You are currently viewing فنا بلند شہری کی غزل میں عشق اور حسن کا ذکر

فنا بلند شہری کی غزل میں عشق اور حسن کا ذکر

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

فنا بلند شہری کی غزل میں عشق اور حسن کا ذکر

فنا بلند شہری کی غزل اردو شاعری کے اسلوب، جذباتی شدت، اور فنکارانہ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کی غزل میں عشق کی سرمستی اور حسن کی کشش کے ساتھ ساتھ جذبات کی شدت کو بھی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

غزل کا بنیادی موضوع عشق کی سرمستی اور اس کے مختلف رنگ ہیں۔ شاعر نے حسن و عشق کے ان مناظر کو بڑی مہارت سے بیان کرنے کی کوشش ہے جو دل کی کیفیت کو عیاں کرتے ہیں۔ “میرے رشکِ قمر” جیسے مصرعے میں حسن کی تعریف اور محبت کے جذبے کا امتزاج پایا جاتا ہے۔

بلند شہری نے حسن، عشق، اور جوانی کو چاندنی، برق، اور شراب جیسے تشبیہات سے مزین کیا ہے۔ مثلاً:

“برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی” میں عشق کی شدت کو برق سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ دل کو بے قابو کر دیتی ہے۔

“جام میں گھول کر حسن کی مستیاں”: حسن کو شراب سے تشبیہ دے کر اس کی کشش کو اجاگر کیا گیا ہے۔

غزل میں محبت کی جذباتی شدت کا اظہار کیا گیا ہے۔فنا شہری کی غزل کے اشعار میں محبت کی جذباتی شدت کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے، خصوصاً یہ اشعار ملاحظہ کیجیئے:

“آنکھ ان کی لڑی یُوں میری آنکھ سے” یہ مصرع محبت کی شدت کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی زبان کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

“آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے” میں محبت کی طاقت کو بیان کیا گیا ہے جو سب کو جھکا سکتی ہے۔

فنا کی شاعری میں صوفیانہ اور رومانوی دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ فنا بلند نے صوفیانہ انداز میں حسن اور عشق کو روحانی تجربہ قرار دیا ہے جیسے:

“شیخ صاحب کا ایمان بہک ہی گیا” اس مصرع میں محبت کی کشش کو روحانیت سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے اور عشق کو ہر رکاوٹ سے بلند مقام پر دکھایا گیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فنا بلند شہری کی غزل کے آخری شعر میں زندگی کے بعد یعنی مرنے کے بعد کی زندگی کے تصور کو محبت کے تسلسل کے طور پر پیش کیا ہے:

“اُس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرو” میں محبت کا وہ معراج جہاں محبوب آخرت میں بھی عاشق کی عزت کو برقرار رکھتا ہے۔

فنا بلند نے اپنی غزل میں سادہ لیکن پر اثر زبان استعمال کی ہے۔ اشعار کی روانی اور صوتی ہم آہنگی قاری کو متاثر کرتی ہے۔ ردیف اور قافیہ کا انتخاب اشعار کے حسن کو بڑھاتے ہیں۔

بلند شہری کا انداز منفرد اور دلکش ہے۔ وہ الفاظ کو نہایت مہارت سے استعمال کرتے ہیں، جو جذبات کی گہرائی کو عیاں کرتا ہے۔ ان کی شاعری محبت، حسن، اور جذبات کی نفسیات کو سمجھنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ غزل عشق کے مختلف پہلوؤں، جذباتی گہرائی، اور فنکارانہ مہارت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ بلند شہری نے اس غزل میں حسن، عشق، اور جذبات کو ایسی مہارت سے پیش کیا ہے کہ قاری نہ صرف شاعری سے متاثر ہوتا ہے بلکہ خود کو ان جذبات کا حصہ محسوس کرکے اشعار کا مطالعہ کرتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے فنا بلند شہری کی غزل پیش خدمت ہے۔

*

غزل

*

میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزا آ گیا

برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزا آ گیا

جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آگیا

چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا! تو نے ایسی پلائی مزا آ گیا

نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے

مئے کدے پہ برسنے لگیں مستیاں، جب گھٹا گھر کے چھائی مزا آ گیا

بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے، اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی

آنکھ ان کی لڑی یُوں میری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا

شیخ صاحب کا اِیماں بہک ہی گیا، دیکھ کر حُسنِ ساقی پگھل ہی گیا

آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے، لُٹ گئی پارسائی مزا آ گیا

آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر، سُرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر

اس نے شرما کے میرے سوالات پہ، ایسے گردن جُھکائی مزا آ گیا

اے فناؔ شکر ہے آج بعدِ فنا، اُس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرُو

اپنے ہاتھوں سے اُس نے مری قبر پہ، چادرِ گُل چڑھائی مزا آ گیا

*

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

Leave a Reply