ڈاکٹر شاہ نوازعالم(اسسٹنٹ پروفیسر)
گنپت سہائے پی جی کالج،سلطان پور،یوپی
مصحف اقبال توصیفی کی شاعری: عجائباتِ حیات کا نگارخانہ!!!
دُنیا کی تخلیق اور اس میں انسانوں کا نزُول دونوں ہی اپنے آپ میں پُراسرارعجائبات کے حامل ہیں۔ رخشِ وقت کا پیچھے مُڑے بغیر اپنے محورپہ بے تحاشہ گردش کرتے رہنااوراس برق رفتار ی کے روبرو بے اختیاری اور لاچاری کا مظاہرہ کرنے والی انسانی زندگی کااپنی ذات کے ساتھ’ اشرف المخلوقات‘ کا ٹیگ چسپاں کیے ہوئے اکثر و بیشتر لمحات میں بغلیں جھانکتے رہنا،کسی قدر عجیب لگتاہے۔ جدیدیت کے ہمراہ قدموں کی چاپ ملاتے ہوئے آگے بڑھنے والے مصحف اقبال توصیفی،وقت کی اشرفیت ورفتاریت اور خاکی انسان کے معاملاتِ لاچاریت کابیان کرتے ہوئے نظم’’وقت‘‘میں رقم طرازہیں:
وہ چلتارہا/اس کرۂ ارض کی گیندپر/ایک پاؤں رکھے/(دوسراپاؤں اس کا خلامیں)/گیندآگے
بڑھاتے ہوئے/(توازُن بھی قائم رہے۔۔۔)/(قیامت کوٹالے ہوئے)/وہ چلتارہا/
(زیست اور موت کے دائرے کھینچتا)/ایک ہی سمت میں/ایک رفتارسے/کسی بازی گر۔/ایک
سرکس کے نَٹ کی طرح/چاند،سورج،ستاروں کے گولے/کبھی دونوں ہاتھوں سے اُن
کو اُچھالے/کبھی اپنے شانوں پہ۔۔/سرپرسنبھالے ہوئے/کبھی گونج میں تالیوں کی/۔۔۔
بے نیازانہ چلتا ہوا/ ہاتھ پتلون کی۔۔۔/ دونوں جیبوں میں ڈالے ہوئے۔۔۔!!!
(شعری مجموعہ’’دورکنارا‘‘ص۔۹۵)
انسانوں کی یہ کیسی نام نہاد اشرفیت کہ نہ رات کا پتا ہے نہ صبح کی خبر،جو گزر گیا نہ اس پہ کوئی اختیار تھا،جو چل رہا ہے نہ وہ اپنی روداد سے آگاہ کرتا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ دبیز تاریکی کے اوٹ میں کھڑا معزول و معذور انسان کی بے بسی پر مسکرا رہاہوتا ہے۔اور انسان ’’باادب،باملاحظہ، ہوشیار‘‘ کابُت بناہوابے بس ولاچاردیگر مخلوقات کی سرداری کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہاتھ باندھے وقت کی تعظیم میں کھڑا اکڑ رہاہے ۔اپنی مانوس و معلوم لاچاری پہ افسوس کے بجائے کمزوروبے بسوں کی سرداری کافخر اُسے بہلائے ہوئے ہے ۔اس طرح زندگی کی کشتی موجِ حوادث میں سرٹکراتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے،اس سفرمیں نظامِ زمانہ میں چوں و چراکیے بغیرکٹھ پُتلی کی طرح چلتے رہنا ہی اس کا کام ہے۔ کبھی تیز رفتار وقت کے ساتھ بغل گیر ہونے کی تمنّالیے بے تحاشہ بھاگتی ہوئی،اور کبھی بھاگ بھاگ کر تھکان سے چُور لُڑھکتے ہوئے گیند کی طرح ڈھلان سے نیچے اُترتی ہوئی زندگی اپنے انجام کو پہنچادی جاتی ہے،آغازپہ قبضہ ہے نہ انجام پہ پکڑ۔مصحف اقبال توصیفی کی ایک نظم’’تھرڈڈگری‘‘بے طرح ذہن کے آہنی دروازے پر ہتھوڑے برسا رہی ہے:
زندگی اس طرح گزری/جیسے ریل میں سفرکرتے ہوئے/کچھ بجلی کے کھمبے/ایک۔۔دو۔۔تین۔۔چار۔۔/کچھ ٹوٹے پھوٹے مکان گزرجائیں/اوراُن کے ساتھ/ننھے بچوںکی ہنسی کی آوازیں/کلکاریاں/جوان عورتوں اورمردوں کے قہقہے/خواہشوں کی کچّی لکڑیاں/
اوران کا دُھواں/آنکھ کے آنسو/پیڑوں کے جُھنڈ/ایک۔۔دو۔۔تین۔۔چار۔۔/نہ جانے
کب سگنل کی ہلکی سی جنبش پٹری کی لکیروں کوتنہاچھوڑدے/نہ جانے کب کوئی سِلوباؤلر/بہت
جلداپنااووَر ختم کردے/(نوبال یا وائڈ کا اشارہ ضروری تو نہیں)/ اورساراکھیل ختم ہوجائے/چندتصویریں/ ایک۔۔دو۔۔تین۔۔چار۔۔/کوئی میرے قدموں میں سُرعت سے پھینک دے/کوئی انجاناہاتھ/اورکوئی غیبی آواز/ان تصویروںکوجوڑتی ہوئی کوئی کہانی گڑھ دے
/اورمجھ سے کہے’’یہ کہانی تمھاری ہے‘‘/یہ چاند،سورج،ستارے/بازار،گلی،نکّڑ/تم ہی ان کامحورہو/اتنے بڑے الزام کا بوجھ/میری مٹّی پررکھ دے/اوراس سے پہلے کہ میں ریل کی پٹریاں/باؤلرکا
گھومتا ہواہاتھ دیکھ سکوں/اپنے قدموں میں پڑی ہوئی تصویروں کواٹھاسکوں/اتنابڑاالزم/
ایسا اتّہام۔۔۔/میں سوچنے کی کوشش کرتاہوں/کوئی اپنی سرداُنگلیاںمیری آنکھوں
پررکھ دیتاہے/تاریکی،گہری اورگہری ہوتی جارہی ہے/ایک نشترکی ٹھنڈک/میرے لہوکی ٹھنڈک/
میرے لہومیں گھُل رہی ہے/مجھے نیندآرہی ہے/’’اتنابڑاالزام۔۔‘‘/میں سوچ رہاہوں/میں
سورہا ہوں/ میں نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں اقبالِ جُرم کرتاہوں!!
(شعری مجموعہ’’دورکنارا‘‘ص۔۷۷)
واہ!!!کتنی بہتر استعاراتی وتشبیہاتی نظم ہے جس نے ابتدا سے لے کرانتہا تک کی روداد حیات کی منظرکشی میں کمال کی حدتک حقیقت بیانی سے کام لیاہے۔جس سفرکے متعلق انسان کو کچھ پتہ نہیں ہے،بس وہ وقت کی رو میں نئے نئے حوادث سے دوچارہوتاہواایک انجان سمت کی اور آگے بڑھ رہاہے، آخرمیں اسے اس سفر کے چندایک نظاروں کوبالترتیب یکجاکرکے اُس کی کہانی کا نام دے دیا جاتا ہے، چاند،سورج،ستارے،بازار،گلی،نکڑ،یعنی نظامِ دنیاکا محور ہونے کا الزام عائد کر دیا جاتا ہے،اس الزام کے حقائق سے آگاہی کی جد و جہد میں کب زندگی کی شام ہو جاتی ہے،اور اسی شام کی تاریکی میں معدوم ہوتے ہوتے بے سمجھے وہ اپنا اقبالِ جُرم کر لیتا ہے،کیوں کہ اس بے بسی کے آگے اور کو ئی چارہ ہی نہیں ہے،انسان ایسی ہی پتھریلی اور دشوارگزار راہوں کامسافرہے ،ایسا لگتاہے کہ دُنیاکے اس نمائشی میلے میں اضافے کے طورپرانسانی روبوٹ کو ایک معین وقت کے لیے چابی گھُماکرمتحرک کر دیاگیاہے، کیا ہے اُس کا کام ،کب اُس کا یہ کھیل تماشاختم ہوگا،اِس کا اُسے کوئی علم نہیں ہے۔ایک نظم’’عجیب کھیل ہے‘‘ملاحظہ فرمائیے:
’’عجیب کھیل ہے/میں چل رہاہوں اورمیرے پاؤں ہیں بندھے ہوئے/میں اپنی چیخ سُن رہاہوں/اورمیرے ہونٹ بندہیں بھنچے ہوئے/میں ہنس رہاہوں۔رورہاہوں،میرے سارے بُت/خاک میں رُلے ہوئے۔۔۔/یہ کھیل۔/شروع کب ہوامجھے خبرنہیں/مجھے تویہ بھی کچھ خبرنہیں کہ میری آنکھ میں/مرے پلنگ پریہ رات کب؟کہاں سے آگئی؟/اوراس کے ساتھ ایک خواب بھی/میں زندگی سمجھ کے جس کو جی گیا/عجیب کھیل ہے/مگریہ کھیل ختم ہوگاایک دن؟یہ کھیل ختم ہوگاایک دن۔۔۔
(شعری مجموعہ’’رات خیالوںمیں گُم‘‘ص۔۳۵)
ایسے ہی اس کھیل کے درمیان چھوٹے و بڑے، آسان و پیچیدہ ،خوابوں کی شکل میں مختلف طرح کے تجربات سے دوچار ہونا پڑتا ہے،کبھی یہ تجربے دُکھوں کا پہاڑ توڑتے ہوئے، زندگی کو گھٹنوں کے بل رینگنے پر مجبور کر دیتے ہیں تو کبھی کبھی چند ایک تجربے حوادثِ زمانہ کے روبروسہمی ہوئی زندگی کو گُدگُداکر مخملی کیفیات کا احساس کراجاتے ہیں۔کبھی انسان اپنی ہی ذات کے ساتھ ایسے متنوع اور داغ دار تجربات کا مشاہدہ کرتاہے اور کبھی اپنے سامنے سانس لیتی ہوئی زندگی کے ہمراہ ایسے تباہ کُن اور پُربہارمشاہدات کامظاہرہ کرتا ہے۔ پے درپے نازل ہونے والے واقعات کے تلخ تجربات ہوں یا شبنمی احساسات، عام انسان کی حسّی صلاحیت انہیں اجازت نہیں دیتی کہ وہ ان حوادث سے پُر دنیامیں ان پُر اثر کیفیات کو اپنی حسّی دنیا کا مکین بنا پائیں۔ ان واقعات کے سیاہ و سفید موتیوں کواپنے حسّی دھاگوں میں پرو کر اپنی زندگی کی معنویت میں اضافہ کریں۔مگر ایک تخلیق کار مصوّر، مصنف، شاعر، جن کے اندر محسوسات کی ایک وسیع تر دنیا آباد رہتی ہے، اپنی حسّی ولمسی قوت کے استعمال سے ان ساری کیفیات کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جو وہ بیان کر رہے ہیں ،ان کی ہی آپ بیتی رہی ہو۔ اپنی خداداد صلاحیت کے سبب وہ غیروں کے بیتے نامے میں غوطہ لگاکرقربت کے چھڑکاؤ سے احساساتِ غیرکا یکسر خاتمہ کردیتے ہیں۔جہاںمصوّر پتھروں میں جان ڈالنے کی کوشش کرتا ہے وہیں شاعر و مصنف لفظ کو سانس لینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ لفظی موتیوں سے محسوساتی کائنات کو مزین کرکے ایک احساساتی دنیا آباد کرتے ہیں،جن سے باذوق قاری لفظی دھک دھک کو محسوس کرتا ہوا ایک مانوس واقعاتی کیفیات کے نئے طلسم سے دوچار ہوتا ہے۔ایسے ہی شاعرانہ صلاحیتوں سے معمور باوقار شاعر ہیں جدیدیت کے پیروکار مصحف اقبال توصیفی۔ درجِ بالانظموں کے تخلیقی جوہرکے ذریعہ مصحف اقبال توصیفی کے غائبانہ تعارُف کی رونمائی پہلے ہی ہوچکی ہے،اب باقائدگی کا پیرایہ اختیارکرتے ہوئے ان کی شعری اُفق کے لمسِ بام کو محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مصحف اقبال توصیفی کی شعری بصیرت کو شمس الرحمٰن فاروقی سے لے کر شمیم حنفی تک ناقدانِ ادب نے بے حدسراہاہے۔ان کے پانچ شعری مجموعوں فائزا، دور کنارا، ستارہ یا آسمان،گُماںکا صحرا، رات خیالوںمیں گُم وغیرہ نے مصحف اقبال توصیفی کو جہانِ ادب کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز کر دیاہے۔وزیر آغاتوصیفی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مُصحف اقبال توصیفی کا مشاہدہ بہت تیزہے۔اس قدر کہ اگر وہ شاعر نہ ہوتا توسائنس داں ہوتا۔اس مشاہدہ نے اس کے ہاں معروضی اندازِ نظر کوتحریک دی ہے۔۔۔۔۔مختصراً یہ کہ مصحف اقبال توصیفی نے اسلوب کی مشکل زمین میں لفظوں کے سیلِ رواں کاخوب صورت منظردکھایاہے جو دل و دماغ دونوں کو ٹھنڈک پہنچاتاہے۔‘‘ (شعری مجموعہ’’فائزا‘‘فلیپ کور)
مصحف اقبال توصیفی کی شعری کائنات میں،چلیے ہم چلنا وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں پوری کائنات کو اُس کی معنوی شناخت ملتی ہے،صحیح معنوں میں اُس کے تخلیقی اسباب پر سے پردہ اٹھتاہے،سانسیں اپنی وجودی شناخت کے ساتھ اپنے محور پر گردش کرنے لگتی ہیں، جذبات و احساسات متحرک ہو جاتے ہیں اور جُھوم جُھوم کر’’لفظ‘‘کی پُروقار پیدائش کا جشن مناتے ہیں، یہاں سے لفظ کی ابتداہوتی ہے،’لفظ‘ جس نے انسان اور جانور کے درمیان امتیازات سے روشناس ہونے کا موقع عنایت فرمایا،جس نے انسان کو اس کی اشرفیت کا پہاڑا یاد کروایا،جس نے دنیا و جہان کی تاریک گہرائی میں غوطہ لگاکر منوں پتھروں تلے دبے ہوئے سیپیوں میں پوشیدہ معنوی موتیوں کی رمق سے اپنی گمنام زندگی کو روشن بنانے میں انسانو ں کی مدد فرمائی۔ اُس لفظ کی عُریانی انسان کیسے گوارہ کر سکتا ہے،اپنے سڑکوں، گلیوں، کوچوں، محلوں، باغوںمیں اسے بے لباس کیسے چھوڑ سکتاہے۔اُس کی تذلیل کاباعث کیسے بن سکتاہے۔باعزت لباس میں ملبوس الفاظ کی پاکیزگی انسانی وقار میں اضافے کا ضامن بنتی ہے۔ مصحف اقبال توصیفی ان چند شاعروں میں ہیں جنہوں نے اپنے ذہن و دل میں پنپتے جذبات واحساسات کے اظہار میں’لفظ‘کی پاکیزگی کابہتیراخیال رکھاہے۔اُسے عُریاں نہیں ہونے دیا۔اُن کی حسّاس طبیعت لفظ کی سانسوں میں پوشیدہ جذبوں کا خاص خیال رکھتی ہے، انہیں اس کی تذلیل سے یقینی دُکھ ہوتاہے،جیسے بدموری کی سڑاند خوش نما فضاکو آلودہ کر دیتی ہے، وحشی انسان کی ہوس خاتون میں پوشیدہ آدمیت کو یکسر فراموش کر دیتی ہے،جیسے کوئی بے حس خاتون کچن میں جاکر آٹا گوندھنے کے عمل کواپنے تئیں مردکے اندر پیداہونے والی بے لوث محبت پر ترجیح دیتی ہے، گر لفظ کوبھی اسی طرح کیچڑ میں رُلاکر بدبودار بنا دیا جاتا ہے تو انہیں دُکھ ہوتا ہے،اُن کی چاہت تو اس کے بر عکس ہے،وہ لفظ کی خوشبو سے اپنی روح تک کو معطر کرنا چاہتے ہیں، اسے اپنے نازک لمس کا آسرا دے کر یوں کھولنا چاہتے ہیں جیسے ایک نومولود بچہ آنکھیں کھولتاہے،کہ اُس کی پرتوں کے زینوں کا سہارا لے کر اُس کی گہرائی میں اُترتے چلے جائیں،اُسے چومیں کہ جیسے مدر ٹریسا کا ہاتھ ہو، اُس کی اُنگلی تھام کر معنوی نوک پر اس طرح گھمائیں کہ وہ کائنات کا محور بن جائے اور کائنات کی ہر شے اس کے ایک ہی دائرے میں محیط ہوجائے، ماحول سازگار نہیں ہے مگر شاعر کے حوصلے بلند ہیں کہ کسی طرح ہر ممکن کوشش کیا جائے کہ لفظ کا اپنا حقیقی رنگ اس سے جُدا نہ ہونے پائے،جس اونچی شاخ پر لفظ اپنی نشست کا حق رکھتاہے وہاں اس کا وجود ہمیشہ قائم و دائم رہے،آئیے نظم ’’مجھے دُکھ ہوتاہے‘‘ میں شاعرکے درد، چاہت اور حوصلے کے لمس کو محسوس کرتے ہیں:
لفظ کی تذلیل پر/مجھے دکھ ہوتاہے/جب کوئی ایسی بات کہی جائے/جواس قدرپوچ اور واہیات ہو
/کہ سمجھ میں نہ آتے ہوئے بھی فوراًسمجھ میں آجائے/سچ یاجھوٹ کی طرح/کسی برساتی نالے
میں بہنے لگے/۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/ہم لفظ کوخوشبوکی طرح سونگھیں/جیسے پرانے کپڑوں
میں کسی رفیقِ بدن کی مہک/لفظ کوکھولیں/جیسے نومولودبچّہ آنکھیں کھولتاہو/لفظ کو چُومیں/جیسے
مدرٹریساکے ہاتھ/اپنے دونوں کان اورسرکوگُھماکر/لفظ کو دیکھیں/جیسے کوئی شعلہ/زمین،مریخ اور
زہرہ کے درمیان/چکّرکاٹ رہاہو/لفظ کو سوچیں/اپنے سراور پاؤں کی خاک میں/ لفظ کوسُنیں/سُرخ آنکھوں سے/خوردبین میں جُھک کر /کانچ کی سلائڈمیں۔۔۔/میں چاہتاہوں ہم لفظ کوانگلیوں
میں تھام کر/(معنی کی نوک پر)/آہستہ سے گھمائیں/اس طرح کہ لفظ/(پہلے سمٹے۔۔۔)/
کائنات کامحوربنے/(پھراس طرح پھیلے)/مجھے اورتمھیں۔۔/ ہرشے کو ایک ہی دائرے میں محیط کرلے۔۔۔/لیکن یہ کیسے ممکن ہے/جب فضااتنی کثیف ہو/توایساکریں/آؤشہرکی سڑکیں دھوئیں/
نئے جنگل اُگائیں/لفظ جس شاخ پرجس رنگ میں بیٹھاہے/اُسے وہیں بیٹھارہنے دیں!!
(شعری مجموعہ’’دورکنارا‘‘ص۔۸۹۔۸۷)
مصحف اقبال توصیفی کی خواہشات پر روشنی ڈالنے والا ایک ایک مصرعہ لفظ کی طہارت اور پُروقاریت کابوسہ لینے کے لیے احساسات وخیالات کے باوضو رہنے کی دلالت پیش کر رہا ہے۔لفظ کو چھونے ،اُس کے لمس کو محسوس کرنے میں ان کی چاہ نے لفظ کی عظمت اور تقدس کو بامِ عرش تک پہنچا دیاہے۔ لفظ کوآلودگی سے بچانا، شاعری کی فضا کومبتذل نہ ہونے دینے کی طرف اشارہ ہے۔ ایک اور نظم جس کا عنوان ہی ’’ایک نظم‘‘ ہے، اس میں شاعرنے لفظی طہارت کا خیال رکھتے ہوئے ایک نصیحت آمیزگفتگوکے ذریعہ ہمارے کانوں کے چلمن میں نسیم سحری کے ٹھنڈے جھونکوں سے نازک سی حرکت پیداکرنے کی کوشش کی ہے کہ دوانسانوں کے درمیان،جن کے بیچ قرب کی دیوارمنہدم ہو چکی ہے، کبھی کبھی کسی بات کا مفہوم الجھ کرایک کے جلتے ہوئے ہونٹوں پر شعلہ بن جاتاہے،پھر بھی رشتے کی پاکیزگی ان سلگتے ہوئے بولوں کو شبنمی لباس میں ملبوس کردیتی ہے جس سے بات کا جسم عریاں نہیں ہونے پاتا، اور نہ ہی کسی تیسرے کے ٹوہ میں لگے رہنے والے عمل میں کامیابی ملتی ہے، یعنی لفظی شان کی خلاف ورزی نہ کیے جانے کے سبب شکایتوں سے پُر معاملہ بھی پیدا ہوتے ہی اپنا حل تلاش لیتا ہے، ملاحظہ فرمائیے ایک بہترین نصیحت سے معمور نظم جو قاری کے قلب کو احساس کے عطر سے معطر کیے جانے کی صلاحیت رکھتاہے:
جانے کس بات کا مفہوم الجھ کر اکثر/تیرے جلتے ہوئے ہونٹوں پہ سلگ اٹھتاہے/تیرے ہونٹوں سے مرے کانوں تک/۔۔۔بول ملبوس ہوئے/۔۔۔کان پردہ ہوئے دیوارہوئے/بات کے جسم کو عریاں نہیں دیکھا میں نے/جانے کیا بات تھی،کیاتونے کہی، میں نے سنی/کون کہے۔۔۔؟!!
(شعری مجموعہ’’فائزا‘‘نظم’’ایک نظم‘‘ص۔۱۹)
تخلیقِ انسان کی حقیقت سے آگاہی ایک ایساہی مشکل امر ہے،جیسا حقائقِ خداوندی کے رُخ پر آویزاں دبیزپردے کو ہٹانا، یہ ایک ان سُلجھی پہیلی ہے، جس کو سلجھانے کی بے طرح کوشش میں انسان ہمیشہ سرگردانِ عمل ہے، مگرہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جہاں سے اس سفر کی ابتدا ہوتی ہے، چندساعتوں کے بعد لاکھ ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کو وہیں کھڑا پاتا ہے۔ہاںمگر بے انتہاکوششوں کے بعد نامعلوم منزل تک رسائی کی خوش فہمی کچھ پل کے لیے ایک فاتح کی کیفیات کااحساس ضرور دلاجاتی ہے،مگر اگلے ہی پل پیچیدے تصوّرات سے ہم کناری کا تلخ تجربہ، شاہانِ وقت کے روبرو گستاخ عوامل کے سبب احساسِ ندامت کے پسینے سے شرابور کر جاتاہے۔ باوجود اس کے ہر کوئی اپنی طرح سے ’’انسان‘‘کاتعارُف پیش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اس میدان میں بڑے بڑے دانشوروں، سائنس دانوں کے ساتھ ساتھ شاعروں نے بھی اپنی قسمت آزمانے کی کامیاب کوشش کی ہے، مصحف اقبال توصیفی نے بھی اپنی ایک نظم’’انسان‘‘میں، دنیا جوبذاتِ خود ایک سیّارہ ہے، کے روبرو غبّارے کی سی حقیقت رکھنے والے انسان کو ایک تشبیہاتی سیّارے میں منتقل کر کے دونوں کے آغاز، درمیانی سفر اور انجام میں مشابہت پیدا کی ہے جو قاری کو ایک نئے آہنگ سے آراستہ ،معلوم تجربے سے ہم کنار کرتا ہے۔ نظم’’انسان‘‘:
ایک سیّارہ دنیاکا/ایک غبارہ۔ایک تابع سیّارہ/میری سانسوں کا/گھوم گھوم کرسارے آکاش
کو دیکھیں/ہم دوسیّارے/(جب سے میں نے آنکھیں کھولیں)/لیکن ڈرلگتاہے/جانے کب
اپنے محورسے ہٹ جائیں/ٹکرائیں/آخروہ دن آئے گا/جب میرے جسم کا رشتہ میری سانسوں
سے کٹ جائے گا/جب یہ غبارہ پھٹ جائے گا/پھر کوئی مجھ جیسا دھرتی آکاش،سمان
کہاں ہوگا/پھر میرا نام نشان کہاں ہوگا/پھر کوئی تجھ سا مہان کہاں ہوگا۔
(شعری مجموعہ’’رات خیالوںمیںگُم‘‘ص۔۲۱)
انسان اپنی ذات کے آگاہی کے اس پُرخطرسفر میں ایک نامعلوم راستے کو اوڑھے ہوئے اپنے قدموں کے نشان تو چھوڑتا جا رہا ہے مگر اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں اپنی انانیت کی خوش فہمی میں اکڑے ہوئے دبنگ اور آوارہ ذات کی خودسری ایک کٹی پتنگ کی طرح لڑھکتے لڑھکتے تباہی کی کگار تک پہنچ جاتی ہے۔ بیرونِ سیاحت کی تباہ کن موجیں اندرونِ سیاحت کے پُر خطر تلاطم کے روبرو اکثر و بیشتر بونی نظر آتی ہیں،کیوں کہ انسان کا پوری دنیاکو اپنے نظریاتی دائرے میں قید کر لینا مشکل تو ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، اس کے بر عکس اندرونِ سفرکی سرگردانی میں انسان اپنی ذات کی تاریکی میں ہی بھٹک کر رہ جاتاہے۔اپنے گناہوں اور بے گناہی کے بیچ ذات کایہ نامعلوم سفر نجات فراہم کرے گا یاتباہی کا سبب بنے گا،یہ بھی معلوم نہیں۔ایک اور نظم بعنوان (شاذتمکنت کی نظم کا ایک مصرعہ) ’’سیاحتِ ذات پُر خطر ہے‘‘میں اپنی ہی ذات کی سیاحت کے پُر خطر تجربات کے رُخ سے نقاب اُٹھاکر پیچیدہ ترین تصورات کی باریکیوں کو اپنی استعاراتی صلاحیت کی مدد سے شاعر نے سہل ترین بنا دیاہے،ملاحظہ ہو:
میں آوارہ،خودسر،دبنگ/ہوائے ہوس اور رضائے الٰہی کے بیچ/پھڑپھڑاتی/کٹی اک پتنگ/
نجات اور اپنی تباہی کے بیچ/کہاں جارہا ہوں مجھے کیا خبر/کبھی ڈاؤن ٹاؤن کی اس سب سے اونچی
عمارت کے روشن مناروں/کبھی ان ستاروں کے مانند/جومیری آنکھوں میں پل بھر کو روشن رہیں
اور خود ہی بجھنے لگیں/ اپنے سارے گناہوں کے اور بے گناہی کے بیچ۔
(شعری مجموعہ’’رات خیالوں میں گُم‘‘ص۔۲۵)
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حسّاس انسان کی حساسیت اسے یادوں کی اوبڑکھابڑ پتھریلی راہوں کی سیر کرا جاتی ہے،اس وسیع ترصحرائی سفر میں ہزار چوٹوں ، ہزار زخموں کی تازگی کو محسوس کرتے ہوئے اس کے قدم لڑکھڑاجاتے ہیں،درد سے چور یہ جان لیوایادیں اسے تھکا دیتی ہیں، اپنے ہی اندر چلتے چلتے وہ بے طرح تھک جاتا ہے۔ ایک نظم بعنوان’’صحراصحرا‘‘میں شاعرکس طرح یادوں کے اس پُر تھکن سفر کی سیر کراتاہے،ملاحظہ ہو:
میں کیوں ایک کمرے میں۔۔ایک کرسی پربیٹھا/اپنے اندرچلتے چلتے تھک جاتاہوں/بچپن کی تصویریں۔۔یادیں/گھٹنے میں جو چوٹ لگی تھی/ہاتھ سے مٹّی چھان کے بہتے خون کو کیسے روک لیاتھا/وہ مکتب،کالج،دفتر،گھر۔۔۔/اوبڑکھابڑراستے/گرتے پڑتے کیا بتلاؤں/کیسے اپنے گھر آیا ہوں/کن بازاروں سے گزراہوں/ہر چہرہ تھا، پتھرکا/ہر دُکان تھی شیشے کی/ہر دیوار سے ٹکرایاہوں/اب اپنے زخموں کو گنتا ہوں/اور وہ چوٹیں کہاں چھپی بیٹھی ہیں/جن کالہو/اندرہی اندربہتاہے/اک کرسی پر بیٹھا/دیوار ودر کو تکتے/اک کاغذپر۔۔صحرا۔۔صحرا۔۔لکھتے/میں اپنے ہی اندر/چلتے چلتے تھک جاتاہوں۔۔!!
(شعری مجموعہ’’ستارہ یا آسمان‘‘ص۔۱۲۱)
یادوں کا یہ سفر ہزاروں، لاکھوں، کروڑوںبرس میں بکھرے وقت کے نیم دائرے میں محیط زمیں کے گزرے ہوئے کل کا ہی ایک حصّہ ہے جس میں ہمارا کل بھی موجود ہے، یہ وقت جس نے خوف ناک اجگرکی طرح ہمارے ماضی کو نگل لیا ہے، ہمارے گزرے ہوئے کل کا لہو اسے سیراب کررہاہے، اس کے کوہِ کاف کے خزانے میں ہمارے ہی لہو کے سکّے چم چما رہے ہیں، یہ ہمارے ہی آباواجداد کے لہو ہیں جنہوں نے گزرے ہوئے کل کے خاکی جسم پر سُرخ پیوندکاری کی ہے،یادوں کے دھاردار اشکوں سے تابندہ چراغ، جو ماضی کی بارونق آسمانوں میں چاند و ستارے بن کر ٹمٹما رہے ہیں،چاند میں چرخہ کاتتی بڑھیا کا تصور کہیں نہ کہیں ہماری ہی مائیں ، بہنیں اور بیٹیوں کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ توصیفی کی نظم’’نیم دائرے‘‘میں گزرے ہوئے کل کی اژدہانما تاریک کنویں میں یادوں کے ٹمٹماتے جگنوؤں کا منظرقاری کے قلب و ذہن کو منتشر کرنے میں کامیاب نظر آتاہے۔نظم’’نیم دائرے‘‘:
ہزار، لاکھ،کروڑوں برس میں بکھرا وقت/زمیں کے گزرے ہوئے ’کل‘ کا ایک حصّہ ہے/زمیں کے گزرے ہوئے’ کل‘ میں میرا ’کل‘بھی ہے/میرے لہوکے بھی سکّے ہیں ان خزانوں میں/زمیں نے جن کو لٹایاہے آسمانوں میں/وہ ننھے ننھے ستاروں کے ٹمٹماتے چراغ/جومیرے اشکوں سے تابندہ ہیں۔وہ گول سا چاند/وہ چرخہ کاتتی بڑھیاجو اس میں بیٹھی ہے/وہ میری ماںکی طرح ہے۔وہ میری بیٹی ہے!!
(شعری مجموعہ’’دورکنارا‘‘ص۔۲۴)
آج کی اس مصروف ،دوڑتی بھاگتی زندگی نے انسان کو عربوں کھربوں کی بھیڑمیں تنہا کر دیاہے،ایک لامتناہی تنہائی ہے جس کا سِرایا تو انسان کی کھنڈر نماذات میں یا اس بھیڑ کے ریلے میں کہیں معدوم ہو چکا ہے۔وقت کے ساتھ قدم تال کرنے کی حسرت نے انسان کو ایک بے حس مشین میں تبدیل کردیا ہے،اس لاحاصل چاہت نے انسان کو بجلی کی رفتار تو بخش دی مگر بجلی کی تباہ کُن چمک نے اس کی ذات کو ایک ایسے کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے جہاں ہر سو، ہر لمحہ ہوکا عالم رہتاہے۔اپنی ہی ذات کی تباہی نے اسے مسلسل تنہائی کا شکار بنا دیاہے،آس پاس موجود رشتوں کا شور اس خاموش تنہائی کے دائرے کو پار نہیں کرپاتا، لاکھ کوششوں کے باوجود اپنے ہونے کا احساس نہیں دلاپاتا، ان دیونماکھنڈروں میں اکیلا بھٹکتا ہوا انسان مسلسل تنہائی میں مبتلا ہو جاتا ہے،جس کا کرب اسے اور تنہا، اور تنہا کر جاتا ہے، اس تنہائی سے نجات کی ہر کوشش اسے تنہائی کی اور گہری کھائی میں پہنچادیتی ہے، جہاں اس کی اپنی چیخیں ایک قیامت کا سا ہنگامہ برپا کر دیتی ہیں،اس ہنگامے کا شور کب اس کے بیرونی تعلق کو منقطع کر دیتاہے،اس کی بھی اسے کوئی خبر نہیں رہتی،وہ اپنی ہی ذات کے دہاڑتے ہوئے بھیانک سمندرکی تاریکی کا قیدی بن جاتا ہے، اس گہری تاریک تنہائی سے ابھر کر اپنے بیرون میں جھانکنا بھی اس کے لیے ناممکن سا ہو جاتا ہے۔ پے درپے نازل ہوتی ہوئی مسلسل تنہائیوں کو شاعر نے اپنی نظم’’تنہائی‘‘میں کتنے ہی بہترین استعاراتی و تشبیہاتی پیرائے میں بیان کیاہے،غور فرمائیے:
میری تنہائی ایک تسلسل ہے/میری تنہائی ہے کہ ساحل ہے/جس کو امواجِ بحروطوفاں نے/
لاکھ چاہاکہ نذرِآب کریں/لیکن ہربار یوں ہوا جب بھی/کوئی ساحل جو ریگِ بحرہوا/آگیا
دوسراکوئی ساحل/اوراس طرح سیکڑوں ساحل/ایک کے بعدایک آتے ہیں/اورطوفان
ہارجاتے ہیں/ میری تنہائی موم ہے شاید/ جو پگھلتی ہے موم ہونے کو۔
(شعری مجموعہ’’فائزا‘‘ص۔۱۵)
واہ!! کتنی پُر اثر نظم ہے،جس میں شاعر نے متضادکیفیات پیداکرکے قاری کو غور وفکر میں مبتلا کردیا ہے، جہاں تنہائی کو ساحل سے تشبیہ دی گئی ہے تو وہیں اس تنہائی سے نجات دلانے میں سرگرداں عوامل کا استعارا امواجِ بحر وطوفاں سے لیاہے، عام طور پر ساحل مثبت اور امواجِ بحر و طوفاںمنفی معنوں میں تشبیہات کے طور پر لائی جاتی ہیں،مگر شاعر نے یہاں روایت سے الگ ہٹ کر ایک کو دوسرے کی جگہ رکھ کر نظم میں ایک نئی تازگی پیدا کردی ہے۔یہاں ایسا لگ رہا ہے کہ یکے بعد دیگر رونما ہونے والی تنہائیوں نے شاعر کو اپنا عادی بنا لیاہے ،شاعر ان سے خوفزدہ نہیں ہے ،نہ ہی ان کی مسلسل آمداس کے لیے بوریت کا سبب بنتی ہے،نظم کے اس ٹکڑے میں کہیں پر بھی اداسی کی ہلکی سی بھی جھلک دکھائی نہیں دیتی،آخری دو مصرعوں میں شاعر نے تنہائی کے اس سلسلہ وار نازل ہونے والے عمل کو موم کے پگھلنے سے تشبیہ دی ہے،جو پگھل کر پھر سے موم میں تبدیل ہو جاتی ہے،اس تنہائی کی تباہی سے پیدا ہونے والاملبہ ایک نئی تنہائی کی تعمیر کا نیو بن جا تاہے۔ان دو مصرعوں میں قاری فوراًہی ایک متضاد تجربے کا سامناکراتاہے کہ تنہائی کے تسلسل نے شاعر کوبے انتہاکرب میں مبتلاکردیاہے اور اسے اس بات کا بھی احساس ہے کہ وہ اس کے آگے پورے طور پر بے بس و لاچارہے۔ مسلسل تنہائی کے ساتھ ساتھ چلنے والی مسلسل مایوسی کا کرب قاری کے جذبات کو مشتعل کرجاتاہے۔
ایسی تاریک تنہائی میں چمکنے والے جگنو کسی کی موجود گی کا احساس تو کرا جاتے ہیں مگر وہ کوئی، جو اتنے قریب رہ کر بھی اتنا دور ہوتاہے کہ اس کی موجودگی کا احساس بجائے تنہائی کے کرب کوکم کرنے کے اس میں اضافے کا ضامن بن جاتا ہے۔کسی اپنے کا صحیح معنوں میں دور چلے جانا، اس دوری کے ہونے کا جائز جواز پیش کرتاہے جسے انسانی ذہن قبولتابھی ہے۔ مگر کسی کے پاس ہوتے ہوئے بھی انسان اگر اس پاس کی دوری کے کرب ناک احساس کا تجربہ کرے تویہ نہایت ہی تکلیف دہ حالت ہوتی ہے جو انسان کو مزید کرب میں مبتلا کر دیتی ہے۔انسان اپنے آس پاس سے ہی نہیں خود سے بہت دور چلا جاتا ہے۔پھر تنہائی کے گھنے جنگلوں میں اپنی ہی تلاش میں بھٹکتا پھرتا ہے۔توصیفی کی ایک نظم’’پاس کی دوری‘‘کو پڑھ کر ہمیں کہیں نہ کہیں یہ محسوس ہوگا کہ یہ تو میری ہی باتیں ہیں۔ہمارے ساتھ بھی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے جسمانی طورپر بہت پاس ہو نے کے باوجود ذہنی دوری اس کے ہوتے ہوئے بھی تنہائی کا احساس کرا جاتی ہے۔نظم ملاحظہ فرمائیں:
وہ سوتی ہے/اورمیں اب تک جاگ رہاہوں/اس کا سر تکیے سے ڈھلکا/میں نے آکر
/آہستہ سے پھر اس کا سرتکیے پررکھا/۔۔۔۔۔۔/وہ جومیری باہوں کے حلقے میں
سوتی ہے/وہ کیا جانے پاس کی دوری کیا ہوتی ہے۔
(شعری مجموعہ’’رات خیالوں میں گُم‘‘ص۔۴۵)
اس نظم کی کڑی ہم ان کی نظم’’ایک دن اور۔۔۔‘‘اوردوسری نظم ’’ہمزاد‘‘کے آخری ٹکڑے کے ساتھ جوڑسکتے ہیں۔اس نظم میں شاعر تنہائی کو کم کرنے کی چاہ میں کسی کی آمد کی امید کا دامن تھامے اپنی تنہائی کے ہمراہ اس بے اختیار سی زندگی کے شب و روز کو جی رہاہے۔اس طرح اس کے روز کا معمول یہی بن جاتا ہے کہ یوں ہی روز کی طرح دن بیت جاتا ہے ،رات بھی نکل جاتی ہے،مگر کسی کو آنا ہے نہ کوئی آتا ہے۔مانوس سی راہوںپر چلتے چلتے یوں ہی شب وروز گزرتے جاتے ہیں۔اسی طرح تنہائی کی چادر اوڑھے کسی کی آمد کی حسرت لیے کب آفتابِ زندگی مغربی اُفق پر غروب ہو جاتا ہے،پتا ہی نہیں چلتا۔نظم ملاحظہ فرمائیے:
آنکھیں ملتے/جب سورج نکلاہم جاگے/اپنی سانسوں کی دستک پر دروازہ کھولا/اپنے سائے
کے پیچھے بھاگے/دن بھر/میرے ساتھ رہی سڑکوں پر/میری تنہائی/رات ہوئی رستے
میں/اک ڈھابے پر ہم دونوں نے کھاناکھایا/دیر گئے گھر لوٹے/میں نے کچن میں جاکر/چائے
بنائی/اس نے سگریٹ سلگایا۔۔۔/ساری رات ہی ہم دونوں نے/جاگ کے کاٹی
/آج کادن بھی یوں ہی بیتا/آج کی شب بھی/کوئی نہ آیا!!
(شعری مجموعہ’’دور کنارا‘‘نظم’’ایک دن اور۔۔۔‘‘ص۔۹۰)
جُزمیرے یہاں کوئی نہ ہوگا/یاں کون ہے غم گُسار میرا/تنہائی
کے ٹوٹے آئینے میں/میں دیکھ رہا ہوں اپنا چہرہ!
(شعری ،مجموعہ’’فائزا‘‘نظم’’ہمزاد‘‘ص۔۲۰)
موت ہرذی روح پربرحق ہے، یہ ایک ایسی سچّائی ہے جس سے کوئی بھی اپنی نظریں نہیں چُراسکتا، چند ساعتوں میں اپنے انجام کو پہنچ جانے والی اس زندگی میں الجھ کر انسان زندگی کی طرح دنیا کی دوسری سب سے بڑی سچّائی کو یکسر فراموش کر دیتاہے۔ہم کسی سرائے یا ہوٹل کی من موہنی دُنیا میں کھوکر اپنے اصل مکان کی حقیقت کو بھلادیتے ہیں جب کہ ہماری ہی نظروں کے سامنے ہر روز سرائے میں موجود ایسی ہی نیم فراموش زندگیوں کے عارضی خیموں کو تہہ و بالا کردیا جاتاہے، انہیں نقلِ مکانی کی نوید سُنادی جاتی ہے،سارے رشتے ناطے یوں ہی طاق پہ دھرے رہ جاتے ہیں، پیڑوں سے گرنے والے زرد پتّوں کی طرح اس دُنیا کی سر سبزی کو متاثّر کرنے والے ہر زرد پتّے کی پیشانی پر اخراج کا لیبل چسپاں کر دیا جاتاہے، پھر کیسی زندگی،کیسی دُنیا، کیسی خواہشیں، کیسے رشتے ، سب کچھ چشم سے بہتی ہوئی زردی مائل حسرتوں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔مصحف اقبال توصیفی نے زندگی کے جتنے رنگارنگ کھیل تماشوں پر اپنے قلم کو متحرک رکھاہے اتنا ہی انہوں نے موت کے کنسیپٹ کو بھی اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے اپنی اس طرح کی تخلیقات میں قبل از موت کی عارضیت اور بعد از موت کی دائمیت کو یادکرکے فانی دُنیاکے نشے میں چُور عقل و شعور پر تازیانے برسائے ہیں۔ایک نظم ’’اک انجان بستی میں‘‘پر غورفرمائیے جس میں شاعر اس فانی اور عارضی حسن میں ملبوس دنیاسے اُس کی سرابی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے سوالات کے بوچھار کر نے کی بات کررہا ہے:
دنیاتجھ سے پوچھوں گا/کیوں پھیلائے/مجھ پراپنے جال/توکیوں میرے آگے ایسی بن ٹھن
کے آئی/میں نے اپنی سدھ بدھ بسرائی/میرے دل میں/بس تیراہی ایک خیال/تیری گٹھڑی
میں/میرے روزوشب کے/سارے آئینے/میرے خدو خال/میرے ہجر و وصال/
دنیاتجھ سے ملوں گا/اک انجانی بستی میں/تیرے محور۔تیرے ثقل کے مرکزسے/
نوری سالوں دور۔/دنیاتجھ سے ملوں گاضرور/ اور کروں گا تجھ سے کئی سوال!
(شعری مجموعہ’’رات خیالوں میں گُم‘‘ص۔۵۰)
اس دُنیاکے سراب نُماکھیل تماشوں میں شرکت کی خواہش، انسان کوخودپسندی اوربے جا انانیت میں مبتلاکرکے، انسانیت کے قتل کی سازشوں میں شریک ہے،ایسی بے جاعادتوںمیں ملوث زندگی انسان کو ظاہرپرستی میں مبتلاکرکے شاطر، دھوکے بازاور کاہل تک بنادیتی ہے۔ بظاہر وہ اپنی اناکی تسکین کے لیے سامنے والے کو دھوکہ دے رہاہوتاہے،مگر اصل میں یہ عادتیں دھیرے دھیرے خاموش زہر کی طرح اس کے ہی فنا کا سبب بن جاتی ہیں۔ خودپسندی اور بے جاانانیت انسان کو عقل سے اندھا بنادیتی ہیں۔اس اندھی تاریکی میں وہ دیکھ نہیں پاتا کہ خود اس کی اپنی ہی عمارت آہستہ آہستہ ڈھے رہی ہوتی ہے۔ اپنی ہی فطرت سے دورہوکرانسانیت کی حقیقت کو فراموش کرکے وہ اپنی ہی ذات کو اندر سے زنگ آلود بنادیتاہے۔ دھیرے دھیرے رونماہونے والی ان تبدیلیوں کے قدموں کی چاپ، خودپسندی کے بے ہنگم سے شور تلے دب کر رہ جاتی ہے۔وہ محسوس ہی نہیں کرپاتا کہ کب اس کے نام کی معنوی حقیقت بے جا انا کے بھاری بھرکم بوجھ تلے دب کر اپنی اصلیت کھو بیٹھتی ہے۔ ایک نظم ’’زندگی‘‘میں انسانیت کی اس تخریب کا نقشہ غورفرمائیے:
’’عادتیں/میری قتل کی سازش میں شریک ہیں/میں ان کے ساتھ راہ ورسم بڑھاتاہوں/(زندہ رہنے کے لیے)/صبح اٹھ کر سیر کو جاتاہوں/شیو(shave) کرتا ہوں/کھانے میں احتیاط/پہلے گوشت،مرغن غذائیں شوق سے کھاتاتھا/اب ذرااچھی نہیں لگتیں/چائے میں شکر؟/ہرگزنہیں/کچھ کام نہیں کرتا/لیکن دفتر وقت پر پہنچ جاتا ہوں/باس کی خوشامدکرتاہوں/ایسے کہ خوشامدنہ لگے/اپنی انابھی رہ جائے/دفترسے ٹھیک دوبجے/بیوی کوفون کرتاہوں/شام کو گھرلوٹتاہوں/سبزی اورپھل خریدتے ہوئے/عادتیں۔/ مجھے محبت بھری نگاہ سے دیکھتی ہیں/مجھے روزانجکشن دیتی ہیں/خودپسندی اور بے جا انانیت کا/ایک ایسے زہر میں بجھاکر/جودھیرے دھیرے اثرکرے/مجھے قتل کرنے کا منصوبہ اب بھی وہی ہے/لیکن میری عمر بڑھادی گئی ہے/مجھے فطرت سے دورکرکے/میری آزادی۔ میراجنگل مجھ سے چھین کر!
(شعری مجموعہ’’رات خیالوں میں گُم‘‘ص۔۸۶)
مگر جب انسان اپنی شکست و ریخت سے آگاہ ہوتاہے تب پیچھے مُڑکردیکھناناممکن ہوجاتاہے،جو وقت بیت چُکاہوتاہے اُسے پھر سے واپس بھی تو نہیں لایاجاسکتا۔اب وہ اُس موڑپہ کھڑارہتاہے جہاں ہر’ لمحہ‘ منہ کھولے اُسے نگل جانے کی ٹوہ میں پھُنکار رہاہوتاہے جہاں ایک مستقل خاموشی گھنی تاریکی میں کھڑی اس کی منتظر رہتی ہے۔اس تاریک صحراکا دیدار کرانے والی دو نظمیں’’موت‘‘اور ’’چُپ کے اندھیرے میں‘‘ملاحظہ فرمائیے:
اک ادھ کھلی کھڑکی/کچھ مبہم سے سائے/ایک سونی سڑک پر/پیڑوں سے زرد پتّے/گررہے ہیں/پھولوں
کی مہک بھی آرہی ہے/ابھی رات باقی ہے/اوردن بھی/یہ کیسے ہوسکتاہے؟/لیکن ایساہی ہے
/عجیب منظرہے/میں اس ادھ کھلی کھڑکی کوتکتے تکتے/رات اوردن کی ان دولکیروں کے بیچ چلتے
چلتے/ان فاصلوں کوپاٹتے/تھک گیاہوں/ہواتھپکیاں دے رہی ہے/ادھ کھلی کھڑکی/رات اور
دن/آپس میں گڈمڈ ہوگئے ہیں/ایک آواز/مجھے بلارہی ہے/مجھے نیندآرہی ہے ۔۔
(شعری مجموعہ’’رات خیالوں میں گُم‘‘نظم ’’موت‘‘ص۔۸۸)
عجب شورمیں/اک آوازاُبھری/سُنو،اس سفرپر اکیلے ہی نکلے تھے تُم/اوراب/اکیلے ہی جانا
ہے تُم کو / اور یہ ہم سفر جو تمہیں زندگی سے بھی پیارے ہیں/یہ ساتھ توچند
سانسوں کاہے/(تم نہیں جانتے۔۔۔؟۔۔۔)/میں چُپ کے اندھیرے میں گُم/ابھی
اتنے چہرے مرے پاس تھے/پیڑ۔۔بازار۔۔دفتر۔۔سڑک۔۔روشنی میں نہائی دُکانیں
/مراگھر۔۔وہ آنگن۔۔یہ ہرشے کہاں کھوگئی/مری ماں۔۔۔ مجھے یادہے/مجھے پالنے
میں جھلاتے جھلاتے/نہ جانے اُسے کیسے نیند آئی/خود سوگئی۔
(شعری مجموعہ’’رات خیالوں میں گُم‘‘نظم’’چُپ کے اندھیرے میں‘‘ص۔۸۱)
مصحف اقبال توصیفی اپنے منفرد اسلوب اور آسان و عام فہم الفاظ میں عجائباتِ موت و حیات ،زندگی و دنیا سے جُڑے ہوئے پیچیدہ تصورات وفلسفیانہ حکایات کانقشہ کھینچنے میں مہارت رکھتے ہیں،اُن کی شاعری ہمیں خود سے ہم کلامی کا موقع فراہم کرتی ہے، ایسا لگتا ہے یا تو شاعر خود ہم سے باتیں کررہا ہے یا ہم خوداس سے ہم کلام ہیں،ایسی شاعری جو شاعر و قاری کے درمیانی دوری کو ختم کر کے ایک مضبوط رشتے کی بنیاد ڈالتی ہو،اسے بڑی شاعری کے لقب سے سر فراز کیا جاسکتا ہے۔ مصحف اقبال توصیفی نے شاعری کی ابتدا آزاد نظموں سے کی ،اس صنف میں استعاراتی وتشبیہاتی زبان کی مددسے دُنیا ومافیہا کے بہترین گُل بوٹے کھلائے،پھر آہستہ آہستہ قاری کے ساتھ اپنے ریشمی لمس کو برقرار رکھتے ہوئے غزل کو بھی اپنی تخلیقی عمارت کا مکین بنالیا۔یہاں پہ بھی اپنی اسلوبیاتی انفرادیت کوبرقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی غزلیہ شاعری بھی قاری کو ہم خیالیت و ہم رجحانیت کی خوشبو سے تروتازہ وشاداب کر دیتی ہے۔قاری کو یہ احساس دلاتی ہے کہ شاعر کی شاعری میں ان کی اپنی ہی روداد کے چند ایک مشابہتی نکتے پوشیدہ ہیں، شاعر اپنی نہیں پورے جہاں کی باتیں کررہاہے۔ اپنے ہی گلی، محلّے، گاؤں، نُکّڑ میں رونُماہونے والے واقعات میں اپنے قلبی لہو کی سینچائی سے اپنی ہی زمین کاپیداوار بنا دیتاہے۔ اُن کی غزلوں کے نگارخانے سے چنندہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
کہاں گئے یہ مرے خال و خد خداجانے
یہیں تو تھا وہ مرا آئینہ نہیں ملتا
٭
خدا یہیں ہے اگر ہے، بتوں نے سمجھایا
تودیکھ آئے حرم میں خدا نہیں ملتا
٭
عجیب بازارہے یہ دنیا
دُکاں تری کاروبار میرا
٭
آنکھیں خشک تھیں لیکن میں تو پاؤں سے سرتک بھیگ گیا
اک آنسونے میرے اندر آج عجب برساتیں کیں
٭
سورج کی کرنوں کو باندھاشام کی میلی چادرمیں
اُس عارض کی صبح سے پیداہجرکی کالی راتیں کیں
٭
ہزاروں آئینے اور ایک چہرہ
تو پھر کیسے نہ یاد آئے گا کوئی
٭
اب یقیں آیا میں اُسی کا ہوں
میں کسی اور ہی گمان میں تھا
٭
اس دل میں رہیں گے ہم وہ بولی
میں نے کہا آپ کا مکاں ہے
٭
ملنے کے لیے ہم سے جب کوئی خوشی آئی
اک غم نے کہاہم بھی آداب بجالائیں
٭
یہ روشنیاں اتنی ہم خود کو کہاں ڈھونڈیں
ہلکا سا اندھیرا ہو تو ہم بھی نظر آئیں
٭
ہاں اس کو بھلا دوگے لیکن یہ نہیں سوچا
کیاآگ لگائی ہے اک آگ بجھانے میں
٭
بس ذرا رہنے لگے ہیں ہم اُداس
ورنہ تم سے دور اچھے ہی رہے
٭
پہلے گھر گھر تھی عام جنسِ وفا
شہر کی اب کسی دُکاں میں نہیں
٭
ہر ورق تجھ کتاب سا چہرہ
تجھ کو ہر سطر بولتا دیکھوں
٭
اک سفر تھا چلو تمام ہوا
اب نہ گھر تھا نہ کوئی دفتر تھا
٭
میں نہ کہتا تھا دل میں مت جھانکو
تم نے دیکھے نہیں ہیں ویرانے
٭
کیا پتھر کی بھاری سل ہے،اک اک لمحہ ماضی کا
دیکھودب کر رہ جاؤگے اتنا بوجھ اُٹھانے میں
٭
نکالو تم بھی کوئی راہ، ڈھونڈیں کچھ سبیلیں ہم
بہانہ کوئی مل جائے تو کچھ دن اور جی لیں ہم
٭
درجِ بالااشعار مصحف اقبال توصیفی کو ہمارے اور آپ کے درمیان لا کھڑاکرتے ہیں۔احساس دلاتے ہیں کہ شاعر اسی زمین کی پیدائش ہے اور اسی زمین کی ہی بات کرتاہے، ہمارے بیچ کھڑے رہ کر ہمیں زندگی سر کرنے کے طریقے بتا رہا ہے۔ ایک مسیحابن کرہماری الجھنوں کو سلجھارہاہے، دوست بن کر ہمارے دُکھ بانٹ رہاہے، جس کی باتوں سے اپنے پن کی خوشبو آتی ہے، ایسے زمینی شخص کے متعلق شمس الرحمٰن فاروقی کے آرا کو یاد کر کے اپنے مقالے کو ختم کروں گا:
’’اگر ایساکوئی شاعرہوجسے ہم اپنے دوست کی طرح نگاہِ محبّت سے دیکھ سکیں،جس سے ہمیں خوف نہ آئے،جو ہمیں مرعوب نہ کرے،لیکن جو ہمیں وظیفۂ شام وسحرکی طرح زندگی کرنے کے نکات بتائے، جوہمیں اداس بھی کرے اور کبھی کبھی ہنسا بھی دے، جسے دیکھ کرہم زندگی کی طرف نگاہِ گرم،یا نگاہِ تمسخر سے دیکھنے کا حوصلہ کر سکیں،اگر ایسا کوئی شاعر ہو جوشعرنہ کہتاہو، بات کرتاہو، تواس کا نام مصحف اقبال توصیفی ہوگا۔‘‘(شعری مجموعہ’’رات خیالوں میں گُم‘‘بیک کور)
٭٭٭