You are currently viewing اسلام کا نظریۂ تعلیم

اسلام کا نظریۂ تعلیم

ڈاکٹر محمد شاہجہان ندوی

اردو ترجمانی : محمد شفاء اللہ صدیقی ندوی

صدرشعبہ اردو گرین ویلی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ سری نگرکشمیر

اسلام کا نظریۂ تعلیم

         بچوں کی صحیح طریقہ پر تعلیم وتربیت ایک اہم دینی فریضہ ہے ،جس کی فرضیت قرآن سے ثابت ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ’’اے ایمان والو!تم اپنے کو اور اپنے گھروالوںکو (دوزخ کی ) اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن (اور سوختہ )آدمی اور پتھر ہیں ۔جس پر تند خو(اور)مضبوط فرشتے (متعین ) ہیں ،جو خدا کی (ذرا) نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کو (فوراً ) بجالاتے ہیں۔(۱)چنانچہ آیت کریمہ اولاد کی تعلیم اور ان کی تربیت کی اہمیت کو بیان کرتی ہے ،اور اہل ایمان کو اپنے اہل وعیال کی تعلیم وتربیت کرنے اور انھیں اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری پر ابھارنے اور اللہ کی نافرمانی وسرکشی سے باز رکھنے اور انھیں اچھی باتوں کی تلقین کرنے اور حسن ادب سے آراستہ کرنے کا حکم دیتی ہے ،تاکہ وہ بھی ان کے ساتھ اس بھیانک اور پرخوف (جہنم کی )آگ کی زد میں نہ آسکیںجو اسی طرح انسانوں اورپتھروں سے سلگائی جائے گی جس طرح دوسری آگ لکڑی سے سلگائی جاتی ہے ۔

         اولاد کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری براہ راست والدین اور اساتذہ کی پشت پر ہے ،اگرچہ معاشرہ ، ملت اور حکومت بھی اس امر میں شریک ہیں۔اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملہ پر پوری طرح متوجہ ہوں،کیونکہ اس سلسلہ میں ان کی ادنیٰ کوتاہی بہت بڑے خطرات کو جنم دے سکتی ہے اور خاص طور سے موجودہ حالات میں جب کہ ان میں بہت سی سماجی بیماریاں اور متعدد اخلاقی امراض پیدا ہوچکے ہیں ۔

         اسلامی نظریۂ تعلیم :۔

         اسلام ہر فرد بشر کے لیے تعلیم وتربیت کو ضروری قرار دیتا ہے ،کسی فرد کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس سے بے نیاز رہ سکے،گویا تعلیم تمام انسانوں کا ایک مشترک اور عام حق ہے ،کسی جماعت اور کسی طبقہ سے خاص یا اس کی جاگیر نہیں ہے ۔

         اسلامی نظام تعلیم کی خصوصیات:۔

         اسلامی نظام تعلیم مندرجہ ذیل خصوصیات کی وجہ سے ممتاز ہے :

         ۱۔اللہ کے نام سے مربوط علم:۔

         علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے نام سے مربوط ہو، یہاں تک کہ وہ معاشرہ اور انسانیت کے لیے مفید ہو، جب کہ

تہدیم و تخریب اور کسی نقصان اور ضرر کا ذریعہ اور وسیلہ نہ ہو،چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے :’’(اے پیغمبر ﷺ )آپ (پر جو)قرآن (نازل ہوا کرے گا)اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے‘‘ (۲)

         ۲۔نفع بخش علوم کا انتخاب :۔

          اسلامی نقطۂ نظر سے مناسب ہے کہ نفع بخش علوم کا انتخاب اور ضرر رساں علم سے اجتناب کیا جائے،چنانچہ حضرت ام سلمہ ؓ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے بعد فرمایاکرتے تھے : ’ ’ اے اللہ میں نفع بخش علم ،پسندیدہ اور مقبول عمل  اور پاک رزق کا سوال کرتا ہوں‘‘(۳)

         ۳۔تعلیم کی فرضیت کی تعمیم :۔

          خدا تعالیٰ  کے اس ارشاد ’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے حقوق میں خلل مت ڈالو اور اپنی قابل حفاظت چیز وں میں خلل مت ڈالو اور تم تو ( اس کا مضر ہونا ) جانتے ہو‘‘ (۴)کی روشنی میں ہر مسلم مرد اور عورت دونوں پر دین کی بنیادی تعلیم حاصل کرنا فر ض ہے ۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حقوق کی ادائیگی بغیر بنیادی تعلیم کے ناممکن ہے ۔حضرت انس ؓ  نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔( ۵)

         ۴۔پڑھنے اور پڑھانے پر اجرو ثواب کی ترتیب :۔

         اسلامی نقطہ ٔ نظر سے تعلیم وتعلم یعنی پڑھنے اور پڑھانے دونوںپر اجروثواب ملتا ہے ۔اس لیے طالب علم اور استاد دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کی خاطر عمل پیہم اور جہد مسلسل کریں۔چنانچہ حضرت ابودرداء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  علم کی تحصیل کے لیے کوئی شخص  اگر مسافت طے کرے یا راہ چلے ،اس کے عوض اللہ تعالیٰ جنت کی راہوں میں سے ایک راہ پر اسے چلائے گا ،اور بلاشبہ ملائکہ طالب علم کی خوشنودی کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں ،اور بیشک عالم کے لیے آسمان وزمین کی تمام مخلوقات وکائنات اور پانی میں پائی جانے والی مچھلیاں دعائے مغفرت کرتی ہیں۔ اور عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چود ھویں کے چاند کو تمام ستاروں پر ہے ۔یقینا انبیاء دینا رو درہم کا وارث نہیں بناتے بلکہ وہ علم  کا وارث بناتے ہیں،تو جس شخص نے اس کو حاصل کیا گویا  اس نے بڑی سعادت حاصل کی۔

         (۶)حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کابیان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جو کسی اچھے کام کی رہبری کرے گا اس کو اس کے کرنے والے کے برابر اجر واثواب ملے گا ۔( ۷)

         ۵۔بلامعاوضہ تعلیم :۔

         اسلام بلامعاوضہ تعلیم وتربیت کا قائل ہے ،لہٰذا حکومت و اقتدار اور اصحاب خیر پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان طلبا کی ،جن کے پاس روپیہ اور پیسہ نہیں ہے ،کفالت کریں اور ان کی جملہ ضروریات کا خیال رکھیں۔کیو نکہ اللہ پاک کا ارشادہے : ’’اور آپس میں نیکی اور پرہیزگاری کے کاموںپر مدد کرو اور گناہ وظلم وزیادتی پر ہرگز تعاون نہ کرو‘‘( ۸)

         اما م ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبیؒ اپنی شاہکار تصنیف ’’جامع احکام القرآن ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ بھلائی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تعاون کی مختلف شکلیں ہیں۔مثلاً:  عالم کا لوگوں کو اپنے علم کے ذریعہ انہیں علم سکھا کر فائدہ پہونچانا اور مالداروں کا اپنے مالوں کے ذریعہ  ان کی مدد کرنا ،بہادر شخص کا اللہ کی راہ میں بہادری کا مظاہرہ کرنا اور تمام مسلمانوں کا ایک ہاتھ کی طرح سامنے آنا ‘‘۔(۹)

         حضرت جابر بن عبد اللہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : میں ہر مومن شخص سے اس کی جان سے زیادہ قریب ہوں ،جو کوئی مال چھوڑ کرجائے گا تو وہ اس کے اہل خانہ کا ہوگا ،اور جو قرض چھوڑ کر گیا یا کوئی ضائع ہونے والی اولاد چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کیا ہو تو اس(قرض) کی ادائیگی اور اس (اولاد)کی بھرپائی اور کفالت میرے ذمہ ہے  ۔(۱۰)

         ۶۔تعلیم کی ترویج و اشاعت:۔

         قوم و ملت اور ریاست وحکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کی نشرواشاعت اور اس کی ترویج وتعمیم اس پیمانے پر کرے کہ کوئی شخص ناخواندہ نہ رہ جائے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ آپ کہیے کیا علم والے اور جہل والے (کہیں)برابر ہوتے ہیں ! اور وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو لوگ اہل عقل (سلیم) ہیں‘‘(۱۱)حضرت ابو بکر ؓ کا فرمان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ’’علم سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھائو‘‘۔(۱۲)

         ۷۔پاک وصاف اور صالح ماحول میں تعلیم :۔

          تعلیم وتربیت کے باب میں مناسب ہے کہ ایسے صالح اور صاف ستھرے ماحول میں اس کا بندوبست کیا جائے کہ ماحول کی ہرشے تعلیم کے حصول میں معاون ثابت ہو،اسی طرح طالب علم کو مدرسہ یعنی تعلیمی ادارہ ، گھر، ملک ، حکومت ،اساتذہ کی جانب سے انسیت ولگائو ،خیر خواہی  اور ہمدردی حاصل ہو۔چنانچہ ابو ہارون عبدی بصری  عمارہ بن جوین کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ ابوسعید خدری کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت مبارک ہو،بیشک رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ بیشک لوگ آپ کے پیروکار ہیںاور یقینا لوگ زمین کے کناروں سے تمہارے پاس دین کا علم حاصل کرنے کی غرض سے آئیں گے ،چنانچہ جب وہ آئیںتو ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔(۱۳)

         ۸۔علم پر عمل آوری اور اس کی اشاعت:۔

         مناسب ہے کہ طلبا میں علم پر عمل کے جذبات ابھارنے اور اس کی اشاعت وترویج کی کامیاب کوشش کی جائے ۔اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے :’’اے ایمان والو!ایسی بات کیوں کہتے ہوجو کرتے نہیں ہو۔خدا کے نزدیک یہ بات بہت ناراضگی کی ہے کہ ایسی بات کہوجو کرو نہیں ‘‘(۱۴)

         حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: علم کی دوقسمیں ہیں : ۱۔وہ علم جو دل میں ہوتا ہے اور یہی علم نافع ہے  ۲۔ وہ علم جو زبان پر ہوتا ہے اور یہ علم بندوں پر اللہ کی طرف سے حجت ہے ۔(۱۵)

         اللہ پاک کا ارشاد ہے :’’سو ایساکیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت(جہاد میں ) جایا کرے تاکہ باقی ماندہ لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیںاور تاکہ یہ لوگ اپنی (اس )قوم کو جب کہ وہ ان  کے پاس واپس آئیں،ڈرادیں‘‘۔ (۱۶)

         عبد الرحمان بن ابزی ؓ سے مروی ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو دین نہیں سمجھاتے ،انکو تعلیم نہیں دیتے ،ان کو نصیحت نہیں کرتے ،ان کو بھلائی کا حکم نہیں کرتے اور انھیں برائی سے نہیں روکتے ؟ اور ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو  اپنے پڑوسیوں سے نہیں سیکھتے ،دین کی سمجھ ان سے نہیںلیتے اور ان سے وعظ ونصیحت حاصل نہیں کرتے ؟خدا کی قسم لوگ اپنے پڑوسیوں کو علم سکھائیں،ان کو دینی باتیں بتائیں،انہیں وعظ ونصیحت کریں،انہیںبھلائی کا حکم اور برائی سے رہنے کی تلقین کریں اور لوگ اپنے پڑوسیوں سے علم سیکھیں ، دینی تفقہ ان سے حاصل کریں اور ان سے نصیحت پکڑیں ورنہ میں ان کو سزا دینے میں جلدی کروں گا ‘‘ (۱۷)حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میرے حوالے سے لوگوں کو (علم دین ) پہونچائوخواہ  ایک آیت ہی کیوں نہ ہو‘‘  (۱۸)

         ۹۔طلبا کی ہمہ جہت صلاحیت کا فروغ:۔

         ضروری ہے کہ طلبا کی صلاحیت کا ہمہ جہت اور ہر پہلوسے فروغ ہو،ان کی خوابیدہ اور پوشیدہ صلاحیتوں اور مہارتوں کو اجاگر کرنے کے لیے سعی وکوشش کی جائے ،ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ،ان کو ہراساں  نہ کیا جائے ۔نیز ان کی حالتوں ،عمروں،مزاجوں اور ان کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے نرم وملائمت،شفقت و ہمدردی  کے ساتھ بہتر اسلوب اور خوبصورت انداز میں، ان کی تعلیم وتربیت کی جائے ۔اللہ پاک کا ارشادہے :’’بیشک آپ اخلاق( حسنہ) کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں ‘‘(۱۹)چنانچہ معلم کے شایان شان یہ ہے کہ وہ اخلاق کے اسی اعلیٰ پیمانے کواپنائیں، جس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس متصف تھی ،یعنی ادب وسلیقہ ،حیاء وشرم ،حلم وبردباری،عفو و درگزری وغیرہ جیسے محاسن اخلاق اپنا ئیں۔اللہ کے نبی ﷺ ان امور کی رعایت فرمایا کرتے تھے ،چنانچہ ابو وائل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ ؓ لوگوں کو ہر جمعرات کو تذکیر کیا کرتے تھے ،تو ان سے کسی شخص نے کہا کہ اے ابو عبد الرحمان میری خواہش ہے کہ آپ ہردن ہمیں تذکیر وتبلیغ کریں۔تو انہوںنے فرمایا کہ بلاشبہ مجھے اس سے باز رہنے کی وہ یہ ہے کہ مجھے تم کو اکتادینا پسند نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ میں تم کو وعظ ونصیحت کے باب میں خیال رکھتاہو ں جیسا کہ حضور صلی اللہ ﷺہماری اکتاہٹ کے پیش نظر ہمارا خیال رکھتے تھے ۔(۲۰)

         معلم کی مناسب اور لائق دید خصوصیت یہ ہیں کہ وہ شفقت و ہمدردی اور نرمی ورقت ،اچھی اور صالح حکمت ودانائی ،پر کشش اسلوب و دلکش انداز ،خوش مزاجی اور سہل پسندی  جیسی صفات کا حامل ہو۔چنانچہ معاویہ بن حکم سلمیؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے لوگوں میں سے کسی شخص کو چھینک آگئی،تو میں نے کہا : یر حمک اللہ ،لوگ مجھے گھور کر دیکھنے لگے ،تو میں نے کہا : آپ لوگو ں کو کیا ہو گیا ہے ؟کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔تو لوگ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے ،جب میں نے ان کو دیکھا تو وہ مجھے خاموش کر رہے تھے ، اس لیے میں چپ رہا ، جب اللہ کے رسول ﷺنماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ ان پر قربان میں ان سے پہلے اور ان کے بعد آپ ﷺ جیسا معلم و مربی نہیں دیکھا ،جو آپﷺ سے بہتر طریقے پر تعلیم دیتا ہو۔چنانچہ خدا کی قسم  نہ وہ مجھ پر غصہ ہوئے ،نہ مارا اور نہ ہی برا بھلاکہا ، بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا : کہ یہ نماز ہے اس میں لوگوں کی بات کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ نماز دراصل تسبیح ،تکبیر اور قرأت قرآن ہے ۔(۲۱)حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ  نے فرمایا : آسانی کا معاملہ کروسختی سے رکو، خوش کرو متنفر مت کرو۔( ۲۲)

         ۱۰۔ تعلیم وتعلم کا مقصد اللہ کی خوشنودی کی تحصیل اور اس کی مخلوقات کی نفع رسانی:۔

         اسلامی نقطہ ٔ  نظر سے ضروری ہے کہ تعلیم وتعلم کا مقصد اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا اور اس کی مخلوقات کو نفع پہونچاناہو،نہ یہ کہ صرف ڈگریوں اور اسناد کا حصول ،مال ودولت کی تحصیل ،اونچے عہدے اور بلندمناصب پر فائز لمرامی  اور عملی مہارتوں اور لیاقتوں پر فخر و ناز کرنا ہو۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’وہ لوگ دنیاوی اسباب کا حصول چاہتے ہیں اور اللہ آخر ت چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے ‘‘(۲۳)۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کسی نے کوئی علم غیر اللہ کے لیے سیکھا یا اس علم کے ذریعہ غیر اللہ کی رضا وخوشنودی کو پیش نظر رکھا تو ایسا شخص جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنائے ‘‘(۲۴) ۔راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ نبی پاک علیہ السلام نے فرمایا : جس شخص نے کوئی علم حاصل کیا جس کے ذریعہ اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے ،کو  اس غرض سے حاصل کیا کہ  دنیا وی سازو سامان حاصل ہوجائے یا کوئی عہدہ یا منصب ہاتھ آجائے ،توایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا ۔( ۲۵)

         ۱۱۔غیر مسلموں کو حاصل شدہ تعلیم آزادی :۔

         غیر مسلموں پر بغیر ا ن کی رضامندی کے کوئی تعلیم جبراً لازم نہیں کی جائے گی ،بلکہ ان کو اپنے مخصوص درسگاہوں اور مدرسوں کے قیام کے لیے مکمل مواقع عطا کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے عقائد اور دینی آراء و نظریات کے مطابق اپنی مذہبی تعلیمات حاصل کرسکیں۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :’’ دین میں زبردستی نہیں کی جاسکتی ‘‘ (۲۶)

         اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیم کی غرض وغایت :۔

         اسلامی نقطہ ٔ نظر سے تعلیم وتربیت کا مقصد اور مطمح نظر نوع انسانی کے تمام افراد کو قابل اور صالح بنانا ہے تاکہ وہ انسانی معاشرہ کے لیے فائدہ بخش اور نفع رساں بن سکیں۔

         خلاصہ کلام یہ ہے تمام علوم خواہ دینی ہوں یا عصری اللہ کے نام سے مربوط ہوںاوردنیا کے خالق کے تعارف سے جڑے ہوئے ہوں۔علامہ بدیع الزماں سعید نورسیؒ نے کیا خوب تحریر کیا ہے کہ’’بیشک وہ تمام علو م جو تم سیکھتے ہوہمیشہ اللہ کا پتہ دیتے اور اپنی خاص زبان میں نہایت کرم فرما خالق کائنات و مالک کل کا تعارف کراتے ہیں ‘‘۔مثلا:

         (۱) ایک بہت بڑی فارمیسی ہے، اس میں موجود ہر شیشی میں دوائیں ہیں،ان دوائوں میں مقوی تیارشدہ اشیاء یا  اجزاء ومفردات نپے تلے متوازن اور درست و مقررہ انداز میں رکھے گئے ہیں ،جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان دوائوں کے پیچھے کوئی دانا دواساز اور ماہر کیمیا داںہے جو ان کاموں کو انجام دیتا ہے ۔ٹھیک اسی طرح کرۂ ارضی کی فارمیسی ہے جس میں چار لاکھ اقسام کے نباتات وحیوانات پائے جاتے ہیں ،ان میں سے  ہرایک درست کیمیائی مفردات کی شیشی اور عجیب وغریب مقوی ادویات کی بوتل کے برابر ہے۔ چنانچہ یہ بڑی فارمیسی یا وسیع وعریض دوا خانہ اس کے حکیم و ذوالجلال فارماسسٹ خدا وند قدوس کا پتہ نہ صرف یہ کہ بینا لوگوں کو دیتا ہے  بلکہ نابینا تک کو دے دیتا ہے ۔نیز اس کے خالق کا تعارف، اس کے درجہ کمال ، حسن انتظام اور اس کی عظمت و منزلت کی وضاحت کے ساتھ وہ علم طب جسے آپ پڑھتے ہیں کے مقرر کردہ معیار کے مطابق بازا ر میں پائی جانے والی فارمیسی پر قیاس کرتے ہوئے ،کراتا ہے ۔

          (۲) جس طرح ایک حیرت انگیز اور عجیب غریب فیکٹری جو ایک بہت سادہ مادے سے ہزاروں قسم کے رنگ برنگ کپڑے تیار کرتی ہے،ہمیں بتاتی ہے کہ ان پیداوار کے پیچھے بلاشک وشبہ میکینکل ماہر انجینئر ہے اور فیکٹری اس کا تعارف بھی کراتی ہے ، ٹھیک اسی طرح یہ ربانی چلتی پھرتی مشین جو کرۂ ارضی کے نام سے موسوم ہے ،اللہ کا تعارف کراتی ہے ۔یہ الٰہی فیکٹری جس میںسینکڑوں ہزار بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں اور ان میں سے ہر ایک میں سینکڑوں ہزار مخصوص اور ماہر فیکٹریاںہیںبلاشبہ ہم سے اس کے خالق و مالک کا تعارف کراتی ہیں ۔مشینی سائنس جسے آپ پڑھتے ہیں کے معیار کے مطابق اس الٰہی پلانٹ کے درجہ کمال اور اس کی عظمت کواس انسانی فیکٹری یا پلانٹ پر قیاس کرتے ہوئے  بیان کرتا ہے ۔(۲۷)

         حوالے وحواشی

 ۱۔ سورہ تحریم ،آیت نمبر ۶۔

۲۔سورہ علق ،آیت نمبر: ۱۔

۳۔ ابن ماجہ؍ حدیث نمبر :۹۲۵۔

۴۔سورہ انفال؍ آیت نمبر ۲۷

۵۔ابن ماجہ  ؍حدیث نمبر: ۲۲۴

۶۔ ابودائود ،حدیث نمبر: ۳۶۴۱

۷۔مسلم؍ حدیث نمبر: ۱۸۹۳

۸۔سورہ مائدہ ؍آیت نمبر: ۲

۹۔اما م ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی،ؒ ’’جامع احکام القرآن ‘‘ جلد نمبر ۶ ؍صفحہ نمبر:۴۷

۱۰۔ مسلم ،حدیث نمبر:  ۸۶۷

۱۱۔سورہ زمر ،آیت نمبر: ۹

۱۲۔بیہقی،حدیث نمبر: ۱۷۴۲

۱۳۔ابن ماجہ: ۲۴۹

۱۴۔سورہ صف ،آیت نمبر: ۱-۲

۱۵۔ابن شیبہ  حدیث نمبر: ۳۵۵۰۲

۱۶۔سورہ  توبہ ، آیت نمبر: ۱۲۲

۱۷۔ طبرانی حد یث نمبر: ۷۴۸

۱۸۔بخاری  ؍حدیث نمبر ۳۴۶۱ اور ترمذی؍ حدیث نمبر: ۲۶۶۹

۱۹۔سورہ قلم ،آیت نمبر :۴

۲۰۔ بخاری  ؍حدیث نمبر ۷۰ / مسلم  ؍حدیث نمبر :۲۸۲۱

۲۱۔دارمی ،۱۵۰۲

۲۲۔مسلم ؍ حدیث: ۱۷۳۴

۲۳۔سورہ انفال  ؍آیت :۶۷

۲۴۔ترمذی  ؍حدیث: ۲۶۵۵

۲۵۔مسنداحمد؍ حدیث نمبر:۸۴۵۷

۲۶۔سورہ بقرہ؍ آیت نمبر: ۲۵۶

۲۷۔ الشعاعات ،نورسی ص ۲۴۳-۲۴۴

***

Leave a Reply