“موت کا سفر”

کومل شہزادی

“موت کا سفر”

فیصل ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہائشی تھا۔ وہ روز مزدوری کرتا، کبھی کھیتوں میں، کبھی تعمیراتی کام پر۔ دل میں ایک ہی خواب تھا — “کبھی یورپ جاؤں گا، خوب پیسے کماؤں گا، پھر واپسی پر سب کو حیران کر دوں گا۔”

ایک شام وہ اپنے دوست کامران کے ساتھ بیٹھا تھا۔ کامران ابھی دو ماہ پہلے ہی شہر سے واپس آیا تھا۔

فیصل! “یار کامران، تُو تو خوش نصیب ہے، شہر میں کماتا ہے، نئی موٹر سائیکل بھی لی، نئے کپڑے بھی، اور میں ابھی تک کیچڑ میں دھنسا ہوا ہوں۔”

کامران!”فیصل بھائی، خوش نصیبی کی بات نہیں۔ ہنر ہونا چاہیے… اور تھوڑا رسک لینے کا حوصلہ۔”

فیصل!”کیا مطلب؟”

کامران !”کچھ دوست لیبیا کے راستے یورپ جا رہے ہیں، غیر قانونی طریقہ ہے مگر کام پکا ہے۔ پہلے کچھ پیسے لگتے ہیں، پھر باہر جا کر نوکری اور خوب کمائی۔ تُو بھی چل، میں بندوبست کروا دیتا ہوں۔”

فیصل کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ کچھ لمحے بعد وہ بولا:

یصل! “کتنے پیسے چاہئیں؟”

کامران! “ڈھائی لاکھ۔ تیرا پاسپورٹ بن جائے گا، باقی کام ایجنٹ کرے گا۔ بس سفر تھوڑا مشکل ہے، لیکن منزل خوبصورت ہے۔”

فیصل نے بنا کچھ سوچے اپنا زیور، ماں کی جمع پونجی اور کچھ ادھار لے کر ایجنٹ کو پیسے دے دیے۔

چند دن بعد، فیصل اور کچھ دیگر نوجوان پاکستان سے ایران، پھر لیبیا کی طرف نکل پڑے۔ سفر نہایت کٹھن تھا۔ گرمی، بھوک، اور ہر قدم پر خطرہ۔ جب وہ لیبیا کے صحرا میں پہنچے، تو کئی لوگوں کی طبیعت بگڑ چکی تھی۔

ایک رات فیصل نے کمزور آواز میں ایک ساتھی سے پوچھا:

فیصل: “یہ کیسا خواب ہے؟ نہ کھانے کو ہے، نہ سونے کو۔”

ساتھی: “بھائی، اب واپس نہیں جا سکتے۔ اب صرف یا تو یورپ یا قبر۔”

جب وہ لوگ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں اندھیری رات تھی، اور کشتی میں گنجائش سے دگنے لوگ تھے۔

ایجنٹ (چیختے ہوئے): “خاموش رہو! اگر کوسٹ گارڈ نے پکڑ لیا تو سب جیل میں ڈال دیے جاؤ گے!”

لیکن کشتی کچھ دور جا کر ہچکولے کھانے لگی۔ پانی اندر آ رہا تھا۔ لوگ چیخنے لگے، دعائیں مانگنے لگے۔

فیصل روتے ہوئے!”یا اللہ! اگر واپس لے جا سکتا ہے تو لے جا! ماں کے ہاتھ کا کھانا، باپ کی ڈانٹ، وہ سب سچ میں جنت تھی!”

کشتی الٹ گئی۔

کچھ لوگ ڈوب گئے، کچھ کو ساحل پر کوسٹ گارڈ نے نکالا۔ فیصل اُن میں سے تھا جنہیں بچا لیا گیا، مگر اُس کے ساتھ آئے کئی دوست ہمیشہ کے لیے سمندر کی تہہ میں سو گئے۔

چھ ماہ بعد، فیصل اپنے گاؤں واپس آیا۔ دبلا پتلا، چہرے پر سنجیدگی، اور آنکھوں میں شرمندگی۔

لوگ حیران تھے، “یورپ سے آیا ہے؟”

فیصل نے سب کو اکٹھا کیا، اور ایک پرانے پیپل کے درخت کے نیچے بولا:

فیصل!”میں یورپ نہیں، موت کے دہانے تک گیا تھا۔ جو خواب میں نے دیکھا، وہ دھوکہ نکلا۔ غیر قانونی راستے، ایجنٹوں کے جھوٹ، اور اپنی ماں کی دعاؤں کے بغیر، انسان کچھ نہیں۔ آج میں زندہ ہوں تو صرف اس لیے کہ اللہ نے موقع دیا۔ لیکن سب کو نہیں دیتا۔”

گاؤں میں خاموشی چھا گئی۔ لوگ آنکھوں میں آنسو لیے واپس جانے لگے۔

“غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانا نہ صرف جان کا خطرہ ہے بلکہ اپنے خاندان اور خود پر ایک ظلم بھی ہے۔ اصل ترقی محنت، علم، اور صحیح راستے سے حاصل ہوتی ہے۔ شارٹ کٹ اکثر موت کا راستہ ہوتا ہے۔

***

Leave a Reply