہے ۔ نمونہ کے طور پر دیوان فانی سے ایک رباعی پیش کی جاتی ہے جس میں حافظ کی تقلید کی گئی ہے۔
چشمی کہ بود کور چہ بیدار چہ خواب
بحری کہ شود شور چہ آب و چہ سراب
راہی کہ بود غلط چہ نزدیک چہ دور
عمری کہ رود ھرزہ چہ شیب و چہ شباب
ترکیبات و اصطلاحات: فانی نے اپنے کلام میں کلاسیکی شعرا خصوصاً صوفی شعرا کی ترکیبات کا استعمال کیا ہے ۔ مثلاً : طفل اشک، شیخ جام ، صوفی مینا ،جام می ، گنجفہ ، نرد وغیرہ ۔ اِس کے علاوہ ’پیر، مرشد، انسان کامل‘ جیسی اصطلاحات کو اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔
ڈاکٹر ٹیکو نے شبلی نعمانی کے حوالے سے صائب تبریزی کا قول نقل کیا ہے کہ ظفر خان احسن رزم و بزم کی محفلوں میں عبدالحیم خان ِ خانان کی برابری کرتا تھا اور اُس وقت کے بلند پایہ شاعر صائب ، کلیم ، قدسی وغیرہ کو اپنے ساتھ کشمیر لے گیا اور ادبی مجالس کا انعقاد کیا جو تقریباً مشاعرہ کی سی تھیں ۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے صائب تبریزی کا ایک شعر حاشیہ میںپیش کرتے ہیں : ۱۰؎
خانخانان را ببزم و رزم صائب دیدہ ام
در شجاعت و سخاوت چون ظفرخان تو نیست
احسن کی اِس رسم کو فانی نے مزید تقویت دی ۔ اکثر ناقدین کا اتفاق ہے کہ فانی اپنے گھرپر مشاعروں اور ادبی مجالس کا انعقاد کرتے تھے۔اِن محفلوں میں اُس وقت کے بلند پایہ شعرا حصہ لیتے تھے ۔ اِس ضمن میںڈاکٹر ٹیکو رقمطراز ہیں :
’’فانی یکی از اشخاصی بود کہ چنین مجالسی را در خانہ خود ترتیب میداد ۔ دو نفر شاعر برجستہ کشمیر در آن زمان از جملہ شاگردان وی بودند ۔ چنانچہ از تذکرہ ہای معاصر فارسی و ہندی برمی آید غنی و سالم ھر دو در دورہ حیات فانی در ایران و ہند معروف و سر مشق شعرای بعدی کشمیر و ہم چنین ہندوستان گردیدند‘‘؎۱۱
مثنوی نگاری: مثنوی نگاری میں فانی خود کو نظامی کا جانشین کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ امیر خسرو ، جامی اور یعقوب صرفی سے ہوتا ہوا مجھ تک پہنچا ہے ۔ اِس ضمن میں ڈاکٹر ٹیکو نے مصدر الآثار سے ایک شعر اور ایک رباعی بطورِ سند پیش کی ہے لیکن یہاں صرف شعرہی نقل کیاجاتا ہے ۔۱۲؎
شیخ نظامی کہ دلش زندہ است
ہر سخنش شمع فروزندہ است
تصانیف: امیر حسن عابدی نے تصحیح شدہ مثنویات فانی کشمیری کے مقدمہ میں فانی کی چار مثنویوں کا ذکر کیا ہے جن کے اشعار کی مجموعی تعداد ۷۳۶۶ ہے ۔ دیگر ناقدین کا اعتراف ہے کہ فانی نے نظامی کی تقلید میں خمسہ کہا تھا مگر کوئی پختہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر عابدی کا قول ہی درست معلوم ہوتاہے۔ اِن چار مثنویوں کے علاوہ ڈاکٹر عابدی نے غزلیات کے اشعار کی مجموعی تعداد ۵۲۶۵، پانچ قصائد کے ۱۶۸ اشعار اور ۱۶۶ رباعیات کا ذکر کیا ہے۔ اِس طرح اشعار کی مجموعی تعداد ۱۳۱۳۱ لکھی ہے ۱۳؎۔ڈاکٹر عابدی نے جن چار مثنویوں کا ذکر کیا ہے انکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
۱ ۔ ناز و نیاز : فانی کی پہلی مثنوی ہے جواُنہوں نے نظامی کی مثنوی خسروو شیرین کے جواب میں لکھی ۔یہ ایک عشقی امیز تاریخی داستان ہے جس کے اشعار کی مجموعی تعداد۱۹۲۸ ہے ۔ مثنوی کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے ۔
الہیٰ آتش عشقی بر افروز
کہ باشد ہمچو داغ لالہ دلسوز
مثنوی کے بعض اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ فانی نے اِس داستان کو کسی کی سفارش پر نظم کیا تھالیکن کسی صورت بھی معلوم نہ ہو سکا کہ کس کی سفارش پر نظم کیا۔بہرحال تکمیل کے بعداِس مثنوی کو غیر معمولی پزیرائی حاصل ہوئی۔۔ نمونے کے طورپر دو اشعار پیش کیے جاتے ہیں جن سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ یہ مثنوی کسی کی سفارش پر لکھی گئی ہے۔
بہ من فرمود شرح عشق دادن
بہ وصف حسن خوبان لب کشادن
بہ این خدمت چو من مامور گشتم
بہ علم عاشقی مشہور گشتم
اِس مثنوی میں عہد اکبری کی عشقیہ داستان بیان کی گئی ہے جس میںموسیٰ اور موہنی دو مرکزی کردار ہیں۔موہنی ایک زرگر کی بیٹی ہوتی ہے جس کے حسن و جمال کو خواب میں دیکھ کر ہی موسیٰ فریفتہ ہو جاتا ہے۔ بیدارہونے کے بعد موسیٰ اُسی مقام پر جاتا ہے جہاں خواب میںاُس نے موہنی کو دیکھا تھا ۔ اتفاق سے موہنی اُسی مقام پر مل جاتی ہے ۔ اِس کے بعد حصول عشق اور ایک ڈراونے احتتام کو فانی نے نہایت ہی خوبصورتی سے نظم کیا ہے۔ ملا عبدالقادر بدایونی اِس عشقیہ داستان سے اِسقدر متاثر ہوے کہ اِسے اپنی تصنیف میں مفصل بیان کیا ہے ۔ ڈاکٹر عابدی نے بدایونی کی اِس عبارت کو عیناً نقل کیا ہے۔(عابدی ص۔۱۱)
۲۔ میخانہ : فانی کی دوسری مثنوی ہے جس کے ابیات کی مجموعی تعداد ۱۲۷۳ ہے ۔یہ مثنوی زندگی کے آخری ایام کی تصنیف ہے۔ فانی نے اِس مثنوی میں کشمیر کے باغات ، دریا ، نہرون اور جاہای دیدنی کا ذکر کیا ہے ۔مثلاً باغ ِشالیمار کے بارے میں یوں لکھتے ہیں :
عروس ہمہ باغہا شالہ مار
کہ او ر ا گرفتہ است دل در کنار
۳۔ مصدر الآثار : یہ مثنوی مخزن الاسرارِ نظامی کی بحر میں ہے جو سنہ ۱۰۶۷ ھ بمطابق 1656-57ء میں مکمل ہوئی ۔فانی نے یہ مثنوی شاہجہان کے نام معنون کی۔ مثنوی کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تازہ نہالیست ز باغ قدیم
فانی نے دیگر مثنویوں کی طرح اِس مثنوی کی ابتدا ء میں خدائے تعالیٰ کی حمد و ثنا ، رسول اللہ کی نعت ، چار خلیفہ کے بعد شاہجہان کی مدح کی ہے ۔ اِس کے بعد نظامی ، خسرو ، یعقوب صرفی اور اپنے پیر محب اللہ کی مدح کی ہے ۔ مصدر الآثار ایک دینی مثنوی ہے۔ اِس میں کلمہ طیبہ ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، توبہ اور تواضع و توکل کی فضیلت کا بیان ہے ۔ مثنوی مصدر الآثار کا خاتمہ اِس شعر پہ ہوتا ہے۔
بود اثر ھاش چو از حد فزوں
آمدہ تاریخ ز نامش بروں
فانی نے اِس شعر کے مصرعہ ٔ ثانی میں واضح طورپر بتایا ہے کہ مثنوی کے نام سے ہی اِس کی سن نکلتی ہے۔ مثنوی مصدر الآثارکے حروف کا شمار بھی ۱۰۶۷ ہے جو اکثر و بیشتر تذکروں میں اِس مثنوی کی سنہ تکمیل مذکور ہے۔
۴۔ ہفت اختر : یہ مثنوی 2558 ابیات پر مشتمل ہے جوسنہ۱۰۶۸ھ بمطابق 1657-58 ء میں مکمل ہوئی ۔ یہ مثنوی ایران کے بادشاہ اور شہزادہ خانم چینی کی عشقیہ داستان پر مشتمل ہے۔مثنوی کا آغاز اِس شعر سے ہوتا ہے ۔
ای زبان کردہ دردیان ہمہ
حمد خود گفتہ از زبان ہمہ
فانی نے بتدائی تین مثنویاں تین سال میں مکمل کی تھیں جبکہ یہ مثنوی صرف سات راتوں میں لکھ کر اورنگ زیب عالمگیر کے نام منسوب کی ۔جیسا کہ مندرجہ ذیل شعر سے واضح ہوتا ہے:
ہفت شب تا سحر درین نامہ
ہفت افسانہ ز در قم خانہ
می توان برد فانی این تقویم
بر در پادشاہ ہفت اقلیم
شاہ اورنگ زیب ملک ستان
کہ بود حکم او چو آب روان
تذکروں میںفانی کی منظوم تصانیف کے علاوہ دبستان مذاہب ، نجات المومنین اور شرح عین العلم وغیرہ کا ذکربھی ملتا ہے ۔ آخری تینوں تصانیف نثری ہیں ۔ علاوہ ازین ملا شاہ کی دو مثنویوں کے مقدمے بھی لکھے تھے۔ نثری تصانیف میں راقم کی رسائی صرف دبستان مذاہب تک ہی ہو پائی ہے کیونکہ بقیہ تصانیف کے بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ اکثر تذکرہ نگاروں نے اِنھیں حذف ہی کر دیا ہے یا اگر کسی نے ذکربھی کیا ہے تو ممکن ہے وہاں تک رسائی نہ ہوپائی ہو۔ اِس لئے اِن دو تصانیف کے بارے میں لکھناکارِ سنگین ہے الغرض فانی کی تصنیف ہونے کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ ناقدین کی آرا میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن دبستانِ مذاہب کے متعلق اچھا خاصا مواد دستیاب ہے ۔ ذیل میں اس کے بارے میں چند نکات بیان کیے جاتے ہیں ۔
دبستان مذاہب : فانی نے حصول علم او ر سیر و سیاحت کے دوران مختلف ممالک کے سفر کئے۔اِسی دوران انھیں مختلف مذاہب کو جاننے کا موقع ملا۔فانی نے جملہ معلومات کو یکجا کر کے ایک کتاب تحریر کی جو دبستان مذاہب کے نام سے مشہور ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر سید امیر حسن عابدی کے قول سے مترشح ہوتا ہے :
’’یکی از کتابھای مھم قرن یازدہم ہجری دبستان مذاہب بفانی کشمیری منسوب شدہ کہ کاملاً اشتباہ است و در مقدمہ ٗ انگلیسی این مطلب مفصل مطرح گردیدہ است‘‘؎۱۴
D.N. Marshal اپنی تصنیف “Mughals In India” میں جب فانی کا ذکر کرتے ہیں تو دبستان مذاہب کا ذکر بھی ضمناً کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ فانی کی طرف منسوب کی گئی ہے مگر جب موبد شاہ کا ذکر آتا ہے تو متعدد کیٹلاگ کا حوالہ دیتے ہوئے دبستان مذاہب کے بارے میں مفصل بیان کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں :۱۵؎
“It has been ascribed to Mohsin Fani of Kashmir, but in the colophons of several manuscripts it is attributed to Mir Zulfaqar Ali-al-Husayni whose takhalus was Mubad Shah.”
ُپروفیسر عبدالقادر سروری’ کشمیر میں فارسی ادب کی تاریخ‘ میںدبستان مذاہب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں :
’’ڈاکٹر صوفی(ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی) نے بڑی محنت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مشہور معرکہ الآرا کارنامہ ’’دبستان مذاہب‘‘ فانی کی تصنیف ہے، اور یہ تصنیف اُنہوں نے داراشکوہ کی اسی خانقاہ میں گوشہ نشین ہونے کے بعد لکھی تھی جو پری محل کے نام سے موسوم ہے‘‘۔۱۶؎
ڈاکٹر وارث کرمانی اپنی مایہ ناز تصنیف (Dreams Forgotten) میں دبستان مذاہب کے بارے میںیوں لکھتے ہیں :
“Mohsin Fani is said to be the Author of the famed Dabistan-I-Madhahib, a prose-work on religons”.
مگر حاشیہ میں ایک ٹھوس ثبوت سے یہ ثابت کیا ہے کہ اِس کے اصل مولف موبد شاہ ہیں ۔ لکھتے ہیں :
“Recent research shows that Dabistan-i-Mudhahib is the work of one Mubad Shah who flourished in the seventeenth century A.D., and live in Azimabad (Patna)”17
دبستانِ مذاہب کے متعلق ناقدین کی آراء سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ فانی کشمیری کی تصنیف نہیں بلکہ موبدشاہ کی تصنیف ہے کیونکہ صرف پروفیسر عبدالقادر سروری نے ہی ڈاکٹر صوفی کے قول کی تائید کرتے ہوئے اِسے فافی کی تصنیف بتایا ہے ۔علاوہ ازین دیگر ناقدین کی آراء سے کہیں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ یہ فانی کی تصنیف ہے۔کتابخانہ آزاد علیگڑھ میں دبستان ِمذاہب کے کئی نسخے موجود ہیں ۔ اِن میں سے بعض کا مولف فانی اور بعض موبد شاہ کے نام منسوب ہیں ۔ کتابخانہ آزاد میں مخطوطات کے Descriptive Catalogueمیں جہاں اِن نسخوں کی فہرست ہے وہیں ایک تحریر سے صاف عیان ہوتا ہے کہ یہ موبد شاہ کی ہی تصنیف ہے۔
- Shea & A. Troyer نے 1843ء میںدبستان مذاہب کو فارسی سے انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے مطبع نول کشور لکھنو سے شائع کیا۔ Sir William James پہلے شخص ہیں جنہوں نے اِس مایہ ناز کام کو دنیا غرب میں متعارف کرایا جسکی بدولت فانی کی شخصیت کو اور بھی چار چاند لگے۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سر ویلیم جیمس کا یہ امر فانی کے لئے باعث شہرت بنا۔
دیوان فانی کشمیری: فانی کا دیوان غزلیات، رباعیات اور قصائد پر مشتمل ہے۔مولوی محمد رحیم ا لدین اور مولوی محی الدین کے زیر اہتمام یہ دیوان سب سے پہلے 1893 ء میں حیدرآباد سے شائع ہوا۔ اِس کے بعد ڈاکٹر گرداری لال ٹیکو نے ۱۳۴۲ھ بمطابق 1967 ء میں تہران سے شائع کیا۔اِ ن کے مطابق کتابخانہ انڈیا آفیس لندن میں موجود دیوانِ فانی کا نسخہ ۳۰۸ غزلیات، ۱۶۵ رباعیات اور ۵ قصائد پر مشتمل ہے ۔ چار مثنویوں کے علاوہ دیوان کے اشعار کی مجموعی تعداد ۵۷۶۵ ہے۔ اُستاد نفیسی تصحیح شدہ دیوان فانی کشمیری کے مقدمہ کے آخیر میں ڈاکٹر ٹیکو کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ اِس کار سنگین کے لئے بہتریں الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’رنجی کہ آقای دکتر تیکو در تھیہ و چاپ این کتاب بردہ است از سطر سطر آن پیداست ومن ھر چہ در ستایش این کار مھم بنویسم باز کم گفتہ ام‘‘؎۱۸
مذکورہ اقوال و نظریات اور ناقدین کی آراء سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ فانی کا شمار گیارہویں صدی ہجری کے نامور شاعر اور بلند مرتبہ عالم و فاضل میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے جملہ اصاف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں کامیاب رہے۔
حواشی:
۱۔ ادبیات فارسی در کشمیرقرن ۱۶ و ۱۷،ڈاکٹر ضمیرہ غفاراوا ،ص۔۳۲۸،مرکز تحقیقات فارسی دانشگاہ اسلامیہ علیگڑھ،۲۰۱۸ء
2.History of Indo-Persian Literature,Nabi Hadi,p.394 Iran Culture House New Delhi,2001
۳۔ ادبیات فارسی در کشمیرقرن ۱۶ و ۱۷،ڈاکٹر ضمیرہ غفاراوا ،ص،۳۳۲،مرکز تحقیقات فارسی دانشگاہ اسلامیہ علیگڑھ،۲۰۱۸ء
4.History of Indo-Persian Literature,Nabi Hadi,p.395 Iran Culture House New Delhi,2001
۵۔مثنویاتِ فانی کشمیری،داکٹر سید امیر حسن عابدی،مقدمہ ص۶،جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹس،کلچر اینڈ لنگویجز،سرینگر،۱۹۶۴ء
۶۔دیوان محسن فانی ،گ۔ل۔تیکو،مقدمہ ص ۔ ذ،انتشارات انجمن ایران و ہند،تہران،۱۳۴۲ ھ ش
۷۔مرات الخیال،شیر علی خان لودی،تصحیح حمید حسنی،ص۔۱۴۶،انتشارات روزنہ،۱۳۷۷ھ
۸۔ کلمات الشعراء،محمد افضل سرخوش،تصحیح صادق علی دلاروی،ص۸۵،دین محمدی پریس لاہور،۱۹۴۲ء
۹۔مقدمہ دیوان محسن فانی ۔ڈاکٹر۔ گ۔ل۔ٹیکو ،ص۔الف ،انتشارات انجمن ایران و ہند،تہران،۱۳۴۲ھ
۱۰۔مقدمہ دیوان محسن فانی،ص۔ر،شبلی نعمانی ،شعر العجم جلد۳، ص۔۱۶۱ چاپ تہران،۱۳۳۹ھ
۱۱۔مقدمہ دیوان محسن فانی ۔ڈاکٹر گ۔ل۔ٹیکو ،ص۔ر ،انتشارات انجمن ایران و ہند،تہران،۱۳۴۲ھ
۱۲۔ ایضاً،ص۔ز
۱۳۔مثنویاتِ فانی کشمیری،داکٹر سید امیر حسن عابدی،مقدمہ ص۷،جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹس،کلچر اینڈ لنگویجز،سرینگر،۱۹۶۴ء
۱۴۔ایضاً،ص۲۹
15.Mughals In India,D.N.Marshall,p.299,Asia publishing House,Bombay,1967
۱۶۔ کشمیر میں فارسی ادب کی تاریخ،پروفیسر عبدالقادر سروری،ص۱۳۸،مجلس تحقیقات اُردو کشمیر ،سرینگر،۱۹۶۸ء
17.Dreams Forgotten, Waris Kirmani,P.280, I.M.H. Press private Limited,Delhi.
۱۸۔مقدمہ دیوان محسن فانی ۔ڈاکٹر۔ گ۔ل۔ٹیکو ،ص۔ب ،انتشارات انجمن ایران و ہند،تہران،۱۳۴۲ھ
***