جبینہ مُغل
ریسرچ اسکالرجمّوں یونیورسٹی
قاضی عبدالستار کے تاریخی ناولوں کا تنقیدی تجزیہ
اُردو ادب کی تاریخ میں ناول نگاری کی روایت دو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے ۔نذیر احمد کے عہد سے تا حال اردو ادب میں اصلاحی ،معاشرتی ،سیاسی ،تاریخی ،رومانی اور جاسوسی ناول کا فی تعدا د میں لکھے گئے جن میں بہت سے ناول تاریخی اعتبار سے اعلیٰ معیار کے ہیں ۔تاریخی ناول نگاری کے تناظر میں قاضی عبدالستارکا مقام اہمیت کا حامل ہے ۔ناول نگاری میں ان کو اسلوب ،فن اور ہیت اور موضوعات کا انتخاب کر کے اس کے ساتھ انصاف کرنے میں عبور حاصل تھا ۔ناول نگاری میں اصل اہمیت ماجرا سازی اور قصّہ خوانی سے ہی ہوتی ہے ۔اس اعتبار سے قاضی عبدالستارکے ناول فن پر کھرے اُترتے دکھائی دیتے ہیں ۔وہ اپنے موضوعات کے ماحول کی حقیقی جزئیات کو جس تفصیل و تشریح کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ بہت دلچسپ اور حقیقت افروز ہے جن کوپڑھتے ہوئے کئی سو سال پرانی تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں ۔ماضی کو حال کے آئینے میں پیش کرنے میں انھیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔قاضی عبدالستار تہذیب ،تخیل ،تاریخ اور فکشن کی نزاکتوں اور باریکیوں کے نکتہ ِ شناس تھے ۔
قاضی عبدالستار کا خاص میدان ہی تاریخ رہا ہے اور اس جہت میں ان کا شمار صفِ اول کے ناول نگاروں میں ہوتا ہے ۔ تاریخی ناول کی ابتدا اُنیسویں صدی کے آواخر میں عبدالحلیم شررؔکے توسط سے ہوئی جو قرۃالعین حیدر ،عصمت چغتائی ،عزیز احمد ،اور عبداللہ حسین سے گزر کر قاضی عبدالستار تک پہنچتی ہے ۔ان کی انفرادیت اس طور پر ہے کہ جہاں عبدالحلیم شررؔنے عرب کے مختلف کرداروں اور واقعات کو پیش کیا ہے وہیں قاضی عبدالستار نے دونوں تہذیبوں یعنی عجم اور عرب کی تاریخ کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے نہ صرف تاریخی اصولوں کو مدِ نظر رکھا ہے بلکہ اپنے منفرد اسلوب اور ہیت سے قاری کو اس طرف مائل کیا ہے کہ وہ ناولوں کے مطالعہ میں دلچسپی لینے پر مجبور ہوں ۔ قاضی عبدالستار کے تاریخی ناولوں کا مطالعہ کرنے کے بعد پروفیسر عبدالغنی یوں لکھتے ہیں :
‘‘تاریخی ناول نگاری میں یقیناان (قاضی عبدالستار)کا ایک خاص مقام ہے اس جہت میں ان کا شمار صفِ اول کے ناول نگاروں میں ہونا چاہیے ۔انہیں اپنے فن اور اس کی مخصوص صنف میں وہ روایت ملی جس کے قابلِ ذکر بانی عبدالحلیم شررؔہیں اور اس کووسیع طور پر ترویج دینے والے صادق سردھنوی ،لیکن نسیم حجازی ؔنے اس روایت میں توسیع و اضافہ کر کے اس کو ایک عظیم فن کا اعتبار و معیار بخشا ۔اسلم راہی ؔاور عنایت اللہ التمش اسی راہ پر چلے جو نسیم حجازی نے روشن کی ،لیکن قاضی عبدالستار اپنی فنکاری میں کسی کے مقلد نہیں کہے جا سکتے ۔۔۔۔وہ بس ایک اعلیٰ پایے کے ناول نگار ہیں ’’
بحوالہ :‘‘نذرِ قاضی عبدالستار’’ مرتب پروفیسر محمد غیاث الدین ،مشمولہ ایوان اُردو دہلی ، جولائی ۲۰۲۳ء،ص ۴۸
قاضی عبدالستار اپنے دلفریب انداز اور مخصوص رنگ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔انہوں نے اردو ادب میں تاریخی ناول نگاری کے ذریعے اپنی شناحت قائم کی ہے ۔ان کے ناولوں میں دو طرح کی تاریخ ملتی ہے ۔ایک اسلامی اور دوسری سیاسی ۔اسلامی تاریخ میں ‘‘صلاح الدین ایوبی ’’ (۱۹۶۴ء)اور ‘‘خالد بن ولید ’’(۱۹۹۵ء)جیسے ناول آتے ہیں ۔سیاسی تاریخ میں ‘‘دارا شکوہ ’’ (۱۹۶۷ء)اور ‘‘غالب’’ (۱۹۸۶ء)کا شمار ہوتا ہے ۔
اسلامی تاریخی ناول:
۱۔صلاح الدین ایوبی :ان کا پہلا تاریخی ناول ہے۔ جسے سب سے پہلے سلمان اریب نے رسالہ ‘‘صبا’’ کے شمارے میں شائع کیا تھا بعد میں غلام ربانی نے پہلی بار ۱۹۶۴ء میں کتابی صورت میں شائع کیا تھا ۔ جس کا انتساب ماموں صاحب قاضی جمیل الدین احمد ایڈ وکیٹ سیتا پور کے نام ہے۔اس ناول پر قاضی عبدالستار کو اُردو فکشن کا پہلا ‘‘غالب ایوارڈ’’ ۱۹۷۳ء سے نوازا گیا ۔یہ ناول اسلامی تاریخ کے سنہرے باب اور صلیبی جنگوں کا احاطہ کرتا ہے ۔جو آج سے تقریباََ نو سو سال پہلے واقع ہوئیں تھیں ۔انہوں نے ایک ایسے اسلامی تاریخ کے ہیرو کو موضوع بنایا ہے۔ جن کو اپنی دلیری اور بہادری کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔اس ناول میں نہ صرف اس دور کی تاریخ بلکہ تہذیب ،کلچر و ثقافت بھی سامنے آتے ہیں اور قاری عرب کے ماحول و فضا ،تاریخ و تمدن ،عادات و اطوار اور رہن سہن سے بھی باخبر ہوتا ہے ۔ناول کی شروعات دوسری صلیبی جنگ سے ہوتی ہے تیسری جنگ جو کہ صلاح الدین کی قیادت میں لڑی گئی اور صلاح الدین ایوبی کی شہادت پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے ۔اس ناول میں فلیش بیک اور شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے ۔
اس ناول کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کی مجبوری اور بے کسی کو بیان کیا گیا ہے یعنی عیسائیوں کی کس حد تک فرقہ واریت اور نسل کشی پیش کی گئی ہے ۔عیسائی رہنما ؤں نے کس طرح مسلمان لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ۔عیسائی فاتحین کی دمشق میں اسلام دشمنی اور انسانیت سوز واردات کو انجام دیا ان ہی واقعات کا اس ناول میں تذکرہ کیا گیا ہے ۔
اس ناول کی عظمت کے حوالے سے ڈاکٹر انور احمد یوں رقمطراز ہیں :
‘‘ناول صلاح الدین ایوبی صرف اس لئے نہیں مشہور ہے کہ اس میں تاریخ کے صفحات کا خیال بڑی باریک بینی سے دکھایا گیا ہے اور اس میں مختلف مقامات پر معروف مغربی مورخ ‘‘سیٹنلے لین پول ’’کی کتاب ‘‘سلطان صلاح الدین ایوبی ’’کا حوالہ مع صفحہ نمبر درج ہے ۔اس میں شک نہیں کہ اس سے مصنف کا علمی شغف اور اس کے مطالعے کی وسعت النظری کا اندازہ ہوتا ہے ۔ان تمام چیزوں سے قطع نظر ناول میں جس طرح عربوں کی تاریخ و تمدن ،اسلامی فضا و ماحول ،ان کے عادات و اطوار اور رہن سہن کے ساتھ ایسے اسلوب جملے ،مکالمے، ڈائیلاگ اور اندازِ بیان جو ہر کسی ناول یا مصنف کی تحریروں میں باآسانی نظر نہیں آتے اور عظمت کو واضح طور پر ثابت کرتے ہیں ساتھ ہی اس کو دیگر تخلیق کاروں کی تخلیقات سے خاصا منفرد بناتے ہیں ’’۔
بحوالہـ:ایوان اردو دہلی ، جولائی ۲۰۲۳ء محمد فصیل ،ص ۴۹
۲۔داراشکوہ:قاضی عبدالستار کا دوسرا اہم تاریخی ناول ہے جو پہلی مرتبہ ۱۹۶۷ء میں منظرِ عام پر آیا ۔ اور دوسری مرتبہ یہ ناول ۱۹۷۶ء شائع ہوا ۔دوسری اشاعت کا انتساب قرۃالعین کے نام کیا گیا ہے ۔اس ناول پر انھیں ‘‘پدم شری ’’ ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا ہے ۔یہ ناول اپنی خصوصیات کی بنا پر ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا ۔اس ناول میں ۱۹۶۷ء عہدِ وسطیٰ کے ہندوستان میں شر اور خیر کے تصادم کو موضوع بنایا گیا ۔اس ناول میں ولی عہد داراشکوہ کی زندگی کے عروج و زوال کو بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔دارا شکوہ شاہجہان کا بڑا بیٹا اور اورنگ زیب کا بھائی تھا ۔ناول کے شروعاتی حصّے میں دارا شکوہ کے کے تخت پر جلوہ افروز ہونے اور ہندو دھرم کے محصولات معاف کرانے کا ذکر ہے ۔اس ناول میں قندھار کی جنگ ،وزیر سعداللہ کے انتقال،داراشکوہ کے تخت پر قدم رکھنے کی خیر اور دارا کے خلا ف عوام میں بدگمانی پیدا کرنے کی تفصیل پیش کی گئی ہے ۔
شاہجہان کے ضعیف ہونے پر ان کی بیٹی جہاں آرا سلطنت کو اورنگ زیب کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے دارا کو تاج پہنانے کا مشورہ دیتی ہے ۔لیکن دارا اس فیصلے پر راضی نہیں ہوتا۔اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دارا نے بہن کے مشورے پر عمل نہ کر کے بڑی غلطی کی تھی بالآخر دارا کو بہت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑااور ُمغلیہ سلطنت پر اورنگ زیب جیسے تنگ نظراور تعصب انسان کا قبضہ ہو گیا ۔اورنگ زیب نے سب سے پہلے دارا کے مذہبی عقائد و تصورات کو نشانہ بنا کر عوام کے ذہنوں کو پرگندہ کرنا شروع کر دیا ۔اورنگ زیب عوام کی نظر میں دارا کو اسلام کا دشمن بنا کر پیش کرتا رہا اور اس کے خلاف سازشیں کرتا رہا ۔دوسری طرف شجاع کی بیٹی سے اپنے بیٹے کی نسبت کر کے اورنگ زیب نے اس کو تمام زندگی کے لئے حامی بنا لیا ۔شاہجہان کے خلاف شجاع کی بغاوت نے دارا کو مجبور کر دیا کہ وہ اورنگ زیب کی سازشوں کا مقابلہ تلوار سے کرے ۔اس طرح ساموگڑھ کی لڑائی شروع ہوئی اور دارا کو شکست نصیب ہوئی ۔ساموگڑھ میدان جیسی خون ریز لڑائی پوری سترہویں صدی کے ہندوستان میں کسی مقام پرنہیں لڑی گئی ۔اس جنگ سے صرف یہ نہیں ہوا کہ ہندوستان کا تاج دارا سے چھین کر اورنگ زیب کے سر پر رکھ دیا گیابلکہ مغلیہ سلطنت کے زوال کا آغاز ہوگیا جس رواداری اور امن و امان کو اکبرسے لے کر داراشکوہ تک سب نے قائم دائم رکھا تھااور اورنگ ذیب کی تنگ نظری نے اس پر سیاہ دھبہ لگا دیا۔
دارا شکوہ پر تبصرہ کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی نے یہ لکھاہے کہ دارا اس قدر ہندو پرست نہیں تھا جس قدر قاضی نے اسے ثابت کیا ہے ۔مگر ہندو پرست سے شمس الرحمن فاروقی کا مفہوم کیا ہے یہ صاف ظاہر نہیں ہوتا ۔انہوں نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ایک تاریخی کتاب کے حوالے سے مختصراًذکر کیا ہے کہ دارا ایک ایسی انگھوٹی پہنتا تھا جس پر ‘‘پربھو’’ کا عکس تھا ۔ظہیر الدین نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے لیکن دارا کی صرف انگھوٹھی پر ہی نہیں بلکہ تمام جواہرات پر ‘‘پربھو ’’کا عکس ہوتا تھا ۔اس بات سے یہ صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ ہندو عقیدے پر چلتا تھا یا سیکولر مزاج کا آدمی تھا۔بہر حال معاصرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ داراسیکولرہے ۔
فنی اعتبار سے یہ ناول بلندیوں کو چھوتا ہے ۔اس ناول میں جنگی غزاوات اور جنگی حکمت عملی اور اس کا اندازِ بیان ،میدانِ جنگ میں فوج میں جوش پیدا کرنا ،نظام ِ معاشرت اور طرزِ سیاست ،گھوڑے اور ہاتھیوں کا صف میں کھڑے ہونا وغیرہ کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی گئی ہے ۔یہ ناول ان کے تاریخی شعور کی بھر پور عکاسی کرتا ہے ۔
سیاسی تاریخی ناول:
۱۔غالب:قاضی عبدالستار کا تیسرا تاریخی ناول غالب ہے ۔جو ۱۹۸۶ء میں علی گڑھ سے پہلی بار شائع ہوا۔اس ناول کا انتساب سابق صدرِ جموریہ مرحوم ہند عزت ماب عالی جناب فخرالدین احمد صاحب کے نام کیا ہے ۔اور ساتھ میں یہ شعردرج ہے:
ہاں غالب خلوت نشیں ہم جناں عیش چنیں
جاسوسِ سلطان در کمیں مطلوب ِ سلطاں در بغل
یہ ناول اُردو کے عظیم شاعر غالبؔ اور ترک بیگم کے زمانے کا احاطہ کرتا ہے ۔مغلیہ تہذیب و تمدن ،مرزا غالب ؔکی زندگی ،قسمت کی ستم ظریفی اور مالی تنگی جیسے مو ضوعات کو پیش کیا گیا ہے ۔یہ ناول ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے خوں ریز واقعات اور انگریزوں کی حکمرانی وغیرہ کی بھی عکاسی بھی کرتا ہے ۔ ناول ‘‘غالب’’فخرالدین احمد کی فرمائش پر لکھا گیا ہے ۔قاضی عبدالستار کا یہ ناول اپنے اندر تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبیت اورقصّہ پن کو سمیٹتے ہوئے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے ۔اس ناول میں مغلیہ سلطنت کی زوال ،غالب کی دکھ بھری زندگی ،غالب کے عشق کی روداد ،اپنے ہمعصر شعراء سے ان کی چشمک اور غدر کے دردناک واقعات اور دہلی کی تباہی کو فلیش بیک تکنیک کے ذریعے ماضی کی سیر کرتا ہوا اختتام کو پہنچ جاتا ہے ۔ناول کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے ۔
باب اول میں دہلی کی تباہی ، رنگون میں بہادر شاہ ظفرکی قید و بند کے واقعات ،غالب کا انتظارِ مرگ اور فلیش بیک کی شکل میں غالب اور چغتائی بیگم کی ملاقات اور عہد ِ ولی کا تذکرہ ۔
باب دوم اس باب میں فلیش بیک تکنیک کے ذریعے غالب اپنی زندگی کے حرکات و سکنات کو پیش کرتے ہوئے ترک بیگم کے ساتھ معاشقے کی داستان نمو پذیر ہوتی ہے ۔اس کے بعد ترک بیگم کی بدنامی اور خود کشی کے بعد غالب پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے اور مصیبت میں ترک بیگم زخموں پر مرحم کا کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔یہ باب ترتیب کے لحاظ سے پہلے باب میں ہی ضم ہو جاتا ہے ۔
تیسرے باب کا آغاز اکبر شاہ ثانی کی وفات اور بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی سے شروع ہوتا ہے ۔جو ۱۸۵۷ء سے پہلے کے حالات کو بیان کرتا ہے ۔اس باب میں غالب اور ان کے ہم عصر شعراء کی ادبی چشمک بھی نمایاں ہے ۔
باب چہارم میں ۱۸۵۷ء کے ناکام انقلاب کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ہندوستانیوں میں حاکم و محکوم کے حالات و نظریات سے سمجھوتا کر کا تصور اُبھر کر سامنے آتا ہے ۔اس ناول کے ہیرو غالب ؔکے دو رُخ نظر آتے ہیں ۔پہلا وہ انتہائی دور اندیش ،حکیمانہ نگاہ کا مالک ،اور اپنے عہد کا مشہور و معروف شاعر ۔دوسرا یہ کہ وہ ایک حسن پرست ،مے نوش ،عیش پرست اور خود غرض انسان نظر آتا ہے ۔جس کے یہاں نہ تو محبت کی درد مندی کا احترام ہے اور نہ سیاسی و معاشرتی حالات سے کوئی تعلق نظر آتا ہے۔
مختصراً قاضی عبدالستار کے دوسرے ناولوں سے اس ناول کا اندازِ بیان مختلف ہے ۔یہ ناول اپنے فنی اصولوں پر کھرا اُترتا ہے ۔ تشبیہات واستعارات کی بھی عمدہ مثالیں مل جاتی ہیں ۔منظر نگاری کو بھی دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔
۲۔خالد بن ولید:قاضی عبدالستار کا چوتھا اور آخری تاریخی ناول ہے جوپہلی بار ۱۹۹۵ء میں شائع کیاگیا ۔اس ناول میں خالد بن ولید کے کارنامے ،ان کی سیرت اور عربوں کی تاریخ و تہذیب کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ان کی زندگی کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے ۔خالد بن ولید کو ‘‘‘سیف اللہ ’’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ان کا تعلق قریش کے ایک قبیلے سے تھا ۔حضرت محمدﷺ رشتے میں ان کے خالو تھے۔ان کے لئے یہ قول مشہور تھا کہ ان کو خدا کی طرف سے تلوار عطا ہوئی ہے ۔جب یہ میدانِ جنگ میں داخل ہوتے تھے تو دشمن کانپتے تھے اور فتح حاصل کر کے ہی آتے تھے یہی وجہ ہے کہ انھیں ‘‘سیف اللہ ’’ کا نام دیا گیا ۔اسلام کی تاریخ میں ایک جانباز ہیرو تھے ۔
ناول کا پلاٹ حضرت محمدﷺ کے آخری دور کی زندگی سے لے کر خالد بن ولیدکی زندگی میں ہونے والے واقعات کو پیش کیا گیا ہے ۔یہ ناول عرب اور اس کے اطراف کے علاقوں میں موجود قبائل کا اسلام سے انخراف کرتے ہوئے خلافت کا پرچم اُٹھانے سے ہوتا ہے اور سیف اللہ کی فتح یابی پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔خالد بن ولید اسلام کے ایک سچے خادم ،دیندار ،جنگی رموز کے ماہر،فاتح مجاہد ،دیانتدار اور نیک سرت انسان تھے۔ناول خالد بن ولید سے ایک اقتباس بطورِ مثال:
‘‘خالد کو تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں ۔پوری دنیا میں ان سے بڑا ماہرِ فنون جنگ اور اقبال مند اور فتح نصیب جنرل موجود نہیں ہے کسی قوم کا کتنا ہی بڑا لشکر کیسے ہی سازو سامان کے ساتھ سامنے آئے خالد پر فتح نہیں پا سکتا ۔اس لئے ان سے صلح کر لو ۔اگر یہ منظور نہیں تو سن لو میں تمہارے ساتھ خالد کا مقابلہ کرنے پر تیار نہیں ہوں ’’
بحوالہ:‘‘خالد بن ولید ’’مصنف قاضی عبدالستار ،ص ۱۸۴
یہ ناول بعض خامیوں کے باوجود بھی تاریخی ناول نگاری میں اہمیت کا حامل ہے ۔انہوں نے نہ صرف مذہبی امور کو پیش کیا ہے بلکہ روایتی تہذیب و ثقافت کو بھی پوری طرح سے اُجاگر کیا ہے ۔قاضی عبدالستار نے حقائق کو مجروح نہیں ہونے دیا ،بلکہ انہوں نے اکثر تاریخی واقعات کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔مختصراً ان کے ناول تاریخی ،جغرافیائی ،تہذیبی اور ثقافتی معلومات کا بیش بہا خزانہ ہیں۔
حوالہ جات
۱۔بحوالہ۔نذر قاضی عبدالستار ،مرتب پروفیسر غیاث الدین ،مشمولہ ایوان اردو دہلی ،جولائی ۲۰۲۳ء،ص ۴۸
۲۔بحوالہ ایوان ِ اردو ،جولائی ۲۰۲۳ء،ص ۴۹
۳۔بحوالہ :خالد بن ولید ،مصنف قاضی عبدالستار ،ص ۱۸۴
***