You are currently viewing متنی تنقید اور خلیق انجم

متنی تنقید اور خلیق انجم

محمد ہلال عالم

متنی تنقید اور خلیق انجم

          اردو ادب میں تنقید و تحقیق کا آغاز اٹھارہویں صدی سے پہلے ہو چکا تھا۔ جب کوئی تخلیق وجود میں آتی ہے، تو اس کے ساتھ ہی اس کی خوبیوں اور خامیوں کی پرکھ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ تنقید کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں، لیکن اس کا بنیادی مقصد کسی فن پارے کی خامیوں اور خوبیوں کو واضح کرنا ہے۔ لفظی طور پر تنقید کا مطلب ہے کھرے کھوٹے کی تمیز یا پرکھ، جبکہ اصطلاح میں یہ کسی ادبی تخلیق کے محاسن اور نقائص کا درست جائزہ لے کر رائے قائم کرنے کا نام ہے۔

          ہر انسان میں اچھائی اور برائی کو سمجھنے کی فطری صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ تنقید کا عمل تخلیق کے ساتھ ہی جڑا ہوتا ہے۔ تخلیق کار سب سے پہلے اپنی تحریر کو وجود میں لاتا ہے، پھر اسے بہتر بنانے کے لیے ترمیم، اضافہ یا کاٹ چھانٹ کرتا ہے۔ جب وہ اپنی تخلیق سے مکمل طور پر مطمئن ہو جاتا ہے، تب اسے حتمی شکل دیتا ہے۔

          ہر نقاد اپنے منفرد نقطہ نظر کے تحت کسی نثری یا شعری تخلیق کا تجزیہ کرتا ہے۔ ماہر نقاد عام طور پر کسی نہ کسی نظریے کی روشنی میں ادب کی جانچ پڑتال کرتے ہیں، جیسے کہ نفسیاتی تنقید، مارکسی تنقید، تاٗثراتی تنقید، جمالیاتی تنقید، متنی تنقید، ہیئتی تنقید یا تاریخی تنقید۔ ان نظریات میں سے یہاں ہم متنی تنقید کے حوالے سے بات کریں گے۔

متنی تنقید کی تعریفات۔

          جس مطبوعہ یا غیر مطبوعہ تحریر کو متنی نقاد مرتب کرنا چاہتا ہے اسے متن کہتے ہیں ۔متن کے لئے یہ تعریف مکمل نہیں ہے کیونکہ متنی نقاد کسی تحریر کو مرتب کرنے کے لئے منتخب کرے یا نہ کرے ،ہر قدیم وجدید منظوم یا منثور تحریر بحر حال متن ہوگی ۔بابائے اردو مولوی عبد الحق اپنی مرتبہ اسٹنڈرڈ اردو انگلش ڈکشنری میں متن یعنی textکے معنی بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

                                      ’’مصنف کے اصل الفاظ ،کتاب کی اصل عبارت کو متن کہتے ہیں ‘‘

          انگریزی کی The Concise Oxford Dictionary میں بھی متن کی تعریف یہی کی گئی ہے ۔ اس ڈکشنری میں لفظ Text کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے ۔:

                   ’’کتاب کا اصل مضمون ،جس میں حواشی ،ضمیمے ،اور تصویریںوغیرہ شامل نہ  ہوں ‘‘

یعنی متن ایک ایسی تحریر ہے جو کاغذ کے ٹکڑوں ،دھاتوں ،مٹی یا لکڑی کی بنائی ہوئی لوحوں ،پتوں ، چمڑوں اور چٹانوں وغیرہ کسی بھی چیز پر ہو سکتی ہے ۔

          انسائیکلو پیڈیا ’’ امریکہ نے ‘‘ نے متنی تنقید کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :

’’متن کے اصل الفاظ کے تعین اسے مکمل کرنے اور واقفیت و اصلیت تلاش کرنے کی غرض سے پرانی تحریروں کے سائنٹفک مطالعے کو متنی تنقید کہتے ہیں ‘‘

          متنی تنقید در اصل ایک سائنس ہے جس کا بنیادی مقصد متن کی تصحیح کرنا ہوتا ہے ۔جس کے تحت اس متن کی بازیافت منظور ہوتی ہے ۔یعنی جو کچھ مصنف نے لکھا تھا ۔متنی تنقید کا فن مغرب کی مرہون منت ہے اس فن کا  باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے آغاز میں ہوا ۔

          یونانی اور لاطینی زبانوں کے متن اور بائبل کے تنقیدی ایڈیشن کی تیاری کرنے کے لئے اس فن کی ضرورت پڑتی تھی ۔بہت عرصے تک تنقیدی ایڈیشن تو تیار کئے جاتے رہے لیکن متنی تنقید کے فن پر انیسویں صدی کے اواخر ہی میں مضامین اور کتابیں لکھی جانی شروع ہوئیں ۔یہ تحریر عام طور سے یونانی اور لاطینی زبان کے کلاسیگی متون کے تنقیدی ایڈیشن تیار کرنے کے سلسلے میں پیدا ہونے والی دشواریوں کے بارے میں تھی ۔بیسویں کے صدی کے آغاز میں متنی تنقید پرکتابیں لکھی جانے لگیں ۔

          متنی تنقید، انیسویں صدی کے آغاز میں مغربی ممالک میں ایک باقاعدہ فن کی شکل میں سامنے آئی۔ بیسویں صدی کے نصف اول تک انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں میں اس موضوع پر متعدد کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے تھے۔ فارسی زبان میں متنی تنقید کے اولین نقاد سرسید احمد خاں تھے، جنہوں نے سائنسی انداز میں ”آئین اکبری”، ”تاریخ فیروز شاہی” اور ”تزک جہانگیری” جیسی اہم تاریخی کتابوں کے تنقیدی نسخے تیار کیے۔ انہوں نے متعدد نسخوں کی مدد سے ”آئین اکبری” کا ایک معتبر تنقیدی نسخہ مرتب کیا۔

          متنی تنقید کا بنیادی مقصد کسی متن کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنا ہے، یعنی وہ روپ جو مصنف نے اپنی تحریر کو دینا چاہا تھا۔ اگر متنی نقاد کو مصنف کا اصل لکھا ہوا نسخہ مل جائے، تب بھی وہ اسے ویسے کا ویسا شائع نہیں کر سکتا۔ ممکن ہے کہ مصنف سے کوئی لفظ چھوٹ گیا ہو، کوئی لفظ دوبارہ لکھ دیا گیا ہو، یا کوئی اور غلطی ہوئی ہو۔ ایسی صورت میں نقاد کا کام متن کو ان غلطیوں سے پاک کرنا، سرقوں کی وضاحت کرنا، اور نقل در نقل سے مسخ شدہ متن کی اصل صورت کا تعین کرنا ہے۔

          متنی تنقید کو تدوینِ متن بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں متن کا مطالعہ کر کے اسے درست ترتیب دی جاتی ہے۔ اس مناسبت سے تدوین اور متنی تنقید میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ شان الحق حقی اپنی کتاب ”فرہنگِ تلفظ” میں ”متن” کی تعریف ”اصل عبارت” یا ”کسی کتاب، مضمون یا دستاویز کے اصل الفاظ” کے طور پر کرتے ہیں۔ تدوینِ متن سے مراد تحریف شدہ یا بگڑے ہوئے متن کو اس کی اصلی حالت میں واپس لانا ہے۔ انگریزی میں اسے ”Textual Criticism” کہتے ہیں، جبکہ اردو میں ”متنی تنقید” اور ”ترتیبِ متن” کی اصطلاحات بھی رائج ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق اردو میں ”ترتیبِ متن” زیادہ مقبول ہے۔ ترتیب کے معنی کسی شے کے اجزا کو مناسب ترتیب سے رکھنا ہے، جبکہ تدوین کا مطلب متفرق اجزا کو اکٹھا کر کے ان کی شیرازہ بندی کرنا ہے۔ ترتیب ایک عمومی لفظ ہے، جبکہ تدوین کا تعلق خاص طور پر کتابوں سے ہے۔

مشہور انگریزی لغت’آکسفورڈ ڈکشنری‘میں اس کی وضاحت  اس طرح کی گئی ہے کہ:

                    ’’عالمانہ تحقیق و تدوین اس لیے کی جاتی ہے کہ کسی تحریر،مخطوطہ یا طبع شدہ کام کو کاتب

                    کی غلطیوں یا ملاوٹ سے پاک کیا جا سکے تاکہ تحریر مصنف کی منشا کے مطابق ہو جائے۔‘‘

          اصطلاحی تعریف اصطلاح میں کسی بھی اہم متن کو مصنف کی منشا اور مقصود کے مطابق تحقیق وتخریج،تحشیہ، تعلیق اور مقدمہ سے مزین کر کے منظر عام پر لانے کا نام ہے۔پروفیسر سیدمحمد ہاشم نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

                   ’’ متن کو اس کوشش کے ساتھ از سر نو مرتب کرنا کہ یہ ہرلحاظ سے وہی متن ہے جو اس  کے مصنف نے پیش کیا تھا،

                    ترتیب یا تدوین متن کہلاتا ہے۔  (۱(

          اردو میں متنی تدوین کے حوالے سے محققین مختلف اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، جیسے ترتیب، تالیف، تدوین اور متنی تنقید۔ ترتیب سے مراد مختلف تحریروں کو ایک جگہ جمع کرنا ہے، جہاں متن کی صحت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تالیف کا مطلب اپنی یا دوسروں کی تحقیقات اور مضامین کو منظم کرنا ہے۔ تدوین ایک گہرا تحقیقی عمل ہے، جس میں مواد کو صرف جمع نہیں کیا جاتا بلکہ مصنف کی نیت کو سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے تدوین ادبی تحقیق کی ایک اہم شاخ ہے۔ڈاکٹر خلیق انجم نے ’متنی تنقید‘ کے موضوع پر کتاب لکھی اور اس فن کو یہی نام دیا۔ یہ اصطلاح انگریزی لفظ ’Textual Criticism‘ کا ترجمہ ہے۔ مشہور انگریزی مصنف کاترے کی کتاب ’An Introduction to Textual Criticism‘ سنسکرت متون کی تصحیح اور انگریزی روایت پر مبنی ہے۔ کاترے کے مطابق، مدون کو متن میں اصلاح کا حق حاصل ہے اور وہ ضرورت کے مطابق متن کو درست کر سکتا ہے۔ لیکن اردو میں تدوین کا تصور عربی و فارسی کی روایت سے متاثر ہے، جہاں مدون کو متن میں کسی قسم کی تبدیلی یا درستگی کا اختیار نہیں۔ اسے مصنف کی اصل نیت کے مطابق متن پیش کرنا ہوتا ہے، ورنہ یہ الحاق یا سرقہ کے زمرے میں آ سکتا ہے۔عربی و فارسی کی روایت کے پیشِ نظر اردو میں ’تدوین متن‘ کی اصطلاح زیادہ موزوں لگتی ہے۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے اپنی معروف کتاب ’اصول تحقیق و ترتیب متن‘ میں ’ترتیب متن‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ یہ اصطلاح بھی مناسب ہے، لیکن اردو میں ’ترتیب‘ کا لفظ انتخاب کے معنوں میں بھی مستعمل ہے، جیسے غزلوں، نظموں یا افسانوں کے انتخاب کو بھی ’ترتیب‘ کہا جاتا ہے۔

          متن کیا ہے؟ ہر وہ تحریر یا تصویر جو معنی رکھتی ہو اور جس کی تفہیم ممکن ہو’’متن‘‘ کہلاتی ہے جس کو انگریزی میںTextکہا جاتا ہے متن کی تعریف کے ضمن میں ڈاکٹر خلیق انجم ’’متنی تنقید‘‘میں رقم طراز ہیں:

                   ’’متن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریر ہو۔۔۔یہ تحریر کاغذ پر مطبوعہ ہویا غیر مطبوعہ،مختلف دھات کے ٹکڑوں،

                   مِٹی یا لکڑی کی بنائی ہوئی لوحوں،پتوں اور پتھروں یا چمڑے،چٹانوں کسی بھی چیز پر ہو سکتی ہے۔‘‘اس تعریف

                    کے تناظر میں ہر وہ چیز متن ہے جو تحریری صورت میں ہو وہ نظم بھی ہو سکتا ہے اور نثر بھی،سیکڑوں برس قدیم بھی

                    ہو سکتا ہے اور عہدِ جدید کا بھی،کئی سو صفحات پر مشتمل بھی ہو سکتا ہے اور مختصر ترین بھی،ان تمام باتوں سے

                    صرفِ نظر ہر لکھی ہوئی چیز ’’متن‘‘ہے۔‘‘ (۲)

          متن عربی زبان کا لفظ ہے، لغت میں اس کے متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں۔ جیسے سخت اونچی زمین، مضبوط، پیٹ، پشت، لحاف وغیرہ کا وہ حصہ جو درمیان میں ہوتا ہے۔ کتاب کی وہ عبارت جس کی تشریح کی جائے۔ مشہور لغت ’فرہنگ آصفیہ‘ میں بھی اسی طرح کے معانی بیان کیے گئے ہیں ’’متن (ع)اسم مذکر (پشت)پیٹھ،مضبوط،استوار،مستحکم،سخت اور اونچی زمین،مجازاً کتاب کی اصل عبارت جس کی شرح کی جائے،وہ عبارت جو کتاب کے بیچ میں ہو،بیچ، درمیانی، وسط، درمیانی حصہ جیسے دوشالے کامتن، کتاب کامتن(بہ فتح تائے مثنات) پڑھنا غلط ہے۔

          اصطلاح میں متن سے مراد وہ عبارت ہے جسے پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو۔ عام طور پر تاریخی اہمیت کی حامل وہ عبارتیں مراد لی جاتی ہیں جنھیں ترتیب دینے کے مقصد سے دریافت کیا گیا ہو۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے اپنی مشہور کتاب’اصول تحقیق وتر تیب متن‘ میں متن کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ

                   ’’ متنText کسی ایسی تحریر اور نقوش تحریر کو کہتے ہیں جن کی قرات یا معنوی تفہیم ممکن ہو۔‘‘(۳)

ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی تعریف سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی چیزیں متن میں شامل نہیں۔

          ڈاکٹرخلیق انجم نے اپنی کتاب ’متنی تنقید‘ میں اس تعلق سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کی تعریف میں چھ اہم نکات ہیں جن کی رو سے ہرتحریرشدہ بامعنی عبارت متن ہے خوا ہ نظم ہو یا نثر، قدیم ہو یا جدید۔ نکات حسب ذیل ہیں۔

1 ۔متن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریری ہو۔

2  ۔ متن ایسی تحریر ہے جوکاغذ پرمطبوعہ یا غیر مطبوعہ مختلف دھات کے ٹکڑوں، مٹی یا لکڑی کی بنائی ہوئی لوحوں، پتوں، پتھروں یا چھڑوں اور چٹانوں وغیرہ کسی بھی چیز پر ہو سکتی ہے۔

3 ۔متن نظم بھی ہوسکتا ہے اور نثربھی۔

4 ۔متن ہزاروں سال قدیم بھی ہوسکتا ہے اور ہمارے عہد کے کسی مصنف کی تحریربھی، اس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں۔

5 ۔ہزاروں صفحوں پر پھیلی ہوئی ہو یا ایک صفحے کی مختصرسی تحریر، دونوں متن ہو سکتے ہیں۔

6 ۔متن کے لیے ضروری ہے کہ بامعنی ہو اور اگر سیکڑوں برس کے عرصے میں نقل درنقل کی وجہ سے متن مسخ ہو گیا ہو تو اس کے اصل الفاظ کا تعین کیا جا سکے۔

  ’’ ڈاکٹر خلیق انجم اپنی کتاب متنی تنقید میں لکھتے ہیں:

                             ’’متنی تنقید کا اصل مقصد حتی الامکان متن کو اصل روپ میں دوبارہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

                             اصل روپ سے مراد وہ روپ ہے جو متن کا مصنف اپنی تحریر کو دینا چاہتاہے‘‘(۴)

          متن کی اصل شکل سے مراد وہ صورت ہے جو مصنف کے ذہن میں موجود تھی اور وہ اسے صفحہ قرطاس پر پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس اصل شکل کی بازیافت کو متنی تنقید یا تنقیدِ متن کہتے ہیں۔ گیان چند جین اور ڈاکٹر خلیق انجم کے خیالات میں اس حوالے سے اختلاف ہے۔ گیان چند اس عمل کو متن کی تدوین کہتے ہیں، جب کہ ڈاکٹر خلیق انجم اسے متنی تنقید کا نام دیتے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن نے تحقیق اور تدوین کے تعلق کو بھی واضح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تحقیق میں ایک اہم مرحلہ تحقیقی ماخذ کی تدوین اور ترتیب ہے۔ قدیم ادب، خصوصاً شاعری کے بارے میں تذکرے اہم ماخذ ہیں۔ کچھ تذکرے ضائع ہو چکے ہیں، جب کہ کچھ اب بھی مخطوطات کی شکل میں ہیں۔ شائع شدہ تذکروں کے متن اکثر غیر مستند ہیں اور ان کی تحقیق و تفہیم کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔ بہت سے شائع شدہ تذکرے نایاب ہو چکے ہیں۔ تحقیق کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ تمام تذکرے تصحیحِ متن کے ساتھ شائع ہوں اور ان سے حاصل معلومات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ طالب علم کسی بھی شاعر یا ادیب کے بارے میں تمام تذکروں سے معلومات آسانی سے حاصل کر سکیں۔

ڈاکٹر خلیق انجم مزید لکھتے ہیں۔

                   ’’جب ہم متن میں کوئی غلطی دیکھتے ہیں اور اس غلطی کو دور کرنے کی کو شش کرتے ہیں تو اس عمل کو متنی تنقید کہا

                   جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں متن کی غلطیاں دریافت کرنے اور ان غلطیوں کو درست کرنے کے فن کو متنی تنقید

                   کہا جاتاہے ’’”متنی تنقید نام ہے اس متن کی بازیافت کا جو مصنف نے لکھا تھا یا لکھنا چاہتا تھا۔اگر کسی وجہ سے متن

                   میں کچھ غلطیاں راہ پا گئی ہیں تو انھیں درست کرنا متنی نقاد کا کام ہے’’  ۔ (۵)

           تحقیق و تنقید کے میدان میں متعدد مشاہیر نے اپنی گراں قدر ادبی خدمات پیش کیں، جن میں خلیق انجم کا نام سرفہرست ہے۔ ان کی شخصیت کا تذکرہ تحقیقی زندگی کے حوالے سے ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اردو دنیا کے نامور محقق، ادیب، ممتاز دانشور اور انجمن ترقی اردو کے روح رواں خلیق انجم تقسیمِ ملک کے بعد ہندوستان میں اردو کے آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کے پرجوش قائد تھے۔

          خلیق انجم کی شناخت اردو دنیا میں کئی حیثیتوں سے جانی جاتی ہے۔ انہوں نے تنقید، تحقیق، ترجمہ اور صحافت کے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، لیکن ان کی اصل شہرت بحیثیت محقق مسلم ہے۔ ان کے ادبی کارنامے تعداد اور معیار کے لحاظ سے ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے 80 سے زائد کتابیں ترتیب، تدوین، تصنیف و تالیف کیں اور بے شمار تحقیقی و تنقیدی مضامین منظر عام پر لائے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ادب کی کسی ایک یا چند اصناف تک محدود نہیں کیا اور نہ ہی کسی تنظیم، گروپ یا جماعت سے وابستگی اختیار کی، بلکہ ہر صنفِ ادب کو قابلِ اعتنا سمجھا اور اردو زبان و ادب کے لیے جب اور جہاں موقع ملا، اس سے بھرپور استفادہ کیا۔ خلیق انجم اپنی تحقیق نگاری کے بارے میں خود لکھتے ہیں۔

                   ’’میں پہلے تنقید کے میدان میں آیا لیکن قدرت کو میرا نقاد ہونا منظور نہ تھا۔ بعد میں تحقیق کو اپنا میدان بنایا۔

                    مجھے اطمینان ہے کہ خدا نے مجھے جتنی صلاحیتیں دی تھیں، میں نے ان کا پورا استعمال کیاہے اور میں نے قلم

                   کے تقدس کا ہمیشہ احترام کیا ہے۔‘‘ (۶)

          خلیق انجم نے غیر معمولی جاں فشانی اور مستقل مزاجی سے ترتیب و تدوین کا کام انجام دیا۔ ان کے تحقیقی اور تنقیدی کاموں کی فہرست طویل ہے، جن میں‘‘معراج العاشقین’’،‘‘متنی تنقید’’،‘‘غالب کے خطوط’’،‘‘آثار الصنادید’’،‘‘مرقع دہلی’’،‘‘رسوم دہلی’’،‘‘دلی کی درگاہ شاہ مرداں’’،‘‘دلی کے آثار قدیمہ’’،‘‘غالب کی نادر تحریریں’’،‘‘غالب اور شاہانِ تیموریہ’’،‘‘غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ’’، اور‘‘مرزا محمد رفیع سودا’’شامل ہیں۔ اگرچہ انہوں نے مختلف اصنافِ ادب پر طبع آزمائی کی، لیکن دہلی کی قدیم عمارات، مقبرے، کتبے، اور غالب سے متعلق تحقیق ان کا پسندیدہ موضوع رہا۔ دہلی سے متعلق ان کی کتابیں جیسے‘‘مرقع دہلی’’،‘‘رسوم دہلی’’،‘‘دلی کی درگاہ شاہ مرداں’’، اور‘‘دلی کے آثار قدیمہ’’دہلی کے کھنڈرات، قدیم عمارتوں، مقبروں، اور کتبوں کی تاریخ و تفصیلات کو سمیٹتی ہیں۔ دہلی کی تاریخ پر ان کی گہری دسترس تھی۔

          سر سید احمد خاں کی تاریخی اور تحقیقی کتاب‘‘آثار الصنادید’’، جو ایک جلد پر مشتمل ہے، دہلی کے کھنڈرات اور قدیم عمارتوں کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ خلیق انجم کی دہلی سے گہری دلچسپی نے انہیں اس کتاب کی تدوین پر آمادہ کیا۔ انہوں نے سر سید کے ذکر کردہ عمارتوں کی موجودہ تصاویر خود اپنے کیمرے سے لیں اور کتاب میں شامل کیں۔ ساتھ ہی حاشیوں میں اضافوں کے ذریعے اسے مزید جامع بنایا۔ اس طرح‘‘آثار الصنادید’’کو تین جلدوں میں شائع کیا، جو ایک خالص تحقیقی کام ہے۔ خلیق انجم نے اس کی ترتیب کے لیے مخصوص ایڈیشن کو بنیاد بنایا اور متن کی تصحیح کے لیے سائنٹفک طریقہ کار اپنایا، جس سے اس کی افادیت میں اضافہ ہوا۔ اس سلسلے میں رقم طراز ہیں۔

                   ’’زیر نظر تنقیدی اڈیشن کے لئے آثارالصنادید  کے دوسرے اڈیشن کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس اڈیشن میں سر سید

                   نے بہت زیادہ ترمیم و تنسیخ، حذف اور اضافے کیے ہیں۔ یہ اڈیشن دلی کے مطبع سلطانی میں 1854ء میں چھپا تھا۔

                    میں نے زیر نظر اڈیشن میں متن کی درستی کا ہر ممکن خیال رکھا ہے، مقدمے میں مسلم فن تعمیر اور ہندو مسلم فن تعمیر کی مختصر

                    تاریخ بیان کرکے دلی کے آثار قدیمہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سر سید کی تاریخ نویسی پر گفتگو کرکے آثارالصنادید کی

                    تصنیف اور مختلف اڈیشنوں اور ری پرنٹوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔’’ (۷)

          خلیق انجم کی شخصیت اردو ادب میں ایک کثیر الجہات اور نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ان کی تحریروں کا دائرہ کسی ایک صنف تک محدود نہیں، بلکہ انہوں نے ترجمہ، تنقید، تحقیق، صحافت، اور خاکہ نگاری سمیت اردو ادب کی مختلف اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف ہونے کے باوجود ان کی ہر تصنیف اپنی گہرائی اور جامعیت کی وجہ سے ادبی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ان کی چند اہم کتابوں میں خطوطِ غالب کی پانچ جلدوں پر مشتمل تدوین، آثار الصنادید، معراج العاشقین، مرزا محمد رفیع سودا، اور متنی تنقید شامل ہیں، جنہوں نے ان کے نام کو ادبی حلقوں میں روشن کیا۔

خلیق انجم کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی غالب شناسی ہے۔ اگرچہ غالب کے موضوع پر بہت سے ادیبوں اور محققین نے کام کیا، لیکن خلیق انجم کا کام اپنی وسعت اور گہرائی کے لحاظ سے منفرد ہے۔ ان کی ذہنی و فکری مناسبت نے غالب کے ادبی ورثے کو نئے زاویوں سے روشناس کرایا۔ خطوطِ غالب کی تدوین ان کی ایسی کاوش ہے جو انہیں غالب شناسوں میں ممتاز مقام دیتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف غالب کے خطوط کو پہلی بار مکمل اور تصحیح شدہ شکل میں پیش کیا بلکہ ان کی زندگی اور ادبی خدمات کا بھی گہرائی سے تجزیہ کیا۔ یہ پانچ جلدوں پر مشتمل مجموعہ اپنی جامعیت اور تفصیل کی بدولت غالب کی شخصیت اور فکر کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

          خلیق انجم کی تحقیق کا ایک اور اہم پہلو غالب کے خطوط پر ان کا مفصل کام ہے، جو پانچ جلدوں میں ترتیب دیا گیا۔ پہلی چار جلدوں میں وہ خطوط شامل ہیں جو عودِ ہندی، اردوئے معلیٰ، مکاتیبِ غالب، نادراتِ غالب، اور دیگر رسائل و جرائد میں شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے ان تمام خطوط کو یکجا کر کے ایک منظم اور مستند مجموعہ تیار کیا۔ پانچویں جلد میں ان خطوط کی تاریخ وار فہرست دی گئی ہے، جو چاروں جلدوں کے مواد کو سمیٹتی ہے۔ اس عظیم الشان کام کو مکمل کرنے میں خلیق انجم نے بارہ برس لگائے، اور خطوط کے درست متن کی بازیافت کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا۔ ان کی یہ کاوش نہ صرف غالب کے خطوط کو محفوظ کرنے میں اہم ہے بلکہ اردو ادب میں تحقیق و تنقید کے اعلیٰ معیار کی بھی عکاس ہے۔

 اس ضمن میں ساجد ذکی فہمی اپنے ایک مضمون غالب کے خطوط اور خلیق انجم میں تحریر کرتے ہیں:

                   ’’خلیق انجم نے ان تمام ذرائع اور وسائل کو اختیارکیا جن سے خطوط غالب کی تلاش، تصحیح و ترتیب کا کام باوزن

                   اور معتبر ہوسکتا تھا۔ یعنی متن کے تصحیح کے لئے انہوں نے نسخہ اساس ان نسخوں کو بنایا جو غالب کے ہاتھ کا لکھا تھا۔

                    اس کے علاوہ عود ہندی اور اردوے معلیٰ کے پہلے اڈیشن میں شائع شدہ خطوط کو بھی بنیادی نسخے کے طور پر استعمال

                    کیا گیا۔ چونکہ عود ہندی کے بالمقابل اردوے معلیٰ میں طباعت کی غلطیاں قدرے کم تھیں اس لئے جو خطوط عود ہندی

                   اور اردوے معلیٰ میں مشترک تھے وہاں انہوں نے اردوے معلیٰ کے متن کو ترجیح دی ہے۔‘‘(۸)

اپنی مرتبہ کتاب  غالب کے خطوط  کے متن کے سلسلے میں ڈاکٹر خلیق انجم خود لکھتے ہیں۔

                   ’’ غالب کے خطوط میں جن لوگوں، کتابوں، اخباروں اور مختلف مقاموں کا ذکر آیا ہے۔ ان پر  جہان غالب

                    کے عنوان سے حواشی لکھے گئے ہیں۔ متن کے مآخذ کے تحت ہر خط کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ خط کا بنیادی

                    متن کہاں سے لیا گیا ہے اور کس متن سے اس کا موازنہ کرکے اختلاف نسخ بیان کیے گئے ہیں۔ غالب کے خطوط

                   میں جتنے بھی فارسی اور اردو اشعار یا مصرعے نقل ہوئے ہیں، ان کا اشاریہ اشعار کا اشاریہ  کے عنوان سے ترتیب

                    دیا گیا ہے۔ پورے متن کا مکمل اشاریہ بھی تیار کیا گیا ہے۔‘‘ (۹)

          خطوط غالب کی ترتیب کے علاوہ بھی انھوں نے غالبیات کے ضمن میں چار مستقل کتابیں مرتب کیں۔ غالب کی نادر تحریریں 1961 غالب اور شاہان تیموریہ 1974 غالب کچھ مضامین 1991 غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ 2004۔ان کے علاوہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں انتخاب خطوط غالب کے نام سے شائقین غالب کی علمی تشنگی کو دور کرنے کے لیے پیش کیا۔

          خلیق انجم کے خزینہ تصنیفات و تالیفات میں متنی تنقید بہت انمول ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر خلیق انجم نے پہلی بار منظم شکل میں اردو والوں کو متنی تنقید کے اصول و فروغ سے کلی طور پر متعارف کرایا۔ورنہ ہمارے یہاں حالت یہ تھی کہ متنی تنقید اور تدوین متن کی باریکیوں میں لوگ ایسے الجھے ہوئے تھے کہ دونوں میں فرق کرنا عام قاری کے لیے تو دور کی بات تھی بعض اہم ناقدین اور محققین کے لیے بھی دشوار تھا۔ اس کا اندازہ ہم ڈاکٹر گیان چند جین کی اس تحریر سے لگا سکتے ہیں:

                   ’’خلیق انجم نے انگریزی اصطلاحوں  Textual Criticismکا ترجمہ کرکے متنی تنقید کے نام سے کتاب لکھی۔

                    متنی تنقید سے ذہن قدر بلندی کی طرف جاتا ہے اور التباس کا موجب بنتا ہے،کسی درس گاہ میں ایک صاحب نے امتحان

                    کا پرچہ بنایا اور اس کا مسودہ مجھے دکھایا۔انھوں نے غلط فہمی کی بنا پر ایک سوال لکھا تھا۔ مندرجہ ذیل عبارت کی متنی تنقید کیجیے

                   ان کی مراد محض تنقید تھی جو متن کی لفظیات پربطور خاص مرکوز ہو۔ تنقید کے لفظی اور صحیح معنی یہی معلوم ہوتے ہیں اس لیے اس

                    فن کو متنی تنقید نہ کہہ کر تدوین متن یا متنی تدوین کہنا بہتر ہے۔‘‘(۱۰)

          ڈاکٹر گیان چند جین کے اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ”متنی تنقید” کی اصطلاح سے ناخوش ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اصطلاح التباس کا باعث بن سکتی ہے اور اسے ”تدوین متن” یا ”متنی تدوین” کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی متنی تنقید محض انگریزی اصطلاح کا ترجمہ ہے؟ کیا یہ تدوین متن کا محض دوسرا نام ہے؟ جین کے اقتباس میں سب سے اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ اس اصطلاح سے التباس کا خطرہ ہے۔ لیکن کیا محض التباس کے امکان کی بنیاد پر کسی اصطلاح کو ترک کر دینا درست ہے؟

          میرے خیال میں اگر اس اصول کو اپنایا گیا تو ادبیات کی دنیا میں موجود بہت سی اصطلاحات کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ کیونکہ غلط استعمال یا ابہام کی وجہ سے اگر اصطلاحات کو ترک کیا جائے تو ہم علمی اصطلاحات کے بڑے ذخیرے سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ تدوین متن کا سب سے بنیادی اور اہم مرحلہ متنی تنقید ہی ہے۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر خلیق انجم نے مخطوطہ شناسی کے طلبہ، تصحیحِ متن اور متن کی دریافت و بازیافت سے وابستہ محققین کے لیے ”متنی تنقید” کے عنوان سے ایک کتاب پیش کی، جو اس موضوع کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے اس اہم کتاب کی اشاعت پر اپنی خوشی کا اظہار یوں کیا ہے۔

                   ’’مجھے بڑی خوشی ہے کہ انہوں نے میری فرمائش پر اس موضوع پر نہایت مفید کتاب بھی مرتب کی ہے، جس کے

                   لئے میں ان کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ انہوں نے زیر نظر تالیف میں متن کی تعریف اور تنقید، متنی نقاد کے

                    فرائض، بنیادی نسخے، اختلاف نسخ، متن کے سنہ تصنیف کا تعین، مآخذ کی نشاندہی غرض تمام ضروری مباحث کا احاطہ

                   کیا ہے اور اس کے مرتب کرنے میں بڑی جان کھپائی ہے، انہوں نے اردو اور فارسی سے متعلق وہ تمام ضروری مثالیں

                    دی ہیں جن سے اس کتاب کی دلچسپی اور افادیت بڑھ گئی ہے اور یہ خشک موضوع پرلطف بن گیا ہے۔ اس میدان میں

                    ان کی حیثیت ایک پیش رو کی ہے۔‘‘ (۱۱)

          خلیق انجم کی ادبی و علمی شخصیت اردو زبان و ادب کے افق پر ایک درخشاں ستارے کی مانند ہے، جن کی کتابوں میں ان کی تنقیدی بصیرت جھلکتی ہے۔ ان کی ترتیب کردہ تصنیفات اس بات کی گواہ ہیں کہ ان کی زندگی علم و ادب کی خدمت اور ترویج کے لیے وقف تھی۔ ان کا تخلیقی و تنقیدی کام اتنا وسیع اور گہرا ہے کہ اسے کسی عام انسان کا کارنامہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کی کتابوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی تصنیفات میں سیمیناروں کے لیے لکھے گئے مضامین کے مجموعوں کی تعداد نمایاں ہے، جو علمی اور ادبی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کی مرتب کردہ اور ترجمہ شدہ کتابیں، خصوصاً انگریزی اور فارسی سے اردو میں تراجم، ان کی وسعتِ فکر اور ادبی قابلیت کو عیاں کرتی ہیں۔ ان کی تخلیقی تصنیفات، تدوین و ترتیب، اور تراجم کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ یہ ان کی علمی و ادبی زندگی کے گہرے نقوش کو اجاگر کرتا ہے۔

          خلیق انجم کی اردو ادب کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ وہ اردو زبان و ادب کے ایک سچے خادم تھے، جنہوں نے اپنی تحریروں سے ادبی دنیا کو مالا مال کیا۔ بالخصوص غالبیات کے حوالے سے ان کی کتابیں نہ صرف اہم ہیں بلکہ اپنی افادیت کے سبب ماہرینِ غالبیات کی فہرست میں ان کا نام نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کی ادبی و علمی خدمات اردو ادب میں ایک منفرد اور مستقل حیثیت کی حامل ہیں۔ یہ میری سعادت ہے کہ مجھے خلیق انجم کی شخصیت اور ان کے متنی تنقیدی کارناموں پر لکھنے کا موقع ملا، اور ان کی پسِ پردہ خدمات کو نمایاں کرنے کی سعی کی۔

  1. Author: Mohd.Hilal Alam

Research Scholar

Department of Urdu

Govt. Raza P.G. College, Rampur, U.P

(M.J.P.Rohilkhand University, Bareilly,U.P.)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  1. Co-Author: Prof. Syed Mohd Arshad Rizvi

HOD,Department of Urdu

Govt. Raza P.G. College, Rampur, U.P

حواشی ۔

 1۔     محمد سید ہاشم ،تحقیق و تدوین،  مکتبہ جامعہ نئی دہلی 1978،ص14

2۔      خلیق انجم ، ڈاکٹر، متنی تنقید ، انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی 2006،ص 20

3۔      تنویر احمد علوی، ڈاکٹر،اصول ترتیب متن ، ایجوکیشنل بک ہاوس دہلی 2013،ص 32

4۔      خلیق انجم ، ڈاکٹر، متنی تنقید ، انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی 2006،ص 18

5۔      خلیق انجم ، ڈاکٹر، متنی تنقید ، انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی 2006،ص22

6۔      سہ ماہی اردو ادب، مشترکہ شمارہ:41-240، جلد: 61-60(اکتوبر تا دسمبر 2016، جنوری تا مارچ 2017) ص: 79

7۔      خلیق انجم ، ڈاکٹر، آثارالصنادید (جلداول) سید احمد خاں ، اردو اکادمی، دلی، 1990، ص: 21

8۔      سہ ماہی اردو ادب، مشترکہ شمارہ:41-240، جلد: 61-60(اکتوبر تا دسمبر 2016، جنوری تا مارچ 2017) ص: 81

9۔      خلیق انجم ، ڈاکٹر،غالب کے خطوط (جلد اول) ، غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب مارگ نئی دہلی، 1984، ص: 12

10۔    گیان چند جین،تحقیق کا فن،: ص 427

11۔    خلیق انجم ، ڈاکٹر، متنی تنقید ، انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی 2006،ص: 11

Leave a Reply