ڈاکٹر شبنم آرا
پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو (یوجی سی)
معاصر اردو شاعری اور جدید عورت کی حسیت
اردو شاعری میں جدید عورت کی حسیات اور ان کے جذبات و خیالات کی تصویر کشی خواتین اہل قلم نے بیسویں صدی کے نصف دوم کے پہلے یعنی ۱۹۵۰سے ہی کرنی شروع کردی تھی، لیکن پدر سری معاشرے کا دباؤ کچھ اس قدر سخت گیر تھا کہ خواتین کو ایک مکمل شاعرہ کی حیثیت سے منظر عام پر آنا ممکن نہیں تھا۔ نسائی تحریک کی بیداری کے طفیل چند تعلیم یافتہ، باشعور اور حساس عورت نے بوسیدہ معاشرے کے حصار سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کے لئے خود بھی جد وجہد کی اور دوسری اہل سخن واہل ذوق رکھنے والی شاعرات کو بھی میدان جنگ میں آنے کی ترغیب دی۔ ان تمام بندشوں اور قدغنوں کے باوجود ۱۹۶۰ اور خصوصاً ۹۸۰ کے بعد متعدد ایسی شاعرات منظر عام پر نظر لانے لگیں جنھوں نے اپنی تخلیقی بصیرت اور فہم واناکے باوصف نہ صرف اپنے وجود کااحساس دلایا بلکہ اپنے اندر کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنے لگیں جن کے اظہار پر اب تک پابندیاں عائد تھیں۔ اس ضمن میں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، بلقیس ظفیر الحسن ، پروین شاکر، سارا شگفتہ، شائستہ یوسف، رفیعہ شبنم عابدی، شاہدہ حسن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ان شاعرات نے اپنے کلام کے حوالے سے جدید عورت کی Feelingsاس کی فکر، اس کی خواہشات، اس کے مسائل، دکھ درد، اس کی الجھنیںاور مردانہ بالا دستی کے تئیں اس کا نظریہ وغیرہ جیسے موضوعات کواجاگر کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
کشور ناہید جدید شاعری کے حوالے سے ہمارے عہد کا ایک بڑا نام ہے۔انھوں نے خود کو پوری طرح اس معاشرے میں منوایا ہے اور اپنی ذہنی فعالیت سے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں عورت کے جمہوری حق حکمرانی اور پوری یا نصف گواہی جیسے مسائل پر بحثیں ابھی تک جاری تھیں وہاں کشور ناہید اپنے جیتے جاگتے وجود کا اعلان یوں کرتی ہیں۔
کشورناہید۔
تمہیں خاموش دیکھنے کی چاہت
قبروں سے امڈی آرہی ہے
مگر تم بولو
کہ یہاں سننا منع ہے
مجھے جن جذبوں نے خوفزدہ کیا تھا
اب میں ان کے اظہار سے
دوسروں کو خوف سے لرزتا ہوا دیکھ رہی ہوں
اس میں شک نہیں کہ کشور ناہید جدید عورت کا ایک بہت روشن پیکر بن کر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ خصوصاً ایسے معاشرے میں جہاں مرد کی بالا دستی عورت سے اس کا وجود چھین لیتی ہے کشور کی شخصیت ایک حرف انکار کی مانند ابھرتی ہے۔ انھیں اپنی پسپائی کا احساس ہے۔ مگر وہ اپنی قوت کا شعور بھی رکھتی ہیں۔ اور یہ جانتی ہیں کہ فنا اور ظلمت کی اس وادی میں جینے اور جیتے رہنے کی سزا کیا ہے۔ اور اس کا صلہ کیا ہے۔
کشور کا شعری مجموعہ ’’گلیاں دھوپ دروازے ‘‘عصری نسائی آگہی کا وہ نچوڑ ہے جو ’’بے نام مسافت‘‘ اور اس وقت کی دوسری شاعرات کے کلام میں نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے بجا طور پر مکمل فیمنسٹ مجموعہ کلام کہا جاسکتا ہے اور جس کا پورا فوکس عورت کے ساتھ سماج کی بدسلوکی ہے۔
گھاس بھی مجھ جیسی ہے
ذرا سر اٹھانے کے قابل ہوئی
تو کاٹنے والی مشین
اسے مخمل بنانے کا سودا لیے
ہموار کرتی رہتی ہے
عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے
تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو
نہ زمین کی نمو کی خواہش مرتی ہے
نہ عورت کی
عورت کے انسانی وجود کی، مرد ہی کی طرح روحانی جہات بھی ہیں۔ جسے کشور نے اپنے مجموعے ’’گلیاں دھوپ دروازے‘‘ میںمردکے استحصال کے خلاف احتجاج کوایک سمبل بنا کر پیش کیا ہے۔ اور نِت نئے استحصال کا نشانہ بننے کے خلاف آواز بلند کیا ہے۔
میرے منہ پر نیلے داغ ڈال کر
وہ جتاناچاہتا ہے
کہ اسے میرے جسم کو ہر طرح استعمال کرنے کا حق ہے
یا پھر صدیوں سے عورتوں پر روا رکھے جانے والے تشدد کو اپنی نظم کے حوالے سے اس طرح پیش کیا۔
تپے ہوئے تنور سے جس طرح روٹیاں باہر نکلتی ہیں
میرے منہ پر طمانچہ مار کر
تمہاری ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان
پھولی ہوئی روٹی کی طرح
میرے منہ پر صد رنگ غبارے چھوڑ جاتے ہیں
تم حق والے لوگ ہو
تم نے مہر کی عوض حق کی بولی جیتی ہے
کشور ناہید نے اپنی شاعری کے حوالے سے ان موضوعات و مسائل کو بے نقاب کیا جس پر اب تک کسی عورت نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔
چوں کہ کشور نے بھی ایک عورت کی حیثیت سے دکھ سہا ہے، صعوبتیں برداشت کی ہیں اس لئے انھوں نے عورت کے دکھوں کی جو تصویر کھینچی ہے وہ بہت درد انگیز ہے۔
یہ سب رشتے
کچے رنگوں کے کچے دھاگے ہیں
ان کے اوپر چلو تو بھی لہو لہان
ان کو سہو تو بھی لہولہان
لیکن کشور نے لہولہان ہو کر ہمت نہیں ہاری، ’’لب گویا‘‘ کو پھر آگے چل کے تلوار بنا لیا جس میں حق و صداقت کی کاٹ ہے اور احساس و جذبہ کی چمک بھی ہے۔
مجھے جن جذبوں نے خوفزدہ کیا تھا
اب میں ان کے اظہار سے
دوسروں کو خوف سے لرزتا دیکھ رہی ہوں
کشور کاماننا تھا کہ عورت جس بے انصافی اور ظلم کاشکار ہے وہ در حقیقت ہمارے موجودہ سماجی اور سیاسی نظام استحصال کا ہی ایک رخ ہے۔ اس لیے کشور نے ایک با شعور شاعرہ کی حیثیت سے چہار دیواری سے نکل کر زندگی سے آنکھیں چار کیا۔ آج جدید عورت گھر کی ملکہ کہلانے کے بجائے نوکری کرنے کی خواہاں ہے تا کہ معاشی اور ذہنی اعتبار سے وہ مرد کی محتاج نہ ہو بلکہ معاشرے میں مرد کی طرح ہی صاحب حیثیت ہو اور وہ بھی ایک ذمہ دار شہری کی طرح فخر کے ساتھ زندگی گذار سکے اور شاید کشور ناہید کی یہ دلی آرزو پوری ہو ؎
کبھی تو آنکھوں میں ان کی آبادیاں کھلیں گی
وہ بستیاں عمر بھر جنھیں زیر آب دیکھا
تانیثی ادب کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی شاعری ایک نئے طرز احساس کی آئینہ دار ہے۔ جس میں عورت کے اپنے وجود کا بھر پور احساس نمایاں ہے۔ انہوں نے ایسے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جن پر قلم اٹھانا تو در کنار سوچنا بھی خلاف تہذیب سمجھا جاتا تھا۔ جس معاشرے میں خواتین کو خون خرابے اور فساد کی جڑ جیسے القاب سے نوازا جاتا رہا ہو، وہاں اسے ایک انسان کے روپ میں دیکھنے سمجھنے یا اسے بھی ایک ذہن اور سوچ رکھنے والی عورت کے روپ میں تسلیم کرنا ناممکن تھا۔ جس عورت کو ازل سے ایک اثاثہ سمجھا گیا اور تحفہ یا بکاؤ مال کی طرح دیکھا گیا ہو۔ فہمیدہ کی نظم ’’اقلیما‘‘ میں ایسی ہی سوچ کا اظہار بڑی شدت سے کیا گیا ہے۔ ’’مقابلہ حسن‘‘ فہمیدہ کی ایسی نظم ہے جس پر کافی لے دی مچی مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ نظم ایک ایسے رویے کے خلاف بھر پور احتجاج ہے جو صدیوں سے عام رہا ہے۔ عورت کا جسم ادیب، شاعر، مصور مجسمہ ساز سب کا موضوع رہا جب کہ عورت کا ذہن اگر موضوع بنا تو مزاح کے ساتھ۔
فہمیدہ ریاض نے ’’پتھر کی زبان‘‘ سے’’ بدن دریدہ ‘‘کی شاعری تک آتے آتے عورت کے تجربات کی سچائیوں کو انتہائی بے باکی سے مربوط کرکے بہت سے ان لکھے اور ان کہے ممنوعہ جذبوں کے حوالے سے ایک ایسی فضا مرتب کردی جس میں عورت ایک سراپا احتجاج بن کر ابھری۔ یہ احتجاج مردمرکوز معاشرے کے اس رویے کے خلاف ہے جس میں عورت کے احساسات و جدبات کو مذہب سماج قانون اور اخلاقی قدروں کے نام پر ہمیشہ جھٹلایا جاتا رہا اور یہی دوہرا رویہ عورت کو اپنے وجود کے مکمل ادراک سے محروم رکھے ہوا تھا۔ فہمیدہ ریاض کا اس پر یقین ہے کہ اگر عورت منظم ہو کر اپنے وجود کو منوانے پر اٹل ہوجائے تو اسے کامیابی ضرور ملے گی وہ کہتی ہیں ؎
جو عزم ہے، امنگ ہے، تو ہم مراد پائیں گے
جو اشک میں لہو کا رنگ ہے تو گل کھلائیں گے
کبھی تو اے خدا کبھی تو ہم بھی مسکرائیں گے
اس یقین پر مری امید کی اسا س ہے
’’بدن دریدہ‘‘ تک آتے آتے فہمیدہ کی شاعری میں بہت حد تک تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں ۔ تبدیلیاں ان معنوں میں کہ وہ ذہنی طور پر معاشرتی بندشوں سے نکل کر بغاوت کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں اور یہ ثابت کردینا چاہتی ہیں کہ مردوں کی طرح وہ بھی انتخاب کا حق رکھتی ہیں۔ وہ بھی اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہیں۔ اپنی پسند کے کیریر کا انتخاب کرنا چاہتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
’’فہمیدہ کی ’’بدن دریدہ‘‘ نے جو عذر مچایا اس کے نتیجے میں وہ بے ضرر شاعرات کے جھرمٹ سے منفرد ہو کر متنازعہ شخصیت بن گئیں۔ طہارت پسندوں کی مطعون اخلاق پرستوں کی معتوب مگر سچے قارئین کی محبوب فہمیدہ ریاض معاصر شعراء میں ایک معتبر نام قرار پائیں۔ ابھی نزاعا ت کی گونج کم نہ ہوئی تھی کہ اپنے عصر سے اس کے کو مٹ منٹ کا اظہار ایسی نظموں کی صورت میں ہوا جن میں الفاظ کی جگہ گویا کیکٹس استعمال کیے گئے تھے۔ اور یوں نزاعات کی شدت اور آرا، کی تلخی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ فہمیدہ ریاض یقیناً ،مضبوط اعصاب کی عورت ہے جو یہ سب سہہ گئی۔
(بحوالہ آزادی کے بعد اردو شاعرات، نجمہ رحمانی، ص:109)
ایسے معاشرے میں جہاں زبان کی وسعتوں پر مذہب اور اخلاق کی بے شمار حدود ہوں فہمیدہ نے اپنی آواز عام لوگوں تک پہنچا کر ان کے احساس و شعور کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔
اپنی ایک نظم ’’اک سحر‘‘ میں کہتی ہیں
اک سحر میں یہ کنارہ چھوڑ دوں گی
کھینچتی رہتی ہوں ڈورے باد باں کے رات دن
ان کو اک دن توڑ دوں گی
دھار پر پانی کے ناؤ چھوڑ دوں گی
تار میں پانے بہے گا اور ہوگا آسماں پر صبح کا مدھم ستارا
ایک سحر میں چھوڑ دوںگی یہ کنارہ
مندرجہ بالا اشعار میں فہمیدہ کے سچے اور کھرے احساسات و جذبات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
غرض کہ آج کی جدید عورت اپنے بہتر مستقبل کا خواب دیکھ رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ آنے والے دنو ںمیں اپنے خوابوں کی منزل سے بھی ہمکنار ہو۔ ایک اور نظم ’’دل و شاعر‘‘ میں فہمیدہ کہتی ہیں۔
’’اب میں اتنی ناداں نہیں! میں کب تک دوں ساتھ تیرا
یہ کہنا کچھ آسان نہیں
دن ڈوبا، بدلی سب دنیا
لیکن تو وہی پرانا
میں کچھ بھی نہ کہنا چاہتی ہوں
آرام سے رہنا چاہتی ہوں
ساجدہ زیدی بھی ہم عصر شاعرات میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ عورت کے گونا گوں مسائل اس کے احساسات وجذبات اس کی مجبوری و لا چاری کو انھوں نے بھی اپنی تحریروںکے ذریعہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کشور ناہید فہمیدہ ریاض کے یہاں عورتوں کے جبر و استحصال کے تئیں جو بغاوت یا احتجاج کی لے دیکھنے کو ملتی ہے وہ ساجدی زیدی کے یہاں نہیں ہے۔ اس کے باوجود ساجدہ زیدی نے بھی عورت کی Feelings، اس کے جذبہ بغاوت اور اس کی تشنۂ آرزوؤں کی تصویر اپنی معتدد نظموں میں کھینچی ہے۔ بقول ساجدہ زیدی:
’’ایک مرد اسا س معاشرے میں جہاں عورت کو صدیوں سے ایک کمتر، کمزور مجہول اورناقص العقل مخلوق سمجھا گیا ہو، جہاں فی زمانہ اپنے حسن و جمال کی بنا پر اسے ایک شے میں تبدیل کردیا گیا ہو جس کی معراج ہمارے موجودہ معاشرہ میں موڈل گرلز، طوائفیں کمرشل فلموں کی ہیروئنیں، جس کے مقابلے میں شریک ہونے والی عورتیں ہیں اور فلموں میں جنس کی عام مثالیں ہیں۔ احتجاج کم از کم دانشور و فنکار عورتوں کا ایک فطری عمل ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس طور پر عورت کو ’’استعمال کی شے‘‘ بنانے کی کوشش ہے بلکہ تجارتی زندگی کے تانے بانوں میں اسے ایک شے کا درجہ دے کر اسے منافع خوری کا آلہ کار بھی بنایا جاتا ہے۔ ‘‘
(تانیثی تنقید ، ایک تعارف، پروفیسر ساجدہ زیدی، ص: 45)
ساجدہ زیدی نے عورت کی اس بدتر حیثیت کے خلاف بھر پور احتجاج کیا اور اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ ساجدہ زیدی نے اس حقیقت کا بھی انکشاف کیا کہ عورتوں کے احتجاج کا مقصد مرددوں کو چڑانا نہیں بلکہ سماج کو بیدار کرنا ہے۔ مردوں کو عورت کی فردیت اور موضوعیت کا احساس دلانا ہے۔ معاشرے اور پدرانہ سماج کے رویوں، اقدار اور نظریات سے بغاوت کرنا ہے، جنھوں نے عورت کو محکوم بنا دیا اور مجبور ثابت کردیا۔انہوں نے عورت و مرد کے باہمی رشتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے مدلل انداز میں لکھا ہے کہ:
’’کھلے ذہن سے سوچا جائے تو مرد اور عورت کا رشتہ تو دلکشی اور آسودگی کا سر چشمہ ہے وہ ایک دوسرے کے حریف نہیںحلیف ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے صرف طبیعی اور جنسی سطح پر نہیں بلکہ جذباتی، نفسیا تی اور اقتصادی سطح پر بھی لازم و ملزو م ہیں۔ مرد و عورت کے رشتے کی حدود اس کے درد و نشاط تک پھیلی ہوئی ہیں جس میں عشق ، محبت، ہم آہنگی ،ہمدردی، دوستداری ،ہم خیالی، اختلاف و اتفاقات، بحث و مباحثہ اورو صل و فراق کی لذتیں۔ المیے طربیے سب ہی شامل ہیں اور جس میں افزائش نسل کا فطری جذبہ بھی اپنی تمام نیرنگیوں اور نفسیاتی تقاضوں کے ساتھ موجود ہے۔ مرد عورت صرف میاں بیوی ہی نہیں دوست اور رفیق یار فیق کار بھی ہوسکتے ہیں۔ کہنہ بنیادوں کو ہلانے کے لئے سر عام نعرے لگانے کی ضرورت نہیں یہ کام ادب کا نہیں سماجی اداروں کا ہے۔ ‘‘
(تانیثی تنقید ، ایک تعارف، پروفیسر ساجدہ زیدی، ص: 46)
ساجدہ زیدی اپنی تخلیقات اپنے تصورات اور اپنے فکر و عمل کے ذریعے اس مسخ شدہ امیج کا سد باب کرنا چاہتی ہیں جو عورتوں کو تفویض کردی گئی ہے اور جس نے مرد عورت کے فطری رشتے کو بھی مسخ کردیا ہے۔ جس کی عمدہ مثال ان کی ایک مشہور نظم ’’میں و ہ تصویر نہیں‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ نظم ماضی کی روایات پر گہرا طنز ہے اور عورت کی بے بسی کا نوحہ بھی۔ ایک عورت جب اپنے وجود کو منوانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اس کے پاؤں میں روایات کی زنجیریں ڈال کر اسے پابستہ کیا جاتا ہے۔
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ساجدی زیدی نے اپنی تحریروں کے ذریعہ عورت کی شخصیت کے گونا گوں جہتوں اس کی زندگی کے تمام درد و نشاط، امکان و وجود، فکر و تخیل، عشق و عمل کو وسیع امکانات کے ساتھ پیش کیا ہے اور مرد اساس سماج میں اس کی حقیقی حیثیت کی نشاندہی کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک بیدار اور آزاد عورت کی تصویر ہے جو امکانات کی دنیا میں موجود ہے اور ان کا پورا فوکس عورت کی ذات کے ہمہ جہت تجربے اور اس کے وجود کو تسلیم کرنے پر منحصر ہے۔
زاہدہ زیدی کی شاعری میں بھی ہمیں عورت کی بے چارگی و لاچاری کا احساس دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھوں نے بھی عورت کے مسائل اس کی زندگی کے درد ناک تجربات و احساسات کو الفاظ کا جامع پہنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی پہلی نظم ’’حکایت گزراں‘‘ عورت کی مجبوری اور لاچاری کی بہترین مثال پیش کرتی ہے۔
لیکن یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ زاہدہ زیدی کے یہاں نسائی فکر یا بالخصوص عورت کے مسائل یا ان کے جذبات و احساسات کا اظہار کرنا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا بلکہ وہ ان آفاق کی سیر کرتی نظر آتی ہیں جہاں فن کار کو عورت یا مرد کے شہہ پر سے اڑان بھرنے کا جوکھم اٹھانا نہیں پڑتا ہے بلکہ ایک روح ہے جو کسی بھی جسم میں داخل ہوجاتی ہے اور وہی ترانے گانے لگتی ہے جو اس جسم کی زبان سے پھوٹتے ہیں۔
ہم جہاں ایک لمحے میں صدیوں کی رفتار کو قید کرلیں
اور اس فتنۂ بے حجابا کو
ایک شیشۂ دلربا میں اتاریں
ایسے نغمے میں ڈھالیں
جو میری کہانی ہو تیرا فسانہ ہو
روحوں کی خاموش جھنکار
یہی سبب ہے کہ ان کا شعری رویہ اردو شاعری کی روایت میں کوئی باغیانہ اور کھلے احتجاج کی صورت میں جلوہ گر نہیں ہوتا بلکہ جذب دروں کو آشکار کرنے کا وسیلہ بن جاتا ہے لیکن روح عصر کی کرب ناکیوں کے ساتھ۔
عہد جدید کی شاعرات میں سبھی تو نہیں لیکن بیشتر نے اپنی تخلیقات میں جنسی امتیاز کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کی ہے اور کمتر یا دوئم درجہ کی شہری بننے سے انکار کیا ہے۔ یقیناً آج کی خواتین کل سے مختلف ہیں۔ ان کی حسیت اور فکری جہتیں ان کے سوچنے کا انداز ایک نئے انداز میں اظہار پار ہے ہیں۔ ایسی ہی ایک منفرد اور توانا آواز بلقیس ظفیر الحسن کی ہے جنھوں نے مرد کے مرکزی معاشرے سے بغاوت کا اعلان کیا ہے اور اپنی تخلیقات میں جینے کی ازلی خواہش کے ساتھ اپنے طور پر جینے اور سوچنے کا بر ملا اظہار کیا ہے۔ بلقیس ظفیر الحسن نے اپنے شعری مجموعے ’’گیلا بندھن‘‘ میں متعدد نظموں مثلاً ہاؤس وائف، ’’سمان‘ ‘ ’’وھیل چیئر میں بیٹھی زندگی‘‘ اور ’’خربوزہ اور چھری‘‘ ھن لباس لکم و انتم لباس لہن ‘‘ ’’جہنم‘‘ ’’نئی عورت کا ترانہ‘‘ ’’مجھ سے دوستی کروگے‘‘ وغیرہ جیسی نظموں میں پابندیوں اور بندشوں میں گھری عورت کو پیش کیا ہے اور جگہ جگہ یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ خدا نے دونوں کو یکساں سرفراز کیا اور دونوں کو ایک دوسرے کے لئے بنایا لیکن مرد ’’مجازی خدا‘‘ کا بورڈ لے کرہمیشہ احساس بر تری کا دعویٰ کرتا رہا ہے اورعورت کی حق تلفی کرنے پر سینہ تانے کھڑا رہتا ہے۔ ’’مجھ سے دوستی کروگے‘‘ میں ایک عورت کی اک الگ شناخت ابھرتی ہے اور یہ احساس دلاتی ہے کہ یہ میرا ظرف ہے کہ تمہیں بڑا مان رہی ہوں جب کہ میرے وجود سے ہی تمہاری مکمل شناخت ہے۔
جو کرنے پر اتر آئے کوئی، کیا کر نہیں سکتا
یقیناً ، میں بھی کرسکتی ہوں تم سے ، بیوفائی
کج ادائی
حقارت، طنز اور دشنام سب کچھ
تمہارے ہی دیے سکیّ۔ تمہارے منہ پر میں بھی مار سکتی ہوں
مجھے نادان یا کمزور مت سمجھو
جو کرنے پر اتر آئے کوئی۔ کیا کر نہیں سکتا
مگر کیا فائدہ۔ دکھ دے کہ تم کو
کوئی سکھ پانا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا
مجھے نیچا دکھانے کے لئے کیا کیا نہیں کرتے ہو تم
ایک بار، مجھ سے دوستی بھی کرکے دیکھو!
خسارے میں نہیں پاؤ گے اپنے آپ کو۔ وعدہ رہا
کیوں؟ دوستی مجھ سے کرو گے
مرد کے مساوی عورت کو بھی خدا نے دل ، دماغ، ذہن، و عقل، صلاحیت و قوت سے سرفراز کیا ہے۔ لیکن روز ازل سے ہی اسے دبایا جاتا رہا۔ ہر سطح پر اس کو ہیچ ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں لہٰذا عورت کے اندر کی وہ تمام صلاحیتیں جو خدا نے اسے ودیعت کی تھیں وہ ابھر کر سامنے نہیں آسکیں۔ اس لئے مصنفہ نے اس بات پر زیادہ زور دیا ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں۔ دونوں کا رشتہ حاکم و محکوم کا نہیں ہے بلکہ رفیق کار کا ہے پھر یہ بڑا چھوٹا اونچ نیچ اور بر تر و کم تر کی تفریق کیوں۔ خدا نے دونوں کی تخلیق یکساں کی ہے۔ اس لئے معاشرہ میں دونوں کی ہر سطح پر مساوی بر تری حاصل ہونی چاہئے۔ بلقیس ظفیر الحسن کے ہی الفاظ میں:
تمہاری طرح اک انسان میں بھی ہوں
مجھے بھی زندگی جینے کا حق اتنا ہی ہے جتنا تمہیں ہے!
تمہاری طرح میں بھی نفرتوں اور چاہتوں سے
روز ملتی ہوں
اب یہاں عورت مجبور، لاچار و محتاج نہیں ہے۔ بلکہ پوری قوت و توانائی کے ساتھ مرد مرکزی معاشرے سے بغاوت کا اعلان کررہی ہے۔ وہ نہ ہی معاشی طور پر مجبور ہے کہ اپنی زندگی کا بار اٹھانے کے لئے مرد کے مزید جبر و استحصال کو برداشت کرتی رہے۔ اور نہ ہی ذہنی و عقلی سطح پر مرد سے کمتر ہے بلکہ شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے مساوی کندھے سے کندھا ملا کر اپنی فعالیت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اور اپنی زندگی اپنے طور پر کرنے پر مصر ہے۔
ہم عصر شاعرات میں پروین شاکر کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پروین شاکر نے کشور ناہید اورفہمیدہ ریاض کی باغیانہ شاعری سے مختلف اپنا ایک نیا اسلوب ایجاد کیا اور عشق و محبت کے نرم و نازک، میٹھے کڑوے اور تلخ و تند احساسات و جذبات اور تجربات کو بڑے ہی دھیمے اور ملائم لب و لہجے میں بیان کیا۔ پروین شاکر کی ابتدائی شاعری میں عمر کا وہی کچا پن ہے جو ہمیں فہمیدہ ریاض کے شعری مجموعے ’’پتھر کی زبان ‘‘ میں دیکھنے کو ملتا ہے، اسی لئے انھیں عشق و محبت کی شاعرہ کے خطاب سے نوازا گیا۔ اپنے شعری مجموعہ ’’خوشبو‘‘ میں پروین شاکر نے ایک لڑکی کے احساسات و مسائل کو شعری پیکر دیا۔
در اصل پروین شاکر کے یہاں عورت کا نسوانی وجود اور لب و لہجہ جو شروع میں جانثاری اور وفا پرستی کا سنبل بن کر سر جھکاتا نظر آتا ہے اور ہر لمحہ بکھرنے، ٹوٹنے اور مجروح ہونے کے عمل سے گذرتا تھا ’’خود کلامی‘‘ اور ’’انکار‘‘ کی شاعری تک آتے آتے ایک ایسی شکل اختیار کر لیتا ہے جو مکمل طور پر اپنے تشخص کی شناخت کی متمنی ہے۔ یہاں پروین شاکر نے محبت کے جذبے کی پرستش کرتے ہوئے اپنی تمام تر سپردگیوں کے باوجود، ایک ایسی عورت کو اپنی شاعری کا مرکز و محور بنا کر پیش کیا ہے جو جھوٹی رفاقتوں کے بہلاؤں کے، اب اپنے آپ کو کمزور، محکوم اور ماتحت رہنے کے بجائے اب اپنی کھلی آنکھوں سے زندگی کی تمام تر سفاکیوں کو پرکھتی، جانچتی ہے اور اسی پرکھ اور جانچ کو اپنا پیمانہ بنا کر اپنے جرأت انکار سے بھر پور کام لیتی ہے۔ کیوں کہ یہی جراأت انکار اس کے تشخص کی بھر پور علامت ہے۔
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہئیے جاناں
دوگھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتی
میں اک نوزائیدہ چڑیا ہوں لیکن
پرانا باز مجھ سے ڈر رہا ہے
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا
تمام عمر کی نا م معتبر رفاقت سے
کہیں بھلا ہے کہ پل بھر جئیں یقین سے جیئے
پروین شاکر نے مرد کے مقابلے عورت کے وجود کا ایک ایسا تصور پیش کیا جو اس سے قبل عنقا تھا۔ پروین شاکر کے نزدیک شادی محض معاشی سہارا ہی تلاش نہیں کرتی بلکہ ازدواجی زندگی اس کے لئے فطری، جذباتیؔ اور سماجی ضرور ت بھی ہے۔ شادی کی سماجی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ازدواجی زندگی عورت کی نشوونما کو نمایاں نہیں کرتی تو اسے کامیاب نہیں کہا جاسکتا۔ پروین شاکر کے شعری رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورت کو اس کے وجود کا احساس دلاتے ہوئے اس کی زندگی کی معنویت کو اجاگر کرنا چاہتی ہیں۔ عورت کے لئے مناسب نہیں کہ جب وہ ظالم مرد کے پنجے میں پھنس جائے تو طرح طرح کے مظالم برداشت کرتی رہے۔ عورت کوئی بے جان شے نہیںہے، زندگی کو جئے جانے کا حق اسے بھی فطرت نے اتنا ہی عطا کیا ہے جتنا ایک مرد کو۔ پروین چاہتی ہیں کہ مرد عورت کا ایک بہترین رفیق ہو اور اس کے دل میں عورت کے لئے مساوات ، آزادی اور انسان دوستی کے سارے جذبے موجود ہوں۔ پروین کی شاعری میں عورت کی زندگی کا تصور مجبور محض سے ضرور وابستہ ہے لیکن وہ عورت کی زندگی کے مسائل پر خوش فہمی کے غلاف نہیں چڑھاتیں بلکہ انھیں بے نقاب کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی نظر میں عورت عام طور سے پیدائشی بدنصیب اور مظلوم نہیں ہے بلکہ مرد کے منافقانہ رویے کے باعث وہ ایسے مقام پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔
وہی عورت جس نے پیغمبروں اوتاروں، دانشوروں اور فلسفیوں کو جنم دیا اسے اس روئے زمین پر اس قابل بنایا کہ وہ سماج کی باگ ڈور سنبھال سکے لیکن عورت کو اس کا صلہ کیا ملا کہ اسی کے ہاتھوں ظلم و استحصال کی شکار بن بیٹھی۔ اور وہ مالک آقا، معاشرے اور اقتدار کا ماخذ و منصرم بن بیٹھا۔ مصنفہ نے اس طرح کے متعدد اشعار کے ذریعے عورت کی ازلی مظلومیت کی داستان بیان کی ہے۔ اپنے نازک اور دھیمے لب و لہجے میں اس کے درد اور اس کی چبھن کر اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔
رفیعہ شبنم عابدی اپنے نسائی فکرکے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔انھوںنے اپنی حساس طبیعت اوربیداری فکرکے طفیل عورت کی مظلومیت اس کے دکھ درد،لاچاریوںومجبوریوںکوبے نقاب کرنے کی کوشش کی اوراپنے بیباکانہ اورباغیانہ لب ولہجے کے ذریعے عورت کوجینے کی ازلی خواہش کے ساتھ اپنے طورپرجینے اورفکرکرنے کے مطالبے پر زوردیاہے،رفیعہ شبنم عابدی نے اپنی شاعری میںعورت کی جن محرومیوںاورناپسندیدگیوںکوشعری زبان عطا کرنے کے علاوہ جس تنہائی اوربے چارگی کاباربارحوالہ دیاہے وہ اس کاوجودی مسئلہ نہیںہے۔اپنی نظم ’’خودفریبی‘‘(مجموعہ اگلی رت کے آنے تک)میںاس طرح کی علامتیںانھوںنے پیش کی ہیں
تم آخراسے کب تک
رسیوںمیںجکڑسکوگے یہ کھیل بہت ہوچکا
اب سے آزادکردو
کیاتم نہیںجانتے کہ چناب کی لہریں
بندرابن کی گلیاں
کھجوراہوکی ساری تصویریں
ایلورااجنتاکے غار
تاج محل
انارکلی
نورجہاں،رضیہ سلطان اورچاندبی بی کے مقبرے
سب ایک جل تھل دھرتی پربنے ہیں
کسی صحرامیںنہیں
رفیعہ شبنم عابدی نے اپنی اس نظم میںاشارات کاسہارالے کرعورتوںکے جبرواستحصال کوجوصدیوں سے جاری ہے اورآج بھی ان پرقابوپانامشکل نظرآرہاہے جیسے مسئلوںکوبہت ہی اشارتی مصرعوںمیں ابھارنے کی کوشش کی ہے۔چناب سے غالباََ مطلب ہیررانجھا،بندرابن کی گلیوںسے مرادگوپیاں،اور کھجوراہوکی مورتوںمیںعورت ذات پرجوجنسی زبردستیاںپتھروںمیںپیش کی گئی ہیں،ایلورااجنتامیں حسن کی بے باکانہ پیش کش کی گئی ہے ۔تاج محل بھی ایک طرح کی بے کسی کی داستان ہے اورانارکلی جواپنی محبت کی سزاکے لیے دیوارمیںچن دی گئی،نورجہاںمیںشیرافگن کے قتل کاواقعہ،سب عورتوںکی مجبوریوںکی داستانیں ہیںجنھیںبڑے خوبصورت اندازمیںاحتجاجی آہنگ کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن بیداری زمانہ کے طفیل جدیدعورت کے اندرا ن فرسودہ پرستش سے انحراف کرنے کاجذبہ بیدارہوااوراس نے مردکی بے اعتنائیوں،بے وفائیوں اورفریبوںکااسیرہونے کے بجائے کھلی آنکھوںسے دنیاکانظارہ کرنے کی جسارت کی،اوربلاجھجھک یہ کہنے پر مجبورہوئی کہ یہ میری خطاتھی یہ میری بھول تھی کہ تمھارے انتظارمیںمیںاپنی خوشگوارزندگی سے محروم رہ گئی۔
مصنفہ نے بڑے ہی بے باکانہ اورفخریہ اندازمیںمردانہ سماج سے مکالمہ کیاہے کہ جسے تم اس قدرہیچ اورکمزوروماتحت گردانتے ہواوراس کی حق تلفی کرنے پرسینہ تانے کھڑے رہتے ہو۔اگربغورمطالعہ ومشاہدہ کروتوتمھیںاس حقیقت کاانکشاف ہوگا کہ یہ میراظرف ہے کہ تمہیںبڑامان رہی ہوںجب کے میرے وجود سے ہی تمہاری مکمل شناخت ہے اورمیرے ہی زیرقدم جنت بھی ہے ۔ ہمارے مرد اساس معاشرے کے دانشوروںاورفلسفیوںنے (روایت ہے کہ بی بی حواکے بہکانے پرہی،حضرت آدم علیہ السلام نے شجرممنوعہ کاپھل کھانے کی جسارت کی )عورت (بی بی حوا)کواس جرم کامرتکب قراردیاکیوںکہ اس کے ہی بہکاوے میںآکرآدم علیہ السلام نے شجرممنوعہ کاپھل کھانے کی جسارت کی جس کے باعث اس کائنات کا وجودہوا۔یہ حقیقت اپنی جگہ پرمسلم ہے۔لیکن واقعے کے پس پست یہ نظریہ سامنے آیاکہ عورت ہی تمام برائیوںاورخرابیوںکی جڑہے،اگرایک عورت مردکونہیںبہکاتی توشایداس دنیاکاوجودناممکن تھا۔لہٰذایہیں سے عورت کے حصہ میںبدنامیاںاوررسوائیاںبھردی گئیں اوراسے طرح طرح کے ناموںسے نوازاگیا۔ وہ گناہوںکامنبہ قرارپائی۔وہ بدی کی مہورثابت ہوئی ۔راہ راست سے بھٹکانے والی عورت کے خطاب سے نوازی گئی اوریہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔دوعورتوںکی گواہی برابرہے ایک مردکے ۔وہ ناقص العقل ہے، وہ تریاچترہے،وہ جھگڑالوہے۔اس کے ذہن میںصرف برے خیالات ہی بھرے ہوتے ہیںوغیرہ وغیرہ۔ اورقابل حیرت ہے کہ وہ مردپھراس کائنات پرحاکم اوراقتدارکاجج بن بیٹھا۔اورعورت کی زندگی کی باگ ڈور اس مردکے ہاتھوںمیںآگئی۔اورپھرنسیم سید کوعورت کی بے بسی کی داستان بیان کرنی پڑی کہ
نکل کے خلدسے ان کوملی خلافت ارض
نکالے جانے کی تہمت ہمارے سرآئی
رفیعہ شبنم عابدی نے عورت کے استحصال کے دوسرے پہلوئوںکی جانب بھی اشارہ کیاہے کہ اگرمردکاسلوک عورت کے ساتھ بہتررہاتوزندگی ایک جنت کے مانندبن سکتی ہے۔اسلام میںبھی آیاہے ’’بے شک صالح مردکے لیے صالح عورتیںہیں‘‘ پھرمرداپنی کارکردگیوںاپنی بے راہ رویوںاوربے اعتنائیوںکاخودمحاسبہ نہیںکرتے ہیں لیکن عورتوںسے وابستہ عیوب کی لمبی لمبی فہرست تیارکرتارہتے ہیں۔
معاصر شاعرات میں شاہدہ حسن عہدجدیدکی باشعوراورحساس شاعرہ کی حیثیت سے ہمارے ذہنوں پردیرپا اثرات مرتب کرتی ہیں۔ان کی شاعری میںہمیںجدیدعورت کی حسیات، اس کے مزاج کی آگہی نیاشعور عصری ماحول سے شناسائی کابھرپوراحساس ہوتاہے۔انھوںنے اپنی شاعری کے ذریعے عورت کوجوصدیوںپرمحیط پابندیوںاورمذہبی رسم ورواج کی حدبندیوںمیںمقیدرکھی گئی،پھراسے ایک بے جان مشین کی طرح جینے پرمجبورکیاگیا،آدرش وادی اورپتی ورتاسماج میںپتی کی پوجاکواپنادھرم وایمان تسلیم کرنے پربے بس ومجبورکی گئی یاپھراسے معاشی وسماجی جبرکے تحت مجہول ومہمل اورماتحت وکمزوربن کررہناپڑاوغیرہ ایسے متعددمسائل ہیںجنہیںشاہدہ حسن کے شعری مجموعے’’ایک تارہ ہے سرہانے میرے‘‘اور’’یہاںکچھ پھول رکھے ہیں‘‘میںمنظرعام پرلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک حشربرپاہے
جدھربھی دیکھتی ہوں
وحشی ہیں
اورسروںپرکوف کی چادرتنی ہے
روح سے ہرجسم جیسے کٹ گیاہے
سوچ کی راہیں
ساری تدبیریںہی گمراہی کی جانب ہیں
نگاہیںتھک گئی ہیں
اوریہاںہرسوشکاری جال پھیلے ہیں
بہ کثرت حملہ آورہیں
نظم کاموڈمصرعوںکاارتکازنظم کی فضایہ تمام چیزیںعورت کوبیدارکرکے معاشرے سے بغاوت کے لیے آمادہ کرتی ہیں۔شاہدہ حسن کے یہاںعورت اپنے اقتصادی مسائل ،سماجی اتھل پتھل سے دوچار ہے، ایک طرف وہ آزادی نسواںکوبھی کھلے دل سے لبیک کہتی ہے،وہ ان تمام آزادیوںاورحقوق سے ہمکنارہونا چاہتی ہے ،جوتانیثی تحریک کاماحصل ہے لیکن دوسری طرف وہ اس معاشرے کی جکڑبندیوںکے حصارمیں اس قدرگھری ہوئی ہے کہ اس سے نجات بھی پاناناممکن نہیںہے۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عورت کی زندگی کاسب سے خوشگوارلمحہ اس کا ماںبننا ہے یاماںبننے کااحساس ہے لیکن اس ماںبننے کے احساسات اورتجربات نے عورت کی شخصیت پربڑے منفی اثرات بھی مرتب کیے ۔کیوںکہ عورت جب ماںکاروپ اختیارکرتی ہے تواس کے اندرممتاچھلکتی ہے اورممتامیںپھنس کروہ سب کچھ برداشت کرنے لگتی ہے کیوںکہ اس وقت اس کے سامنے اس کابچہ ہوتاہے۔پھربچے کامستقبل اوربچے کوباپ کانام دینے کے لیے اس کو باپ کی ضرورت رہتی ہے۔یہ عورت کی سب سے بڑی مجبوری ہے کیوںکہ اس کے بغیراس کا مستقبل ادھورا ہوتاہے اورپھرسماج؟وہ اس طرح کے لا تعدادمسائل سے دوچارہوتی ہے اورعجیب وغریب تجربات کازہرپیتی ہے بقول مصنفہ اس تغیرپذیرمعاشرے کی دوڑمیںبالادست سوسائٹی کے پینتروںکا تجزیہ کرنامشکل ہے۔اس ترقی یافتہ عہدمیںبھی جب کہ معاشرے میںاتنی تبدیلیاںرونماہوچکی ہیںہرشعبہ حیات میںدونوںکی ساجھے داری برابرہے ۔ہرمیدان میںعورت کے کندھے سے کندھاملاکرزندگی کے ڈورمیںترقی کی راہ پرگامزن ہے اورہرجگہ اپنے آپ کوProofکررہی ہے باوجوداس کے مردانہ سماج عورت کی اس بہترین کارکردگی کوماننے کے لیے تیارنہیںہے۔اس کی آزادی ،اس کی ذہنی بیداری اوراس کی ساجھے داری کوہضم نہیںکرپارہاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی عورت کواس مردسوسائٹی نے دباکررکھااوراس کی سوچ اس کے ذہن پرتالے لگائے رکھا۔اسے مردکے بغیربے اعتبارتسلیم کیاگیا۔یعنی عورت بیکارمحض ہے۔اورسوائے افزائش نسل کے وہ کچھ نہیںکرسکتی ۔اگراس حصارسے عورت باہرنکل بھی آتی ہے تواسے معاشرے میںیہ کہہ کرخارج کردیاجاتاہے کہ عورت بھلاادب تہذیب اورپھراس دنیاکی باگ ڈورسنبھالنے کی اہل ثابت ہوسکتی ہے؟سماجی وسیاسی مسائل پراس کی گرفت ہی کتنی ہے،صدیوںسے گھر کی چاردیواری میںمقیدرہنے والی کے پاس تجربے کتنے ہیں؟اس طرح کے لاتعدادایسے مسائل سے وہ جوجھتی رہی ہے اوراسی کرب گھٹن اورجبرنے اسے اس دقیانوسی خیالات کے پرستانوںکے خلاف احتجاج پرمجبورکیا۔اوراپنی انہی بے چینیوںاورتڑپ کوقوت گویائی عطاکی اورعملی طورپربھی انھوںنے اپنے طریقہ عادات واطوارکوبدلنے پرمجبورکیا۔عورت یہ سوچنے پرمجبورہوئی کہ ہماری تمام ترگھریلوذمہ داریوںکوغیر اجرتی قراردیاجاتاہے۔ہمیںیہ مردسوسائٹی سرے سےIgnore کرتی ہے۔گھرداری یا باہری زندگی میںہمارے مشوروںاوررایوںکی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیںکی جاتی۔ان تمام حقائق کومدنظررکھتے ہوئے جدیدعورت نے بے باکانہ اورجرآت مندانہ رویہ اختیارکیااوراپنے وجوداورتشخص کی شناخت کے لیے برسر پیکارہوئی ۔بقول شاہدہ حسن:
انھیںرستوںپہ گرگرکرسنبھلتی جارہی ہوں
امیدوخوف کے رستوںپہ چلتی جارہی ہوں
کسی ٹوٹے ہوئے دل سے تخاطب چاہتاہے دل
کسی احساس کے لوسے پگھلتی جارہی ہوں
چلوکہ چل کے دیکھ لیںعدالتوںمیںوقت کی
ہمارے حق میںفیصلے بحال ہوگئے ہیںکیا
غرض کہ بے بسی ،امیداورپھرعورت کی اہمیت کااحساس اسے اپنی منزل تلاش کرنے کے لیے اکساتاہے لیکن حالات کاجبراسے مجبورکردیتاہے۔
عجب اک تضادکی زندگی میرے پاس ہے
کبھی اشک ہیںتوکبھی ہنسی میرے پاس ہے
اک حصاردرودیوارکی خواہش بھی ہے خواب
گرسفرشرط ہے،پھرگھرتونہیںرکھ سکتی
لیکن شاہدہ حسن عورت کی آزادی اس کی ذہنی ونفسیاتی بیداری اورعورت کے مساوی حقوق کی طلب گارضرورہیںمگراعتدال پسندی سے کام لیتے ہوئے۔اسی لیے ہمیںان کی شاعری میںعورت کے متعددروپ دیکھنے کوملتے ہیں،عورت کی ازلی مجبوری،غلامی سے رہائی،اپنے طورپرجینے کی خواہش،پھرمعاشرے کاردعمل۔ڈرخوف انہی کشمکش میںہچکولے کھاتی رہتی ہیں۔
ڈھونڈتے ڈھونڈتے میںتھک بھی چکی
کھوگئے میرے ماہ سال کہاں
داستاںلکھ رہی توہوںلیکن
کوئی بھی حرف حسب حال کہاں
میری سب حالتوںکوجان سکے
کوئی ایساشریک حال کہاں
شاعرہ نے امید،یقین اورامنگ کے ساتھ ایک بہترمستقبل کے خواب کوشعری پیکرمیں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
سارہ شگفتہ اپنے باغیانہ لب ولہجہ اوراحتجاجی فکراورمنفرد اندازبیان کی بدولت ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ان کابیشترسرمایہ نثری نظم کے فارم میںشائع ہواہے۔سارہ شگفتہ ایک حساس اوربہت ہی جذباتی اور لاوبالی پن قسم کی شاعرہ کی شکل میںابھرکرمنظرعام پرآئیں۔یایہ کہاجاسکتاہے کہ سارہ شگفتہ انسانی کرب کی ایک جیتی جاگتی شاعرہ تھیں اس لیے ان کی بیشترنظمیںعورت کی مظلومیت اوربے چارگی کی بھرپورترجمانی کرتی ہیں۔معاشرے پرطنزکرتے ہوئے ان کے لہجے میںبڑی بے رحمی اورتلخی نظرآتی ہے۔
سارہ شگفتہ کاشعری مجموعہ’’آنکھیں‘‘جوان کی نثری نظموںکاایک مجموعہ ہے اس میںایک ایسی ہی عورت کی داستان زندگی رقم کی گئی ہے جوزندگی کی سفاک ترین منافقتوںمیںگھری اپنے باطن میںگھلی دکھوںسے اپنے دردوکرب کورقم کرنے کی کوشش میں،اپنے ہی لہجے کی ٹوٹ پھوٹ کی شکارہوچکی ہے۔ سارہ شگفتہ کایہ نامکمل اظہارتخلیقی کرب سے وابستہ ہوکرایک خاص حوالے سے سامنے آیاہے،مگراس نامکمل اظہارکے پیچھے ہمارے معاشرے کی بے شمارکچلی ہوئی مظلوم وبے بس عورتوںکی آنکھیں،خون کے آنسو روتی ہیں،سارہ کی آنکھیں،انھیںآنکھوںکااستعارہ بن کرزندگی کی بے معنویت پراس طرح نوحہ کناںہیں۔
’’ہرقدم زنجیرمعلوم ہورہاہے اورمیرادل تہہ کرکے رکھ دیاہے ،شورمجھے لہولہان کررہاہے میںاپنی قیدکاٹ رہی ہوں۔میرادل دلدل میںرہنے والاکیڑاہے اورمیںقبرسے دھتکاری ہوئی لاش ۔سڑانڈ ہی سڑانڈ سے میری آنکھوںکاذائقہ بدروح ہورہاہے اورمیںانسان کی پہلی اورآخری غلطی پردم ہلاتے بھونکتی چلی جارہی ہوں‘‘
پاکستانی شاعرات کاایک اہم موضوع ’’احتجاج ‘‘رہاہے خصوصافہمیدہ ریاض کے یہاںسیاسی احتجاج کی لے تیزہے لیکن دوسری خواتین بالخصوص کشورناہیداورسارہ شگفتہ کی تخلیقات میںیہ احتجاج مردمرکزمعاشرے کے خلاف تانیثی بغاوت اورتانیثی تشخص کی تلاش سے عبارت ہے۔
سارہ شگفتہ اپنے تجربات ومحسوسات اورمشاہدات کواتنے منتشرپیکروںکے کولاج کی صورت میںپیش کرتی ہیںکہ ان کااظہاراکثراس قدرغیرمربوط ہوجاتاہے کہ دومصرعوںمیںکسی ربط کی تلاش کرناانتہائی مشکل قرارپاتاہے۔ اس کے باوجودمصنفہ نے معاشرے کی زیادتیوںاوراس کے دوہرے رویوں پربڑاگہرا طنزکیاہے۔ عورتوںکے ساتھ مردانہ بالادستی والے معاشرے کی ذہنیت،عورت کا نت نئے طریقے سے استحصال، اس پرجبر وتشدد وغیرہ جیسے موضوعات کونوک قلم پرلانے کی کوشش کی ہے اورمعاشرے سے اپنے Assertionکا اظہارکیاہے۔وہیںدوسری طرف سارہ شگفتہ نے اپنی بیداری فکر،آزادخیالی اورخودسری کوبھی اجاگرکرنے کی سعی کی ہے کہ مردحضرات اب اس خوش گمانی اوردھوکے میںمبتلانہ رہیںکہ عورتیںپہلے کی ہی مانندآج بھی ان کے گوناگوںحربوںکی شکارہوتی رہیںگی بلکہ آج کی جدیدعورتیںبیداری زمانہ کے طفیل اپنی بلندحوصلگی،مستقل مزاجی اورمصمم عزم کابھرپورمظاہرہ کررہی ہیں اورسرپرکفن باندھ کرمیدان جنگ میںاترآئی ہیں۔آج وہ کسی بھی معاملے میںسمجھوتہ کرنے کے لیے تیارنہیںہیں۔ایسالگتاہے کہ ایک عمرکی وفاشعاری نے انھیںجوداغ دیے ہیںاب وہ کسی بھی صورت میںفراموش کرنے کے لیے تیارنہیںہیں۔یہی وجہ ہے کہ سارہ شگفتہ کے یہاںاحتجاج کی لے خاصاتیز اورتواناہے اوربعض اوقات جارہانہ اندازاوررُخ اختیارکرلیتاہے۔
سارہ شگفتہ نے نہایت ہی باغیانہ اورجارحانہ لب ولہجہ میںمعاشرے کے چہرے سے نقاب اٹھایا ہے کہ عصمت وتقدس کے نام پرعورتوںکاکس کس طرح استحصال کیاجاتاہے اوردنیاکی ساری پاگیزگی اور شرافت کی قیمت عورت ہی کوکیوںچکانی پڑتی ہے؟اورپھرمردتمام گناہوںکامرتکب ہونے کے باوجودبھی پارسائی کادم بھرتا رہتا ہے ۔ایساکیوںہے؟ہمارے معاشرے میں Dual Standardدوہرارویہ کیوں رکھاجاتاہے۔گھرسے لے کرفٹ پاتھ تک عورت کوعزت وپاکیزگی کے میانوںپرہمیشہ لٹکایاجاتا ہے اورمردشرافت کالبادہ اوڑھے تمام بدیوںسے پارکرجاتاہے۔لیکن ہمارے معاشرے کوجوںتک نہیںرینگتی ہے۔مصنفہ نے ہماری توجہ ان حقائق کی جانب مبذول کرائی ہے کہ ماںبننا عورت کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی مانی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ تونہیںہے کہ اس خوشی کوجبراََایک کرب میںمبتلاکردیاجائے۔ عورت کب ماںبننا چاہتی ہے کب نہیںچاہتی،یہ اس کی مرضی پرمنحصرہوناچاہیے۔پھرتولیدی عمل میں عورت کاناگزیرترین حصہ ہونے کے باوجودبھی بچے کی شناخت اس کے پدری حوالوںسے ہی کیوںکی جاتی ہے وغیرہ جیسے مسائل کواپنے شعری اظہارکے ذریعے منظرعام پرلانے کی کوششیںکی ہیں۔
مختصراََ یہ کہاجاسکتاہے کہ معاصر اردوشاعری میںجدیدعورت نے اپنی ذہنی ،جسمانی، نفسیاتی، سماجی اورثقافتی سطح پربنی نوع انسان کے روپ میں بھرپورموجودگی کااحساس دلایا ہے اوراپنے وجوداورتشخص کی مکمل شناخت قائم کی ہے۔ مردانہ بالادستی والے معاشرے کے امتیازانہ رویے کے خلاف بلندبانگ آوازبلندکی ہے۔آج کی جدیدعورت اپنا سربلندکرکے جینے پریقین رکھتی ہے ۔کیوں کہ اسے یہ احساس ہوچلاہے کہ وہ کسی بھی معاملے میںمردسے کمتر یا کمزور نہیںہے۔بیداری زمانہ اوربیداری نسواںکے تحت معاشرے میں جوتبدیلیاں رونما ہوئیں اس کے اثرات حساس اور دانشور خواتین پرپڑنالازمی تھالہذا ان خواتین نے معاشرے کے اس بے جافرسودہ اوربوسیدہ حصارسے باہرنکل کرکھلی اور صاف فضامیںسانس لیناسیکھا اورمردوںکے خیالات ونظریات کی دھجیاںاڑانی شروع کردیں۔انھوں نے اپنے ساتھ روارکھی گئی ان تمام ظلم وزیادتیوں،گھٹن ،حبس اورکرب کے بارے میںکھلم کھلااظہارخیال کیاجن کی جکڑ بندیوں میں اب تک وہ گھری ہوئی تھیں۔
***