ڈاکٹرگلشن عبداللہ
فراش گنڈ بڈگام کشمیر
نسوانی جذبات کی شاعرہ پروین شاکر
“عورت انسانی وجود اور اسے سنوارنے میں اہم فریضہ انجام دیتی ہے”
عصمت چغتائی اور پروین شاکر میں ایک یکسانیت یہ پائی جاتی ہے کہ دونوں نے جن گھرانوں میں جنم لے لیا تھا، ان میں انھوں نے گھٹن سا محسوس کیا اور آگے چل کر وہی ایک قسم کی بغاوت بن گئی۔ اس لئے عصمت کی نثر میں اور پروین شاکر کی شاعری میں ہمیں ایک ایسی آواز ملتی ہے، جہاں ایک پرندے کو پنجرے میں قید کرنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن جہاں صیاد روایتی طریقے ہی اپنا تا ہے، وہاں اُڑنے والا پرندہ بھاگنے کا ہنر خود جانتا ہے۔ پروین شاکر اپنے مجموعے “صد برگ” کے پیش لفظ (یعنی رزقِ ہوا) میں اپنے خاندان کے بارے میں لکھتی ہیں:
“میرا گناہ یہ ہے کہ میں ایک ایسے قبیلے میں پیدا ہوئی، جہاں سوچ رکھنا جرم میں شامل ہے، مگر قبیلے والوں سے بھول یہ ہوئی کہ انھوں نے مجھے پیدا ہوتے ہی زمین میں نہیں گاڑا( اور اب مجھے دیوار میں چن دینا اُن کے لیے اخلاقی طور پر آسان نہیں رہا!)، مگروہ اپنی بھول سے بے خبر نہیں، سو اب میں ہوں اور ہونے پر مجبوری کا اندھا کنواں جس کے گرد گھومتے گھومتے میرے پائوں پتھر کے ہو گئے اور آنکھیں پانی کی۔ کیونکہ میں نے لڑکیوں کی طرح کھوپے پہننے سے انکار کر دیا تھا اور انکار کرنے والوں کا انجام بھی اچھّا نہیں ہُوا”۔(ص 13)
اس لئے اپنی خوداری کے بارے میں لکھا ہے۔
کچھ تو تیرے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ میری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی۔
یہی بنیادی وجہ ہے کہ پروین شاکر نے قید میں رہنا پسند نہیں کیا،بلکہ انکی فطرت میں آزادی تھی، لیکن کس کو پتہ تھا کل کیا کچھ ہونے والا ہے۔ اسکی فطرت یا اس کی ذہنی آزادی نے ہی اس کیلئے مصیبتوں کے انبار کھڑے کر دئے جنکا سامنا کرتے کرتے ہی انکی جان بھی چلی گئی، مگر وہ ادب اور سماج کیلئے ایسے نقوش چھوڑ کر چلی گئی جنہیں کوئی نہیں مٹا سکتا ہے۔خلیق الزماں نصرت پروین شاکر کی شاعری میں نسوانی آواز کے بارے میں لکھتے ہیں:
“پروین شاکر کی غزلوں میں نسوانیت کی وہ چینخ چھپی ہوئی ہے، جو ایک غیر مطمئین روح سے اُبھری ہے، جو ایک طرف شاخ گل ہے، تو دوسری طرف تلوار بھی ہے۔ انسانی سماج کی ایک عام عورت جو رشتوں میں بندھی ہوئی ہے ،ایک ایسی شاخ گل جس پر مرجھائے ہوئے باسی پھول ٹنگے ہوئے ہیں۔ ازدواجی زندگی کی ناخوش اور عدم توازن کے سبب ان کی غزلوں میں نسوانی جذبات کی حقیقی عکاسی تو ملتی ہے، لیکن ایسی عکاسی جو ایک با اختیار صاحب وسیلہ نسائیت کا عکس ہو۔ اس کے عہدے پر فائز ایک ایسی با اختیار تلوار کی جھنکار صاف سنائی دیتی ہے۔ جس میں رزمیے کی نہیں مرثیے کی لے پائی جاتی ہے۔ جنس کی آسودہ تڑپ کا اظہار پایا جاتا ہے “( آخری گھڑے کا پانی)
پروین شاکر کی یہ نسوانی اور چونکا دینی والی آواز انکے اسلوب اور انکی شاعری میں استعمال کی گئی مختلف صنعتوں کا استعمال بھی ان کے یہاں جا بجا نظر آجاتا ہے۔ انکی اسی خوبی نے اردو شعری دنیا میں بڑی ہلچل مچادی۔ ان کے یہاں ہمیں عورت کی بے چارگی بے بسی کے ساتھ ساتھ احتجاج کی لہر بھی دوڑتی ہے۔
پروین شاکر حساس طبیعت کی ایک ذہین عورت تھی، جن پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ خاص بات یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی الجھنوں نے ان کی زندگی ویران بنا دی۔ اس لئے انھوں نے اپنی ان تلخیوں کا بیان اس طریقے سے کیا کہ جس میں ہمیں نہ صرف انکی اپنی زندگی ملتی ہے، بلکہ انکی آواز پوری نسوانی آواز بن گئی ہے، جو دنیا کے ہر Man dominated society میں ملتی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایسے سیدھے سادھے الفاظ استعمال کئے ہیں، جن میں معنی اور احساسات کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ انکی مختصر ترین نظم “مقدّر” کو ہی دیکھ لیجئے، جس میں بے جوڑ شادی، عورت کی مظلومیت، بے بسی اور لاچاریت کا اظہار کیا گیا ہے:
میں وہ لڑکی ہوں
جس کو پہلی رات
کوئی گھونگھٹ اُٹھا کے یہ کہہ دے
میرا سب کچھ ترا ہے ! دل کے سوا! (خوشبو ص 97)
پر وین شاکر کے پہلے مجموعے “خوشبو” کی اشاعت 1977ء میں ہوئی، جسکو انہوں نے احمد ندیم قاسمی کے نام معنوں کیا ہے۔ جسکے بارے میں ڈاکٹر شاہد نوخیز اعظمی نے کیا خوب لکھا ہے:
“خوشبو غنچگی، دوشیز گی اور کم سنی کے عہد سے گزرتی ایک لڑکی کے جذبات و احساسات اور نفسیات کی ترجمانی کرتی ہے۔ جس کی عشقیہ شاعری میں سمندر کی گہرائی اور گیرائی ہے۔ وصل کی مٹھاس جذبوں کا لوچ اور جدائی کی کسک ہے، گویا اس نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ خاموش جذبوں کو قوت گویائی عطا کی اور نسائی نازک خیالی کو حسین پیکردیا” (ص 72)
اگر چہ پروین شاکر نے اُردو ادب کو ایسا شعری کا خزانہ دے دیا، جس کی تازگی کبھی کم نہیں ہوتی ہے پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری کا کینواس بہت وسیع نہیں ہے۔ انھوں نے چونکہ زندگی بہت کم پائی ہے اور اس قلیل مدت کی زندگی میں ان کے تجربات بھی بہت کم رہے ہوں گے۔ جس میں ان کی جد و جہد زندگی( خاصکر تعلیم اور اعلیٰ عہدہ حاصل کر لینا) اور انکے شوہر سے جدائی جیسا خاص تلخ تجربہ رہا ہے، اس چیز نے انکی شاعری میں باقی مو ضوعات سے ہٹ کر تا نیثیت کو زیادہ جگہ دے دی اور اسطرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا لب ولہجہ اپنے دور کے اردو کے تا نیثی لڑیچر میں ایک اہم آواز پیش کرتا ہے۔ اسی لئے پروفیسر گوپی چندر نارنگ نے کیا خوب کہا ہے۔
“جدید شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نا مکمل ہے”
اگر ہم کہیں گے اُردو تانیثی شاعری کی روایت میں پروین شاکر کو ایک عہدیا باب کے عنوان کا درجہ حاصل ہے، تو شاید بے جا نہیں ہوگا۔ جیسے کہ ہم نے بات چھیڑی ہے کہ پروین شاکر نے چند مخصوص موضوعات پر اپنی خامہ فر سائی کی ہے اور اس میں بھی عورت یا تانیثیت انکی دلچسپی کا مرکز رہا یا مجبوری کا باعث بنا۔ غرضیکہ اس کے ذہن پر رہے حاوی موضوع کو بھی اب ہم مختلف زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
کبھی کبھار پروین شاکر اپنے محبوب کیلئے ایک عام گھر یلو عورت سی بن جاتی ہے اور وہ عام عورتوں کی طرح روز مرہ زندگی کے معاملات و کیفیات کو کچھ اسطرح بیان کرتی ہے، جس طرح عام طور پر مشرقی عورتیں اپنے شوہروں کیلئے کرتی ہیں۔یعنی یہاں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہیں نسائی نفسیات کو بیان کرنے کا ہنر خوب حاصل تھا:
آج تو اس پہ ٹھہرتی ہی نہ تھی آنکھ ذرا
اس کے جاتے ہی نظر میں نے اُتاری اس کی
پلکوں کو اس کی اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں
کل کے سفر میں آج کی گردِ سفر نے جائے
پروین شاکر کے یہاں ہم رومانیت یا محبوب کے فراق میں جدائی کے گیت گانا ہی نہیں، بلکہ یہاں زندگی کی تلخ حقیقت کو بھی اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ عورت ایک سماج، ایک سسٹم یا پورے معاشرے کیلئے احتجاج بھی کرتی ہے، مگر ان کا انداز بیان بالکل نرم ہے اور انکے پختہ شعور کا ہمیں پتہ دیتا ہے۔
پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہوائوں کی سیاست بھی عجب تھی
میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھی
کہ تیرے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا۔
پروین شاکر سماج کو اسکا اصلی چہرہ دکھاتی ہے۔ یہاں نفسیاتی گھٹن مرد کی جبریت، عورت کی محکومیت غرضیکہ جو صدیوں سے چلا آیا ہے، جس میں عورت پس رہی ہے۔ اُسی آواز کو انھوں نے بلند کیا ہے۔
فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت
اختیار اپنا بس اتنا کہ خبر میں رہنا
پروین شاکر نے اپنے محبوب کے تئیس جن جذبات کا اظہار کیا ہے اس میں خوشی بھی ہے اور محرومی بھی۔ یعنی وہ ایک ساتھ انکی تعریفیں بھی کرتی ہیں اور شکوہ و شکایت بھی، یعنی یہاں ایک عورت کے بارے میں وہی تصور سامنے آجاتا ہے جو کہ شیکسپیر کا ہے”ہائے کمزوری کا نام عورت ہے”۔ پر وین شاکر کے کچھ اشعار اس موضوع پر ملا خط فر مائیے:
گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید و ہم و خوب
اس کی رفا قتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
زندہ بچا نہ قتل ہوا طائر اُمید
اس تیرنیم کش کا نشانہ عجیب تھا
رائے پہلے سے بنالی تو نے
دل میں اب ہم تیرے کیا کرتے
یہ بات صاف ہے کہ غصّے میں یا اگر کچھ ایسے حالات پیدا ہو، تو جلد بازی میں دونوں میاں بیوی اک دوسرے کو چھوڑنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں، لیکن جب وہ دُور ہو جاتے ہیں ، تو جُدائی میں جتنے دِن گزر جاتے ہیں، اتنی انہیں ایک دوسرے سے ملنے کی تڑپ بڑھ جاتی ہے۔ انہیں اپنی اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہو جاتا ہے اور وہ لوگ ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف بھی کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے وہ اپنی غلطی ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں پھردھیرے دھیرے انہیں اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ شاید میں ہی غلط ہوں۔ اسلئے وہ صلح چاہتے ہیں۔ یہاں آپ پروین شاکر کی انکساری اور عاجزی یا احساس غلطی دیکھے۔
ہم خود بھی جدائی کا سبب تھے
ان کا ہی قصور سارا کب تھا
بے وفائی میری فطرت کے عناصر میں ہوئی
تیری بے مہری کا اسباب دگر پر رکھا
پروین شاکر نے بنتے بگڑتے رشتوں کی بات اپنی شاعری میں کی اور ان کو اپنے محبوب سے اسقدر عقیدت تھی کہ وہ اسے فرشتہ بنا دیتی ہے، لیکن جوں ہی اس رشتے میں دراڑ پیدا ہوگئی، تو پھر انہیں انکے ساتھ چلنا گوارہ نہیں ہوا، اس لئے کہیں شکایت بھی کی
جب تک وہ بے نشان رہا دسترس میں تھا
خوش نام ہو گیا تو ہمارا نہیں رہا۔
اپنی ازدواجی زندگی کے بکھرائو کے بارے میں نظم”شگون” لکھی، جس میں وہ اپنی تقدیر کے بارے میں یوں رونا روتی ہے:
سات سہا گنیں اور میری پیشانی
صندل کی تحریر
بھلا پتھر کے لکھے کو کیا دھو ئے گی
اسی طرح اپنی ایک اور نظم “ورکنگ وومن” میں وہ عورت کی خود داری، خود کفالت، کا ذکر خوب تو کرتی ہے، لیکن ساتھ ہی دونوں کی تخلیق دراصل ایک ساتھ رہنے کیلئے کی گئی ہے۔ جدید تہذیب کچھ بھی کہے، مگر مرد عورت کی فطرت تو نہیں بدل سکتی ہے۔ فطری خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پراپر پارٹنر شب تو بہت ضروری ہے۔اسی لئے نظم کے آخری حصّے میں اگر چہ وہ ایک طرف کہتی ہے”ایک تناور پیڑ ہوں اب میں” اور ساتھ ہی وہ کہتی ہیں:
اور اپنی زرخیز نمو کے سارے امکانات کو بھی پہچان رہی ہوں
لیکن میرے اندر کی یہ بہت پُرانی بیل
کبھی کبھی۔ جب تیز ہوا ہو
کسی بہت مضبوط شجر کے تن سے پٹنا چاہتی ہے۔
یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسا کہ قرآن میں بھی کہا گیا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کیلئے لباس ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں اور قدیم زمانے سے لیکر آج تک عورت ہمیشہ اپنے مرد کے پاس ہی اپنے آپ کو محفوظ پاتی ہے۔
عورت اور اسکی مجبوری پروین شاکر کی شاعری کا ایک اہم موضوع رہا ہے، جہاں وہ بچپن سے لیکر بوڑھاپے تک اپنے والدین، شوہر اور اپنی اولادوں سے بھی مجبور و محصور رہتا ہے۔ اپنوں کے ساتھ ساتھ پورا سماج اس کو تفریح کا سامان بھی سمجھتا ہے۔ اس بات کے پیش نظر انھوں نے اپنی شاہکار نظم “نائک” میں عورتوں کی فلاح و بہبود اور انکی آزادی کے متعلق ایک منصوبہ تیار کیا لیکن جو لوگ عورت کی آزادی کا اعلان کرتے ہیں، انکے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے اور وہ اس کو آزاد چھوڑتے ہی واپس پنجرے میں بند کرتے ہیں۔
نظم میں دو کردار سامنے آتے ہیں (۱) بھنورا ( بھنوروں) یعنی ہمارا سماج اور(۲) تتلی یعنی عورت۔
رُت بدلتے ہی بھنوروں نے تتلی کو کہا کہ آج سے تم آزاد ہو انہوں نے پروازوں کی ساری سمتیں، جنگل، بادل، خوشبو سارا اسکے رقص کیلئے مہیا کیا۔ اتنا ہی نہیں سورج کی کرنیں، راتوں کا چاند، گیت، سنگیت، پتے، پھول دف وغیرہ تتلی کے ناچنے میں پیش پیش رہیں گے۔ نظم کے دوسرے بند میں تتلی اپنی معصومیت کی وجہ سے سر شار ہیں۔ وہ کُھلی فضا کا ذائقہ چکھ رہی ہے اور روشنیوں کا لمس پی رہی ہے، لیکن اسی اثنا میں رُت بدل جاتی ہے۔ سورج، چانداور ہوا اپنے وغیرہ سب کچھ بدل گئے اور انھوں نے تتلی کو لوٹ آنے کا پیغام بھیجا بقول شاعرہ:
بھنورے شبنم کی زنجیریں لے کر دوڑے
اور بے چین پردوں میں ان چکھّی پروازوں کی آشفتہ پیاس جلادی
اپنے کالے ناخونوں سے
تتلی کے پر نوچ کے بولے
احمد لڑکی گھر واپس آجائو
ناٹک ختم ہُوا! ( خوشبو ص 280)
خواتین کے عالمی دِن پر لکھی گئی اس نظم میں ایک عورت کی معصومیت اور اسکے اندر کے محسوسات کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعرہ نے یہاں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورت کو ترقی کے نام پر صرف دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اسے صرف ہتھکنڈوں میںپھنسا یا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر موڑ پر اس کا استحصال ہو رہا ہے۔
پروین شاکر کی شاعری میں ایک عجیب طرح کی بے چینی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے گھر اور جنگل دو متضاد الفاظ استعمال کئے اور انکے معنی بھی اُلٹے پیش کئے۔ مثلاً گھر سکون اور آرام کا مرکز ہوتا ہے، چونکہ انہیں گھر نے ایسی چیزیں فراہم نہیں کی ہیں، اسلئے ان کے نزدیک گھر ویران جگہ کا نام ہے۔ اب جنگل جسکو ویران اور تنہائی کا مرکز سمجھا جاتا ہے، موصونہ کیلئے یہ تفریح گاہ ہے، جہاں انہیں سکون مل سکتا ہے۔ اسی لئے کہا:
وہی تنہائی وہی دھوپ وہی بے سمتی
گھر میں رہنا بھی ہوا راہ گزر میں رہنا
یہی وجہ ہے کہ انکی شاعری میں تنہائی کا عالم زیادہ پایا جاتا ہے۔ اور رشتوں کی ناپایہ داری اور تلخی ان میں جگہ جگہ پائی جاتی ہے۔ وہ یہاں تک کہتی ہے کہ “بھیڑے اور ہرنی کی دوستی کبھی نہیں ممکن” اس ضمن میں مزید انکی نظم “ایک شاعرہ کیلئے” قابل مطالعہ ہے۔
پروین شاکر نے نسائی درد کے تحت زندگی کی بے وقعتی پر ماتم کر کے لکھا ہے۔
کچلے گئے جب بھی سر اُٹھایا
فٹ پاتھ کی ایسی گھاس تھے ہم
ایسا ہی درد انھوں نے اپنی طنزیہ نظم “بشیرے کی گھر والی” میں بھی بیان کیا ہے۔
پروین شاکر کے ہاں ہمیں عورت کے الگ الگ روپ نظر آجاتے ہیں۔ یعنی” عورت” مردوں کے استحصال کا شکار تو ہو جاتی ہے، مگر وہ اپنی آواز بھی بلند کرتی ہے۔ اسی طرح “بیوی” اپنے شوہر سے بے حد محبت کرتی ہے۔ “ماں” اپنے بچیّ سے پیار و محبت اور طفلانہ باتیں کرتی ہیں اپنے روٹھے ہوئے محبوب کو لاکھ منانے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اسکے چھوڑنے کے بعد بھی وہ اسے ہر حال اور ہر قدم پر خوشحال دیکھنا چاہتی ہے، یعنی انہوں نے مجموعی طور پر وفا کی راہوں میں قربان ہونے والی عورتوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے، اسی لئے وہ ہر دل عزیز شاعرہ ہیں، اسی ایک پہلو کو مد نظر رکھ کر خالد علوی نے لکھا ہے:
“پروین شاکر پہلی شاعرہ ہیں، جنھوں نے جوان ہوتی ہوئی لڑکیوں کی جسمانی گنجائشوں،فرمائشوں،نا بالغ مگر پریشان کن جذبوں اور دکھوں کا بیباک اظہار کیا ہے۔ ان کی شاعری میں ‘لڑکی پن’ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی عیاں ہے۔ غزل کو عورتوں کی باتیں کرنا کہا جاتا ہے، لیکن پروین کی غزل میں لڑکیوں کی باتیں ہیں”
کتابیات
۱۔ ماہ تمام۔ پروین شاکر۔ فرید بک ڈپو لمٹینڈ دہلی۔
۲۔ سرگذ شتِ پر وین شاکر۔ ڈاکٹر شاہد نو خیزاعظمی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی 2008 ء۔
۳۔ پروین شاکر کی شاعری ایک تنقیدی جائزہ۔ ڈاکٹر تنویر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی 2008 ء۔
۴۔ نسائی شعری آفاق۔ کہکشاں تبسم۔ کتاب منزل بھا گلپور بہار۔ 2015 ء۔
۵۔ تفہیم شعر۔ اختر شاہجہاں پوری۔ تخلیق کار پبلشرز دہلی 2016 ء۔
۶۔ غزل کے جدید رجحانات۔ خالد علوی۔ عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ دہلی 2014 ء۔
***