You are currently viewing ناول’ دل من‘ کا تجزیاتی مطالعہ

ناول’ دل من‘ کا تجزیاتی مطالعہ

محمد طاہر عزیز خان

    ریسرچ اسکالر ، جامعہ ملیہ اسلامیہ

     نئی دہلی۔

ناول’ دل من‘ کا تجزیاتی مطالعہ

یعقوب یاور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔وہ بہ یک وقت ناول نگار ، شاعر ، تنقید نگار اور مترجم و مرتب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک ان کے کئی ناول منظر عام پر آچکے ہیں لیکن جو شہرت و مقبولیت ان کے پہلے ناول دل من کے حصے میں آئی اور کسی کے حصے میں نہیں آئی ۔یعقوب یاور کی ادبی زندگی میں ناول ’’ دل من ‘‘ گویا ان کی پہچان کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ ناول ۱۹۹۸ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا اور بہت کم عرصے میں اس نے قارئین سے داد و تحسین حاصل کر لی ۔

ناول دل من میں’ وادی ِ سندھ کی تہذیب و تاریخ‘ کو پیش کیا گیا ہے ۔ وادی سندھ کی تہذیب تین ہزار قبل مسیح سے پندرہ سوقبل مسیح پرانی ہے ۔اس تہذیب کا تعلق کانسی دور(Bronze Age) سے ہے۔ اس تہذیب کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان میں منصوبہ بند شہری تعمیرات ، سڑکیں، رہائشی مکان، کنویں، تالاب، برتن، اوزار، زیورات، پکی مٹی، دھات اور پتھر کے بنے مجسمے اور مہریں شامل ہیں۔اس کے مذہبی، سماجی اور سیاسی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔

ناول دل من میں اِسی وادی سندھ کی تہذیب و معاشرت ، حکومتی انتظام و انصرام ، رہن سہن ، مشکلات زندگی ، طبقاتی زیر و بم، توہم پرستی ، مذہبی زندگی کی اہمیت اور تعلیم و تربیت کا احاطہ کیا گیا ہے۔دل من میں ایک ایسے دور کی تصویر کشی کی گئی ہے جس میں مافوق فطری عناصر کی بھی کار فرمائی ہے ۔ جہاں دیوتاؤں کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتاہے۔ جہاں دیوتاؤں کی مرضی کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ عورت کا استحصال بھی اس ناول کا اہم موضوع ہے۔

ناول دل من میں وادی سندھ کی تہذیب کو دکھانے کے لیے ایک روایتی کہانی کا سہارا لیا گیا ہے۔اگر یہاں کہانی کو مختصراً بیان کر دیا جائے تو جو بات میں آگے لکھنا چاہتا ہوں اس کو سمجھانے میں آسانی ہو گی ۔تو کہانی مختصراً یوں ہے کہ ناول کی مرکزی کردار ’’دیوانئی ‘‘کو دو بار شہر سے باہر پھینک دیا جاتا ہے ۔ پہلی بار دل من کانگر پالک ’’کشال‘‘ یہ کام کرتا ہے اور دو سری بار اس کا اپنا بیٹا ’’سرال ‘‘ یہ کام کرتا ہے ۔کشال دیوانئی پر عاشق ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ مراسم رکھنا چاہتا ہے لیکن دیوانئی اپنے بھائی ’متھو‘ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔جب دیوانئی کی مرضی کے بغیر کشال اس کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو وہ ایک او ر ’مساکا ‘نامی شخص کا قتل کردیتی ہے جس کے الزام میں اسے شہر بدر کر دیا جاتا ہے ۔ جب وہ زندہ بچ جاتی ہے تو کشال کو قتل کرنا اپنا مقصد بنا لیتی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے بیٹے سرال کو تعلیم اور جنگی تربیت بھی دلواتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرال دراصل کشال کا ہی بیٹا ہوتا ہے ۔ پنڈت  پیشن گوئی کرتے ہیں کہ دیوانئی کو دیو پتر ہو گا جو بڑا ہو کر اپنے باپ کا قتل کرے گا اورخود نگر پالک بنے گا۔ اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اپنے باپ کو قتل کرنے کے بعد وہ نگر پالک بن جاتا ہے اور اس کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنی ماں کو بھی ایک قتل کے جرم میں شہرسے باہر نکال دیتا ہے ۔ دیوتا اس عمل سے غضبناک ہو جاتے ہیں اور بہت سوچ بچار کے بعد دل من کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس طرح ایک آندھی آتی ہے اور پورے شہر کو بہا لے جاتی ہے ۔

 اس کے پلاٹ میں آغاز ، وسط اور انجام کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔پلاٹ کے لحاظ سے یہ ایک اچھا ناول ہے ۔کہانی کو بڑے منضبط انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔کہیں کوئی الجھاؤ محسوس نہیں ہوتا ۔ البتہ وادی سندھ کے متعلق معلومات میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔  جب کسی شہر کا ذکر ہوتا ہے تو اس کی بس ہلکی سی منظر کشی کر دی جاتی ہے۔ البتہ اس کی صراحت ناول نگار نے بذات خود پیش لفظ میں کردی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:

’’ اس ناول میں کہانی کو آگے بڑھانے میں تاریخی حقائق کا لحاظ رکھا گیا ہے ، اس بات کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے کہ معلوم سیاسی ، تہذیبی اور مذہبی حقائق کے خلاف کوئی بات نہ آنے پائے پھر بھی یہ تخیل پر مبنی ایک ناول ہے تاریخی دستاویز نہیں۔‘‘ ( دل من ۔ ص۱۰)

ناول دل من میں دو باتوں کا ذکر نمایاں طور پر ملتا ہے۔ایک بہن بھائی کی شادی کا رواج اور دوسری عورت کا استحصال ۔وادی سندھ کی تہذیب تو ۱۵۰۰ ق م تک رہی لیکن بہن بھائی کی شادی کا رواج کوئی نئی بات نہیں ہے کیوں کہ اس کی مثالیں ہمیں پہلی اور دوسری صدی قبل مسیح میں بھی مل جاتی ہیں خاص طور پر رومن امپائر کے دور میں اس کا عام رواج تھا۔اس طرح کی شادی کو ( Royal Incest) کہا جاتا تھا ۔ ایسی شادی کا اصل مقصد نسلی ترفع کو قائم رکھنا اور دولت و امارت کو محفوظ کرنا ہوتا تھا۔ ایک آرٹیکل ہے جس کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ رواج وادی سندھ کی تہذیب میں رائج رہا تھا۔

Brother-Sister Marriage and

Inheritence stratigies in

Greco-Roman Egypt JANE ROWLANDSON and RYOSUKE TAKAHASHI)

عورت کا استحصال تو ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے طریقے بدلتے رہے ہیں۔ناول دل من میں اس پہلو کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔اقتباس دیکھیں:

’’ استریوں کا بھاگیہ ہی یہی ہے کہ وہ پرشوں کی واسنا پورتی کا سادھن بنیں اور ہر حال میں پرسّن رہنے کا گُر جانیں۔بھاگیہ میں یہی لکھا ہے تو کیوں نہ ہم پرسنّتا سے اسے مان لیں ۔ بھاگیہ بدلنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اب چاہے دکھی ہو کر جیون کو بوجھ بنا لیں یا پھر پرسّن رہ کر اسی میں اپنی جیت تلاش کریں۔‘‘( دل من۔ص۳۵)

ناول نگار نے عورت کو صرف مظلوم نہیں دکھایا ہے بلکہ کہیں کہیں وہ women empowermentکی بات بھی کرتے ہیں۔ اس اقتباس کو دیکھیں۔

’’ اپنی قوت کا غلط استعمال کرکے عورت کو کمتر ثابت کرنے والا مرد اس کے سامنے شکست خوردہ پڑا تھا ۔دیوانئی کا بدن خوف اور فتح کے جوش کے ملے جلے جذبات سے مغلوب کانپ رہا تھا۔ ۔۔۔میں نے اس شیطان کا خاتمہ کر دیا صرف اپنی ذہانت کی بل پر ، نیچ، ہمیشہ خود ہی شکست قبول کرنے والی عورت کبھی اپنی ذہانت سے تجھے بھی شکست دے سکتی ہے ۔‘‘( دل من ۔ ص۳۷)

جس دور کی یہ کہانی ہے اس میں جادو ٹونے، توہم پرستی اور مافوق الفطری عناصر کی بھی کارفرمائی رہی ہو گی۔ وہاں دیوی دیوتاؤں کی بڑی عزت و توقیر ہوتی تھی ۔ جب دیوتاؤں کی مرضی کو ہی حرف آخر سمجھا جاتا ہو تو محیرالعقول واقعات کا رونما ہونا کوئی بعید از قیاس بات نہیں ۔دیوانئی کو بھی لوگ دیوی ماننے لگے تھے ۔

’’ جب ایک عورت نے دیوانئی سے کہا کہ اس کا لڑکا بیمار ہے اس کا بدن تپ رہا ہے اور بہت کمزور ہو گیا ہے تو دیوانئی نے گاڑی سے نیچے اتر کر گدھے پر لدے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا ۔ مہرشی نے اسے اشارہ کیا کہ وہ بچے کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دے بچہ ٹھیک ہو جائے گا ۔دیوانئی نے بے یقینی کے ساتھ ایسا کیا تو واقعی جادو ہو گیا۔ بچے کے جسم کی گرمی معمول پر آچکی تھی اور اب وہ اپنے اندر طاقت محسوس کر رہا تھا۔‘‘( دل من ۔ ص ۵۶)

شہروں کی منظر کشی میں ناول نگار نے تفصیل سے کام لیا ہے ۔تاریخی نقطہ نظرسے اس منظر کشی کی اہمت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دیکھیے دل من کی منظرکشی کس انداز سے کرتے ہیں:

’’دل من کو نگر پالک اکنتی ریّن نے تعمیر کروایا تھا تا کہ یہ شہر دشمنوں اور جنگلی جانورں کی دست برد سے محفوظ رہے۔ دل من ایک ایسا خوبصورت اور خود کفیل شہر تھا جس کی طرف آس پاس بسنے والوں کی نگاہیں احترام سے اٹھا کرتی تھیں ۔۔۔۔یہ وہی اکنتی ریّن تھے جنھوں نے دل من میں ایک ایسا عظیم الشان تالاب تعمیر کروایا تھا جس کی نظیر دنیا بھر میں کہیں نہیں تھی۔ یہ کوئی معمولی تالاب نہیں تھا ۔ اس کی لمبائی پچیس ہاتھ چوڑائی پندرہ ہاتھ اور گہرائی چھ ہاتھ تھی اس میں شمال اور جنوب کی طرف پختہ اینٹوں کی آٹھ آٹھ سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔شمالی سیڑھیوں کے پاس ایک چبوترہ تھا جہاں بیٹھ کر مہادیو کی آردھنا کی جاتی تھی ۔اس تالاب کی دیواریں اور فرش بہت مضبوط تھا۔‘‘

(دل من ۔ص۱۴)

ناول دل من، زبان و بیان اور انداز و اسلوب ہر اعتبار سے ایک کامیاب ناول ہے۔ناول کی زبان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور کی زبان کیا رہی ہو گی۔ ناول کے کردار ہندی اور سنسکرت زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ناول کی ایک اہم بات اس کا تسلسل ہے ۔ واقعات موقع و محل کے لحاظ سے رونماہوتے ہیں ۔کہیں الجھاؤ محسوس نہیں ہوتا۔ تاریخ کے موضوع پر لکھے گئے ناولوں میں ناول دل من کا ایک خاص مقام ہے ۔لہذا اس کے ذکر کے بغیر اردو میں ناول نگاری کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔

***

Leave a Reply