عامرنظیر ڈار ، کشمیر
محمدالیاس ؔکرگلی کے شعری مجموعے ’’برگ گل ‘‘
کی نظموں کا موضوعاتی مطالعہ
محمدالیاسؔ کرگلی خطہ لداخ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان شاعر ہیں۔لداخ جوکہ دوسال قبل تک ریاست جموں وکشمیر کا ایک خطہ ہوا کرتا تھا لیکن مرکزی سرکار نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو اچانک اس خطے کو اپنی مرضی سے ریاست سے ہٹاکرالگ Unioun Territory کا درجہ دیا ،اور خود جموں وکشمیرکو بھی ریاست سے Unioun Territory میں بدل دیا۔اس وجہ سے مرکزی حکومت نے ۱۹۴۷ء کی طرح پھر سے ایک نیا بٹوارہ عمل میں لایا جس نے نہ صرف انہوں نے ایک ریاست کے دو حصے کئے بلکہ لوگوں کی سوچ ،فکر اور تہذیب کو بھی دو الگ الگ زمروں میں بانٹ دیا۔ حالانکہ ریاست کے لوگوں پر اس بٹوراے سے کوئی اثر نہیں ہو ا ،ہم پہلے بھی ایک تھے اور مستقبل میں بھی ایک رہیں گے۔ اسی لیے میں الیاسؔ کرگلی کو ریاست جموں وکشمیرکے قابل ،ذہین اسکالر وں اور شاعر وں کے زمرے میں لاتا ہوں۔ ان کا پورا نام محمد الیاس ہے اور قلمی نام محمد الیاس ؔکرگلی ہے ۔ وہ اس وقت ہندوستان کی ایک عظیم یونی ورسٹی میںاردو کے اسکالر ہیںاور ’’لداخ میں اردو زبان وادب ‘‘کے موضوع پر تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں۔
الیاس ؔکرگلی کا شمار اس وقت کے فعال اردو اسکالرز میں ہوتا ہے کیونکہ موجودہ دور میں ایسے اسکالرز کی تعداد بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے جو تحقیقی کام کے دوران بھی اپنے تخلیقی کام میں اُتنے ہی مصروف نظر آتے ہوں ۔ان کے مضامین بھی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔اسی لیے ان کے حوالے سے ایسا کہا جاسکتا ہے کہ وہ موجودہ دور کے نوجوان اردو اسکالروں سے بالکل مختلف ہیں۔ان میں پڑھنے کا اتنا مادہ ہے کہ وہ ہر وقت نئی نئی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں ۔کتاب چاہے کتنی بھی ضخیم کیوں نہ ہو لیکن ارادہ کر کے مکمل پڑ ھ کے ہی دم لیتے ہیں۔ان میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ چیزوں کو بہت باریکی سے دیکھتے ہیں اور ان پر غوروفکر کرتے ہیں ،شاید اسی عادت نے انہیں ایک شاعر ہونے کاشرف عطا کیا ہے ۔’’برگ گل‘‘ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جو ۲۰۲۰ ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس سے شائع ہوا ہے ۔جس میں ان کی ۷۰ غزلیں اور ۲۴نظمیں شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی ایک تحقیقی و تنقیدی کتاب ’’لداخ میں اردو شاعری کی تنقیدی تاریخ ‘‘ بھی شائع ہوچکی ہے اور ایک تحقیقی و تنقیدی کتاب زیر طبع ہے ۔
میرے اس مختصر مقالے میں محمد الیاسؔ کرگلی کی غزلیہ شاعری کے بجائے صرف ان کی نظمیہ شاعری کے موضوعات پر ہی اکتفا کیا جائے گا لیکن اس سے قبل کہ میں اپنے بنیادی موضوع پر بات کرناشروع کروں ۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ شاعر نے اپنی شاعری کی ابتدا کس چیز سے متاثر ہوکر کی ہے اور کس ماحول میں رہ کر کی ہے ۔اس حوالے سے مجموعہ ’’برگ گل ‘‘ میں موجود اس بات کو یہاں درج کررہا ہوں جو خود شاعر نے اپنے مجموعے میں ’’اپنی بات ‘‘میں لکھی ہے ۔اقتباس ملاحظہ ہو :
’’شاعری کی ابتدا کچھ یوں ہوئی کہ کرگل کلچرل اکادمی کی طرف سے اکثر مشاعرے منعقد ہوتے رہتے تھے۔بچپن سے ان مشاعروں کو آل انڈیاریڈیو کرگل پر سنتا آیا ہوں ۔ان مشاعروں میں شعراء اکثر لداخ کی مقامی زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔بچپن سے ان مشاعروں کو سنتے سنتے مجھ میں غیر شعوری طور پر شاعری کاایک ذوق پیدا ہوگیا ۔میں نے پہلی غزل غالباً۲۰۰۶ء میں ۱۵ سال کی عمر میں کہی تھی۔‘‘
’’اپنی بات،مجموعہ برگ گل ،ص ۹‘‘
مجموعے ’’برگ گل ‘‘ میں کئی نظمیں ایسی ہیں جن کاموضوع سرزمین دہلی ہے ۔یہ وہ دہلی ہے جہاں کبھی میرؔ،سودا،دردؔ،غالب ؔ،مومنؔ اور ذوقؔ رہا کرتے تھے جہاں ساغر نظامیؔ اور گلزار دہلویؔ جیسے شاعر گزرے ہیں ۔ان کی سرزمین میں جب کوئی عام انسان بھی داخل ہوتا ہے تو اس کا مزاج بھی شاعرانہ ہو جاتا ہے اور اگر ایک شاعرانہ ذہن اور فکر رکھنے والا انسان اوروہ بھی اس وقت جب وہ جوانی کے اُبال پر ہو تو کیسے یہ سرزمین اس کو متاثر کئے بغیر رہ سکتی تھی۔ بالکل یہی محمد الیاس ؔکرگلی کے ساتھ ہوا ہے ،تین چار سالوں سے وہ تقریباً لگاتار دہلی میں مقیم ہیں۔ اس سے پہلے بھی جب ان کا حیدر آباد جانا ہوتا تھا تو اس دوران بھی ان کو دہلی کی چند مخصوص گلیوں سے گزرنا پڑتا تھا اور یہیں سے دہلی کا سرد گرم موسم ان کے مزاج میں رچ بس گیا ۔دہلی میں قیام کرنے کے بعد یہاں کی آب وہوا نے ان کی زندگی پر جو اثر ڈالا اس کابر ملا اظہارشاعر نے اپنی شاعر ی کے ذریعے کیا ہے ۔اس سے یہ صاف واضح ہوتاہے کہ شاعر کو دہلی کی آب وہوا نہ صرف راس آئی بلکہ انہوں نے اس کو اپنی زندگی کاایک حصہ بنایا ہے جس سے وہ کبھی مفر نہیں ہوسکتے ہیں۔ان کے مجموعے میں ’’دہلی ‘‘کے عنوان سے بارہ مصروں پر مشتمل ایک بہترین نظم ہے جس میں انہوں نے شہر دہلی کی تاریخ،اس کے ماضی اور حال کو موضوع بنایا ہے ۔جیسا کہ پہلے بھی مقالے میں لکھا جاچکا ہے کہ شاعر اس کم عمری میں بھی غورفکر کرنے کے عادی ہیں ،اور جس کا ثبوت اس نظم میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔نظم ملاحظہ ہو:
ترے بدلے ہوئے حالات کو میں دیکھ جائوں گا
کہ تو ہے شہر دل والوں کا تیرا دل چرائوں گا
مغل ہو یا خلیجی ہو،تغلق یا کہ لودی ہو
مگر انگریز ونادر نے تری عظمت جو لوٹی ہو
وہ یمنا کا کنارہ دل لبھاتا شہر ہے تیرا
کوئی ثانی نہیں جگ میں نشاں ہی مہر ہے تیرا
قطب مینار ولال قلعہ ،پرانی خستہ دیواریں
گواہی دے رہی ہیں شان کی یہ رفتہ دیواریں
ہے پہنچا جرم کے میدان میں اول نئی دلی
ہے چھایا شہر پر اب غم کا اک بادل نئی دلی
قلم روک لو الیاس اپنے تم یہ دلی ہے
یہ ایسا شہر ہے جس کی تاریخ بدلی ہے
اس نظم کی شروعات سے لے کر آخر تک شاعر شہردہلی کے بدلے ہوئے حالات ،مغل بادشاہوں اور انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ، دہلی کی خوبصورتی او دہلی کے تاریخی مقامات سے شہر دہلی کی شان میں جو اضافہ ہوا ہے اس کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح شاعر نے نظم ’دہلی‘میں موجودہ وقت میں دہلی کی حالت زار کی طرف بھی اشارہ کیاہے ۔اس نظم میںسرزمین دہلی کے کئی گوشوں پر بات کی گئی ہے ۔
نظم’’ رات اور برسات‘‘اگر چہ عشقیہ موضوع پر مبنی نظم ہے لیکن اس کا مرکزی موضوع شہر دہلی ہے اسی لئے نظم کے کئی شعروں میں بھی شاعر نے سرزمین دہلی کے سردوگرم موسموںکا ذکر کیا ہے ۔نظم کے چند اشعار کو دیکھئے:
یہ راتیں بارشیں مجھ کو دلاتی یاد ہے کوئی
یہ کیفیت ہے کیسی پر خدا جانے عجب کوئی
خنک تھی آگ میںدلی میںگرمی کے مہینے میں
چگی امید مجھ دیوانہ ٔبرفاب دل میں
یہاں شدت تھی سردی میں،یہاں گرمی نہیں کم ہے
مرا کیا ہے مگر پھرتا ہوں ہر موسم میں کیا غم ہے
ان اشعار کا مطالعہ کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعردہلی میں رہ کربھی اپنے وطن کی یاد دل میں لیے بیٹھا ہے، اسی لئے برسات کے حسین موسم میں بھی ان کو اپنے وطن کی یاد ستاتی ہے اور وہ اپنے وطن کی دوری کو برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے وہ اس کیفیت سے خود بھی واقف نہیں تھا ۔ اسی طرح نظم کے دوسرے شعر میں دہلی کی گرمی کی شدت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے ذریعے سے ایک ٹھنڈے علاقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان پر کیا کچھ گزرتا ہے اس کا اظہار کیا گیا ہے ۔چوتھے شعر میںگرمی کی شدت کو دیکھ کر شاعر کو اپنے وطن کی یاد آتی ہے جہاں ہمیشہ سرد موسم رہتا ہے وہاں سے سردی کبھی جانے کا نام ہی نہیں لیتی ، لیکن یہاں شاعر خود کوجھوٹی تسلی دیتا ہے کہ میں تو پہلے ہی اپنے وطن سے دور ہوں، اب چاہے موسم کیسا بھی کیوں نہ ہو، میںآزاد ہوں،مجھے کوئی غم نہیں میں خوش ہوں کیونکہ میں نے ہر ایک موسم میں جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے ۔
’’دہلی یونی ورسٹی ۔ایک فسانہ ‘‘یہ بھی دہلی کے موضوع پر مبنی نظم ہے ۔اس نظم کی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ اس میںایک مخصوص ہئیت کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے بلکہ یہ شاعر کے لئے اس منظر اور واقعے کو یاد رکھنے کا ایک خوبصورت آلہ ہے ۔ شاعر نے اس نظم میں ان تمام جذبات واحساسات کو قلم بند کیا ہے جب وہ عالمی شہرت یافتہ یونی ورسٹی جس کو لوگ دہلی یونی ورسٹی کے نام سے جانتے ہیں میں پہلی باربطور شاگرد داخل ہوئے اور یہاں پہنچ کر ان کی آنکھوں نے جو مناظر دیکھے ہیں ان کا شاعر کے دل ودماغ پر جواثرات مرتب ہوئے اس کااظہار بھی اس نظم میں بخوبی کیا گیا ہے۔اس بات کی وضاحت نظم کے ان ابتدائی اشعار سے بہ خوبی ہوتی ہے۔اشعار ملاحظہ کیجئے:
اک نئے شہر میں جب میں نے قدم رکھا تھا
وہ دسمبر کا سرد اور خنک مہینہ تھا
ہم چلے آئے بہت دور سے ان سے ملنے
اک نئے گلشن و فضا میں کبھی پھر کھلنے
ہر علاقے کا اک اپنا ہی سماں ہوتا ہے
ہر نئی چیز کو پانے میں زماں کھوتا ہے
خیر ہم چل دیے شعبہ کی طرف سب مل کے
چہرہ ہر فرد کے روشن جو ہوئے سب کھل کے
مری نظروں کی خطا کیا تھی مجھے کیا معلوم
اک انجان سا چہرہ کی تلاش نا معلوم
وہ چلے آئے تھے شعبہ میں کبھی گل کی طرح
جیسے گلشن میں چہکتے ہوئے بلبل کی طرح
مندرجہ بالا نظم کے بعد شاعر نے ’’شعرائے اردو‘‘نظم میں بھی شہر دہلی کے باکمال شاعر بلبل ہندمرزا اسداللہ خاںغالب ؔ کی حالت زار کو موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ دہلی سے اودھ جانے والے شعرا کی وجہ بھی بتاتے ہیں، مثال کے لئے نظم کے یہ دو اشعار دیکھئے :
کبھی پوچھا یگانہؔ سے چچا غالب کے بارے میں
ہوا رسوا وہ شاعر عمر بھر گھوما خسارے میں
وہ شعرا چھوڑ کر دلّی اودھ کو بھاگ جاتے تھے
وہاں باقی تھی گردش بادشاہوں کے ستارے میں
اسی نظم میں شاعر نے دلّی جیسے شہر میں اردو زبان کی صورت حال پر بھی دو مصرعے لکھے ہیں، جن میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اہل دہلی نے اردوکو کسی زمانے میں اپنے خون سے سینچا ہے، اس زبان کو بام عروج تک لے جانے میں شہر دہلی سے تعلق رکھنے والے ادیبوں ،قلم کاروں اور دانشوروں کا بہت اہم حصہ رہا ہے البتہ موجودہ دور میں اسی تاریخی شہر میں اردو زبان کی کیا صورت حال ہے وہ یہاں کے اردواداروں کو دیکھ کر اچھے سے عیاں ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں نظم کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
وہ اردو خون سے سینچی تھی جس کو اہل دلّی نے
مگر ظالم زمانہ حال دیکھو ہر ادراے میں
مجموعے ’برگ گل‘میں چار نظمیں سید الشھدا، غدیر،بہتّرتھے حسین ؓ اور سیدہ ؓ کے عنوانات پر مبنی ہیں ۔ان تمام نظموں کا موضوع اسلامی ہے اور یہ واقعہ کربلا ،حضرت اما م حسین ؓ،شہدائے کربلااور حضرت فاطمہ زہرا ؓ کی مبارک زندگی سے متعلق ہیں۔’سیدالشھدا‘نظم میں شاعر نے حضرت امام حسینؓ کی شان ،عظمت ،طاقت ،جذبہ اسلام اور کربلا میں شہید ہوئے حضرت علی اکبر ؓ،حضرت عباسؓ ،حضرت قاسم ؓکے جذبہ شہادت اور ان کا حضرت امام حسین کے تئیں محبت اور فرمان برداری کو بہت ہی خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے ۔اس نظم کا مطالعہ کرکے قاری کے دل میں دین اسلام پر اپنی جان نچاور کرنے کا جذبہ ابھر آتا ہے۔ غدیر کو شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ عید کے طور پر مناتے ہیں۔کیونکہ اس دن حضرت محمدﷺ نے حضرت علی ؓ جو رشتے میں ان کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے کو اپنا جانشین قرار دیا ہے ۔ اسی لئے شاعر نے بھی نظم ’ ’غدیر ‘‘ میں خوشی اور مسر ت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت علیؓ کی شان اور ان کے رتبے کو موضوع بحث بنایا ہے ۔یہ ایک طویل نظم ہے جس کے ایک ایک شعر کو شاعر نے بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ لکھا ہے۔اسی طرح شاعر نے نظم ’’بہتر تھے حسینؓ ‘‘میں کربلا میں شہید ہوئے بہتّر شہیدوں کو ساقی کوثر،دلارے ،قلندر ، دلاور اور فاتح ِ خیبر کے خوبصورت اور نفیس القاب سے یاد کیا اور ساتھ ہی ان کی خوبیوں اور خاصیتوں کو بھی نظم میں سراہا گیا ہے۔ اس حوالے سے نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائے:
وہ ابن علی ؑ ساقی کوثر تھے حسین
زہرا ؑ کے دلارے وہ قلندر تھے حسین ؑ
کیا مرتبہ پایا ہے شھیدان نے دیکھو
وہ زندہ و جاوید بہتر تھے حسینؑ
محکوم فضا راس نہ آئی اسے یکسر
لاکھوں میں وہ اک شخص دلاور تھے حسین ؑ
مرکر بھی زندہ محمدؐ کے نواسے
اولاد علی ؑ فاتحِ خیبر تھے حسین ؑ
پائی ہے شھادت بھی عاشور ظہر کو
ہاں کم تھے خدا دار جو لشکر تھے حسین ؑ
’’سیدہ ؓ ‘‘حضرت محمدﷺ کی لخت جگر حضرت علی ؓ کی شریک حیات اورحضرت امام حسین ؓکی شفیق مادر ، خواتین کی سردار حضرت فاطمہ زہراؓ کی شان میں لکھی گئی نظم ہے ۔اس نظم میں شاعر نے حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے مقام و مرتبہ کو فخریہ انداز سے قارین کے سامنے بیان کیا ہے اور ساتھ ہی نظم کے ایک شعر میں شاعر نے ایک نیک اور بہترین امتی ہونے کے ناطے خدا کی اس عظیم تخلیق اور پوری امت مسلمہ کی ماں کے آستانِ عالیہ کی زیارت کرنے کی خواہش کو بھی ظاہر کیا ہے۔ یہ نظم شاعر کا عمدہ اوربہترین فن پارہ ہے، کیونکہ اس نظم کو شاعر نے بہت ہی ربط وضبط اور سلیقے کے ساتھ تحریر میں لایا۔
شہر حیدر آبادکی اردو زبان وادب کے سلسلے میں اپنی ایک اہمیت وافادیت ہے ۔ اردو ادب کی تقریباً ہر ایک صنف کو یہاں بام ِعروج حاصل ہوا ہے۔اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کا شرف بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم شاعر قلی قطب شاہ کو حاصل ہے ۔برصغیر میں اردونثرکے اولین نمونے بھی اسی شہر سے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ابتدائی زمانے سے لے کرموجودہ وقت تک اس سرزمین نے اردوادب کو کئی معتبر ادبا ،شعراء ، نثر نگار ، نقاد ومحقق اور دانشور دیے ہیں ۔جنہوں نے اردو ادب کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔آج بھی نئے لکھنے والے ان کی تحریروں سے متاثر ہوتے ہیں۔الغرض اردو ادب کو فروغ دینے اور اسے بام عرج تک لے جانے میں اس سرزمین نے ایک اہم کردار اداکیا ہے۔
اردو زبان کو فروغ دینے کے علاوہ یہ شہر کئی اور حیثیتوں سے بھی معروف ہے اور اس کی اپنی ایک پہچان بھی ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اس شہر کے لوگوں کی نیک نیتی ،خلوص ،اصول وضوابط،سچائی اورایمانداری کے قائل ہیںاور یہ شہر طرح طرح کے پکوانوںکے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ خاص کر یہاں کی حلیم اوربریانی کے لوگ بہت زیادہ شیدائی ہیں۔ یہ شہر بظاہر جتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے اصل میں یہ اپنی ریت اور روایت کے لحاظ سے اس سے بھی زیادہ دلکش اور دلنشین ہے۔
خوبصورت مناظر اور تاریخی مقامات کے علاوہ یہاں کئی پرانی جامعات بھی ہیں جن کا تعلیم کے میدان میں اپنا ایک مقام ہے ۔ان جامعات میں نہ صرف شہر حیدر آباد کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ ہندوستان کے کونے کونے سے طالب علم یہاں تعلیم کے سلسلے میں آتے ہیں اور بھرپور فیض اُٹھاتے ہیں ۔محمد الیاس ؔکرگلی نے اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر حیدر آباد کی’’ سینٹرل یونی ورسٹی آف حیدرآباد‘‘میں داخلہ لیا تھا ۔وہ چوں کہ ذہین اور غوروفکر کرنے والے اسکالر ہیں۔ لہذا وہ یہاں کی تمام یادوں کو اپنے ذہن میں محفوظ کر نے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔جس کا اثر ان کی نظموں میںصاف طور پرواضح ہوتا ہے ۔مجموعے ’برگ گل ‘میںشہر حیدرآباد کے موضوع پر دو نظمیںاور ہیں ۔جن میںایک نظم ’’حیدرآباد‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں شاعر نے حیدر آباد( دکن )کے بادشاہوں ، تہذیب وتمدن ،شاہی مقبروں،تاریخی عمارات اور حیدرآباد کے اشیائے خوردونوش پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔اس سلسلے سے نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
قطب شاہوں کے سر ہونا تری بنیاد کا سہرا
ہے باعث رشک کا کیوں ہو نہ دشمن تجھ پہ اب ناشاد
وہ شاہی مقبرے ہو ،گولکنڈہ یا ہو چار مینار
جنھیں ہم دیکھ کے ہوجاتے ہیں دل شاد و دل آباد
حلیم و چائے وبریانی ،لزیز پکوانِ ایرانی
نہیں جگ میں کوئی ثانی ،دیا ہے سب نے تجھ کو داد
اس نظم میں ایک اورشعر اردوادب کے فروغ کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس سے یہ بات صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اردو کو عروج حیدر آباد میں ملا ہے اور یہیں سے اس کی روشن کرنیں ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں پھیلنے لگی ہیں۔شعر ملاحظہ فرمائے:
دیے اردو ادب کو تم نے ایک مخصوص پیمانہ
لیا اس کو ولی ؔنے شہر دلی تا احمد آباد
نظم ’’خواب نگر ۔حیدر آباد یونی ورسٹی ‘‘ میں شاعرنے قارئین کو حیدرآباد یونی ورسٹی جیسے خوبصورت اور بے مثال ادارے کی سیر کرائی۔یہ وہ ادارہ ہے جس سے شاعر خود منسلک رہے ہیں ۔وہاں پر قیام کرکے شاعر کواس سرزمین سے اتنی والہانہ محبت ہوگئی تھی جس کے باعث وہ اس ادارے سے دور ہونا نہیں چاہتے تھے ،شاعر کی ان باتوں کا علم اس نظم کے چند اشعار میں دیکھنے کو ملتا ہے ،اس ضمن میں لکھئے گئے نظم کے ان اشعار کو دیکھئے:
اے جانِ جگر خواب نگر چھوڑ کے تجھ کو
آساں نہیں جانا ہے سفر چھوڑ کے تجھ کو
تجھ سا نہیں دلکش زمانے میں ہے کوئی
دل غمزدہ اور آنکھ ہے تر چھوڑ کے تجھ کو
سرزمین لداخ کے موضوع پر بھی الیاسؔ کرگلی کے شعری مجموعے میں چارنظمیں موجود ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے جو شاعرکا آبائی وطن ہے۔ وہ اس علاقے کے گوشے گوشے پر نظمیں تحریر کرسکتے ہیں کیونکہ وہ اس کے ہر رنگ سے واقف ہیں۔شاعر کو اپنے علاقے کے ذرے ذرے سے محبت ہے ۔راقم کو بھی اس علاقے سے دلی محبت ہے۔یہ پہلے ہماری ریاست کا ایک خطہ ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کی اپنی ایک الگ پہچان ہے۔یہاں ہندو مسلم اور بودھ تینوں مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ۔لیکن اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔شاعر کا تعلق جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے ضلع کرگل سے ہے۔اسی لئے ’’برگ گل ‘‘ میں تین نظمیں کرگل کے علاقے پر ہی محیط ہیں ،ایک نظم لداخ کی سرزمین سے متعلق ہے۔’’فرقہ واریت اور لداخ ‘‘ نظم میں شاعر لداخیوں کی آپسی محبت ،بھائی چارگی ،نفرتوں کو مٹانے اور امن واماں کا پیغام عام کرنے کی کوشش کی ہے۔’’کرگلی ‘‘نظم میں شاعر نے کرگل کے عوام کی خوبیوں اور ان کے کردار کی عکاسی کی ہے اورساتھ ہی وہاں کے لوگوں کے جذبات ،خوداری،عزم ،بہادری،جرأت اور پیار ومحبت کو مختلف شعروں میں بیان کیا ہے جس سے کرگلی عوام کاایک بھرپور عکس قاری کے آنکھوں کے سامنے کھل کر آجاتا ہے۔اس حوالے سے نظم کے چند اشعار پیش کرتا ہوں:
دشمن کبھی اور دوست نباتے ہیں کرگلی
ہر حال میں اک رول نبھاتے ہیں کرگلی
اپنے وطن کے کو بہ کو اور گام گام سے
ہر روز کوئی شور مچاتے ہیں کرگلی
مظلوم و بے کسوں کے ہی واسطے بلند
آواز ہر جگہ سے اٹھاتے ہیں کرگلی
کشمیر ہو، یمن ہو، فلسطین ہو یا شام
مظلومیت پہ اشک بہاتے ہیں کرگلی
’’داستان کرگل‘‘اور ’’انتخاب کرگل‘‘بھی بہت اہم نظمیں ہیں ۔ان نظموں میں سے ایک نظم شاعر نے ارض کرگل کی شان میں لکھی ،جس میں انہوں نے کرگل کی تہذیب وتمدن اور اس کی تاریخی حیثیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اور بھی دیگر خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔اسی طرح دوسری نظم میں شاعرنے اپنی ان شکایتوں اور ان کاکیے جانے والے استحصال کا بھی ذکر کیا ہے جواس علاقے کے ساتھ وہاں کے حکمران اور عہددار طبقہ کررہا ہے۔یہ دو نظمیں علاقہ کرگل کی خوبیوں ،خصوصیتوں اور وہاں پر مقیم لوگوں کی پریشانیوں کی گواہی دے رہی ہیں۔
محمد الیاسؔ کرگلی کے شعری مجموعے میں’’ شعرائے اردو‘ ‘کے عنوان سے بھی ایک بہترین نظم ہے جس میں شاعر نے اردو کے نامورشاعر یگانہؔ،غالب ؔ،اقبال ؔ،ناسخؔ اورمیرؔ کی سخن وری اوراستاذی کا ذکر کیاہے۔ ساتھ ہی اردو کے حال اور مستقبل کے سلسلے سے بھی بات کی ہے ۔یہ نظم ان قدآور شاعروں کی شان اور عظمت میں لکھی گئی ایک اہم شعری کارنامہ ہے۔’’ظلمت ِشب‘‘مجموعے میں سب سے طویل اور چھوٹی بحر میں لکھی گئی نظم ہے ۔اس نظم کا عنوان اگر چہ ظاہری ظلم وجبر کی طرف اشارہ کرتا ہے البتہ نظم میں اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں کی گئی ہے بلکہ اس میں شاعر کسی محبوبہ کے گم ہو جانے اور ان سے وصل کی خواہش میں بے چین اور تڑپتا نظر آتا ہے۔ کہنا چاہئے کہ یہ ایک عشقیہ نظم ہے۔’’سیرکیرلا‘ کے موضوع پر بھی شاعر نے ایک دلفریب اور دل کو لوبھانے والی نظم لکھی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے سیرکیرلاکے وقت کے دیکھے ہوئے خوبصورت مناظر اور وہاں کی یادوں کو شعری پیرائے میں باندھ کر اپنی یاداشتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قید کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں مجموعے میں وحدت ،بچپن،رمز شاعری،ٹیچرز ڈے وغیرہ عنوانات پر عمدہ نظمیں موجود ہیں ۔
’’برگ گل‘‘میں شامل نظموں کا گوشہ مختلف موضوعات پر مبنی مجموعہ ہے ۔اس مجموعے کی تقریباً ساری نظمیں عمدہ اور پر اثر ہیں، موضوعات اورالفاظوں کے اعتبار سے بہترین اور قابل داد بھی ہیں۔شاعر نے ان ہی موضوعات پر نظمیں تخلیق کی ہیں جن کا ان کی زندگی سے قریبی تعلق رہا ہے۔ اگر چہ ان موضوعات کو شاعر نے نظمی پیرائے میں بیان کیا ہے لیکن ، اگر ان کو غزلِ مسلسل کے دائرے میں رکھا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا ۔
محمد الیاس ؔکرگلی کی مجموعے میں موجود نظموں کو محنت اور سنجیدگی کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا ہے ۔ البتہ ان کی تقریباًساری نظمیں ایک ہی ہئیت میں لکھی گئی ہیں جس کی وجہ سے خوبصورت اور مختلف رنگوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود بھی قاری کوتھوڑی کوفت سی محسوس ہوتی ہے ،لیکن یہ اپنی ہئیت میں کامیاب اور منفرد نظمیں ہیں۔ ادب میں ان کی اپنی ایک اہمیت ہے۔جس سے میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو انکار نہیں ہوگا۔
٭٭٭٭