You are currently viewing قومی یکجہتی کے لیے اُردو ناگزیر ہے

قومی یکجہتی کے لیے اُردو ناگزیر ہے

حمیرا جمیل

اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، لاہور

قومی یکجہتی کے لیے اُردو ناگزیر ہے

قومی یکجہتی کو انگریزی میں National Integrationاور ہندی میں ‘‘راشٹر یہ ایکتا ’’کہتے ہیں۔قومی یکجہتی ایک ایسا نفسیاتی عمل ہے جس سے اتفاق اور جذباتی ہم آہنگی کے خیالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور ملک سے وفاداری اور مشترکہ شہریت کا عمل پیدا ہوتا ہے۔کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی اور بقاء کے لیے قومی یکجہتی کا ہونا ضروری ہے۔قومی یکجہتی کا تصور خارجی یا عارضی نہیں ہے بلکہ فطری ، داخلی اور دائمی ہے۔اس فطری جذبہ کو ایک تمثیل کے ذریعہ ماہ منیر ؔ نے نہایت عمدگی سے ان الفاظ میں اجاگر کیا ہے:

 “ممکن ہے آپ کو چمن بندیوں کا شوق ہو آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ چمن مختلف روشوں کا مجموعہ ہے اور ہر روش کے پھول جداگانہ رنگ و بو کے آئینہ دار ہیں یعنی مختلف پھولوں کی مجموعی حیثیت کے باعث چمن ، چمن کہلاتا ہے، اس موقع پر مجھے ذوقؔ کا یہ مصرعہ یا دآگیا ۔ع

 گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن ۔”۱؂

قومی یکجہتی کا مفہوم و مدعا قومی سطح پر مکمل اتحاد اور وقار کی تعمیر و تشکیل ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کہا تھا کہ قومی یکجہتی اینٹ اور چونے ،ہتھوڑے اور چھینی سے نہیں بنائی جاتی ہے۔یہ تو افراد کے دماغوں اور دلوں میں پیار یا محبت کے جذبے سے فروغ پاتی ہے۔اس کے پیدا ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے تعلیم کا راستہ ۔یہ راستہ حالاں کہ بہت سُست ہے مگر مستقل اور ٹھوس ہے۔دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں مختلف فرقے مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولتے ہوئے بھی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہمیشہ ہی اس ملک میں ہندو ، مسلمان ،سکھ اور عیسائیوں نے دوستی و محبت کی مثالیں قائم کی ہیں۔قیوم خضرؔ نے ہندوستانی ماحول اور سماج کے پیش نظر قومی یکجہتی کا ایک نہایت پسندیدہ مفہوم پیش کیا ہے۔ اس تمثیلی بیان میں بڑی حقیقت بیانی مُضمر ہے۔موصوف لکھتے ہیں:

 “قومی یکجہتی کی مثال اس گلدستہ کی ہے جس میں مختلف قسم کے پھول اپنا رنگ اپنی اپنی خوشبوؤں کی انفرادیت و خصوصیت کو باقی رکھتے ہوئے کسی مقصد کے کے دھاگے سے منسلک ہو کر گلدستہ میں ایک ساتھ سجے ہوتے ہیں ۔پھولوںکی اکائی کو ختم کردینے سے گلدستے کا اتحاد ہی باقی نہیں رہ سکتا۔ اس طرح کسی طبقے کے مذہبی ، لسانی اور تہذیبی اکائیوں اور اس کی انفرادیت و خصوصیت کو ختم کردینے کی کوشش قومی یکجہتی کے منافی ہے۔”۲؂

بنی نوع انسان کی زندگی میں زبان بڑے اہم کردار کی حامل ہوتی ہے۔یہ انسانی جذبات و احساسات کے اظہار اور علوم انسانی تک رسائی حاصل کرنے کا ایک ناگزیر اور بیش قیمت آلہ ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنے جذبات کا اظہار کرتا اور دوسروں سے تاثرات حاصل کرتا ہے۔اسی کے توسط سے وہ اپنی قدیم روایات سے آگہی حاصل کرتا ہے اور اسی کی بدولت اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو دوسروں تک منتقل کرتا ہے۔ممکن ہے کہ انسان زندگی کے کسی مرحلے پر اپنے مذہبی اعتقادات ، سیاسی نظریات، رسوم و روایات وغیرہ میں تبدیلی قبول کرلے مگر حالات کی سختیوں کے باوجود وہ زبان کی نعمت سے بے بہرہ نہیں ہونا چاہتا۔ اس میں شک نہیں کہ زبان ہی کی وساطت سے انسان کے انفرادی اور طبقاتی گروہوں میں ہم آہنگی اور یکجہتی کے جذبات کو تقویت ملتی ہے تاہم زبان ہی قوم کے تخریبی پہلوؤں کا بھی زبردست آلہ ہوتی ہے۔ اس لیے قومی اتحاد اور یکجہتی کے نقطہ نظر سے مذہبی اور نسلی اقدار کے مقابلے میں لسانی اقدار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

زبان انسان کے تہذیبی ارتقاء اور سماجی ضروریات کے پیش نظر غیر ارادی طور پر پیدا ہوتی ہے اور ایک مسلسل عمل سے نشوونما پا کر پروان چڑھتی ہے۔اردو زبان بھی اسی قدرتی عمل کے پیش نظر وجود میں آئی۔اردو نے ایک جذبے کے تحت فروغ پایا اور وہ جذبہ تھا یکجہتی اور اتحاد کا۔۔۔۔۔اتحاد کے حصول کے لیے اردو ہر اعلیٰ و ادنیٰ کی زبان بن گئی ۔ اس نے مختلف قوموں ، مختلف مذاہب ،مختلف عقائد کو ایک مالا میں پرو دیا۔ڈاکٹر مظفر حنفی اپنے بیان سے اردو کے مشترکہ زبان ہونے پر مہر ثبت کرتے ہیں کہ:

 “اردو زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کے میل جول کی جیتی جاگتی اور ہماری گنگا جمنی تہذیب اور ہند ایرانی کلچر کی منہ بولتی تصویر ہے۔”۳؂

اردوزبان کی تاریخ قومی یکجہتی کی تاریخ ہے۔اردو کے شاعروں نے ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا اور جنت نشاں قرار دیا۔اسی زبان نے قومی یکجہتی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کا م کیا۔ اس زبان میں برج ، عربی ،فارسی ، پرتگالی ، انگریزی ، پنجابی ،ترکی ، کھڑی بولی کے الفاظ شامل ہیں کیوں کہ اُردو زبان دوسری زبانوں کے الفاظ قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اُردو زبان ہی کے ذریعے ہم عالمی امن ملک میں قومی ایکتا اور دوسرے ملکوں کے درمیان یکجہتی اور استحکام پیدا کرسکتے ہیں اسی زبان کے ذریعہ ہم سماج کی بگڑی حالت کو بدل سکتے ہیں۔

اردو کے ادیب ہندو بھی ہیں ،مسلم بھی ۔۔۔۔۔۔۔سکھ ،عیسائی ،پارسی ، بودھ ،جین اور آریہ سماج اردو میں لکھتے رہے ہیں۔ اردو میں لکھنے والے بنگال سے آسام ،مہاراشٹرا ،کشمیر ،تاملناڈو ،کرناٹک اور کنیا کماری تک ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی تحریروں میں علاقائی خصوصیات بھی نظر آتی ہیں۔قرآن کے تراجم و تفاسیر ، گیتا اور اپنیشد،انجیل ،گرو گرنتھ صاحب اور سیتارتھ پرکاش غرض کہ ہر مذہب اور عقیدے کی مقدس کتابیں اردو میں موجود ہیں۔امیر خسروؔ کی متنوع شخصیت تعارف کی محتاج نہیں۔ان کے فارسی اور ہندوی کلاموں کے مطالعہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ موصوف حب الوطنی اور قومی یکجہتی کی علامت نظر آتے ہیں۔قلی قطب شاہؔ جو بیک وقت صاحب تخت و تاج ،شاعر نواز اور شاعر سب کچھ تھا۔ ڈاکٹر شاہ شکیل احمد کہتے ہیں کہ نظیر ؔاکبر آبادی سے سیکڑوں سال پہلے اس نے ہندوستانی سرزمین کو اپنی شاعری کا پس منظر بنایا۔ اس نے ہند لمنانی (ہند و مسلم ) کلچر کے آئینہ میں ایشیاء کو دیکھنے کی کوشش کی ۔ قومی یکجہتی کا تاج اس کے سر کو زیب دے رہا ہے۔ولی دکنی سے ایک نئے دور کا آغاز ہوتاہے۔انہوں نے بھی اپنی شاعری کی انجمن آرائی مفاہمت و یگانگت سے کی ہے۔لہٰذا ولی ؔسے اس کے بعد کے ادوار میں فائزؔ، آبروؔ، دردؔاور سوداؔ وغیرہ تمام شعراء کے یہاں ایسے عناصر ملتے ہیں جن سے قومی یکجہتی کا شعور پروان چڑھتا ہے۔خواجہ میر دردؔ اردو کے سب سے بڑے صوفی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری انسان دوستی اور جذبہ محبت و یگانگت سے معمور ہے۔نظیر ؔ اکبر آبادی ہندوستانی کی ادبی تاریخ کے واحد عوامی شاعر ہیں جنہوں نے دور حاضر کی عوامی شاعری کے لیے راہیں متعین کیں۔ ان کی وسیع النظری اور بے تعصبی پر بیشتر نقادوں نے مہر تصدیق ثبت کی ہے اور ان کو قومی یکجہتی کے موجودہ تصور کی روشنی میں پہلا باضابطہ شاعر قرار دیا ہے جن کے یہاں موجودہ تصور قومی یکجہتی واضح اور جامع صورت میں نظر آتا ہے۔غالب ؔ، محمد حسین آزادؔ، شبلی ؔ نعمانی ، اور حالیؔ ان تمام ہمہ جہت شخصیتوں نے قومی یکجہتی کے شعور کو جلا بخشا ہے۔اکبرؔ کی شاعری اپنے عہد کی نمائندگی میں تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔اکبرؔ کے کلام میں یگانگت و محبت اور اخلاق و رواداری کی بھرپور عکاسی موجزن ہے۔چکبستؔ کی حیثیت محب وطن کے ناتے محتاج بیان نہیں۔بقول سید مجاور حسین :

“چکبستؔ کی شاعری ہندوستانیت، قومی یکجہتی اور حب الوطنی کی آئینہ دار ہے۔ان کی ہر نظم میں یہاں تک کہ ‘‘سیر دہرہ دون’’ میں بھی ہندوستانیت موجودہے۔”۴؂

اقبالؔ زمانے کے نباض تھے ۔اقبال کی شاعری میں قومی یکجہتی کی اعلیٰ مثال ان کی نظم ‘‘ترانہ ہندی ’’ ہے۔ اقبال کی وطن سے محبت پر مبنی ایک اور نظم ‘‘نیا شوالہ ’’ ہے۔ اس نظم میں اقبال کی وطن پرستی اپنی معراج کو جا پہنچتی ہے۔ بقول سید مجاور حسین:

“اقبال نے باقاعدہ طور پر فرقہ پرستی اور احیاپرستی کے خلاف آواز بلند کی ۔”۵؂

 حسرت ؔموہانی ، جوشؔ ،جمیل مظہری اور سردار جعفری نے بھی اپنی شاعری کے ذریعہ قومی یکجہتی کا پیغام دیا ہے۔بنگلہ دیش کی جنگ کے موقع پر کیفیؔ اعظمی نے اپنے کلام کے ذریعہ جس یک جہتی اور رواداری کامظاہرہ کیا، وہ بہر طور ان کی حب الوطنی اوروطن پرستی کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔

اردو نثر نگاروں کی ایک قابل لحاظ تعداد جن میں مولانا ابو الکلام آزاد،مجنوں گورکھپوری،مولوی عبد الحق ،پریم چند ،ڈاکٹر محی الدین قادری، احتشام حسین ، کرشن چندر، ڈاکٹر ذاکر حسین ، رشید احمد صدیقی ،پطرس بخاری ، خواجہ احمد عباس ، کنہیا لعل کپور، ظ انصاری ، قمر رئیس، رام لعل،خلیق انجم، احمد فاروقی ،گوپی چند نارنگ،آل احمد سرور ،گوپی ناتھ امن ، حیات اللہ انصاری ،آنند نارائن ملا، راہی معصوم رضا اور سلام مچھلی شہری کی تحریریں یکجہتی و مشترکہ تہذیب کی ایک رنگا رنگ تصویر پیش کرتی ہیں۔

اردو ذرائع ابلاغ نے ہمیشہ قومی یکجہتی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اردو صحافت نے جدوجہد آزادی میں ہی نہیں بلکہ عوامی اور سیاسی بیداری پیدا کرنے کے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔سر سید احمد خان کی ادارت میں شائع ہونے والا سائنٹفک گزٹ اور تہذیب الا خلاق میں قومی یکجہتی سے متعلق موضوعات کو خصوصی اہمیت کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔اردو کے عظیم صحافی اور صحافت کی داغ بیل ڈالنے والے اردو قومی یکجہتی کے عظیم علمبردار ، ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے اور وہ ملک کی تقسیم کسی حالت میں نہیں چاہتے تھے۔اخیر تک انہوں نے ملک کی تقسیم کو قبول نہیں کیا تھا۔اردو زبان کی کشش اور لطافت نے شروع سے ہی مختلف علاقوں اور ذاتوں کے باشندوں کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا اور اسی زبان کی خاطر باہمی دوستانہ تعلق پیدا ہوتے چلے گئے ۔ حقیقت میں قومیت کے جذبے کے احساس کو بیدار کرنا صرف اردو زبان کا کام ہے اردو زبان کے شیدائی نفرتوں کو بھول کر ہم خیال ہوتے چلے گئے اسی زبان کی خاطر رواداری کا چلن کامیاب ہوا ۔اسی زبان کی خاطر تمدنی ایکتا اور قومی یکجہتی قائم ہوسکتی ہے۔ موجودہ دور میں اردو زبان ہی ایک ایسا کارگر آلہ ہے جو مختلف علاقوں اور قوموں کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑ سکتا ہے۔

***

 حوالہ جات

۱)۔ماہنامہ ‘‘اشارہ ’’،پٹنہ (قومی یکجہتی نمبر )بابت جنوری ۔فروری ۱۹۶۲ء ،ص ۲۵

۲)۔اردو اور قومی ایکتا ازقیوم خضر ،۱۹۷۵ء،ص ۱۱

۳)۔اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب ،مرتبہ ڈاکٹر کامل قریشی ،ص ۳۱۷

۴)۔اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصرازسید مجاور حسین ،ص ۳۶۰

۵)۔اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر ازسید مجاور حسین ، ص ۳۴۷

***

Leave a Reply