ڈاکٹر احسان اللہ دانش
معاصرشعراء میں ساحر لدھیانوی کامقام
ساحر لدھیانوی ترقی پسند شعراء میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔انہوںنے اپنی نظموں میں رومان واحتجاج کی آمیزش سے ترقی پسند شاعری کوایک نئی سمت اور رفتار عطا کی ۔ ان کی احتجاجی نظموں میں تپش اورگرمی کے ساتھ ساتھ لفظوں کاانتخاب اور تشبیہات واستعارات کاجوبرمحل استعمال ہواہے وہ دوسرے ترقی پسندشاعروں کے یہاںکم ہی نظرآتاہے ان کی نظموں میں جو تاثیر نغمگی اورموسیقیت ملتی ہے وہ انہیں مقبول خاص وعام بناتی ہے ۔ ساحر کے احتجاج کادائرہ بہت وسیع ہے ۔ان کااحتجاج عشق کی ناکامیوں سے گزرتاہواسیاسی وسماجی ناانصافی ،انسانی نابرابری اورآزادیٔ ملک جیسے مسائل تک پھیلا ہواہے ۔ ساحر کی بعض نظمیںایسی ہیں جن میں محسوس ہوتاہے کہ رومان اوراحتجاج ایک دوسرے میں ضم ہوگئے ہیں۔ انہوںنے اپنی نظموں میںفرسودہ سماجی توہمات اورہرطرح کے ظلم وجبرکے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ ان کی اہم احتجاجی نظموں میں ’’یکسوئی ،شہکار ،ناکامی ، آواز آدم، چکلے، وہ صبح کبھی توآئے گی ،یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا ،تاج محل ،تلخیاں اورآؤ کہ کوئی خواب بُنیں۔‘‘ وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
ساحر لدھیانوی نے ۸؍مارچ ۱۹۲۱ء کولدھیانہ کے ایک جاگیردارانہ خاندان میں آنکھ کھولی لیکن عالم طفلی سے عالم شباب تک پہنچتے پہنچتے ان کے دل میں ترقی پسندانہ جذبات کاایسا طوفان اٹھاکہ وہ جاگیر دارباپ کے بیٹے ہوتے ہوئے بھی جاگیر دارانہ نظام سے باغی ہوگئے ۔ لہٰذا اس نظام کی آسائشوں اورآلائشوں سے دورہٹ کر انہوںنے دنیائے عزم وعمل میں قدم رکھا۔ لدھیانہ کے مالوہ خالصہ ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اورگورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا۔ حصول تعلیم کے دوران ان کی نظرغلامی کی زنجیروں میںجکڑی ہوئی مادرِ وطن پرپڑی سرشت میں باغیانہ خیالات وجذبات توتھے ہی لہٰذا وہ بدیشی سامراج کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے اپنے کلام کے ذریعہ برق باریاں اورشعلہ پاشیاں کرنے لگے ۔نتیجے کے طورپر ان کی انقلابی نظموں کوفرنگی حکومت نے ضبط کرلیا۔ انہیں اپنے انقلابی جذبات اورترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے بے شمار مشکلات کاسامنا کرناپڑا لیکن اس کے باوجود ساحر کے پائے استقلال میںلغزش نہیںآئی اوروہ متواتر اپنی بلند پروازیوں اورقلمی موشگافیوں سے دامانِ ادب کومالامال کرتے رہے اوراپنے کلام سے تشنگان ِ ادب کی پیاس بجھاتے رہے ۔
پنجاب کے لدھیانہ میں پیدا ہوکر شاعری کی ارتقا ئی منزلیں طے کرنے والے ساحرؔ( عبدالحئی فضل محمد ) ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے وابستہ اشتراکیت کاعلم بردار فیض ،جذبی ، مخدوم ،سردار،کیفی اورمجاز کاہم نواساحرؔلدھیانوی کے نام سے جانے اورپہچانے جارہے تھے۔ان کے مقام ومرتبہ کے وہ سب مشاہیرقائل ہوگئے جواس وقت کی ادبی فضاؤں میں چھائے ہوئے تھے ۔ جن میںمولاناتاجور، حفیظ، ساغر ، ہری چند اختر ،تاثیر ،سالک اور تبسم وغیرہ نے ان کی شاعری کااعتراف کیااورا سے کافی سراہا۔
ساحر ؔکے یہاں رومان وانقلاب کاامتزاج نظرآتاہے وہ اپنے پہلے مجموعہ کلام ’’تلخیاں ‘‘کی ابتدائی نظموں میں خالص رومانوی نظرآتے ہیں البتہ بعد کی نظموں میں ساحر کاانقلابی اوراحتجاجی رنگ دیکھنے کوملتاہے لیکن ان نظموں میں بھی رومان کی چھینٹیں جابہ جا بکھری ہوئی ملتی ہیں ۔گویایہ نظمیںرومان اور انقلاب کی آمیزش سے تخلیق پاتی ہیں ۔ ان نظموں میں ساحر اپنے ابتدائی زمانہ شاعری کے برخلاف براہ راست خطابانہ انداز سے گریز بھی کرتے ہیں جیسے کوئی پختہ کار شاعر اپنے جذبات پرقابو پاتے ہوئے اپنے ولولہ انگیزی خیالات کورومان کے پردے میں پیش کررہاہو۔گویاساحر جب عملی سطح پرتنظیم کے جلسوں میں سرگرم تھے اوراپنی جس اندازکی نظموں کے لیے پہچانے جاتے تھے ’’تلخیاں‘‘ میں وہ بالکل مختلف نظرآتے ہیں تلخیاں کی ابتدائی نظموں میںاس طرح کے بھی اشعار قاری کوحیرت میں ڈالتے ہیں ؎
جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کاخیال
پھرمری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو
تم میں ہمت ہے تودنیاسے بغاوت کردو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کرلو
ساحر ؔ نے جب اپنی مشہور نظم ’’تاج محل ‘‘میں کہا ؎
یہ چمن زار ،یہ جمنا کا کنارہ ،یہ محل
یہ منقش در و دیوار ،یہ محراب ،یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
……میری محبوب ! کہیں اورملاکر مجھ سے
توراجہ مہدی علی خاں نے (مزاحاً ) پیشن گوئی کی کہ :
’’اے دبلے پتلے نوجوان ! لدھیانہ کے ساحر ؔ ! توشاعری بیچا کرے گاتیری تقدیر ’’تاج محل ‘‘ سے وابستہ ہے شاہ جہاں اورممتاز محل کی بے حرمتی کے صلے میں تیرے ملک کے اندھے تجھے آنکھوں سے لگائیں ‘‘
(راجہ مہدی علی خاں کے ایک مضمون سے اقتباس )
راجہ مہدی علی خاں کی یہ پیشن گوئی اگر طنزومزاح کے زمرے تک ہی محدود تھی مگر سوفیصد درست ثابت ہوئی ۔ ساحر نے توشاعری بیچی سوبیچی ،مگر ان کی شاعری نے لاکھوں دلوں کوخریدلیا۔ ساحر کی تخلیق ’’تاج محل ‘‘ خوب خوب مقبول ہوکر نہ صرف زبان زد خاص وعام ہوئی بلکہ ہم عصر شعراء کے ایک بڑے گروہ کوایسا متاثر کیاکہ تقلیدوتتبع میں بہتوں نے ایسی رومانی نظمیں کہیں مگر
؎ نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
والی بات ہوکر رہ گئی ۔کسی ایک کوبھی وہ مقام نصیب نہ ہوا جسے ساحر کے فن کی انفرادیت کاہم پلہ کہاجاسکتا ۔
ساحر نے اپنی ناکام محبت کااظہار اپنی کئی نظموں میں کیاہے لیکن اندازپیش کش اتنا پُر اثر اورپردردہے کہ قاری کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتاہے ’’متاع غیر‘‘ کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں :
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی
یہ بتادے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناؤں کا اظہار کروں یا نہ کروں
نظم ’’قرار ‘‘ کے اس بند کوبھی دیکھیں جس میں انہوںنے اپنی محبت کی ناکامی کااظہار ان الفاظ میں کیا ہے ؎
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوںمیں
اپنے گذرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کارِ تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
ساحر نے نظم ’’چکلے ‘‘میں فرسودہ اورمکروہ معاشرے اوراس کے گھناؤنے ماحول کی نقاب کشائی نہایت مؤثر اندازمیںکی ہے اور ’’ثناخوانِ تقدیس مشرق ‘‘اور ’’خدایان دین ‘‘کوحوااورزلیخا کی بیٹی کے حسن وعصمت کی سوداگری کے یکساں مجرم گردانا ہے :
یہ کوچے یہ نیلام گھردل کشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثناخوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں
یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں
نظموں کی طرح غزلوں میںبھی ان کافن اپنے عروج پرنظرآتاہے ۔جب ساحر لدھیانوی نے کہاتھا ؎
ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں
میں منتظر ہوں مگر تیرا انتظار نہیں
ہمی سے رنگِ گلستاں ، ہمی سے رنگِ بہار
ہمی کو نظمِ گلستاں پہ اختیار نہیں
ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں
ساحر لدھیانوی نے وقت کے ہرتقاضے کوپورا کیا۔بزم ہوتواس کاقلم رومان اور رزم ہوتو ہیجان کے کرتب دکھاتا رہا۔ ہندوپاک جنگ کے موقع پر جب اپنی ضرب قلم سے سردارؔنے سرحد پرسورج کے دوٹکڑے کرکے گرایاتھا اورطلوع صبح فردا کے لیے دعائیںمانگیں تھیںتوساحرؔ نے امن وآشتی کا پیغام دیتے ہوئے کہاتھا :
اے شریف انسانو!
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل ِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میںہوکہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پرگریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ساحر کی شاعری حقیقت اوررومان کے امتزاج کی شاعری ہے جہاں رومان کاحسن بھی ہے اور حقیقت کاکھردرا پن بھی ۔ اسی طرح ساحرکی شاعری احساسات کے ساتھ مشاہدات کی بھی شاعری ہے ۔ساحر نے اپنے مشاہدے کاکینوس سماج کی بے رحم حقیقتوں سے وسیع کیااوراپنی شاعری کواسی کینوس سے سجایا۔ ساحر کی ایک ایسی ہی طویل نظم ’’پرچھائیاں‘‘ ہے جس کالفظی ترجمہ صرف ’’سائے ‘‘ ہے اس نظم میں انہوں نے ایک ایسے موضوع پرقلم اٹھایا جوعالم گیر بھی ہے، ابدی بھی اور متعلقہ عہد کا تقاضہ بھی ضروری ہے کہ ایک شاعر امن کے حق میں آواز اٹھائے اورسلامتی کاترانہ گائے ۔
ساحر کی ’’پرچھائیاں ‘‘کوئی سیاسی منشور نہیںہے ۔یہ شدید طورپر ذاتی ،دلوں پر اثر انداز ہونے والی انسانی دستاویز ہے جس میں حقیقت اورشاعرانہ تخیل گھل مل گئے ہیں جس میں آج کی حقیقت اورکل کی پرچھائیاں نمایاں ہیں اورایک ناقابل فراموش تاثر آفرینی پیداکرتی ہیں ۔اس نظم کے ذریعہ ساحر ساری دنیاسے مخاطب ہوتے ہیں ۔لیکن ان کے تخاطب کالہجہ اور تصور آفرینی کاانداز ایساہے جس کی جڑیں اس کے محبوب ہندوستان کی دھرتی میں پیوست ہیں ؎
جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل
مچل رہاہے کسی خوابِ مرمریں کی طرح
حسین پھول ،حسیں پتیاں ، حسیں شاخیں
لچک رہی ہیں کسی جسم نازنیں کی طرح
فضا میں گھل سے گئے ہیں افق کے نرم خطوط
زمیںحسین ہے خوابوں کی سرزمیں کی طرح
وہ پیڑ جن کے تلے ہم پناہ لیتے تھے
کھڑے ہیں آج بھی ساکت کسی امیں کی طرح
’’پرچھائیاں ‘‘میں مشاہدے کی گہرائی نے اسے مختلف جہات عطاکیاہے اور حقیقت کے احساس نے اسے مستقبل کی کربناکیوں کاآئینہ دار بھی بنایاہے ۔اس نظم پر اظہار خیال کرتے ہوئے سردار جعفری لکھتے ہیں :
’’پرچھائیاں ساحر کی بیشتر نظموں کی طرح محاکات کاایک اچھا نمونہ ہے ۔‘‘
ساتھ ہی سردار جعفری نے اس نظم کے ایک حصے کوتیسری عالمی جنگ کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش بھی کی ہے ۔جس میں ساحر نے گزشتہ جنگ سے تقابل کرتے ہوئے کہاہے ؎
گذشتہ جنگ میںگھر ہی جلے مگراس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگراس بار
عجب نہیںکہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
نظم ’’پرچھائیاں کے حوالے سے خود ساحرلدھیانوی کہتے ہیں:
’’پرچھائیاں ‘‘میری پہلی طویل نظم ہے اس وقت ساری دنیامیں امن اور تہذیب کے تحفظ کے لیے جوتحریک چل رہی ہے یہ نظم اس کاایک حصہ ہے ۔
میںسمجھتاہوں کہ ہرنوجوان نسل کویہ کوشش کرنی چاہئے کہ اسے جودنیا اپنے بزرگوں سے ورثہ میںملی ہے وہ آئندہ نسلوں کواس سے بہتر اورخوبصورت دنیادے کرجائے ۔میری یہ نظم اس کوشش کاادبی روپ ہے ۔‘‘
(کلیات ساحر ،صفحہ۔ 108)
ساحر لدھیانوی ایک ایسی سدابہار شخصیت کانام ہے جنہیں ان کے دور میںبھی سراہاگیا آج بھی ان کی چاہت میںکوئی کمی نہیں آئی ہے ۔
ساحر لدھیانوی کامشہور قول ہے کہ :
’’بمبئی کومیری ضرورت ہے ۔‘‘
چونکہ ساحر لدھیانوی ترقی پسندتحریک سے جڑے ہوئے تھے اورترقی پسند شعراء یہ جانتے تھے کہ اپنی بات عوام تک پہنچانے کابہترین ذریعہ فلم ہے ۔فلمی دنیامیںان کی سحر آفریں اورغیرفانی نغموں نے ساحر کی شخصیت کو وہ حیات مستقل عطاکی جس کوفنا انجام نہیں کہاجاسکتا وہ لاکھ کہے جائیں ؎
میں پل دوپل کاشاعر ہوں
پل دوپل میری کہانی ہے
پل دوپل میری ہستی ہے
پل دوپل میری جوانی ہے
ساحر لدھیانوی فلمی دنیا میں لازوال ہیں بے مثال ہیں۔ان کے نغمے زندہ و جاوید ہیں ساحر ایسے واحد فلمی نغمہ نگار ہیں جنہوںنے دوایسی فلموں کے نغمے لکھے جن کے متعلق کہاجاتاہے کہ ان کی کہانی خود ساحر کی زندگی کی کہانی تھی ۔ گرودت کی فلم ’’پیاسا ‘‘ اوریس راج کی ’’کبھی کبھی ‘‘ یہ اعزاز اورکسی فلمی نغمہ نگار کوحاصل نہیں ہوا۔ خصوصاً ’’پیاسا ‘‘ کے نغموں کوتواول درجے کی شاعری کہہ سکتے ہیں ۔ مثلاً ؎
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیاہے
اوراسی طرح آپ کی عشقیہ داستان پرمبنی گیت دیکھیں :
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتاہے
کہ جیسے تجھ کو بنایاگیا ہے میرے لیے
وغیرہ ایسے نغمے ہیں جنہوں نے ساحر لدھیانوی کوشہرت دوام بخشا اس سلسلے میں ساحر کی نظم ’’خوبصورت موڑ‘‘ کو فراموش نہیں کیاجاسکتا جوان کی ناکام محبت کاایک خوبصورت اورمثبت اظہار ہے ۔نظم کا یہ بندملاحظہ فرمائیں جوفلم ’’گمراہ‘‘ میں شامل کیاگیا اور بہت مشہورہوا ؎
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تواس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ساحر اپنے نغموںکے سلسلے میںلکھتے ہیں :
’’میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہوفلمی نغموں کوتخلیقی شاعری کے قریب ترلاسکوں اوراس صنف کے ذریعے جدیدسماجی وسیاسی نظریے عوام تک پہنچاسکوں جہاں تک ان نغموں کی مقبولیت کاسوال ہے ان میں سے اکثرنغموں کاشمار اپنے عہد کے مقبول ترین نغموں میں ہوتاہے ،مگر میرے نزدیک کسی فنی تخلیق کی مقبولیت ہی سب کچھ نہیں ۔ ‘‘ (گاتاجائے بنجارا )
ساحرلدھیانوی نے ادبی صحافت میںبھی نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے’’ادبِ لطیف،سویرا،شاہ کار،شاہ راہ، وغیرہ کی ادارت کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی ۔جہاں تک ساحرکی ادب نوازی اورادب دوستی کاسوال ہے وہ اپنی مثال آپ تھے۔ خوش گفتار اورنرم کار،ساحرایک عالمگیر جذبۂ عشق و محبت کاپرستار تھے۔وہ اپنے حسن سلوک سے اپنے ہرملاقاتی کا دیرینہ رفیق نظرآتے تھے۔
ساحر لدھیانوی اردوادب کے وہ ممتاز ہستی تھے جنھوںنے اپنے کلام کی ضیاء سے دنیائے اردوادب کو پرنور اورشائقین ادب کو مسحور کررکھاتھا ۔آپ کی ادبی خدمات کااعتراف صرف برصغیر تک ہی محدودنہیںبلکہ آپ کی ہردلعزیزی ملک و قوم کی حدودکوپار کرکے بین الاقوامی دائرے میں داخل ہوچکی ہے۔