You are currently viewing مراثیِ دبیر میں لب و لہجہ کی وسعت

مراثیِ دبیر میں لب و لہجہ کی وسعت

سید شاہ زمان شمسی

مراثیِ دبیر میں لب و لہجہ کی وسعت

لب و لہجہ سے مراد وہ انداز اور اسلوب ہے جس میں الفاظ ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ اندازِ گفتگو، الفاظ کی ترتیب، آواز کی نرمی یا سختی اور جذبات کی عکاسی پر مشتمل ہوتا ہے۔ لب و لہجہ محض زبان بولنے کا طریقہ نہیں بلکہ بولنے والے کے جذبات، خیالات اور شخصیت کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔

لب و لہجہ کسی بھی زبان کی خوبصورتی، اظہار کی گہرائی اور مخاطب تک پیغام پہنچانے کے مؤثر ترین ذرائع میں سے ایک ہے۔ اردو زبان، جو اپنی لطافت، نرمی اور شائستگی کے لئے مشہور ہے، میں لب و لہجے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ نہ صرف بات چیت کا ذریعہ ہے بلکہ دلوں کو جوڑنے کا فن بھی ہے۔

اردو زبان کا لب و لہجہ اپنی نرم گوئی شائستگی اور جذباتی اظہار کے لئے جانا جاتا ہے۔ یہ زبان محبت احترام اور مروت کے ایسے اصولوں پر مبنی ہے جو سامع کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔ اردو کا لب و لہجہ نہ صرف الفاظ بلکہ ان کے پیچھے چھپے جذبات کو بیان کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

اردو زبان کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں روزمرہ کی گفتگو بھی شاعرانہ انداز میں ہوتی ہے۔ محاورے، تشبیہات اور استعاروں کا استعمال لب و لہجے کو مزید خوبصورت بنا دیتا ہے۔ مثلاً، “آپ کا دل باغ باغ ہو جائے” یا گفتگو میں شیرینی گھول دی۔ لب و لہجے کا درست استعمال تنازعات کو کم کرنے اور مسائل کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نرم لہجہ نہ صرف غصے کو کم کرتا ہے بلکہ معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا۔ کسی زبان کے اظہار اور ابلاغ دونوں ہی میں لب و لہجے کا بہت بڑا عمل دخل ہے اور شاید آپ یہ سن کر حیران ہوں کہ زبان نے لب و لہجہ کو جنم نہیں دیا بلکہ لب و لہجہ نے زبان کو جنم دیا ہے۔

لب و لہجہ دراصل انسانی آوازوں، آواز کی مختلف لہروں، اور ان کی ترتیب کا نام ہے۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جن سے الفاظ تخلیق ہوئے۔ جب انسان نے اپنے جذبات اور خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی، تو اس نے ابتدا میں اپنی آوازوں اور اشاروں کو استعمال کیا۔ آہستہ آہستہ یہ آوازیں ایک خاص ترتیب میں آنے لگیں، اور الفاظ نے جنم لیا۔

لہجے کا بھی اس عمل میں اہم کردار ہے، کیونکہ ایک ہی آواز یا لفظ مختلف لہجوں میں مختلف معانی پیدا کر سکتا ہے۔ لہجے کی گہرائی اور اس کی اثر انگیزی نے زبان کو خوبصورت رنگ دیے اور اسے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لب و لہجہ نے زبان کو نہ صرف جنم دیا بلکہ اسے ایک شناخت بھی دی۔ مختلف خطوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کے لب و لہجے نے دنیا بھر میں مختلف زبانوں کو پروان چڑھایا۔ ایک زبان کا حُسن اس کے لب و لہجے کی متنوع رنگینی میں چھپا ہوتا ہے، جو ایک سماج کی تاریخ، روایات، اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ زبان انسان کی خالص ترین تخلیق ہے، جس کی بنیاد لب و لہجہ کی قدرتی موسیقی پر رکھی گئی۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک پورا تجربہ ہے جو انسان کی ذات، روح اور سماجی ربط کا آئینہ دار ہے۔

لب و لہجہ، دراصل انسانی وجود کا پہلا تخلیقی اظہار ہے۔ یہ صرف آواز کی ترتیب نہیں بلکہ جذبات، تجربات، اور انسانی احساسات کی گونج ہے۔ زبان کی پیدائش محض الفاظ سے نہیں ہوئی بلکہ یہ انسان کے لب و لہجے کے ان خام جذبات سے شروع ہوئی جو کسی گہرے احساس کے زیرِ اثر پیدا ہوئے۔

تصور کیجیے کہ ابتدائی انسان، جو الفاظ سے محروم تھا، اس نے اپنی خوشی، خوف، غصے، اور محبت کے اظہار کے لیے اپنی آواز کو استعمال کیا۔ ایک درد بھری چیخ، خوشی بھرا قہقہہ، یا خوف سے کانپتی ہوئی آواز—یہ سب انسان کے لب و لہجے کی ابتدائی شکلیں تھیں۔ ان آوازوں نے دھیرے دھیرے ایک معنویت اختیار کی اور وقت کے ساتھ زبان کی بنیاد رکھی۔

لب و لہجہ وہ بنیاد ہے جو زبان کو ایک جامد ڈھانچے کے بجائے ایک زندہ وجود بناتا ہے۔ ایک ہی لفظ، مختلف لب و لہجوں میں مختلف معانی اور جذبات پیش کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، محبت کے اظہار کا ایک انداز خوشی بھرا ہو سکتا ہے، اور وہی محبت غم کے لمحے میں درد کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

اگر ہم زبان کی تاریخ کو دیکھیں، تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر زبان ایک مخصوص تہذیب اور خطے کے لب و لہجے کا عکس ہے۔ عربی کی گونج دار آوازیں، فارسی کی نرمی، اور اردو کی شیرینی یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ لب و لہجے نے زبانوں کو جنم دیا اور انہیں ایک منفرد شناخت دی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ زبان کی اصل روح اس کے الفاظ میں نہیں بلکہ لب و لہجے کی موسیقی میں چھپی ہے۔ زبان الفاظ سے زیادہ ایک احساس ہے جو لب و لہجے کے ذریعے دلوں سے جڑتا ہے۔ اس لیے لب و لہجہ زبان کا خالق ہے اور زبان اس تخلیق کا وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنی روح کو دیکھ سکتا ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر بڑے اہل قلم زبان کو ارتقا اور وسعت و رفعت اور گہرائی بخشنے کے لیے الفاظ کی نسبت لب و لہجہ سے زیادہ کام لیتے ہیں اس ضمن میں مرزا دبیر کسی بڑے اہل قلم سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اپنے ہم عصر میر انیس سے پیچھے بھی نہیں رہے یعنی میر انیس کے ہم پلّہ ہی رہے ہیں۔ مرزا دبیر کے ایک  معروف مرثیے کا ایک مکمل بند ملاحظہ فرما لیجیے

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

رن ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے

رستم کا بدن زیرِ کفن کانپ رہا ہے

ہر قصرِ سلاطین زمن کانپ رہا ہے

شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو

جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر

مرزا دبیر کا یہ بند اردو مرثیہ نگاری کی اعلیٰ مثال ہے، جہاں لب و لہجے کی وسعت اور بیان کی گہرائی قاری کو اپنی طرف محو کر دیتی ہے۔ اس بند میں جوش، ولولہ، اور تخیل کی بلندی کا امتزاج نظر آتا ہے جو دبیر کی شعری عظمت اور ان کے طرزِ بیان کی بے مثال خوبیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اس بند میں “رن کانپ رہا ہے” “چرخِ کہن کانپ رہا ہے” جیسے الفاظ کا استعمال منظر کو ڈرامائی اور خوفناک بناتا ہے۔ الفاظ کی یہ گونج قاری کے دل پر گہرا اثر ڈالتی ہے جیسے وہ میدانِ کربلا کی لرزتی ہوئی فضا میں موجود ہو۔ دبیر کے لب و لہجے کی وسعت کا ایک بڑا پہلو تشبیہوں اور استعاروں کا غیرمعمولی استعمال ہے۔ “رستم کا بدن زیرِ کفن کانپ رہا ہے” اور “جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر” جیسے فقرے نہ صرف تاریخی اور مذہبی پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ تخیل کی بلندی کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

یہ مصرعہ تاریخی کرداروں کے ذریعے امام حسینؑ کی عظمت اور طاقت کی تصویر کشی کرتا ہے۔ رستم، جو فارسی ادب میں بہادری کی علامت ہے، یہاں ان کی بہادری بھی امام حسینؑ کے مقابلے میں بے بس نظر آتی ہے۔ دبیر نے یہاں تخیل کو تاریخ سے جوڑ کر ایک نئی معنویت پیدا کی ہے۔

“شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو”

یہ مصرعہ دبیر کے لب و لہجے کی شکوہ مندی کو واضح کرتا ہے۔ “حیدر کے پسر” کے الفاظ نہ صرف شجاعت کی علامت ہیں بلکہ اس میں ایک روحانی روشنی بھی جھلکتی ہے جو قاری کے دل کو متاثر کرتی ہے۔

“جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر”

یہاں دبیر نے لب و لہجے کی وسعت کو مابعد الطبیعیاتی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ جبریل جیسے فرشتے، جو طاقت اور عظمت کی علامت ہیں، امام حسینؑ کے رعب و دبدبے کے سامنے لرزاں ہیں۔ یہ منظرنامہ قاری کے سامنے نہ صرف واقعہ کربلا کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اسے

 ایک ماورائی کیفیت میں بھی داخل کر دیتا ہے۔

اس بند میں “کانپ رہا ہے” کی تکرار ایک صوتی تسلسل پیدا کرتی ہے جو فضا کی لرزہ خیزی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ ہر مصرعے میں یہ تکرار اس کیفیت کو ظاہر کرتی ہے کہ امام حسینؑ کا رعب و جلال زمین، آسمان، اور وقت کے ہر ذرے پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

مرزا دبیر کے لب و لہجے کی وسعت اس بند میں ایک گہری جذباتی اور فکری گہرائی کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ وہ اپنی زبان کی شائستگی، تشبیہوں کی باریکی اور تخیل کی بلندی کے ذریعے کربلا کے واقعے کو ایک کائناتی تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ نہ صرف جنگی کیفیت کی شدت کو بیان کرتا ہے بلکہ روحانی عظمت اور انسانی جذبات کی گہرائی کو بھی نمایاں کرتا ہے۔

یہ بند اردو ادب کی وہ مثال ہے جو مرثیے کی صنف کو نہایت بلندیوں پر لے جاتا ہے۔ دبیر نے اپنے لب و لہجے کی وسعت سے نہ صرف واقعاتی حقیقت بلکہ جذباتی اور روحانی اثرات کو بھی ایک منفرد انداز میں پیش کیا ہے جو قاری کو محض متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کی روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔

لب و لہجے کی شائستگی زبان و بیان کی بنیاد ہے۔ یہ وہ نرم و نازک دھاگا ہے جو دلوں کو جوڑتا اور خیالات کو اظہار کی خوبصورت شکل عطا کرتا ہے۔ شائستہ لب و لہجہ محض گفتگو کا طریقہ نہیں، بلکہ انسان کے اندرونی شعور اور اخلاقی تربیت کا عکاس ہے۔ اس کی موجودگی نہ صرف کسی پیغام کو مؤثر بناتی ہے بلکہ اس میں ایسی دلکشی پیدا کرتی ہے جو سامع کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

شائستگی کا لب و لہجہ، ابلاغ کے دروازے کھولتا ہے، جہاں سخت بات بھی محبت کے رنگ میں رنگی جاتی ہے، اور اختلافِ رائے بھی تہذیب کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ زبان اگرچہ اظہار کا ذریعہ ہے، لیکن اس کی تاثیر لہجے کی مٹھاس اور شائستگی کی مہک میں چھپی ہوتی ہے۔ جو بات تلخی اور تندی سے کہی جائے، وہ دل پر بوجھ ڈالتی ہے، لیکن یہی بات نرم اور شائستہ انداز میں کہی جائے تو وہ دل میں گھر کر لیتی ہے۔

شائستگی محض الفاظ کا انتخاب نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے پھوٹنے والی وہ روشنی ہے جو زبان پر جھلکتی ہے۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو نہ صرف دوسروں کے لیے قابلِ قبول بناتا ہے بلکہ معاشرے میں رواداری ہم آہنگی اور محبت کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے خیالات ابلاغ کی وسعتوں تک پہنچیں تو ہمیں اپنے لب و لہجے کی شائستگی کو اپنی گفتگو کا زیور بنانا ہوگا، کیوں کہ یہی زیور ہمارے اظہار کو جاذب اور ہمارے پیغام کو مؤثر بناتا ہے۔

لب و لہجے کی شائستگی زبان و بیان کی جاذبیت کا اصل سرچشمہ ہے، جو الفاظ کو نہ صرف معنی دیتا ہے بلکہ ان میں تاثیر اور دلکشی بھی پیدا کرتا ہے۔ جب ہم بات کرتے ہیں، تو صرف ہمارے الفاظ نہیں بلکہ ان کی ادائیگی، ان کا ٹون، اور ہمارا لہجہ بھی سامع پر اثر انداز ہوتا ہے۔ شائستہ لہجہ وہ خوبصورتی ہے جو ہر جملے کو گہرائی اور وقار سے آراستہ کرتا ہے۔ یہی شائستگی نہ صرف بات چیت کو خوشگوار بناتی ہے بلکہ ایک فرد کی شخصیت کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

شائستگی زبان کو ایک ایسا آہنگ عطا کرتی ہے جو نہ صرف سماعت کو خوشی بخشتا ہے بلکہ دلوں تک رسائی بھی حاصل کرتا ہے۔ یہ ایک فن ہے جو نہ صرف باتوں کے اندر نرم رویہ پیدا کرتا ہے بلکہ ان کے اثرات کو دیرپا بھی بناتا ہے۔ ایک نرم، شائستہ اور مہذب لہجہ وہ پل ہے جس سے انسانی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، یہاں تک کہ جب بات چیت میں اختلاف بھی ہو، شائستگی اسے تکلیف دہ نہیں بننے دیتی۔ لب و لہجے کی شائستگی صرف الفاظ کے انتخاب تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ انسان کی فطری تربیت اس کے اخلاقی معیار اور اس کے دنیا کے ساتھ تعلقات کا عکاس ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص شائستہ انداز میں بات کرتا ہے، تو وہ صرف اپنے پیغام کو بہتر طریقے سے پہنچاتا ہے، بلکہ اپنے آپ کو بھی ایک متوازن اور باشعور فرد کے طور پر پیش کرتا ہے۔ زبان کا استعمال اس کی اصلی قوت تب بن جاتا ہے جب وہ شائستہ اور مدبرانہ طریقے سے ہوتا ہے۔ اس طرح شائستہ لب و لہجہ نہ صرف ایک خوبصورت اظہار کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ یہ ابلاغ کی طاقت کو نیا رخ دیتا ہے جو کہ انسان کے اندر کی گہرائیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اس کے باہمی تعلقات کو ایک نیا معیاری معیار فراہم کرتا ہے۔

لب و لہجے کی اہمیت اور وسعت کے حوالے سے مرزا دبیر ایک بند ملاحظہ فرما لیجیے:-

قابل میں سخن کے ہوں سخن ہے مرے قابل         لیکن سخن شہرہ فگن ہے میرے قابل

رضوان کو جنت یہ چمن ہے مرے قابل             موتی کو صدف اور یہ عدن ہے مرے قابل

شہرہ ہے یہ تائید شہ جن و ملک سے                  مضموں مرا گھر پوچھتے آتے ہیں فلک سے

مرزا دبیر کے اس بند میں لب و لہجے کی وسعت کا جو مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ محض الفاظ کے استعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ ان میں ایک ایسی سلیقے اور تخلیق کی عظمت ہے جو انسان کے اظہار کو ایک بلند ترین سطح تک پہنچا دیتی ہے۔

“قابل میں سخن کے ہوں سخن ہے مرے قابل” کے مصرعے میں شاعر اپنی شاعری کی طاقت اور اہمیت کو بیان کرتے ہیں، اور اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ان کی زبان کا اختیار صرف ان کے اپنے تک محدود نہیں، بلکہ ان کی تخلیق میں ایسی قوت ہے جو ہر مقام پر اپنی جگہ بناتی ہے۔ اس میں لب و لہجے کی وسعت اس انداز میں دکھائی دیتی ہے کہ شاعر کا کلام صرف اس کے ذاتی احساسات کی ترجمانی نہیں بلکہ ایک عالمگیر حقیقت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

“رضوان کو جنت یہ چمن ہے مرے قابل” میں دبیر نے جنت اور رضوان جیسے عظیم اور بلند تصورات کو اپنے کلام سے جوڑا ہے، جو لب و لہجے کی شائستگی اور بلند خیالات کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ مصرعہ ایک نئی حقیقت تخلیق کرتا ہے جہاں شاعر کا کلام اتنا پُر تخیل اور خوبصورت نظر آتا ہے کہ  اُس کا جواب نہیں۔ یہاں زبان کا استعمال اور لہجے کی لطافت اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ شاعر کا کلام صرف معنوں میں نہیں بلکہ اس کی تاثیر میں بھی غیر معمولی ہے۔

میری دانست کو آپ ایک عام قاری کی دانست سمجھ لیجیے کہ میں کوئی باقاعدہ نقاد نہیں ہوں لہٰذا میری دانست کے مطابق مرزا دبیر کا اس مصرعے سے واضح مطلب خصوصیت کے ساتھ “رضوان کو جنت” کے تین الفاظ کے پیش نظر یہ ہے کہ رضوان کو جنت مبارک ہو اور مجھے یہ میری شاعری کا چمن دوسرے لفظوں میں مجھے یہ میری شاعری کی جنت مبارک ہو مجھے اپنی شاعری کا یہ چمن یہ جنت رضوان کی جنت سے کہیں زیادہ عزیز ہے کہ رضوان کو جنت پر اتنا اختیار حاصل نہیں ہے جتنا مجھے اپنی شاعری کی اس جنت پر اختیار حاصل ہے رضوان اپنی جنت میں ذرا بھی رد و بدل نہیں کر سکتا ادھر میں اپنی اس شاعری کے جنت میں جب چاہوں نئے سے نئے انقلاب برپا کر سکتا ہوں رضوان کی جنت رضوان سے درجات میں کہیں بلند و بالا ہے لیکن میری شاعری کی جنت مجھ سے درجات میں کسی طرح بلند و بالا نہیں ہے لیکن میری شاعری کی جنت میں یہ لچک ضرور ہے کہ میں اسے جتنا بھی چاہوں بلند و بالا کر سکتا ہوں اصل میں بات وہی لب و لہجہ کی ہے جہاں تک کہ معنی سے لبریز ہونے کا تعلق ہے جس قدر یہ تین الفاظ رضوان کو جنت معانی سے لبریز ہیں اس قدر دوسرے الفاظ نہ ہوتے خواہ وہ کتنے بھی زیادہ کیوں نہ ہوتے لب و لہجے کا یہی کمال ہے کہ وہ اپنے اختصار اور لہجے کے اتار چڑھاؤ سے جس قدر معنی کے تر و تازہ گلشن کِھلانے کا کمال رکھتے ہیں وہ لغت کے الفاظ نہیں رکھتے زبان و بیان خواہ کتنی ہی ترقی کر جائیں جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے وہ پھر بھی لب و لہجہ کی جگہ پُر نہیں کر سکتے

“موتی کو صدف اور یہ عدن ہے مرے قابل” میں دبیر نے “موتی” اور “عدن” جیسے تشبیہات کا استعمال کیا ہے جو نہ صرف شاعری کی زیبائش کو بڑھاتے ہیں بلکہ اس میں ایک معنوی گہرائی پیدا کرتے ہیں۔ یہ لفظ اور ان کی ترتیب اتنی ہموار اور شائستہ ہے کہ ایک عام زبان میں نہیں کہا جا سکتا۔ لب و لہجے کی وسعت یہاں اس بات میں ہے کہ شاعر نے جواہر کی خوبصورتی اور جنت کی شان کو اپنے اظہار میں اس طرح سے سمو لیا ہے کہ وہ فنی سطح پر بے مثال ہو جاتا ہے۔

میری اس بات کی تائید اس بند کے چوتھے مصرعے سے صاف ہور رہی ہے۔ دیکھیے کس خوبصورتی اور شائستگی کے ساتھ مرزا صاحب اپنے سے کم تر شعرا کو موتی کہہ رہے ہیں موتی کو اس کی نشو نما کے لیے صدف کافی ہے لیکن بہت سے موتیوں کے طلبگار کے لیے ایک صدف پر گزارا نہیں ہو سکتا وہ تو پورے علاقہ کو جہاں اور بہت سے موتی تیار ہوتے ہیں اپنی جگہ جاگیر بنانا پسند کرتا ہے پھر اس مصرعہ کے لفظ “یہ” نے بڑا کمال دکھایا ہے مرزا صاحب فرما رہے ہیں مجھے یہ عدن یعنی شاعری کا عدن جہاں ہر لمحہ بے شمار معانی کے سچے موتی پیدا ہو سکتے ہیں اور ان کی نشوونما ہو سکتی ہے۔ ایک لفظ “یہ” سے مزید یہ بھی پتا چل رہا ہے کہ مرزا صاحب  دنیاوی اور مادی دولت کے خواہش مند نہیں ہیں وہ شاعری کی عدن اور اُس کے موتیوں کے طلبگار ہیں۔ اس بند کی ٹیپ کے پہلے مصرعہ میں فرما رہے ہیں کہ میری یہ تمام شہرت اور عزت جو مجھے نصیب ہے یہ سب میرے ممدوح جو جن و بشر کے شاہ ہیں ان کی تائید کے باعث حاصل ہے۔

“شہرہ ہے یہ تائید شہ جن و ملک سے”

 میں دبیر اپنے کلام کی شان کو عالمگیر سطح تک پہنچاتے ہیں جہاں اس کی شہرت محض دنیا کے محدود دائرے میں نہیں بلکہ اس کی قدر و منزلت آسمانوں تک پہنچی ہوئی ہے۔ اس مصرعے میں لب و لہجے کی وسعت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ شاعر اپنے کلام کو نہ صرف زمینی حقیقتوں سے بلکہ روحانی و سماوی دنیا سے بھی ہم آہنگ کرتا ہے۔  مرزا دبیر کا یہ بند لب و لہجے کی وسعت کو اس طرح اجاگر کرتا ہے کہ ان کے الفاظ ایک منفرد اور وسیع کائناتی سطح تک پہنچتے ہیں۔ ان کا کلام نہ صرف ایک ذاتی اور تخلیقی اظہار کے لیے ہے بلکہ وہ اپنے الفاظ میں اتنی گہرائی، لطافت اور شائستگی لاتے ہیں کہ ان کا اثر نہ صرف سامعین تک پہنچتا ہے بلکہ وہ ایک ابدی اور عالمگیر حقیقت بن کر رہ جاتا ہے۔

مرزا دبیر اسی مصرعے میں مزید فرما رہے ہیں کہ میری شاعری یعنی میرے کلام کے بارے میں جو یہ بات مشہور ہو چکی ہے کہ ان میں معانی بہت وسعت رفعت اور گہرائی کے حامل ہیں تو یہ سب جن و بشر کے بادشاہ یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام کی تائید کے باعث ہیں۔ امام عالی مقام مولا امام حسین علیہ السلام نے میری حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور اب میری مضمون آفرینی کا یہ حال کہ ہے نئے سے نئے اعلیٰ سے اعلیٰ مضامین اس کثرت سے مجھ پر وارد ہوتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے آسانی سے ایک ہی وقت میں اتنے زیادہ مضامین مجھ پر اس انداز سے وارد ہو رہے ہیں کہ جس طرح لوگ جوق در جوق کسی خاص مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں تو ایک دوسرے پر گرتے ہوئے وہ آگے بڑھتے ہیں جس کی وجہ سے ہجوم میں اپنی منزلِ مقصود کا پتہ بھی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

“مضموں مرا گھر پوچھتے آتے ہیں فلک سے”

مرزا دبیر کا مطلب یہ ہے کہ میرے ذہن میں اس اعلیٰ فکر کے حامل مضامین کثرت کے ساتھ مجھ پر وارد ہوتے ہیں کہ میں اُن کو الگ الگ یاد نہیں رکھ سکتا مجھے یاد کرانے کا فرض بھی میرے یہ بلند و بالا مضامین خود ادا کرتے ہیں یعنی میری توجہ دلاتے ہیں کثرتِ مضامین اور وہ بھی اعلیٰ درجہ کے مضامین یہ دو باتیں ہیں جن کو مرزا دبیر اپنے قاری تک پہنچانا چاہتے ہیں شہرت اپنی جگہ مرزا صاحب کے مضامینِ عالیہ اپنی جگہ۔

 اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا دبیر کا سخن مرزا دبیر کی شاعری ایسی ویسی شاعری نہیں ان کی شاعری تو ایسی شاعری ہے کہ اس میں شاعری کی ایک ایک بات ایک ایک نکتہ اپنی جگہ ایک الگ مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔

 مرزا دبیر کا یہ بند زبان کے استعمال میں انتہائی تخلیقی اور شاعرانہ حسن کا حامل ہے۔ دبیر نے اپنے کلام کو نہ صرف ایک ذاتی اظہار بلکہ ایک عالمی حقیقت میں بدل دیا ہے۔ ان کی شاعری میں “شائستگی” اور “نرمی” دونوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے، جو نہ صرف سماعت کو خوشگوار بناتی ہے بلکہ فکر کو بھی نیا زاویہ عطا کرتی ہے۔ دبیر کے کلام میں استعارات کا استعمال نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ جہاں وہ جنت، عدن، موتی، اور فلک جیسے تصوراتی عناصر کو اپنی تخلیق میں یکجا کرتے ہیں۔ ان استعارات میں نہ صرف جمالیاتی خوبی ہے بلکہ ان کا گہرا معنوی تعلق بھی ہے، جو شاعری کو ایک نئی جہت دیتا ہے۔

البتہ، اس بند میں شاعر کی خود اعتمادی اور اپنی شاعری کی قدردانی بھی صاف دکھائی دیتی ہے، جو کہیں کہیں مغرور اور خود پسندانہ بھی محسوس ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دبیر کی شاعری میں یہ “خود اعتمادی” ان کے کلام کی عظمت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو نہ صرف اپنی ذات بلکہ انسانیت کی بلند ترین سطح پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مجموعی طور پر، مرزا دبیر کا یہ بند ایک انتہائی بلند ادبی شاہکار ہے جو نہ صرف زبان کے کمالات کا غماز ہے بلکہ شاعری کی حقیقت اور اس کی روحانیت کو بھی انتہائی خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔ایک مرثیہ کا بند ملاحظہ فرمائیے۔

سرکار ہے ہر مجلسِ شبیر ہماری

مضموں کی طرح بیت ہے جاگیر ہماری

آئینہ سکندر پہ ہے تسخیر ہماری

ہے مہر سلیمان کی تحریر ہماری

تنہا مہ و ماہی پہ نہیں سکہ پڑا ہے

سورج کا نگینہ بھی انگوٹھی پہ جڑا ہے

مرزا دبیر کا یہ بند ایک ادبی شاہکار ہے جس میں لب و لہجے کی وسعت کا کمال پایا جاتا ہے۔ شاعر نے نہ صرف اپنی شاعری کی عظمت کو بیان کیا ہے بلکہ اس میں تاریخی، مذہبی، اور ثقافتی حوالوں کا بھی شاندار استعمال کیا ہے۔ ان کے الفاظ میں ایک خاص وزن اور وقار ہے، جو ہر مصرعے میں نہ صرف معنی کی گہرائی بلکہ اس کی روحانیت اور تاثیروں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

“سرکار ہے ہر مجلسِ شبیر ہماری”

یہ مصرعہ شاعر کی اپنی شخصیت اور شاعری کی اہمیت کو انتہائی بلند مقام پر لے جاتا ہے۔ “سرکار” کا لفظ نہ صرف ایک حاکم یا رئیس کی علامت ہے، بلکہ اس کے ذریعے دبیر اپنی شاعری کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کی موجودگی ہر محفل میں محسوس کی جاتی ہے۔ “مجلسِ شبیر” میں شبیر کا ذکر ایک مذہبی و تاریخی حوالہ ہے جو دبیر کے کلام کو نہ صرف معاصر بلکہ ایک عالمگیر، باوقار حقیقت میں تبدیل کرتا ہے۔ اس میں لب و لہجے کی وسعت یہ ہے کہ شاعر اپنے کلام کو ایک روحانی اور تاریخی سیاق میں پیش کرتے ہیں جو زبان کی حدود سے تجاوز کر کے ایک عالمی سطح پر اثرانداز ہوتا ہے۔

“مضموں کی طرح بیت ہے جاگیر ہماری”

دبیر یہاں اپنی شاعری کو ایک بے مثال اثاثہ سمجھتے ہیں، جس کی قیمت اور اہمیت ہر سطح پر تسلیم کی جاتی ہے۔ “مضموں” اور “جاگیر” کے ذریعے شاعر نے اپنی شاعری کو ایک قیمتی وراثتی خزانے کی مانند بیان کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دبیر کا کلام نہ صرف محض لفظوں کا مجموعہ ہے بلکہ یہ ایک گہرا، قابلِ قدر اور دیرپا اثاثہ ہے جس کی شناخت عالمی سطح پر کی جاتی ہے۔

“آئینہ سکندر پہ ہے تسخیر ہماری”

یہ مصرعہ مرزا دبیر کے کلام کی طاقت اور اثر کا غماز ہے۔ “سکندر” کی تشبیہ دراصل اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ دبیر کا کلام فاتح ہے اور اس کی تاثیر اتنی وسیع ہے کہ وہ تاریخ کے آئینے میں اپنا عکس چھوڑتا ہے۔ “آئینہ سکندر” کے ذریعے وہ اپنے کلام کی قدر و قیمت اور بلندیت کو تاریخ سے جوڑتے ہیں اور اس کا اثر صرف ایک شخص یا ایک وقت تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ ایک ابدی حقیقت بن جاتا ہے۔

“ہے مہر سلیمان کی تحریر ہماری”

“مہر سلیمان” کے ذریعے دبیر نے اپنی شاعری کو اتنی عظمت دی ہے کہ وہ کسی بھی عظیم شخصیت یا طاقت کی مہر کی مانند ہے، جو ہر فیصلے کو قانونی حیثیت دیتی ہے۔ یہاں “مہر” کا استعمال شاعر کی شاعری کی نہ صرف معنوی بلکہ قانونی و روحانی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ لب و لہجے کی وسعت ہے کہ دبیر نے ایک مادی علامت کو روحانی اور معنوی سطح پر اس انداز سے استعمال کیا ہے کہ وہ خود شاعری کی حقیقت کو عکاسی کرتا ہے۔

“تنہا مہ و ماہی پہ نہیں سکہ پڑا ہے

سورج کا نگینہ بھی انگوٹھی پہ جڑا ہے”

یہ مصرعہ دراصل دبیر کی شاعری کی غیر معمولی تاثیر کو ظاہر کرتا ہے۔ “مہ و ماہی” اور “سورج کا نگینہ” جیسے استعارات کا استعمال صرف زبان کی بلاغت نہیں بلکہ ان استعارات کے ذریعے شاعر اپنی شاعری کی کائناتی عظمت کو ظاہر کرتے ہیں۔ “مہ” اور “ماہی” جیسے لطیف اور دلکش تشبیہات، جبکہ “سورج کا نگینہ” کا ذکر شاعری کے کمال اور اس کی دنیا بھر میں تسلیم شدہ عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔

مرزا دبیر کا یہ بند ان کے لب و لہجے کی وسعت کو انتہائی مؤثر طریقے سے اجاگر کرتا ہے۔ ان کے الفاظ میں نہ صرف ایک خاص تاریخی، روحانی اور ثقافتی پس منظر ہے بلکہ ان کے کلام میں ایک ایسا شوق و جذبہ بھی ہے جو ہر سطح پر اثر ڈالتا ہے۔ دبیر نے استعارات اور تشبیہات کا استعمال اس طریقے سے کیا ہے کہ ان کا کلام ایک عالمگیر حقیقت بن جاتا ہے جس کا اثر نہ صرف زمینی سطح پر بلکہ آسمانی سطح پر بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ دبیر کا لب و لہجہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ایک شاعر کی زبان صرف محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ اس کی شاعری میں ایک دنیا چھپی ہوتی ہے جو اپنے تخیل، تاریخ، روحانیت اور ادب کے حوالے سے ایک وسیع و عریض کائنات کا حصہ بنتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا دبیر کا یہ بند شاعری کے حوالے سے لب و لہجے کی وسعت کا بہترین نمونہ ہے۔ دبیر نے اپنے مراثی میں ہر سطح پر ادبی حُسن اور شعور کا توازن قائم کیا ہے۔ اُن کے لب و لہجے میں ایک خاص نوعیت کی وسعت ہے جو مختلف زاویوں سے انسانی تجربات کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چاہے وہ غم کی شدت ہو یا دکھوں کے بے شمار پہلو دبیر نے اپنے اشعار میں ان سب کو اس قدر خوبصورتی سے پیش کیا کہ قاری کو ہر شعر میں ایک نئی حقیقت کا پتا چلتا ہے۔ ان کی مرثیے صرف ایک مظہر نہیں بلکہ انسان کی نفسیات، واقعہ کربلا، اُس کے جذبات اور اس کے اندرونی انتشار کا عکس بھی ہے۔  دبیر اپنے کلام میں درد کی ایک ایسی شدت رکھتے ہیں جو قاری کو نہ صرف متاثر کرتی ہے بلکہ اسے اپنے اندرونی جذبات سے بھی جوڑ لیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مراثیِ دبیر کو ادب کی ایک ایسی منفرد اور وسیع دنیا سمجھا جاتا ہے، جہاں ہر لفظ ایک نیا منظر پیش کرتا ہے، ہر جملہ ایک نیا تاثر چھوڑتا ہے اور ہر شعر ایک نئی حقیقت سے روشناس کرتا ہے۔ ان کی زبان کی وسعت نہ صرف لفظوں کی بلاغت میں ہے، بلکہ ان کے اشعار کی تہہ میں ایک ایسی معنویت چھپی ہوئی ہے جو قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔

مراثیِ دبیر میں لب و لہجے کی وسعت پر جب بات کی جائے تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ دبیر نے اپنی تحریروں میں ایک ایسا بیانیہ اختیار کیا ہے جو نہ صرف لفظوں کی جمالیاتی قدر کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انسان کے جذبات، احساسات، اور زندگی کی حقیقتوں کو بھی برملا بیان کرتا ہے۔ دبیر کے کلام میں لب و لہجے کی وسعت کا مطلب صرف لفظوں کی کثرت یا تنوع نہیں بلکہ یہ ایک ایسی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے جو کثیرالجہات اور مختلف زاویوں سے انسانی تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔

دبیر نے اپنے مراثی میں زبان کا اس قدر بھرپور استعمال کیا ہے کہ ان کے کلام میں ہر لمحہ ایک نیا تاثر اور نیا منظر سامنے آتا ہے۔ جب وہ غم و الم کو بیان کرتے ہیں تو ان کا انداز نہایت گہرا اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ وہ لفظوں کے ذریعے ایک ایسا کرب پیدا کرتے ہیں جو نہ صرف قاری کو محسوس ہوتا ہے بلکہ اس کی روح میں اُتر کر اس کے احساسات کی سطح پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ یہ وسعت دبیر کی زبان میں اُس وقت دکھائی دیتی ہے جب وہ اپنے اشعار میں ایک ہی وقت میں مختلف جذبات، خیالات اور فلسفیانہ افکار کو ایک جگہ اکٹھا کر لیتے ہیں۔

دبیر کی تحریر میں کبھی سادگی اور کبھی پیچیدگی کی جھرمٹ ہوتی ہے۔ وہ اپنے بیان میں نہ صرف زبان کی لطافت کو مقدم رکھتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے انسان کے داخلی تضادات، جذبات کی لطافت اور معاشرتی حقیقتوں کو بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کی زبان میں ایک خاص نوعیت کا تضاد ہے کبھی یہ اتنی سادہ ہوتی ہے کہ قاری کو اپنے آپ میں گم کر لیتی ہے، اور کبھی یہ اتنی گہری اور پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ قاری کو اس کی تہہ تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔ دبیر کے مراثی میں لفظوں کا استعمال نہ صرف عاطفی طور پر بلکہ فکری سطح پر بھی قاری کو چونکاتا ہے، اور ایک نئی بصیرت فراہم کرتا ہے۔

دبیر کے اشعار میں لب و لہجے کی یہ وسعت انسانی حالتوں کی مختلف پرتوں کو چھوتی ہے، جیسے دکھ، درد، محبت، امید، اور فلسفۂ زندگی۔ جب وہ رنج و غم کو بیان کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ قاری کو ایک درد کی گہری کھائی میں دھکیل دیتے ہیں اور جب امید کی بات کرتے ہیں تو ان کی زبان میں ایسی روشنی ہوتی ہے جو دل و دماغ کی تاریکیوں کو ختم کر دیتی ہے۔ یہی وہ قدرت ہے جو دبیر کے مراثی کو منفرد اور اٹوٹ بناتی ہے اور اس کے لب و لہجے کی وسعت کو ایک ابدی حیثیت دیتی ہے۔ دبیر کے مراثی میں ہر لفظ ہر شعر ایک زندگی کے مختلف پہلو کو بیان کرتا ہے اور ان کی زبان میں ایک خاص قسم کا سلیقہ، مہارت اور باریک بینی ہے جو کسی اور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وسعت نہ صرف ان کے بیانیے کی قوت کو بڑھاتی ہے بلکہ ان کے اشعار کو ایک خاص قسم کی ادبی عظمت بھی دیتی ہے۔ اُن کی زبان میں ایک ایسی وسعت پائی جاتی ہے جو واقعۂ کربلا کے تمام زاویوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ جب وہ امام حسینؑ کی قربانی کی بات کرتے ہیں تو ان کے اشعار میں نہ صرف غم کی گہرائی بلکہ ایک بلند روحانی اطمینان بھی جھلکتا ہے جیسے کربلا کا واقعہ صرف ایک جنگ نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کے لیے ایک ابدی درس ہے۔ دبیر کے لب و لہجے میں کربلا کی فضاؤں کی وہ گہرائی اور شان ہے جو انسان کے دل میں ایک زبردست کیفیات کا طوفان پیدا کر دیتی ہے۔

دبیر نے نہ صرف امام حسینؑ اور ان کے خاندان اور اصحاب کی قربانی کو بیان کیا ہے بلکہ اس کے وسیلے سے انسانیت کے لیے ایک ایسا پیغام چھوڑ دیا ہے جو آج بھی دلوں کو بیدار کرتا ہے۔ اُن کے کلام میں کربلا کی فضا کا ہر پہلو چاہے وہ لشکر یزید کا ظلم ہو یا امام حسینؑ کی استقامت کا عزم، اس طرح سے بیان ہوا ہے کہ قاری کو ہر مصرعے میں ایک نیا درس، ایک نیا انکشاف ملتا ہے۔ یہ لب و لہجہ نہ صرف لفظوں کا جال ہے بلکہ ایک جذباتی اور روحانی تجربہ ہے جو قاری کو کربلا کی سرزمین کی ہر ریت، ہر لہو کی بوند، اور ہر آہ کی گونج سے متعارف کراتا ہے۔

آخرکار مراثیِ دبیر میں واقعۂ کربلا کی فضا اور لب و لہجے کی وسعت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ادب اور تاریخ کا تعلق صرف زمان و مکان سے نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانیت کے جذبات و احساسات کی زبان ہے جو وقت کی کسوٹی پر بھی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔  مراثیِ دبیر میں کربلا کا واقعہ ایک روحانی سفر کی صورت اختیار کر لیتا جو نہ صرف ماضی کا حصہ ہے بلکہ ہر عہد میں دلوں کو جلاتا رہتا ہے۔

مراثیِ دبیر میں واقعۂ کربلا کی فضا اور لب و لہجے کی وسعت ایک ایسا جمالیاتی سفر ہے جو صرف الفاظ تک محدود نہیں بلکہ دلوں کی گہرائیوں میں اُتر کر ایک روحانی انقلاب کی گواہی دیتا ہے۔ دبیر نے کربلا کے سانحے کو اس طرح بیان کیا کہ اس کی ہر جھلک میں غم کی شدت، استقامت کی پُر اثر گونج اور قربانی کی لافانی عظمت کی حقیقت نظر آتی ہے۔ ان کا لب و لہجہ گو کہ کربلا کی خونچکاں فضا سے گزر کر آتا ہے سب سے بڑھ کر اس میں ایک روشنی کی کرن بھی ہے جو ہر ظلمت میں امید کا پیغام دیتی ہے۔ یہ لب و لہجہ نہ صرف واقعے کے دکھوں کو بیان کرتا ہے بلکہ اس کے دلی اثرات اور فکری گہرائیوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

دبیر نے نہ صرف کربلا کی اس انتہائی افسوسناک دلگداز حقیقت کواپنے دلکش اسلوب میں بیان کیا بلکہ اس کے پس منظر میں چھپے ہوئے اخلاقی، روحانی اور فلسفیانہ پیغامات کو بھی اپنی تحریر میں بخوبی منتقل کیا ہے۔ کربلا کی سرزمین پر جب امام حسینؑ ان۔ کے خاندان اور ان کے ساتھیوں نے اپنی جانیں قربان کیں تو دبیر نے ان کے خون کی ہر بوند کو ایک ابدی نشان کے طور پر پیش کیا ہے جس کی گونج نہ صرف کربلا میں بلکہ ہر عہد اور ہر معاشرے میں سنائی دیتی ہے۔ ان کے الفاظ کی وسعت میں ایک ایسا عروج ہے جو کربلا کے غم کو صرف ایک حقیقت نہیں بلکہ ایک زندہ روح کے طور پر پیش کرتا ہے۔

دبیر کا لب و لہجہ مراثی کی ہر سطر میں کربلا کی فضا کی مہک اور تپش کو یوں اجاگر کرتا ہے کہ پڑھنے والا خود کو حسینؑ کی استقامت، ان کے ساتھیوں کی بے مثال قربانی اور میدانِ جنگ کی لامتناہی خاموشی میں  محسوس کرتا ہے۔ ان کے الفاظ میں ہر زخمی جسم، ہر مقتل کی خاموشی، اور ہر شہید کی پکار ایک نئی حقیقت کے طور پر زندہ ہوتی ہے جو قاری کے دل و دماغ میں اُتر کر اسے اس عظیم قربانی کا حصہ بنا دیتی ہے۔

یہ مراثی محض تاریخ کی ایک درخشاں علامت نہیں، بلکہ ایک ابدی پیغام ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقت اور ایمان کی طاقت صرف اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک انسان اسے اپنی ذات میں سچائی اور حوصلے کے طور پر محسوس نہ کرے۔ دبیر کا اندازِ بیان اس حقیقت کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ کربلا کے سانحے کا ہر پہلو، ہر کرب،اور ہر زخم دراصل ایک نیا پیغام دیتا ہے جو نہ صرف ماضی کا آئینہ ہے بلکہ حال اور مستقبل کے لیے بھی ایک رہنما اصول ہے۔ اس طرح مراثیِ دبیر میں واقعۂ کربلا کی فضا اور لب و لہجے کی وسعت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صرف الفاظ سے نہیں بلکہ احساسات، جذبات اور روحانی حقیقتوں کے ذریعے ہم کسی بھی واقعے کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔ مراثیِ دبیر میں کربلا کا واقعہ ایک عزم، ایک شجاعت اور ایک لافانی ایمان کی پُر عزم کہانی ہے جو ہر لمحے میں ہمارے دلوں کو جاگنے کی دعوت دیتا ہے۔

Leave a Reply