محمد رضا
ریسرچ اسکالر
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
نذیر احمد کے ناولوں کی معنویت
سیاسی،سماجی،تہذیبی اور اقتصادی اعتبار سے انیسویں صدی ہندوستان کے لیے انتہائی انتزاعی صدی ہے۔1857ء سے پہلے تک غلامی کا وجود مسلم ہوچکا تھا لیکن عوام اسے غلامی سمجھنے پر تیار نہیں تھی۔ ہندوستانی یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے ہاتھ پاو?ں باندھے جا چکے ہیں اور وہ ایک دوسری قوم کے غلام ہوچکے ہیں۔سیاسی غلامی کے ساتھ رونما ہونے والے بعض واقعات نے ہماری فکری زندگی پر بڑے خوشگوار اثرات ڈالے۔فورٹ ولیم کالج کے بعد دہلی کالج کا قیام ہماری علمی وادبی زندگی میں بڑا واقعہ ہے۔دہلی کالج ایک ایسا ادارہ تھا جس نے ہمارے انداز فکر میں بڑی دور رس تبلیاں پیدا کیں۔ایک چھت کے نیچے مشرق ومغرب کا ملنامحال تھا لیکن دہلی کالج مشرق ومغرب کا سنگم ثابت ہوا۔اس طرح حاکم ومحکوم کنن یک دوسرے کو سمجھنے کے بہت مواقع پیدا ہوگئے۔
1857ء کے انقلاب نے فرد کو چونکا دیا۔اسی چونکا دینے والی کیفیت نے ہمارے ادب کو ناول سے آشنا کیا۔اور اردو میں پہلا ناول نذیر احمد نے لکھا۔نذیر احمد بنیادی طور پر ایک مذہبی عالم تھے۔ان کی طبیعت کا میلان مذہب ہی کی طرف تھا۔سرسید کے ساتھ ایک حد تک فکری وابستگی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ان کی شخصیت میں مذہبی تصورات کی انتہائی صورتیں یکجا تھیں لیکن دہلی کالج نے ان کے ذہن میں فراخی اور نظریات میں کشادگی پیدا کردی تھی۔وہ ایسے کٹ ملا نہ تھے جو اپنی کوتاہیوں سے بے نیاز دوسروں کے عیوب کے در پے رہتا ہے۔یہ خود شناسی بھی دہلی کالج کے دامن فیض سے انھیں نصیب ہوئی اگر یہ نہ ہوتا تو وہ مسلمانوں کے نادان دوست ثابت ہوتے اور وقت کی آوازسننے سے نکار کر دیتے۔نذیر احمد نے وقت کی آواز کو سنا اسے قبول کیا اور اس کے مبلغ بن گئے۔ان کے سامنے ایک واضح تر مقصد تھا۔اسی مقصد کو لیکر وہ اٹھے۔انھوں نے محسوس کیا کہ ناول بڑی دلچسپ چیز ہے اور عوام کی اس میں دلچسپی بھی ہے اس لیے اپنے اخلاقی نظریات کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہو سکتا۔اس لیے ان کے ناولوں میں بعض اوقات مقصدیت کی روانی بہت تیز ہوجاتی ہے۔اور مقصدوادب کینازک رشتے ٹوٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔اور یہی سب سے برا اعتراض ہیجو نذیر احمد پر وارد ہوتا ہے چوں کہ نذیر احمد ایک اصلاحی تحریک کے زیر اثر آگے بڑھے اس لییان کے ناولوں میں مقصدیت کی ایک تندرو چلتی ہوئی نظر اتی ہے۔سرسید تحریک نے اس دور کے ہر انسان کو مثبت یا منفی انداز میں ضرور متاثر کیا تھا۔نذیر احمد بھی اس اثر سے محفوظ نہ رہ سکے اور سرسید سے بعض امور میں نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود،اصلاح کے کام کے لیے آگے بڑھے اور اپنے دائرہ کار میں سب سے زیادہ موثر ثابت ہوئے۔نذیراحمدکے ناولوں نے جو دیر پا اور گہرے اثرات معاشرے پر مرتب کیے سرسید کے باقی تمام رفقاء مل کر بھی وہ اثرات پیدا نہ کر سکے۔شبلی کے تاریخی کارنامے،حالی کا مسدس۔محسن الملک،وقار الملک اور چراغ علی کے مذہبی اکتشافات مجموعی طورپر اتنے سریع الاثر ثابت نہ ہوئے جتنے نذیر احمد کے ناول ”مراۃ العروس”کی اشاعت نے گویا ہماری ادبی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے اصلاحی ناولوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔حالی کی ”مجالس النساء”،رشیدۃ النسائکی ”اصلاح النساء” شاد عظیم آبادی کی ”صورت الخیال”نواب افضل الدین کا ”فسانہ خورشیدی”عباس حسین ہوش کا”فسانہ نادر جہاں”اور گے بڑھ کر راشدالخیری کے ناول یہ سب اصلاحی تحریک کے زیر اثر پیدا ہوئے۔
ان تمام ناولوں کا اسلوب نذیر احمد کے اسلوب سے مختلف ہے اور ان کا اندازنذیر احمد کیانداز سے الگ ہے۔لیکن اصلاح کی جو خواہش ان تمام ناولوں کے رگ وپے میں جاری وساری ہے وہ ان کو اصلاحی دبستان فکر کانمائندہ بناتی ہے۔شرر اور احمد علی طبیب کے ناول بھی اصلاحی مقاصد کے پیش نظر منظر عام پر آئے لیکن ان ناولوں کا موضوع تاریخ ہے اس لیے انھیں تاریخی دبستان کے زمرہ میں شمار کرنا زیادہ صحیح ہے۔
اصلاح معاشرہ کے پیش نظر لکھے گئے ناولوں میں سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ناول نگار معاشرہ کے افراد کو ان کے فرائض کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔گویا غفلت کا دبیز پردہ فرد کے ذہن پر پڑا ہوا ہے اسے اتارنا ان کا مقصد اولین ہے۔یہ غفلت سیاسی اور سماجی انتزاع کی پیدا کردہ تھی۔اس لیے اصلاح کے لیے یہ اصحاب قلم لگی لپٹی نہیں رکھنا جانتے اور اپنے مقصد کا اظہار کھل کر کر تے ہیں شاید اسی وجہ سے میمونہ انصاری نے نذیراحمد پر بڑی سخت تنقید کرتے ہوئے اپنے مقالہ میں لکھا ہے۔
’’ناول اور اس کی تکنیک سے اس درجہ نابلد تھے کہ وہ خود اس بات کا اعتراف کر لیتے ہیں کہ ان کے قصے مقصدی اور اصلاحی ہیں‘‘۔1
اصلاحی اور مقصدی ناول لکھنے والوں کی سب بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان ناول نگاروں نے زندگی کے تصادم سے فرار کی صورت اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرد کی ذات تصادم سے محروم ہوکر قوت نمو سے ہاتھ دھو بیٹھی اس وجہ سے ان کییہان زندہ رہنے اولے کردار پیدا نہ ہوسکے کیوں کہ زندہ رہنے والے کردار ہمیشہ تصادم کی کیفیت سے جنم لیتے ہیں۔
نذیر احمد کے ناولوں میں انے والے تقریباََتمام آفراد سوائے”توبتہ النصوح” کے کلیم اور نعیمہ اور ”فسانہ مبتلا” کی ہریالی کے منجمد اور تصادم نا اشنا کردار ہیں۔اس سلسلے میں داکٹر سلیم اختر کا تجزیہ ملاحظہ کیجیئے۔
’’ہمیں ہر کردار ایک کٹھ پتلی معلوم ہوتا ہے جس کی ڈور نذیر احمد کے ہاتھوں میں ہے اور اس لیے اکثر کردار تصنع معلوم ہوتے ہیں۔پریم چند کرداروں کی تخلیق میں نذیر احمد سے اسی لیے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان کے یہاں کردار کی فطرت کی دورنگی کی کشمکش کا اظہارملتا ہے۔وہ دورنگی۔۔۔سیاہی اور سفیدی۔۔۔نیکی اور بدی کبھی اندورنی طور پر آپس میں ٹکراتی ہیں اور کبھی اس اندرونی کشمکش کا ٹکراو بیرونی ماحول،معاشی نظام اور اخلاقی قدروں سے ہوتا ہے۔یہ طریقہ نفسیاتی ہے اور اسی میں پریم چند کی بلندی کا راز مضمر ہے۔مگر بر عکس اس کے نذیر احمد کے کرداروں میں ہمیں ان کی فطرت اور طبیعت کی یک رنگی کا بیرونی ماحول سے ٹکراو ملتا ہے۔ان کے کردار اسی لیے جلدی کشش کھو بیٹھتے ہیں کہ ان کی یک رنگی اچھائی یا برائی ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے‘‘۔2
ڈاکٹر سلیم اختر کے اس اقتباس سے نذیر احمد کی کردارنگاری کی بیشتر خوبیوں اور خامیوں پر نظر پڑتی ہے۔فاضل مضمون نگار نے پریم چند کی کردار نگاری سے نذیر احمد کی کردار نگاری کا موازنہ کرکے نذیر احمد کے کرداروں کی جو صورت ابھاری ہے وہی صورت ہمارے اردو کے پہلے ناول نگارکی کردار نگاری کو بخوبی واضح کرتے ہیں۔
انیسویں صدی ہمارے یہاںمذہبی تحریکات کی صدی ہے فرد نے اپنے جمود کو توڑنے کے لیے جس چیز کا سہارا لیا وہ مذہب تھا۔شاہ ولی اللہ کی ملی جلی سیاسی اور مذہبی تحریک،سرسید کی علمی تحریک،سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد،مرزاغلام احمد قادیانی کی مذہبی تحریک اور مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں ذرا ذرا سے مسائل پر اختلاف کا ظہور ہندوستان ہندوستان کی انجماد آلود فضا کو بڑی حد تک سر گرم کرنے کے کام آیا۔نذیر احمد اسی دور کے ادبی نمائندہ ہیں اس لیے ان کے ناولوں میں مذہبی بحثوں کو نظر انداز کرنا بہت ہی غیر ذمہ دارانہ بات ہوگی۔اسی لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نذیر احمد کے ناولوں کا بنیادی عنصر مذہب ہے۔اور اصلاح کی حیثیت ثانوی ہیکیوں کہ اصلاح کی شاخیں مذہب کے درخت سے ہی پھوٹتی ہیں۔
مذہب اور اصلاح کی طرف مبالغہ آمیز رجحان نفسیاتی طور منقسم شخصیت کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔عاقبت کو سنوار نے کا خیال ہمیشہ دنیا کی بے بضاعتی کے خیال سے جنم لیتا ہے۔اصلاح اور بگاڑ دونوں میں بڑا گہرا ربط موجود ہے۔اس لیے نذیر احمد کے ناولوں کا تجزیہ کرنے سے پہلے اس کی نفسیاتی کیفیت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
نذیر احمد کے ناولوں میں ہمیں جو جو افراد ملتے ہیں وہ اس منقسم شخصیت کے مظہر ہیں۔نصوح کے فنون لطیفہ کے بارے میں نظریات اس کے ذہنی جمود کو ظاہر کررہے ہیں۔کلیم انانیت کا شکار ہے۔
ابن الوقت سیر اندازی کی تصویر ہے۔میر متقی اور عامل غیر متوازن شخصیتوں کے نام ہیں۔نعیم کا شدید تر رد عمل اور مبتلا کا گومگو کی کیفیت سے دو چار ہونا۔اصغری اور اکبری کی مخالفت معاشرتی انتہاو?ں کی نمائندگی یہ ساری باتیں کس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں؟یہ ساری چیزیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ان کرداروں کے خالق کے ہاتھوں میں ایک نشتر ہے جس کی چمک تیز لیکن کاٹ مدھم ہے۔نذیراحمد نے محصنات کے دیباچے میں اپنے ناولوں کو فکری نہج پر کچھ اس طرح تقسیم کیا ہے۔
خانہ داری میں مراۃ العروس۔معلومات میں بنات النعش۔خدا پرستی میں توبتہ النصوح۔ان دنوں مجھے یہ خیال ہواتھا کہ مسلمانوں کی معاشرت میں عورتوں کی جہالت اور نکاح کے بارے میں مردوں کی آزادی دو بہت بڑے نقص ہیں۔ میں نے ان نقائص کو رفع کرنے میں جہد العقل کو شش کی ہے دوسرے نقص کے دفع میں بھی کچھ کرنا ضرور ہے۔اس فکری تقسیم سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
اول۔نذیر احمد کا مقصد معاشرے کی اصلاح ہے فرد کی اصلاح نہیں۔
دوسرے۔معاشرے کے نقائص ان کے ناولوں کا موضوع ہیں۔
تیسرے۔یہ سارا سلسلہ ایک شعوری کوشش کا نتیجہ ہے۔
تیسرا نتیجہ زیادہ قابل غور ہے۔شعوری کوشش کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ناولوں میں جتنے افراد سامنے آتے ہیں وہ شعوری سطح پر زندہ ہیں۔ایک ایسی سطح جس کے نیچے کوئی سطح نہیں۔ان کے یہاں زندگی کا تصور مذہب سے وابستہ ہے۔نذیر احمد نے خود بھی کسی مقام پر شعوری سطح کے نیچے رواں دواں سیلاب کی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔یہی حال ان کے ناولوں کے کرداروں کا ہے جو بعض مقامات پر کٹھ پتلی اور اکثر مقامات پر آلہ کار کی صورت میں ابھرتے ہیں اس لیے ان کے ناولوں میں اضطراب یا تذبذب نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
نذیر احمد کے ناول میر امن کی ”باغ وبہار” کی طرح اپنی زبان کی وجہ سے زندہ ہیں۔صاف ستھری،با محاورہ زبان لیکن زبان میں شعوری کوشش کا عنصر جا بجا پھیلتا ہوا نظر آتا ہے۔ٹکسالی زبان ضرور استعمال کی گئی ہے لیکن رعایت لفظی کے ساتھ دلچسپی اور تنوع پیدا کرنے کی شعوری کوشش بھی نمایاں طور موجود ہے۔یہاں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نذیر احمد کے کرداروں کے نام بھی در اصل اسی رعایت لفظی کا نتیجہ ہیں۔
زندگی کی شعوری سطح پر محض وہی چیزیں سامنے آتی ہیں جن کا ادراک عقل کے ذریعے ہوتا ہے۔ادراک کے بعد کی منزل رد عمل کی ہے جس سے نذیر احمد خود بھی نابلد تھے اور ان کے کردار بھی یکسر نابلد ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کسی کردار میں بے ساختگی اور انوکھا پن نہین ملتا۔ہمیں ان کرداروں میں زندگی کا تحرک اور ترفع نظر نہیں آتا۔یہ نذیر احمد کے کرداروں کی سب سے بڑی خامی ہے اس خامی نے بعض کرداروں کو فوق ا لانسان کی حد تک پہنچا دیا ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا ہے۔
’’نذیر احمدکے کرداروں پر مثالی۔یک رخ،ٹائپ اور تمثیلی ہونے کے اعتراضات کیے گئے ہیں جوغلط نہیں ہیں۔البتہ مولانا صلاح الدین احمد کے بموجب ان کے بعض کرداروں کی اپنی شخصیت کے عکاس ہیں مثلاََاصغری کی جار حانہ شخصیت،مولوی صاحب کی اپنی شخصیت کا عین چربہ اور اس کردار کی فائدہ پر ستانہ کیفیت بھی انہی کے مزاج اور نصب العین کا عکس ہے‘‘۔3
مجموعی اعتبار سے اس پوری بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نذیراحمد نے اپنے ناولوں میں اپنے عہد کی سماجی و تہذیبی جزئیات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ساتھ ہی ساتھ نذیر احمد کے ناول تعلیم نسواں،اصلاح معاشرہ کے سارے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نظر آتیہیں۔اردو ناول نگاری کی تاریخ میں نذیر احمد کی معنویت یہ ہے کہ ان کے بعد آنے والے بیشتر ناول نگاروں نے انہیں کے بنائے ہوئے خطوط پر قدم آگے بڑھایا۔بعد میں جب ناول کی کامیابی کے لیے کچھ معیار متعین کیے گئے تو نذیر احمد کی معنویت کم ہوتی محسوس ہوئی لیکن کسی معیار کے نہ ہونے کی صورت میں معیار کو برقرار رکھنا نذیر احمد کا کمال ہے یہی ان کی ناول نگاری کی معنویت ہے جو آج بھی برقرار ہے۔
حوالہ جات۔
1۔میمونہ انصاری۔مرزا رسوا۔ص135
2۔ڈاکٹر سلیم اختر۔مقد مہ ابن الوقت۔ص۔135
3۔ایضاََ۔ص13