You are currently viewing ٹیوشن سینٹر

ٹیوشن سینٹر

سلیم ناز

ٹیوشن سینٹر

دو برس پہلے جب میں نے سفینہ کےجھونپڑانما کمرے میں جھانکا تھا تو ہر چیز سانپ کی طرح بل سے منہ باہر نکالے پھنکارتی زبان پر سوال کا زہرلیے ہوئے نظر آرہی تھی،سردیوں کے گرم بستر جن میں دو رضائیاں،ایک بہت ہی پرانا  کمبل جو برسوں سےدھلائی سے محروم تھا اور گرم چادروں سمیت سردیوں کے تمام بسترپورے کمرے میں بکھرے پڑے تھے،ایک کونے میں مکھیوں کا جمگھٹا چند بے دھلے برتنوں کا خرابہ تھا۔آج وہی سفینہ ایک بنگلہ نما گھر  کےڈرائنگ روم کو آفس بنا کرگھومنے والی کرسی پر پرنسپل بن کربیٹھی ہوئی ہے اور بارہ چودہ فی میل ٹیچرز اس کی اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھا رہی ہیں۔سفینہ کو اس حالت میں دیکھتے ہی میں  حیران ہوگیا کہ یہ تو  اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں تھی پھر یہ عجوبہ کیسے ہوا!!

مخبر بولا  ‘‘جانی اسی لیے تو تمھیں یہاں لایا ہوں کہ تم  اس معجزے کے پس پردہ راست اور معکوس تعلق کو سمجھ سکو ،دیکھو  تم دو سال میں ایک ڈگری مکمل نہیں کرسکے اور اس نے  اتنا بڑا کارنامہ کر دکھا دیا’’۔یار ٹیچرز اس کے کم پڑھے لکھے ہونے پر سوال نہیں کرتیں اور اس کے ماتحت ملازمت کرنے پر  عار محسوس نہیں کرتیں؟سفینہ کو اس حالت میں دیکھ کر میں اس دوپہر میں جانکلا جب  سفینہ اٹھ کر بچے کو پیسے دینا یاشربت بنا کردینا اپنی طبیعت کے خلاف اوربچے کو بوجھ محسوس کررہی تھی ۔اس کوبچے اور اس کے والد پر شدید غصہ آرہا تھا۔مخبر حیران ہوکر بولا ‘‘تم سفینہ کو کب سے اور کیسے جانتے ہو؟’’۔میری اور اس کی آشنائی  دو سال پہلے کی ایک دوپہر  کے چند لمحات  پر مشتمل ہے:

‘‘تمام موسم اللہ کی نعمتوں کی لڑی کے دانے ہیں مگر غربت اور گرمی کا موسم  غریب کے لیے تو صحارا کا سفر ثابت ہوتے ہیں۔آج صبح سے ہی  گرمی کا توڑ نہیں مل رہا تھا اور اب  جب بجلی بھی بدنصیب کا محبوب ثابت ہوئی تو میں تندور نماگھر سےنکل  دوڑا۔سامنے والی گلی چھوڑ کرچچا رفیق والی  گلی کی نکڑ پرمیجر عمر کی کوٹھی کے سامنے ایک نیم کادرخت ہے۔آٹھ سالوں میں پہلی بار مجھے اپنے محلے کے بہشت بوٹے کاادراک ہوا۔میں رمکتے رمکتے اس درخت کے سائے میں جا موجود ہوا ،وہاں پر دو ننھے منھے بچے پلاسٹک کے کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔ایک بچے کے چہرے پر پسینہ تھاجیسے گلاب پر شبنم پڑی ہواور فروری کی دھوپ میں چمک رہی ہو اوردوسرا بچہ لباس میں جمع میل کچیل کی وجہ سے  گرمی اور پسینے کاتاثرآنکھ سےزیادہ ناک سے کروا رہا تھا۔وہاں پر بلامقصد کھڑا ہونا سوالیہ نگاہوں کاشکار ہونے کے مترادف تھاسو میں نے بچوں کے کھیل میں منہمک ہونا برمحل جانا۔بچپن سے پرندوں اور جانوروں کے بچوں کو اپنے والدین کی نقل کرتے دیکھ کرمیرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا تھا  کہ بچے فطرتاً اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں یا والدین ان کوباقاعدہ تربیت دیتے ہیں ۔آج ان بچوں  کو دیکھ کر میرے ذہن کی گرہیں کشا ہوتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔خوبصورت بچے کے دونوں ہاتھوں میں چابی والے کھلونے تھے جووہ مٹی کے بنے گھروں کی دیواروں کے اوپر سے گزار کرانھیں مسمار کر رہا تھا۔دوسرا بچہ اسے کہتا یار ایک کھلونا مجھے دے دو۔خوب صورت بچہ کہتا‘‘تم مٹی سے دیواریں بناؤ  اور میں انھیں گراتا ہوں’’۔اسی اثنا میں سامنے والی کوٹھی کے صدر دروازے کا تھوڑا سا حصہ کھلتا ہے اورایک بنی سنوری گل اندام، خوب صورت بچے کو آم کا شیک ڈسپوزیبل گلاس میں تھما کرلوٹ گئی۔دوسرے بچے کے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور ہاتھ بےقابو سے ہوکراِدھر اُدھر چلنے لگے اور بےاختیار بول اٹھا‘‘تھوڑا سا مجھے بھی پینے دو’’۔خوبصورت بچہ بلاتوقف بولا‘‘تم بھی جاکر اپنی ماما سے لےآؤ’’۔بچہ اپنا سا منہ لے کرادھر ادھر دیکھتا ہے اورپھر گھر کی جانب سرپٹ دوڑ گیا۔

متوسط گھرانے  کی بیٹھک جس کا دروازہ باہر گلی  کی جانب ادھ کھلا ہوا تھا بچہ زورسے دروزے کو دھکیلتے ہوئے‘‘امی امی  مجھے  جوس دو’’۔بچے کی ماں جو خوابیدگی کے عالم میں تھی کروٹ بدلتے ہوئے‘‘تم میری جان پر علاحدہ سے عذاب بنے ہوئے،کیوں جینا حرام کررکھا ہے’’۔‘‘امی دو نا’’،‘‘رات کو جب تمھارا باپ آجائے تو اسے کہنا کہ وہ کوئی ملازمہ رکھ دے جو تمھیں مشروب بنا بنا کردے اور دکان سے چیزیں بھی لادیا کرے میں سارا دن تمھارے ناز نہیں اٹھا سکتی’’۔بچے کی ماں  ایک دو بار کروٹ بدل کرجھونپڑی نما بیٹھک کی دیواروں پر ایسے گھور رہی تھی  کہ  جیسے بچے کو لانے اور اس کا سکون برباد کرنے میں ان کا ہاتھ ہو۔بیٹھک نما کمرے کا سازوسامان بتا رہاتھا کہ کہ مکین بےترتیبی کی زندگی گزاررہے ہیں۔بچہ ماں کی قمیص کا ایک کونا کھینچتے کھینچتے چارپائی کے نیچے لیٹ گیا اور پاؤں سے چارپائی کواوپر کی اور دھکا لگانے لگا۔بچے کی ماں تنگ آکر اٹھی اور دروزے سے گلی کی جانب بنے ہوئے زینوں میں سے دوسرے زینے پر بیٹھ کرباہر کا نظارا کرنے لگی۔آس پاس کے سکولوں میں شاید چھٹی ہوچکی تھی اور بچے بیگ پہنے،پسینے میں شرابور ہاتھوں میں کھانے کے ٹفن اور پانی والی بوتلیں اٹھائے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔بچے کی ماں نے تین چار سال کے ایک چھوٹے سے بچے کو دیکھ کرجو بھاری بیگ اٹھائے مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا اپنے بیٹے نعمان کو کہا کہ ‘‘سارا دن میرا جینا حرام  کرنے کی بجائے تم بھی سکول جایا کرو۔’’اس سے پہلے بیٹے کی آواز آتی بچوں کی ٹولی کے پیچھے پیچھے چلنے والی  خوبرو ٹیچر،نعمان کی امی کو کہتی‘‘آپ کا بیٹا اگر تین سال کا ہوگیا ہے تو ہمارے سکول میں داخل کروادو’’۔یہ کمبخت تو پانچ سال سے بھی مہینہ دو اوپر ہی ہوگا مگر اس کے ابا حضور اتنا کہاں کماتے ہیں کہ اس کی سکول کی فیس ادا کی جاسکے،ورنہ ایسی دوپہر میں میں یہاں بیٹھنے کی بجائے سکون سے سوئی ہوتی۔یہ بات سن کر ٹیچر کے ترحم والے جذبات جاگ اٹھے۔‘‘سسٹر آپ اسے سکول بھیجا کریں فیس کا بھی کچھ ہوجائے گا اور ویسے بھی ہمارے سکول کی فیس اتنی زیادہ نہیں ہے وہ میں ادا کردیا کروں گی’’۔بچے کی ماں بولی‘‘اس  کاباپ  بڑا ایم اے پاس ہے جو یہ  پڑھے گا ’’۔سسٹر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کہ تعلیم سے محرومی ان کی وراثت میں لکھ دی گئی ہے؟؟ اس کے والد صاحب تو بےچارے کسی مجبوری کی بنا پر نہیں پڑھ سکے ہوں گے اب اس کے پاس تو موقع ہے سو اسے پڑھنے دیں اور اس کی کامیابی کے لیے آپ بھی ماں کا کردار ادا کریں’’۔ٹیچر کی باتوں نے شاید ایک لمحے کے لیےبچے کی ماں کو سوچنے پر مجبور کردیااور اس نے باتوں میں توقف کرنے کے لیے یا کچھ سوچنے کے لیے یا پھر ٹیچر سے جان چھڑانے کے لیے  خاموشی سادھ لی ۔ٹیچر ایک دم سے چونک اٹھی جیسے اسے اپنے ہی دماغ میں کوئی گم شدہ رازمل گیا ہو‘‘سسٹر ہمارے سکول میں آیا جی  کی جگہ ہے اگر آپ یہ ملازمت کرلیں تو آپ کے گھر کا نظام بھی بہتر ہوجائے گا اور آپ کا بچہ بھی پڑھ جائے اور ویسے بھی اس مہنگائی کے دور میں فرد واحد کے بس کی بات نہیں کہ وہ گھر کا نظام چلا سکے’’۔بچے کی ماں کی خاموشی کو ٹیچر نے اس کی رضا ہی جانا اور اپنا نام اور سکول کا نام لکھ کردیتے ہوئے اپنا راستہ لیا۔

مخبر‘‘یار کافی ذہین  ہو ایک دوپہر کے واقعے کو کیمرے کی آنکھ کی طرح حرف بہ حرف  اپنے ذہن میں قید کررکھا ہےمگر وہ دوپہر تو اس واقعے کی ابتدائی چند سطریں دکھائی پڑتی ہیں  اصل کہانی تو اس کے بعد ہی شروع ہوتی ہے’’۔ممکن ہے اصل کہانی میں سفینہ کسی یوٹوپیائی ریاست کی واحد ملکہ بن کرسامنے آئے مگر مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا اتنی جلدی یہ سب کیسے ممکن ہوا!!مخبر‘‘تمھاری بات سے میں متفق نہیں ہوں کیونکہ یوٹوپیائی ریاست میں ایک ہی حکمران ہوتا ہے اور حکومت کے بہت سادہ اور بےضرر اصول متعین ہوتے ہیں مگر یہاں اس کے بالکل متضاد صورت دیکھنے کو ملے گی ایک لونڈی دوحکمرانوں پرنہ صرف راج کرتی ہے بلکہ ان کوناکوں چنے چبواکر خود تخت نشین ہوبیٹھتی ہے’’۔آپ کیوں مزید تجسس پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو آٹھواں  عجوبہ سامنے آیا ہے وہ کھل کربیان کردو۔مخبر‘‘میں تمھیں الف سے یے تک  تمام کہانی سناتا ہوں تم نے بیچ میں کوئی سوال نہیں کرنا اوراٹھ کربھی نہیں بھاگنا’’۔جناب تم خضربن جاؤ مگر میں موسیٰ بننے کی گستاخی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

مخبر:‘‘سفینہ  اپنے شوہر یاس نصرت کوزبرستی اپنی بات پر متفق کرکےراحت پبلک سکول میں آیا جی کی نوکری  شروع کردیتی ہے۔جس شخص نے صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانابلا حرکت کے ایک ہی بستر پر لیٹ کرکھایا ہو اور برتن شوہر سے دلوائے ہوں اس کے لیے کسی سکول کے برتن دھونا اور ہرآواز پرلبیک کہنااورپانی لے کر حاضر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ٹھہرتاہے۔یہ جب شادی ہوکر اپنےمحلے میں آئی تھی  تو اکثر نوجوانوں کی نگاہیں بلااختیار ان کے جھونپڑے کا طواف کرتی رہتی تھیں مگر وقت  کے دھارے اور حالات کے گہوارے نے کچھ ایسے اثرات چھوڑے کہ رنگت ماند پڑ گئی،وزن بڑھ گیااور میک اپ  آلسی کی نظر ہوگیا۔پھر ہوا کچھ یہ  کہ جب عشق نے آنکھ کھولی تب رت بدل گئی اور شعلے کو ہوا نہ ملنے کے سبب جوالا مکھی بن گیا۔یاس نصرت  غریب مگر تیز مزاج آدمی تھا اس نے اس جوالا مکھی کو راکھ سے نکال کرمٹی کے ڈھیر تلے رکھنے کے لیے نعمان کی صورت میں تودا تعمیر کردیا۔سفینہ اس تودے کی اوٹ میں ایسی چھپی کہ کئی کئی دن تک منہ نہ دھونا اورمیلے کچیلے کپڑوں میں ہفتوں خود کو محبوس رکھنا عادت کا جزوکبیر بنالیا۔

سکول کا ماحول بالکل مختلف تھا ہرٹیچر روززنہ نیا سوٹ پہن کر آتی اور سفینہ جب کسی ٹیچر کو پانی پیش کرتی تو اس کے ہاتھ گلاس کو  نفاست سے محرورم اور غلاظت سے بھرپور بنادیتے۔گلاس کی بیرونی  سطح پر   سفینہ کے ہاتھوں کی میل پسینے کے قطروں کی طرح ٹپک رہی ہوتی تو ٹیچرز گلاس پکڑتے ہی   پانی گرا دیتیں اوراس عمل پر سفینہ منہ بسورتی مگر  سفینہ کو نیا سمجھ کراور غریب جان کر کچھ کہنے سے پرہیز کرتیں کہ کہیں اس کی نوکری کھڈے میں  نہ جاگرے۔سفینہ ان سب باتوں کا غصہ یاس نصرت پر اتارتی اور رات کو جونہی وہ واپس گھر آتا سفینہ اسے کہتی مجھے کھانا دو اور خود بھی کھاؤ۔دو ہفتے ایسے ہی گزرے ہوں گے کہ سفینہ نے یاس نصرت کو اس بات کاپابندکردیا کہ وہ رات کو آتے ہوئے کھانا ہوٹل سے لے آیا کرے کیونکہ میں اتنی تھک چکی ہوتی ہوں کہ مجھ سے کھانا گھر پر نہیں بنتا۔

پہلے ماہ کی تنخواہ پاتے ہی سفینہ گھر آنے کی بجائے سیدھی بازار گئی ، دوسوٹ خریدےاورایک اونچی ایڑی والی جوتی خریدی  اور کچھ میک اپ کا سامان لے کرگھر آئی۔اب سفینہ کے پاس کچھ پیسے بھی آچکے تھے اس لیے یاس نصرت کے بغیرسفینہ  برگر،گول گپے اور دہی بھلے کھانے کے لیے بازار بھی جانے لگی ۔سفینہ نے اب خود پر توجہ دینا شروع کردی تھی دن میں تین بار صابن سے منہ دھونا اور رات کوسوتے ہوئے کریم لگا کرسونا اور پھر صبح اٹھ کر بلیچ  کرنا اور پھر غازے کی لیپ کرکے سکول کا راستہ لینا۔سفینہ شکل سے تو پہلے ہی خوبصورت تھی بس ذرا سے اہتمام کی ضرورت تھی جس نے گلاب کو دکان سےاٹھاکردولہے کے سہرے میں سجادیا۔سفینہ کی نسوانیت بھی ایسی تھی  کہ باجرے کے ڈھیر میں سے مکئی کے سٹے کی طرح اپنی پہچان خود کروا لیتی تھی۔گلاب کی خوشبو سونگھنے کا ہر کسی کوشوق  ہوتا مگر انداز اورقدر مختلف ہوتی ہے۔اب تو سفینہ ٹیچرزکے دل میں گھر کرنے لگی تھی کچھ ٹیچرز نے محبت کوشفقت کاروپ دےدیا تھا مطلب گھر میں بننے والے کھانے بھی سفینہ کی نظر ہونے لگے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سفینہ کے لیے تحائف کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔سفینہ  اپنی تنخواہ کو بھی اپنی ذات  پر خرچ  کرتی رہی اور دیگر ٹیچرز بھی تحائف دیتی رہیں اس طرح سفینہ نے کافی زیادہ کپڑےا ور جوتے جمع کرلیے تھے ۔گلاب کو گلاب سے خار نہیں ہوتی  مگر جب گلابوں کے بیچ ایک سفید کلی سراٹھا لےاوراس کی خوشبو حد سے تجاوز کرنے لگے او ر ہر بلبل اس کلی کو سونگھنے اورچاہنے لگے تو اس سے باقی پھولوں کے دل میں  پنپنے والا حسد ایک عداوت کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔سفینہ بھی اب  اسی نہج پر آن پہنچی تھی کہ ہر روز نیا جوڑا،نیا جوتا اور بہترین میک اپ جس سے ٹیچرز حسد سے عداوت کی  اورلڑھکتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔

 اتوار کی ایک شام سفینہ  پارلر گئی پلکیں بنوائیں،فیشل کروایا،بال سیدھے کروائے اور بائیں بازو پر کہنی سےہتھیلی  تک مہندی لگوائی اور واپسی پر گلابی بیلٹ والی گھڑی خریدی ۔سفینہ نے دو گھنٹوں میں تیس دنوں کی کمائی کا نصف تین ہزار اپنی ذات پر خرچ کردیا مگر چہرےپر افسردگی کی بجائے ایک الگ سی چمک تھی جس کو صاف پڑھا جارہا تھا کہ سفینہ اپنے خارج سے باطن کی طرف مسرور دکھائی دے رہی ہے۔رات کو یاس نصرت جب گھر پہنچا تو اس نے چند ہفتوں سے جاری تبدیلی کو جب بامِ عروج پردیکھا تو خوش ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہوا کہ بچے کی پڑھائی اور اس کے خوراک ولباس پر توجہ دینے کی بجائے سفینہ نے اپنی ذات کوہی محور بنارکھا ہے۔اس محور کے کسی مدار میں بھی یاس نصرت اور نعمان نظر نہیں آتے خیر یہ ایسا کون سا چاند ہے جس نےمدار میں موجود اپنے ستاروں پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی بجائے ہر مدار میں اپنا ہی عکس سجا رکھا ہے۔یاس نصرت نے اپنا ہاتھ سفینہ کی طرف بڑھایا تو اس نے شوہر کاہاتھ آگےبڑھا ہوا دیکھتے ہی  یہ کہہ کرجھٹک دیا کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ہتھوڑوں جیسے ہاتھ ایک پری کے ہاتھوں پر ضرب لگاکرمہندی کی رعنائی  کو زائل نہ کردیں۔یاس نصرت  جن باتوں کو پہلے دیکھ رہا تھا آج سوچنے پر مجبور تھا مگر یہ سوچ کر سو گیاکہ اپنی مچھلی کو اپنی سیخ پرآخرسجنا ہے چاہے سات سمندر بلو لے۔

سوموار کی صبح سفینہ نے سرخ جوڑا زیب تن کیا ،جو سفینہ  کےجسم کے نشیب وفراز کو یوں عیاں کررہا تھا کہ جیسےجسم کے ہر اعضا کا علیحدہ سے ناپ لے کرجوڑا سلائی کیا گیا  ہے،سفینہ کی قدوقامت پہلے ہی  پرکشش تھی مگر اس قدر جسم پر کھباہوا لباس پہننے کے بعد سفینہ کی نسوانیت نے بھی اپنے حسن کے چراغ روشن کردیے تھے۔سرخ وسفید چہرے پرغازے کا لیپ تاج محل میں لگے فانوس کانظارا پیش کررہا تھا۔باریک رسیلے ہونٹوں پر سرخی اورجامنی ہلکے بارڈر نےہونٹوں کوفرصت میں بنائے گئے قدرت کے کسی کرشمے کاروپ دےدیا ۔ہاف بازو سرخ فراک جس میں سے سفینہ کےگول مٹول سفید بازو نورنگری میں سے پھوٹنے والے چاندی کے چشمے کی خبردے رہے تھے، بائیں چشمے پرگھڑی  کی صورت میں ایک دربان بٹھادیا ۔بادلا کا دوپٹہ اوڑھےاونچی ہیل والی جوتی پہنے سفینہ جب سکول پہنچی تو بازار مصر میں یوسف دکھائی دے رہی تھی۔چند دن پہلے جن ٹیچرز نے اپنی محبت کو شفت کے درجے تک پہنچادیا تھا آج وہی باتیں کررہی تھیں‘‘ہم نے نہ صرف راکھ میں سے جوالا مکھی تلاش کیا بلکہ ہوادے کرایسا بھڑکایاکہ اب الاؤ بن چکا ہے اور اب ہم سب اس الاؤ میں سوکھی لکڑیوں کی طرح جلیں گی اور روشن وہ ہوتی رہے گی’’۔دو ماہ سے  پرنسپل  صاحب کے لیےپانی اورچائے کا اہتمام مہین نامی ٹیچر کررہی تھی  یہ وہی خیرخواہ تھی جس نے سفینہ کو آیاجی کی نوکری دلوائی تھی۔وہ جانتی تھی اس کے لباس اور ہاتھوں کی میل کچیل کی وجہ سے پرنسپل صاحب اس کے ہاتھ سے پانی نہیں پئیں گے اور اس کی نوکری بھی جاتی رہے گی۔آج مہین کے لیے بھی اچھا موقع تھا کہ پرنسپل  صاحب کے سامنے  سفینہ کو بھیج کراس کی نوکری  یقینی  اورمستقل بنائی جائے۔سفینہ  نے خود کو میگنس کارلسن،چائے کو  بساط اور پرنسپل صاحب کو مہرہ جان کرپرنسپل آفس کا رخ کیا۔سفینہ کے دل میں نہ جانے یہ خیال کیسے آیا  کہ سولہ میں سے پندرہ مہرے اپنے پاس رکھ کرپرنسپل صاحب کو صرف ایک مہرہ دے کرمقید کرکےاپنی فتح درج کی جائے۔

 جونہی سفینہ چائے کے برتن لے کرآفس سے باہر نکلی تو پرنسپل صاحب کی کشتی سوچوں کے گرداب میں ایسی پھنسی کہ ملاح بےبس ہوکر سمندر میں غوطہ زن ہونے کا فیصلہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔پرنسپل ایک زمانہ ساز،شاطر،ہیروں کا تاجر اور وجیہ  شخصیت کا مالک تھا اس لیے انمول ہیرے کو پہچاننے میں اس نے بھی دیر  نہیں لگائی۔پرنسپل صاحب سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اس ہیرے کونہ صرف اپنی دکان کی الماری میں محفوظ کیاجائے بلکہ اس کو اپنے جسم پرسجاکرخود کو محظوظ بھی کیا جائے۔پرنسپل صاحب اپنی کرسی پرنیم دراز ہوتے ہوئے‘‘یہ کوئی زمینی مکھڑا تھا یا پھر کوئی خلائی مخلوق،میں توابھی اس کے چہرے  کو چاند سمجھ کراس کی رعنائی سے محظوظ ہورہا تھا مگر جونہی نظر ذرا سی نیچے کی اورسرکی تو اس کی نسائیت  کے نیل نے مجھے فرعون سمجھ کراپنا ابدی مہمان بنالیا۔ گریبان سے نسائیت یوں جھانک رہی تھی جیسےرہائی کا منتظر قیدی زندان سے باہر آنے کےلیےمضطرب  ہو۔کپ میں اتنی حرارت نہیں تھی جتنی اس کی انگلیوں کے لمس میں تھی میرے جسم کا بال بال جل اٹھا۔اس کا ہاتھ ایک بار اور مجھے چھوتا تو میرے جذبات شاید سیال مادے کی صورت بہنے لگتے۔میں اسے اپنی نائب بناکرمشورے کے بہانے سارا دن اس سے باتیں کیاکروں! مگر وہ تو صرف پانچ جماعتیں پاس ہے،ایسا کرنے سے تو میں مجنوں قرار پاؤں گا اور شیدائی بن کر رہ جاؤں گا اور ان ٹیچرزکے سامنے نظریں بھی نہیں اٹھا پاؤں گا۔مجھے کچھ ایسا حربہ اختیار کرنا چاہیے کہ مٹی مٹی کے درجے پررہ کرسونے کاروپ دھارے اوربھٹی میں رہے مگر کندن نہ بن پائے۔اس کی نسائیت تو آوازکے ذریعے سے دلربائی پھیلارہی تھی مگر میں  نے پھوار کے سامنے ہاتھ نہ کرکے اچھا کیا کیونکہ یہاں بند باندھنا مشکل ہوجانا تھا اور ویسے بھی وہ تو خوان یغم ہے یہاں  سے شکم سیری یقینی ہے’’۔پرنسپل صاحب سفینہ کے حسن کی بہتی ندی اور ابلتی آبشاروں کے سامنے  زیادہ دیر مزاحم نہیں رہ سکے اور جلد ہی سفینہ کو آیا جی سے پرائمری ٹیچرکا نا م دےکردل کےسنگھاسن پرجابٹھایا۔

ویکنڈ پر آخری لیکچر کو میٹنگ میں تبدیل کردیا گیا اور تمام ٹیچرز کے سامنے پرنسپل صاحب نے  معصوم لفظوں میں  سفینہ کی

قابلیت  کودیکھتے ہوئےاسے تدریس کی ذمہ داری سونپنے کا اعتراف  یوں کیا‘‘بطور آیا جی اس سکول میں آنے والی سفینہ نے دو ماہ میں ہی خود  کواس اہل ثابت کیاکہ ہم ان کی قدر کرنے پرمجبورہوگئے۔آپ سب لوگ جانتے ہیں ہماری  روایت ہے کہ ہم اہل بندے کو اس کے مقام سے ضرور نوازتے ہیں اور اس کی صلاحیتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔میری تو ان سے بمشکل دو تین ملاقاتیں ہی ہوئی ہیں آپ سب لوگوں نے سفینہ کی جتنی تعریفیں کی ہیں ان سب کا لحاظ کرتے ہوئے سفینہ کو بطور پرائمری ٹیچر  تعینات کیاجاتا ہے۔سفینہ کو آیا جی سے باشعور اور باصلاحیت ٹیچر کے مرتبے پر پہنچانے پر آپ سب لوگوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں،سفینہ کی کامیابی کا سہرا سفینہ سے زیادہ آپ لوگوں کےسر ہے۔’’میٹنگ کے برخاست ہونے پر  ،پرنسپل صاحب  نے کہا‘‘سفینہ  اگر آپ کو تاخیر نہ ہورہی ہوتو آج آخری باربرتن دھوتی جائیں اور کل سے ہم آیا جی کا بندوبست کرلیں گے’’۔گیٹ سے باہر نکلتے ہی سب ٹیچرز ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہورہی تھیں کہ  کس ناہنجار نے سفینہ کی اتنی تعریفیں کیں کہ بچوں کا مستقبل داؤ پرلگادیا اورصاحب بااختیار کاحال  بنادیا۔

سفینہ برتن دھونے سے زیادہ خود کو دیکھ رہی تھی اورسازش کی کامیابی پرزیر لب مسکرارہی تھی۔دوسری جانب کاحال بھی کچھ مختلف  نہیں تھا  بلکہ صیاد  ،صید کے خود دام میں آنے پر مسرورتھا۔صیاد اپنا دام بچھا کربیٹھا ہوا تھاکہ صیدخود آئے اور دانہ طلب کرے اور دوسری طرف صید اس بات کا منتظر تھا کہ کب طلب کرکے دام میں قید کیاجائے ۔یہ بھی دنیا کا عجب شکارتھا کہ صیاد شکار کے لیے صید کا منتظر ہے اور صید شکار ہونے کے لیے صیاد کے اشارے کا منتظر ہے۔پرنسپل صاحب کو جب اس بات کا یقن ہوگیا کہ  سب ٹیچرز جاچکی ہیں اور سفینہ اکیلی رہ گئی ہے تو انھوں  نے  کال بیل دی۔سفینہ اپنا آنچل سنبھالتے ہوئے روح کی آوازاور چہرے کے تاثرات کوچھپاتے ہوئے آفس کےدروازے  کوذراکھولتے ہوئے اندر جھانکتی ہے۔‘‘جی سفینہ اندر آئیے،بیٹھیے یہ آپ کا اپنا آفس ہے اس لیے یہاں آتے ہوئے آپ کو کسی ہچکچاہٹ کاشکارہونے کی ضرورت نہیں اور ویسے بھی میں تمھارے لیے پرنسپل نہیں بلکہ ‘تم’ کے درجے پر آموجود ہوا ہوں’’۔سفینہ بھی اسی سمندر کی راہی تھی اس نے  ناک تھام کرڈبکیاں لگانے کی بجائے تیرنے کا فیصلہ کیا‘‘جی میں پرسوں ہی سمجھ گئی تھی جب آپ نے میرا ہاتھ پکڑا تھا مگر  تب مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ آپ کے بازوؤں کی حمائل میں خود کو محصور کرپاتی خیر اب تو میں نے اتنا حوصلہ مجتمع کرلیا ہے کہ جسم کو سیراب کیاجاسکے’’۔آدھے گھنٹے بعد جب دونوں آفس سے باہر نکلے تو دونوں کے جسم دریا کے ٹھہرے ہوئے پانی کی  موجوں  کی طرح پرسکون تھیں مگرغیر ذی روح ہر جسم صدا لگا رہا تھا کہ جب چور کے گھر کا چراغ روشن ہوتا ہے تو ضمیر کابجھ جاتا ہے۔

سفینہ نے پھر ایسی پروان بھری کہ ان کا شوہر یاس نصرت اور ان کا بیٹا نعمان حشرات الارض بن کر رہ گئے۔سفینہ نے گھر کھانا بنانا بھی ترک کردیا تھا ویسے اب  تو اسے ہفتے میں ایک آدھ بار ہی گھر بیٹھ کرکھانے کا وقت ملتا تھا۔اب تو کبھی ان کےمنال کی پہاڑیوں پر ڈنر ہورہے ہیں،کبھی بہارہ کوہ کے ریستوران کے منتظر ہیں ۔کبھی پہاڑی علاقوں میں جاکر نفس کی پوجا کے بعد باربی کیو  سے  محظوظ ہورہے ہیں۔

اتوار کی شام  سفینہ دیر سے گھر لوٹی تو اس کے  شوہر نے پوچھا ‘‘آج تو چھٹی تھی تم کہاں سے لوٹ رہی ہو؟’’اس نے بڑی بےرخی سے جواب دیا کہ اگر یقین نہیں تو میں جاب چھوڑدیتی ہوں پھر تم بھی خوش ہوجانا۔یاس نصرت ایک لمحہ کے لیے چپ رہا پھر بولا سوال میرا صرف یہ تھاکہ‘‘چھٹی کےد ن اتنی دیر سے کہاں تھی؟’’سفینہ کے ہاتھ میں کھانے والی پلیٹ تھی جو اس نےزمین پرپٹکاتے ہوئے‘‘میں ہر بات کی تفصیل پیش کرنا اپنے اعتباراوراعتماد کی توہین سمجھتی ہوں اور میں آپ کی نوکرانی نہیں ہوں جو آپ کوایک ایک بات پروضاحتیں پیش کروں ،ہاں ذہن میں رکھنا آخری دفعہ بتا رہی ہوں،مہین کے ساتھ بازارگئی تھی’’۔یاس نصرت نے اس بات کو دبانے کے لیے خاموش اختیارکرلی مگر ذہن  دوگھنٹے پہلے کے اس نظارے کی تصویر پیش کرنے لگا جب مہین اپنے گھر کے سامنے سبزی والے سے سبزی خرید رہی تھی۔ایک طرف سفینہ کے لہجے کی تلخی اوردوسری طرف مہین کااپنے گھر موجود ہونا یاس نصرت کوتوڑ کرپارہ پارہ کرگیا۔یاس نصرت صبرکاجام پی کرنعمان سے بات چیت کرنے لگا۔سفینہ نے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا لباس پہنا جس نےجسم کونیم برہنہ کردیا تھا۔یاس نصرت کی حیرت انتہاؤں کوچھو رہی تھی ‘‘ یہ کیا ہے اور تم نے کہاں سے لیا ہے؟’’سفینے نے ایک بار پھر اپنی خجالت کوچھپانے کے لیے تلخی کاسہارالیا‘‘اسے نائٹی کہتے ہیں تم لوگ تو ساری زندگی جنگلوں میں رہے ہو تمھیں دن اور رات کے لباس کی کیا تمیز’’۔یاس نصرت یہ وار سہہ کربھی حسب روایت رہا اور نعمان کے سونے کا انتظارکرنے لگا۔ان جاں گسل اور متشدد لمحات کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے یاس نصرت نے سوچاپھلوں سےرس کشید کرتے ہیں جس  سےطبیعت بھی تروتازہ ہوجائے گی اور اس کا بھی غصہ ٹھنڈاہوجائے گی۔سفینہ کے ڈھیلے ڈھالے لباس نے  یاس نصرت کو پہلے  ہی بسمل حالت میں لاکھڑا کیاتھا،نعمان کے سوتے ہی یاس نصرت کے صبر کے بندن  ایک ساتھ سب تڑک کرکے ٹوٹ گئے،سفینہ نیم برہنہ چارپائی پر دراز یوں لگ رہی تھی جیسے بادہ گل کی ندی بہہ رہی ہو۔یاس نصرت نے سفینہ کے قریب ہوکر نائٹی کو چھوا تو اس کا آخری بند بھی کھل گیا اورسفینہ پارے کی طرح ہاتھوں سے پھسل کر پھیل گئی۔ یاس نصرت  کی سات برسوں میں آج پہلی بار رس کشید کرنے کی بجائے پھل کوہڑپ کرنے کے لیےرال ٹپک رہی تھی۔یاس نصرت نے وفور شوق سے باہر ہوتے ہوئے پہلا گھونٹ لینے کےلیے لبوں کو جام پر پیوست کیا توسفینہ جاگتے  ہی شیرنی کی طرح  چھلانگ لگا کرچارپائی سے نیچے جاکھڑی ہوئی‘‘تمھیں شرم نہیں آتی میرا جسم یوں برہنہ کرتے ہوئےاگر نعمان جاگ گیا تو وہ کیا سوچےگا؟ حد ہوتی ہے! تمھیں میں نے کچھ دن پہلے بھی سمجھایا تھا کہ جس دن میرا موڈ ہوا میں خود بتادوں گی ایسے روزانہ مجھے اذیت پہچانے سے تمھیں سوائے غصے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔تم جانتے ہوکہ دن کو بھی یہی کام اور رات کو بھی یہی کام کیا میں انسان نہیں ہوں!!!’’۔ اس بات نے  یاس نصرت کو خزاں رسیدہ درخت کی طرح وفور شہوت کے شوق سے خالی کردیا اور چارپائی پر لابٹھایا۔سفینہ نے اپنی نائٹی ٹائٹ کرکے باندھی اور اور لائٹ آٖف کرکے لیٹ گئی۔ایک مہینے کے شک نے آج یاس نصرت کویقین  کی وادی میں لاکھڑا کیا تھا۔یاس نصرت گردن جھکائے سوچنے لگا‘‘یار دن بھر ‘یہی کام’ اس کا مطلب ہے یہ جو آج دوپہر سے گھر سے غائب تھی تو جسمانی افعال میں ملوث  تھی’’۔یاس نصرت  ہمت مجمتع کرتے ہوئے اور ناچاہتے ہوئے بھی پوچھنے لگا‘‘دن بھر یہی کام سے کیا مراد ہے؟کیا تم کسی اور کے ساتھ بد فعلی میں ملوث ہو جو مجھے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیتی؟’’ اس سوال نے سفینہ کے تن بد ن کو نار میں بدل دیا،سفینہ سٹپٹا کررہ گئی اور اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ  کی حقیقت اور ندامت کوچھپانے کے لیے سیخ پا ہوکر بولی‘‘تمھیں شرم آنی چاہیے مجھ پر ایسا الزام  دھرتے ہوئے،کیامیں کوئی طوائفہ ہوں؟ جو ایسے کام کروں گی؟ میرا مطلب تھا کہ دن بھر سکول میں کام کاج سے بندہ تھک ہار کر واپس آتا ہے’’۔‘‘مگر آج تو چھٹی تھی پھر سکول کا کیسا کام؟’’۔‘‘تم جاہل  کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں، میرا مطلب تھا آج میں پرنسپل صاحب کے گھر گئی ہوئی تھی،ان کی بیوی نہیں تھی سو ا ن کے گھر پر کھانا تیار کیا اور ان کے کچھ کپڑےدھوئے’’۔یاس نصرت  اپنے  شک پر مبنی سوالوں کی گٹھڑی کو سمیٹ کریقین کی الماری میں رکھتے ہوئے‘‘اچھا ٹھیک ہے سوجاؤ مجھے اسی وقت شک ہوگیاتھا جب تم نے  مجھے تنخواہ پانچ ہزار بتائی تھی اور  مہینہ بھر میں کوئی بیس ہزار کی شاپنگ کی  اور کئی بار باہر جاکر مہنگے ترین ہوٹلوں میں کھانا کھایا تھا’’۔سفینہ بھڑ بھڑ کرتے سوگئی اور یاس نصرت سگریٹ سلگا کر صبح کاذب کےصبح صادق میں بدلنے کاانتظار کرنے لگا۔تین چار سگریٹ پھونکنے کے بعد یاس نصرت وہاں سے اٹھ کر چارپائی پر دراز ہوتے ہی نیند کی وادی میں جاپہنچا۔

سفینہ نے دن بھر کی تھکاوٹ   کی وجہ سے سوموار کی صبح دس بجے تک نیند کی اور پھر اٹھ کرحسب معمول  بلکہ معمول سے کچھ کم  ہی تیاری کی اور سکول جاپہنچی۔اکثر ٹیچرز کے ساتھ سفینہ کا رویہ کچھ معمول سے قدرے مختلف تھا اور ایک بچے کو تو اخلاقیات کے برعکس  بےنقط سناڈالیں۔سفینہ کی  کلاس صدر دروازے   سے اندر کی طرف کے دالان میں دائیں طرف دوسرے کمرے میں تھی،کلاس کے دروزے کے سامنے سفینہ بیٹھی ہوئی تھی جہاں سے باہرے  آتے جاتے لوگ آسانی سے دیکھے جاسکتے تھے۔کلاس ختم  ہونےمیں ابھی دس منٹ باقی تھے کہ پرنسپل صاحب  سامنے سے گزر کر اپنے آفس میں جاموجود ہوئے۔پتنگ کی ڈور کے پیچھے بھاگتے ہوئے بچے کی طرح سفینہ پرنسپل صاحب کے تعاقب میں تھی۔ایک دو  ٹیچرز نے دیکھا مگر معمول کا کھیل سمجھ کرنظریں پھیر لیں۔سفینہ دروازے کو مقفل کرتے ہوئے پرنسپل  صاحب کے سامنےکھڑے ہوکر  ٹارگٹ سیٹ کرنے لگتی ہے:‘‘میں نے پچھے تین چار ہفتوں  سے تمھاری ہر بات مانی ہے  اور تمھارے حکم کے مطابق  ایک مدت سے اُسے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیا ۔پہلے تو عام دنوں کی بات تھی معاملہ چلتا رہا مگر کل اتوار کو آپ کی طرف آنا اس کے شک کو یقین میں بدل گیا،مجھے اُس کا کوئی ڈر تو نہیں اور میں تمھاری خواہش کے مطابق اسے چھوڑنے کے لیے بھی تیار ہوں مگر اس کے لیے ایک سٹیج تمھیں   سیٹ کرناہوگا’’۔پرنسپل صاحب تو اس بادہ گلگوں کے  پکے مریض بن چکے تھے اس لیے ہر جام کے ایک ایک گھونٹ کی قیمت چکانے کے لیے تیار تھے۔‘‘تمھارے لیے میں سب کرگزرنے کو تیار ہوں تم حکم تو کرو’’۔‘‘میں آج کے بعد یہاں پڑھانے کے لیے نہیں آؤں گی’’۔‘‘اوہو تم ڈر گئی ہو؟’’۔‘‘تم بھی کتنے سادہ ہو،تمھیں کیا لگتا ہے اس بیسط آدمی کے لیے میں تمھیں  چھوڑ دوں گی!،ایسا ہرگز  نہیں ہونے والا بس بات یہ ہے کہ سماج والے جینا دوبھر کردیں گے کہ اِس نے سکول والے پرنسپل کے لیے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا ۔اس لیے یہاں ایک گیم کھیلنے کی ضرورت ہے’’۔‘‘وہ کیا؟؟’’‘‘تم مجھے ایک بلڈنگ کرائے پر لے کردو،وہاں ٹیوشن سینٹربنا ئیں گے،ایک کمرے کو میں مہمان خانے کے طور پر استعمال کروں گی تم وہاں اپنی گیم کھیلنا اور شوہر نامراد اگر تھوڑی سی بھی غیرت رکھتے ہوئےتو خود ہی کنارہ کش ہوجائیں گے’’۔‘‘یہ تو اور بھی اچھا آپشن ہے کیونکہ یہاں ٹیچرز کی نظروں میں گرتا جارہا ہوں اور  بیگم تک بھی افواہیں پہنچنا شروع ہوگئی ہیں باقی دس بیس لاکھ کی کوئی بات نہیں تم کوئی بلڈنگ منتخب کرو بچے یہاں سے بھیج دوں گا اور پیسے کی موجودگی میں ٹیچرز موسمی سبزی کی طرح وافر میسرآجاتی ہیں’’۔

یاس نصرت  نے اٹھ کر منہ دھویا اور چائے بناکربسکٹ پلیٹ میں سجائے اور نعمان کو گلی سے آواز دے کربلایا ، باپ بیٹا ناشتہ کرنے لگے۔پہلا گھونٹ لیتے ہی یاس نصرت ماضی کی رعنائیوں اور حال  کے دھندلکوں میں  بےسروپا گھومتا ہوا نظر آیا‘‘میں نے دن رات محنت کرکے اسے حاصل کیا اور اس کی خوشی کے لیے اپنا گاؤں،بہن بھائی اورپرسکون زندگی کوچھوڑ کریہاں کرائے کے مکان میں آبسا۔اپنےسرپر اُدھار کابوجھ لاد  کر اس کے پاؤں کے نیچے گاڑی دی۔میں نے شب وروز کی تمیز سے مستغنی ہوکر چار سالوں میں گاڑی کا بقیہ قرض چکتا کیالیکن اس دوران ایک بار بھی اسے کسی تنگی کا سامنا نہیں کرنے دیا اور اپنی اوقات کے مطابق ہر ممکنہ آسائش مہیا کی مگر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اوقات تو بےجان اشیا اور جانوروں کی ہوتی ہے انسان تو کسی وقت بھی اوقات بھلا بیٹھتا ہے سو اس کو اوقات میں رکھنا یا اس کی اوقات کااندازہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے۔اب دیکھیں میرے جیسا بےبس انسان بھی کوئی ہوگا جو اپنی کھیتی میں حل چلانے کا مجاز نہیں۔میں کیسا اس کھیتی کا مالک ہوں جس پر نام میرا لکھا ہوا ہے مگر ملکیت کسی اور کی ہے۔میں نے بھی انگوروں کے کھیت کو اپنی ملکیت بنایا تھا جو کچےہوں تو لومڑیوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور پکتے ہی خود چل کرامیروں کے گلاسوں میں پہنچ کران کے خمار کا اہتمام کرتے ہیں’’۔باپ بیٹا ناشتہ کرکے برتن دھو کرفارغ ہوئے تھے کہ اتنی دیر میں سفینہ واپس آجاتی  ہے۔نعمان‘‘امی آج آپ کو جلدی چھٹی ہوگئی ہے’’۔سفینہ نے کوئی بھی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور کپڑے تبدیل کرکے فریش ہوکر باہر سے لائی  ہوئی بریانی کھانے لگی۔سفینہ نے باپ بیٹے کو باہر نکلتے دیکھا تو   اپنا فیصلہ سنانے کے انداز میں بولی‘‘میں اپنے محلے میں کوئی اچھی سی بلڈنگ دیکھ کرٹیوشن سینٹربنانے جارہی ہوں اورتم دونوں وہاں میرے ساتھ رہنا چاہو تو مجھے پریشان کیے بغیر ساتھ رہ سکتے ہو ،نہیں تو تمھارے یہاں رہنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں’’۔یاس نصرت نے واپس کمرے میں آکر اپنے اور نعمان کے کپڑے شاپر میں ڈالے اور باہر نکلتے ہوئے‘‘ہمارے اعتراضات اور حقوق تو تم بہت پہلے سے پسِ پشت ڈال چکی ہو بس فیصلہ سنانا باقی تھا جو آج تم نےسنادیا۔دریا کے دونوں پشتے برابر پر ہونے کے باوجود بھی  کبھی آپس میں نہیں مل پاتے کیونکہ ان کے درمیان پانی حائل ہوتا ہے۔اب تم جانو اور پانی جانے ہم اپنے نصیب کاخود فیصلہ کریں گے’’۔

واہ! مخبر تم نےتو  یار پوری کہانی فلم کی صورت میں دکھا ڈالی۔اب مجھے احساس ہوا کہ ترقی تعلیم سے نہیں بلکہ زرسے ہوتی ہے اور زر ہربارتبادلے سے حاصل ہوتا ہے کبھی جسم کے تبادلے سےکبھی خون کے تبادلے سےاور تعلیم اصول بناتی نہیں بلکہ محض اصولوں کے مطابق چلتی ہے۔مخبر!سفینہ کو جھونپڑے سے ٹیوشن سینٹر کی بلڈنگ تک پہنچنے کے لیے رشتوں کی قربانی اور جسموں کا تبادلہ کرنا پڑا!!!

Leave a Reply