پرویز یوسفؔ
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو سینٹرل یونی ور سٹی آف کشمیر
افسانہ
واپسی
آج بھی آفس کی اور سویرے ہی نکلنا پڑا ۔روز کی طرح آج بھی مرحوم خواجہ صاحب کی کوٹھی سے میراگُذر ہوا۔ویران پڑی اس کوٹھی کو دیکھ کر میری آنکھیں بر آئیں ۔میں نے قدم تیزی سے آگے بڑھائے اور اپنے کام کی اور روانہ ہوگیا ۔
خواجہ صاحب کا شمار بستی کے سب سے امیر ترین اشخاص میں ہوتا تھا ۔شان و شوکت میں بھی کوئی ان کے پا سنگ نہ تھا۔اس بات کا خواجہ صاحب کو بڑا ہی غرور تھا ۔کسی کو اپنے برابر نہ سمجھتے ۔اُن کی باتوں میں اُن کی اکڑ صاف جھلکتی تھی۔ میں بھی راستے سے گذر کراکثر انہیں سلام کر تا تھا وہ بڑے ہی مغرور انہ انداز میں دھیمے لہجے میں ہی سلام کا جواب دیا کرتے۔اُن کی اکڑا ور غرور کی وجہ سے بستی میں بھی انہیں پسند نہیں کیا جاتا تھا ۔ہر کوئی اُن سے اندر ہی اندر سے نفرت کرتا تھا۔ مگر سماج کے بناوٹی اصولوں کے آگے سبھی مجبور تھے۔خواجہ صاحب کے پاس یوں تو دولت کی کوئی کمی نہ تھی مگر پھر بھی وہ اپنے پاس پڑوسیو ں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مسائل پر جھگڑتے رہتے ،ساری بستی پر اُن کا ایک الگ ہی رُعب جما ہوا تھا ۔مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے کہ اخبار ہاتھ میں لیے وہ اکثر اپنے گھر کے صحن میں گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے،پھر اپنے گھر کے چاروں اور نظر دوڑاتے اور پھر من ہی من میں اپنی امیری پر اس قدر فخر کیا کرتے۔اسی حال میں سال گزرتے گئے اور خواجہ صاحب امیر سے امیر ترین بنتے گئے۔وہ لمحہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گردش کرتا ہے اور میں بڑی دیر تک گہری سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ جب ایک روز معمول کے مطابق میں آفس ہی جا رہاتھا مگر اُس لمحے کا منظر کچھ اور ہی تھا ۔صحن میں خواجہ صاحب موجود نہ تھے بلکہ ایک بڑی بھیڑ صحن میں موجود تھی ۔میں گھبرا سا گیا ،مگر ہمت جٹا کر اندر چلا گیا ۔دیکھتا ہوں کہ گھر کے صحن میں جس جگہ خواجہ صاحب اکثر اپنی امیری کی فخریہ نمائش کیا کرتے تھے آج اُس جگہ اُن کا مردہ جسم مٹی کی طرح ڈھیر ہو گیا تھا ۔سامنے بیٹھے ایک شخص سے اُن کی موت کا سبب پوچھا !
’’بھائی جان یہ سب کیسے اور کب ہوا ؟ــخواجہ صاحب توا چھے بھلے اورچنگے تھے ،پھر یہ سب اچانک کیسے‘‘؟
انہوں نے حیرت بھری نگاہوں سے میری اور دیکھا ،اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھ سے کہنے لگا؛
’’آج صبح میں یہاں معمول کے مطابق خواجہ صاحب کو اخبار دینے آیا تھا مگر میں کئی منٹ تک جب دروازہ کھکھٹاتارہا ،لیکن معمول کے مطابق کوئی بھی باہر نہ آیا ،تو جب میں نے دروازہ کھلا دیکھ کر کسی کو باہر آتے نہ دیکھا تو میں اندر چلا گیا ،تو دیکھا کہ خواجہ صاحب رحمتِ حق ہوگئے ہیں اور ان کے ایک دو نوکر ان کے پاس بیٹھے بے یارو مدد گار رو رہے ہیں ،اور ابھی تک ان کے رشتہ دار بھی نہیں آئے تھے ،اور زیادہ تر پاس پڑوس والوں کو بھی خبر نہ تھی ۔یہ کہتے ہوئے اس اخبار والے کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے ،مجھے بھی خواجہ صاحب کی اس قدر اچانک موت سے رنج ہوا ،میں جوں ہی اس کمرے سے باہر نکلنے لگا تو دیکھتا ہوں کہ کئی رشتہ دار جوق در جوق اندر داخل ہو رہے ہیں ،کفن دفن کے ساتھ ہی میں نکلنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ خواجہ صاحب کے چند رشتہ دار بنگلے کے عقب میں بڑے بڑے پکوان بنوانے کی تیاریاں کر رہے تھے ۔میں تھوڑی دیر کھڑے کھڑے سن رہا تھا۔یہ لوگ طرح طرح کے پکوان ،بنانے کے مشورے کر رہے تھے،کسی کو نمک کم مقدار میں چاہیے تھا تو کسی کو زیادہ مقدارمیں ،کوئی اپنی ایک بیماری تو کوئی دوسری بیماری کا بہانہ بنارہا تھا۔ بہر حال میں عجلت سے آفس چلا گیا واپسی پر خواجہ صاحب کے بنگلے کے پاس ٹھہرااور مناسب سمجھا کہ تعزیت پرسی کے لیے اندر چلا جاؤں۔دائیں بائیں دیکھا کہ سبھی رشتہ دار بیٹھے لذیذ پکوانوں کا انتظار کر رہے تھے۔چند عورتیں البتہ ایک الگ کمرے میں ادھر اُدھر کی باتوں میں مصروف تھیں ۔ایسا لگا کہ خواجہ صاحب جیسے دنیا میں کبھی موجود ہی نہ تھے۔نہ کسی کو ان کی یاد آرہی تھی ،یہ دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا۔یہ سارا منظر مجھ سے دیکھا نہ گیا۔گھر آکر میں سیدھے اپنے کمرے میں چلا گیا۔کپڑے بدل کر گھر والوں سے چائے کا مطالبہ کیا کیوں کہ سر بوجھل محسوس ہو رہا تھا ۔سوچنے لگا کہ واقعی یہ دنیا کتنی بے مروت ہے اور زندگی کا انجام کیا ہوتاہے ۔چاہے کوئی فقیر ہو یا بادشاہ ،یہ کسی کی وفا دار نہیں ،زمانے کی رفتار خواجہ صاحب کے چلے جانے سے قطعی تھم نہ گئی بلکہ دنیا ویسی ہی رواں دواں ہے اور اس بے وفا دنیا کو کسی کے مرنے جینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس روز میں ایک بات اچھی طرح سمجھ گیا کہ ’’بھلے ہی دنیا میں سب لوگوں کے جینے کے طریقے الگ الگ کیوں نہ ہوں ،کوئی امیر ہے تو کوئی غریب ،کسی کے پاس کھانے کو ڈھیر سارا ہے تو کسی کو ٹھیک سے دو وقت کی روٹی بھی فراہم نہیں ،مگر ہم سب کی واپسی کا طریقہ ایک ہی ہے ۔۔۔وہی دوگز کفن،وہی مٹی کا دفن‘‘۔
اب اکثر جب میں کسی کے مرنے کے فوراََ بعد طرح طرح کے لذیذ پکوان بنتے دیکھتا ہوں تو میرے دل پر جوں بھی نہیں رینگتی۔کیوں کہ اس دنیا نے خواجہ صاحب جیسے مغرور و متکبر اور جا ہ حشم والے شخص کی بھی وفا نہ کی ۔یہاں کتنے فرعون ،ہامان ،قارون اور شداد آئے اور چلے گئے بس کیا رہا اُن کے اچھے بُرے کام اور نام۔اب یہ بات مجھے اچھی طرح آشکارہ ہو گئی کہ ’’یہ دنیا ہے صاحب! کسی ایک کے جانے سے ویران نہیں ہوا کرتی۔‘‘
***