You are currently viewing منوج شیری کا افسانوی مجموعہ”خوشبوئے کشمیر“:ایک مطالعہ

منوج شیری کا افسانوی مجموعہ”خوشبوئے کشمیر“:ایک مطالعہ

ڈاکٹرمبارک لون

سرینگر کشمیر

منوج شیری کا افسانوی مجموعہ”خوشبوئے کشمیر“:ایک مطالعہ

’’منوج جی نے اپنی کہانیوں کو عصری آگہی سے اس طرح مزین کیا ہے کہ یہ سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی کا آئینہ بن گئی ہیں۔ ‘‘محمد زماں آزردہ

’’خوشبوئے کشمیر‘‘ منوج شیری صاحب کا خلق کردہ افسانوی مجموعہ ہے ـ منوج شیری اپنے نام کے ساتھ شیری اس وجہ سے لکھتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق شیری نامی گاؤں سے ہے ـ مذکورہ گاؤں بارہمولہ سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ـ منوج شیری نے اس افسانوی مجموعے میں بارہ افسانے شامل کئے ہیں ـ اس افسانوی مجموعے میں شامل تمام افسانے منوج شیری نے  جموں و کشمیر کے ان تمام ستم رسیدہ لوگوں کے لئے وقف کر دئے ہیں جو نا مساعد حالات سے دو چار ہیں ـ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ منوج شیری نے کتنی باریک بینی سے حالات کا مشاہدہ کیا ہے ـ منوج شیری کشمیری پنڈت ہیں ـ مذہبی رنگ کہیں پر بھی ان کی تخلیقات پر حائل نہیں ہواـ وہ نہ ہی کہیں پر پنڈتوں کی تائید کرتے ہیں اور نہ ہی کہیں پر مسلمانوں کی مخالفت بلکہ وہ خالص انسانوں اور انسانیت کی بات کرتے ہیں ـ

اس افسانوی مجموعے میں شامل پہلا افسانہ “گولڈ میڈل” کے عنوان سے ہے ـ اس افسانے کا مرکزی کردار “غلام محی الدین” ہے جو اپنے بیٹے “اخلاق احمد” کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھتا ہے ـ مگر ان کا یہ خواب اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب اخلاق احمد کو یہاں کسی سرکاری ہسپتال میں نوکری نہیں ملتی اور وہ سعودی عرب چلا جاتا ہے ـ وہیں شادی بھی کر لیتا ہے ـ اپنی ماں “زیبا” کے علیل بیمار ہونے کی خبر سننے کے باوجود بھی واپس نہیں آتا ـ دوسری طرف ماں کی محبت کا عالم منوج شیری کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

’’اخلاق کا فوٹو زیبا نے اپنے سرہانے کے نیچے مستقل طور پر رکھا تھا ـ شوہر کی غیر موجودگی میں وہ اس فوٹو کو نکالتی چومتی اور پھر رو پڑتی‘‘۔

منوج شیری کا سماجی شعور یہاں واضح دکھائی دیتا ہے ـ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پڑھ لکھ کر بھی ہمارے جوان اپنے والدین کو چھوڑ کر دور کسی ملک میں چند نوالوں کے لئے در بدر پھرتے ہیں؟ ایسے ہزاروں سوال ہیں جن کا جواب جانتے ہوئے بھی ہمیں خاموشی اختیار کرناق پڑتی ہے ـ   یہاں میں احمد سلمان کا ایک شعر نقل کرتا ہوں جس پر سنجیدگی سے غور کر کے آپ کو شاید کوئی جواب مل سکتا ہے ـ یا یوں کہیے کہ یہ شعر اس افسانے کا منظوم خلاصہ ہے۔ شعر یوں ہے کہ:

وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا

جب ان کے بچے جو شہر جا کر کبھی لوٹے تو لوگ سمجھے

اخلاق احمد جب سعودی عرب سے ’’غلام محی الدین‘‘ کے فون کرنے پر بھی واپس نہیں آتا ہے تو غلام محی الدین کی نفرت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے ـ مندرجہ ذیل جملوں پر افسانے کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ:

’’وہ اپنی جگہ سے اٹھا اس نے گولڈ میڈل کو اتارا ـ پاس ہی پڑے ہوئے حقے سے اس گولڈ میڈل کا فریم توڑا اور پھر اس پر تھوکنا شروع کیا ـ غلام محی الدین کو لگ رہا تھا کہ وہ گولڈ میڈل کو نہیں بلکہ اپنے بیٹے اخلاق پر تھوک رہا ہے ـ یہ افسانہ ہمیں بہت سارے سماجی مسائل پر سوچنے کے لئے مجبور کرتا ہے ـ جو سوال اس افسانے میں اٹھائے گئے ہیں ان پر سماج کے ایک ایک فرد کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

مذکورہ مجموعے میں دوسرا افسانہ ’’6اکتوبر 2002 ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔عنوان پر نظر پڑتے ہی قاری کے ذہن میں یہ سوال سرعت سے پیدا ہو جاتا ہے کہ آخر اکتوبر 2002ء کو ایسا کون سا سانحہ پیش آیا ہے جو مصنف نے افسانے کایہ نام منتخب کیا۔مگر افسانہ کی پہلی سطر میں ہی قاری پر واضع ہو جاتا ہے کہ اس دن کوئی سانحہ نہیں بلکہ افسانہ کے مرکزی کردار “ہی مال” کے پوتے کی شادی طے پاتی ہے جس کا “ہی مال” بے صبری سے انتظار کرتی ہے۔ اس افسانے کا موضوع ہجرت کا کرب ہے۔ ایسا کرب کہ جس سے کبھی ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اور کبھی پاکستان میں رہنے والے ہندؤں کو گزرنا پڑا۔ بد قسمتی سے جنتِ کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کو بھی نہ چاہتے ہوئے اس کرب سے گزرنا بلکہ جھیلنا پڑا۔ افسانہ نگار  اس افسانے کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کراتا ہے کہ کشمیری پنڈتوں سے دورانِ ہجرت نہ صرف ان کے مکانات، کھیت کھلیان اور جائدادیں وغیرہ ہی نہیں چھوٹی بلکہ ان کی زبان، تہذیب و تمدن ہی نہیں بلکہ ان کا ثقافتی تشخص بھی ان سے کوسوں دور جواہر ٹنل کے پار رہ گیا۔1990ء میں کشمیری پنڈتوں پر ہجرت کا قہر کچھ اس طرح ٹوٹا کہ پھر کبھی کشمیری پنڈت کسی ایک ٹھکانے پر مجتمع نہ ہو سکے۔ کچھ پنڈت ہندوستان کے مختلف شہروں اور کچھ بیرون ممالک میں جا بسے۔ ظاہر سی بات ہے جب کشمیری پنڈتوں نے اپنا مسکن ملک اور بیرون ملک کے مختلف شہروں کو بنایا تو وہاں ان کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔ خواہ وہ زبان کا مسئلہ ہو یا شادی بیاہ کا۔ہجرت کے چودہ سال جب گزر جاتے ہیں تو “ہی مال” کے پوتے “روی” کی شادی کا دن آن پہنچتا ہے۔ شادی کے موقع پر مدعو اقارب جو چودہ سالوں میں ہندوستان اور ہندوستان کے باہر مختلف ریاستوں میں مختلف اقوام کی عورتوں سے شادی کر چکے ہوتے ہیں وہ خاص کر ان کی بیویاں کشمیری تہذیب و ثقافت سے ہی نہیں بلکہ زبان سے بھی نابلد ہوتی ہیں۔ افسانے کا ایک درد بھرا اقتباس ملاحظہ کریں جس سے مصنف کا نقطۂ نظر عیاں ہو جاتا ہے جس کی طرف وہ قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے۔

’’شمبھوناتھ ہی مال کی پریشانی بھانپ گیا تھا۔ اس نے مذاقاً اپنی بیوی سے کہا” اس گھر میں اب میں اور تم ہی اصلی کشمیری بچ گئے ہیں تمبکناری لاؤ۔۔۔۔۔۔۔ اس پر ہی مال کو بہت غصہ آیا”میں نے کہا تھا بچوں کی شادیاں غیر کشمیری پریواروں میں مت کراؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ کشمیری روایت مطابق دولہے کے پاؤں دھونے کے لیے برتن لانے سے لے کر مہندی لگانے کا کام اب سارا ہی مال کو کرنا پڑ رہا تھا۔۔۔۔۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر شمبھو ناتھ نے ہی مال کے کان میں کہا”آج مجھے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ نہیں لگ رہا ہے بلکہ اپنی ہی شادی میں ہی مال دیوانی لگ رہی ہے۔ ‘‘

اس مجموعے میں شامل ایک اور افسانہ “حسرتِ ناتمام” کے عنوان سے ہیں۔ اس افسانے کا موضوع بھی ہجرت اور ہجرت کے بعد کا ماحول ہے۔ دو بڑے سیب کے باغات کا مالک جواہر لال اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جو کشمیر سے ہجرت کردہ کئی ہزار مہاجرین میں سے ایک تھا۔ جس جواہر لال کا گھر نوکروں اور پھلوں سے بھرا رہتا تھا وہ ہجرت کے بعد پائی پائی کا محتاج ہو گیا۔ مذکورہ افسانہ اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب ایک سیب خریدنے تک کے پیسے اس کے پاس موجود نہیں ہوتے۔ بلکہ الٹا چوری کے الزام میں میوہ فروش صرف سیب چھونے پر اس کا برا حال کرتا ہے۔ہر دردمند قاری کی آنکھیں اس وقت نم ہو جاتی ہیں جب جواہر لال کا وفادار نوکر رحمان سیب کا ایک ڈبہ جواہر لال کے اپنے ہاتھوں سے لگائے درخت سے اتار کر لے آتا ہے۔ مگر افسوس تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ مصنف کا تعلق چوں کہ خود پنڈت برادری سے ہے اس لیے انہوں نے ہجرت کا دکھ قریب سے سہا ہے۔ اس افسانے کی منظر نگاری بھی کمال کی ہے۔

ہجرت کے الم ناک واقع پر اس مجموعے میں ایک اور افسانہ “اندھی ماں” کے عنوان سے ہے۔ اس افسانے میں محبت کو نفرت پر غالب آتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ “اندھی ماں” اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جسے اپنے آبائی گاؤں کی محبت ہجرت سے روک لیتی ہے۔”علی محمد” اس افسانے کا ایک اور اہم کردار ہے جو سرینگر کشمیر کا رہنے والا ہوتا ہے اور حکومت مخالف تنظیم کا رکن بن جاتا ہے۔ مگر “اندھی ماں” کی محبت اس کے دل کو موم کر دیتی ہے جس کا اندازہ آپ اس اقتباس سے بخوبی لگا سکتے ہیں:

“ادھر “اندھی ماں” کہہ رہی تھی کہ “علی محمد” بالکل بے گناہ ہے اور اس کو چھوڑ دیا جائے اور ادھر علی محمد کوئی بھی سزا پانے کے لیے تیار تھا مگر شرط یہ تھی کہ “اندھی ماں” کو چھوڑ دیا جائے۔ “

اس افسانے میں دکھایا گیا ہے کس طرح روشن بستیوں کی بستیاں چند پل میں اندھیرے کا نوالہ بن گئیں۔مصنف اس افسانے میں “علی محمد” کا کردار منفی طور پر بھی پیش کر سکتا تھا مگر خود کشمیری پنڈت ہوتے ہوئی بھی مصنف نے نفرت کے شعلوں کو محبت کے پانی سے بجھا دیا ہے بلکہ مکمل بجھا دیا ہے۔ جس سے مصنف کی انسان دوستی نمایاں ہوتی ہے۔

اگر افسانہ “گرداب” کی بات کی جائے تو اس کا موضوع عشق اور بے روزگاری دونوں ہیں۔ “دھیرج” جو اس کہانی کا مرکزی کردار ہے غمِ روزگار سے دوچار ہے۔ “آشا”نامی لڑکی سے اس کی شادی صرف اس وجہ سے نہیں پائی کیونکہ وہ بے روزگار تھا۔ مصنف کا کمال یہ کہ وہ ہمیں حقیقت سے آشنا کراتا ہے۔”دھیرج” نامی کردار کے ذریعے وہ ہمیں ایسی ہزاروں نوجوانوں کی نفسیاتی الجھن سے با خبر کراتا ہے جو عشق کی راہ پر نکل تو پڑتے ہیں مگر ان کا بے روزگاری کی بینٹ چڑھتا ہے۔ جب “دھیرج” آشا کی شادی کا کارڈ دیکھتا ہے تو وہ روتا ضرور ہے مگر اپنے دل کو یوں تسلی دیتا ہے:

“میرے اور تمہارے بیچ صرف ایک نوکری کا فاصلہ رہا۔ میں تمہیں نہ پا سکا۔ تم نے ٹھیک ہی کیا میرے پاس کیا ہے۔ میں تو خود اپنے آپ کو سنھبال نہیں سکتا ہوں۔ تمہیں کیا دیتا۔ صرف پیار سے پیٹ نہیں پلتا۔ “

جون ایلیاکے مندرجہ ذیل اشعار اس افسانے کا شعری خلاصہ ہیں:

کون سود و زیاں کی دنیا میں

درد غربت کا ساتھ دیتا ہے

جب مقابل ہوں عشق اور دولت

حسن دولت کا ساتھ دیتا ہے

زندگی میں اتنی پریشانیوں کے بعد بھی مصنف نے جینا کو ہی ترجیح دی ہے۔ ہالانکہ “دھیرج” بھی خودکشی کرنے لگتا ہے مگر ماں کی آواز سن کر وہ اپنا ارادہ ترک کرتا ہے اور بلیڈ پھنک دیتا ہے۔

“طوفان” بھی “گرداب” کی طرح کا ایک افسانہ ہے۔ جس کا موضوع غریبی ہے۔ “زون” اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جو سنگھاڑے اور مچھلیاں بیچ کر اپنا اور اپنے والدین کا پیٹ پالتی تھی۔ “شوکت” نامی ایک رئیس لڑکے سے وہ ایک طرفہ محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ وہ اس گرفتاری سے تب رہائی پاتی ہے جب اسے معلوم پڑتا ہے کہ “شوکت” کی شادی اس کی خالہ زاد بہن سے ہونے جا رہی ہے۔ مصنف نے اس کے بعد “زون” کو پاگل ہوتے ہوئے نہیں دکھایا کیونکہ مصنف خیالی دنیا سے زیادہ حقیقی دنیا کی ترجمانی کرتا ہے جس کی مثال گزشتہ افسانوں میں بھی ملتی ہے۔ جب “زون” کو “شوکت” کی شادی کا سنتی ہے تو وہ روتی، سسکتی نہیں بلکہ یہ کہتے ہوئے ٹوکرا اٹھاتی ہے کہ:

’’حبیب ڈار کی بیٹی کو بازار میں سنگھاڑے ہی بیچنے ہیں۔ ہر کوئی زون حبہ خاتون نہیں بن سکتی‘‘۔

اس افسانے سے یہ بھی واضع ہو جاتا ہے کہ مصنف اپنے گردو پیش سے غیر معمولی حد تک با خبر ہے۔ وہ اپنے افسانوں کے موضوعات اپنے آس پاس سے ہی منتخب کرتا ہے۔ کرداروں کا چناؤ اور ان کے ناموں کا انتخاب کرنے میں بھی مصنف ید طولیٰ رکھتا ہے۔

“ڈاکٹر صاحب” کے عنوان سے مذکورہ افسانوی مجموعے میں ایک افسانہ ہے۔ اس افسانے کا موضوع بھی ہجرت ہے۔ جو پنڈت ابھی تک ہجرت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اس میں ان کی نفسیاتی الجھن کی تصویر کشی ملتی ہے۔ “اوتار کرشن” جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے اور پیشے سے ڈاکٹر ، اس کو علامت بنا کر افسانہ نگار نے عام لوگوں کا دکھ پیش کیا ہے۔ جب ملٹنٹوں کو کوئی کھانے کھلاتا یا کوئی ڈاکٹر علاج کرتا تو فوجی آ کر اسے تنگ کرتے، اسی طرح جب کوئی فوجیوں کی حمایت کرتا تو ملٹنٹ آ کر اسے زد کوب کرتے۔ اس افسانے میں مصنف نے پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ کے رشتے کو بھی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسانہ دیگر افسانوں سے قدرے طویل ہے مگر ہجرت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا خوبصورت عکاس ہے۔

“اپنا اپنا کرب” افسانہ بھی خوشبوئے کشمیر میں شامل ہے۔ اس افسانے کا موضوع بھی ہجرت ہے۔ مصنف نے اس افسانے کو مکالماتی انداز میں خلق کیا ہے۔ یہ مکالمہ “رمضانہ” جو ایک چور ہوتا ہے اور کسی پنڈت گھر میں قید گھر دیوتا کے درمیان ہوتا ہے۔ مصنف نے “گھر دیوتا” کی زبان سے ہجرت اور اس کے بعد پنڈت گھروں کی لوٹ کھسوٹ اور پھر ان گھروں میں گولہ بارود کا اکھٹا کرنے کی داستان کہلوائی ہے ۔ اس افسانے میں مصنف سے ایک چوک ہوئی ہے اور وہ یہ کہ مصنف نے منکر نکیر کو اچھے برے اعمال لکھنے والے فرشتے کہا ہے جبکہ اچھے برے اعمال لکھنے والے فرشتوں کو کراماً کاتبین کہا جاتا ہے۔ عورتوں کے رونے کو مصنف نے زوال کی علامت کہا ہے۔ اس حوالے سے مندجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:

“عورتیں جہاں سے بھی ہوں ایک تہذیب کو راستہ دکھانے والی ہوتی ہیں اور عورت کا رونا کسی بھی تہذیب کے زوال کی علامت ہے۔ “

“گھر” کے عنوان سے ایک خوبصورت افسانہ اس مجموعے کی زینت ہے۔ اس گھر کو عمر بھر کی جمع پونجی سے رحیم ترکھان نے اپنے لیے بنایا تھا۔ مگر فوجی اور ملٹنٹوں کی جھڑپ میں رحیم ترکھان کا نذرِ آتش ہو گیا۔ رحیم ترکھان نے اپنے گھر کا انشورنس بھی کروایا تھا مگر انشورنس والوں نے claim  زیادہ کہہ کر پیسے دینے سے انکار کر دیا۔ یہاں مصنف کی عصری آگہی کا مظاہرہ ہوتا ہے جس کی ہم ابتدا میں ہی ذکر کر چکے ہیں۔ یہ افسانہ پڑھ کر بشیر بدر کا یہ شعر یاد آتا ہے:

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

آج بھی انشورنس کے نام پر دھاندلیاں ہوتی رہتی ہیں لہذا مصنف اس افسانے کے ذریعے عام لوگوں کو ان دھاندلیوں سے محفوظ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔

“بانجھ کا گھر”افسانہ درج بالا افسانوں سے قدرے مختلف ہے۔ اس افسانے کا موضوع ہجرت نہیں بلکہ دھوکا اور فریب ہے ۔ ” نورین” اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جو ایک بنگالی لڑکی ہے۔ کشمیر اور طارق نامی لڑکے کی محبت اسے گھر سے نکلنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن کشمیر پہنچ کر اس کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں۔ طارق کی پہلی سے ہی ایک بیوی ہوتی ہے۔ لیکن جب “نورین” کے سامنے کھلتی ہے تو یہ قصہ طلاق پر ختم ہوتا ہے۔ نورین کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ جب “نورین” کے سارے سہارے یکے بعد دیگرے چھن جاتے ہیں تو وہ ہوس پرستی کی بھینٹ چڑ جاتی ہے۔ طارق کے بعد حمید کے ساتھ وہ محبت کرتی ہے مگر حمید کے گھر والے بیچ کی دیوار بن جاتے ہیں اور یوں “نورین” کے خوابوں کا گھر بسنے سے پہلے ہی اجڑ جاتا ہے۔ حمید اس کا حمل گراتا ہے تو وہ بانجھ بن جاتی ہے۔ بانجھ عورتوں کے دکھ کو افسانہ نگار نے اس افسانے کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی ہے۔افسانہ نگار کے نزدیک بانجھ کو کہیں بھی کوئی گھر نہیں ہوتے۔ اس افسانے کا اختتام مندرجہ ذیل جملوں پر ہوتا ہے جس سے قاری پر ایک لرزہ طاری ہوتا ہے۔

“—–بانجھ کا گھر کہاں؟

نہ ہی میکے میں نہ ہی سسرال میں

نہ کشمیر میں اور نہ ہی بنگال میں

“بانجھ کا گھر”افسانہ کے بعد افسانہ ” فارم مضروبی” کے نام سے مذکورہ مجموعے میں ایک افسانہ شامل ہے۔ اس افسانے میں 1990ء کے بعد کی صورتِ حال کو موضوع بنایا گیا ہے جب ہر طرف گولیوں اور بم دھماکوں کا شور مسلسل سنائی دیتا تھا۔ فارم مضروبی وہ قانونی دستاویز ہوتا ہے جس میں زخمیوں کے بارے میں تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔ اس افسانے کا مرکزی کردار موہن سنگھ ہے جس کو “فارم مضروبی” کا لقب دیا گیا تھا کیونکہ وہ فارم مضروبی کے چار پانچ فارم ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا۔ جیسا کہ اس وقت کے کشمیر کے حالات تھے اس حساب سے صرف ایک موہن سنگھ کے پاس نہیں بلکہ ہر پولیس والے کے فارم مضروبی ہوتے ہوں گے۔جب موہن سنگھ بھی ایک واردات میں زخمی ہوتا ہے تو اس کی تفصیلات درج کرنے لیے فارم مضروبی ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ موہن سنگھ باالآخر منردجہ ذیل حسرت دل میں لیے دم توڑ دیتا ہے:

“بھگوان جانتا ہے کہ وہ دن کب آئے گا جب ہمیں فارم مضروبی ساتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ “

اس افسانوی مجموعے میں آخری افسانہ “مشورہ” کے نام سے شامل ہے۔ اس افسانے کو افسانہ نگار نے دو حصوں میں منقسم کیا یا یوں کہیے کہ اس افسانے کے دو پلاٹ ہیں۔ ایک اجمل خان اور دوسرا ساحل خان کو محتوی ہے۔ اجمل خان ساحل خان کا بیٹا ہوتا ہے جو پیشے سے ڈاکٹر ہوتا ہے مگر دوستوں کی بری صحبت اسے منشیات کا عادی بنا دیتی ہے۔ منشیات کا استعمال معاصر دور کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن سے لرزہ طاری ہوتا ہے۔ اجمل خان تو بس گھر میں نشے کی حاجت پورنے کرنے کے لیے اپنے ہی گھر چوری کرتا ہے جبکہ منشیات کے عادی نوجوان آج کل اس ضرورت کے لیے اپنی ماؤں کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ساحل خان بھی آج کے والدین کی طرح اجمل خان کو زہریلا انجیکشن جب دینے کی بات کرتا ہے تو ماں کی ممتا جوش میں آ جاتی ہے جس کے سامنے ساحل خان کا مشورہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔

دوسری کہانی خود ساحل خان کی ہے جب وہ شدید بیماری کا شکار ہو کر کوما میں چلا جاتا ہے۔ اجمل خان توبہ کرتا ہے اور ایک بڑا ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ اپنے والد ساحل خان کے علاج میں کوئی کثر نہیں چھوڑتا مگر ساری کاوشیں رائیگاں ہو جاتی ہیں۔ اجمل کی ماں سائرہ بھی اب ساحل خان کے لیے موت کی دعا کرتی ہے۔ یہاں پر انسانی نفسیات کا قریب سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جب انسان بوجھ بن جاتا ہے تو اس کے چہیتے بھی عاجز آ جاتے ہیں۔ سائرہ جب اجمل خان کو مشورہ دیتی ہے کہ ایسی زندگی سے بہتر ہے کہ ساحل خان کو زہریلا انجکشن دے کر ہمشہ ہمیشہ کے لیے اس اذیت سے نجات دی جائے تو اجمل خان  وہی جملے دہراتا ہیں جو سائرہ نے اس وقت دہرائے تھے جب ساحل خان نے گھر میں چوری کرنے پر اجمل خان کو زہریلا انجکشن دینے کی بات کی تھی۔

“میں تمہیں کسی کو مارنے کے لیے مشورہ نہیں دوں گا-پاپا کو اللہ نے پیدا کیا۔ وہی اس کو ٹھیک کریں گے۔ ہم اس کو مارنے والے کون ہیں۔ “

اگر مجموعے طور پر ان تمام افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ افسانہ نگار سماجی و سیاسی حالات سے شعوری طور پر واقفیت رکھتے ہیں۔ ان افسانوں کے لیے افسانہ نگار عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے جس میں کہیں کہیں پر کشمیر زبان کے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں افسانہ نگار کی مثبت سوچ کو سلام پیش کرتا ہوں۔ افسانہ نگار کو اختیار تھا کہ وہ ان افسانوں میں نفرت کو بھی ہوا دے سکتا تھا مگر ان کی انسان دوستی نفرت پر غالب آ جاتی ہے۔ ان افسانوں کا مطالعہ کرنے سے ہمیں کشمیری پنڈتوں کی ان پریشانیوں اور دکھوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو ہجرت کے بعد ان کو سہنے پڑے۔ 1990ء کے بعد کے حالات کے علاوہ مشترکہ تہذیب کی عکاسی بھی ان افسانوں میں عیاں نظر آتی ہے۔ مختصر یہ کہ “خوشبوئے کشمیر ” نامی اس افسانوی مجموعے کے ایک ایک افسانے سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔

Leave a Reply