You are currently viewing متن ، قرات اور نتائج

متن ، قرات اور نتائج

کومل شہزادی

نام کتاب:  متن ، قرات اور نتائج

مصنف:    ایم خالد فیاض

ایم خالد فیاض نقاد، معلم، محقق اور شاعر ہیں۔ ایم خالد فیاض ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔اردوادب میں بے شمار ادبی خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور ان کا یہ سفر جاری ہے۔ایم خالد فیاض تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں اور بطور پروفیسر اپنے تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اکیسویں صدی کا اہم ادبی مجلہ ” تناظر” جو ان کی ادارت میں نکلتا رہا جو اہم ادبی حوالہ ہے۔اس کے تینوں شماروں سے ان کی دلچسپی اور ادبی آشنائی جھلکتی ہے۔زیر نظر تصنیف ” متن ، قرات اور نتائج” جو ٢٠٢٣ ء میں کتابی دنیا سے شائع ہوئی۔جو اکیسویں صدی کی بہترین ادبی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ضخیم کتاب جوان کے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔جو معروف ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔انہیں یکجا کرکے کتابی صورت میں لانا ایک احسن اقدام ہے۔

تنقید کے میدان میں ایک نئی تنقیدی کتاب کا اضافہ جو اپنی الگ انفرادیت رکھتی ہے۔اگرچہ تنقید میں کسی خیال کی تائید کے لیے درج ذیل میں سے کچھ عناصر شامل ہو سکتے ہیں، لیکن ادبی تنقید ایک پلاٹ کا خلاصہ، مصنف کی سوانح حیات، یا محض ادب میں غلطی تلاش کرنا نہیں ہے۔

کتاب کو بہت سلیقے کے ساتھ چھ حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔پہلا حصہ جس میں آٹھ مضامین شامل ہیں۔اس حصے میں عالمی ادب کا تذکرہ ہے۔جس میں ٹیگور، سیفو، مارک ٹوئین وغیرہ کی تخلیقات پر مضامین قلمبند کرکے اس حصے کو دلچسپ بنایا گیا ہے۔اول مضمون ” سیفو کی شاعری کے دیگر موضوعات”ہے۔سیفو یونانی شاعرہ ہے جس کی شاعری کا موضوعاتی جائزہ انتہائی دلچسپی سے لیا گیا ہے اور اس کے کلام کا بھی ساتھ مختصر ذکر کیا گیا ہے۔اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قاری سیفو کی شاعری میں موجود تمام پہلووٴں سے آشنا ہوسکتا ہے۔مصنف نے اس طویل مضمون میں ان کی شاعری کے تمام موضوعات پر تحریر کردیا ہے۔دوسرا مضمون ” بڑھاپا، شہر اور بودلئیر” کے عنوان سے ہے۔جس میں بودلئیر اپنی شاعری میں بڑھاپا اور شہر کے حوالے سے بے بسی اور اس کی کرب ناک تصویر کھنچی ہے۔ جس کو انتہائی سادہ انداز میں مضمون نگار نے تذکرہ کیا ہے۔مضمون ” ٹیگور کا تصور موت” گیتا نجلی کے حوالے سے ہے۔اس مضمون میں ڈاکٹر خالد فیاض نے ٹیگور کے موت کے حوالے سے جو نظریات ہیں اُن کو انتہائی منفرد انداز میں تذکرہ کیا ہے کہ عام قاری بھی ٹیگور کے موت کے حوالے سے خیالات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔یہ مضمون انتہائی شاندار ہے۔مضمون ” مارک ٹوئین کی کہانی ” دعائے جنگ” میں مارک ٹوئین کے مختصر تعارف کے ساتھ فرائیڈ کے نظریات اور مارک ٹوئین کی کہانی” دعائے جنگ” کا عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے۔مضمون ” دنیا کا پہلا پکارسک ناول” مصنف نے اس ناول کا اور کرداروں کا عمدہ جائزہ لیا ہے۔” التوائے مرگ : ایک اہم ناول کا اہم ترجمہ” اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے ساراماگو کا ناول اور مبشر احمد میر کے ترجمہ شدہ ناول کا بہت اعلیٰ انداز میں ناول کے فکروفن کا  تجزیہ  کیا ہے۔اس حصے کی  خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام مضامین کے آغاز میں مصنفین کا مختصر تعارف پیش کیا ہے جس سے قاری مضمون کا مطالعہ کرنے سے قبل ان تخلیق کاروں کے بارے میں جان کر اپنی معلومات میں اضافہ کرسکتا ہے۔حصہ دوم جس میں  سولہ مضامین شامل ہیں۔افسانہ کے فن اور اردوادب کے اہم افسانہ نگاروں کے افسانوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔جس میں کرشن چندر، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، امرتا پریتم، قرةالعین حیدر، عبداللہ حسین ، طاہرہ اقبال وغیرہ شامل ہیں۔اس حصے کا آخری اور عمدہ مضمون ” نائن الیون اور اردوافسانہ” ہے جس میں ایسے افسانوں کا تذکرہ ملتا ہے جن میں نائن الیون کے اثرات پائے جاتے ہیں۔یہ نہایت عمدہ مضمون ہے۔حصہ سوم جس میں پانچ مضامین شامل ہیں۔جو گوشہ منٹو ہے۔سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو بہت شاندار انداز سے موضوع بنایا گیا ہے۔حصہ چہارم جس میں دس مضامین شامل ہیں۔اس حصے میں شاعری پر مشتمل مضامین ہیں۔ان مضامین میں مرثیہ کا تعین اور اقبال کی اردو مرثیہ نگاری ، پیام مشرق از فیض احمد فیض، حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری، مختار صدیقی کا تصور شعر، راشد کی نظم ” تعارف” : ایک تجزیہ، فیض کی چند بہترین نظمیں : میری نظر میں ، غیار ایام : فیض کے آخری ایام کی شاعری، اخترالایمان کی نظم” مسجد” ، عجیب مافوق سلسلہ تھا: تجزیاتی مطالعہ، نثری نظم : اظہار کا ایک وسیلہ( چند اعتراضات کا تجزیہ) شامل ہیں۔حصہ پنجم جس میں چار مضامین شامل ہیں۔جس میں جدیدیت کی تحریک: مستقبل کے امکانات، ادبی مورخ کے لیے تہذیبی وسماجی شعور کی اہمیت، جامعاتی سطح پر غیر افسانوی نثر کی تدریس : نیا تناظر، وارث کا حالی شامل ہیں۔حصہ چھ جس میں دو مضامین شامل ہیں۔فرائید ، جنگ ، تہذیب اور انسانی جبلت، عصری تاریخ کا قضیہ ۔ان دونوں حصوں میں مضامین کے ذریعے جدیدیت، تہذیب ، تاریخ اور نفسیات اور فرائیڈ کے نظریات  پر روشنی ڈالی ہے۔فرائیڈ کے جنگ ، تہذیب اور نفسیات کے متعلق خیالات کو مصنف نے نہایت موثر انداز میں بیان کیا ہے۔

کتاب کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ فکشن ، شاعری اور عالمی ادب جس پر مصنف کو عبور حاصل ہے۔

ساری کتاب ہی منفرد ہے لیکن بنا کسی تعصبانہ رائے کے پہلا حصہ اور مصنف کا انتخاب اور اس حصے کے تمام مضامین کوعمدہ انداز میں لکھنا قابل داد  ہے ۔کتاب میں پہلے حصے اور آخری دو حصوں کے مضامین جو ہمیں کہیں بھی چیدہ چیدہ پہلو ہی پڑھنے کو ملیں گے لیکن اس کتاب میں بہت سے نئے موضوعات پڑھنے کو ملیں گے جو مصنف نے قاری لے لیےتنقید کے ساتھ معلوماتی مضامین بھی بنادیا ہے۔مصنف کا کہنا کہ یہ مضامین بہت پہلے شائع ہوئے لیکن اب یہ  موضوعات قدیم ہوچکے ہیں۔میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی ۔ان مضامین اور متن میں آج بھی قاری کو تاروتازگی ہی ملے گی۔میں  کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ رائے رکھتی ہوں کہ ایسی کتب ادب میں کم کم ہی ہیں جو تمام تقاضوں پر پوری اُترتی ہیں۔یہ کتاب کے حوالے سے قصیدہ نہیں پڑھا بلکہ قارئین بھی میری اس بات سے اتفاق کریں گے۔اس کتاب سے ان کی علمی متانت عیاں ہوتی ہے۔یہ عہد حاضر کے اہم نقاد ہیں ،انکی کتاب کے تناظر میں اگر کہا جائے کہ یہ گہرے مشاہدے ،وسیع مطالعہ اور تیز نظرکی بنا پر اپنی انفرادیت رکھتے ہیں تو بےجا نہ ہوگا۔یہ کتاب ادب کے قاری کے لیے بہت کارآمد ہے۔کتاب کی اہمیت کا اندازہ حمید شاہد اور ڈاکٹر روش ندیم جیسی ادبی شخصیات کی آراء سے بھی ہوتا ہے۔

بقول حمید شاہد:

” تنقید کی عمدہ کتاب کی یہ ہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کچھ نیا سجھاتی ہے، قاری کی بصیرت کو معنی اورایک رُخ دیتی ہے، کہیں کہیں ٹہو کے لگاتی ہے اوربے سُدھ پڑے شعور کو بیدار کرتی ہے۔یہ خوبیاں اس کتاب میں ہیں۔”

ڈاکٹر روش ندیم کی رائے ملاحظہ کیجیے۔

” یہ مضامین ادبی دنیا میں ان کے شخصی وقار کے ساتھ ساتھ اردوتنقید میں اضافے کا باعث بنیں گے۔”

Leave a Reply