سدرہ کرن
ریسرچ اسکالر،جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ
مرزا ہادی رسوا کے ناول امراو جان ادا کا نفسیاتی جائزہ
مرزا ہادی رسوا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے وہ ایک ایسے پرُآشوب وقت میں پیدا ہوئے جب برصغیر کی تاریخ اپنے سنہری لیکن مشکل دور سے گزر رہی تھی ۔ یہ ۱۸۵۷ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ مرزا ہادی رسوا اردو زبان و ادب کے ایک بہترین شاعر، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار رہے ہیں ۔ ان کا تخلیقی میدان صرف ادب نہیں تھا بلکہ وہ مذہب ، فلسفہ ،فلکیات ، جیسے دقیق موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے تھے ۔ ریاست اودھ میں اردو لسان و بیان کے لیے بئے گئے مشاورتی بورڈ کے اراکین میں بھی شامل تھے ۔ انہیں صرف اردو زبان پر ہی ملکہ حاصل نہیں تھا ۔ بلکہ وہ فارسی ، عربی ، یونانی ، عبرانی ، لاطینی ، انگریزی زبانوں پر بھی دسترس رکھتے تھے ۔ انہوں نے لکھنؤ جیسے تہذیب یافتہ شہر سے پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا کی ۔ جب شاعری کا آغاز کیا تو انہیں اس وقت کے بڑے شاعر اور مرثیہ نگارمرزا سلاست علی دبیر کی معاونت بھی حاصل ہوئی ۔ ساری زندگی فکشن لکھا اور اپنی زبان دانی کا سکہ بھی خوب جمایا ۔ سائنس اور دیگر سائنسی علوم میں بے کراں دلچسپی تھی جس کے لیے انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ وقف کئے رکھا ۔ ان کے فنی سفر میں پہلا سنگ میل “لیلہ مجنوں “کی داستان پر لکھی ہوئی نظم تھی جس کا بہت چرچا ہوا یہ پہلی مرتبہ ۱۸۸۷ ء میں شائع ہوئی ۔جس پر ان کو ناقدوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں شاعری کے لیے نا موزوں قرار دیا گیا کیونکہ وہ نظم خاصی بے باک تھی لیکن یہ پھر بھی لکھتے رہے ۔ اسی دوران ناول نگاری کی طرف رجحان ہوا ان کا پہلا ناول “امراؤ جان ادا “جو ۱۹۰۵ ء میں شائع ہوا تھا ۔ انہوں نے ناقدوں پر اپنی نثری سلاست کی دھاک بٹھا دی اس ناول کو لکھنو کی معاشرت پر ایک شاندار تحلیق مانا گیا اس کے سیکڑوں ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے اس کے بعد بھی کئی ناول لکھے جن میں ذات شریف ، شریف زارہ اور اختر بیگم شامل ہیں ۔ لیکن جو مقبولیت امرو جان ادا کے حصے میں آئی ہیں وہ ان کا کوئی دوسرا فن پارا حاصل نہ کر پایا ۔ ان کا ایک اور منفرد علمی پہلو مذہبی تخلیق و تدوین بھی ہے اس تناظر میں انہوں نے انتہائی سنجیدہ نوعیت کی علمی تخلیقی مقالے لکھے اور کتابیں مرتب کیں ۔
مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کا مرکزی خیال ایک طوائف کی زندگی ہے جس کے ہاں زبان و ادب اوج کمال پر تھا ۔ ایک مہذب معاشرہ جہاں طوائف کی علمی خدمات کا بھی اعتراف کیا جاتا تھا وہیں معاشرے کے ٹھکرائے اور جذباتی ناآسودگی کے مارے ہوئے لوگوں کا وہ آخری ٹھکانہ بھی ہوا کرتی تھیں ۔ ایک طوائف جو ایک عورت بھی ہے اس کے جذبات بھی ہیں اس کے ہاں حساسیت اور شعوری بلیدگی بھی ہے وہ کس طرح زندگی کے نشیب و فراز سے نبرد آزما ہوتی ہے یہ زندگی امرو جان ادا کے کردار میں منعکس ہوتی ہے اودھ ریاست کے نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رقص کرنے والی امراؤ جان ادا کی کہانی اردو ادب کی زندگی اور مقبول کہانیوں میں سے ایک ہے ۔ اس مشہور ناول پر کئی فلمیں بنیں ۔ برصغیر پاک و ہند میں اس ناول پر سب سے پہلی فلم ۱۹۷۲ ء میں پاکستان میں بنی ۔ پاکستان کی اس فلم سے متاثر ہو کر بھارت نے بھی امراؤ جان ادا پر دو فلمیں بنائیں جو کہ ۱۹۸۱ ءاور ۲۰۰۶ ء میں بنائی گئیں ۔ اردو ناول نگاری کی دنیا میں مرزا ہادی رسوا کا نام اپنے اس ناول امراؤ جان ادا کی وجہ سے زندہ ہے ۔
ادب اور نفسیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ انسان کی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ کے پیچھے نفسی عوامل کی کارفرمائی ہوتی ہے کیونکہ ادب خالصتا ً انسانی تخلیق ہے اس اعتبار سے ناول نگاری میں ناول نگار کا تحریر کردہ ہر جملہ نفسیاتی پہلووں کی عکاسی کرتا ہے ۔ افسانوی ادب ہو یا غیر افسانوی ادب منظوم کلام ہو یا منثور تحریر ، ہر جگہ نفسیاتی عوامل حرکت میں دکھائی دیتے ہیں ۔ نفسیاتی نقادوں نے جب ادب پاروں کا اس لحاظ سے جائزہ لیا تو نہ صرف فنکاروں کی شخصیت کی نفسیاتی ومیکانکی تشریح کی گئی بلکہ ان کے اثرات کے حوالے سے جب نثر پاروں کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کے تحریر کا ایک ایک حرف اصل میں کسی نہ کسی نفسی پہلو کے تابع ہے غزل کے ایک مصرعے سے لے کر افسانہ اور ناول تک میں نفسیاتی جھلکیاں اپنا اثر دکھاتی محسوس ہوتی ہیں ۔ ناول کی وسعتوں میں بے شمار نفسیاتی اقسام اور ان گنت نفسی پہلورواں دواں ہیں ناول کا وسیع کینوس کہیں جبلی ضرورت کے ساتھ جبلی تشنگی کا بھی احاطہ کر رہا ہے تو کہیں اس کا پلاٹ شعور اور لا شعور کے تابع ہو رہا ہے ۔ مرزا محمد ہادی رسوا اردو کے پہلے نفسیاتی ناول نگار ہیں کیونکہ انہوں نے فلسفے اور نفسیات کے ذریعے اردو ادب کو نئے زاویے عطا کیے ۔ یہی وجہ ہے کہ علم نفسیات کے زیر اثر ناول امراؤ جان ادا کے کردار داخلی کشمکش اور نفسیاتی الجھنوں کی بہترین عکاسی کرتے ہیں ۔ دراصل رسوا نے امراؤ جان ادا کے ذریعے ایک مٹتی ہوئی معاشرت کی تصویر کشی کی ۔اگرچہ مرزا محمد ہادی رسوا نے بے شمار ناول لکھے مگر جو شہرت امرؤجان ادا کو حاصل ہوئی وہ شہر طوائف کے موضوع پر لکھے گئے کسی اور ناول کو نہ مل سکی ۔ رسوا نے ایک طوائف کا کردار جس انسانی اور نفسیاتی انداز میں تخلیق کیا ہے اس نے رسوا کو اردو کا پہلا نفسیاتی نقاد قرار دیا ہے۔ بقول ڈاکٹر شارب ردولوی :۔
“رسوا کو اردو ادب میں یہ اولیت حاصل ہے کہ انہوں نے باقاعدہ طور پر علم النفس کی روشنی میں ادب کو سمجھنے کی کوشش کی اس لئے ان کو بجا طور پر پہلا نفسیاتی نقاد کہا جا سکتا ہے ۔”(۱)
ادب کو نفسیاتی شعور کے مطابق پرکھنے اور سمجھنے کی پہلی کوشش کا سہرا رسوا کے سر جاتا ہے ۔ مرزا محمد رسوا نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ادب کو سمجھنے کے لئے علم النفس کا جاننا بہت ضروری ہے ۔ مرزا رسوا نے شعور اور لاشعور کے ذریعہ انسانی نفسیات کو اجاگر کیا ۔ مرزا رسوا نے طوائف کے کوٹھے کو لکھنؤ کی تہذیب کی علامت بنا کر پیش کیا ہے ۔بقول سید وقار عظیم:۔
“رسوا نےامراو جان ادا لکھ کر پہلی مرتبہ لکھنے والوں کو یہ سبق دیا کے زندگی کے سیدھے سادے معمولی اور بظاہر غیر اہم مشاہدات کے پیچھے تہذیب ، معاشرت ، سیاست ، معیشیت ، اخلاق اور بعض اوقات تاریخ کے حقائق پوشیدہ و پنہاں ہوتے ہیں ۔”(۲)
رسوا کے فن کا کمال ہے کہ انہوں نے اس ناول میں ایسے حقائق بیان کئے ہیں کہ جو عام انسان کی ذہنی سطح سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ ناول کا مرکزی کردار امیرن ہے ۔ جسے دلاور نامی بدمعاش اغواکرکے خانم کے کوٹھے پر پہنچا دیتا ہے ۔ خانم امیرن کو امرؤ جان ادا کے روپ میں ڈال دیتی ہے ۔ امرو جان ادا ناول کا سب سے دلکش ، ذہین اور متحرک کردار ہے ۔ مرزا رسوا نے ناول میں تمام کرداروں کو اس انداز میں پیش کیا کہ ہر کردار مختلف نفسیاتی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ناول میں خانم اور بوا حسینی جیسے کردار بھی ہیں جو اپنی عادت سے مجبور ہو کر دوسروں کو فریب دینے میں ماہر ہیں ۔ گوہر مرزا جیسے ناکام عاشق بھی موجود ہیں ۔ کرداروں کی اس بھیڑ میں امرو جان ادا کا کردار اہم بھی ہے اور نفسیاتی مسائل میں الجھا ہوا بھی ہے ۔امراؤ جان ادا کی نفسیاتی کیفیت کے متعلق ڈاکٹر غلام حسین اظہر تحریر کرتے ہیں : ۔
“طوائف زادی کے اندر ہمیشہ ایک شریف عورت زندہ رہتی ہے ۔ کیونکہ عورت کی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ چار دیواری کے اندر ہی تحفظ بھی محسوس کرتی ہے اور پیار سے بڑی فضا اس کے لیے باعث سکون بھی ہوتی ہے ۔”(۳)
چار دیواری سے محبت کا جذبہ اور تحفظ محسوس کرنا عورت کے دیگر تمام جذبات پر حاوی آ جاتا ہے۔ امرو جان ادا کوٹھے کے ماحول سے سمجھوتا تو کر لیتی ہے مگر ساری زندگی کامیاب طوائف نہیں بن پاتی ۔ امراؤ جان ادا کی شخصیت کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے جو بنیادی نفسیاتی عنصر سامنے آتا ہے وہ نرگسیت ہے ۔ نرگسیت نفسیات کی اہم اصطلاح ہے جو الفت ذات یا خود پسندی کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے نرگسیت کی تعریف تشریحی لغت میں یوں کی گئی ہے : ۔
“تخیل نفسی کی اصطلاح میں یہ لفظ اپنی ذات سے بے انتہا الفت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔”(۴)
امراؤ جان ادا کا کردار نرگسی سانچے میں جس طرح ڈھلا ہوا ہے ۔ وہ عورت کی فطرت کی عکاسی کرتا ہے ۔ مرزا ہادی رسوا نے اس کا اظہار امراؤ کی زبان سے اس طرح پیش کیا ہے کہ: ۔
“اچھے سے اچھا کھاتی تھی اور بہتر سے بہتر پہنتی تھی کیوں کہ ہمجولی لڑکے لڑکیوں میں کوئی مجھے اپنے سے بہتر نظر نہ آتا تھا ۔”(۵)
نرگسیت ایک نفسیاتی بیماری ہے جو الفت ذات یا خود پسندی کے معنوں میں استعمال ہوتی
ہے ۔ اس خود پسندی کا تعلق جسم ، شخصیت اور اس سے وابستہ کیفیات سے ہے ۔ عمر کے اعتبار سے اتنی کم عمری میں کسی لڑکی کے دل میں خود کو باقی ہم جولیوں سے بہتر اور برتر سمجھنے کے جذبات پیدا ہونا نفسیاتی بھی ہے اور فطری بھی ۔ اسی الفت ذات ، تقابل اور احساس برتری کی ایک اور مثال کے جہاں امرؤجان ادا آپ نے پھوپھی زاد منگیتر کا موازنہ اپنی سہیلی کر یمن کے منگیتر سے کرتی ہے : ۔
“واہ میرے دولہا کی صورت کر یمن (ایک دھینے کی لڑکی کا نام تھا ) کے دولہا سے اچھی ہے وہ تو کالا کالا ہے ۔میرا دولہا گورا گورا ہے ۔ کریمن کے دولہا کے منہ پر کیا بڑی سی داڑھی ہے ۔میرے دولہا کی ابھی مونچھیں بھی نہیں نکلیں ، کریمن کا دولہا ایک میلی دھوتی باندھے رہتا ہے ۔ماشی رنگی مرزائی پہنے رہتا ہے ۔میرا دولہا عید کے روز کس ٹھاٹھ سے آیا تھا ۔ سبز چھینٹ کا دگلا گلبدن کا پانجامہ ، مصالحہ کی ٹوپی ، مخملی جوتا ، کریمن کا دولہا سر میں ایک پھنٹا باندھے ہوئے ننگے پاؤں پھرتا ہے ۔”(۶)
مندرجہ بالا اقتباس لڑکیوں کی نفسیات کی بخوبی عکاسی کرتا ہے کہ ان میں موازنہ کے ساتھ ساتھ برتری کا احساس بھی باعث تسکین ہوتا ہے ۔عام استعمال کی چیزوں سے لے کر لباس ،گھر بار ،شخصیت ،روپے پیسے کا موازنہ اور خاص طور پر شریک حیات کے موازنے سے بھی گریز نہیں برتا جاتا ۔
فرائیڈ نے اپنی تحریروں میں اوڈی پس(complexoedipus) کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے ۔اوڈی پس سےمراد: ۔
“Oedipus complex, is a term used by Sigmund Freud in his theory of psychosexual stages of development to describe a child ‘s feelings of desire for his or her opposite sex parent and jealousy and anger toward his or her same sex parent .” (۷)
او ڈی پس نظریے کے مطابق بچے جنس مخالف کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ۔ لڑکیاں باپ کو توجہ کا مرکز بنتی ہیں اور لڑکے ماں کو ۔
اس نفسیاتی اصطلاح کے متعلق پروفیسر ساجدہ زیدی لکھتی ہیں کہ :۔
“فرائیڈ نے اوڈی پس کمپلیکس کی اصطلاح دراصل لڑکوں کی ماں سے محبت اور وابستگی اور باپ سے مخاصمت اور عداوت کے لیے استعمال کی ہے اور لڑکیوں کی باپ سے وابستگی و محبت اور ماں سے عداوت ورشک کو کمپلیکس الیکٹر کا نام دیا ہے ۔ “(۸)
امراؤ جان ادا نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے وہ رسوا کو اپنی زندگی کی داستان سناتے ہوئے بتاتی ہے کہ : ۔
“بے شک ابا مجھے اماں سے زیادہ چاہتے تھے ابا نے کبھی پھول کی چھڑی نہیں چھوائی ۔ اماں ذرا ذرا سی بات پر مار بیٹھتی تھیں اماں چھوٹے بھیا کو زیادہ چاہتی تھیں ۔” (۹)
امراؤ جان ادا باپ سے وابستگی اور ماں کے لیے عداوت کے جذبات رکھتی ہے مگر دوسری جانب ماں بھی اپنے بیٹے کے قریب ہے ۔ امرو جان ادا ناول میں متضاد جذبات کی حامل دکھائی دیتی ہے ۔ اس وجہ سے امرو جان ادا کی زندگی عجیب کشمکش سے دوچار نظر آتی ہے اسے وہ مخالف طاقتیں اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتی ہیں ایک طرف وہ کامیاب طوائف بھی بننا چاہتی ہے مگر دوسری طرف اس کے لیے گھریلو عورتوں کی زندگی بھی باعث کشش ہے علم نفسیات میں ایسی صورت حال کو جذبیت کا نام دیا جاتا ہے ۔ جس میں کوئی دو طرح کے متضاد جذبات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔
۔: کے مطابق Plotnik.R
“In psychology, ambivalence is defined as the mental disharmony or disconnect a person may feel when having both positive and negative feelings regarding the same individual.”(۱۰)
چونکہ وہ خاندانی لڑکی تھی پیدائشی طوائف نہ تھی اس لیے شروع سے آخر تک وہ متضاد کیفیت کا شکار رہیں وہ نہ مکمل طورپر طوائف بن سکی نہ گریلو عورت ۔ بعض مقامات پر وہ اس خواہش کا اظہار بھی کرتی ہے کہ تمام طوائفوں کے چاہنے والے صرف مجھے دیکھیں اور مجھے چاہئیں مگر دوسری طرف وہ توبہ تائب ہو کر باعزت زندگی گزارنے کی بھی خواہش مند ہے ۔ مگر رسوا ماہر نفسیات کی طرح اسے اصل حیثیت سے آگاہ کرتے ہیں اور اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ امراؤ گریلو عورتوں پر رشک کرتی ہے اور طوائف زادیوں کو حقیر سمجھتی ہے ۔ دراصل امراؤ جان ادا فطرتاً طوائف نہ تھی بلکہ شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھی ۔ وہ اس حقیقت سے واقف تھی کہ گھریلو عورت اور پیشہ ور طوائف زادی کے معیار زندگی میں نمایاں فرق ہے ۔
امراؤ جان ادا کے کردار میں ایک نفسیاتی پہلو نمائشیت ہے وہ سب کی جانب سے خود کو سرا ہے جانے کی خواہش مند ہے اس کے ساتھ ساتھ اپنے چاہنے والوں کے علاوہ دوسروں کے طلبگاروں کو بھی اپنی ذات میں محود دیکھنا چاہتی ہے ۔
پروفیسرساجدہ زیدی نمائشیت کی وضاحت اس طرح کرتی ہیں کہ : ۔
“نمائیشیت کے تحت انسان خود کو دوسروں کی نظروں کا مرکز بنا کر خوش ہوتا ہے ۔ خود نمائی کے اس عمل میں اسے جو لذت ملتی ہے وہ افعالی لذت ہے یعنی خود کو معروض باشے کی حیثیت سے دیکھنے کی لذت ، عام زندگی میں اسے عورتوں کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے ۔” (۱۱)
ناول کے ابتدائی مکالمات سے ثابت ہوتا ہے کہ امرؤجان ادا عورت ہونے کے ناطے نمائشیت کے جذبوں کے سامنے مغلوب ہے وہ جس طرح رسوا کے سامنے اپنے دل کا حال کھول کر بیان کرتی ہے اس سے عورت کی نفسیات کی بہترین عکاسی ہوتی ہے ۔
“عورت کو عورت سے جو رشک ہوتا اس کی کچھ انتہا نہیں ہے ۔ سچ تو یہ ہے اگرچہ مجھ کو کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ میرا دل چاہتا تھا کہ سب کے چاہنے والے مجھے چاہئیں اور سب کے مرتے مجھ ہی پر مریں ، نہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھیں نہ کسی پر جان دیں ۔” (۱۲)
مذکورہ اقتباس کے ذریعے عورت کی نفسیات کو سمجھنا آسان ہے کہ عورت ہر صورت اپنی ذات کو اہمیت دینے کی خواہش مند ہوتی ہے چاہے وہ اہمیت اسے اپنی زبان و عمل سے ملے یا باقی افراد کے ذریعے ۔
امراؤ جان ادا میں خانم کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ خانم لکھنوی طوائف کی مکمل عکاسی کرتی ہے وہ طوائف زادیوں کہ ان تمام حربوں سے اچھی طرح واقف ہے جن کو استعمال کر کے تماش بینوں کو اپنی طرف مائل کیا جا سکتا ہے ۔ وہ نگار خانے پر حکومت کرتی ہے ۔ طوائف زادیاں ، گاہک ،نواب بھی سے دبتے ہیں وہ جلال اور جمال کا مجموعہ ہے ۔
بازغہ قندیل خانم کی شخصیت کی عکاسی ا س طرح کرتی ہیں کہ : ۔
“خانم ۔۔۔۔ ذبان کی میٹھی ۔۔۔۔۔واقعات کے در پردہ اصل سے تو واقف ہے مگر کسی کا دکھ درد محسوس نہیں کرسکتی بلکہ فائدہ اٹھاتی اور اپنا مرکب بناتی ہے ۔”(۱۳)
خانم کا کردار پورے ناول میں مفاد پرستی کی طرف راغب دکھائی دیتا ہے ۔ خانم کی شخصیت کا نمایاں پہلو دوسروں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے وہ نئی لڑکیوں کو بھی ایسے ہی حربے استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے اور انہیں سکھاتی ہے کہ زندگی میں کسی ایک مرد کو لازمی اپنا بنا کر رکھیں ۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں ۔ بیماری میں ان سے خدمت کروائی جاتی ہے سودا سلف لاتے ہیں ۔ رات بھر پاؤں دباتے ہیں ۔ ہر جگہ حمایت کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ خانم کی اس سوچ اور عمل کو نفسیات میں نظر بازی کہتے ہیں ۔ خانم کے کردار کی بنت سے مصنف نے لکھنو میں طوائفوں کی اہمیت اور فروغ کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے ۔ خانم کا کردار ناول میں بہت اہم ہے ۔ اس نے زندگی میں آنے والے ہر مرد سے فائدہ اٹھایا اور اسے چلتا کیا ۔ غرض خانم بغیر مفاد اور مطلب کے کسی کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے کی مجاز نہیں ۔ خانم کی شخصیت کا ایک اور پہلو ہر صورت نئی چھوکریوں کو کمتر اور اپنی ذات اور تجربے کو برتر ثابت کرنا ہے ۔ وہ سترہ اٹھارہ برس کی چھوکریوں کو باور کروادیتی تھی کہ میرے عاشقوں کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی کوئی کم عمر طوائف کتنی ہی بحث کیوں نہ کرے مگر خانم کا جواب سب کو خاموش کروا دیتا تھا ۔ خانم بہت فخر سے کہتی تھی :
“جاؤ چھوکریو ! نہیں معلوم اس زمانے کی محبتیں کس قسم کی ہیں جیسی رنڈیاں ویسے ان کے آشنا ۔ ایک ہمارا زمانہ تھا دیکھو (مرزا صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ایک یہی مرد آدمی بیٹھے ہیں جوانی میں مجھ سے آشنائی ہوئی ماں باپوں نے شادی ٹھہرائی۔ آپ مانجھ کا جوڑا پہن مجھے دکھانے آئے ۔ میں نے مانجھے کے جوڑے کے پرزے پرزے کر دیئے ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی کہ میں تو نہ جانے دوں گی اس کو چالیس برس کا زمانہ گزرا آج تک تو گھر نہیں گئے کہو ہے کوئی ایسا تمہارا بھی سب نے سر جھکا لیا ۔”(۱۴)
خانم نے نئی چھوکریوں کے سامنے عمر بھر کی ریاضت اور تجربے کا نچوڑ پیش کیا ۔ یقیناً ان میں اتنا دم نہیں تھا کہ وہ اس کا توڑ رکھتیں جو تجربہ خانم کو حاصل تھا وہ نئی لڑکیوں کو کہا ۔ رسوا نے امرؤجان ادا کی نفسیاتی کردار نگاری سے ناول کے فن کو بلندی وعظمت عطا کی ۔ امراؤ جان ادا کا پس منظر بھی لکھنؤ کا شکست خوردہ معاشرہ ہے لکھنؤ کی دم توڑتی تہذیب ہے ۔ امراؤ جان ادا طوائف بن کر بھی اندر کی شریف عورت کو زندہ رکھتی ہے ناول کے کرداروں کے ذریعے انسانی نفسیات کے اتار چڑھاؤ کو بیان کیا گیا ۔ خانم مفاد پرست عورت کے روپ میں سامنے آتی ہے اور امرؤجان ادا عورت کی فطرت کی عکاسی کرتے ہوئے چاردیواری کی خواہاں ہے ۔
حوالہ جات
۱۔ شارب ردولوی ، جدید اردو تنقید (اصول و نظریات ) ، لکھنؤ : اتر پردیش اردو اکادمی ، اشاعت، ۲۰۰۶ ء، ساتواں ایڈایشن ، ص ۲۳۰
۲۔ وقار عظیم ، سید ، داستان سے افسانے تک ، کراچی : اردو اکیڈمی سندھ ،اشاعت ۱۹۶۶ء ص ۷۷تا ۷۸
۳۔ غلام حسین اظہر ، اردو افسانے کا نفسیاتی مطالعہ ، کراچی :اشاعت ۱۹۷۵ ء ص ۲۶۸
۴۔ محمد اکرم چغتائی ، تشریحی لغت ، لاہور : اردو سائنس بورڈ ،اشاعت ، ۲۰۰۱ ء ص ۵۵۷
۵۔ مرزامحمد ہادی رسوا ، امراؤ جان ادا ، لاہور : سنگ میل پبلی کیشنز ، اشاعت ، ۲۰۰۸ ء ص ۲۴
۶۔ ایضا ً ،ص ۴۶
۷۔ . htty//:www.verywellmind.com
۸۔ ساجدہ زیدی ، انسانی شخصیت کے اسرارورموز ، نئی دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، اشاعت ، ۱۹۹۹ء ص ۳۵۴
۹۔ مرزا محمد ہادی رسوا ، امراؤ جان ادا ، لاہور :سنگ میل پبلی کیشنز ،اشاعت ، ۲۰۰۸ء ص ۵۸
- Plotnik.R. (1989), Introduction to psychology , (2ndEd), Newbery Award Records (Inc)
۱۱۔ ساجدہ زیدی ، انسانی شخصیت کے اسرارورموز، نئی دہلی :قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، اشاعت ، ۱۹۹۹ء ص ۲۸۹
۱۲ ۔ مرزا محمد ہادی رسوا ، امراؤ جان ادا ، لاہور : سنگ میل پبلی کیشنز ، اشاعت ۲۰۰۸ء ص ۵۸
۱۳۔ بازغہ قندیل ، اردو ناول میں زوال فطرت انسانی کی تمثیلات ، اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان پاکستان ، اشاعت ۲۰۱۴ء ص ۵۰
۱۴۔ مرزا محمد ہادی رسوا ، امراؤ جان ادا ، لاہور : سنگ میل پبلی کیشنز ، اشاعت ، ۲۰۰۸ ء ص ۵۱
کتابیات
۱۔ شارب ردولوی ، جدید اردو تنقید (اصول و نظریات ) ، لکھنؤ : اتر پردیش اردو اکادمی ، اشاعت، ۲۰۰۶ ء، ساتواں ایڈایشن
۲۔ وقار عظیم ، سید ، داستان سے افسانے تک ، کراچی : اردو اکیڈمی سندھ ،اشاعت ۱۹۶۶ء
۳۔ غلام حسین اظہر ، اردو افسانے کا نفسیاتی مطالعہ ، کراچی :اشاعت ۱۹۷۵ ء
۴۔ محمد اکرم چغتائی ، تشریحی لغت ، لاہور : اردو سائنس بورڈ ،اشاعت ، ۲۰۰۱ ء
۵۔ مرزامحمد ہادی رسوا ، امراؤ جان ادا ، لاہور : سنگ میل پبلی کیشنز ، اشاعت ، ۲۰۰۸ ء
۶۔ ساجدہ زیدی ، انسانی شخصیت کے اسرارورموز ، نئی دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، اشاعت ، ۱۹۹۹ء
۷۔ بازغہ قندیل ، اردو ناول میں زوال فطرت انسانی کی تمثیلات ، اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان پاکستان ، اشاعت ۲۰۱۴ء
۸۔ http//: www.verywellmind.com
۹۔ Plotnik. R. (1989),Introduction to Psychology, (2ndEd), Newbery Award R