You are currently viewing وجود کا آئینہ

وجود کا آئینہ

کومل شہزادی

وجود کا آئینہ

زہرہ کی زندگی ایک چلتی ہوئی مشین کی مانند تھی۔ صبح کا آغاز بچوں کو جگانے، ناشتے کی تیاری، شوہر کے کپڑے پریس کرنے اور وقت پر سب کو روانہ کرنے میں گزر جاتا۔ پھر کچھ لمحے اُسے خود کے لیے ملتے، مگر وہ لمحے بھی خاموشی سے کمرے کی دیواروں میں کھو جاتے۔

شوہر، کام سے آکر اپنے فون میں مصروف ہو جاتااور زہرہ—ایک خوبصورت سجی سنوری بیوی—محض ایک نمائشی فریم کی صورت گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر خود کو کچلتا محسوس کرتی۔۔۔۔۔۔

اس کی آنکھوں میں اکثر ایک سوال ہوتا:

“میں کون ہوں؟ اور میری زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے؟”

ایک دن ایک پرانی کتابوں کی دکان سے گزرتے ہوئے زہرہ کی نظر ایک گرد آلودچمکدار آئینے پر پڑی۔ آئینے کے کنارے پر پرانا سنہرا فریم تھااور نیچے کُھدی ہوئی ایک تحریر:

“یہ آئینہ صرف وہی دکھاتا ہے، جو آنکھوں سے نہیں، دل سے دکھتا ہے۔”

زہرہ نے بے اختیار آئینہ خرید لیا۔

اس رات جب سب سو گئےوہ آئینے کے سامنے جا بیٹھی۔

پہلے تو کچھ دکھائی نہ دیا پھر آہستہ آہستہ آئینے کی سطح پر دھند چھانے لگی اور ایک منظر ابھرا—زہرہ خود کو دیکھ رہی تھی، مگر وہ زہرہ نہیں جو اب ہے، بلکہ وہ زہرہ جو کبھی بچپن میں کھل کر ہنستی تھی۔۔۔۔

آئینے میں آواز گونجی:

“تم نے کب خود سے ناتا توڑا؟”

زہرہ چونکی۔۔۔۔۔۔

“میں نے کچھ نہیں توڑا۔ میں  تو صرف وہی کیا جو سب نے کہا: صبر، اطاعت، قربانی۔”

آئینے نے دکھایا: وہ لمحہ جب اس نے اپنی پسند کی تعلیم چھوڑ دی، وہ رات جب اس نے آنکھوں کے آنسو چھپا لیے، وہ دن جب اس نے پہلی بار اپنے خواب دفن کیے۔۔۔۔۔۔

زہرہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔۔۔۔۔۔

آئینے نے ایک اور عکس دکھایا—زہرہ قلم تھامے، ایک خالی صفحہ پر اپنے دل کی باتیں لکھ رہی ہے۔

“یہ تم ہو، اگر تم خود کو سچائی سے جوڑ لو،” آئینہ بولا۔۔۔

زہرہ نے آنکھیں کھولیں۔ آئینہ اب صرف آئینہ تھامگر اس کی روح جاگ چکی تھی۔

اب زہرہ نے کچھ بدل دیا تھا۔ وہ خود کو وقت دینے لگی، لکھنے لگی، بولنے لگی، سننے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی آواز پر بھی چلنے لگی۔

شوہر نے پوچھا:

“آج تم کچھ مختلف لگ رہی ہو۔”

زہرہ نے مسکرا کر جواب دیا:

“ہاں، آج میں خود کو آئینے میں نہیں، اپنے اندر دیکھ رہی ہوں۔”

“زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ ہم جب تک خود کو نہ پہچانیں، ہم دوسروں کی خوشی کے آئینے میں اپنا عکس ڈھونڈتے رہتے ہیں۔مگر اصل آئینہ وہ ہوتا ہے جو اندر سے دکھائے: خود کی شناخت، اپنی حقیقت، اپنی روشنی۔۔۔۔۔۔!”

***

Leave a Reply