نثار آحمد چہچی
شوپیان، کشمیر
ناول”شین تہٕ وتہٕ پُوٗد “۔۔۔۔ایک جائزہ
کشمیری زبان کی ادبی خدمات میں پران کشور کو ہر سطح پر سراہا گیا ہےاور کشمیری ادب کا ہر کوی ادیب اور قاری ان کی ادبی خدمات سے باخوبی واقف ہے۔آپ اداکار،ہدایت کار، پروڈیوسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مانے جانے والے ناول نگار بھی گزرےہیں۔جہاں تک آپکی ناولوں کا تعلق ہے۔ان کی دو ناول پہلی ”شین تہٕ وَتہٕ پُود“دوسراناول”گُل،گُلشن،گُلفام“ہے جو کشمیری ادب میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ان کی پہلی ناول” شین تہٕ وتہٕ پُود“جو 1987 میں شاٸع ہوااوردوسرا ناول”گُل،گلشن،گلفام“ ہے جو2008میں شاٸع ہوا یہ ناول 219 صفات اور 26 حصوں میں تقسیم کی گی ہے۔یہ ناول گجر بکروال طبقے کی ایک رومان پرور کہانی ہے۔اس ناول میں اس طبقے کی حالاتِ زندگی،کلچر،تمدن اور سماج کی بر پور عکاسی کی گی ہے۔اس ناول کے مصّنف نے خود ہی ”Snow and the Bridle pathکے نام سے انگریزی میں ترجمہٕ کیا۔اس ناول پر مصّنف کو 1998 میں سایتہٕ اکیڈمی سے بھی نوازہ گیا۔
فنکار اپنے گردوپیش میں ہونے والیے حالات وواقعات، سماج میں ہونی والیے بُرے رسومات اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو در پیش آنے والی روز مرہ کی مشکالات کا بہت ہی سنجیدگی اور گراہی سے مشاہدہ کر کے اپنی فنی قابلیت کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ پڑھنے اور سُننےوالیے اس کے قاٸل ہوجاتے ہیں۔ اور اس کی اس ہُنرمندی کی چھاپ انسانی ذہنوں کو گرویدہ بنادیتی ہے۔جس کی بنا پر فنکار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ اور جاویدان رہتا ہے۔کیونکہ وہ انسانی زندگی کے وجود میں غوطہٕ زن ہوکر اس کی نفسیاتی، احساساتی اور جذباتی پہلووں کو پیش کرتا ہے ۔اسی طرح کے کچھ سین پران کشور کی ”شین تہٕ وَتہٕ پُود“ ناول میں بھی یہ دیکھنے اور پڑھنےکو ملتے ہیں۔ ہے کہ کس طرح گُجر اور بکروال لوگوں کا فطرت کے ساتھ قریبی رشتہ ہوتا ہے مگرجب یہ فطرت غصّے میں آکران پر قہر برساتی ہے اور یہ کس بہادرانہ طریقے سے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ناول نگار نے اس قبیلے کے لوگوں کی آپسی بھاٸ چارگی ،برادر ی کو بھی بیان کیا ہے۔کہ کس طرح یہ قبیلہ ایک دوسرے کےساتھ کسی بھی مصیبت میں شانہ بشانہ رہتے ہیں۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک باسٹھ سالہ بُزرگ راج ولی جو اپنے طبقے کا بہت ہی خوبصورت ہمدر اور دیوتا نمّا شخص ہے لیکن بدقسمتی سے یہ شادی کر کے بیس سال تک اولاد جیسی نعمت سے محروم رہتا ہے۔پھر یہ دونوں میّاں بیوی رازدان پیر بابا کے دربار میں بڑے ہی عقیدے اور احترام کے ساتھ منّعتیں رکھ رکھ کر آولاد مانگتے ہے۔پھر آخر کار بیس سال بعداللّہ پاک نے انہیں بیٹے کی روپ میں اولاد عطا کرتا کی۔ جب یہ لڑکا جوان ہوتا ہے راج ولی اس کو بھیڈ بکریوں کے ساتھ بہک میں بھیجتا ہے۔لیکن خزاں ہوتے ہی سب گاوں کے نوجواں بہکوں سےاپنی اپنی بھیڈ بکریّاں لے کر گھر واپس آجاتے ہیں۔جن کے آمد کی خبر سب سے پہلے مستان خان (جو گاوں کا لمبردار ہوتا ہے)دیتا ہے۔راج ولی“ اُس وقت اپناکُتا جس کا نام” پاشاہ” ہوتاہے۔اُس سے باتیں کررہا ہوتا ہے۔اتنے میں مستان خان کی آواز سُنتا ہے”۔مستان خان“جو آواز دیتے ہوے کہتا ہے۔
ناول سے ایک اقتباس”ہیَو فیاضاہو۔۔۔۔۔!مہربازا ہو۔۔۔۔۔۔۔!جَب ہَو ہیتِن واتٕنیٕ۔۔۔۔۔۔راج ولی خانا ہو۔۔۔۔۔۔۔“
راج ولی خان نے جوں ہی مستان خان کی آواز پہچانی وہ ایک دم اُٹھ کھڑا ہوا۔اور باآواز بُلند جواب دیتے ہوے کہا۔آرہا ہوں بھای آرہا ہوں۔راج ولی خان نے اپنی بیوی کے پاس آیاجو کہ باہر آنگن میں نکلی ہوی تھی۔آکے کہنے لگاآپ اِدھر ہی انتظار کرنامیں پہاڑی پرجاکے جلدی جلدی قمّرو اور بھیڈ بکریّوں کو لیےآتا ہوں لیکن” ریشما “نے ایک نہ سُنی وہ بھی آہستہ آہستہ اس کے ساتھ ”قمرو” یعنی اپنے بیٹے کے آگے نکل پڑی۔ جب یہ پہاڑی پر پہنچےدیکھاسب گاوں کے نوجوان( گبرو) سوِا”قمّرو“کے اپنی اپنی بھیڈ بکریّوں کے ریوڑ لیے کرپہنچ چکے تھے۔لیکن ”قمّرو“کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔راج ولی اور ”ریشما “نےسب سے خیر عافیت پوچھ کر کہا قمّرو کہاں ہے۔۔۔۔؟
کتنا دور ہے۔۔۔۔۔؟،اور کتنا پیچھے ہے۔۔۔۔؟
وہ کیوں نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
انہوں نے کہا وہ ابھی نہیں آیا ایک دو دن تک پہنچ جاے گا۔۔۔۔۔،
ناول سے ایک اقتباس۔
”قمّرو کیتُو چھ۔کوتہاو پَتھٕ چُھ”۔۔۔۔۔۔۔۔” چاچا سُہ چھا کأنسہٕ ہُند مانان۔۔۔۔۔۔۔۔اَکہ دوہہٕ گو جَب ہتھٕ نیرتھٕ تہٕ کھوت تھزرس تھأج بالَس۔۔۔۔۔۔واتہٕ أکس دون دوہن تام۔۔۔۔۔۔۔“
ہر دن راج ولی اپنی بیوی ریشما کا ہاتھ پکڑ کر صبع سویرے بھوکے پیاسےجاکے اسی پہاڑی پر اپنے بیٹے ”قمرو “کے انتظار میں بیٹھ جایا کرتےتھے۔اور شام کودیر سےگھر واپس لوٹ آتے تھے۔جو کوی بھی بہک سےاپنا مال مویشی لے کر لوٹتا تھا۔اُن کو قمّرو کے بارے پوچھتے تھے۔ہر کوی یہی کہہ کر تسلی دیتا تھا کہ آجاے گا، آتا ہی ہوگا ایسے ہی نو دن تک انہوں نےانتظار کیا۔لیکن ”قمرو“ نہیں آیا۔اب ان کے ساتھ ساتھ پورا کا پورا گاوں پریشان ہوگیا۔صرف یہی کہہ رہے تھے، آخر گیا تو گیا کہاں ؟ کیوں نہیں آیا۔۔۔۔۔؟
آخر کر گاوں والوں نے مشہورہ کیا کہ۔اب ہمیں بنا دیر کیے”قمّرو“کو ڈھونڈناچاہیے۔اب ”قمّرو“کو ڈھونڈنے کے لیے پانچ بندے نکلتے ہیں۔ جن میں لال خان،مستان خان( لمبردار )،راج ولی،زوراور اور پیریا شامل ہیں۔یہ جماعت پہلے اپنے عقیدے کے مطابق پہاڑی پر چڑ کے ایک درخت پر دچھیاں باندھتے ہیں۔اور راج ولی نے بھی اپنے پگڑی پھاڑ کر بڑے ہی عقیدت اور حترام سے دچھی باندھی تاکہ” قمّرو “مل جایے۔یہ درخت اس گاوں کے حاجت راوی کا درخت تھا۔جو کچھ بھی مُشکلات ان کو درپیش آتی تھیں۔وہ یہاں آکر منعتیں مانگتے اور دَچھیاں باندھتے تھے۔ تواللّہ پاک اِنکی سب مشکلات ٹال دیتا تھا۔ انہوں نےبھی اپنے عقیدے کے مطابق یہاں دَچھیاں باندھی اور پھرسفر کے لیےرواں دواں ہو گے۔لال خان قمّرو کی واپسی کے لیےمن ہی من آوراد فاتحہ کا ورد کر رہا تھا۔انہوں نےگَنّے جنگلوں،کٹھن راستوں، پہاڑوں اور دریاوں سے گزرتے ہوے ہر کسی مرگ میں،جنگل میں” قمّرو“کو ڈھونڈا.لیکن وہ کہیں نہیں ملا.آخر کار ”پیریا ”کے کہنے پر سُونامرگ کوپار کر کے باٸیں طرف تھاج پہاڑ کی اور گیے کیونکہ آخری بار ”پیریا”نے ”قمّرو “کو اپنے بھیڈ، بکریّوں کےساتھ اِسی پہاڑ پر چڑھتے ہوے دیکھاتھا۔پیریا سب پہلے اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا جہاں وہ گھنٹی کی آواز سُنتا ہے۔جو ایک بیھڈکے بچّے کی گلے میں ہوتی ہے۔اسی دوران جھاڑیوں سے بھیڈ کابچّا بھی نمّودار ہوتاہے پھر” پیریا“کو پورا بھُروسا ہو جاتا ہے کہ ”قمّرو“یہی کہیں ہوگا۔اور وہ خُوشی کے مارے وہ سب ساتھوں کو جلدی جلدی آنے کو کہتا ہے۔پھر یہاں وہاں ڈھونڈتے ہوے اُن کو ”قمّرو“ کا جوتا ملتا ہے۔ پھر راج ولی کا بیھڈبکریّوں کے ریوڑ کے ساتھ رہنے والا کُتے ”شیرا“ کی لاش، پھر ایک درخت پہ لٹکی ”قمّرو“کی پھٹی ہوی قمیض کا ٹکرا ملا.اس کے بعد تھوڑی ہی دُوری پر” راج ولی“ کو جُوں ہی جھاڑیوں میں پڑی ہوی قمّرو کی چادر پر نظر پڑی۔اُس کا کمّر ہی ٹوٹ گیا۔وہ بِنا کچھ کہے چادر کی طرف ٹکٹکی باندھ کر رُونے لگا۔اُسکی یہ حالت دیکھ کر ”پیریا “گبھرا گیا، پیریا کاکلیّجہ چھلنی ہوگیا۔ اُس نےڈرتے ڈرتے راج کو جھنجھوڑتے ہوے کہا چاچا،چاچا بات کرو تم کیوں چپ ہو گے ہوے۔ راج ولی نے” قمرو” کی چادر کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا دیکھو آپ کے دوست نے یہ کیا کیا۔۔۔۔؟یہ سب کچھ دیکھ کراب اُن کو یقین ہو جاتا ہےکہ ”قمّرو“اسی پہاڑ سےگر کر مر گیا ہے۔ اب اسکی لاش بھی ہاتھ نہیں آے گی۔کیونکہ اللّہ کے بغیر اُس نالے میں کوی نہیں جاے پایےگا کیونکہ یہ نالہ اتنا گہرا تھا۔وہاں کسی کےجانے کی مجال نہیں تھی اب اُنہوں نے راج ولی کو دلاسا دے کر،ہمت اور حوصلہ رکھنے کو کہا۔اور نودنوں کےبعد بیھڈوں کو لیے گھر واپس گھر لوٹتے۔اس دوران ”ریشما” کے ساتھ ”نوراں بی بی” گھر میں ہاتھ بٹاتی تھی۔اب راج ولی اِس سوچ پڑھ گیا کہ میں ریشما کو کیا جواب دوں گا۔اگر میں نے سچ بول دیا تو کہیں وہ مرگی تواور اگرجھوٹ بولوں تو کیا کہوں۔۔۔۔؟اسی کشمکش اور پریشنی میں تھا.اب کیا کروں۔۔۔؟اب راج ولی کے لیےمصیبتوں اور پریشانیوں کا دور شروع ہوتا ہے۔
وہاں ریشما ہر دن سویرے آکر پہاڑی پر ان کے انتظار میں بنا کچھ کام کیے بیٹھ جایا کرتی تھی۔ کہ ابھی نہ ابھی اس کا لخت جگر ”قمرو“ آتا ہی ہوگا.لیکن آج ”ریشما ”خود گھر کی صفای کرتی ہے ، کھانا پکاتی ہے۔اسی دوران جب اس نے بھیڈوں اور راج ولی کو آتے ہوے دیکھا وہ پاگلوں کی طرح دوڑتی ہوی چلاتی ہوی۔لوگوں کو دھکا دے کر بھیڈوں کے ریوڑ میں گھس جاتی ہے۔صرف چلاچلا کر ہی کہتی ہے”قمّرو“ ۔ارے قمرو بیٹا، توں کہا گیا تھا۔میں آپ کو نہیں ماروں گی بیٹا تو کیوں چھپ گیا ہے۔ذرا سامنے آ۔ یہی کہتے ہوے وہ لوگوں کے ہجوم میں دیوانوں کی طرح ڈھونڈتی چلانے لگتی ہے۔
ناول سےاقتباس ۔
”قمرو۔قمرو۔پُترا ۔ژٕ کوتو اوسکھ گومُت۔اوے قمرو“قمرو مارو پُترا۔بہٕ ناونے کیہنہ۔ژور کیازِ چُکھ روزِتھٕ قمّرو۔او قمّرو“
راج ولی نے جُوں ہی”ریشما“ کی یہ حالت دیکھی اس کو ایسا لگا۔جیسے اس پرآسمان ٹوٹ گیا۔پھر ریشما لوگوں کے ہجوم سے گزرتی ہوی ایک دوسرے کودھکا دیتی ہوی۔جا کے راج ولی کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔اور راج ولی کو ”قمّرو“کے بارے میں پوچھنے ہی والی تھی۔اتنے میں راج ولی کی آنکھوں سے آنسوں اُمڈ آتے ہیں ۔ریشما اپنے ہاتھوں سے راج ولی کےآنسوں پوچھتے ہوے کہتی ہے۔کہ آنے دے ”قمرو“ کو میں اس کو سبق سکھاو گی۔اس آپ کو اتنا ستایا۔لال خان نے اس کہا کہ وہ اب ہم سے دور ہوگا وہ اب نہیں آیے گا۔لیکن ریشما نے نہیں سنی۔وہ اسی وہم میں تھی،اور یہی ضد لگای بیٹھی ہے۔کہ ”قمرو“ آے گا،ضرور آیے! گا،اور ابھی آتا ہی ہوگا۔اس رویے سے اب اس کا ذہینی توازن ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ ایک دن شام کے وقت ریشما نے راج ولی اور پیرا کے لیے کھانا پروستے ہوے”قمرو“کے لیے بھی کھانا پروس دیا.اور آپنے آپ سے بڑبڑاتے ہوے بولی پتا نہیں یہ ”قمرو“کہاں چلا گیا۔۔۔۔؟،ریشما کی یہ حالت دیکھ کر راج ولی نے سرد آہ بھری اور پیریا کو کہنے لگا بیٹااب مصیبت اور پریشانیوں سفر شروع ہوگیاجو نہ ختم ہونے والا ہے۔نہ جانے کیا ہوگا۔راج ولی اب ایک ہی سہارا تھا وہ بھی اب ختم ہوتا دکھای دے رہا تھا۔وہ اس انتظارمیں تھا کہ کب ریشما اس غلط فہمی سے باہر نکلے گی۔اس دُکھ بھری دنیا میں میرا ساتھ دے گی۔لیکن ریشما کو اس حالت میں دیکھ کر راج ولی کو اپنا یہ سہارا بھی ٹوٹتا ہوا دیکھای دے رہا تھا۔
ناول کا دوسرا کردار ”پیریا” اور” لالی“کی بے پناہ عشقہ داستان ہے۔اگر چہ اس کے مزید ناول میں اور بھی بہت سارے کردار ہیں۔ جیسے دلاور خان ،لال خان، مستان خان ، نوراں بی بی وغیرہ۔لیکن ناول نگار زیادہ تر ان ہی کرداروں کے ارد گرد گھومتا دیکھاٸ دے رہا ہے۔ کیونکہ انکی عشقہٕ داستان بہت ہی کٹھن مصیبتوں اور دُکھوں سے بھری پڑی ہے ۔ایک طرف اگر چہ قمرو کی موت نےراج ولی اورریشما کی کمر توڑ کر رکھی ہوی ہے۔وہیں دوسری طرف ”راج ولی“ کو ”پیریا ”اور” لالی“ کی شادی کی بھی فکر ہورہی ہے۔وہ ہر وقت خدا سے یہی مانگتا تھا۔اللّہ کرے سیدھے منہ انکی شادی ہوجاے۔کیونکہ پیریا کہ ماں اس رشتے سے پہلے ہی نارض تھی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ پیرایا کی شادی لالی سے ہو۔وہ ”پیریا “کی شادی اپنی بھانجی سے کرنا چاہتی تھی۔لیکن پیریا اورلالی کی بے پنا مُحبت اوراپنےخاوند کی من مانی کے آگے اُس کی ایک نہ چلی.”لالی“ ”ماجا“کواکلوتی بیٹی تھی۔وہ بیٹی کی شادی پر سب آرمان نکلانا چاہتا تھا۔اس لیے”ماجا“نے بیٹی کو جہیز میں دس کلو دودھ دینے والی گاے اور پیرایا کو نظرانےمیں دس بیھڑ دےکر بیٹی کی شادی بڑی دھُوم دھام سے رچاٸ۔ بدقسمتی سے ان کی شادی کو چار مہینے بھی نہیں گزرے تھے۔اسکی ساس ہر بار کوی نہ کوی بہانہ بناکر اس سے لڑای کرتی رہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی اگر یہ رشتہ ٹوٹ ہی جاۓ بہتر ہے۔ لالی اپنی ساس کے سب ظلم وستم سر خم برداش کرتی ہے۔ جب اسکی ساس سب حربے استعمال کرکے تھک گی۔ توایک دن گھر میں صرف لالی اور اسکی ساس تھی۔اس نے خود ہی اپنے بال نوچے اور زور سے چلانے لگی گاوں والے یہ شُور سُن کرجمع ہوگے۔گاوں والوں نے” لالی” کی ساس کی یہ حالت دیکھ کر وہ پیرایاکے باپ اور اس کے چھوٹے بھای ”مختارخان “کو بلانے گیے۔ جُوں ہی پیریا کےباپ اور اس کے بھای مختار خان نے گھر آکے ماں حالت دیکھی وہ آگ بگولاہوگیا اور دنوں باپ بیٹے نے لالی کوبہت پیٹا۔لالی بھاگ کر ماں باپ کے ہاں چلی جاتی ہے۔ جب شام کو پیریا گھر واپس آیا۔اور یہ سب کچھ دیکھ کرپریشان ہوگیا۔وہ سب کچھ جانتے ہوے بھی خاموش رہا۔کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ مسلہ بڑھےاور اس لڑاھٸ کے بارے میں جب دونوں گاوں کے لوگوں نے سُنا۔ان کے مابین نفرتیں بڑھ گیی،کوی بھی ایک دوسرے کے گاوں میں جانے کی جرت نہیں کرتاتھا۔وہاں پیریا چُھپ چُھپ کے پھتروں کے سایے لالی کو بیچ بیچ میں ملتاتھا.اب یہ دونوں اس نفرت بھری بستی سے بھاگ کر دور ”نوری“گاوں میں جاکےسکھ بھری زندگی جیناچاہتے تھے۔اتفاق سے ایک دن شام کو پیریا،لالی کے ساتھ یہی مشورہ کرنے گیا۔کہ ہم کب اور کس وقت یہاں سے بھاگ جایے گے،اورتم میرا انتظار کہاں کرنا، کتنے بجے کرنا یہی باتیں چل رہی تھی۔اتنے میں گاوں والوں نےاُس سے دیکھ لیا۔شام کے اندھیرے میں انہوں نے اُسے نہ پہچانتے اُسے چور سمجھ کر اُس کا پیچھا کیا۔پیریا بھاگتے بھاگتے راج ولی کے کوٹھے کے سامنے پہنچ جاتا ہے،جب راج ولی نے باہر شُور سنا وہ نکلااس دیکھا پیریا ہے۔اُس نے جلدی جلدی اس کو لکڑیوں کی کوٹھری چھپا دیا۔اور گاوں والوں کو غلط راستہ دیکھاتا ہے کہ چور اُس راستے بھاگا ہے۔گاوں والے جب اس کو پکڑھنے میں ناکام ہوکر گھر واپس لوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔،
اب انتظار کرتے کرتے” ریشما“ کی آنکھوں کی بینای ”قمّرو” کی جدای میں ختم ہو چکی تھی۔اب اس کو بہت ہی کم دیکھای دیتا تھا۔جوں ہی پیریا کوراج ولی نے چھپانے کے لیے اندر لایا۔ ریشما کو لگا کہ ”قمرو“آگیا ہے۔وہ تڑپ اٹھتی ہے۔ صرف میرا قمّرو ، میرا قمّرو چلاتی ہے۔راج ولی نے بڑی مشکل سے اس کو چپ کریا تاکہ گاوں والوں کو پتا نہ چلے۔اب جب گاوں والے چلے گے۔رات دیر تک”قمرو“نے راج ولی کے ساتھ باتیں کرتے کرتےنیی دنیا بسانے کا مشہورہ کیا.کہ وہ راج ولی اور چاچی ”ریشما“کے ساتھ نیی دنیا بسانا چاہتا ہے۔پیریا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس نفرت بھرے گاوں مزید رہ سکے اور ”ریشما“کو ”پیریا“میں”قمّرو“کی بُو آتی تھی۔اخر پہ پیریا ادھی رات کے وقت راج ولی سے وعدہ لے کر نکلتا ہے کہ اب وہ یہاں سے بھاگنے میں اُنکی مدد کرے گا۔اچانک رات کے وقت ”ریشما“ہوشیار ہو جاتی ہے. وہ” قمّرو“کو ڈھونڈنے لگتی ہےاور زور زور سے چلانا لگتی ہے۔جوں وہ شور مچاتی ہےراج اس کو چپ کرانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے کہ قمّرو(یعنی پیریا) آیا تھا کہ اس نے کہا کہ وہ اب ان پہاڑوں سے پار نوری گاوں میں رہ رہا ہے۔ وہ ہمیں یہی کہنے آیا تھا۔اور ہمیں بھی وہیں آنے کو کہا ہے۔راج ولی کو لگا کہ یہ بھول جاے گی ۔مگر جُوں ”ریشما“ صبع سویرے اٹھی اُس نے پہلے ”قمّرو“ کو ہی ڈھونڈا۔اور راج ولی کو کہا مجھے وہاں ہی لے چلو جہاں وہ رہتا ہے۔اب راج ولی کو پیریا کے ساتھ وہاں رہنے جانا تھا ۔اب ان کی یہاں سے نکلنی کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں.پیریانےراج ولی کو کہا۔کہ وہ ہمارا ”یعنی پیریا اور لالی“کا انتظارکرشن تلاب کے اگلے والے موڑ میں کرے۔راج ولی کو اپنے گاوں چھوڑنے کابہت دکھ تھا۔لیکن کیا کرتا۔بے چارہ بے بس اورمجبور تھا۔راج ولی گھوڑے پر سامان لاد اکر دروازہ کوتالا لگا کر صُبع سویرے ہی نکل جاتا ہے۔چلتے چلتے دوپہر کا کھانا انہوں نے کرشن سر کے پاس کھایا کھنا کھا ہی رہے تھے۔اسی دوران آسمان پر بادل چھا گے۔راج ولی نے جلدی کی تاکہ وہ کرشن کے ان موڑوں پر پہنچ جاے لیکن ساتھ ہی اس کو باپ کی یہ نصحیت یاد آگی کہ” جلدی بازی شیطان کا کام ہے“اب وہ مُوڑ کی اور قدم بڑھانے لگے۔لیکن بادل بھی آسمان پر پوری طرح چھا چکے تھے۔چار پانچ بجے کا وقت تھا۔وہ موڑ کے قریب پہنچ ہی والیے تھے اتنے میں برف باری شروع ہوگی۔جوں وہ موڑ میں پہنچے۔اُس نے یہاں وہاں دیکھا لیکن نہی یہاں پیرایاتھا۔اور نہی لالی تھی۔اس نے جوں آگے نظر دوڑاٸ دور سےایک مرد اور عورت بھاگتی ہوی نظر آٸ۔راج ولی کے سارے حوصلے اور اُمیدیں چور چور ہو گیں۔اُس نے اپنے آپ پر ملامت کرنی شروع کردی۔
ناول سے ایک اقتباس۔۔۔
”راجہ ٶلی یا اوے بےقوفا کوتاہ بریٹھومت چُھکھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“کیونکہ راج ولی نے سوچا کہ انہوں نے مجھے استعمال کیا۔اُن کو اب میری ضرورت نہیں ہے۔اب راج اپنے گاوں واپس لوٹتا مگر شدت کی برف باری ہو رہی تھی،راج کو یہ فکر ہو رہی تھی۔ کہ گھوڑے کے لیے جو گھاس اٹھایا تھا وہ بھی ختم ۔اپنے لیے جو کھانا اٹھا تھا وہ بھی کم۔اس ویران میں اب کیا بنے گا۔اس طرح اس برستی ہوی برف میں یہ رات ایک بڑی پہاڑی کے نیچھےگزارتے ہیں۔
اُدھر گاوں میں اچانک لالی کے غاٸب ہونے کی وجہ سے سارا گاوں پریشان ہوجاتا ہےکہ کہیں لالی کو ریچھ تو نہیں کھا گیا۔کیونکہ وہ سویرے دریاے پر منہ دُھونے گیی تھی۔وہاں سے غاٸب ہو گی تھی۔لیکن ابھی تک کہیں نہیں ملی تھی۔ لیکن وہیں نیچھے گاوں میں میں جب” پیریا“ کے غاٸب ہونے کی بات سُنی اس گاوں کے لوگوں نے سُنی۔ فتنہ اور بڑھ گیا۔اسی مصیبت میں جب لال خان کو اپنا دوست یاد وہ اُس سے ڈھونڈنے نکلتا ہے۔جب راج کے گھر پہنچا دیکھ دروازے کو تالا لگا ہے۔اس لگا کہ وہ ”ریشما“کو کہیں گھمانے لے گیا ہوگا کیونکہ اس نے راج ولی کو کہا تھا۔کہ ریشما کو کہیں گھمانے لے جاے۔کیونکہ اس کو بیٹے کا روگ لگا ہوا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس شک میں پڑھ گیا۔ یہ سب آج ہی کیوں غاٸب ہو گے۔جب گاوں والوں راج ولی اور ریشما کے غاٸب ہونے بارےمیں پوچھا۔تب لال خان نے انہیں جھوٹ بولا کہ وہ راز دان پیر بابا کے مزار پر حاضری دینے گیے ہیں۔ پھر بستی والوں نے اُنکی طرف زیادہ دھیان نہیں دیا۔۔
اُدھر راج ولی اور ریشما کو اس پہاڑی کے نیچھے پہسے ہوے تین دن ہو گے تھے۔اب وہ بھی ریشما کی طرح اپنا ہوش وحواس کھوے جارہا تھا۔ یہاں پھسے ہوے کتنے دن ہوگے اب راج ولی وہ بھول چکا تھا۔اب راج ولی کو ایک ہی فکر تھی۔کہ موڑ تک راستہ صاف ہونا چاہے ۔جب راج ولی نے دیکھا کہ آسمان صاف ہو چکا ہے۔ راج ولی راستہ سے برف ہٹانے کے کام میں مشغول ہوگیا۔تاکہ جوں ہی راستہ صاف ہو جاے گا۔وہ ریشما کو لیے کے نوری گاوں کی اور نکل پڑھے گا۔ جوں راج ولی راستے سے برف ہٹاتے ہٹاتے موڑ کے قریب پہنچا ۔اپنی اس ہمت پر بہت خوش ہوا۔تھوڑی دیر آرام کے لیے جوں ہی وہ نیچھے بیٹھا پیچھے سے گرجنے کی آواز آی اور یہ آواز آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔راج ولی نےجب پیچھے موڑ کے دیکھا یہ آواز پہاڑوں سے برف کے تُودے گرنے کی آواز تھی۔جو اپنے ساتھ بہت ساری برف لپیٹ کر لارہی تھی۔ریشما اس زندان یعنی”پہاڑی کی بنی ہوی“ غار سے نکل کر اس برف کے بنایے ہو راستے کی اور بڑھ رہی تھی ۔اس کو راج ولی پکار پکار کہہ رہا تھا۔واپس موڑیے لیکن وہ اس تُودے کےگرج کے شُور سے سن نہیں پارہی تھی۔اب یہ برف کا تودا ریشما کے بلکل پہنچ چکا تھا۔جب راج ولی اُس کو بچانے کے لیے دوڑتا اتنے میں ”ریشما“ اس کی زد میں آکے نیچھے نالے میں جا پہنچی۔اب کہیں راستہ رہا نہ ریشما۔راج ولی برف پر سر پٹک پٹک کر رُوتے ہوے بے ہوش ہوگیا۔اتنے میں اس کے کانوں جیسے ریشما کی آواز آٸ جو گا رہی تھی” بابل نہ مناں ٹور“اسی بے ہوشی میں دور سے آواز آٸ۔”راجہِ ولی چاچا ہووووووووووووو“اُس کو ایسا لگا جیسے اس کو بھی موت کا بلاوا آپہنچا ہے۔پھر سے یہ آواز آٸ یہ آواز کس اور کی نہیں پیریا کی تھی۔جب پیریا اس کے پاس پہنچا۔راج ولی کو اس پر بہت غصہ آیا پھر مناتے ہوے اُس نے راج ولی کو نوری گاوں جانے کے لیے کہا۔ لیکن راج ولی نے منع کردیا کیونکہ جس کے خاطر وہ جانا چاہتا تھا جب وہ ہی نہ رہی۔ پھر ریشما کے مرنے کی خبر سُن کر پیریا کو بہت دکھ ہوا۔پیریا نے پہلے لالی کو نوری گاوں پہنچا کر۔اب راج ولی کے آگے آیا تھا۔جس طرح راج ولی تین دن برف میں پھنسا رہا۔ اسی طرح پیریا بھی پہاڑی کے نیچھے برف کی وجہ سے تین دن گزارتا ہے۔آخر کار مایوس ہوکر راج ولی گھوڑے کو لےکر اپنے گاوں کی اور چلے جاتا ہے.
کہانی کےآخر میں قاری اس احساسات اور جزبات کے اس سمندر میں ڈوب جاتا ہے کہ کس طرح ایک ماں اپنے بیٹے کی تلاش میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیھٹتی اور باپ اپنا سب کچھ کھو کے مایوس ہوکر واپس گھر لوٹ آتا ہے۔۔۔
پران کشور نے اس ناول میں وادی کشمیرے کے پرکشش جنگلوں سبزاروں، اونچے اونچے برف پوش پہاڑوں،موج مارتے ہوے دریاوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کے بدلتے ہوے موسموں کا ذکر بڑے ہی خوبصورت انداز میں کیاگیا ہے۔جس سے کشمیر کی جغرافیاٸ حالات کی تصویریں بھی قاری کے ذہین میں ابھر آتی ہیں ایک بہترین ناول نگار کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ ناول میں کہانی بیان کرتے کرتے وہ موجودہ دور کے حالات وقعات کے ساتھ ساتھ وہاں کا کلچر ،تہذیب وتمدن کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے بدلتے حالات و وقعات ،اس کی زندگی میں در پیش آنی والی مشکلات سے بھی لوگوں کو آشنا کراے۔ پران کشور کی کہانی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کہانی کو تعمیر کرنے کےھنر سے باخوبی واقف تھے۔اگر چہ یہ مصنّف کی پہلی ہی ناول ہے لیکن۔کہانی کا اسلوب اتنا آچھا ہے کہ جو قاری کو اپنی اور راغب کرتی ہے۔آپ نےجس اسلوب اور طریقے سے اس کہانی کو پیش کیا ہے۔جو کوی بھی اس سے پڑھتا ہے وہ بہت دیر تک گم صم ہوکر رہ جاتا ہے۔جس سے پڑھ کرقاری اس طبقے کے چھوٹے چھوٹے حساس موضوع کو اپنے ذہین میں جگہ دینے لگتا ہے۔مصنّف نے خود اسی طبقےکےفردوں کو ناول کا کردار بناکر پیش کیےتاکہ باقی سمّاج ان کی حالات و واقعات سے آشنا ہوں۔
اس ناول کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا مطالعہ کرتے ہوے قاری کی توجہ برقرار رہتی ہے۔ناول میں ایسے ایسے پڑاو بھی آتے ہیں جہاں قاری کا تجسس اور دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے۔اس ناول میں قاری نے جس چیز کا بھی ذکر کیا ہے تفصیل سے کیا ہے۔اس سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ مصنّف ہر بات کی گہراٸ سے واقفیت رکھتا ہے۔یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں جزیٸات نگاری کا بہترین طریقے سے استعمال کیا ہے۔جیسےناول میں وادی کشمیر کے دوردراز گاوں،مرگوں،سبزاروں، اُونچھے اُونچھے برف پوش پہاڑوں کا ذکر بھی کیا ہے جس سے قاری کے ذہین میں ایک تصویر سی بن جاتی ہے۔ناول” شین تہٕ وتہٕ پود“ پلاٹ،کردار نگاری،منظر نگاری یا زبان وبیاں کی خوبی کی وجہ سے ایک بہترین ناول مانی جاتی ہے،اگر دیکھا جایے یہ کشمیری زبان وادب میں ایک بہترین جگہ بنای ہوی ہے۔۔۔
***